ہر ایک پرہیز گار کو اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا چاہئے

خطبہ جمعہ 30؍ جنوری 2004ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

{قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ۔وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ} (النور : ۳۱، ۳۲)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ

مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقینا اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے ازخود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔ اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی(جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں۔ اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ(لوگوں پر) وہ ظاہر کردیا جائے جو(عورتیں عموماً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

آج کی ان آیات سے جو مَیں نے تلاوت کی ہیں، سب کو اندازہ ہوگیاہوگاکہ کس چیز کے بارہ میں مَیں بیان کرنا چاہتاہوں۔ اس مضمون کو خلاصۃًدو تین مرتبہ پہلے بھی مختلف اوقات میں بیان کر چکاہوں۔ لیکن مَیں سمجھتاہوں کہ اس مضمون کو کھولنے کی مزید ضرورت ہے۔ کیونکہ بعض خطوط سے اندازہ ہوتاہے کہ ابھی بہت سے ایسے ہیں جو اس حکم کی اہمیت کو یعنی پردے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ کوئی کہہ دیتاہے کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کیا صرف پردہ ہی ضروری ہے؟۔ کیااسلام کی ترقی کا انحصار صرف پردہ پر ہی ہے؟کئی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ فرسودہ باتیں ہیں، پرانی باتیں ہیں۔ اور ان میں نہیں پڑنا چاہئے، زمانے کے ساتھ چلنا چاہئے۔ گو جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہے لیکن زمانے کی رَو میں بہنے کے خوف سے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور اس معمولی چیز کو بھی معمولی نہیں سمجھناچاہئے۔

ایسے لوگوں کو میراایک جواب یہ ہے کہ جس کا م کوکرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور اس کامل اور مکمل کتاب میں اس بارہ میں احکام آ گئے ہیں اور جن اوامر و نواہی کے بارہ میں آنحضرتﷺ ہمیں بتا چکے ہیں کہ یہ صحیح اسلامی تعلیم ہے تو اب اسلام اور احمدیت کی ترقی اسی کے ساتھ وابستہ ہے۔ چاہے اسے چھوٹی سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اور یہ آخری شرعی کتاب جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پراتاری ہے اس کی تعلیم کبھی فرسودہ اور پرانی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے جن کے دلوں میں ایسے خیالات آتے ہیں وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور استغفار کریں۔ ان آیات میں جن باتوں کا ذکرکیاگیاہے ان کو مَیں مزید کھولتاہوں۔ سب سے پہلے تو مردوں کو حکم ہے کہ:-

غضِّ بصر سے کام لیں۔ یعنی اپنی آنکھ کو اس چیزکو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے۔ یعنی بلا وجہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں۔ جب بھی نظر اٹھاکر پھریں گے تو پھر تجسس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو۔ اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ نیم وا آنکھوں سے چلو۔ یعنی ادھ کھلی آنکھوں سے، راستوں پرپوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو۔ بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو۔ لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہوتاہو کہ جس چیز پرایک دفعہ نظر پڑ جائے پھر اس کو دیکھتے ہی چلے جاناہے۔ نظرکس طرح ڈالنی چاہئے اس کی آگے حدیث سے وضاحت کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے علامہ طبری کا جو بیان ہے وہ پیش کرتاہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ غض بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکناہے جس سے اللہ تعالی نے روکا ہے۔ (تفسیر الطبری جلد ۱۸ صفحہ۱۱۶، ۱۱۷)

تومردوں کے لئے تو پہلے ہی حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اوراگر مرد اپنی نظریں نیچی رکھیں گے توبہت سی برائیوں کا تو یہیں خاتمہ ہوجاتاہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھناچاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے۔ بے محابانظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدّنی زندگی میں غضِ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی۔ (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ۱۰۲، ۱۰۳۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ۴۴۴)

پھر مومن عورتوں کے لئے حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں اور آنکھیں نیچی رکھاکریں۔ اگر عورت اونچی نظر کرکے چلے گی تو ایسے مرد جن کے د لوں پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے وہ تو پھر ان عورتوں کے لئے مشکلات ہی پیدا کرتے رہیں گے۔ توہر عورت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بدنامی سے بچانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے غض بصر کا، اس پر عمل کرے تاکہ کسی بھی قسم کی بدنامی کا باعث نہ ہو۔ کیونکہ اس قسم کے مرد جن کے دلوں میں کجی ہو، شرارت ہو تو وہ بعض دفعہ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں اور پھر بلاوجہ کے تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے آنحضرتﷺ نے اپنی بیویوں کو یہاں تک فرمایا تھا کہ اگر مخنث آئے تو اس سے بھی پردہ کرو۔ ہوسکتاہے کہ یہ باہر جا کر دوسرے مردوں سے باتیں کرے اور اس طرح اشاعت فحش کا موجب ہو۔ تو دیکھیں آنحضرتﷺ نے کس حد تک پابندی لگائی ہے۔ کجا یہ کہ جوان مرد جن کے دل میں کیا کچھ ہے ہمیں نہیں پتہ، ان سے نظر میں نظر ڈال کر بات کی جائے یادیکھا جائے۔ بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ کسی مجبوری کی وجہ سے کسی مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو ایسا لہجہ ہونا چاہئے جس میں تھوڑی سی خفگی ہو، ترشی ہو تاکہ مرد کے دل میں کبھی کوئی برا خیال نہ پیداہو۔ تو اس حد تک سختی کا حکم ہے اور بعض جگہوں پر ہمارے ہاں شادیوں وغیرہ پر لڑکوں کوکھانا Serve کرنے کے لئے بلا لیا جاتاہے۔ دیکھیں کہ سختی کس حد تک ہے اور کجا یہ ہے کہ لڑکے بلا لئے جاتے ہیں اور کہا جاتاہے کہ چھوٹی عمروالے ہیں حالانکہ چھوٹی عمر والے بھی جن کو کہاجاتاہے وہ بھی کم از کم ۱۷، ۱۸ سال کی عمر کے ہوتے ہیں۔ بہر حال بلوغت کی عمر کو ضرو ر پہنچ گئے ہوتے ہیں۔ وہاں شادیوں پر جوان بچیاں بھی پھررہی ہوتی ہیں اور پھر پتہ نہیں جو بیرے بلائے جاتے ہیں کس قماش کے ہیں تو جیساکہ مَیں نے کہا ہے بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور ان سے پردے کا حکم ہے۔ اگر چھوٹی عمر کے بھی ہیں تو جس ماحول میں وہ بیٹھتے ہیں، کام کررہے ہوتے ہیں ایسے ماحول میں بیٹھ کر ان کے ذہن بہرحال گندے ہو چکے ہوتے ہیں۔ اور سوائے کسی استثناء کے الا ماشاء اللہ، اچھی زبان ان کی نہیں ہوتی اور نہ خیالات اچھے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تومَیں نے دیکھاہے کہ عموماً یہ لڑکے تسلی بخش نہیں ہوتے۔ توماؤں کو بھی کچھ ہوش کرنی چاہئے کہ اگر ان کی عمر پردے کی عمر سے گزر چکی ہے تو کم از کم اپنی بچیوں کا توخیال رکھیں۔ کیونکہ ان کام کرنے والے لڑکوں کی نظریں تو آپ نیچی نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ باہر جا کر تبصرے بھی کرسکتے ہیں اور پھربچیوں کی، خاندان کی بدنامی کا باعث بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا تھاکہ احمدی لڑکے، خدام، اطفال کی ٹیم بنائی جائے جو اس طرح شادیوں وغیرہ پر کام کریں۔ خدمت خلق کا کام بھی ہوجائے گا اور اخراجات میں بھی کمی ہو جائے گی۔ بہت سے گھرہیں جوایسے بیروں وغیرہ کو رکھناAfford ہی نہیں کرسکتے لیکن دکھاوے کے طورپر بعض لوگ بلا بھی لیتے ہیں تو اس طرح احمدی معاشرے میں باہر سے لڑکے بلانے کا رواج بھی ختم ہوجائے گا۔ خدام الاحمدیہ، انصاراللہ یا اگر لڑکیوں کے فنکشن ہیں تولجنہ اماء اللہ کی لڑکیاں کام کریں۔ اور اگر زیادہ ہی شوق ہے کہ ضرو ر ہی خرچ کرناہے، Serve کرنے والے لڑکے بلانے ہیں یا لوگ بلانے ہیں تو پھرمردوں کے حصے میں مرد آئیں۔ یہاں مَیں نے دیکھاہے کہ عورتیں بھی Serve کرتی ہیں عورتوں کے حصے میں تووہاں پھر عورتوں کا انتظام ہوناچاہئے اور اس بارہ میں کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ بعض لوگ دیکھا دیکھی خرچ کررہے ہوتے ہیں تویہ ایک طرح کا احساس کمتری ہے۔ کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے۔ اگر یہ ارادہ کرلیں کہ ہم نے قرآن کے حکم کی تعمیل کرنی ہے اور پاکیزگی کو بھی قائم رکھناہے تو کام تو ہو ہی جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کو ثواب بھی مل رہا ہوگا۔

پھر فرمایا کہ زینت ظاہر نہ کرو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جیساعورتوں کوحکم ہے میک اپ وغیرہ کرکے باہر نہ پھریں۔ باقی قد کاٹھ، ہاتھ پیر، چلنا پھرنا، جب باہر نکلیں گے تو نظر آ ہی جائے گا۔ یہ زینت کے زمرے میں اس طرح نہیں آتے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے لئے اس طرح کی قید نہیں رکھی۔ تو فرمایا کہ جو خود بخود ظاہر ہوتی ہواس کے علاوہ۔ باقی چہرے کا پردہ ہونا چاہئے اور یہی اسلام کا حکم ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی ایک تشریح یہ فرمائی تھی کہ ماتھے سے لے کر ناک تک کا پردہ ہو۔ پھر چادر سامنے گردن سے نیچے آ رہی ہو۔ اس طرح بال بھی نظر نہیں آنے چاہئیں۔ سکارف یا چادر جو بھی چیز عورت اوڑھے وہ پیچھے سے بھی اتنی لمبی ہوکہ بال وغیرہ چھپ جاتے ہوں۔ {اِلَّا مَاظَہَرَ مِنْہَا} یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو اس کے بار ہ میں حضرت مصلح موعود ؓ تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

{ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا} یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو۔ یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہو شریعت نے صرف اس کوجائز رکھا ہے۔ یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے۔ اس کا ظاہر کرنا اس کے لئے جائز ہو۔ میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں۔ چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے۔ کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کردیا جائے۔

پھرفرمایاکہ: اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا۔ اور پردہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں۔ اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریاتِ معیشت کے لئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پردے کے حکم میں ہی شامل ہے۔ …… لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اُس پر اس اجازت کا اطلاق نہ ہوگا۔ غرض اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے ننگا کیا جاسکتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ۲۹۸، ۲۹۹)

تو اس تفصیل سے پردے کی حد کی بھی کافی حد تک وضاحت ہوگئی کہ کیا حد ہے۔ چہرہ چھپانے کا بہرحال حکم ہے۔ اس حد تک چہرہ چھپایا جائے کہ بے شک ناک ننگا ہو اور آنکھیں ننگی ہوں تاکہ دیکھ بھی سکے اور سانس بھی لے سکے۔

چہرہ کا پردہ کیوں ضروری ہے اس بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓ نے احادیث سے یہ دلیل دی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے ایک صحابیہ کو کسی لڑکی کا رشتہ آیا تھا، اس کی شکل دیکھنے کے لئے بھیجا تاکہ دیکھ کر آئیں۔ اگر چہرہ کا پردہ نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ پھر تو ہر ایک نے شکل دیکھی ہوتی۔

پھر دوسری مرتبہ یہ واقعہ حدیث میں بیان ہوتاہے کہ جب ایک لڑکے کو آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ تم فلاں لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ اگر نہیں دیکھا تو جا کر دیکھ آؤ۔ کیونکہ پردے کا حکم تھا بہرحال دیکھا نہیں ہوگا۔ تو جب وہ اس کے گھرگیا اور لڑکی کو دیکھنے کی خواہش کی تو اس کے باپ نے کہا کہ نہیں اسلام میں پردے کا حکم ہے اور مَیں تمہیں لڑکی نہیں دکھا سکتا۔ پھر اس نے آنحضرتﷺ کا حوالہ دیا تب بھی وہ نہ مانا۔ بہرحال ہر ایک کی اپنی ایمان کی حالت ہوتی ہے۔ اسلام کے اس حکم پر اس کی زیادہ سختی تھی بجائے اس کے کہ آنحضرتﷺ کے حکم کو موقعہ محل کے مطابق تسلیم کرتا اور مانتا۔ تو لڑکی جواندر بیٹھے یہ باتیں سن رہی تھی وہ باہر نکل آئی کہ اگر آنحضرتﷺ کا حکم ہے تو پھر ٹھیک ہے میرا چہرہ دیکھ لو۔ تو اگر چہرہ کے پردہ کا حکم نہیں تھاتو حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ پھرآنحضرتﷺ نے یہ کیوں فرمایا۔ ہر ایک کو پتہ ہوتاکہ فلاں لڑکی کی یہ شکل ہے اور فلاں کی فلاں شکل۔

اسی طرح ایک موقع پر آنحضرتﷺ اعتکاف میں تھے۔ رات کو حضرت صفیہ کو چھوڑنے جا رہے تھے تو سامنے سے دو آدمی آرہے تھے ان کو دیکھ کر آنحضر تﷺ نے فرمایا گھونگھٹ اٹھا ؤ اور فرمایا دیکھ لو یہ میری بیوی صفیہ ہی ہے۔ کوئی شیطان تم پرحملہ نہ کرے اور غلط الزام لگانا نہ شروع کردو۔ تو چہرے کا پردہ بہرحال ہے۔

پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔

’’وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم توکہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بے شک ہم اس حد تک قائل ہیں کہ چہر ے کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کاصحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے مثلاً باریک کپڑا ڈال لیا جائے یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنا لیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے۔ مگر چہرے کو پردے سے باہر نہیں رکھا جاسکتا‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ۱۰۳)

پھر فرمایا کہ جو جو عورتیں بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوجائیں اور نکاح کے قابل نہ رہیں وہ اگر معروف پردہ چھوڑ دیں تو جائز ہے ہاں خواہ مخواہ زیور پہن کر اور بناؤ سنگار کرکے باہر نہ نکلیں یعنی پردہ ایک عمر تک ہے اس کے بعد پردہ کے احکام ساقط ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک نے پردہ کے احکام کو ایسی بری طرح استعمال کیا ہے کہ جوان عورتیں پردہ چھوڑ رہی ہیں۔ اور بوڑھی عورتوں کوجبراً گھروں میں بٹھایا جارہا ہے۔ …عورت کا چہرہ پردہ میں شامل ہے ورنہ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مونہہ اور ہاتھ تو پہلے ہی ننگے تھے اب سینہ اور بازو بھی بلکہ سارا بدن بھی ننگا کرنا جائز ہوگیا حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ۳۹۶، ۳۹۷)

ہوتا یہی ہے کہ اگر پردہ کی خود تشریح کرنی شروع کردیں اور ہر کوئی پردے کی اپنی پسند کی تشریح کرنی شروع کردے تو پردے کا تقدس کبھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لئے ماں باپ دونوں کو اپنی اولاد کے پردے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔

اب کسی نے لکھاکہ مغربی ملک میں ملازمت کے سلسلہ میں ایک یونیفارم ہے جس میں جینز اور بلاؤز یاسکرٹ استعمال ہوتاہے تو کیا مَیں یہ پہن کر کام کرسکتی ہوں۔ اس کو مَیں نے جواب دیا کہ اگر لمبا کوٹ پہن کر اور سکارف سر پر رکھ کر کام کرنے کی اجازت ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی اجازت نہیں۔ اب اس میں جن عزیزوں یا رشتوں کا ذکر ہے کہ ان سے پردہ کی چھوٹ ہے ان میں وہ سب لوگ ہیں جو انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں۔ یعنی خاوند ہے، باپ ہے یا سسرہے، بھائی ہے یا بھتیجے، بھانجے وغیرہ۔ ان کے علاوہ باقی جن سے رشتہ داری قریبی نہیں ان سب سے پردہ ہے۔

پھر فرمایاکہ اپنی عورتوں کے سامنے تم زینت ظاہر کر سکتی ہو۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ عورتوں کے سامنے زینت ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورتیں جو ہیں جن سے بے تکلفانہ یا بے حجابانہ تمہیں سامنے نہیں آنا چاہئے۔ اب بازاری عورتیں ہیں ان سے بچنے کی توہر شریف عورت کوشش کرتی ہے۔ ان کی حرکات، ان کا کردار ظاہر وباہر ہوتاہے، سامنے ہوتاہے لیکن بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جو غلط قسم کے لوگوں کے لئے کام کررہی ہوتی ہیں۔ اور گھروں میں جا کر پہلے بڑوں سے دوستی کرتی ہیں۔ جب ماں سے اچھی طرح دوستی ہو جائے تو پھربچیوں سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ بعض دفعہ برائیوں کی طرف ان کو لے جاتی ہیں۔ تو ایسی عورتوں کے بارہ میں بھی یہ حکم ہے کہ ہر ایرے غیرے کو، ہر عورت کو اپنے گھر وں میں نہ گھسنے دو۔ ان کے بارہ میں تحقیق کرلیاکرو، اس کے بعد قدم آگے بڑھاؤ۔

حضرت مصلح موعود ؓ نے لکھاہے کہ پہلے یہ طریق ہواکرتا تھا لیکن اب کم ہے۔ (کسی زمانے میں کم تھا لیکن آج کل پھر بعض جگہوں سے ایسی اطلاعیں آتی ہیں کہ پھر بعض جگہوں پر ایسے گروہ بن رہے ہیں )۔ جو اس قسم کی حرکات کرتے ہیں۔ خاص طورپراحمدی بچوں کو پاکستان میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے۔ بلکہ ماں باپ کو بھی احتیاط کرنی چاہئے کہ بعض دفعہ گھریلوکام کے لئے ایک عورت گھرمیں داخل ہوتی ہے اور اصل میں وہ ایجنٹ ہوتی ہے کسی کی اور اس طرح پھر آہستہ آہستہ ورغلاکر پہلے دوستی کے ذریعہ اور پھر دوسرے ذریعوں سے غلط قسم کی عادتیں ڈال دیتی ہیں بچیوں کو۔ تو ایسے ملازمین یا ملازمائیں جو رکھی جاتی ہیں، ان سے احتیاط کرنی چاہئے اور بغیر تحقیق کے نہیں رکھنی چاہئے۔ اسی طرح اب اس طرح کاکام، بری عورتوں والا، انٹرنیٹ نے بھی شروع کردیاہے۔ جرمنی وغیرہ میں اور بعض دیگرممالک میں ایسی شکایات پیداہوئی ہیں کہ بعض لوگوں کے گروہ بنے ہوئے ہیں جو آہتہ آہستہ پہلے علمی باتیں کر کے یا دوسری باتیں کرکے چارہ ڈالتے ہیں اور پھر دوستیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھرغلط راستوں پرڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مَیں متعدد بار انٹرنیٹ کے رابطوں کے بارہ میں احتیاط کا کہہ چکاہوں۔ بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ باپوں کی بھی ذمہ داری ہے، یہ ماؤں کی بھی ذمہ دار ی ہے کہ انٹرنیٹ کے رابطوں کے بار ہ میں بچوں کو ہوشیار کریں۔ خاص طورپر بچیوں کو۔ اللہ تعالیٰ ہماری بچیوں کو محفوظ رکھے۔ تو ملازم رکھنے ہوں یا دوستیاں کرنی ہوں جس کو آپ اپنے گھر میں لے کر آرہے ہیں اس کے بارہ میں بہت چھان بین کر لیا کریں۔ آج کل کا معاشرہ ایسانہیں کہ ہرایک کو بلا سوچے سمجھے اپنے گھر میں لے آئیں۔ یہ قرآن کا حکم ہے اور اس پرعمل کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔

پھر بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ ہر قسم کے ملازمین کے سامنے بے حجابانہ آجاتے ہیں۔ تو سوائے گھروں کے وہ ملازمین یاوہ بچے جو بچوں میں پلے بڑھے ہیں یا پھر بہت ہی ادھیڑ عمر کے ہیں۔ جو اس عمر سے گزر چکے ہیں کہ کسی قسم کی بدنظری کا خیال پیدا ہوا یا گھرکی باتیں باہر نکالنے کا ان کو کوئی خیال ہو۔ اس کے علاوہ ہرقسم کے لوگوں سے، ملازمین سے، پردہ کرناچاہئے۔ بعض جگہ دیکھا گیاہے کہ ایسے ملازمین جن کو ملازمت میں آئے چند ماہ ہی ہوئے ہوتے ہیں، بے دھڑک بیڈروم میں بھی آ جا رہے ہوتے ہیں اور عورتیں اور بچیاں بعض دفعہ وہاں بغیردوپٹوں کے بھی بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔ اور اس کو روشن دماغی کانام دیا جاتاہے۔ یہ روشن دماغی نہیں ہے۔ جب اس کے نتائج سامنے آتے ہیں تو پچھتاتے ہیں۔ پھر جو چھُوٹ ہے اس آیت میں وہ چھوٹے بچوں سے پردہ کی ہے۔ فرمایا کہ چال بھی تمہاری اچھی ہونی چاہئے، باوقارہونی چاہئے، یونہی پاؤں زمین پر مار کے نہ چلو۔ اور ایسی باوقارچال ہوکہ کسی کو جرأت نہ ہوکہ تمہاری طرف غلط نظرسے دیکھ بھی سکے۔ جب تم پردوں میں ہوگی اور مکمل طورپر صاحب وقارہوگی تو کسی کو جرأت نہیں ہوسکتی کہ ایک نظرکے بعد دوسری نظرڈالے۔

پھر ہمارے معاشرے میں زیور وغیرہ کی نمائش کا بھی بہت شوق ہے۔ گو چوروں ڈاکوؤں کے خوف سے اب اس طرح تو نہیں پہناجاتا لیکن پھر بھی شادی بیاہوں پر اس طرح بعض دفعہ ہوجاتاہے کہ راستوں سے عورتیں گزر کر جا رہی ہوتی ہیں جہاں مرد بھی کھڑے ہوتے ہیں اور وہاں ڈگر ڈگر زیور کی نمائش بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ تو اس سے بھی احتیاط کرنی چاہئے۔

پھر حضرت مصلح موعود ؓ نے پاؤں زمین پر مارنے سے ایک یہ بھی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شریعت نے ناچ یا ڈانس کو بھی مکمل طورپر منع کردیاہے کیونکہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اور بعض عورتیں کہتی ہیں کہ عورتیں عورتوں میں ناچ لیں تو کیاحرج ہے ؟ عورتوں کے عورتوں میں ناچنے میں بھی حرج ہے۔ قرآن کریم نے کہہ دیاہے کہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے توبہرحال ہراحمدی عورت نے اس حکم کی پابندی کرنی ہے۔

اگرکہیں شادی بیاہ وغیرہ میں اس قسم کی اطلاع ملتی ہے کہ کہیں ڈانس وغیرہ یا ناچ ہواہے تو وہاں بہر حال نظام کوحرکت میں آنا چاہئے اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔

اب بعض عورتیں ایسی ہیں جن کی تربیت میں کمی ہے کہہ دیتی ہیں کہ ربوہ جاؤ تو وہاں تو لگتاہے کہ شادی اور مرگ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کوئی ناچ نہیں، کوئی گانا نہیں، کچھ نہیں۔ تو اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ شرفاء کا ناچ اور ڈانس سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو ایسی شادیوں میں نہ شامل ہو۔ جہاں تک گانے کا تعلق ہے توشریفانہ قسم کے، شادی کے گانے لڑکیاں گاتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھردعائیہ نظمیں ہیں جو پڑھی جاتی ہیں۔ تو یہ کس طرح کہہ سکتی ہیں کہ شادی میں اور موت میں کوئی فرق نہیں، یہ سوچوں کی کمی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنی حالت درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم تو دعاؤں سے ہی نئے شادی شدہ جوڑوں کورخصت کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی نئی زندگی کا ہر لحاظ سے بابرکت آغازکریں اور ان کو اس خوشی کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا گھرآباد رکھے، نیک اور صالح اولاد بھی عطا فرمائے۔ پھریہ کہ وہ دونوں دین کے خادم ہوں اور ان کی نسلیں بھی دین کی خادم ہوں۔ پھر یہ ہے کہ دونوں فریق جو شادی کے رشتے میں منسلک ہوئے ہیں، ان کے لئے یہ دعائیں بھی کرنی چاہئیں کہ وہ اپنے والدین کے اور اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں۔ تو احمدی تو اسی طرح شادی کرتے ہیں اگر کسی کواس پر اعتراض ہے توہوتا رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہی حکم ہے کہ خوشیاں بھی مناؤ تو سادگی سے مناؤ اور اللہ کی رضا کو ہمیشہ پیش نظررکھو۔ کیونکہ ہماری کامیابی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی طرف جھکنے میں ہی ہے۔ اس لئے ہم تواسی طرح شادیاں مناتے ہیں۔ اور جوغیر بھی ہماری شادیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ اچھا اثر لے کرجاتے ہیں۔ اب چند احادیث پیش کرتاہوں۔ ابو ریحانہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ایک رات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ’’آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی۔ اور آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے، ، ۔

پھر اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آگ اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے۔ اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عز و جل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو۔ (سنن دارمی، کتاب الجہاد، باب فی الذی یسھر فی سبیل اللہ حارسا)

تو دیکھیں غض بصر کا کتنا بڑا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والوں، شہید ہونے والوں یا دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والی آنکھ کا رتبہ ایسے لوگوں کوحاصل ہو رہاہے جو اس حکم پر عمل کرتے ہوئے، ہمیشہ عبادت بجا لانے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے۔

حضرت ابوسعید خُدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو۔ صحابہؓ نے عرض کی، یا رسول اللہ ہمیں رستوں میں مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر رستے کا حق ادا کرو۔ انہوں نے عرض کی کہ اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غض بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی رہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ۶۱ مطبوعہ بیروت)

دیکھیں کس قدر تاکید ہے کہ اول تو اگر کام نہیں ہے توکوئی بلاوجہ راستے میں نہ بیٹھے۔ اور اگر مجبوری کی وجہ سے بیٹھنا ہی پڑے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ بلاوجہ نظریں اٹھا کے نہ بیٹھے رہوبلکہ غض بصر سے کام لو، اپنی نظروں کو نیچا رکھو، کیونکہ یہ نہیں کہ ایک دفعہ نظر پڑ گئی تو پھر ایک سرے سے دیکھنا شروع کیا اور دیکھتے ہی چلے گئے۔

اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں آنحضرتﷺ کے پاس تھی اور میمونہ ؓ بھی ساتھ تھیں۔ تو ابن ام مکتوم ؓ آئے۔ یہ پردہ کے حکم کے نزول سے بعد کی بات ہے۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس سے پردہ کرو۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ کیا وہ نابینا نہیں ؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی پہچان سکتا ہے توآپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو۔ اور تم اس کو دیکھ نہیں رہیں۔ (ترمذی کتاب الأدب عن رسول اللہ باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال)

دیکھیں کس قدرپابندی ہے پردہ کی کہ غض بصر کا حکم مردوں کو تو ہے، ساتھ ہی عورتوں کے لئے بھی ہے کہ تم نے کسی دوسرے مرد کو بلا وجہ نہیں دیکھنا۔

حضرت جریرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ’’اچانک نظر پڑ جانے‘‘ کے بارہ میں دریافت کیا۔ حضور نے فرمایا ’’اِصْرِفْ بَصَرَکَ‘‘ اپنی نگاہ ہٹا لو۔ (ابو داؤد کتاب النکاح باب فی ما یؤمر بہ من غض البصر)

تو دیکھیں اسلامی پردہ کی خوبیاں۔ نظر پڑ جاتی ہے ٹھیک ہے، قدرتی بات ہے۔ ایک طرف تو یہ فرما دیا عورت کو کہ تمہیں باہر نکلنے کی اجازت اس صورت میں ہے کہ پردہ کرکے باہر نکلو۔ اور جو ظاہری نظر آنے والی چیزیں ہیں، خود ظاہرہونے والی ہیں ان کے علاوہ زینت ظاہر نہ کرو۔ اوردوسری طرف مردوں کو یہ کہہ دیا کہ اپنی نظریں نیچی رکھو، بازار میں بیٹھو تو نظرنیچی رکھو اور اگر پڑ جائے تو فوراً نظر ہٹا لو تاکہ نیک معاشرے کا قیام عمل میں آتا رہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ فضل(بن عباس) رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار تھے تو خَثْعَم ْقبیلہ کی ایک عورت آئی۔ فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی۔ تواس پر نبی کریمﷺ نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا۔ (بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج وفضلہ)

حضرت أبو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ غض بصر کرتا ہے تواللہ تعالی اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے۔ (مسند احمد مسند باقی الانصار باب حدیث أبی أمامۃ الباہلی الصدی بن عجلان)

تودیکھیں نظریں اس لئے نیچی کرنا کہ شیطان اس پر کہیں قبضہ نہ کرلے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو نیکیوں کی توفیق دیتاہے اور عبادات کی توفیق دیتاہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اسلام نے جو یہ حکم دیا ہے کہ مرد عورت سے اور عورت مرد سے پردہ کرے اس سے غرض یہ ہے کہ نفسِ انسانی پھسلنے اور ٹھوکر کھانے کی حد سے بچا رہے۔ کیونکہ ابتداء میں اس کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بدیوں کی طرف جھکا پڑتا ہے اور ذرا سی بھی تحریک ہو تو بدی پر ایسے گرتا ہے جیسے کئی دنوں کا بھوکا آدمی کسی لذیذ کھانے پر۔ یہ انسان کا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کرے…یہ ہے سِرّ اسلامی پردہ کا اور میں نے خصوصیت سے اسے ان مسلمانوں کے لئے بیان کیا ہے جن کو اسلام کے احکام اور حقیقت کی خبر نہیں۔ (البدر جلد ۳نمبر۳۴مورخہ ۸؍ستمبر۱۹۰۴ء صفحہ۶۔ ۷۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ۴۴۳)

پھر فرماتے ہیں :۔

ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہوکر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ یہ وہ تدبیر ہے کہ جس سے پابندی ٹھوکر سے بچاسکتی ہے۔ (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ۱۰۰۔ ۱۰۱۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ۴۴۴)

پھرفرمایا:مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے، بلکہ {یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ}(النور:۳۱) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بد نظری کے اسباب سے بچنا چاہئے۔ ‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ۳۳ ۵ از نوٹ بک مولوی شیر علی صاحب)

اب یہ جو غض بصر کاحکم ہے، پردے کاحکم ہے اور توبہ کرنے کا بھی حکم ہے، یہ سب احکام ہمارے فائدے کے لئے ہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنا پیار، اپنا قرب عطا فرمائے گا کہ اس کے احکامات پر عمل کیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس معاشرے میں، اس دنیا میں جہاں تم رہ رہے ہو، ان نیکیوں کی وجہ سے تمہاری پاکدامنی بھی ثابت ہو رہی ہوگی اور کوئی انگلی تم پریہ اشارہ کرتے ہوئے نہیں اٹھے گی کہ دیکھو یہ عورت یا مرد اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہے، ان سے بچ کر رہو۔ اور یہ کہتے پھریں لوگ کہ خود بھی بچو اور اپنے بچوں کو بھی ان سے بچاؤ۔ نہیں بلکہ ہرجگہ اس نیکی کی وجہ سے ہمیں عزت کا مقام ملے گا۔ دیکھیں جب ھرقل بادشاہ نے ابوسفیان سے آنحضرتﷺ کی تعلیم کے بارہ میں پوچھا کہ کیا ان کی تعلیم ہے اور کیا ان کے عمل ہیں۔ تو باوجود دشمنی کے ابوسفیان نے اور بہت ساری باتوں کے علاوہ یہی جواب دیاکہ وہ پاکدامنی کی تعلیم دیتے ہیں۔ توھرقل نے اس کو جواب دیا کہ یہی ایک نبی کی صفت ہے۔

پھرمحمد بن سیرین سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے درج ذیل امور کی وصیت کی پھر ایک لمبی روایت بیان کی جس میں سے ایک وصیت یہ ہے۔ کہ عفت(یعنی پاکدامنی) اور سچائی، زنا اور کذب بیانی کے مقابلہ میں بہتر اور باقی رہنی والی ہے۔ (سنن دارقطنی، کتاب الوصایا، باب مایستحب بالوصیۃ من التشھدوالکلام)

تو پاکدامنی ایسی چیز ہے جوہمیشہ رہنے والی ہے اور جس میں ہو اس کا طرہ امتیاز ہوگی اور ہمیشہ ہر انگلی اس پر اس کی نیکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اٹھے گی۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہوسکتی ہیں ‘‘۔ (اب اس میں ایسی عورتیں بھی ہیں جو پردہ میں نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو عورت پردے میں نہیں ہے اس کو دیکھنے کی اجازت ہے بلکہ ان کو بھی دیکھنے سے بچیں )۔ ’’ اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں۔ ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے، ان کے حسن کے قصے نہ سنے۔ یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے۔ (رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ۱۰۰۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ۴۴۰)

اب تو گانے وغیرہ سے بڑھ کر بیہودہ فلموں تک نوبت آ گئی ہے۔ اس بارے میں عورتوں اور مردوں دونوں کو یکساں احتیاط کی ضرورت ہے، دونوں کواحتیاط کرنی چاہئے۔ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، جاکے ویڈیو کیسٹ لے آئیں یا سیڈیز لے آئیں، اور پھر انتہائی بیہودہ اور لچر قسم کی فلمیں اور ڈرامے ان میں ہوتے ہیں۔ جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارہ میں نظررکھنی چاہئے اور اس کے نتائج سے لوگوں کو، بچوں کو آگاہ کرتے رہنا چاہئے، سمجھانا چاہئے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ یہی نکلتاہے کہ یہ چیزیں بالآخر غلط راستوں پر لے جاتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

خدائے تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کیلئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کیلئے پانچ علاج بھی بتلا دئیے ہیں۔ یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا، کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا، نامحرموں کے قصے نہ سننا، اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بدفعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا۔ اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ۔

اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پاکر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے۔ یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں۔ اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔ اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے، تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔ ‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد۰۱ صفحہ۳۴۳۔ ۳۴۴)

پھرفرمایا: خداتعالیٰ نے چاہاکہ انسانی قویٰ کو پوشیدہ کاروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تکلیف پیش نہ آئے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔ پھر آپ عورتوں کے لئے پردے کے بارہ میں فرماتے ہیں :

’’شرعی پردہ یہ ہے کہ چادر کو حلقہ کے طور پر کرکے اپنے سر کے بالوں کو کچھ حصہ پیشانی اور زنخدان کے ساتھ بالکل ڈھانک لیں اور ہر ایک زینت کا مقام ڈھانک لیں۔ مثلاً منہ پر اردگرد اس طرح پر چادر ہوکہ صرف آنکھیں اور ناک تھوڑا سا ننگا ہو اور باقی اس پر چادر آجائے۔ اس قسم کے پردہ کو انگلستان کی عورتیں آسانی سے برداشت کرسکتی ہیں او راس طرح پر سیر کرنے میں کچھ حرج نہیں آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ (ریویو آف ریلیجنزجلد ۴نمبر۱صفحہ۱۷۔ ماہ جنوری ۱۹۰۵ء۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ۴۴۶)

تو آج کل جو برقعے کا رواج ہے، کوٹ کا اور نقاب کا، اگر وہ صحیح طورپرہو، ساتھ چپکا ہوا برقعہ یا کوٹ نہ ہو تو بڑا اچھا پردہ ہے۔ اس سے ہاتھ بھی کھلے رہتے ہیں، آنکھیں بھی کھلی رہتی ہیں، سانس بھی آتا رہتاہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتاہے اور مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاک دامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں۔ ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرورہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی حال دینی امور کا ہے۔ شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپناحساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے۔ خدا کو راضی کرے پھر کسی سے خوف نہ کھائے او ر نہ کسی کی پروا کرے۔ ایسے معاملات سے پرہیز کرے جن سے خود ہی مورد عذاب ہو جاوے مگر یہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الٰہی کے سوا نہیں ہو سکتا۔ صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل شامل حال نہ ہو۔ {خُلِقَ الْاَنْسَانُ ضَعِیْفًا}(النساء : ۲۹) انسان ناتواں ہے۔ غلطیوں سے پر ہے۔ مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیدات غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنا دے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم، صفحہ ۵۴۳ الحکم ۶؍ مئی ۱۹۰۸ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 30؍ جنوری 2004ء شہ سرخیاں

    ٭…پردے کی اہمیت اور اسکی برکات و فوائد۔

    ٭…پردے کو فرسودہ یا غیر ضروری قرار دینا درست نہیں۔

    ٭…اسلام اور احمدیت کی ترقی اسی اسلامی تعلیم کے ساتھ ہے۔

    ٭…پردے کی تفصیلات اور ملازمت وغیرہ کے دوران پردہ کی شکل۔

    ٭…انٹرنیٹ کے خطرات اور ان سے ہوشیار رہنے کی تلقین۔

    ٭…شادی بیاہ کے مواقع پر پردہ کے احکام کا خیال رکھنا۔

    ٭…غض بصر کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ہے۔

    ۳۰؍جنوری۲۰۰۴ بمطابق۳۰؍صلح ۱۳۸۳شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور