خدا تعالیٰ کی پرستش کرو،والدین سے احسان اور یتیموں سے حسن سلوک سے پیش آؤ
خطبہ جمعہ 23؍ جنوری 2004ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
{وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا }۔ (النساء :۳۷)
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے والدین سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کے بارہ میں کچھ عرض کیا تھا۔ ابھی جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میری عبادت کرو اور اس طرح عبادت کرو کہ جو عبادت کا حق ہے۔ یہ چھوٹے بُت یا بڑے بُت یا دلوں میں بسائے ہوئے بُت تمہیں کسی طرح بھی میری عبادت سے روک نہ سکیں۔ پھر والدین سے حسن سلوک کاحکم ہے، اُن سے حسن سلوک کرو۔ اور اس حسن سلوک کا بھی مختلف جگہوں پر مختلف پیرایوں میں ذکر آیا ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ دو بنیادی باتیں ہیں اگر تم میں پیدا ہوگئیں تو پھر آگے ترقی کرنے کے لئے اور منازل بھی طے کرنی ہوں گی۔ دین کی صحیح تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تم نے اخلاق کے اور بھی اعلیٰ معیار دکھانے ہیں۔ اگر یہ معیار قائم ہو گئے تو پھر تم حقیقی معنوں میں مسلمان کہلانے کے مستحق ہو اور اگر یہ معیار قائم کر لئے اور اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کر لئے تو پھر ٹھیک ہے تم نے مقصد پا لیا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن گئے اور انشاء اللہ بنتے رہو گے۔ اور اگر یہ اعلیٰ معیار قائم نہ کئے اور تکبر دکھاتے رہے اور ہر وقت اسی فکر میں رہے کہ اپنے آپ کو مَیں کسی طریقے سے نمایاں کروں تو یاد رکھو کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں۔ پھر تو حقوق العباد ادا کر نے والے نہیں ہوگے بلکہ اپنی عبادتوں کو ضائع کرنے والے ہوگے۔ اگر حسن خلق کے اعلیٰ معیار قائم نہ کئے تو اس کے ساتھ ساتھ اپنی عبادتوں کو بھی ضائع کر رہے ہوگے۔ اور وہ معیار کیا ہیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم قائم کریں۔ فرمایا وہ معیار یہ ہے کہ تم قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو۔ وہ قریبی رشتہ دار جو تمہارے ماں باپ کی طرف سے تمہارے قریبی رشتہ دار ہیں، تمہارے رحمی رشتہ دار ہیں۔ پھر جو شادی شدہ لوگ ہیں ان کی بیوی کی طرف سے یا بیوی کے خاوند کی طرف سے رشتہ دار ہیں یہ سب قرابت داروں کے زمرہ میں آتے ہیں۔ اور ان رشتوں سے حسن سلوک کا عورت اور مرد کو یکساں حکم ہے، ایک جیسا حکم ہے۔ جب عورت اور مرد ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک کر رہے ہوں گے، ایک دوسرے کے قریبیوں سے اچھے اخلاق سے پیش آ رہے ہوں گے، ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کررہے ہوں گے تو ظاہر ہے کہ میاں بیوی دونوں میں آپس میں بھی محبت اور پیار کا تعلق خود بخود بڑھے گا۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو فرمایا کہ قربت کے رشتوں کی یعنی رحمی رشتوں کی حفاظت کر رہے ہوگے تو پھر تم میرے پسندیدہ ہوگے۔
پھر فرمایا کہ اپنے گھر میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے والا اپنے ماحول میں مست ہو جاتا ہے کہ ارد گرد کی فکر نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری پسندیدگی کے کچھ حصے تو تم نے حاصل کرلئے ہیں، کچھ کام تو تم سرانجام دے رہے ہو، میری ہدایات پر کچھ تو عمل کر رہے ہو لیکن مومن کے معیار تو بہت بلند ہیں اس لئے حسن سلوک کی اور بھی بہت ساری منازل ہیں جو طے کرنی ہیں تب تم عبادالرحمن کہلانے کے مستحق ہوسکتے ہو۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ یتیموں سے بھی حسن سلوک کرو، ان کا بھی خیال رکھو، ان کو معاشرے میں محرومی کا احساس نہ ہونے دو اور اس حدیث کو یاد رکھو کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والے جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے جس طرح دو انگلیاں ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یتامیٰ کی خبر گیری کا بڑا اچھا انتظام موجود ہے۔ مرکزی طور پر بھی انتظام جاری ہے گو اس کا نام یکصد یتامی کی تحریک ہے لیکن اس کے تحت سینکڑوں یتامی بالغ ہو کر پڑھائی مکمل کر کے کام پر لگ جانے تک ان کو پوری طرح سنبھالا گیا۔ اسی طرح لڑکیوں کی شادیوں تک کے اخراجات پورے کئے جاتے رہے اور کئے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس میں دل کھول کر امداد کرتی ہے اور زیادہ تر جماعت کے جو مخیراحباب ہیں وہی اس میں رقم دیتے ہیں۔ الحمدللہ، جزاک اللہ، ان سب کا شکریہ۔
اب میں باقی دنیا کے ممالک کے امراء کو بھی کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں ایسے احمدی یتامی کی تعداد کا جائزہ لیں جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، پڑھائی نہ کرسکتے ہوں، کھانے پینے کے اخراجات مشکل ہوں اور پھر مجھے بتائیں۔ خاص طور پر افریقن ممالک میں، اسی طرح بنگلہ دیش ہے، ہندوستان ہے، اس طرف کافی کمی ہے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تو باقاعدہ ایک سکیم بناکر اس کام کو شروع کریں اور اپنے اپنے ملکوں میں یتامی کو سنبھالیں۔ مجھے امید ہے کہ انشا ء اللہ تعالیٰ جماعت میں مالی لحاظ سے مضبوط حضرات اس نیک کام میں حصہ لیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے سنبھالنے میں جو اخراجات ہوں گے ان میں کوئی کمی نہیں پیش آئے گی۔ لیکن امراء جماعت یہ کوشش کریں کہ یہ جائزے اور تمام تفاصیل زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک مکمل ہو جائیں اور اس کے بعد مجھے بھجوائیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم یتامی کا جو حق ہے وہ ادا کر سکیں۔ پھر فرمایا :مسکین لوگوں سے بھی حسن سلوک کرو۔ ان مسکینوں میں تمام ایسے لوگ آ جاتے ہیں جن پر کسی کی قسم کی تنگی ہے۔ ان کی ضروریات پوری کرو۔ اس کا جائزہ بھی ہراحمدی کو اپنے ماحول میں لیتے رہنا چاہئے۔ مسکینوں سے صرف یہ مراد نہ لیں کہ جو مانگنے والے ہیں۔ مانگنے والے تو اپنا خرچ کسی حد تک پورا کر ہی لیتے ہیں مانگ کر۔ لیکن بہت سے ایسے سفید پوش ہیں جو تنگی برداشت کر لیتے ہیں لیکن ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اور اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں کہ {لاَ یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافاً} تو ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔ پھر فرمایا کہ تمہارے اس سلوک کے بہت زیادہ مستحق ہمسائے بھی ہیں، ان سے بہت زیادہ حسن سلوک کرو۔ بلکہ اس کی تاکید تو آنحضرت ﷺ نے اس قدر فرمائی کہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں خیال ہوا کہ اب شاید ہماری وارثت میں بھی ہمسائے کاحق ٹھہر جائے گا۔ فرمایاکہ یہ ہمسائے جوہیں ان میں تمہارے رشتہ دار بھی ہیں چاہے دور کے رشتہ دار ہوں یا قریب کے ہوں۔ تمہیں خیال آجائے کہ چلو رشتہ دار ہیں ان سے حسن سلوک کرنا چاہئے، ان کی ضروریات پوری کرنی چاہئیں۔ تو فرمایا کہ صرف رشتہ دارہمسائے ہی نہیں بلکہ غیر رشتہ دار ہمسائے ہیں وہ بھی تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں، ان سے بھی حسن سلوک کرنا۔ پھر تمہارے ہم جلیس ہیں، تمہارے ساتھ بیٹھنے والے ہیں یہ سب تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ: اس میں تمہارے ساتھ ایک سیٹ پر بیٹھنے والے بھی ہیں۔ اب دیکھیں دائرہ کتنا وسیع ہو رہاہے۔ صرف ہم مذہب نہیں، صرف تمہارے ساتھی ہی نہیں بلکہ سکول میں، کالج میں، یونیورسٹی میں ساتھ بیٹھنے والے بھی تمہارے حسن سلوک کے مستحق ہیں، ان کا بھی خیال رکھو، ان سے بھی حسن سلوک کرو۔ ان سے بھی اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔
پھر بازاروں میں دوکاندار ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، ان سے بھی اخلاق سے پیش آئیں۔ پھر دفتروں میں کام کرنے والے ہیں، افسران ہیں، ماتحت ہیں۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے ہیں کہ صرف کام کرنے والے افسران یا ماتحت نہیں بلکہ جس محکمے میں آپ کام کرتے ہیں اس محکمہ میں کام کرنے والا ہر شخص تمہارے ہم جلیسوں میں شمار ہوتاہے اور تمہارے حسن سلوک کا مستحق ہے۔ پھر سفر کے دوران، بس میں بیٹھے ہوئے، ٹرین میں بیٹھے ہوئے جو لوگ ہیں یہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ان سے بھی حسن سلوک کرو۔ بعض دفعہ بعض مسافروں کو نیند آ جاتی ہے، کئی دفعہ مَیں نے دیکھاہے اس طرح، تو بے چارے کا سر اگرکسی کے کندھے سے یا سر سے ٹکرا جائے تو دوسرے مسافر کو غصہ چڑھ جاتاہے کہ اپنے آپ کو سنبھال کر بیٹھو۔ تو یہ چیزیں چھوٹی چھوٹی ہیں چونکہ آپ کے ہمسائے میں اس کا شمار ہو رہاہے، ساتھ بیٹھنے والوں میں شمار ہورہاہے اس لئے ان سے بھی حسن سلوک کرنا چاہئے۔
پھر ایک تو مسافر ہے کہ مسافرسے حسن سلوک کرے۔ اس کے علاوہ ایسے مسافر ہیں جو کیونکہ بعض دفعہ سفر میں دقتیں پیش آ رہی ہوتی ہیں۔ گاڑی خراب ہوگئی، بس خراب ہوگئی، کار خراب ہوگئی، کسی جگہ آ گئے اور آپ کی مدد کی ضرورت پڑی تو ان کی مدد کرنی چاہئے، ان کی رہنمائی کرنی چاہئے، توجب تک ان کی پریشانی دور نہ ہوجائے، ان کا ساتھ دینا چاہئے، یہ سب حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ پھر فرمایا کہ ان سے بھی حسن سلوک کرو جن کے تم مالک ہو۔ اس زمانے میں تو خیر غلام کا تصور نہیں، پرانے زمانے میں غلام ہوتے تھے۔ لیکن تمہارے جو ملازمین ہیں ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھو، ان کو اگر تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو ان کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرو۔ غمی خوشی میں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھو۔ ان کے بچوں کو اگر مالی تنگی کی وجہ سے پڑھنے میں دقت ہے تو ان کی مدد کرو، ان کو پڑھاؤ۔ اگر کوئی لائق نکل آئے اور پڑھ لکھ کر قابل آدمی بن جائے تو تمہارے لئے ویسے بھی مستقل ثواب کا باعث بن جائے گا۔ تو یہ ہے اسلام کی وہ حسین تعلیم کہ حسن سلوک سے تم ایک حسین معاشرہ قائم کر سکتے ہو۔ اور بھی بہت ساری باتیں ہیں، قیدیوں سے بھی حسن سلوک کا ذکر ہے مریضوں سے بھی وغیرہ وغیرہ۔ تو اگر ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں دوسرے سے حسن سلوک کرنے والا بن جائے تودنیا کے فساد تو خود بخود ختم ہوجائیں گے اور پھر وہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بھی ہوں گے توپھر تو یہ سونے پر سہاگے والی بات ہوگی اور آج اس تفصیل سے یہ حسن سلوک سوائے احمدی کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ بہت بڑی ذمہ دار ی ہے جو ہم نے ادا کرنی ہے اس لئے اس طرف ہمیں بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اب چند احادیث پیش کرتاہوں اور اقتباسات۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ:
’’تم خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور ان سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں (اس فقرے میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آگئے) اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں، جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسائے ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو، جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا۔ ‘‘(چشمہ ء معرفت۔ روحانی خزائن۔ جلد۲۳۔ صفحہ نمبر۲۰۸، ۲۰۹)
بعض لوگ اپنے بڑے بھائیوں کا احترام نہیں کررہے ہوتے۔ حسن سلوک تو ایک طرف رہا ان سے بدتمیزی سے پیش آ رہے ہوتے ہیں، ان کو عدالتوں میں گھسیٹ رہے ہوتے ہیں، ہر طرف سے ان کی عزت پر بٹہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو ان لوگوں کو اس روایت سے سبق لینا چاہئے۔
حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: بڑے بھائی کا حق اپنے چھوٹے بھائیوں پر اس طرح کا ہے جس طرح والد کا حق اپنے بچوں پر۔ یعنی بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے لئے بمنزلہ باپ کے ہے اس لئے اس کا ادب و احترام بھی واجب ہے۔(مراسیل ابی داؤد باب فی برالوالدین صفحہ۱۹۷)
والد کے حقوق کا تو آپ گزشتہ خطبے میں سن چکے ہیں۔ پھر اس طرح بڑے بھائیوں کے لئے بھی اس میں نصیحت ہے کہ چھوٹے بھائیوں سے وہ سلوک رکھیں جو ایک باپ کو اپنے بچوں سے ہوتاہے۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی محبت کی فضا کو قائم کرنے والاہو۔ بعض دفعہ گھروں میں میاں بیوی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلخ کلامی ہوجاتی ہے، تلخی ہو جاتی ہے۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ مضبوط اور طاقتور بنایاہے اگر مرد خاموش ہوجائے تو شاید اسّی فیصد سے زائد جھگڑے وہیں ختم ہوجائیں۔ صرف ذہن میں یہ رکھنے کی بات ہے کہ مَیں نے حسن سلوک کر ناہے اور صبر سے کام لیناہے۔
ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس بارہ میں ہمیں کیا اسوہ دکھایا۔ روایت ہے کہ ایک دن حضرت عائشہ ؓ گھر میں آنحضرت ﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا، حضرت ابو بکر ؓ تشریف لائے۔ یہ حالت دیکھ کران سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے کہ توخدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو۔ آنحضرت ؐ یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہوگئے اور حضرت ابو بکر ؓ کی متوقع سزا سے حضرت عائشہؓ کو بچا لیا۔ جب حضرت ابوبکر ؓ چلے گئے تورسول کریمؐ حضرت عائشہؓ سے ازراہ مذاق فرمایا۔ دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟۔ تو دیکھیں یہ کیسا اعلیٰ نمونہ ہے کہ نہ صرف خاموش رہ کرجھگڑے کو ختم کرنے کی کوشش کی بلکہ حضرت ابوبکر جو حضرت عائشہ کے والد تھے ان کو بھی یہی کہا کہ عائشہ کو کچھ نہیں کہنا۔ اور پھر فوراً حضرت عائشہ سے مذاق کر کے وقتی بوجھل پن کو بھی دور فرما دیا۔
پھر آگے آتاہے روایت میں کہ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر ؓ دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھیں۔ حضرت ابوبکر ؓ کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو۔(ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح )
آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے بہت ناز اٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ عائشہؓ میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتاہوں۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں رب محمدؐ کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو رب ابراہیم ؑ کہہ کر بات کرتی ہو۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپؐ کا نام چھوڑتی ہوں (دل سے توآپؐ کی محبت نہیں جاسکتی)۔(بخاری کتاب النکاح باب غیرۃ النساء و وجد ھن )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں اور فرمایا ’’ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہوکر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور درحقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔ ‘‘
ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کاذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضور اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے، بہت رنجیدہ ہوئے، بہت ناراض ہوئے اور فرمایا:’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے‘‘۔ حضور بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارے میں گفتگو فرماتے رہے اور پھر آخر پر فرمایا:
’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکلا تھا۔ اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع وخضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الٰہی کا نتیجہ ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۰۷الحکم ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۰ء)
تو یہ ہیں بیویوں سے حسن سلوک کے نمونے جو آج ہمیں اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عمل سے اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیروی میں نظر آتے ہیں۔ اور انہی پر چل کر ہم اپنے گھروں میں امن قائم کر سکتے ہیں۔ رحمی رشتوں کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے، اس کی وضاحت تو پہلے ہو چکی ہے کہ یہ قریب ترین رشتے ہیں اور ان کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔
اس بارہ میں ایک روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی۔ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
رِحم، رَحْمٰن سے مشتق ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جس نے تجھ سے تعلق جوڑا میں اس سے تعلق جوڑوں گا اور جس نے تجھ سے تعلق توڑا میں اس سے قطع تعلقی اختیار کر لوں گا۔(بخاری کتاب الادب باب من وصل وصلہ اللہ)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا یقینا اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب وہ اس کی تخلیق سے فارغ ہو گیا تو رحم نے کہا یہ قطع رحمی سے تیری پناہ میں آنے کا مقام ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ہاں۔ کیا تو اس چیز پر راضی نہیں کہ میں اس سے تعلق جوڑوں گا جو تجھ سے تعلق جوڑے گا۔ اور جو تجھ سے قطع تعلقی کرے گا میں اس سے تعلق توڑ لوں گا۔ اس پر رحم نے کہا اے میرے رب ! میں اس بات پر کیوں راضی نہ ہوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ یہ مقام صرف تجھے حاصل ہے اور پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ پس اگر تم چاہتے ہو تو قرآن کریم کی یہ آیت پڑھو۔
فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ (محمد:۲۳)
یعنی کیا تمہارے لئے ممکن ہے کہ اگر تم متولّی ہو جاؤ تو تم زمین میں فساد کرتے پھرو اور اپنے رِحمی رشتوں کو کاٹ دو ؟۔ (بخاری کتاب الادب باب من وصل وصلہ اللہ)
ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ محمد بن جُبیر بن مُطعم نے کہا کہ جبیر بن مطعم نے انہیں بتایا کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعٌ۔ کہ رحمی تعلقات کو توڑنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (بخاری کتاب الادب باب اثم القاطع)
تو دیکھیں کتنی تاکید ہے ان رشتوں کا خیال رکھنے اور ان سے تعلق جوڑنے کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تعلق قائم رکھتاہے ان سے جو ان رشتوں سے تعلق قائم رکھتے ہیں اور ان سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ:۔
صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں تعلق جوڑے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے جس سے جب تعلق توڑا جائے تو وہ تعلق جوڑے۔ (بخاری کتاب الادب)۔ یعنی اگر تم سے کوئی صلح رحمی کر رہاہے یا اچھے اخلاق سے پیش آرہاہے تو تم اس کے بدلے میں اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ اگر کوئی تعلق توڑنا بھی چاہتاہے تو اس سے تعلق جوڑو۔
تو دیکھیں کتنی پیاری تعلیم ہے۔ صلح کا ہاتھ تم پہلے بڑھاؤ اگر ہرمسلمان اس پرعمل کرنا شروع کردے تو کیا کوئی جھگڑا باقی رہ جاتا ہے۔ ہر طرف امن کی فضا قائم ہوجائے گی۔ اب یہ تعلیم جو ہے اس کو رواج دینا اور یہ اعلیٰ اخلاق اپنے رشتہ داروں کو سکھانا آج ہر احمدی کا کام ہے۔ تب ہی تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام نے فرمایاہے کہ تم صلح میں پہل کرو اور سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو۔ تب ہی یہ اعلیٰ اخلاق کا معاشرہ قائم ہوسکتاہے۔
آنحضرت ﷺ کا اپنا اسوہ اس بارہ میں کیااعلیٰ تھا۔ بخاری کی روایت ہے۔
رسول کریمؐ کے اکثر رحمی رشتہ داروں نے دعویٔ نبوت پر آپ کی مخالفت کی، مگر آپ ﷺ فرماتے تھے کہ بے شک قریش کی فلاں شاخ والے لوگ میرے دوست نہیں رہے، دشمن ہوگئے ہیں مگر آخر میرا اُن سے ایک خونی رشتہ ہے، میں اس رحمی تعلق کے حقوق بہر حال ادا کرتا رہوں گا۔(بخاری کتاب الادب باب تبل الرحم ببلالھا)
تو دیکھیں یہ وہ تعلیم ہے جس پر آپ ؐ نے عمل کرکے دکھایا۔
پھر اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کیا نمونہ تھا۔ یہ واقعہ سنیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ :
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کو یہ اطلاع ملی کہ یہی مرزا نظام الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑ کے اشد ترین مخالف تھے بیمار ہیں اس پر حضور ان کی عیادت کے لئے بلا توقف ان کے گھر تشریف لے گئے اس وقت ان پر بیماری کا اتنا شدید حملہ تھا کہ ان کا دماغ بھی اس سے متاثر ہو گیا تھا۔ آپ نے ان کے مکان پر جا کر ان کے لئے مناسب علاج تجویز فرمایا جس سے وہ خدا کے فضل سے صحت یاب ہو گئے۔ ہماری اماں جان حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا بیان فرماتی تھیں کہ باوجود اس کے کہ مرزا نظام الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف بلکہ معاند تھے آپ ان کی تکلیف کی اطلاع پا کر فوراً ہی ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کا علاج کیا اور ان سے ہمدردی فرمائی۔
یہ وہی مرزا نظام الدین صاحب ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف بعض جھوٹے مقدمات کھڑے کئے اور اپنی مخالفت کو یہاں تک پہنچا دیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ اور حضور کے دوستوں اور ہمسایوں کو دکھ دینے کے لئے حضور کی مسجد یعنی خدا کے گھر کا رستہ بند کر دیا اور بعض غریب احمدیوں کو ایسی ذلت آمیز اذیتیں پہنچائیں کہ جن کے ذکر تک سے شریف انسان کی طبیعت حجاب محسوس کرتی ہے۔ مگر حضور کی رحمت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ مرزا نظام الدین صاحب جیسے معاند کی بیماری کا علم پا کر بھی حضور کی طبیعت بے چین ہو گئی۔ ‘‘(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ۲۹۰، ۲۹۱)
تو یہ ہے اس مسیح اور مہدی کااسوہ۔ اب ہم میں سے ہر ایک کو جو آپ کی جماعت کی طرف منسوب ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم کس حد تک اس پرعمل کرتے ہیں۔ بعض دفعہ بعض ایسے رشتہ داربھی ہوتے ہیں، ہمسائے بھی ہوتے ہیں، جن پر جتنا چاہے حسن سلوک کرو جب بھی موقع ملے نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے۔ ان کی سرشت میں ہی نقصان پہنچانا ہوتاہے۔ ان کاوہی حساب ہوتاہے کہ بچھوؤں کی ایک قطار جا رہی تھی کسی نے پوچھا کہ اس میں سردار کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس کے ڈنگ پرہاتھ رکھ دو وہی سردار ہے، وہ ڈنگ مارے گا۔ لیکن حکم کیاہے کہ ہمیں کیاکرنا چاہئے۔
ایسے لوگوں کے بارہ میں حسن ظن کی ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں۔ میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں وہ توڑتے ہیں۔ میں احسان کرتا ہوں وہ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میرے نرمی اور حلم کے سلوک کا جواب وہ زیادتی اور جہالت سے دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر وہ ایسا ہی کرتے ہیں جیسا تم نے بیان کیا تو تم گویا ان کے منہ پر خاک ڈال رہے ہو(یعنی ان پر احسان کر کے ان کو ایسا شرمسار کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ )اور اللہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک مددگار فرشتہ اس وقت تک مقرر رہے گا جب تک تم اپنے حسن سلوک کے اس نمونہ پر قائم رہوگے۔(مسند احمد جلد۲ص۳۰۰مطبوعہ بیروت)
پھر حضرت ابوزر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میرے محبوب ﷺ نے مجھے چند باتوں کی نصیحت فرمائی۔ ان میں نمبر ایک یہ تھی کہ جولوگ مجھ سے مال جو جاہ وغیرہ میں فوقیت رکھتے ہیں یعنی مالی لحاظ سے زیادہ اچھے ہیں، ان کی طرف نہ دیکھوں بلکہ ان لوگوں کو دیکھوں جومجھ سے کمتر ہیں تاکہ میرے دل میں شکر کا جذبہ ابھرے۔ دوسری بات یہ نصیحت فرمائی کہ مسکینوں سے محبت کرو اور ان کے ساتھ جاؤ۔ اور پھر تیسری بات یہ فرمائی کہ میرے اعزا اور رشتہ دار چاہے مجھ سے خفا ہوں اور میرے حقوق ادا نہ کریں تب بھی مَیں ان سے اپنا تعلق جوڑے رکھو ں اور ان کے حقوق ادا کرتارہوں۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ طبرانی، المعجم لطبرانی جلد ۲ صفحہ ۱۵۶)
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آ پؐ نے فرمایا: غریب مسکین کو صدقہ دینے سے صرف صدقے کا ثواب ملتاہے اور غریب رشتہ دار کو دینے سے دوہرا ثواب ملتاہے۔ ایک صدقے کا، دوسرا رشتے داری کے حقوق ادا کرنے کا۔
صدقے والی اور بات ہوتی ہے اور ان کی مدد کر نے کی کہ ان کے مالی حالات میں بہتری ہو، مدد کرنے کی غرض نہیں ہوتی۔ اس کا نام صدقہ نہ رکھیں لیکن مدد ضرور کرنی چاہئے۔
پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ دوسروں کی تکلیف کی پیروی کرنے والے نہ بنو۔ اس طرح نہ سوچو کہ لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔ اور اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے۔ بلکہ اپنے آپ کو اس بات پرقائم کرو کہ لوگ تم سے اچھاسلوک کریں گے تو تم بھی ان سے اچھا سلوک کرو گے۔ اور اگر برا برتاؤکریں گے تو پھر بھی تم ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کروگے، بلکہ نیکی کروگے۔
تو یہ آج کل احمدی کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ باوجود سختیوں کے اور تنگیوں کے اپنے ہمسایوں کے لئے دل میں درد رکھتے ہیں۔ کہیں ضرورت پیش آجائے ان کی خدمت کے لئے فوری طورپر اپنے آپ کو پیش کردیتے ہیں۔ ہر وقت اسی بات پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’ دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت {اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَایِٔ ذِی الْقُرْبٰی …} (النحل:۹۱) کے یہ معنے ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ اُن سے کچھ تعرّض نہ کرو اور انصاف پرقائم رہو۔
اوراگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے اور اُس کی آزار کی عوض میں تُو اس کو راحت پہنچاوے اور مروّت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے۔
پھر بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یاجس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجا لاوے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہوجیسی شدت قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔ سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدّعا یاغرض درمیان نہ ہو بلکہ اخوت و قرابت انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشوونما پاجائے کہ خود بخود کسی تکلّف کے اور بغیر پیش نہاد رکھنے کسی قسم کی شکرگزاری یا دعا یا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۵۵۱، ۵۵۲)
یعنی نیکی جب کرو تو اس کے بدلہ میں کسی انعام کا اور کسی چیز کے لئے تمہارے دل میں کوئی خیال نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ : ’’ جو شخص قرابت داروں سے حسن سلوک نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے‘‘۔ (کشتی نوح صفحہ ۱۷)
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ نیکیاں اور حسن سلوک کرکے تمہیں ذاتی فائدے ہی ملیں گے، اسی دنیا میں ملیں گے۔ اور وہ کیا ہیں کہ تمہیں چین نصیب ہوگااور عمر میں برکت پیداہوئی۔
آپ فرماتے ہیں کہ :’’جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی دل کو ایسا پاتا ہے کہ اس نے مخلوق کو نفع رسانی کا ارادہ کرلیا ہے تووہ اسے توفیق دیتا اور اس کی عمر دراز کرتا ہے جس قدر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آتا ہے اُسی قدر اس کی عمر دراز ہوتی اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا اس کی زندگی کی قدر کرتا ہے لیکن جس قدر وہ خدا تعالیٰ سے لاپرواہ اور لااُبالی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا…اس جگہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو نیک اور برگزیدہ ہوتے ہیں چھوٹی عمر میں بھی اس جہاں سے رخصت ہوتے ہیں اور اس صورت میں گویا یہ قاعدہ اور اصل ٹوٹ جاتا ہے مگر یہ ایک غلطی اور دھوکا ہے ‘‘۔ (حضور نے فرمایا کہ بعض لوگ بڑی نیکی کرتے ہیں …لیکن چھوٹی عمر میں فوت ہو رہے ہوتے ہیں یہ کوئی قاعدہ نہیں ) ’’دراصل ایسا نہیں ہوتا۔ یہ قاعدہ کبھی نہیں ٹوٹتا مگر ایک اور صورت پردرازیٔ عمر کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کا اصل منشاء اور درازیٔ عمرکی غایت تو کامیابی اور بامراد ہونا ہے۔ پس جب کوئی شخص اپنے مقاصد میں کامیاب اور بامراد ہو جاوے اور اس کو کوئی حسرت اور آرزو باقی نہ رہے اور مرتے وقت نہایت اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوتو وہ گویا پوری عمر حاصل کرکے مرا ہے اور درازیٔ عمر کے مقصد کو اس نے پالیا اُس کو چھوٹی عمر میں مرنے والا کہنا سخت غلطی اور نادانی ہے۔ صحابہ میں بعض ایسے تھے جنہوں نے بیس بائیس برس کی عمر پائی مگر چونکہ ان کو مرتے وقت کوئی حسرت اور نامرادی باقی نہ رہی بلکہ کامیاب ہوکر اٹھے تھے اس لئے انہوں نے زندگی کااصل منشاء حاصل کرلیا تھا۔ (الحکم جلد ۷۔ نمبر۱۳۔ مورخہ۴ ۲؍اگست۱۹۰۳ء۔ صفحہ۲۔ ۳۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ۷۳۹، ۷۴۰)۔
پھرآپ ؑ فرماتے ہیں :’’اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خداراضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہوجاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی… تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کروتا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔ تم سچ مچ اس کے ہوجاؤ تا کہ وہ بھی تمہارا ہوجائے۔ (کشتی ٔ نوح صفحہ ۱۳)
اللہ کرے کہ ہم اللہ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والے ہوں اور ان سے حسن سلوک کرکے اللہ تعالیٰ کو اپنا بنانے والے بن جائیں۔ اب مَیں بعض مرحومین کا ذکرکرنا چاہتاہوں جن کا ذکر گزشتہ جمعہ سے رہ گیا۔
سب سے پہلے تو مکرم ومحترم شیخ محبوب عالم خالد صاحب ہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۹۵ سال کی عمر پائی۔ آپ خانصاحب فرزندعلی خان صاحب کے بیٹے تھے۔ ۱۹۳۶ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حکم سے آپ نے اپنی زندگی وقف کی اور جماعتی خدمت کا آغاز کیا۔ نہایت منکسرالمزاج اور مخلص اور لگن اور محنت سے کام کرنے والے تھے۔ ۶۸سال تک انہوں نے اللہ کے فضل سے جماعت کی خدمت کی توفیق پائی۔ ان میں بطوراستاد مدرسۃ البنات، اور پھر مدرسہ احمدیہ، پھر کچھ دیر کالج میں پڑھاتے رہے اور پھرناظر بیت المال کے طورپر، پھرحضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔ پھر صدر، صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ۱۹۶۹ء میں جب آپ کالج سے ریٹائرہوئے توصدر انجمن کے دفاتر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کو بطور ناظر بیت المال کے لگا دیاتھا اور وفات تک تقریباً ۳۷ سال تک آپ نے خدمت کی۔ صدرانجمن کے دفاتر میں۔ آپ خدام الاحمدیہ کے بانی ارکان میں سے تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے جب خدام الاحمدیہ بنائی ہے توجو چند بانی ارکان تھے ان میں سے آپ بھی تھے۔ اور آپ اس کے پہلے جنرل سیکرٹری بنے۔ پھر آپ کو خدام الاحمدیہ کے مختلف شعبوں میں بھی کام کرنے کا موقع ملا اور بارہ سال تک قائد عمومی انصاراللہ رہے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث صدر انصاراللہ مرکزیہ ہوتے تھے۔ اور وفات تک آپ مجلس انصاراللہ پاکستان کی عاملہ کے اعزازی ممبر بھی رہے۔ اورپھر ۲۰۰۲ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کو صدرصدرانجمن احمدیہ مقرر فرمایا۔ اور وفات تک آپ اس عہدہ پر فائز رہے۔ آخر تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ذہنی لحاظ سے بالکل ٹھیک تھے اور اپنے کام بخوبی انجام دیتے رہے۔ چھ بیٹے آپ نے یادگارچھوڑے ہیں۔ میں ان کے بارہ میں مختصراً یہ بھی بتا دوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قادیان میں آپس میں اخوت کا رشتہ قائم کرنے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا تھاکہ دو لڑکوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیتے تھے۔ کس طرح بنتے تھے اس کی ایک لمبی تفصیل ہے۔ تو حضرت شیخ صاحب میرے والد صاحبزادہ مرزا منصوراحمد صاحب کے بھائی بنے اور ان کے ساتھ یہ رشتہ قائم ہوا۔ پھر ان کے انکسار اور اخلاص کا ذکر کر آیاہوں یہ صفت واقعی ان میں بہت زیادہ تھی۔ یہ نہیں کہ ذکرکرنے کے لئے کیا ہے بلکہ میں یہ بھی بتادوں کہ جب مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی مقرفرمایا تھا تو آپ اس وقت ناظر بیت المال تھے۔ باوجود ایک بہت سینئر ناظرہونے کے، عمر میں بھی مجھ سے بہت بڑے تھے، میرے والد صاحب کے برابر تھے تو شیخ صاحب نے اطاعت کاوہ نمونہ دکھایا جو واقعی ایک مثال ہے اور بعض دفعہ تو ان کی اس اطاعت اور اخلاص کو دیکھ کر شرم بھی آتی تھی۔ پھر جب حضوررحمہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صدر صدرانجمن احمدیہ مقررفرمایا توباوجود اس کے کہ ان کے پاس ایک بڑا عہدہ تھا لیکن شفقت کے ساتھ ساتھ اطاعت کا پہلو بھی رہا۔ وہ اس لئے کہ مَیں امیر مقامی بھی تھااور امیر کی اطاعت ضروری ہے۔ تو یہ قابل مثال ہیں بہت سوں کے لئے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بے انتہا مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔ آپ موصی تھے اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کوبھی انہی کی طرح کا م کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر ہمارے ایک بزرگ حضرت مولانا محمدسعید انصاری صاحب تھے جن کی ۹؍جنوری کو وفات ہوئی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن ہی ان کی پیدائش ہوئی اور جمعہ کے دن ہی ان کی وفات ہوئی ہے۔ آپ نے ۱۹۴۶ء میں اپنی زندگی وقف کی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپ کی پہلی تقرری ملایا، سنگاپور میں بطور مربی کے فرمائی۔ پھر آپ سماٹرا اور برٹش نارتھ بورنیو جو آج کل ملائشیا کہلاتاہے اس میں ۱۹۵۹ء تک رہے۔ ۱۹۶۱ء میں دوبارہ سنگاپور میں تقرری ہوگئی۔ پھر ۱۹۶۴ سے ۱۹۶۶ء تک جامعہ احمدیہ میں انڈونیشین زبان پڑھاتے رہے۔ ۱۹۷۶ء میں انہیں دوبارہ ملائشیا بھجوایا گیا۔ واپسی پرتین سال مرکزی دفاتر میں خدمات سرانجام دیں۔ پھر۱۹۷۳ء سے ۱۹۷۶ء تک ملائشیا چلے گئے پھر واپسی پر جامعہ احمدیہ میں تقرری ہوئی اور ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۳ء تک آپ وکالت تبشیر ربوہ اور وکالت اشاعت ربوہ میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ انڈونیشین زبان میں متعدد کتب کا ترجمہ کرنے کی بھی آپ کوتوفیق ملی۔
آپ نیک، باوفا، مخلص، دعا گو اور عالم باعمل بزرگ مربی تھے۔ آپ نے نہایت اخلاص، محنت اور لگن کے ساتھ۷ ۵ سال تک بے لوث خدمات سلسلہ ادا کرنے کی توفیق پائی ہے۔ مرحوم کی چھ بیٹیاں تھیں۔ واقعی بہت سادہ مزاج بالکل عاجز انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے ایک داماد ہمارے مبلغ مکرم نسیم باجوہ صاحب ہیں۔ اللہ ان کی بچیوں کوصبر اور حوصلہ کے ساتھ یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھرمکرم صاحبزادہ مرزارفیع احمد صاحب جن کی ۱۵؍جنوری بروز جمعرات بعمر ۷۷سال وفات پا گئے۔ ۔ انا للّہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر رہے۔ آپ نے انڈونیشیا میں بطور مبلغ کے بھی خدمات کی توفیق پائی اور جامعہ احمدیہ میں بھی پڑھاتے رہے۔ ان کے بیٹے مکرم صاحبزادہ عبدالصمد احمد صاحب اس وقت سیکرٹری مجلس کارپرداز کے طورپر خدمات بجا لارہے ہیں۔ پسماندگان میں بیگم کے علاوہ ۳بیٹے اور ۴بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے خلافت پر متمکن فرمایا تو ان کی طرف سے انتہائی عاجزی اور اخلاص اور وفا کا خط مجھے ملا اور پھراس کے بعد ہر خط میں یہ حال بڑھتا چلا گیا۔ باوجود اس کے کہ میرے ساتھ انتہائی قریبی رشتہ تھا، ماموں کارشتہ تھا۔ ان کے اخلاص اور وفا کے الفاظ پڑھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتاتھا۔ میرا خیال ہے کہ میر ے چند ایک ایسے بڑے رشتہ دار ہیں جنہوں نے اس طرح وفااوراطاعت کا اظہار کیا ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی رشتہ داروں نے وفا کا اظہار نہیں کئے۔ ہر ایک کا اپنا اپناانداز ہوتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے ہر فرد نے بڑے اخلاص اور وفا سے خلافت کی بیعت کی ہے۔ ان میں بہت سے مجھ سے عمر میں بھی بڑے ہیں، تجربے میں بھی بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تما م خاندان کو خلافت سے محبت اور وفا میں ہمیشہ بڑھاتارہے اور آئندہ آنے والی ہر خلافت کے ساتھ بھی سب لوگ اطاعت کا نمونہ دکھائیں۔ بہرحال یہاں ذکرمیاں صاحب کا تھا۔ اپنا انجام بخیرہونے کے بارہ میں مجھے باقاعدہ لکھتے رہتے تھے اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ آپ کی تدفین بھی موصی ہونے کی وجہ سے بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی ہے۔ آپ ہمیشہ مجھے اپنی بیگم صاحبہ کے بارہ میں لکھا کرتے تھے کہ ان کے لئے دعا کریں کہ ان کو صحت دے۔ ان کو اپنی صحت کی تکلیف کوئی نہ تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک طریق ہے۔ یہ خیال نہیں تھاکہ پہلے خود چلے جائیں گے۔ احباب ان کی بیگم صاحبہ کے لئے دعاکریں وہ دل کی مریضہ ہیں۔ ان کی بیگم صاحبہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی بیٹی ہیں۔ پھر ہمارے مبلغ جو زمبابوے کے مشنری انچارج تھے ان کی بھی کچھ عرصہ ہوا وفات ہوئی ہے۔ یہ مکرم سمیع اللہ قمر صاحب ہیں آپ مکرم عطاء اللہ صاحب سابق اسسٹنٹ مینجر سندھ جیننگ وپراسسنگ فیکٹری سندھ کے بیٹے تھے۔ مئی ۱۹۷۷میں ربوہ سے شاہد پاس کیا اور پھر قریبا ً دس سال تک پاکستان میں خدمات سرانجام دیں اور پھر قریباً ساڑھے تیرہ سال زیمبیا اور زمبابوے میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ زمبابوے کے امیر تھے۔ بہت محنت اور اخلاص سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بہت محنت اور اخلاص اور بڑی جانفشانی سے خدمات سرنجام دیتے رہے۔ اچانک آپ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور آپ کی وفات ہوئی۔ اس طرح غیر ملک میں وفات ہونے کی وجہ سے شہادت کا رتبہ بھی پایا۔ پسماندگان میں بوڑھے والدین بھی زندہ ہیں، اہلیہ اور پانچ بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور بچیوں کا خود ہی کفیل ہوجائے۔ ۔ مرحوم موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی ہے۔
٭…حسن خلق کے اعلی معیار قائم نہ کئے تو عبادتیں بھی ضائع ہو جائیں گی۔
٭…حسن سلوک کے مختلف طریق اور معیار
٭…یتامی ٰ کی نگہداشت ایک باقاعدہ سکیم بنا کر شروع کریں …
٭…والدین اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کے ارشادات
٭…بیویوں سے حسن سلوک اور آنحضرتﷺ کا اسوہ
٭…شیخ محبوب عالم خالد صاحب، مولانا محمد سعید انصاری صاحب، صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب اور سمیع اللہ قمر صاحب کا ذکر خیر
۲۳؍ جنوری۲۰۰۴ء بمطابق۲۳؍صلح ۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔