ہر پاک دل کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے آؤ

خطبہ جمعہ 19؍ مارچ 2004ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

{لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ}۔ (المائدہ آیت۹۴)

اس آیت کا ترجمہ ہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے ان پراس میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھاتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔ پھر مزید تقویٰ اختیار کریں اور مزید ایمان لائیں پھر اور بھی تقویٰ اختیار کریں اور احسان کریں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

بنیادی اخلاق جن کا ہر احمدی کو خیال رکھنا چاہئے کے بارے میں مَیں نے سلسلہ خطبات شروع کیا ہوا ہے اس سلسلے میں آج احسان کا مضمون میں نے لیا ہے۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے عدل کے بارے میں بتایا تھا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مومن ایک منزل پر آ کر رک نہیں جاتا بلکہ آگے بڑھتا ہے تو ہماری انتہاء صرف عدل قائم کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے قدم بڑھانا ہے۔ ایک دنیادار کہے گا کہ جب عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار قائم ہو گئے تو پھر کیا رہ گیا ہے۔ یہ تو ایک معراج ہے جو انسان کو حاصل کرنا چاہئے۔ اور جب یہ قائم ہو جائے تو دنیا کی نظر میں اس سے زیادہ کوئی نیکیوں پر قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ اس بارے میں کل مَیں نے اپنی تقریر میں بھی کچھ عرض کیا تھا کہ عدل کے معیار اس حد تک لے جاؤ کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل سے کام نہ لو۔

بہرحال ایک جگہ پر کھڑے ہو جانا دنیا کی نظر میں تو یہی اعلیٰ معیار ہے۔ لیکن کامل ایمان والوں کی نظر میں یہ اعلیٰ معیار نہیں بلکہ اس سے آگے بھی اللہ تعالیٰ کی حسین تعلیم کی روشنیاں ہیں۔ اور عدل سے اگلا قدم احسان کا قدم ہے۔ لیکن یاد رکھو یہ قدم تم اس وقت اٹھانے کے قابل ہو گے جب تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہو گی، جب تم میں بنی نوع انسان سے انتہاء کی محبت پیدا ہو گی۔ اور یہ باتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل یقینا ان پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے۔ ہر موقع پر دوست اور محبت کرنے والے کا حق ادا کرنے کے لئے وہ اس کے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ او راللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے احسان کرنا بھی ایک بہت بڑا حُکم اور خُلق ہے۔

اب اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک بہت بڑی نشانی بتائی ہے کہ وہ احسان کرنے والا ہو، اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ لیکن فرمایا کہ یہ احسان کرنے کا خلق یونہی پیدا نہیں ہو جاتا۔ اس کے لئے تقویٰ اختیار کرنے کی ضرورت ہے خالصتاً اللہ تعالیٰ کا ہونے کی ضرورت ہے۔ یعنی تقویٰ کی اعلیٰ سے اعلیٰ منازل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت میں ان منازل کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تقویٰ کی تین منازل کا ذکر کیا ہے۔ فرمایا کہ جب تم اس حد تک تقویٰ اختیار کر لو تو تم پھر احسان کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔

یاد رکھیں ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دوست اور ولی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر مشکل سے اس کو نکالے۔ تو جب تم اپنے تقویٰ کے معیار کو اس حد تک لے جاؤ گے کہ احسان کرنے والے بن سکو، پھر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ گے اور جو اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جائے اس کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

پھر قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے احسان کی مختلف شکلیں بیان فرمائی ہیں۔ کہیں فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور یہ بھی احسان کرناہے۔ لیکن یہ خداتعالیٰ پر احسان نہیں بلکہ یہ تمہارا اپنے پر احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس وجہ سے بہت سی بلاؤں سے محفوظ رکھے گا۔

پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ اپنے قریبیوں کے ساتھ جس طرح بعض دفعہ تم بغیر کسی ذاتی فائدہ کے، حسن سلوک کرتے ہو، جس طرح تم اپنے بیوی بچوں، بہن بھائیوں یا قریبی دوستوں کی مدد کرتے ہو اور بے نفس ہو کر کرتے ہو، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوق سے بھی حسن سلوک کرو، ان سے بھی احسان کا سلوک کرو، ان کے کام آؤ، جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہو ان کے لئے بھی پسند کرو، اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نعمت سے نوازا ہے کہ تمہیں اس زمانے کے امام اور مسیح اور مہدی علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اپنے ہم قوموں کو بھی یہ روشنی وسیع پیمانے پر دکھانے کی کوشش کرو یہ بھی تمہارا ان پر احسان ہو گا۔ ہر پاک دل کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے آؤ۔ تو یہ بھی تمہارا قوم پر ایک بہت بڑا احسان ہو گا اور تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بھی بن رہے ہو گے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اپنے میں شامل کرکے پھر یہ تعلق چھوڑ نہیں دینا بلکہ ان سے پختہ رابطہ اور تعلق بھی رکھنا ہے۔ تو اس سوچ کے ساتھ ہر احمدی کو احسان کے اعلیٰ ترین خُلق کو دنیا میں رائج کرنا چاہئے۔

اب اس بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں۔ ایک لمبی حدیث ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں جبرائیل علیہ السلام نے آ کر اسلام ایمان وغیرہ سے متعلق سوال پوچھے۔ اور اس میں سے ایک سوال احسان کے بارے میں بھی کیا، احسان سے متعلقہ حصہ میں سناتا ہوں۔ سوال تھا کہ احسان کے متعلق کچھ بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تُو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر تجھے یہ درجہ حاصل نہیں تو کم از کم یہ تصور اور احساس ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔ (بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبریل النبیﷺ عن الایمان)

تو احمدیوں کو اپنی نمازوں کی ادائیگی میں ہمیشہ یہ اصول اپنے سامنے اور نظر میں رکھنا چاہئے، جب ہر احمدی اس طرح نمازیں پڑھنے والا ہو جائے گا نہ کہ صرف سر سے ٹالنے کے لئے نمازیں پڑھے گا۔ تو جب اس فکر کے ساتھ نمازیں ادا کی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہیں، تمام توجہ اسی کی طرف ہے، تو پھر دیکھیں کس طرح انقلابات برپا ہوتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت اقد س مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

نیکی یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے پاک تعلقات قائم کئے جاویں۔ اور اس کی محبت ذاتی رگ و ریشہ میں سرایت کر جاوے جیسے خداتعالیٰ فرماتا ہے {اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی} خدا کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کرکے اس کی فرمانبرداری کرو۔ اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور اسے پہچانو۔ اور اس پر ترقی کرنا چاہو تو درجہ احسان کا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور جن لوگوں نے تم سے سلوک نہیں کیا ان سے سلوک کرنا۔ اور اگر اس سے بڑھ کر سلوک چاہو تو ایک اور درجہ نیکی کا یہ ہے کہ خدا کی محبت طبعی محبت سے کرو، بہشت کی طمع یا لالچ، نہ دوزخ کا خوف ہو بلکہ اگر فرض کیا جاوے نہ بہشت ہے نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔ اور ایسی محبت جب خدا سے ہو تو اس میں ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے اور کوئی فتور واقع نہیں ہوتا۔ (البدر جلد ۲ نمبر ۴۳۔ ۱۶؍نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ۳۳۵)

پھر ایک حدیث مَیں بیان کرتا ہوں، اس میں دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں،

حُسنِ خلق کے کس اعلیٰ معیار تک ہمیں لے جانا چاہتے ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم دوسروں کی دیکھا دیکھی ایسے نہ کہو کہ لوگ ہم سے حسن سلوک کریں گے تو ہم بھی ان سے حسن سلوک کریں گے اور اگر انہوں نے ہم پہ ظلم کیا تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے بلکہ تم اپنے نفس کی تربیت اس طرح کرو کہ اگر لوگ تم سے حسن سلوک کریں تو تم ان سے احسان کا معاملہ کرو۔ اور اگر وہ تم سے بدسلوکی کریں تو بھی تم ظلم سے کام نہ لو۔ (ترمذی کتاب البروالصلۃ والادب باب ماجاء فی الاحسان والعفو)

دیکھیں کس قدر حسین تعلیم ہے۔ پھر ہر کوئی اپنا جائزہ لے۔ خوف پیدا ہوتا ہے کیا ہم نے یہ معیار حاصل کر لیا ہے، حکم تو یہ ہے کہ اگر کوئی تم سے معمولی نیکی بھی کرتا ہے تو تم اس سے احسان کا سلوک کرو، جو نیکی تمہارے سے کسی نے کی ہے اس سے کئی گنابڑھ کر اس سے نیکی کرو۔ اور پھر یہیں بس نہیں کر دینا فرمایا کہ اگر تمہارے سے کوئی برائی بھی کرتا ہے تو پھر بھی تم نے ظلم نہیں کرنا۔ اگر معاف نہیں کر سکتے تو اتنا بدلہ نہ لو کہ ظلم بن جائے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کرنے کا طریق بھی ہمیں بتا دیا، اس بارے میں ایک روایت ہے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس پر کوئی احسان کیا گیا ہو اور وہ احسان کرنے والے کو کہے کہ جَزَاکَ اللّٰہُ خیرًا کہ اللہ تعالیٰ تجھے بہترین جزا دے تو اس نے شکریہ ادا کرنے کی انتہا کر دی۔ (ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی ثناء بالمعروف)

تو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ احسان کرنے والے کو صرف تکلفاً جزاک اللّٰہ کہنا کافی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی دعا ہے جو تمہارے دل سے نکلنی چاہئے کیونکہ احسان کرنے والے کا ممنون احسان ہونے کے بعد اس کا احسان تبھی اتارا جا سکتا ہے۔ کہ تمہارے دل سے اس شکریہ کی آواز نکلے جو عرش تک پہنچے، اللہ ہمیں ایسی دعاؤں کی توفیق دے جن سے پاک معاشرہ قائم ہو جائے۔

پھر حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں اللہ تعالیٰ اس پر اپنا دامن رحمت پھیلا دے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اول یہ کہ کمزوروں پر رحم کرنا دوسرے والدین سے محبت و شفقت کرنا، تیسرے خادموں اور نوکروں سے احسان کا سلوک کرنا۔

پھر حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس سے احسان کا سلوک کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم سے بدسلوکی کی جائے۔ (ابن ماجہ کتاب الادب باب حق الیتم)

میرے پر یہ تاثر ہے خدا کرے کہ یہ تاثر صحیح ہو کہ یہاں اس ملک(غانا) میں عموماً اپنے بہن بھائیوں اور یتیم بچوں کی اچھی نگہداشت کی جاتی ہے۔ اللہ کرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ان تمام مومنوں کے حق میں پوری ہوں جو یتیموں سے احسان کا سلوک کرتے ہیں۔ اور کسی احمدی کا گھر یہ حق ادا نہ کرکے کبھی بدترین گھر کے زمرے میں نہ آئے۔ اللہ کرے کہ یتیموں کی پرورش کا اعلیٰ خلق ہر احمدی گھرانے میں تمام دنیا میں قائم ہو جائے، کبھی یہ نہ ہو کہ احسان کرکے پھر احسان جتانے والے بھی پیدا ہو جائیں بلکہ اس محاورے پر عمل کرنے والے ہوں کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ یعنی پھر بھول جاؤ کہ کوئی نیکی کی بھی تھی۔

پھر یتیم بچوں سے حسن سلوک کرنے والوں کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور خوشخبری بھی دی ہے۔ حضرت ابو امامہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے یتیم بچے یا بچی کے سر پر محض اللہ کی خاطر دست شفقت پھیرا اس کے لئے ہر بال کے اوپر جس پر اس کا مشفق ہاتھ پھرے نیکیاں شمار ہوں گی۔ اور جس شخص نے اپنے زیر کفالت یتیم بچے یا بچی سے احسان کا معاملہ کیا وہ اور میں جنت میں یوں ہوں گے(آپؐ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر دکھایا)۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۲۵۰۔ بیروت)

تو جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنت میں رفاقت مل جائے اس کو کیا چاہئے۔

پھر عورتوں سے حسن سلوک کے بارے میں کچھ بیان کرتا ہوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس ہے کہ:

’’ مرد کوبہ نسبت عورت کے فطرتی قویٰ زبردست دئیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے مرد عورت پر حکومت کرتا چلا آیا ہے اور مرد کی فطرت کو جس قدر بااعتبار کمال قوتوں کے انعام عطا کیا گیا ہے عورت کی قوتوں کو عطا نہیں کیا گیا۔ اور قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگر مرد اپنی عورت کو مروت اور احسان کی رو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے، اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے۔ ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے اور بہرحال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ {عَاشِرُوْھُنَّ بالمعروف} یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کر سکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آتے ہو‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۸۸)

پھر والدین کے احسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے’’ اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ مشکل سے اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں اس کورکھا اور مشکل ہی سے اس کو جنا۔ اور یہ مشکلات اس دور دراز مدت تک رہتی ہیں کہ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ کا چھوٹنا ۳۰مہینے میں جا کر تمام ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ایک نیک انسان اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اے میرے پروردگار! مجھ کو اس بات کی توفیق دے کہ تو نے جو مجھ پر اور میرے ماں باپ پر احسانات کئے ہیں تیرے ان احسانات کا شکر یہ ادا کرتارہوں اور مجھے اس بات کی بھی توفیق دے کہ مَیں کوئی ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو جائے ……۔ (چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۰۹حاشیہ)

اول نیکی کرنے میں تم عدل کو ملحوظ رکھو جو شخص تم سے نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ نیکی کرو۔ اور پھر دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم اس سے بھی بڑھ کر حسن سلوک کرو۔ یہ احسان ہے۔ احسان کا درجہ اگرچہ عدل سے بڑھا ہوا ہے اور یہ بڑی بھاری نیکی ہے لیکن کبھی نہ کبھی ممکن ہے احسان کرنے والا اپنا احسان جتلاوے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر ایک درجہ ہے کہ انسان ایسے طور پر نیکی کرے جو محبت ذاتی کے رنگ میں ہو جس میں احسان نمائی کا کوئی بھی حصہ نہیں ہوتا۔ جیسے ماں اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے۔ جو اس پرورش میں کسی اجر اور صلے کی خواستگار نہیں ہوتی۔ بلکہ طبعی جوش ہوتا ہے جو بچے کے لئے اپنے سارے سکھ اور آرام قربان کر دیتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم احسان کے اعلیٰ خلق کو مکمل طور پر اپنانے والے ہوں اور دل کی گہرائیوں سے یہ خلق ادا کرنے والے ہوں۔ ہمارا کوئی فعل کبھی بھی ایسا نہ ہو جس سے کسی بھی طرف سے کسی بھی احمدی پر یہ انگلی اٹھے کہ یہ بداخلاق اور احسان فراموش ہے۔

آج کا خطبہ یہاں میں نے اُردو میں اس لئے دیا ہے کہ پاکستان کے ظالمانہ قانون نے خلیفہ وقت کی زبان بندی کی ہوئی ہے اور خلیفہ اسلام کی تعلیم جماعت کو دینے کا حق نہیں رکھتا۔ یا دوسرے الفاظ میں پاکستانی احمدی کو ظالمانہ قانون کی وجہ سے خلیفہ وقت کی آواز سننے سے محروم کیا گیا ہے لیکن ان دنیاداروں کو کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر ان کی تدبیروں سے بہت بالا ہے اور انہوں نے خلیفہ وقت کی آواز ایک ملک میں بند کی تھی اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعے تمام دنیا میں یہ آواز پہنچا دی ہے۔ اور یہ خطبہ بھی یہاں سے تمام دنیا میں نشر ہو رہا ہے۔ تو بہرحال یہ پاکستانی احمدی کا حق بھی ہے اور یہ اس احسان کے شکرانے کا تقاضا بھی ہے جو پاکستانی مبلغین نے دنیا کے اس خطے میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو پہنچا کر کیا۔ پس اس احسان کا شکر ادا کرتے ہوئے جہاں ہمیں ان مبلغین کے لئے دعا کرنی چاہئے جو ابتداء میں یہاں احمدیت کا پیغام لے کر آئے۔ وہاں ان کی نسلوں اور قوم کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مخالفین کے ہر شر سے محفوظ رکھے اور ان کو بھی آزادی کے دن دیکھنے نصیب کرے اور وہ بھی آپ کی طرح جلسے منعقد کرنے کے قابل ہو سکیں۔ میں یہاں کی حکومت خاص طور پر صدر مملکت اور لوگوں کے پیار اور محبت کے سلوک پر ممنون احسان ہوں۔ اور جَزَاکَ اللّٰہ خَیْرًا کہتا ہوں۔ اور یہی سب سے بڑی دعا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر میں دلی جذبات کے ساتھ اپنے پیارے احمدی بھائیوں اور بہنوں کو دعا دیتا ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس زمانے کے امام کی بیعت کی۔ اور اس کے خلیفہ سے محض للہ اخلاص و وفا اور محبت کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان، اخلاص اور وفا کے معیار میں مزید ترقیاں دیتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے اس خطے میں پھیلانے کی توفیق دے۔

آج انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کے بعد یہ جلسہ اختتام کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ جلسے کے ان دو دنوں میں جو کچھ آپ نے روحانی ترقی حاصل کی ہے اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر مشکل اور ہر پریشانی سے محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ خیریت سے آپ کو گھروں میں لے جائے۔ سفر میں ہر طرح سے حافظ و ناصر ہو، اور آپ کی طرف سے ہمیشہ خوشیوں کی خبریں مجھے ملتی رہیں۔ اور میرا بھی یہ سفر جو مختلف ملکوں کا تقریباً ایک ماہ تک جاری رہے گا، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کے فضلوں کو سمیٹتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کی ترقی کی تمام منازل کو پورا ہوتا ہوا ہمیں دکھائے۔ آمین

(اس خطبہ کا مقامی زبان میں ساتھ کے ساتھ ترجمہ کرنے کی سعادت مکرم عبدالوہاب آدم صاحب امیر ومبلغ انچارج غانا کوحاصل ہوئی)۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 19؍ مارچ 2004ء شہ سرخیاں

    ہر پاک دل کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے آؤ تو یہ بھی تمہارا قوم پر ایک بہت بڑا احسان ہو گا

    ٭…احسان کی بابت تعلیمات اور ارشادات

    ٭…اللہ تعالیٰ کے دوست اور محبوب اور ولی بننے کی بنیادی شرط احسان کرنے والے بن جاؤ

    ٭…جب اس فکرکے ساتھ نمازیں اداکی جائیں گی توپھردیکھیں کس طرح انقلابات برپاہوتے ہیں

    ٭…اللہ کرے کہ یتیموں کی پرورش کااعلیٰ خلق ہراحمدی گھرانے میں تمام دنیامیں قائم ہوجائے،

    ٭…والدین اور عورتوں سے حسن سلوک کی بابت ارشادات

    ٭…غانامیں خلیفہ وقت کااردوزبان میں خطبہ جمعہ اور اس کی وجہ

    ۱۹؍ مارچ ۲۰۰۴ء بمطابق ۱۹؍ امان ۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام ’’بستان احمد‘‘ اکرا، غانا(مغربی افریقہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور