شیطانی وساوس اور اس سے بچنے کی کوشش
خطبہ جمعہ 12؍ دسمبر 2003ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدوتعوذکے بعددرج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی
{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ}۔ (سورۃ النور آیت ۲۲)
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے قدموں پر مت چلو۔ اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے تو وہ تو یقینا بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں کا حکم دیتا ہے۔ اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تو تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی پاک نہ ہو سکتا۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے۔ اور اللہ بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
قرآن کریم میں چار پانچ مختلف جگہوں پر یہ حکم ہے کہ شیطان کے قدموں پر نہ چلو، ان پر چلنے سے بچتے رہو۔ کبھی عام لوگ مخاطب ہیں اور بعض جگہ مومنوں کو مخاطب کیا گیاہے۔ تو ایمان لانے والوں کو یہ تنبیہ کی ہے، مومنوں کو یہ تنبیہ کی ہے کہ یہ نہ سمجھوکہ ہم ایمان لے آئے اس لئے ہمیں اب کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔ فرمایا کہ نہیں۔ تمہیں فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ جہاں تم ذرا بھی لا پرواہ ہوئے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری توجہ ہٹی تو تمہارا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔ کیونکہ شیطان گھات میں بیٹھا ہے۔ اس نے تو آدم کی پیدائش کے وقت سے ہی کہہ دیاتھا کہ اب مَیں ہمیشہ اس کے راستے پر بیٹھا رہوں گااور شیطان نے اپنے پر یہ فرض کر لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ جو بھی آدم اور اس کی اولاد کے لئے نیک راستے تجویز کرے گا وہ ہر وقت ہر راستے پر بیٹھ کر ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور شیطان نے یہ کہا کہ مَیں ان کے د لوں میں طرح طرح کی خواہشات پیدا کروں گا تاکہ وہ سیدھے راستے سے بھٹکتے رہیں۔ مختلف طریقوں سے انسانوں کو ورغلانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ اگر ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل بھی جائیں تو مَیں لگاتار حملے کرتارہوں گا کیونکہ مَیں تھک کر بیٹھنے والا نہیں ہوں۔ مَیں دائیں سے بھی حملہ کروں گا، مَیں بائیں سے بھی حملہ کروں گا، پیچھے سے بھی حملہ کروں گا، سامنے سے بھی حملہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کو اس نے ایک طرح کا چیلنج دیاتھاکہ ایسے ایسے طریقوں سے حملہ کروں گا کہ ان میں سے بہتوں کو توشکرگزار نہیں پائے گا۔ تو خیر وہ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جواب دیا لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ناشکرگزارلوگ ہوتے ہیں تو واضح ہوگیا کہ وہ شیطان کے قدموں پر چلنے والے ہیں۔ اور شیطان کے قدموں پر حکم بھی ہے کہ نہ چلو تو اس کا حکم کیاہے۔ جیساکہ واضح ہے کہ شیطان کا راستہ اختیار نہ کرو۔ ان باتوں پر عمل نہ کرو جو شیطان کے رستے کی طرف لے جانے والی ہیں۔ جب انسان مومن بھی ہو، پتہ بھی ہو کہ شیطان کا راستہ کون سا ہے اور پھر یہ بھی پتہ ہو کہ شیطان کا راستہ انتہائی بھیانک راستہ ہے۔ یہ مجھے تباہی کے گڑھے کی طرف لے جائے گا توپھر کیوں ایسا شخص جو ایک دفعہ ایمان لے آیاہو شیطان کے راستے کو اختیار کر ے گا اور اپنی تباہی کے سامان پیدا کرے گا۔ کوئی عقل والا انسان جس نے ایمان بھی دیکھ لیاہو، جانتے بوجھتے ہوئے کبھی بھی اپنے آپ کو اس تباہی میں نہیں ڈالے گا۔ تو پھرکیوں مومنین کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ شیطان کے راستے پر مت چلو، اس سے بچتے رہو۔ تو ظاہر ہے یہ وارننگ، یہ تنبیہ اس وجہ سے دی گئی ہے جیساکہ مَیں نے پہلے بھی بتایاہے کہ شیطان نے کھلے طورپر آدم کو، اس کی اولاد کو چیلنج دے دیا تھاکہ مَیں تمہیں ورغلاتا رہوں گا اور ایسے ایسے طریقوں سے ورغلاؤں گا، اور ایسی ایسی جہتوں سے حملہ کروں گا کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گاکہ ہوکیاگیاہے۔ اور یہ حملے ایسے پلاننگ سے اور آہستہ آہستہ ہوں گے کہ تم غیر محسوس طریق پر یہ راستہ اختیار کر تے چلے جاؤ گے میرا مسلک اختیار کرتے چلے جاؤ گے۔
ایک دوسری جگہ بھی اللہ تعالیٰ فرماتاہے{ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَـکُمْ عَدُوُّ مُّبِیْن}تم شیطان کے پیچھے نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں :۔ ’’اس آیت میں خُطُوَاتِ کا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ شیطان ہمیشہ قدم بقدم انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ کبھی یکدم کسی انسان کو بڑے گناہ کی تحریک نہیں کرتا بلکہ اسے بدی کی طرف صرف ایک قدم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور جب وہ ایک قدم اٹھا لیتا ہے تو پھر دوسرا قدم اٹھانے کی تحریک کرتا ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ اور قدم بقدم اسے بڑے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے۔ پس فرماتا ہے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تمہارا صرف چند احکام پر عمل کر کے خوش ہو جانا اور باقی احکام کو نظرانداز کر کے سمجھ لینا کہ تم پکے مسلمان ہو ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ اگر تم اسی طرح احکام الٰہیہ کو نظرانداز کرتے رہے تو رفتہ رفتہ جن احکام پر تمہارا اب عمل ہے ان احکام پر بھی تمہارا عمل جاتا رہے گا۔ پس اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہو۔ اور شیطانی وساوس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ۴۵۷)
پھر آپ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :’’اے مومنو! تم شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ اس لئے کہ جو شخص شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے گا وہ بدی اور بدکاری میں مبتلا ہو جائے گا۔ کیونکہ شیطان فحشاء اور منکرکا حکم دیتاہے۔ اس میں یہ بتایا گیاہے کہ ہر برائی جو دنیا میں پھیلتی ہے اس کی ابتداء بھیانک نہیں ہوتی۔ شیطان کا یہ طریق نہیں کہ کوئی خطرناک بات کرنے کے لئے ابتداء میں ہی انسان کو تحریک کرے۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں حیا ء و شرم کا مادہ رکھا گیاہے اس لئے جس کام کو انسان صریح طورپر برا سمجھے اس کوفوری طورپرکرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتا۔ مثلاً شیطان اگر کسی کو سیدھا ہلاکت کی طرف لے جانا چاہے تو وہ نہیں جائے گا، ہاں چکر دے کر لے جائے تو چلا جائے گا۔ پس شیطان پہلے ہی کسی بڑی بدی کی تحریک نہیں کرتابلکہ پہلے چھوٹی برائی کی جو بظاہر برائی نہ معلوم ہوتی ہو تحریک کرتاہے۔ پھر اس سے آگے چلاتاہے، پھر اس سے آگے، حتی کہ خطرناک برائی تک لے جاتاہے۔ گویا شیطان پہلے ہی گڑھے کے سرے پرلے جا کر انسان کو نہیں کہتاکہ اس میں کود پڑو بلکہ پہلے گھرسے دور لے جاتاہے۔ (اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں )جس طرح ڈاکو گھر کے پاس حملہ نہیں کر تے یا جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گھر کے پاس نہیں کرتے بلکہ ان کو دھوکہ اور فریب سے دور لے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں آؤ تمہیں مٹھائی کھلائیں اور جب شہر یا گاؤں سے باہر لے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اب کوئی دیکھنے والا نہیں تو گلا گھونٹ کر مار دیتے ہیں۔ (یہاں بھی ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں آپ پڑھتے ہیں اخباروں میں ) یہی طریق شیطان کا ہوتاہے۔ وہ پہلے انسان کو اس قلعہ سے نکالتاہے جہاں خدا نے انسان کو محفوظ کیا ہوا ہوتاہے۔ یعنی فطرت صحیحہ کے قلعہ سے۔ انسان اُس سے باہر چلا جاتاہے اور وہ سمجھتاہے کہ کوئی حرج نہیں مگر ہوتے ہوتے وہ اتنا دور چلا جاتاہے کہ پھر اس کا واپس لوٹنا مشکل ہو جاتاہے۔ اور شیطان کے پنجے میں گرفتار ہو کر تباہ ہو جاتاہے۔ جھوٹے الزامات کے ذکر کے ساتھ یہ نصیحت فرمائی کہ اس طر ف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم یہ نہ کہنا کہ یہ معمولی بات ہے کیا ہوا اگرکسی پر ہم نے زنا کا الزام لگا دیا۔ یا یہ کہ ہم نے تو نہیں لگایا کسی نے ہمیں بات سنائی اور ہم نے آگے سنا دی۔ شیطان کا یہی طریق ہے۔ وہ پہلے اپنے پیچھے چلا تا اور آہستہ آہستہ روحانیت اور شریعت کے قلعہ سے دور لے جاتاہے اور جب انسان دور چلا جاتاہے تو اس کو مارڈالتاہے۔ پس شیطان پہلے تو یہی کرے گاکہ تحریک کرے گا کہ دوسرے کی کہی ہوئی بات بیان کردو، تمہارا اس میں کیا حرج ہے۔ لیکن جب تم ایسا کر لوگے تو پھر خود تمہارے منہ سے ایسی باتیں نکلوائے گا جب یہ بھی کرلو گے تو پھر اس فعل کا تم سے ارتکاب کروا لے گا۔ پس تم پہلے ہی اس کے پیچھے نہ چلو اور پہلے ہی قدم پر اس کی بات کو رد ّکر دو تاکہ تم تباہی سے بچو، محفوظ رہو۔ اور اس رد ّکرنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کی، اس کے فضل کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہمیں نمازوں کے ذریعہ سے، استغفار کے ذریعہ سے اس کی مدد مانگتے رہنا چاہئے۔ پانچ وقت نمازوں کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی راستہ سکھایاہے کہ شیطان سے بچنے کے لئے پانچ وقت میرے حضور حاضر ہو اور میرا فضل مانگو تو انشاء اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رہوگے، بہت ساری برائیاں تمہارے اندر نہیں جائیں گی۔ کیونکہ شیطان تو جسم کے اندر ہروقت موجود ہے۔ جیساکہ اس حدیث سے ظاہر ہے۔
حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ ایسی عورتوں کے ہاں نہ جاؤجن کے خاوند غائب ہوں کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتاہے۔ (سنن دارمی کتاب الرقاق باب الشیطانی جری مجری الدم)
اب اس حدیث کی روشنی میں صرف اتنا ہی نہیں کہ ایسے گھروں میں نہ جاؤ جس گھر میں مرد نہ ہو ں بلکہ ایک رہنما اصول بتا دیا ہے کہ نامحرم کبھی آپس میں اس طرح آزادانہ اکٹھا نہ ہوں جس سے شیطان کو حملہ کرنے کا موقعہ مل جائے۔ بعض اور جگہ بھی اس بارہ میں احادیث ہیں جن میں سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ اس طرح مرد عورت اکٹھے نہ ہوں۔ اب آج کل کے زمانہ میں دیکھ لیں، کالجوں یونیورسٹیوں میں ابتدا میں دوستی ہوتی ہے لڑکے لڑکی کی اور کہا یہ جاتاہے کہ بس صرف دوستی ہے، سٹوڈنٹ ہیں، اور اس کو غلط رنگ نہ دیاجائے۔ اور جو اس طرح دوستی کرنے سے منع کرے اسے سخت برا بھلا کہا جاتاہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ اس حد تک پہنچ جاتاہے کہ جہاں پچھتاوے کے سوا کچھ اور نہیں رہتا۔ تو یہ اسلامی احکامات پرعمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ اور یہی ہے جو شیطان آہستہ آہستہ اپنا کام دکھاتاہے۔ پھر آج کل جو معاشرے میں کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ دوستوں کا گھروں میں آنا جانا شروع ہو جاتاہے۔ پہلے تو دوستوں کی موجودگی میں، پھر تعلقات بڑھ جاتے ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں آنا جانا اور بے تکلفیاں ہوتی ہیں اور پھر یہ بڑھتی چلی جاتی ہیں اور اس کا پھر نتیجہ کیا نکلتاہے بہت سارے ایسے معاملات ہوتے ہیں جس میں پھر دونوں طرف سے گھر اجڑ جاتے ہیں۔ تو یہ سب اسلامی تعلیم پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
انٹرنیٹ کی مثال میں کئی دفعہ دے چکاہو ں۔ کئی گھر اس کی وجہ سے برباد ہوئے۔ تو اللہ تعالیٰ کی حدود سے جب تجاوز کریں گے، احکامات پر عمل نہیں کریں گے تو لازماً شیطان حملہ کرے گا۔
پھر بے شمار برائیاں ہیں جو شیطان بہت خوبصورت کرکے دکھا رہا ہوتاہے اور جن سے اللہ کے فضل کے بغیر بچنا ممکن نہیں۔ مثلاً ایک اچھا بھلا شخص جو بظاہر اچھا بھلا لگتاہے، کبھی کبھار مسجد میں بھی آجاتاہے، جمعوں میں بھی آتاہوگا، چندے بھی کچھ نہ کچھ دیتاہے لیکن اگر کاروبار میں منافع کمانے کے لئے دھوکہ دیتاہے تووہ شیطان کے قدموں کے پیچھے چل رہاہے۔ اور شیطان اس کو مختلف حیلوں بہانوں سے لالچ دے رہاہے کہ آج کل یہی کاروبار کا طریق ہے۔ اگر تم نے اس پرعمل نہ کیا تو نقصان اٹھاؤگے اور وہ اس کہنے میں آ کر، ان خیالات میں پڑ کر، اس لالچ میں دھنستا چلا جاتاہے اور آہستہ آہستہ جو تھوڑی بہت نیکیاں بجا لارہاہوتاہے وہ بھی ختم ہوجاتی ہیں اور مکمل طورپر دنیا داری اسے گھیرلیتی ہے اور ایسے لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب یہی ہے ہماری زندگی، شایداب موت بھی نہیں آنی اور ہمیشہ اسی طرح ہم نے رہناہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر نہیں ہونا۔ تو ایسے طریقے سے شیطان ایسے لوگوں کو اپنے قبضہ میں لیتاہے کہ بالکل عقل ہی ماری جاتی ہے۔ پھر جب ایک برائی آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل اٹھ جاتاہے تو اس طرح پھر ایک کے بعد دوسری برائی آتی چلی جاتی ہے اور ایسے لوگ پھر دوسروں کے حقوق مارنے والے بھی ہوتے ہیں، دوسروں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ بہن بھائیوں کی جائیدادوں کو کھاجانے والے بھی ہوتے ہیں، رحمی رشتوں کو بھلا دینے والے بھی ہو جاتے ہیں۔ غرض ہر قسم کی نیکی، ہر قسم کی برکت ان پر سے، ان کے گھروں سے اٹھ جاتی ہے اور یہ آپ بھی پھر آہستہ آہستہ بے راہروی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی بے راہروی کا شکار ہوجاتی ہیں اور انجامکار یہی نتیجہ نکلتاہے کہ ایسے لوگ پھر جماعت میں بھی نہیں رہتے۔ توشیطان کے ایسے پیروکاروں سے اللہ تعالیٰ خود بھی جماعت کو پاک کردیتاہے۔ اگر آپ جائزہ لیں تو خود بھی آپ جائزہ لے کر یہی دیکھیں گے اور یہ بڑا واضح اور صاف نظرآجائے گا کہ جماعت کو چھوڑنے والے اکثر ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہرایک کو ایسے ماحول سے بچائے، ایسی سوچوں سے بچائے، ایسے لوگوں سے بھی بچائے جن کا اوڑھنا بچھونا صرف دنیا کی لذات ہیں اور جو شیطان کے راستے پر چلنے والے ہیں۔ جیساکہ مَیں نے بتایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ان شیطانی راستوں سے بچنے کا طریق صرف ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، اس کے آگے جھکو، اس کے سامنے روؤ، فریاد کرو، گڑگڑاؤ کہ اے اللہ شیطان ہرطرف سے ہم پرحملے کر رہاہے اب توُ ہی ہے جو ہمیں اس گند سے بچا سکتاہے، اور شیطان کے حملوں سے بچا سکتاہے۔
حضرت مصلح موعود اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ :۔
’’{ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ۔ } فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اے مومنو!شیطانی طریق اور شیطانی مذہب اور شیطانی اثر کو اختیار نہ کرو اور اس امر کو یاد رکھو کہ جو شخص شیطانی طریق اور مسلک کو قبول کرتاہے وہ لازماً بدی اور ناپسندیدہ باتوں کے پیچھے پڑ جاتاہے۔ کیونکہ شیطان ہمیشہ بدی اور ناپسندیدہ باتوں کی ہی تحریک کیا کرتاہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ کامل پاکیزگی بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے حاصل نہیں ہوسکتی۔ پس اس کا طریق یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو اور اپنے حالات کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ لوگوں کی طرح بناؤ تاکہ وہ یہ دیکھ کر کہ تم پاکیزہ بننے کی کوشش کر رہے ہو تمہیں پاکیزہ بنادے۔
پھر آپ نے فرمایا کہ :
’’شیطان ہمیشہ انسان کے پیچھے پڑا رہتاہے حتی کہ جب انسان خداتعالیٰ پرایمان لے آتاہے تب بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتارہتاہے۔ اور کئی لوگ اس کے دھوکے میں آ کرایمان لانے کے بعد بھی اس کی باتوں کو ماننے لگ جاتے ہیں اور مرتد اور فاسق ہو جاتے ہیں اور یہ خطرہ اس قدر عظیم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کوئی شخص بھی اس خطرہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ مگر اس فضل کو جذب کرنے کا طریق یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفت سَمِیْعٌ سے فائدہ اٹھائے اور اس کے دروازے کو کھٹکھٹائے۔ اگر وہ اس کے دروازے کو کھٹکھٹائے گا اور اس سے دعائیں کرنا اپنا معمول بنالے گاتو اللہ تعالیٰ جو علیم ہے اور اپنے بندوں کے حالات اور ان کی کمزوریوں کو خوب جانتاہے اس کے دل میں ایسی ایمانی قوت پیدا کر دے گا جس کے نتیجہ میں وہ شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جائے گا اور اسے طہارت اور پاکیزگی میسر آ جائے گی‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۲۸۱)
جب دعائیں کررہے ہوں شیطان سے بچنے کے لئے جو کہ روز ہر احمدی کو ضرور کرنی چاہئیں تو آنحضرتﷺ کی اس دعا کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ حدیث میں آتاہے۔
حضرت عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں کچھ دعائیہ کلمات سکھائے اور دعائیہ کلمات سکھانے میں آپ ؐ کا انداز وہ نہ ہوتا تھا جو تشہد سکھاتے وقت ہوتاتھا۔ وہ کلمات یہ ہیں کہ:-
’’اے اللہ !ہمارے دلوں میں محبت پیدا کردے۔ اور ہمار ی اصلاح کردے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا۔ اور ہمیں ظاہری اور باطنی فواحش سے بچا۔ اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہمارے دلوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولاد وں میں برکت رکھ دے۔ اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقیناتو ہی توبہ قبول کرنے والا اور باربار رحم کرنے والاہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کاشکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر وہ نعمتیں مکمل فرما‘‘۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰ ۃ باب التشہد)
اب اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنے کے لئے یہ کتنی خوبصورت دعا ہے کہ شیطان کے حیلوں، اس کی طرف سے پیدا کئے ہوئے وسوسوں، اس کی شرارتوں سے بچنے کے لئے اللہ کا فضل اور اس کی پناہ ضروری ہے۔ تو سب سے بڑھ کر انسان کا اپنا نفس ہے جو ایسی باتوں کا شکار ہوتاہے۔ کہ گو وہ اس حد تک تو نہیں پہنچتا جیسے کہ مَیں نے پہلے مثال دی ہے کہ بگڑتے بگڑتے اتنی دورچلے جاتے ہیں کہ نیکوں کی جماعت میں رہ ہی نہیں سکتے۔ لیکن بعض چھوٹی چھوٹی بیماریاں جو ہیں ان کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چا ہئے۔ مثلاً کوئی جماعتی عہدیدار ہے، کارکن ہے یا کوئی شخص دنیاوی انتظامیہ میں ہے کہ عام روزمرہ کے تعلق اور واسطوں میں ہوتاہے کہ اگرکسی کو کوئی خدمت کرنے کا موقع مل جائے، کسی کام پر مقررکردیاجائے تو مقرر ہونے کے بعد اپنے سے پہلے عہدیدار یا کارکن کے متعلق نقائص نکالنے شروع کردے کہ دیکھو یہ کام مَیں نے کیسے اعلیٰ رنگ میں کرلیاہے جب کہ مجھ سے پہلے عہدیدار یا کارکن سے ہوہی نہیں سکا۔ یااس میں اتنی لیاقت ہی نہیں تھی کہ وہ کر سکتا۔ جب کہ صحیح طریق تو یہ ہے کہ اگر کام ہو گیاہے تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے مجھے یہ توفیق دی کہ یہ کام میرے ذریعہ سے ہو گیاہے۔ اور یہ دعا کرے کہ اے اللہ !اب اس وجہ سے میرے دل میں کوئی بڑائی نہ آنے دینا اور میری اصلاح کردینا۔ تو اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو روزمرہ ہوتے رہتے ہیں۔ تو انسان کو ہمیشہ یہ مدنظر رکھناچاہئے ورنہ شیطان کے راستے پر چل کر کم از کم جو اچھا کام بھی ہواہو، ان کاموں کومکمل کرنے کے بعدیونہی اپنی نیکی کا اظہار کرنے کے بعدکہ دیکھو مَیں نے یہ کردیا، وہ کردیا، اپنی نیکی کو برباد کرنے والی بات ہے۔ جب اس نہج پر اپنی اصلاح کی کوشش کرتاہے تو یہی سلامتی کا راستہ ہے۔ انسان کی بچت اسی میں ہے کہ سلامتی کے راستے تلاش کرے ورنہ پھر جیساکہ فرمایا کہ تم روشنی سے اندھیروں کی طرف جاؤ گے اور یہ شیطان کا راستہ ہے روشنی سے اندھیروں کی طرف جانا۔ اس لئے ہمیشہ شیطان سے پناہ مانگتے رہو۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو اور یہ دعا کرو کہ اے اللہ !ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا اور ہر قسم کی فواحش سے ہمیں بچا۔ چاہے وہ ظاہری ہوں، چاہے باطنی ہوں۔ اور ظاہری سے تو پھربعض خوف ایسے خوف ایسے ہوتے ہیں جو روکنے میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن چھپی ہوئی فواحش جو ہیں یہ ایسی ہیں جو بعض دفعہ انسان کو متأثر کرتے ہوئے بہت دور لے جاتے ہیں۔ مثلاً بعض دفعہ غلط نظارے ہیں، غلط فلمیں ہیں، بالکل عریاں فلمیں ہیں، اس قسم کی دوسری چیزوں کو دیکھ کر آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہو رہا ہوتاہے انسان۔ پھر خیالات کا زناہے، غلط قسم کی کتابیں پڑھنا، یا سوچیں لے کرآنا۔ بعض ماحول ایسے ہیں کہ ان میں بیٹھ کر انسان اس قسم کی فحشاء میں دھنس رہاہوتاہے۔ پھر کانوں سے بے حیائی کی باتیں سننا۔ تویہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ ہمارا ہرعضو جو ہے اسے اپنے فضل سے پاک کر دے۔ اور ہمیشہ اسے پاک رکھ اور شیطان کے راستے پر چلنے والے نہ ہوں۔ اور ہم سب کو شیطان کے راستے پر چلنے سے بچا۔
پھربعض گھرو ں میں بیویوں کی وجہ سے یا خاوندوں کی وجہ سے بعض مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ آپس کے گھریلو تعلقات، عائلی تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ ذرا ذراسی بات پر کھٹ پٹ شروع ہو جاتی ہے۔ یامیاں بیوی کے دوستوں اور سہیلیوں کی وجہ سے بعض مسائل پیدا ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو ان دوستوں کے اپنے کردار ایسے ہوتے ہیں کہ آپس میں میاں بیوی کے تعلقات غیر محسوس طریقے سے وہ بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ شیطان ہے جو غیر محسوس طریقوں پر ایسے گھروں کو اپنے راستوں پرچلانے کی کوشش کرتاہے۔ پھر اولاد ہے، نیک اولاد ایک نعمت ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہئے۔ اولاد ذرا بگڑ جائے تو ماں باپ کو بڑی فکر پیدا ہو جاتی ہے، حال خراب ہو جاتاہے۔ پھر لڑکیاں بعض ایسی جگہ شادی کرنا چاہتی ہیں جہاں ماں باپ نہیں چاہتے، بعض وجوہ کی بنا پر، مثلا ً لڑکا احمدی نہیں ہے، یادین سے تعلق نہیں ہے۔ مگر لڑکی بضد ہے کہ مَیں نے یہیں شادی کرنی ہے۔ پھرلڑکے ہیں، بعض ایسی حرکات کے مرتکب ہو جاتے ہیں جو سارے خاندان کی بدنامی کا باعث ہو رہا ہوتاہے۔ تو اس لئے یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ ہماری اولاد وں کی طرف سے ہمیں کسی قسم کے ابتلا کا سامنانہ کرنا پڑے بلکہ ان میں ہمارے لئے برکت رکھ دے۔ اور یہ دعا بچے کی پیدائش سے بلکہ جب سے پیدائش کی امید ہو تب سے شروع کر دینی چاہئے۔ یہ جو اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے کہ{رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیٰتِنَاقُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا} تواولاد کے قرۃ العین ہونے کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ تو جب ہر وقت انسان یہ دعا کرتے رہے کہ اے اللہ !تو ہم پررحمت کی نظر کر، اور ہم پر رحمت کی نظر ہمیشہ ہی رکھنا، کبھی شیطان کو ہم پر غالب نہ ہونے دینا، ہماری غلطیوں کو معا ف کردینا۔ اور ہم تجھ سے تیری بخشش کے بھی طالب ہیں، ہمارے گناہ بخش۔ اور ہمارے گناہ بخشنے کے بعد ہم پر ایسی نظر کرکہ ہم پھر کبھی شیطان کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ اور جب اتنے فضل توُہم پر کردے تو ہمیں اپنی نعمتوں کا شکرادا کرنے والا بنا، ان کو یاد رکھنے والا بنا اور سب سے بڑی نعمت جو تو نے ہمیں دی ہے وہ ایمان کی نعمت ہے، ہمیشہ ہمیں اس پر قائم رکھ، کبھی ہم اس سے دور جانے والے نہ ہوں۔ اور دعا پڑھتے رہیں۔ {رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔ }۔ اگر دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہوگی تو شیطان مختلف طریقوں سے، مختلف راستوں سے آکر ورغلاتا رہے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے بغیر نہیں بچا جا سکتا، جیسے کہ مَیں پہلے بیان کرتا آرہاہوں۔ اللہ تعالیٰ اسے ہی بات کرتاہے جو پیشگی اس سے دعائیں مانگے اور جس پر اس کی رحمت ہو۔ اور یہ رحمت اس وقت اور بھی بہت بڑھ جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوجائے۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں۔ کہ ایک بزرگ تھے جن کے پاس ان کا شاگرد کافی عرصہ رہا اور تعلیم حاصل کرتا رہا۔ جب وہ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنے گھر جانے لگا تو اس بزرگ نے اس سے دریافت کیاکہ میاں تم اپنے گھر جارہے ہو کیاتمہارے ملک میں شیطان ہے؟ وہ یہ سوال سن کر حیران رہ گیا۔ اور اس نے کہا شیطان بھلا کہاں نہیں ہوتا۔ ہر ملک میں شیطان ہوتاہے اور جہاں مَیں جارہاہوں وہاں بھی شیطان موجود ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا۔ اگر وہاں شیطان ہے تو پھر جو کچھ تم نے میرے پاس رہ کر علم حاصل کیا ہے جب اس پر عمل کرنے لگو گے تو لازماً شیطان تمہارے رستہ میں روک بن کر حائل ہوگا۔ ایسی حالت میں تم کیا کروگے ؟ وہ کہنے لگا مَیں شیطان کا مقابلہ کروں گا، اس سے لڑوں گا۔ وہ بزرگ کہنے لگے بہت اچھا تم نے شیطان کامقابلہ کیا اور وہ تمہارے دفاع کی تاب نہ لاکر بھاگ گیا۔ لیکن جب پھر تم عمل شروع کروگے وہ حملہ کرے گا تو پھر کیا کروگے۔ انہوں نے کہا پھرمَیں شیطان کا مقابلہ کروں گا۔ پھر اگر وہ دوڑ جائے گا پھرعمل کرنے لگو گے توپھر آجائے گا۔ جب دو تین دفعہ اس نے پوچھا تو شاگر دنے کہا کہ مجھے تو سمجھ نہیں آئی آپ مجھے بتائیں مَیں کس طرح مقابلہ کروں۔ جب مَیں مقابلہ کرنے لگوں گاتو شیطان دوڑ جائے گا۔ جب میں عمل کرنے لگوں گا تو شیطان پھر آ جائے گا۔ توبزرگ نے کہا کہ اگر تم اپنے کسی دوست کے گھرجاؤ اور اس کے دروازے پر ایک کتا بندھاہو اور وہ تمہیں کاٹنے کو پڑ جائے تو تم کیا کروگے۔ اس نے کہا مَیں اس کا مقابلہ کروں گا جومیرے ہاتھ میں سوٹی ہے، چھڑ ی ہے یا زمین پر کوئی روڑہ پتھر نظر آئے تو اس کوماروں گا اور اس کو بھگا دوں گا۔ اس نے کہاٹھیک ہے دوڑ گیا۔ پھر جب تم اس کے دروازے میں داخل ہونے لگو پھر تمہاری ٹانگ پکڑ لے گا توپھر کیا کروگے۔ کہاپھر مَیں اسی طرح ماروں گا۔ تو دو تین دفعہ جب انہوں نے پوچھا کہ کیاکرو گے کتے کے ساتھ۔ تو کہنے لگا آخرمیں یہی ہوگا کہ اس دوست کو آواز دو ں گا کہ تمہارا کتامجھے آنے نہیں دے رہا تم میری جان چھڑاؤ اس سے۔ تو اس بزرگ نے کہاکہ یہی شیطان کاحال ہے۔ شیطان بھی اللہ میاں کا کتاہے۔ جب انسان پر باربار حملہ آور ہو اور اس کو اللہ تعالیٰ کے قریب نہ ہونے دے تو اس کا یہی علاج ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارواور اسے آواز دو کہ اے اللہ !مَیں آپ کے پاس آنا چاہتاہوں مگر آپ کا یہ کتا مجھے آنے نہیں دیتا۔ اسے روکئے تاکہ مَیں آپ کے پاس پہنچ جاؤں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اسے روک دے گا اور انسان شیطان کے حملے سے محفوظ ہوجائے گا۔ تو فرماتے ہیں کہ غرض طہارت کامل جس کے بعد کوئی ارتداد اور فسق نہیں ہوتا محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ پہلے انسان آپ پاک ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگے، اس کے آگے روئے، گڑگڑائے کہ مجھے شیطان سے بچا تو پھر اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل حال ہو جاتاہے اور پھر فرمایا کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے جسے انسانی دعائیں اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں۔ تویہ ہے شیطان سے بچنے کا طریقہ کہ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مددمانگو اور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاؤ اور غیراللہ سے دل نہ لگاؤ۔
پھر حدیث میں شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے یہ دعا سکھائی ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرمایا کیامَیں تمہیں ایک ایسی دعا نہ بتاؤں جو ہمیں رسول اللہﷺ سکھایا کرتے تھے۔ وہ یہ دعا تھی کہ اے اللہ !مَیں عاجز آجانے، سستی، بخل، بزدلی، انتہائی بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آنا چاہتاہوں۔ اے میرے اللہ میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطاکر۔ {وَذَکِّھَا وَاَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکّٰھَا} اور اس کو، نفس کو پاک کر اور توُ ہی بہترین پاک کرنے والاہے۔ انسان کو پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ مَیں ہی ہوں جسے چاہتاہوں پاک کرتاہوں توُ اس کاولی اور اس کا مولیٰ ہے۔ اے اللہ !مَیں ایسے دل سے تیری پناہ مانگتاہوں جو خشوع اختیار نہیں کرتا اور ایسے دل سے جو کبھی سیر نہیں ہوتا اور ایسے علم سے جو نفع نہیں دیتا۔ اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔ (سنن نسائی کتاب الاستعاذہ باب الاستعاذہ من العجز)
اب یہ بھی ایک بڑی جامع دعا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو پاک کرتی ہے اور پاک رکھتی ہے، شیطان کے حملوں سے بچاتی ہے۔ کوئی شخص اپنے زور بازو سے کبھی بھی پاک صاف نہیں ہو سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جسے چاہتی ہے پاک کرتی ہے اور پاک کرنے کے لئے بھی ایک مُزَکِّی کی ضرورت ہے۔ جو پاک کرنے والاہو۔ اور جماعت سے علیحدہ ہوکر کوئی جتنامرضی دعویٰ کرے کہ ہم بہت پاکیزہ ہو گئے ہیں اور شکرہے ہم آزاد ہوگئے جماعت سے، یہ سب ان کے دعوے ہیں اور جاکردیکھنے سے پاکیزگی ان کے گھرمیں کبھی نظر نہیں آئے گی۔ تومُزَکِّی بھی اللہ تعالیٰ کے خاص لوگ ہوتے ہیں، انبیاء ہوتے ہیں۔ تو ان کے ساتھ تعلق جوڑنے والے بھی پاک ہو سکتے ہیں۔ جو ان سے تعلق نہ جوڑے وہ کبھی بھی پاک نہیں کہلاسکتے۔ تو اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی اس میں یہ جو فرمایاہے کہ جس کو چاہتاہے پاک کرتاہے حضرت مصلح موعودؓ نے لکھاہے کہ اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اندھا دھند جس کو چاہے پاک کردے گااور جس کو نہیں چاہے گا نہیں پاک کرے گا۔ پھر تو نیکیاں کرنے کا، اس کا فضل مانگنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں رہتا۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو خدا کا پسندیدہ ہو جاتاہے اور اس کے احکام پرعمل کرنے والاہوجاتاہے اسے خدا اپنا محبوب بنا لیتاہے۔ اور اسے پاک کر دیتاہے۔ تو اس زمانہ میں محبوب وہی ہیں جواس کے محبوب کے محبوب ہیں۔ جو اس کے محبوب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ تو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق رکھنے والے ہی اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے پاکیزگی کا تعلق رہنا چاہئے اور شیطان سے بچنے کے لئے، پاک ہونے کے لئے ہر وقت سمیع وعلیم خدا سے اس کا فضل مانگتے رہنا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :{فلَاَ تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ} سے بھی یہی ثابت ہوتاہے کہ معصوم اور محفوظ ہونا تمہارا کام نہیں ہے خداکاہے۔ ہرایک نور اور طاقت آسمان سے ہی آتی ہے۔ (البدر جلد ۲ نمبر ۴۴ مورخہ ۱۹؍جون ۱۹۰۳ ء )
تزکیہ ٔ نفس ایک ایسی شئی ہے کہ خود بخود نہیں ہو سکتا اس لئے خداتعالیٰ فرماتاہے {فَلَا تُزَکُّوااَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی}کہ تم یہ خیال نہ کرو کہ ہم اپنے نفس یاعقل کے دذریعہ سے خود بخود مُزَکِّی بن جاویں گے۔ یہ بات غلط ہے۔ وہ خوب جانتاہے کہ کون متقی ہے۔ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مورخہ ۲۵؍ستمبر ۱۹۰۳ ء )
پھر فرماتے ہیں کہ:
’’عزیزو!خداتعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو۔ موجودہ فلسفے کی زہر تم پر اثر نہ کرے۔ ایک بچے کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو۔ نماز پڑھو، نماز پڑھوکہ وہ تمام طاقتوں کی کنجی ہے اور جب توُ نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ کر کہ گویاکہ رسم ادا کر رہاہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہر وضو کرتے ہو ایسے ہی باطنی وضو بھی کرو اور اپنے اعضاء کو غیراللہ کے خیال سے دھوڈالو۔ تب تم دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ اور نماز میں بہت دعا کر و۔ اور رونا اور گڑگڑانا اپنی عادت کرلو تا تم پر رحم کیاجائے۔ سچائی اختیار کرو، سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہاہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں۔ کیا انسان اُس کو بھی دھوکہ دے سکتاہے ؟کیا اس کے آگے بھی مکاریاں پیش جاتی ہیں۔ نہایت بدبخت آدمی اپنے فاسدانہ افعال کو اس حد تک پہنچاتاہے کہ گویا خدا نہیں۔ تب وہ بہت جلد ہلاک کیا جاتاہے اور خداتعالیٰ کو اس کی کچھ بھی پروا نہیں ہوتی۔
عزیزو! اس دنیاکی مجرد منطق ایک شیطان ہے اور اس دنیا کا خالی فلسفہ ایک ابلیس ہے جو ایمانی نور کو نہایت درجہ گھٹا دیتاہے او ر بے باکیاں پیدا کرتاہے اور قریب قریب دہریت تک پہنچاتاہے۔ سو تم اس سے اپنے آپ کو بچاؤ اور ایسا دل پیدا کرو جو غریب اور مسکین ہو اور بغیر چون و چرا کے حکموں کو ماننے والے ہو جاؤ۔ بغیر چون و چرا کے حکموں کو ماننے والے ہو جاؤ جیسا کہ بچہ اپنی والدہ کی باتوں کو مانتاہے۔ قرآن کریم کی تعلیمیں تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچانا چاہتی ہیں ان کی طرف کان دھرو اور ان کے موافق اپنے تئیں بناؤ۔
پھر آپ نے فرمایا :
’’تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔ بڑے ہو کر چھوٹوں پررحم کرو نہ ان کی تحقیر۔ اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرونہ خود نمائی سے ان کی تذلیل۔ اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کر و نہ خود پسندی سے ان پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کر و۔ … خدا چاہتاہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتاہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ و ہ تفرقہ ڈالتاہے۔ تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہوکر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہوسکتا۔ کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور مَیں نے بیان کیں۔ تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خد اراضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتاہے۔ اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتاہے اور نہیں بخشتا۔ …… تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تاوہ بھی تمہارا دوست بن جائے۔ تم ماتحتوں پراور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔ تم سچ مچ اس کے ہو جاؤ تاوہ بھی تمہارا ہوجائے ‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲۔ ۱۳)
پھر آپ نے فرمایا :’’خدا تعالیٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ اس لئے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو۔ غرض اصلاح نفس کے لئے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے۔ اس میں جس قدر توکل اور یقین اللہ تعالیٰ پر کرے گا اور اس راہ میں نہ بہکنے والا قدم رکھے گا۔ اسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے۔ تمام مشکلات دور ہوجائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جاوے گا۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خداتعالیٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہو سکتا۔ نفسانی جذبات پر محض خداتعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے۔ اور یہ فضل اور جذبہ دعا ہی سے پیدا ہوتاہے۔ اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ ۶۵۸)
پھر آپ ؑ نے فرمایا :
تقویٰ کے دو درجے ہیں۔ بدیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سرگرم ہونا۔ دوسرا مرتبہ محسنین کا ہے۔ اس درجے کے حصول کے بغیر اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہو سکتا اور یہ مقام اور درجہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل بھی نہیں ہو سکتا۔ جب انسان بدی سے پرہیز کرتاہے اور نیکیوں کے لئے اس کادل تڑپتاہے اور وہ خداتعالیٰ سے دعائیں کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی دستگیری کرتاہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دارالامان میں پہنچا دیتاہے (یعنی امن کی جگہ پہنچا دیتاہے)۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھے، اپنی رضا کی راہوں پر چلائے، ہمیں اپنے عبادت گزار بندوں میں سے بنائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے احکامات کی روشنی میں اپنے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہمیشہ اپنے دارالامان میں رکھے۔
اللہ کے حقوق سے تجاوز کریں گے تو شیطان ضرور حملہ آور ہوگا
٭…اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہو اور شیطانی وساوس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو۔
٭…شیطان سے بچنے کے لئے خدا کے فضل کے ساتھ ساتھ نمازوں اور استغفار پر التزام ضروری ہے۔
٭…آج کل کے زمانے میں ایک معاشرتی کمزوری لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستی اور اس کے نقصان دہ اثرات۔
٭…انٹرنیٹ کے مضر استعمال اور اس کے نقصانات۔
٭…شیطان سے بچنے کے لئے روزانہ کی جانے والی دعا …
٭…عائلی معاملات میں اور دیگر معاشرتی امور میں شیطان کی پیدا کردہ رکاوٹیں۔
۱۲؍دسمبر ۲۰۰۳ ء بمطابق ۱۲؍فتح ۱۳۸۲ ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔