انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت ، تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان
خطبہ جمعہ 7؍ نومبر 2003ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدوتعوذکے بعددرج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی
{مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ}(البقرہ : ۲۶۲)
آج حسب روایت اور دستورتحریک جدیدکے نئے سال کا اعلان ہونا ہے۔ لیکن اس سے پہلے چند باتیں عرض کروں گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کو مختلف طریقوں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلاتاہے اور اس کے طریقے بھی بتاتا ہے۔ کہیں فرماتاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہترہے۔ کہیں فرمارہاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ روک کر کہیں اپنے اوپر ہلاکت وارد نہ کرلینا۔ کبھی فرماتاہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تم ذاتی طورپر بھی تباہی سے محفوظ رہوگے اور اگر قوم میں قربانی کا جذبہ ہے اور قوم قربانی کر رہی ہے توقوم بحیثیت مجموعی بھی مجھ سے تباہی سے بچنے کی ضمانت لے۔ پھر فرمایاہے کہ اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو تاکہ اس میں اور برکت پڑے۔ چھپا کر بھی خرچ کرو اور اعلانیہ بھی خرچ کرو۔ غریبوں کا بھی خیال رکھو، ان کی ضرورتیں بھی پوری کرو اور زکوٰۃ کی طرف بھی توجہ دوتاکہ قومی ضرورتیں بھی پوری ہوں اور غریبوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوں۔ اور جب تم خرچ کررہے ہو تو یاد رکھو کہ تم اپنے فائدے کا سوداکر رہے ہو اس لئے کبھی دل میں احسان جتانے کا خیال بھی نہ لاؤ۔ اورجب فائدے کا سودا کررہے ہو تو پھر عقل تو یہی کہتی ہے کہ بہتر ین حصہ جو ہے وہ سودے میں استعمال کیا جاتاہے تاکہ فائدہ بھی بہترین شکل میں ہو۔ تو اس سے مال میں جواضافہ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے تمہیں اس نیکی کا ثواب بھی ملناہے۔ اوراس لئے محبوب چیزوں میں سے خرچ کرو، جو تمہاری پسندیدہ چیزیں ہیں ان میں سے خرچ کرو، جو بہترین مال ہے اس میں سے خرچ کرو۔ اور جتنی کمزوری کی حالت میں یعنی وسعت کی کمی کی حالت میں خرچ کروگے اتناہی ثواب بھی زیادہ ہوگا۔ توفرمایا کہ بہرحال اللہ تعالیٰ تو ہراس شخص کو اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نوازتاہے اور نوازتا رہے گا جو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی راہ میں قربانی دیتے ہیں۔ اور ہر شخص اپنی ایمانی حالت کے مطابق خرچ کرتاہے۔ ہرکوئی اپنے مرتبے اور توکل کے مطابق خرچ کرتاہے اور اس لحاظ سے انبیاء کا ہاتھ سب سے کھُلا ہوتاہے اور انبیاء میں بھی سب سے زیادہ ہمارے نبی اکرمﷺ کا ہاتھ سب سے زیاہ کھلا تھا۔ تبھی تو آپ ؐ نے ایک موقع پر فرمایاکہ میرا دل چاہتاہے کہ احد پہاڑ جتنا سونا میرے پاس ہو تو وہ بھی مَیں تقسیم کردوں۔ انبیاء کے بعد درجہ بدرجہ ہر کوئی اس نیک کام میں حصہ لیتاہے، اس کا اس کو ثواب بھی ملتاہے اور اس کے مطابق وہ خرچ بھی کرتاہے۔ ایک موقع پرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال آیا کہ آج میرے گھرمیں کافی مال ہے مَیں جا کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کروں اور آدھا مال لے کر حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دل میں خیال کیا کہ آج تو حضرت ابوبکر ؓ سے بڑھنے کے قوی امکانات ہیں، ان سے زیادہ قربانی پیش کروں گا۔ لیکن تھوڑی دیربعد حضرت ابوبکر ؓ اپنا مال لے کر آئے تو آنحضرتﷺ نے پوچھاکہ گھرمیں کیا چھوڑ آئے ہو ؟ تو عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول !۔ اس پر حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا اپنے آپ سے کہ تم کبھی ابوبکرؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بہرحال میں یہ عرض کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس کی راہ میں خرچ کرنے کے مختلف ذرائع سے ترغیب دلاتاہے اور یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اُگاتا ہو۔ ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے (اس سے بھی) بہت بڑھا کر دیتا ہے۔ اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں لوگوں کی مثال دے رہاہے لیکن اس سے مراد مومن ہیں۔ ایسے ایمان لانے والے جو اللہ کے دین کی خاطر خرچ کرتے ہیں اور دین کامل اب اسلام ہی ہے جیسے کہ ہم سب کو معلوم ہی ہے۔ اور اس زمانے میں آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہی حقیقت میں مومنین کی جماعت کہلانے کی حقدار ہے اور یہی مومنین کی جماعت ہے۔ اور اس لحاظ سے فی زمانہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے لوگوں سے مراد آپ لوگ ہی ہیں جو اس زمانے کے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے بہترین مال خوشدلی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ ایسے نیک نیت لوگوں کو خوشخبری دیتاہے کہ اے لوگو !تم جو میری راہ میں خرچ کرتے ہو مَیں تمہیں بغیر اجر کے نہیں چھوڑوں گا۔ بلکہ طاقت رکھتاہوں کہ تمہاری اس قربانی کو سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ کر سکتاہوں۔ اور یاد رکھو کہ جیسے جیسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے اپنا دل کھولتے جاؤ گے اللہ تعالیٰ تمہیں وسعت بھی دیتاچلا جائے گا۔ تم اس دنیا میں بھی اس کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے اور یہ اجر صرف یہیں ٹھہر نہیں جائے گا بلکہ اگلے جہان میں بھی اجر پاؤگے۔ اور پھر تمہار ی نسلوں کوبھی اس کا اجرملتارہے گا۔ اب دیکھیں ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی کشائش، مالی وسعت ان کے بزرگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں ہے۔ یہ احساس ہمیں اپنے اندر ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے، اجاگر کرتے رہنا چاہئے اور اس لحاظ سے بھی بزرگوں کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں اور آئندہ نسلوں کو بھی یہ احساس دلانا چاہئے کہ بزرگوں کی قربانی کے نتیجہ میں ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ نے بہت سارے فضل فرمائے ہیں۔ حضرت امام رازی ؔاس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’{مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ}کہتے ہیں کہ آیت{ مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًاحَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً}میں اللہ تعالیٰ نے مال کو بڑھا چڑھا کر واپس کرنے کاوعدہ فرمایاہے۔ اور اس آیت میں اس بڑھا چڑھا کردینے کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان دونوں آیات کے درمیان اللہ تعالیٰ نے زندہ کرنے اور مارنے کی اپنی قدرت پر دلائل دئے ہیں۔ اگر یہ قدرت خداوندی نہ ہوتی تو خرچ کرنے کا حکم مستحکم نہ ہوتا۔ کیونکہ اگر جزاء سزادینے والا کوئی وجود نہ ہوتا توخرچ کرنا فضول ٹھہرتا۔ دوسرے لفظوں میں گویاا اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے کو یہ کہتاہے کہ تو جانتاہے کہ مَیں نے تجھے پیدا کیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کیا اور تو میرے اجر اور ثواب دینے کی طاقت سے واقف ہے پس چاہئے کہ تیرا یہ علم تجھے مال خرچ کرنے کی ترغیب دے کیونکہ وہی یعنی خدا تھوڑے کابہت زیادہ بدلہ دیتاہے۔ اور یہاں اس بہت زیادہ کی مثال بیان کی ہے کہ جو ایک دانہ بوتا ہے مَیں اس کے لئے سات بالیاں نکالتاہوں اور ہر بالی میں سو (۱۰۰)دانے ہوتے ہیں تو گویا ایک سے سات سَو دانے ہو جاتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ{یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ}کہ وہ خدا کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں میں {سَبِیْلِ اللّٰہ}سے مراد’’دین ‘‘ہے کہ خدا کے دین میں خرچ کرتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ :
’’اگر تم دینی کاموں کے لئے اپنے اموال خرچ کرو گے تو جس طرح ایک دانہ سے اللہ تعالیٰ سات سو دانے پیدا کردیتاہے اسی طرح وہ تمہارے اموال کو بھی بڑھائے گا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ترقی عطا فرمائے گا۔ جس کی طرف { وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ }میں اشارہ ہے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے بے شک بڑی قربانیاں کی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کا پہلا خلیفہ بنا کر انہیں جس عظیم الشان انعام سے نوازا اُس کے مقابلہ میں اُن کی قربانیاں بھلا کیا حیثیت رکھتی تھیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓ نے بہت کچھ دیا مگر انہوں نے کتنا بڑا انعام پایا۔ حضرت عثمان ؓ نے بھی جو کچھ خرچ کیا اُس سے لاکھوں گُنازیادہ انہوں نے اسی دنیا میں پالیا۔ اسی طرح ہم فرداً فرداً صحابہ ؓ کا حال دیکھتے ہیں۔ تو وہاں بھی خداتعالیٰ کا یہی سلوک نظر آتاہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو ہی دیکھ لو۔ لکھتے ہیں کہ’’ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے پاس تین کروڑ روپیہ جمع تھا۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی میں وہ لاکھوں روپیہ خرچ کرتے رہے۔ اسی طرح صحابہ ؓ نے اپنے وطن کوچھوڑا تو ان کو بہتر وطن ملے۔ بہن بھائی چھوڑے تواُن کو بہتر بہن بھائی ملے۔ اپنے ماں باپ کو چھوڑا۔ تو ماں باپ سے بہتر محبت کرنے والے رسول کریمﷺ مل گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والا کبھی بھی جزائے نیک سے محروم نہیں رہا۔ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۶۰۴)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارہ میں مزید لکھتے ہیں :
’’{وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْم}کہہ کر بتایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انعام دینے میں بخل تو تب ہو جبکہ خداتعالیٰ کے ہاں کسی چیز کی کمی ہو۔ مگر وہ توبڑی وسعت والا اور بڑ ی فراخی والا ہے اور پھر وہ علیم بھی ہے۔ جانتاہے کہ وہ شخص کس قدرانعام کا مستحق ہے۔ اگر کوئی شخص کروڑوں گناانعام کابھی مستحق ہو۔ تو اللہ تعالیٰ اسے یہ انعام دینے کی قدرت رکھتاہے۔ دنیا میں ہم روزانہ یہ نظارہ دیکھتے ہیں کہ زمیندار زمین میں ایک دانہ ڈالتاہے تو اللہ تعالیٰ اُسے سات سو گنا بنا کرواپس دیتاہے۔ پھرجو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرے گا کیسے ممکن ہے کہ اس کا خرچ کیا ہوا مال ضائع ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کاکم از کم سات سو گنابدلہ ضرور ملتاہے۔ اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں۔ اگر انتہائی حدمقرر کردی جاتی تو اللہ تعالیٰ کی ذات کومحدود ماننا پڑتا۔ جو خداتعالیٰ میں ایک نقص ہوتا۔ اسی لئے فرمایا کہ تم خدا کی راہ میں ایک دانہ خرچ کرو گے تو کم ازکم سات سو گنا بدلہ ملے گا۔ اور زیادہ کی کوئی انتہا نہیں اور نہ اُس کے انواع کی کوئی انتہا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو انجیل میں صرف اتنا فرمایا تھاکہ ’’اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتاہے نہ زنگ اور نہ وہاں چورنقب لگاتے اور چراتے ہیں ‘‘۔ (متی باب ۶ آیت ۲۰)
لیکن قرآن کریم کہتاہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے خزانے میں اپنامال جمع کروگے تو یہی نہیں کہ اسے کوئی چُرا ئے گا نہیں بلکہ تمہیں کم از کم ایک کے بدلہ میں سات سو انعام ملیں گے۔ اور اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں۔ پھر مسیحؑ کہتے ہیں وہاں غلّہ کوکوئی کیڑا نہیں کھا سکتا۔ مگر قرآن کریم کہتاہے کہ وہ صرف کیڑے سے ہی محفوظ نہیں رہتابلکہ ایک سے سات سو گنا ہو کر واپس ملتاہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کسی انسان کی مدد کا محتاج نہیں مگر وہ اپنے بندوں پررحم کرتے ہوئے اگر کسی کام کے کرنے کا انہیں موقع دیتاہے تو اس لئے کہ وہ ان کے مدارج کوبلند کرنا چاہتاہے۔ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ ۶۰۴۔ ۶۰۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے ہیں کہ:
’’خوب یاد رکھوکہ انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ انہی چند ہ دینے والوں کو کچھ دلانے کے لئے۔ اللہ کے حضور دلانے کی بہت سی راہیں ہیں ان میں سے یہ بھی ایک راہ ہے جس کا ذکر پہلے شروع سور ۃ میں {مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ} (بقرہ :۴) سے کیا۔ پھر {اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ} (بقرہ:۱۷۸) میں۔ پھر اسی پارہ میں {اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ} (بقرہ:۲۵۵) سے۔ مگر اب کھول کر مسئلہ انفاق فی سبیل اللہ بیان کیاجاتاہے۔ انجیل میں ایک فقرہ ہے کہ جو کوئی مانگے تو اسے دے۔ مگر دیکھو قرآن مجید نے اس مضمون کو پانچ رکوع میں ختم کیا ہے۔ پہلا سوال تویہ ہے کہ کسی کو کیوں دے؟ سواس کا بیان فرماتاہے کہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے۔ خرچ کرنے والے کی ایک مثال تویہ ہے کہ جیسے کوئی بیج زمین میں ڈالتاہے مثل باجرے کے پھر اُس میں کئی بالیاں لگتی ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں :{ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ } بعض مقام پر ایک کے بدلہ میں دس اور بعض میں ایک کے بدلہ میں سات سو کا ذکرہے۔ یہ ضرورت، اندازہ، وقت و موقع کے لحاظ سے فرق ہے۔ مثلاً ایک شخص ہے دریا کے کنارے پر۔ سردی کا موسم ہے۔ بارش ہو رہی ہے۔ ایسی حالت میں کسی کو گلاس بھر کر دے دے تو کونسی بڑی بات ہے لیکن اگر ایک شخص کسی کو جبکہ وہ جنگل میں د وپہرکے وقت تڑپ رہاہے پیاس کی وجہ سے جاں بلب ہو، مُحرقہ میں گرفتار، پانی دے دے تووہ عظیم الشان نیکی ہے۔ پس اس قسم کے فرق کے لحاظ سے اجروں میں فرق ہے۔
پھر آپ ایک مثال بیان کرتے ہیں حضرت رابعہ بصری کی کہ ایک دفعہ گھر میں بیٹھی ہوئی تھیں تو بیس مہمان آ گئے اور گھرمیں صرف دو روٹیاں تھیں۔ انہوں نے ملازمہ سے کہاکہ یہ دوروٹیاں بھی جا کر کسی کو دے آؤ۔ ملازمہ بڑی پریشان اور اس نے خیال کیا کہ یہ نیک لوگ بھی عجیب بیوقوف ہوتے ہیں۔ گھرمیں مہمان آئے ہوئے ہیں اور جو تھوڑی بہت روٹی ہے یہ کہتی ہیں کہ غریبوں میں بانٹ آؤ۔ تو تھوڑی دیرکے بعد باہر سے آواز آئی، ایک عورت آئی، کسی امیر عورت نے بھیجا تھا، اٹھارہ روٹیاں لے کر آئی۔ حضرت رابعہ بصری ؒ نے واپس کردیں کہ یہ میری نہیں ہیں۔ اس ملازمہ نے پھرکہا کہ آپ رکھ لیں، روٹی اللہ تعالیٰ نے بھیج دی ہے۔ فرمایا نہیں یہ میری نہیں ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہمسائی امیرعورت تھی اس کی آواز آئی کہ یہ تم کہاں چلی گئی ہو۔ رابعہ بصری کے ہاں تو بیس روٹیاں لے کر جانی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں نے جو دوروٹیاں بھیجی تھیں اللہ تعالیٰ سے سوداکیاتھاکہ وہ دس گنا کرکے مجھے واپس بھیجے گا۔ تو دو کے بدلہ میں بیس آنی چاہئیں تھیں یہ اٹھارہ میری تھیں نہیں۔ توحضرت خلیفۃ اوّل فرماتے ہیں کہ یہ سچ ہے اور مجھے بھی اس کا تجربہ ہے اور مَیں نے کئی دفعہ آزمایاہے۔ لیکن ساتھ آپ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ خدا کا امتحان نہ لو۔ کیونکہ خداکو تمہارے امتحانوں کی پرواہ نہیں ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ یہ تو سوال ہو گیاکہ کیوں دے۔ اب بتاتاہوں کہ کس طرح دے۔ اول تو یہ کہ محض ابتغاء مرضات اللہ دے، احسان نہ جتائے۔ پہلی بات یہ تھی کہ کیوں دے۔ اس لئے دے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر دینا ضروری ہے۔ پھرکس طرح دو۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے لئے دو نہ کہ احسان جتانے کے لئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’خداکی راہ میں جولوگ مال خرچ کرتے ہیں ان کے مالوں میں خدا اس طرح برکت دیتاہے کہ جیسے ایک دانہ جب بویا جاتاہے توگو وہ ایک ہی ہوتاہے مگر خدااُس میں سے سات خوشے نکال سکتاہے اور ہر ایک خوشہ میں سو(۱۰۰)دانے پیدا کرسکتاہے۔ یعنی اصل چیزسے زیاد ہ کردینایہ خدا کی قدرت میں داخل ہے اور درحقیقت ہم تمام لوگ خدا کی اسی قدرت سے ہی زندہ ہیں اور اگر خدا اپنی طرف سے کسی چیز کو زیادہ کرنے پرقادر نہ ہوتا تو تمام دنیا ہلاک ہوجاتی اور ایک جاندار بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا‘‘۔ (چشمہ ٔ معرفت صفحہ ۱۶۲)
پھر آپ ؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ تعبیر الرؤیامیں مال کلیجہ ہوتاہے۔ اسی لئے خیرات کرنا جان دینا ہوتاہے(یعنی مالی قربانی کی بھی بہت اہمیت ہے )۔ انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق وثبات دکھاتاہے۔ اور اصل بات تویہ ہے کہ صر ف قیل وقال سے کچھ نہیں بنتا جب تک عملی رنگ میں لاکرکسی بات کو نہ دکھایا جاوے۔ صدقہ اس کو اِسی لئے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کردیتاہے‘‘۔ (الحکم جلد ۲نمبر۲ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۸۹ ء صفحہ ۲)
حدیث میں آیاہے۔ حضرت خریم بن فاتک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کرتاہے اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنا ثواب ملتاہے‘‘۔ (ترمذی کتاب فضائل الجہاد باب فضل النفقۃ فی سبیل اللہ )
پھر ایک حدیث ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مَیں تمہیں سب سخیوں سے بڑے سخی کے بارہ میں نہ بتاؤں ؟ اللہ تمام سخاوت کرنے والوں سے بڑھ کر سخاوت کرنے والا ہے۔ پھر مَیں تمام انسانوں میں سے (یعنی اپنے بارہ میں فرما رہے ہیں ) سب سے بڑا سخی ہوں۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد از علامہ ھیثمی جلد ۹ صفحہ ۱۳بیروت)
سعدبن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :نماز روزہ اور ذکر کرنا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کئے گئے مال کو سات سو گنا بڑھا دیتاہے۔ پس یہ خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے مالی قربانیاں دیں کہ ان دنوں میں، یہ روزوں کا مہینہ بھی ہے اور روزوں کے ساتھ ساتھ ذکرالٰہی یا نمازوں کی طرف بھی توجہ رہتی ہے۔ تو اگر اس طرف پوری توجہ ہوتو اللہ تعالیٰ فرماتاہے یہ جو تمہاری مالی قربانیاں ہیں ان کو مَیں سات سو گنا بڑھا دوں گا۔
ایک روایت ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ ایک آدمی آنحضرتﷺ کے پاس آیااورکہا کہ اے اللہ کے رسول !ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیاہے؟۔ آپ ؐ نے فرمایا : سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو۔ اورمال کی ضرورت اور حرص رکھتاہو، غربت سے ڈرتاہوں اور خوشخالی چاہتاہو۔ صدقہ و خیرات میں دیر نہ کر کہیں ایسا نہ ہوکہ تیری جان حلق تک پہنچ جائے تو توُکہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا دے دو۔ فرمایا کہ وہ مال تو اب تیرا رہا ہی نہیں وہ تو فلاں کا ہو ہی چکاہے۔ اس لئے صحت کی حالت میں چندوں اور صدقات کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے ایک قصہ بیان کیا کہ ایک آدمی بے آب و گیاہ جنگل میں جا رہاتھا۔ بادل گھرے ہوئے تھے۔ اُس نے بادل میں سے آواز سنی کے بادل !فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر۔ وہ بادل اس طرف کو ہٹ گیا۔ پتھریلی سطح مرتفع (نیچے چٹانیں تھیں جہاں، وہاں )پر بارش برسنی شروع ہوگئی۔ پانی ایک چھوٹے سے نالے میں بہنا شروع ہوگیا۔ ۔ وہ شخص بھی اس نالے کے کنارے کنارے چل پڑا۔ کیادیکھتاہے کہ یہ نالہ ایک باغ میں جا داخل ہوا ہے اور باغ کامالک کدال سے پانی ادھراُدھر مختلف کیاریوں میں لگا رہاہے۔ اس آدمی نے باغ کے مالک سے پوچھا : اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیاہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس مسافرنے اس بادل میں سے سنا تھا۔ پھر باغ کے مالک نے اس مسافر سے پوچھا۔ اے اللہ کے بندے ؟تم بتاؤکہ تمہیں میرا نام پوچھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ اس نے کہا کہ مَیں نے اس بادل سے جس بادل کا تم پانی لگا رہے ہو آواز سنی تھی کہ اے بادل ! فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کر۔ تو تم نے کون سا ایسا نیک عمل کیاہے جس کا بدلہ تم کو مل رہاہے۔ باغ کے مالک نے کہا کہ اگر آپ سننا چاہتے ہیں تو سنیں۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ اس باغ میں سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتاہوں۔ اور ایک تہائی اپنے اور اہل وعیال کے گزارہ کے لئے رکھتاہوں۔ اور باقی ایک تہائی دوبارہ ان کھیتوں میں بیج کے طورپر استعمال کرتاہوں۔ یہ ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو کاروباری ہوں یاملازم پیشہ ہوں۔ تو اس آمد میں سے جتنا بھی چندہ آپ نے دیناہوتاہے نکال کے ہر مہینہ یا ہرکاروبارکے منافع کے وقت علیحدہ کرلیاکریں تو بڑی سہولت رہتی ہے اور سال کے آخر میں پھربوجھ نہیں پڑتا۔
ایک حدیث ہے حضرت نبی کریمﷺ نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماءؓ بنت ابوبکر ؓ کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کرخرچ نہ کیاکرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کرہی دے گا۔ اپنے روپوؤں کی تھیلی کامنہ (بخل کی راہ سے ) بند کرکے نہ بیٹھ جاؤ یعنی کنجوسی سے دبا کر نہ رکھو۔ ورنہ پھر اس کا منہ بندہی رکھا جائے گا۔ کیونکہ اگر روپیہ نکلے گا نہیں تو آئے گا بھی نہیں۔ اور جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو۔ (بخاری کتاب الھبۃ وفضلھا باب ھبۃ المرأۃ لغیر… )
حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓ کپورتھلوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک واقعہ کہ ابتدائی ایام میں، جو شروع کے دن تھے، چندے وغیرہ مقرر نہ ہوئے تھے اور جماعت کی تعداد بھی تھوڑی تھی۔ ایک دفعہ کثیر تعداد میں مہمان آگئے۔ اس وقت خرچ کی دقت تھی۔ حضرت میر ناصرنواب صاحب نے میرے روبرو حضرت اقدس علیہ السلام سے خرچ کی کمی کا ذکرکیا۔ اور یہ بھی کہا کہ مہمان زیادہ آگئے ہیں۔ آپ گھر گئے، حضرت ام المومنین کا زیور لیا اور میر صاحب کو دیا کہ اس کو فروخت کرکے گزارہ چلائیں۔ پھردوسرے تیسرے دن، وہ زیورکی جو آمد ہوئی تھی، روپیہ آیاتھا، ختم ہوگیا۔ میر صاحب ؓ پھر حاضرہوئے اور اخراجات کی زیادتی کے بارہ میں ذکرکیا۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایاکہ ہم نے مسنون طریقے پر ظاہر اسباب کی رعایت کرلی ہے اب وہ خود انتظام کرے گا۔ یعنی جو مسنون طریقہ تھا، جو ہمارے پاس تھا وہ تو ہم نے دے دیاہے، خرچ کر لیا ہے اب خداتعالیٰ خود انتظام کرے گاجس کے مہمان ہیں۔ کہتے ہیں کہ دوسرے ہی دن اس قدر روپیہ بذریعہ منی آرڈر پہنچا کہ سینکڑوں تک نوبت پہنچ گئی۔ اس زمانہ میں سینکڑوں بھی بہت قیمت رکھنے والے تھے۔ پھر آپ ؑ نے توکل پر تقریر فرمائی، فرمایا :جبکہ دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپے پر اعتبار ہوتاہے کہ حسب ضرورت جس قدر چاہے گا صندوق کھول کر نکال لے گا۔ ایسا ہی متوکل کو خداتعالیٰ پر یقین اور بھروسہ ہوتاہے کہ جس وقت چاہے گا نکال لے گا۔ اور اللہ کا ایسا ہی سلوک ہوتاہے۔
تو دیکھیں اس سے ہمیں سبق مل رہاہے کہ اللہ تعالیٰ تواپنے بندوں کی ضرورتیں پوری کر لیتاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری بہتری کی خاطر، ہماری بھلائی کے لئے، ہمیں بھی ان خوش قسمتوں میں شامل کر لیاہے جو ان نیک کاموں میں شامل ہوتے ہیں اور ثواب حاصل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اگر مَیں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کاحق ادا کرتے۔ ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتاہوں۔ لکھتے ہیں :’’مَیں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرانہیں آپ کا ہے۔ حضرت پیرومرشد میں کمال راستی سے عرض کرتاہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے تو مَیں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجا لاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کردوں ‘‘۔ (فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۳۵۔ ۳۶)
یعنی جو خریدار ہیں براہین احمدیہ کے اس وقت اگر وہ ادائیگی نہیں کر پا رہے تو مجھے اجازت دیں مَیں وہ ساری ادائیگی اپنی طرف سے کر دیتاہوں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں جو باربار تاکیدکرتاہوں کہ خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ خداتعالیٰ کے حکم سے ہے کیونکہ اسلام اس وقت تنزّل کی حالت میں ہے۔ بیرونی اور اندرونی کمزوریوں کو دیکھ کر طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے اور اسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہاہے۔ جب یہ حالت ہو گئی ہے تو کیااب اسلام کی ترقی کے لئے ہم قدم نہ اٹھائیں ؟ خداتعالیٰ نے اسی غرض کے لئے تو اس سلسلہ کو قائم کیاہے۔ پس اس کی ترقی کے لئے سعی کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء کی تعمیل ہے۔ اس لئے اس راہ میں جو کچھ بھی خرچ کروگے وہ سمیع وبصیر ہے۔
یہ وعدے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خداتعالیٰ کے لئے دے گامَیں اس کو چند گنا برکت دوں گا۔ دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گااورمرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتاہے۔ غرض اس وقت مَیں اس امرکی طرف تم سب کو توجہ دلاتاہوں کہ اسلام کی ترقی کے لئے اپنے مالوں کو خرچ کرو۔ (الحکم ۳۱ جولائی ۱۹۰۶ء، ملفوظات جلد نمبر ۸ صفحہ ۳۹۳۔ ۳۹۴)
اب میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرنے سے پہلے گزشتہ سال میں کیا کچھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہوئی بتانے سے پہلے مختصراًبتاتاہوں کہ یہ سال جیساکہ ہر ایک کو پتہ ہے ۳۱؍اکتوبر کو ختم ہوتاہے۔ اس وقت تک جو اعدادوشمار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور تحریک جدید کے مالی نظام میں جماعت نے مجموعی طورپرجو قربانی کی ہے وہ ۲۸لاکھ ۱۲ہزار پاؤنڈ کی ادائیگی ہے، الحمدللہ۔ اور یہ ادائیگی گزشتہ سال سے تین لاکھ ساٹھ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ
گزشتہ سال کی جوادائیگی تھی اس میں اتنا بڑا جمپ تھا کہ خیال تھا کہ شاید اس سال اس میں زیادہ وصولی نہ ہولیکن اللہ تعالیٰ نے جو ہمیشہ اپنے فضلوں سے جماعت کو نوازتاہے۔ اس دفعہ بھی گزشتہ سال سے بڑھ کر زائد ادائیگی کے سامان پیدا فرمائے ہیں۔ الحمدللہ۔
اور اب چونکہ بعض جماعتوں کا ان کی قربانیوں کے لحاظ سے نمبروار تفصیل بھی بیان کی جاتی ہے وہ مَیں بیان کروں گاکیونکہ بہت ساری جگہوں پر امراء اور سیکرٹریان تحریک جدید بڑی بے قرار ی کے ساتھ انتظار کررہے ہوں گے کہ پتہ لگے کہ کیا نتائج سامنے آئے ہیں۔ تو اس سال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی جماعت نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھاہے اور پوری دنیا کی جماعتوں میں وہی اوّل رہی ہے اور انہی کو یہ اعزاز ملاہے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں مجموعی وصولی کے لحاظ سے بھی اور تحریک جدید کے مجاہدین کے اعتبار سے بھی سب سے آگے ہے۔ باوجود اس کے کہ کچھ عرصہ سے وکیل المال صاحب پریشان تھے کہ پتہ نہیں کیا ہوگا اور بڑی فیکسیں آ رہی تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اور ان کی جو بھی خواہش تھی، جو ٹارگٹ تھا وہ پورا ہوگیاہے الحمدللہ۔
اور اس کے بعد امریکہ کا نمبر آتاہے۔ وہاں بھی امیر صاحب کا خیال تھاکہ اقتصادی لحاظ سے حالات متأثرہوئے ہیں۔ پتہ نہیں وہ قربانی جو ان کے ذہن میں ہے اتنا معیار حاصل ہوسکے یانہ۔ لیکن اس سال بھی امریکہ گزشتہ سال کی نسبت نمایاں ادائیگی کر کے پاکستان سے باہر کے ملکوں میں دنیا بھرکی جماعتوں میں اول ہے۔ اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ امریکہ میں جو آٹھ فیصد ادائیگی ہے اس کی شرح بھی تمام دنیا کی جماعتوں سے زیادہ رہی ہے۔ اور اس کے لحاظ سے جرمنی کی جماعت تیسرے نمبرہے۔ اور جرمنی کی یہ خاصیت رہی کہ اس جماعت کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۹۵فیصد احباب جماعت تحریک جدید میں شامل ہیں۔ ماشاء اللہ۔
اب مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی دس جماعتوں کی ترتیب کیاہے وہ بتا دیتاہوں۔ نمبر ایک پاکستان، نمبر دو امریکہ، نمبر تین جرمنی، نمبر چار برطانیہ، نمبر پانچ کینیڈا، نمبر چھ بھارت، نمبر سات ماریشس، نمبر آٹھ سویٹزرلینڈ، نمبر ۹ آسٹریلیا اور نمبر دس بلجیم۔ برطانیہ نمبر ۴پہ الحمدللہ بڑااچھا ہے یہ بھی کافی بہتری ہے جو مَیں آگے بیان کروں گا۔
مڈل ایسٹ کی جماعتوں میں سعودی عرب، ابوظبی اور افریقہ میں نائیجیریا قابل ذکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنے پیار کی نگاہ رکھے اور فضلوں سے نوازتا رہے۔
اب تحریک جدید کے مجاہدین کی تعداد کے بارہ میں بتادوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تعداد تین لاکھ چوراسی ہزار پانچ سو (۳۸۴۵۰۰)سے بڑھ گئی ہے۔ اور گزشتہ سال کے مقابلہ پر امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان مجاہدین میں تیس ہزار چار سو (۳۰۴۰۰) افراد کا اضافہ ہواہے۔ اور اس اضافہ میں بھی پہلے نمبر پر ہندوستان، پھر پاکستان، برطانیہ اور کینیڈا کی جماعتیں ہیں۔ برطانیہ میں گزشتہ سال کی نسبت ۱۹۱۰ نئے مجاہدین تحریک جدید میں شامل کئے ہیں جو ایک بڑا اچھا حوصلہ افزا قدم ہے۔ اور ان کے اضافہ بھی ہواہے اس لحاظ سے کہ بیت الفتوح میں بھی انہوں نے خرچ کیا اور جماعتوں میں مساجد بن رہی ہیں وہاں بھی اخراجات ہورہے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی برطانیہ کاقدم ماشاء اللہ ترقی کی طرف ہے۔
پھرکینیڈا اس لحاظ سے قابل ذکرہے کہ تجنید کے لحاظ سے ۷۵ٍِفیصد احباب جماعت تحریک جدید میں شامل ہو چکے ہیں۔ تو اوسط فی کس کے حساب سے جو پانچ جماعتیں ہیں ان کا بتا دوں کہ چندہ دینے میں جو معیاری ہیں۔ نمبر ایک امریکہ، نمبر دو سویٹزرلینڈ، نمبر تین برطانیہ، نمبر چاربیلجیئم اور نمبرپانچ آسٹریلیا۔ پاکستان کے روایتاً اضلاع کے نام بھی پڑھے جاتے ہیں جنہوں نے مالی قربانی میں نمایاں حصہ لیا ہوتاہے۔ ویسے بھی اس کا اپنا ایک مقام ہے۔
تو پاکستان میں اول لاہور رہاہے، دوئم ربوہ اور سوئم کراچی۔ اس کے علاوہ راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، میر پورخاص، مردان، شیخوپورہ، جھنگ، بہاولنگر، ڈیرہ غازیخان، وہاڑی، واہ کینٹ، کنری، گجرات، ایبٹ آباد، میانوالی، راجن پور، مظفرگڑھ، بشیر آباد سندھ اور چک نمبر ۱۶۶ مراد کی جماعتیں ہیں۔ یہ جماعتوں کاتھا ضلعوں کا نہیں تھا۔ اور ضلعی سطح پرقربانی کرنے والے جوہیں وہ ہیں سیالکوٹ، فیصل آباد، گوجرانوالہ، نارووال، جہلم، میرپورخاص، منڈی بہاؤالدین، میرپورآزاد کشمیر، خانیوال، بدین اور ٹوبہ ٹیک سنگھ۔
اب یہ اعدادوشمارتو سامنے آگئے۔ اب اس کے ساتھ میں تحریک جدید کے دفتر اول کے سال ستّر(۷۰) اور دفتر دوم کے سال ساٹھ (۶۰) اور دفتر سوم کے انتالیسویں سال اور دفتر چہارم کے انیسویں سال کا اعلان کرتاہوں۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ان مالی قربانی کرنے والوں کو کشائش عطا فرمائے، مالی وسعت عطا فرمائے، ان کو پہلے سے بڑھ کر قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جماعتوں کو بھی توفیق دے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اس میں شامل کریں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو تحریک جدید کے بانی تھے فرماتے ہیں :
’’یاد رکھو، تحریک جدید خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اس لئے وہ اس کو ضرور ترقی دے گا اور اس کی راہ میں جو روکیں ہوں گی وہ ان کو دورکر دے گا۔ اور اگر زمین سے اس کے سامان پیدا نہ ہوں گے تو آسمان سے اس کوبرکت دے گا۔ پس مبارک ہیں وہ جوبڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں۔ کیونکہ ان کا نام ادب و احترام سے اسلام کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔ اور خداتعالیٰ کے دربار میں یہ لوگ خاص عزت کا مقام پائیں گے کیونکہ انہوں نے خود تکلیف اٹھا کر دین کی مضبوطی کے لئے کوشش کی اور ان کی اولادوں کا خداتعالیٰ خود متکفل ہوگااورآسمانی نوران کے سینوں سے ابل کر نکلتارہے گا اور دنیاکوروشن کرتارہے گا۔
پھر آپ فرماتے ہیں :پس ہر احمدی مرد اور ہر احمدی بالغ عورت کا فرض ہے کہ اس تحریک میں شامل ہو۔ بلکہ بچوں میں بھی تحریک کی جائے اور رسمی طورپر انہیں اپنے ساتھ شامل کیا جائے۔ مثلاًاپنے وعدے کے ساتھ ان کی طرف سے کچھ حصہ ڈال دے چاہے ایک پیسہ ہو، دو پیسے ہوں یا ایک آنہ ہو(یہ وہاں کے سکے ہیں ) اس سے ان کے دلوں میں تحریک ہوگی۔ بلکہ بجائے بچے کی طرف سے خود وعدہ لکھوانے کے، اسے کہو کہ خود وعدہ لکھوائے۔ اس سے اس کے اندریہ احساس پیداہوگا کہ مَیں چندہ دے رہاہوں۔ بعض لوگ بچوں کی طرف سے چندہ لکھوادیتے ہیں لیکن انہیں بتاتے نہیں۔ بچے کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سوال کرتاہے۔ جب تم اسے کہو گے کہ جاؤ اپنی طرف سے چندہ لکھواؤ تو وہ پوچھے گاکہ چندہ کیا ہوتاہے۔ اور جب تم چندہ کی تشریح کروگے۔ وہ پھر پوچھے گاکہ چندہ کیوں ہے تو تم اس کے سامنے اسلام کی مشکلات اور خوبیاں بیان کرو گے۔ بچے کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھاہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سوال کرتاہے۔ اور اگر تم ایساکرو گے تو اس کے اندر ایک نئی روح پیداہوگی اور بچپن سے ان کے اندر اسلام کی خدمت کی رغبت پیداہوگی۔
اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :
’’جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں اس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں۔ خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے۔ ‘‘(الفضل ۱۷فروری ۱۹۶۰ ء صفحہ ۲ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحہ ۱۵۳۔ ۱۵۴)
حضرت اقدس مسیح موعوعلیہ السلام فرماتے ہیں : میرے پیارے دوستو !مَیں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ مجھے خد۱ئے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذرّیت کو نہایت ضرورت ہے۔ سو میں اس لئے مستعد کھڑاہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیّبہ سے(یعنی اپنے پاکیزہ اموال سے ) اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدّم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے اُن علوم اور برکات کو ایشیاؔاور یورپؔ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خداتعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں ‘‘۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۵۱۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے اور ہمیشہ ہماری توفیق کو بڑھاتا رہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مشن کی خاطر ہرقربانی کرنے کے لئے تیار رہیں اور اپنی نسلوں میں بھی یہ قربانی کا جذبہ پیدا کرنے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور دین کی ترقی کے لئے اپنے اموال خرچ کریں۔
٭…خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے طریق اور اس کے ثمرات۔
٭…اس زمانہ میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے لوگوں سے مراد آپ لوگ ہیں۔
٭…خوب یاد رکھو انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ انہی چندہ دینے والوں کو کچھ دلانے کے لئے ……
٭…خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی برکت ……
٭…تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان اور بین الاقوامی مسابقت فی الخیر
٭…تحریک جدید کی اہمیت اور اس میں شامل ہونے والوں کی سعادت۔
۷؍نومبر ۲۰۰۳ ء بمطابق ۷؍ نبوت ۱۳۸۲ ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔