جمعہ کی اہمیت، آداب و برکات، جمعۃ الوداع کی اصطلاح
خطبہ جمعہ 21؍ نومبر 2003ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدوتعوذکے بعددرج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی
{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ}۔ (سورۃ الجمعۃآیات ۱۰۔ ۱۱)
آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے جس کو جمعۃالوداع کہنے کی ایک اصطلاح چل پڑی ہے۔ غیروں میں تو خیر دین میں اتنا بگاڑ پیدا کرلیا ہے کہ وہ تو اس کوجو بھی چاہے نام دیں، اور جو بھی چاہیں عمل کریں، جس طرح جی چاہے عمل کریں اور اس کی تشریح بیان کریں، یہ ان کا معاملہ ہے۔ بلکہ وہ تو اس خیال کے بھی ہیں کہ جمعۃ الوداع کے دن چار رکعت نماز پڑھ لو تو قضائے عمری ادا ہو گئی۔ یعنی جتنی چھُٹی ہوئی نمازیں ہیں وہ ادا ہوگئیں، تین چار رکعتوں کے بدلے میں۔ اور اب نمازیں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ جونمازیں نہیں پڑھی گئی تھیں پوری ہوگئیں۔ پھر یہ سوچ کہ۔ جمعۃ الوداع آئے گا تو چاررکعت نماز پڑھ لیں گے، پھر چھٹی ہوگی ایک سال کی۔ تو یہ کون تردد کرے کہ پانچ وقت کی نمازیں جا کے مسجد میں پڑھی جائیں۔ ان کی ایسی حرکتوں پر تو اتنی حیرت نہیں ہوتی کہ انہوں نے تو یہ کرنا ہی ہے۔ کیونکہ مسیح محمدی ؐ کا انکارکرنے والوں سے اس سے زیادہ توقع کی بھی نہیں جا سکتی لیکن حیرت اس بات پر ضرور ہوتی ہے کہ جنہوں نے اس زمانہ کے امام کو مانا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کردیا اور پھر وہ اپنے دین کی حفاظت نہ کریں۔ عام حالات میں اتنی پابندی سے جمعہ پر نہیں آتے جس اہتمام سے بعض لوگ، اور یہ بعض لوگ بھی کافی تعداد ہو جاتی ہے، جس پابندی سے رمضان کے اس آخری جمعہ پر آیا جاتاہے۔ حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ پانچ وقت کی نمازوں کے لئے بھی مسجد میں آؤ۔ تو ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی دنیاوی دھندوں میں اتنے محو ہو جائیں کہ نمازیں تو ایک طرف، جمعہ کی ادائیگی بھی باقاعدگی سے نہ کرسکیں۔ اور اس بات کا اندازہ کہ ہم میں سے بعض احمدی بھی لاشعوری طورپر جمعۃ الوداع کی اہمیت کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔ مسجدوں کی حاضری سے لگایا جا سکتاہے۔ اگر آج کے دن ہم میں سے وہ جو عموماًجمعہ کا ناغہ کر جاتے ہیں، اتنی اہمیت نہیں دیتے جمعہ کو، اس لئے جمعہ پر آئے ہیں کہ رمضان نے ان میں تبدیلی پیدا کردی ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری اور اس کی عبادت کا ان میں شوق پیدا ہو گیاہے اور انہوں نے عہد کر لیاہے کہ آئندہ ہم اپنے جمعوں کی حفاظت کریں گے اور باقاعدگی سے جمعہ کے لئے حاضر ہواکریں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پس جب نماز ادا کی جاچکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
یہ ہے وہ ترجمہ ان آیات کا جن کی مَیں نے تلاوت کی۔ اگر تو یہ صورت حال ہے تو ایسے لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے کہ آئندہ بھی وہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکامات کو گلے لگانے، ان پر عمل کرنے والے اور اسی جوش وخروش سے ان تمام احکامات میں حصہ لینے والے ہوں اور ہم سب اس حدیث پر عمل کرنے والے بھی بنیں۔ حدیث میں آتاہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ : ’’کبائر سے بچنے والے کے لئے پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک اور ایک رمضان سے اگلے رمضان تک کفارہ ہوتاہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃباب الصلوات الخمس…)
اللہ تعالیٰ اس حدیث کے مطابق ہمیں توفیق دینے کی طرف توجہ دلا رہاہے۔ اور اس رمضان میں ہمارے اندر جو پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں اس پر اللہ کا فضل مانگتے ہوئے ہمیں بھی کام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ ہمیں اس پر قائم رکھے اور ہماری مساجد اس بات کی گواہی دیں کہ احمدیوں نے پانچ وقت کی نمازوں کے لئے مساجد میں آنے کی طرف جو توجہ دی تھی اور جس طرح مساجد آباد کی تھیں وہ رمضان گزرنے کے ساتھ ہی خالی نظر نہیں آ رہیں بلکہ اب بھی اسی طرح بارونق اور آباد ہیں جس طرح رمضان میں ان کی رونق تھی۔ پھر رمضان کے بعد آنے والا ہر جمعہ اس بات کی گواہی دے کہ امام الزمان کو مان کر ہم نے اپنے اندر جو پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور اس رمضان میں ہم نے اسے مزید نکھارا ہے اب اس نکھار کا اظہار ہر جمعہ پر نظر آرہاہے۔ یہ لوگ وہ نہیں ہیں جو صرف جمعۃ الوداع پر قضاء عمری کے لئے مسجدوں میں نظر آتے ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اندرپاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کاتقویٰ ترقی پذیر ہے، جن کا ہر قدم پہلے سے آگے بڑھنے والاہے۔ اب یہ اس بے فکری میں نہیں ہوتے کہ چلو رمضان ختم ہوا، اب اگلا رمضان جب آئے گا تو دیکھ لیں گے پھر جمعۃ الوداع پڑھ لیں گے۔ بلکہ ایسے لوگ جنہوں نے تبدیلی پیدا کی ہے، اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کبائر سے بچنے کے لئے آنحضرتﷺ کے ارشاد کے مطابق، جو حدیث میں نے ابھی پڑھی تھی، کہ اس جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ بھی ادا کرنا ہے، وہ بھی ضروری ہے۔ ہاں رمضان کا ہمیں انتظار رہے گا لیکن اس لئے نہیں کہ قضائے عمر ی ادا کرنے کا موقع مل جائے گا بلکہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس میں کھول دئے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دیا جاتاہے۔ اللہ کے قرب پانے کامزید موقع میسر آئے گا۔ اس لئے ہم آئندہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں۔ قضائے عمری کی بات چلی ہے۔ اس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک ارشاد بھی ہے وہ مَیں پڑھ کے سناتاہوں۔ ’’ ایک سوال ہوا کہ جمعۃالوداع کے دن لوگ چار رکعت نماز پڑھتے ہیں اور اس کا نام قضاء عمری رکھتے ہیں اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ گزشتہ نمازیں جو ادا نہیں کیں، اُن کی تلافی ہوجاوے، اس کا کوئی ثبوت ہے یا نہیں ؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’ ایک فضول امر ہے مگر ایک دفعہ ایک شخص بے وقت نماز پڑھ رہا تھا، کسی شخص نے حضرت علیؓ کو کہا کہ آپ خلیفۂ وقت ہیں، اسے منع کیوں نہیں کرتے؟۔ فرمایا کہ مَیں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بنایا جاؤں {اَرَئَیْتَ الَّذِیْ یَنْھیٰ عَبْدًا اِذَا صَلّٰی}۔ ہاں اگر کسی شخص نے عمداً نماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضائے عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اُس نے ناجائز کیا ہے اور اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو کیوں منع کرتے ہو آخر دعا ہی کرتا ہے۔ ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے۔ پھر دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچے نہ آجاؤ‘‘۔ (الحکم۔ ۲۴ ؍اپریل، ۱۹۰۳ ء۔ فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۵)
آپؑ نے فرمایا کہ :-
’’ جو شخص عمداً سال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضائے عمری والے دن ادا کر لوں گا تو وہ گنہگار ہے اور جو شخص نادم ہو کر توبہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں۔ ہم تو اس معاملہ میں حضرت علی ؓ ہی کا جواب دیتے ہیں۔ ‘‘(البدر جلد ۲نمبر ۱۵مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ ء صفحہ ۱۱۴)
تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ اس طرح کی نماز پڑھنے والے کی نیت کا تو پتہ نہیں کہ کس نیت سے پڑھ رہاہے۔ اگرتو اس کی نیت یہی ہے کہ اپنے اندرایک پاک تبدیلی پیدا کرنا چاہتاہے اور توبہ استغفار کرتے ہوئے اس لئے پڑھ رہاہے کہ آئندہ نمازیں بھی نہیں چھوڑوں گااور پوری توجہ سے پڑھوں گا اور جمعہ بھی نہیں چھوڑوں گا تو پڑھنے دو اس کو، کوئی حرج نہیں۔ اور اگراس کی نیت قضائے عمری کی ہے کہ اس دفعہ پڑھ لی پھر آئندہ دیکھیں گے تو یہ بہرحال غلط ہے، وہ گنہگارہے۔
جمعہ کی فرضیت کے بارہ میں احادیث پیش کرتاہوں جن میں جمعہ کی فرضیت کے بارے میں تو آیاہوا ہے کہ جمعہ کتنا ضروری ہے لیکن یہ تو نہیں لکھا گیاکہ جمعۃ الوداع کتنا ضروری ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’دنوں میں بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتاہے جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی دن و ہ جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن ھبوط آدم ہوا۔ اور اس میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں مسلمان بندہ جو بھی اللہ تعالیٰ سے طلب کرتاہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کردیتاہے۔ (جامع ترمذی کتاب الجمعۃ باب فی الساعۃ التی ترجی فی یوم الجمعۃ)
تو دیکھیں جمعہ کی کس قدر برکات ہیں۔ ایک تو اس کو بہترین دن قرار دیا گیاہے۔ اب کون نہیں چاہتاکہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک جو بہترین دن ہے اس سے فائدہ نہ اٹھائے، اس کی برکات نہ سمیٹے۔ یہاں سے تو کہیں ثابت نہیں ہوتاکہ صرف جمعۃ الوداع بہترین دن ہے۔ اس دن کو پا کر ہمیں اور زیادہ عبادت کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کی خشیت اختیار کرنی چاہئے کیونکہ آدم کو نیچے بھیج کر یہ بتادیاکہ اب تم لوگوں کا کام عبادت کرنا اور شیطانی حملوں سے بچناہے۔ تم میں سے جو لوگ میری خشیت اختیار کریں گے، میری عبادت کرنے والے ہوں گے، وہ عبادالرحمن کہلائیں گے۔ اورجو لوگ میری تعلیم سے اُلٹ چلنے والے ہوں گے وہ عبادالشیطان ہوں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے تو کہہ دیا کہ جو شیطان کے پیچھے چلنے والے ہیں ان کو پھر مَیں دوزخ سے بھروں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی مخلوق کے لئے ہر وقت جوش میں رہتی ہے۔ یہ کہنے کے باوجود ہمیں ہر وقت ہماری بخشش کے طریقے سکھاتارہتاہے۔ اس لئے فرمایا کہ جو میرے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اور خاتم الانبیاءﷺ پر ایمان لانے والے ہو، تمہارے لئے خوشخبری ہو کہ تمہارے لئے مَیں نے ایک ایسا دن اور اس دن میں ایک ایسی گھڑی مقرر کر دی ہے اس میں تم جو بھی مجھ سے طلب کرو گے مَیں عطا کروں گا۔ تو احمدیوں کے لئے تو اور بھی زیادہ خوشی کا مقام ہے کہ انہوں نے حضرت خاتم الانبیاءﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق زمانے کے امام کو پہچانا، ان کو تو خاص طورپر اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اوردعاؤں کے ساتھ یہ دعا بھی ہمیشہ کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہرآن تقویٰ میں بڑھاتاچلا جائے اور قبولیت دعا کا ذریعہ جو پہلے بھی خطبہ میں بیان ہو چکا ہے اب آنحضرتﷺ کے علاوہ کوئی نہیں۔ یہی واسطہ اختیار کریں تو دعا کی قبولیت ہوگی۔ اس لئے عام دنوں سے زیادہ جمعہ کے روز آنحضرتﷺ پر درود بھیجنا چاہئے۔
حدیث میں آتاہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :
’’تمہارے ایام میں سے (ایک)جمعہ کا دن ہے۔ اسی روز آدم پیدا کئے گئے، اسی روز انہیں وفات دی گئی، اسی روز نفخ صور ہوگااور اسی روز غشی ہوگی۔ پس اس روز تم مجھ پر کثرت سے درود بھیجاکرو‘‘۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وََسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ‘‘۔ اور تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس پر صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جب آپ ؐ کا وجود بوسیدہ ہو چکا ہوگا تو اس وقت ہمارا درود آپؐ کو کیسے پہنچایا جائے گا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے وجودوں کو زمین پر حرام کردیاہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب فی الاستغفار)
پھر جمعہ کی اہمیت کے بارہ میں ایک روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :کہ جب جمعہ کا دن ہوتاہے مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے ہوتے ہیں۔ وہ مسجد میں پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور اسی طرح وہ آنے والوں کی فہرست ترتیب وار تیار کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب امام خطبہ دے کر بیٹھ جاتاہے تو وہ اپنا رجسٹر بند کر دیتے ہیں ‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب فضل التھجیر یوم الجمعۃ)
پھر ایک حدیث ہے علقمہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
’’حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ لوگ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور جمعوں میں آنے کے حساب سے بیٹھے ہوں گے یعنی پہلا، دوسرا، تیسرا، پھر انہوں نے کہا چوتھااور چوتھا بھی اللہ تعالیٰ کے دربارمیں بیٹھنے کے لحاظ سے کوئی دُور نہیں ‘‘۔ (ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب ما جاء فی التھجیر الی الجمعۃ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:یہ دن (جمعہ) عید ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کے لئے بنایاہے۔ پس جو کوئی جمعہ پرآئے اُسے چاہئے کہ وہ غسل کرے اور جس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبو لگائے اور مسواک کرنا اپنے لئے لازمی کر لو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا باب ما جاء فی الزینۃ یوم الجمعۃ)
تو دیکھیں ان تمام احادیث سے کہیں یہ تاثر نہیں ملتاکہ بخشش کے سامان کرنے ہیں تو جمعۃ الوداع کافی ہے۔ بلکہ ہر جمعہ ہی اہم ہے، لازمی ہے، فرض ہے۔ اور جن لوگوں کے خیال میں ایک دن کی نمازہی پڑھ لو تو کافی ہے۔ بعض لوگ جمعۃ الوداع پڑھنے والوں سے بھی دوقدم آگے ہوتے ہیں۔ وہ جمعۃ الوداع پر بھی نہیں آتے صرف عید کی نماز پر آتے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ تو ان کے لئے یہ حدیث جو مَیں نے پڑھی ہے اس میں یہ بتا دیا کہ جمعہ کا دن بھی عید کا دن ہے۔ یہ عیدیں اکٹھی ہوں گی تو رمضان کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق بھی ملے گی۔ اور پھر رمضان کے بعد آنے والی عید سے بھی فیض پاؤ گے اور گناہوں سے بچنے کا سامان پیدا کرو گے۔
پھر جمعہ میں پہلے آنے کے بارہ میں اور امام کے قریب بیٹھنے کے بارہ میں حدیث ہے۔ حضرت سُمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :نماز جمعہ پڑھنے آیاکرو اور امام کے قریب ہو کر بیٹھا کرو اور ایک شخص جمعہ سے پیچھے رہتے رہتے جنت سے پیچھے رہ جاتاہے حالانکہ وہ جنتیوں میں سے ہوتاہے ‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۱۰ مطبوعہ بیروت)
جمعہ سے پیچھے رہتے رہتے سے مراد ہے کہ جمعہ اگر چھوڑوگے تو چھوڑتے چلے جاؤگے۔ اس میں بھی اصل چیز یہی ہے کہ جمعہ پر آنے کی تڑپ ہو، ایمان کی باتیں سننے کی اور ان پر عمل کرنے کی خواہش ہو۔ اصل چیز وہی ہے کہ نیت کیاہے ؟بعض لوگ مساجد میں کچھ وقت گزارنے کے بعد جاتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد جائیں گے، آرام سے چلے جائیں گے۔ امام صاحب بڑا لمبا خطبہ دے رہے ہیں۔ بڑی دیر وہاں بیٹھنا پڑتاہے، انتظار کرنا پڑتاہے، کون اتنی دیر بیٹھے۔ آخری پانچ سات منٹ ہوں گے تو چلے جائیں گے۔ دوچار منٹ کا خطبہ سن لیں گے، پھر نماز پڑھیں گے اور واپس آجائیں گے۔ تو یہ سوچ بڑی خطرناک سوچ ہے۔ کیونکہ پہلے جانے والے اور آخر میں جانے والے کے ثواب میں بھی اونٹ اور مرغی کے انڈے کے برابر یا بعض دفعہ چاول کے دانے کے برابر فرق ہے۔ لیکن جو بھی امام ہوں ان کوبھی حالات کے مطابق موسم کے مطابق، لوگوں کے وقت کے مطابق، خطبے کے وقت کا خیال رکھنا چاہئے۔
اب جمعہ کی اہمیت اور تربیت کے بارہ میں مزید احادیث پیش کرتاہوں۔ یہ کہ بغیر عذر کے کوئی جمعہ نہیں چھوڑا جانا چاہئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ :’’جس نے متواتر تین جمعے جان بوجھ کر چھوڑ دئے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کردیتاہے‘‘ (ترمذی کتاب الجمعۃ باب ماجاء فی ترک الجمعۃ من غیر عذر)
اور پھر آہستہ آہستہ بالکل ہی پیچھے ہٹتا چلا جاتاہے۔ بڑاسخت انذار ہے اس میں۔ پھر ایک روایت ہے طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا ایسا حق ہے جو واجب ہے سوائے چار قسم کے افراد کے۔ یعنی غلام، عورت، بچہ اور مریض‘‘۔ (ابوداؤدکتاب الصلوٰۃ باب الجمعۃ للملوک والمرأۃ)
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب امام خطبہ دے رہاہوتو بات کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ اپنے بچوں کوخطبے کے دوران منہ سے بول کر روک ٹوک کررہے ہوتے ہیں، خاص طورپر عورتوں میں۔ تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اول توبالکل چھوٹے بچوں کو جن کو سنبھالنا مشکل ہو مسجد میں نہ لائیں اور ایسی حالت میں ضروری بھی نہیں عورتوں کے لئے کہ ضرور ہی آئیں۔ تو یہ حدیث جو مَیں نے پڑھی ہے اس میں بچوں کو ویسے بھی رخصت ہے۔ دوسرے بچوں کو سمجھا کر لانا چاہئے کہ مسجد کے آداب ہوتے ہیں۔ بولنا نہیں، شور نہیں کرنا وغیرہ۔ اور مستقل اگر بچے کے ذہن میں یہ بات ڈالتے رہیں تو آہستہ آہستہ بچے کو سمجھ آ جاتی ہے۔ اگر نہ سمجھائیں تو مَیں نے دیکھاہے بعض دفعہ آٹھ دس سال کی عمر کے بچے بھی آپس میں خطبے کے دوران بول رہے ہوتے ہیں، باتیں کررہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو چھیڑ رہے ہوتے ہیں، شرارتیں کررہے ہوتے ہیں۔ تو اس طرف بچوں کو مستقل توجہ دلاتے رہنا چاہئے۔ اوراگر کبھی ساتھ بیٹھے ہوئے بچے کو یا کسی دوسرے شخص کو خاموش کروانا پڑے تواشارہ سے سمجھانا چاہئے، منہ سے کبھی نہیں بولنا چاہئے۔
حدیث میں آیاہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:’’جمعہ کے روز جب امام خطبہ دے رہاہواگر تم اپنے قریبی ساتھی کوکہو’خاموش ہو جاؤ ‘ تو تمہارا یہ کہنا بھی لغوفعل ہے ‘‘۔ (مسلم کتاب الجمعۃ باب فی الانصات یوم الجمعۃ)
جن آیات کی تلاوت کی گئی تھی ان کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
اسلام میں جمعہ کے دن کے لئے یہ خصوصیتیں مقرر فرمائی ہیں کہ اس دن چھٹی رکھی جائے، عبادت زیادہ کی جائے، اسے قومی اجتماع کادن بنایا جائے، نہایا دھویاجائے، صفائی کی جائے، مریضوں کی عیادت کی جائے، اسی طرح اور قومی اور تمدنی کام کئے جائیں۔ ہاں جمعہ کی نماز سے فراغت کے بعد اجازت دی گئی ہے کہ لوگ اپنے مشاغل میں لگ جائیں مگر زیادہ مناسب اسی کو قرار دیاہے کہ بعد میں بھی لوگ ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ان کے ساتھ میں، اسی طرح رمضان کے آخری جمعہ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ:ہمارے امام فرمایاکرتے ہیں کہ بڑاہی بدقسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیر نہ پایا۔ پانچ سات روزے باقی رہ گئے ہیں (وہ بھی آخری جمعہ تھا۔ اور اب بھی تین چارروزے باقی ہیں )۔ ان میں بہت کوشش کرواور بڑ ی دعائیں مانگو، بہت توجہ الی اللہ کرو اور استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھو۔ قرآن مجید سن لو، سمجھ لو، سمجھا لوجتنا ہو سکے صدقہ و خیرات دے لو۔ اور اپنے بچوں کو بھی تحریک کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں توفیق دے۔ (آمین) (خطبات نور۔ جدید ایڈیشن صفحہ ۲۶۵)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
خدا تعالیٰ نے جو اتمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے جس کا نام اسلام رکھا ہے۔ پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہوا۔ یہ اس کی طرف اشارہ تھاکہ پھر اتمام نعمت جو {یُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ} کی صورت میں ہوگاوہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہوگا۔ وہ جمعہ اب آگیاہے کیونکہ خداتعالیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعود ؑ کے ساتھ مخصوص رکھا ہے …مَیں سچ کہتاہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے۔ مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیاہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا، پا چکے …… سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خداتعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیاہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے۔ پس خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے توفیق چاہوکہ وہ تمہیں سیراب کرے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے بدوں کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ مَیں یقینا جانتاہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتاہے اور ہلاکت سے بچاتاہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتاہے۔ اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے۔ یہی کہ خداتعالیٰ نے جو دوحق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پرادا کرو۔ ان میں سے ایک خداکاحق ہے اور دوسرا مخلوق کا۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۳۴۔ ۱۳۵)
پس ہم میں سے ہر احمدی کو اس بات کی اہمیت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ امام الزمان کو مان کر ہم پربہت ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں۔ عبادات کی طرف خاص توجہ ہونی چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تمام عبادات کو بجا لانے کی کوشش کرنی چاہئے جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمایاکہ آپ کے زمانہ سے بھی جمعہ کو ایک خاص نسبت ہے۔ ہمیں اس بات کی اہمیت کو ہمیشہ پیش نظررکھنا چاہئے کہ دعاؤں پر بہت زیادہ توجہ دیں۔ خوش قسمتی سے آج کل رمضان کے دن گزر رہے ہیں۔ اور آخری عشرہ کے آخری چند دن ہیں۔ اس میں قبولیت دعا کی خوشخبریاں بھی دی گئی ہیں اس لئے ان دنوں میں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔ ایک حدیث میں آتاہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’دعا ہی عبادت ہے۔ پھرآپ ؐ نے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی {اُدْعُوْنِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ}(المومن:۶۱)۔ یعنی تمہارا ربّ فرماتاہے کہ مجھ سے مانگو مَیں قبول کروں گا۔ وہ لوگ جو تکبر کی وجہ سے میری عبادت نہیں کرتے وہ جہنم میں ذلیل ہوکرداخل ہوں گے ‘‘۔ (سنن ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء فی فضل الدعاء)
کتنے خوف کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ تویہ کہہ رہاہے کہ مَیں تمہاری نیک تمنائیں اور تمہاری دعائیں قبول کرنے کے لئے انتظار میں ہوں پھر بھی تم نہیں مانگ رہے۔ اور اس کے باوجود مَیں تمہیں یہ تحریص دلا رہاہوں کہ جمعہ کے روز ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے جب تمام دعائیں قبول ہو جاتی ہیں پھر بھی جیسے تمہاری توجہ پیداہونی چاہئے توجہ پیدا نہیں ہو رہی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ گھڑی بھی نصیب کرے اور دعاؤں کی توفیق بھی دے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز اور کوئی چیز نہیں ‘‘۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ اس سے ناراض ہوتاہے ‘‘۔ (سنن ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء فی فضل الدعاء)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے ربّ سے ہی ہر قسم کی حاجتیں مانگے۔ حتی کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے ہی مانگے۔ اور حضرت ثابت البنانی کی روایت میں ہے کہ نمک تک بھی اللہ ہی سے مانگے اور اگر جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے ہی مانگے۔ (ترمذی کتاب الدعوات یسأل الحاجۃ مھما صغرت)
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مَیں اپنے بندے کے پاس ہوتاہوں جہاں کہیں بھی وہ مجھے یاد کرے یا میرے ذکر سے اُس کے ہونٹ حرکت کریں۔ (بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ لا تحرک بہ لسانک)
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :تم میں سے جس کے لئے دعا کا دروازہ کھولاگیا تو اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین دعا یہ ہے کہ اس سے عافیت طلب کی جائے۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب فی الدعاء النبیﷺ )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : ’’انسان اپنے ربّ سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتاہے جب وہ سجدے میں ہو اس لئے سجدے میں بہت دعا کیاکرو‘‘۔ (مسلم کتاب الصلوٰۃ ما یقول فی الرکوع والسجود)
حضرت ابوسعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ :
’’جب بھی کوئی مسلمان کوئی ایسی دعا کرتاہے جس میں کوئی گناہ کی بات یا قطع رحمی کا عنصر نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا کردیتاہے۔ و ہ کیا تین باتیں ہیں۔ یاتو اس کی دعا جلد سنی جاتی ہے۔ یا پھر اس دعا کو آخرت کے دن اس کے کام آنے کے لئے ذخیرہ کر لیاجاتاہے۔ بخشش کے سامان پیدا کرنے کے لئے۔ یاپھر اللہ تعالیٰ اسی قدراس کی برائی اس سے دُور کر دیتاہے۔ اگر وہ اس رنگ میں پوری نہ بھی تو کوئی نہ کوئی اس کی برائی دُور ہو جاتی ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیاپھر تو ہم بہت دعا مانگیں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑھ کر عطا کرنے پر قادر ہے ‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل مسند ابی سعید الخدری جلد ۳ صفحہ۳۹۴ حدیث نمبر ۱۰۷۴۹)
تو دیکھیں آنحضرتﷺ نے ہمیں کس کس طرح دعاؤں کی طرف رغبت دلانے کی کوشش کی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتاہے کہ رمضان کے ان بقیہ دنوں میں بہت دعائیں کریں اپنے لئے، اپنے بیوی بچوں کے لئے، اپنے خاندان کے لئے، جماعت کے لئے۔ جب انسان دوسروں کے لئے دعا کرتاہے تو فرشتے اس کے لئے دعا کررہے ہوتے ہیں۔ یہ چیز ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ اس لئے جماعت کے بے کس اور بے بس افراد کے لئے بہت دعائیں کریں جو کسی نہ کسی صورت میں مخالفین کی تکلیفیں اٹھا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں تینوں رنگوں میں دعائیں قبول کرنے کا بھی حق رکھتاہے۔ بلکہ جیسا کہ یہاں بیان ہواہے کہ اس سے بھی بڑھ کر ہمیں عطاکر سکتاہے۔ وہ سب قدرتوں کا مالک ہے۔ اس کو کبھی محدود کر کے نہ دیکھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’…جو شخص دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف مونہہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا اور اندھا مرتا ہے … جو شخص روح کی سچائی سے دعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے۔ بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے۔ ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت میں دعا کے بعد وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تخت شاہی پر حاصل نہیں ہو سکتی۔ سو اسی کا نام حقیقی مرادیابی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۴ صفحہ ۲۳۷)
پھر آپؑ نے فرمایا :
’’دعا کا قبولیت کے ساتھ ایک رشتہ ہے۔ ہم اس راز کو معقولی طور پر دوسروں کے دلوں میں بٹھا سکیں یا نہ بٹھا سکیں مگر کروڑہا راستبازوں کے تجارب نے اور خود ہمارے تجربہ نے اس مخفی حقیقت کو ہمیں دکھلا دیا ہے کہ ہمارا دعا کرنا ایک قوّت مقناطیسی رکھتا ہے۔ اور فضل اور رحمتِ الٰہی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۴ صفحہ ۲۴۰۔ ۲۴۱)
آپؑ مزید فرماتے ہیں :
’’یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دعا جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں۔ ایک یہ کہ تا ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہوکر توحید پر پختگی حاصل ہو کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے۔ دوسرے یہ کہ تا دعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو۔ تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الٰہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے۔ (یعنی زیادہ ترتوجہ پیدا ہو علم اور حکمت حاصل کرنے کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کی طرف بھی)۔ چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رؤیا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اُسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الٰہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد نمبر ۱۴ صفحہ۲۴۲)
آپ فرماتے ہیں :’مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلاہٹ ایسی ہی اضطراری ہوکہ وہ اس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے اور اس کو کھینچ لاتی ہے۔ اورمَیں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتاہوں کہ خدا کے فضل اور رحمت کو جو قبولیت دعا کی صورت میں آتا ہے مَیں نے اپنی طرف کھینچتے ہوئے محسوس کیاہے بلکہ مَیں تو یہ کہوں گا کہ دیکھاہے۔
آپ فرماتے ہیں : ہر ایک جو اس وقت سنتاہے یاد رکھے کہ تمہارا ہتھیار دعا ہے اس لئے دعا میں لگے رہو۔ یہ یاد رکھو کہ معصیت اور فسق کو نہ واعظ دور کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اور حیلہ۔ اس کے لئے ایک ہی راہ ہے وہ دعا ہے۔ خداتعالیٰ نے یہی ہمیں فرمایاہے۔ اس زمانہ میں نیکی کی طرف خیال آنا اور بدی کو چھوڑنا چھوٹی سی بات نہیں ہے۔ یہ انقلاب چاہتی ہے اور یہ انقلاب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ دعاؤں سے ہوگا۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کریں۔ اس کا وعدہ ہے{اُدْعُوْنِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ}۔
پھر آپ نے فرمایا :وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے، وہ گداز کرنے والی آگ ہے، وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے، وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے، وہ ایک تندسیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے، ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔
مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں، تھکتے نہیں۔ کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دُعاؤں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔ مبارک تم جبکہ دُعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دُعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کردیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کو ٹھڑیوں او ر سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے۔ کیونکہ آ خر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم ورحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجز وں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جا ؤ اور پورے صدق اور وفا سے دُعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ۔ اور نفسیاتی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خدا کے لئے ہار اختیار کرلو اور شکست کو قبول کرلو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ۔ دُعاکرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا۔ اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائیگی۔ دُعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دُعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دُعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتاہے۔ اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اُس کی ایک الگ تجلّی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی گویا وہ اَور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں۔ مگر نئی تجلّی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلّی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتاہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہے۔
غرض دُعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتاہے۔ اس دُ عا کے ساتھ رُوح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آ ستانۂِ حضرت ِ احدیت پرگرتی ہے۔ ‘‘ (روحانی خزائن لیکچر سیالکوٹ جلد نمبر ۲۰ صفحہ ۲۲۲ تا ۲۲۳)
پس آئیں ہم سب مل کر ہمارا بچہ، ہمار اجوان، ہمارا بوڑھا، ہماری عورتیں، ہمارے مرد، آج اللہ تعالیٰ کے حضورگڑگڑا کر دعائیں کریں اور رمضان کے ان بقیہ دنوں میں جو کمیاں رہ گئی ہیں انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی راتوں کو اپنی عبادات کے ساتھ زندہ کریں۔ اپنے دنوں کو ذکرالٰہی سے تررکھیں۔ اوراللہ تعالیٰ سے اس کا رحم اور فضل طلب کریں۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کو معاف فرمائے، ہماری پردہ پوشی فرمائے، ہمارے پر اپنے رحم اور کرم کی نظر کرے، اللہ تعالیٰ ہمارے ان بھائیوں پررحم اور فضل فرمائے جو صرف اس وجہ سے تنگ کئے جا رہے ہیں کہ انہوں نے زمانے کے امام کو پہچانا اور مانا۔ اے اللہ ہمارے ایسے تمام مخالفین کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اس مخالفت سے باز آجائیں اور جو معصوم عوام کوورغلانے والے شیطان صفت لوگ ہیں ان کو عبرت کا نشان بنا دے۔ اور جہاں جہاں احمدی تنگی کی زندگی گزار رہے ہیں محض اور محض رحم کرتے ہوئے تنگی کے دن آزادی میں بدل دے اور ہمیں ہمیشہ اپنا عبادت گزار بندہ بنائے رکھے۔ اور اس رمضان میں ہم پر ہونے والے تمام فضلوں کو ہمیشہ جاری رکھے۔ اے خدا !ہم تجھ سے تیرے ہی الفاظ کا واسطہ دے کر مانگتے ہیں {اُدْعُوْنِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ}۔ اللہ تعالیٰ ہماری تمام دعائیں قبول فرمائے۔
جمعہ عید کا دن ہے اس کا ادا کرنا ہم پر دین نے واجب کیاہے
٭…جمعہ کی اہمیت، فرضیت، آداب اور برکات۔
٭…جمعۃ الوداع کی اصطلاح اور اس کے متعلق ایک غلط سوچ۔
٭…رمضان کی پاک تبدیلیوں کا تسلسل جاری رہنا چاہئے۔
٭…بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیر نہ پایا۔
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے نتیجہ میں ایک احمدی کی ذمہ داریاں۔ ٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے جمعہ کی خاص نسبت۔
٭…دعاؤں کی اہمیت اور قبولیت کی فلاسفی۔
٭…اپنی راتوں کو اپنی عبادات کے ساتھ زندہ کریں۔
۲۱؍نومبر ۲۰۰۳ ء بمطابق ۲۱؍ نبوت ۱۳۸۲ ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔