احمدیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قناعت اور سادگی کو اپنائیں
خطبہ جمعہ 30؍ اپریل 2004ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
{زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ}۔ (سورۃ ال عمران آیت نمبر:15)۔
اس کا ترجمہ ہے کہ لوگوں کے لئے طبعاً پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں کی اور اولاد کی اور ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کی اور امتیازی نشان کے ساتھ داغے ہوئے گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتیوں کی محبت خوبصورت کرکے دکھائی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بہتر لوٹنے کی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا دار طبعاً یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے پاس خوبصورت اور مالدار عورتیں ہوں ان کی زوجیت میں، آج کل بھی دیکھ لیں مالدار لوگ یا پیسے والے لوگ یا اس کی سوچ کو رکھنے والے اکثر مالدار گھرانے میں اس لئے شادیاں کرتے ہیں کہ یا تو ان کی طرف سے کچھ مال مل جائے گا یا دونوں طرف کا مال اکٹھا ہو کر ان کے مال میں اضافہ ہو گا۔ اس بات کی پرواہ کم کی جاتی ہے کہ جن چار وجوہات کی بنا پر رشتہ کیا جانا چاہئے یعنی مال(جیساکہ حدیث میں آیاہے)، خاندان، خوبصورتی یا دینداری۔ ان میں سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ پسندیدہ دین ہے، اس کی پرواہ کم کی جاتی ہے۔ لیکن مال کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اور پھر یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ اولاد کو اور اولاد میں بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ لڑکے ہوں۔ آجکل کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی، ترقی یافتہ زمانے میں بھی یہ سوچ ہے اور یہ سوچ بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے کہ لڑکے پیدا ہوں اور باپ کی طرح دنیاداری کے کاموں میں باپ کے ساتھ کام کریں۔ پھر جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ مال ہو، ڈھیروں ڈھیر مال کی خواہش ہو اور جتنا مال آتا ہے اتنی زیادہ حرص بڑھتی چلی جاتی ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ جس ذریعے سے بھی مال حاصل ہو سکتا ہے کیا جائے۔ دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرکے بھی زمینیں بنائی جا سکیں تو بنائی جائیں، دوسروں کے پلاٹوں پر بھی قبضہ کیا جائے، کاروبار پھیلایا جائے، کارخانے لگائے جائیں، سواریوں کے لئے کاریں خریدی جائیں، ایک گاڑی کی ضرورت ہے توتین تین چار چار گاڑیاں رکھی جائیں اور پھر ہر نئے ماڈل کی کار خریدنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ توفرمایا کہ یہ سب دنیوی زندگی کے عارضی سامان ہیں ایک مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ ان عارضی سامانوں کے پیچھے پھرتا رہے۔ دنیا کے پیچھے پھرنا تو کافروں کا کام ہے، غیر مومنوں کا کام ہے، تمہارا مطمح نظر تو اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی عبادت اور اس کی مخلوق کی خدمت ہونا چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے اس خوبصورت اور پاکیزہ تعلیم کے باوجود مسلمانوں نے دنیا کو ہی مطمح نظر بنا لیا ہے اور حرص اور ہوس انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ دجال کے دجل کی ایک یہ بھی تدبیر تھی جس سے مقصدمسلمانوں کو دین سے پیچھے ہٹانا تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ اور قناعت اور سادگی کو بھلا دیا گیا ہے اور ہوا و ہوس کی طرف زیادہ رغبت ہے اور امیر سے امیر تر بننے کی دوڑ لگی ہے۔
پس ان حالات میں خاص طور پر احمدیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہر طبقہ کے احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قناعت اور سادگی کو اپنائیں۔ تو دین کی خدمت کے مواقع بھی میسر آئیں گے، دین کی خاطر مالی قربانی کی بھی توفیق ملے گی، اپنے ضرورت مند بھائیوں کی خدمت کی بھی توفیق ملے گی، ان کی خدمت کرکے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بھی توفیق ملے گی اور دنیا کے کاموں میں فنا ہونے سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی عبادات بجا لانے کی بھی توفیق ملے گی۔ اور آخر کو انسان نے اللہ تعالیٰ کے حضور ہی حاضر ہونا ہے، اسی طرح زندگی چلتی ہے۔ ایک دن اس دنیا کو چھوڑنا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہی بہترین جگہ ہے اور یہ بہترین جگہ اس وقت حاصل ہو گی جب دنیاداری کو چھوڑ کر میری رضا کے حصول کی کوشش کرو گے اور میرے احکامات پر عمل کرو گے۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ{وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَھْوٌ وَّ لَعِبٌ۔ وَاِنَّ الدَّارَالْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ۔ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ}(العنکبوت:۶۵)۔ یعنی اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشا کے سوا کچھ بھی نہیں اور یقینا آخرت کا گھر ہی دراصل حقیقی زندگی ہے کاش کہ وہ جانتے۔
فرمایا کہ مومنوں کو چاہئے کہ اس دنیا کی زندگی اور اس کی چکا چوند ہی اپنی زندگی کا مقصد نہ سمجھ لیں۔ یہ تو کافروں کا کام ہے کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ مومن کا کام یہ ہے کہ اصل مقصود اس کا اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ نہ کہ دنیا کے پیچھے دوڑنا۔ اور جب تک انسان میں قناعت پیدا نہ ہو، سادگی پیدا نہ ہو وہ ہمیشہ مالی لحاظ سے اپنے سے بہتر کو دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے۔ اگر قناعت ہو گی تو اس کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہو گی کہ فلاں کے پاس کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس بات پر عمل کرے گا کہ نیکیوں میں اپنے سے بہتر کو دیکھو اور رشک کرو اور پھر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور ہمیشہ یہ سامنے رہے گا کہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہمارے لئے چاہتا ہے کہ ہم اس کے احکامات پر عمل کرکے اس کا قرب حاصل کریں۔ باربار اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ یہاں بھی یہی کہا کہ کاش تم جانتے کہ دنیا کی طرف بڑھ کر کس تباہی کی طرف تم جا رہے ہو۔ دنیا کی سہولیات اور چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھانا کوئی گناہ نہیں، بلکہ ضرور اٹھانا چاہئے۔ لیکن اس کو حاصل کرنے کے لئے غلط راستے اپنانا، جو کچھ اپنے پاس ہے اس پر قناعت نہ کرنا اور دوسرے سے حسد کرنا، اپنی زندگی کو سادہ بنا کر اپنے اخراجات کو کنٹرول کرکے دین کی ضروریات کے لئے قربانی نہ دینا برائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال برائی نہیں ہے بلکہ وہ سوچ جس کے تحت بعض ایسے کام کئے جاتے ہیں وہ برائی ہے۔ اور ہر احمدی کو بہرحال اس سے بچنا چاہئے۔
بعض لوگ لازمی چندہ جات یا وعدہ والے چندوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں لیکن اپنی خواہشات کو کم نہیں کرتے۔ اگر قناعت اور سادگی ہو گی تو چندوں کے بوجھ کو کبھی بھی محسوس نہیں کرے گا۔ تو ہر احمدی کو ہمیشہ قناعت اور سادگی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر یہ پیدا ہو جائے تو ہم بہت سی برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہمارے پاس رقم بھی موجود ہو جائے گی، ہمارے دل بھی وسیع ہو جائیں گے۔
اب اس بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ متقی بنو، سب سے بڑے عابد بن جاؤ گے۔ قناعت اختیار کرو سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے۔ لوگوں کے لئے وہی چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو حقیقی مومن بن جاؤ گے۔ اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو حقیقی مسلمان بن جاؤ گے۔ کم ہنسو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الورع وا لتقویٰ)
تو اس حدیث میں تقویٰ کے بعد جو دوسری اہم بات بیان کی گئی ہے وہ قناعت ہے کہ قناعت اختیار کرو۔ کیونکہ قناعت تمہیں شکرگزار بندہ بنا دے گی اور اگر تم شکر گزار بن گئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم پھر میرے فضلوں کواور بھی زیادہ حاصل کرنے والے ہوگے۔ مومن کا کام ہے کہ پوری محنت سے اپنے کام پر توجہ دے، تمام میسر وسائل کو بروئے کار لائے اور پھر جو کچھ حاصل ہو اس پر قناعت کرے اور الحمدللہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے اس طرح نوازتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ بعض لوگوں کو ان کی پسند کا کام یا پسند کی تنخواہ نہیں ملتی اور یہ صورت پاکستان وغیرہ تیسری دنیا کے ممالک میں بھی ہے اور یہاں یورپ امریکہ وغیرہ میں بھی ہے کہ پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اکثر آج کل دنیا کے جو معاشی حالات ہیں اس میں مرضی کا یا اس معیار کا کام نہیں ملتا کیونکہ بے روزگاری بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ تو ان حالات میں ہمیں جو کچھ کام میسر آتا ہے کر لینا چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا تو بہرحال بہتر ہے۔ تو پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے۔ میرے پاس بھی کئی لوگ مشورے کے لئے آتے ہیں تو میں نے جس کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ جو بھی کام ملتا ہے کر لو تو پہلے جو فارغ تھے اب کچھ نہ کچھ کام پر لگ گئے ہیں اور پھر بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کام پر لگنے کے بعد وہ بہتر کام کی تلاش کرتے رہتے ہیں اور قناعت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنے رہتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے پھربہتری کے سامان بھی پیدا فرما دئیے۔ اور بہتر ملازمتیں مل گئیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ:’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے‘‘۔ (رسالہ قشیریہ باب القناعۃ صفحہ۲۱)
بعض دفعہ انسان سوچتا ہے کہ یہ بھی میری ضرورت ہے یہ بھی میری ضرورت ہے لیکن جب قناعت کی عادت پڑ جائے تو ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی جنہیں پہلے وہ بہت اہم سمجھتا تھا۔ او راس طرح بچت کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔ اور ایک احمدی کو بچت کی عادت پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی خاطر مالی قربانی کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر ایک نیکی سے دوسری نیکیاں جنم لیتی رہتی ہیں۔ سوائے اس کے کہ کوئی انتہائی کنجوس ہو وہ توصرف بچت کرکے صرف پیسے ہی جوڑتا ہے وہ تو استثناء ہوتے ہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے۔ اور لوگوں سے محبت سے پیش آنا نصف عقل ہے اور سوال کو بہتر رنگ میں پیش کرنا نصف علم ہے‘‘۔ (بیھقی فی شعب الایمان۔ مشکوٰۃ باب الخدرالثانی فی السور صفحہ ۴۳۰)
تو دیکھیں میانہ روی اور اپنے اخراجات کو کنٹرول کرنا اس حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تمہارے حالات ہیں ان پہ صرف کنٹرول کرنے سے ہی اور اعتدال کے ساتھ اخراجات کرنے سے ہی مالی لحاظ سے اپنی ضروریات کو نصف پورا کر لیتے ہو۔
پھر فرمایا، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی روایت ہے کہ:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاح پا گیا جس نے اس حالت میں فرمانبرداری اختیار کی جبکہ اس کا رزق صرف اس قدر ہو کہ جس میں بمشکل گزارا ہوتا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے قناعت بخشی ہو۔ (ترمذی کتاب الزھد)
تو دیکھیں قناعت کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہے۔ اس لئے کم پیسے والوں کے لئے بھی ایسی کوئی شرمندگی کی بات نہیں اگر شکرگزاری ہے تو فلاح بھی آپ کا مقدر ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو(جو لوگ قناعت نہیں کرتے اور حرص میں رہتے ہیں ان کے بارے میں یہ ہے)۔ ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی بھی ہو تب بھی وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس دوسری وادی بھی آجائے۔ اس کے منہ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے‘‘۔ (سنن الترمذی ابواب الزھد باب ما جاء لوکان لابن آدم وادیان…)
تو قناعت نہ کرنے والوں کا یہ نقشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھینچا ہے۔ حریص آدمی تو یہی کوشش کرتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کے پاس آجائے اور تب بھی اس کی حرص پوری نہیں ہوتی۔ اور جب تک وہ زندہ رہتا ہے یہی حرص اسے اس دنیا میں بھی جہنم میں مبتلا کئے رکھتی ہے۔ کیونکہ اتنی زیادہ حرص بہرحال تکلیف میں مبتلا رکھتی ہے۔ تو مومن کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے اور اگر کبھی ایسی سوچ بن جاتی ہے تو اپنے آپ کو پاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور توجہ کرتے ہوئے جھکنا چاہئے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے جھکے، توبہ استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔
اب بعض لوگ اچھے بھلے اپنے کاروبار ہونے کے باوجود دوسروں کے پیسوں پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور کئی کم تجربہ کار اپنی بے عقلی سے زیادہ پیسہ کمانے کے لالچ میں ایسے لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور پھر اپنے پیسوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور پھر نظام جماعت کو لکھتے ہیں یا مجھے لکھتے ہیں کہ فلاں احمدی کو ہم نے اس طرح اتنی رقم دی تھی وہ سب کچھ کھا گیا اور اب ہم خالی ہاتھ ہو گئے ہیں توہماری مدد کی جائے اور رقم ہمیں واپس دلوائی جائے۔ تو ایسے لوگوں کو یہ پہلے سوچنا چاہئے کہ واقعی یہ کاروبار اس طرح ہو بھی سکتا تھا کہ نہیں یا صرف کسی نے باتوں میں لگا کے، چکنی چوپڑی سنا کے، بتا کے تمہارے سے پیسے اور رقم بٹور لی۔ اگر قناعت کرتے رہتے اور کم منافع پر بھی کماتے رہتے تو کم از کم ایسے حالات تو نہ پیدا ہوتے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ آپ کا سرمایہ کئی گنا زیادہ ہو چکا ہوتا۔ اس کے بعد جو رقم ضائع ہو گئی منافع تو کیا ملنا تھا رقم بھی گئی، اصل سرمایہ بھی گیا۔
لیکن ساتھ ہی میں ان احمدیوں کو بھی جو اس طرح کے کاروبار کا لالچ دے کر دوسروں کی رقم بٹورتے ہیں اور کاروبار میں بنکوں سے دوسرے شخص کی امانت پر رقم لے کرلگاتے ہیں، دوسروں کے نام پر کاغذات بناتے ہیں، غلط بیانی کرتے ہیں اور دوسروں کو ان کی جائیداد یا رقم سے محروم کر دیتے ہیں ان کو میں کہتا ہوں، ان کو بھی خوف خدا کرنا چاہئے۔ دنیا کی اتنی حرص کیا ہو گئی ہے۔ اگر قناعت کرتے، اگر امیر سے امیر تر بننے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا خوف پیش نظر رکھتے تو ایسی حرکت کبھی نہ کرتے۔ جماعتی خدمات سے بھی محروم نہ ہوتے اور اپنے ماحول میں شرمندگی بھی نہ اٹھاتے۔ ہم باوجود اس بات کا علم ہونے کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یا نصیحت کی ہے، ہر احمدی بچے کو بھی پتہ ہے احمدی ماحول میں اس کا ذکر ہوتا رہتا ہے کہ ہمیشہ مالی معاملات یا دنیاوی معاملات میں اپنے سے اوپر نظر نہ رکھو بلکہ اپنے سے کم تر کو دیکھو یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو اور شکر ادا کر سکو۔ (مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۲۵۴بیروت)
پھر بھی ہم دنیاداری میں پڑے ہوئے ہیں۔ یعنی اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اپنے سے امیر کو دیکھ کر لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے اور یہی حرص ہوتی ہے کہ اس کا پیسہ بھی ہمارے پاس آ جائے یا کسی کے پاس چاہے تھوڑا پیسہ بھی ہو تو اس کو دیکھ کر بھی بعض لوگوں کی حرص بڑھ جاتی ہے۔ تو اگر ہم ان نصائح پر عمل کرنے والے ہوں تو بہت سی قباحتوں سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ کسی بندے کے اندر خدا کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ اور نہ ہی کسی بندے کے دل میں ایمان اور حرص جمع ہو سکتے ہیں ‘‘۔ (سنن نسائی کتاب الجہاد باب فضل من عمل فی سبیل اللہ علی قدمہ)
یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیفیں اٹھانے والے کبھی جہنم کو نہیں دیکھیں گے۔ ان تک جہنم کا دھواں کبھی نہیں پہنچے گا۔ اور جس کے دل میں مضبوط ایمان ہو، پکا ایمان ہو، مومن ہے تو وہ کبھی بھی دنیاوی معاملات میں حریص نہیں ہو سکتا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبیداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے اس نے گویا ساری دنیا جیت لی۔ اور اس کی ساری نعمتیں اسے مل گئیں۔ (ترمذی کتاب الزھد باب فی الزھاد فی الدنیا)۔ یہ قناعت ہو تبھی میسر آ سکتا ہے۔
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں :
’’جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اسی قدر اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں، کشمکش والے کے سینہ میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں بھی یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو، ۔ کہتے ہیں ایک شخص گھوڑَے پر سوار چلا جاتا تھا راستے میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا۔ اس نے لنگوٹ یا جانگیہ پہنا ہو گا۔ اس نے اس سے پوچھا کہ سائیں جی! کیا حال ہے؟۔ فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو گئی ہو ں اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ اس گھوڑ سوار کو تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مرادیں کس طرح پوری ہو گئی ہیں۔ فقیر نے کہا جب ساری مرادیں ترک کر دیں تو گویا سب حاصل ہو گیا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے لیکن جب قناعت کرکے سب کچھ چھوڑ دے تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۲۶)
ایک روایت ہے کہ: اے آدم کے بیٹے ! اگر تو اپنے زائد از ضرورت مال کو خدا کے محتاج بندوں اور دین کے کاموں پر لگائے تو یہ تیرے حق میں بہتر ہو گا۔ اور اگر تو ضرورت سے زیادہ مال کو اہل ضرورت پر خرچ نہیں کرے گا تو آخر کار یہ تیرے حق میں برا ہو گا۔ اور اگر تیرے پاس زائداز ضرورت مال نہیں ہے بلکہ اتنا ہی مال ہے جو تیری بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے تو اگر تو اس میں سے خرچ نہ کرے تو خرچ نہ کرنے پر اللہ تجھے ملامت نہیں کرے گا۔ اور خرچ کی ابتداء ان لوگوں سے کرو جن کی تم کفالت کرتے ہو۔ (ترمذی کتاب الزھد باب ما جاء فی الزھادۃ)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بھی ایسے امراء ہیں جو دل کھول کر اپنے ما ل میں سے علاوہ لازمی چندہ جات کے یا دوسرے وعدوں کے جو روٹین کے چندے ہیں یا تحریکات ہیں ان میں ادائیگی کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد مساجد کی تعمیر کے لئے، ہسپتالوں کی تعمیر کے لئے یا دوسرے جماعتی منصوبوں کے لئے چندے دیتے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جن کو دنیا کی حرص نہیں بلکہ حرص ہے توصرف یہ کہ خدا راضی ہو جائے اور اس کی جماعت کے لئے خرچ کرنے کی جتنی زیادہ سے زیادہ توفیق پا سکیں، پائیں۔ اللہ کرے کہ ایسے لوگوں کی تعداد جماعت میں بڑھتی چلی جائے جن میں قناعت بھی ہو، قربانی کی روح بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی حرص بھی ہو۔
اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کا نمونہ دیکھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب پوچھا گیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیسے رہتے تھے تو آپ فرمانے لگیں کہ عام انسانوں کی طرح رہتے تھے اور گھریلو کاموں میں اہل خانہ کی مدد فرماتے تھے اور اپنا کام خود کر لیتے تھے‘‘۔ (بخاری کتاب الاذان باب من کان فی حاجۃ اھلہ فاقیمت الصلاۃ فخرج)
ایک روایت میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیرؓ فرماتے ہیں کہ’’ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ ذکرکرکے کہ آج لوگوں کے پاس کتنی دولت اور جائیدادہے(حضرت عمر ؓ کے زمانے میں کافی فراوانی ہو گئی تھی) فرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا ہوا ہے کہ سارا دن بھوک میں گزر جاتا حتیٰ کہ آپؐ کو اتنی مقدار میں ردی کھجوریں بھی میسر نہ آتیں کہ جن سے اپنی بھوک مٹا لیتے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد عن نعمان بن بشیر)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبوت کے بعد سے زندگی بھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدے کا آٹا نہیں دیکھا۔ حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ جب سے آپ ؐ کو اللہ نے نبی بنایا اس وقت سے لے کر وصال تک چھنا ہوا آٹا نہیں دیکھا۔ پوچھا گیا کہ بغیر چھنے ہوئے آٹے کو آپ لوگ کیسے کھاتے تھے تو بیان کرتے ہیں کہ ہم جَو کو پیستے تھے اور آٹے کو منہ سے پھونک مارتے تھے تو کچھ بھوسی اڑ جاتی تھی جو موٹا موٹا تھا اس میں سے نکل جاتا تھا اور بقیہ کی روٹی پکاتے اور کھا لیتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری عن سھل بن سعدہؓ کتاب الاطعمۃ باب النفخ فی السعیر)
اسی لئے ایک دفعہ نرم روٹی کھاتے ہوئے حضرت عائشہ ؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور نرم لقمہ حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کیوں ؟ تو آپؓ نے فرمایا مجھے خیال آ گیا کہ آنحضرتﷺ کے وقت یہ میسر نہ تھا اور آپ نے ہمیشہ سخت روٹی کھائی۔
اُمّ سعدؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لائے، مَیں وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ حضور نے پوچھا کہ ناشتہ کیلئے کچھ ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا ہمارے پاس روٹی، کھجور اور سرکہ ہے۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا سرکہ کتنا عمدہ سالن ہے۔ یہ سادگی اور قناعت دونوں چیزیں تھیں۔ پھردعا کی کہ اے اللہ ! سرکہ میں برکت ڈال، یہ میرے سے پہلے نبیوں کا بھی کھانا تھا۔ جس گھر میں سرکہ ہے وہ محتاج نہیں ہے‘‘۔ (ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب الائتدام بالخل)
لیکن آجکل کے سینتھیٹک(Synthetic) سرکے پیٹ بھی خراب کر دیتے ہیں۔ اصل سرکہ ہونا چاہئے۔ قناعت کے یہ معیار ہیں جو آنحضرتﷺ نے ہمیں سکھائے۔ ہم آجکل عمدہ عمدہ کھانے کھانے کے بعد بھی یہ نخرے کر رہے ہوتے ہیں کہ اس میں نمک زیادہ ہے، اس میں مرچ کم ہے یا اس میں مرچ زیادہ ہے، اس میں ہزاروں قسم کے نقص نکال رہے ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ اس زمانے میں ہمیں ایسی خوراک میسر ہے۔ آجکل یہ نہیں کہ صرف آدمی سرکہ ہی کھائے، جیسا کہ میں نے پہلے کہا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے اور ان سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے لیکن شکر ادا کرتے ہوئے اور شکر کے جذبات پہلے سے زیادہ بڑھنے چاہئیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا آپ نے روٹی کے ایک ٹکڑے پر کھجور رکھی ہوئی تھی اور فرما رہے تھے کہ یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے ‘‘۔ (ابوداؤد کتاب الایمان باب الرجل یحلف ان لایتأدم)
اس حدیث کا نمونہ اس زمانے میں آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے کہ میں نے گوشت کا منہ نہیں دیکھا۔ اکثرمِسّی روٹی یا اچار یا دال کے ساتھ کھا لیتا ہوں۔ فرمایا آج بھی اچار کے ساتھ روٹی کھائی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۲۰۰۔ البدر ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۳ء)
روٹی کیا ہوتی تھی، روٹی کا ایک چپہ ہوتا تھا جو آپ ؑ کھایا کرتے تھے۔
پھرایک حدیث ہے یہ اور بھی تڑپا دیتی ہے کہ ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ نے کس قناعت اور سادگی سے زندگی گزاری نہ صرف آپ نے بلکہ آپ کے اہل خانہ نے بھی۔
حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ بھانجے ہم دیکھتے رہتے اور رسول اللہﷺ کے گھروں میں دود و ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔ اس پر میں نے پوچھا پھر خالہ آپ زندہ کس چیز پر تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ ہم کھجور یں کھاتے اور پانی پیتے تھے سوائے اس کے کہ آنحضرتﷺ کے انصاری ہمسائے تھے ان کے دودھ دینے والے جانور تھے، وہ رسول اللہ ؐ کو ان کا دودھ تحفتہً بھیجتے تھے، جو آپؐ ہمیں پلا دیتے تھے۔ (بخاری کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریص علیھاباب فضل الھبۃ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ کو چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہو گئی اور ان دنوں آنحضرتﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تھے۔ حضرت فاطمہ ؓ حضور ؐ کے پاس گئیں لیکن مل نہ سکیں، حضرت عائشہؓ سے ملیں اور آنے کی وجہ بتائی جب حضورؐ باہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے حضرت فاطمہؓ کے آنے کا ذکر کیا۔ حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ اس پر آنحضرتﷺ ہمارے گھر آئے، ہم بستروں میں لیٹ چکے تھے، حضور ؐ کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے، آپؐ نے فرمایا نہیں لیٹے رہو۔ حضورؐ ہمارے درمیان بیٹھ گئے، یہاں تک کہ حضورؐ کے قدموں کی ٹھنڈک حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے سینے پر محسوس کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کیا مَیں تمہیں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتاؤں، جب تم بستروں میں لیٹنے لگو تو 34دفعہ اللہ اکبر کہو، 33دفعہ سبحان اللہ اور 33دفعہ الحمد للہ کہو، یہ تمہارے لئے ایک نوکر سے بہتر ہے یعنی ان کلمات کی بدولت اللہ تعالیٰ تم کو برکت دے گا۔ ا ور اس قسم کے سوال سے بے نیاز ہو جاؤ گے۔ آج بھی ہر حاجتمند کو یہ طریق اپنانا چاہئے۔ (حدیقۃ الصالحین صفحہ ۲۳۳)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کے موقع پر نبی کریم ؐ نے ان کو بنیادی ضرورت کا صرف تھوڑا سا سامان دیا تھا جو یہ تھا، ایک خویلا ریشمی چادر، چمڑے کا گدیلا جس میں کھجور کے ریشے تھے، آٹا پیسنے کی چکی، مشکیزہ، دو گھڑے یہ کل جہیز تھا جو حضرت فاطمہؓ کو دیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۱۰۶ مطبوعہ بیروت)
اب آجکل کی شادی بیاہوں پر فضول خرچی اتنی ہوتی ہے کہ جس کی انتہا نہیں ہے، پاکستان ہندوستان وغیرہ میں بھی، اور یورپ اور مغرب کے دوسرے ممالک میں بھی۔ اب تو بعض لوگوں نے کہنا شرو ع کر دیا ہے کہ اس طرف لوگوں کو توجہ دلانی چاہئے۔ ایک تو جہیز کی دوڑ لگی ہوئی ہے، زیور بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، پھر دعوتوں میں غیر ضروری اخراجات اور نام ونمود کی دوڑ ہے اور جو بے چارہ نہ کر سکے، اگر خود اپنے وسائل کی وجہ سے کر سکتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن جو نہ کر سکے اس پر پھر باتیں بناتے ہیں کہ بلایا تھا، وہاں یہ تھا وہ تھااور پھر کئی کئی دن مختلف ناموں سے رسمیں جاری ہو چکی ہیں اور دعوتیں کی جاتی ہیں۔ دعوت تو صرف ایک دعوت ولیمہ ہے، جو اسلام کی یہ صحیح تعلیم میں ہمیں نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ تو جس کو توفیق نہیں ہے دکھا وے کی خاطر تو دعوتیں کرنی ہی نہیں چاہئیں۔ اور کبھی اپنے اوپر بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے۔ ہاں جب مہمان آتے ہیں ہلکی پھلکی مہمان نوازی فرض ہے وہ کر د ی جائے۔ اور پھر جس کے پاس وسائل ہیں وہ اگر دعوت کر لیتا ہے تو اپنے ہی وسائل سے خرچ کرتا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی اپنے پر بوجھ ڈال کر جس کے کم وسائل ہیں جس کی توفیق نہیں ہے۔ اس کو قرض لے کر یا پھر امداد کی درخواست دے کر ایسانہیں کرنا چاہئے۔ اور کم وسائل والوں کو حتی المقدور کوشش یہی کرنی چاہئے جتنا کم سے کم خرچ ہو کریں کیونکہ ان کو تو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے نبی کی سنت پر عمل کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ احساس کمتری کا شکار ہوں۔ جماعت میں مریم شادی فنڈ کے نام سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک سکیم شروع فرمائی تھی تاکہ ضرورت مند بچیوں کی شادیوں کے لئے اخراجات یا فنڈ مہیا کیا جا سکے۔ تو اس میں سے ایک سادہ اندازے کے مطابق جماعت رقم دیتی ہے لیکن اس پر بھی بعض لوگوں کی طرف سے مطالبے آ جاتے ہیں کہ رقم تھوڑی ہے ہم نے یہ بھی خرچ کرنا ہے اور یہ بھی خرچ کرنا ہے، حالانکہ وہ تمام غیر ضروری اخراجات ہوتے ہیں ان کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ جماعت انشاء اللہ تعالیٰ اپنے وسائل کے مطابق احمدی بچیوں کا خیال رکھے گی ان کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرے گی۔ شادیوں میں جو کچھ ہو سکتا ہے کیا جائے گا لیکن ان کے والدین کو بھی قناعت اور شکر گزاری اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ اپنے خاص قریبیوں میں کس طرح قناعت کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔
حضرت عمرو بن تغلبؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بہت سامال اور قیدی آئے، آپؐ نے ان اموال کو تقسیم فرمایا۔ کچھ لوگوں کو دیا اور بعض کو کچھ نہ دیا۔ آپؐ کو اطلاع ملی کہ جن لوگوں کو کچھ نہیں ملا بڑے افسردہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید حضور ان سے ناراض ہیں۔ اس پر آپ ؐ تقریر کرنے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بعض اوقات میں ایک آدمی کو دیتا ہو ں اور دوسرے کو نہیں دیتا۔ لیکن جس کو نہیں دیتا وہ اس آدمی سے زیادہ محبوب اور پیارا ہوتا ہے جس کو میں دیتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں کچھ لوگوں کو اس لئے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں مال و دولت کی خواہش اور حرص ہوتی ہے۔ اور بعض کے متعلق مجھے یہ بھروسہ اور اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں بھلائی، بے نیازی اور استغناء رکھا ہے۔ اور عمرو بن تغلب بھی انہیں لوگوں میں شامل ہیں۔ عمرو کہتے ہیں کہ آپ ؐ کی اس بات سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹ پا کر بھی مجھے اتنی خوشی نہ ہوتی۔
اس زمانے میں بھی ایک مثال ہمیں ملتی ہے، مثالیں تو کئی ہوں گی، ایک مثال میرے سامنے ہے۔ قادیان میں ایک دفعہ مہمان زیادہ آ گئے، حضرت میر محمد اسحٰق صاحب دارالضیافت کے انچارج تھے۔ کھانا نہیں بچابلکہ کھانا پکانے والوں کے لئے بھی نہیں بچا تو ایک آدمی کا کھانا صرف رہ گیا۔ اور دو باورچی ایسے تھے جنہوں نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ فلاں کو دے دو۔ اور دوسرے کو رہنے دو۔ شیطان تو ہر جگہ موجود ہوتا ہے نا، فتنہ پیدا کرنے کے لیے۔ ایک شخص تھا وہ دوسرے کے پاس گیا کہ دیکھو ایک آدمی کا کھانا تھا، میر صاحب نے اس کو دے دیا اور تمہیں نہیں دیا۔ دوسرے میں بڑی فراست تھی شاید یہ حدیث بھی اس کے سامنے ہو۔ اس نے کہا میر صاحب کو پتہ ہے کہ اس کو اگر کھانا نہ ملا تو اعتراض کرے گا اور اگر مجھے نہ ملا تو کوئی فرق نہیں پڑتا میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گا۔ کیونکہ میر صاحب کا تعلق میرے سے زیادہ ہے۔
پھر سادگی، قناعت اور کسی پر بوجھ نہ بننے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو اس قدر تلقین فرماتے تھے کہ تکلیف گوارا کرتے رہتے تھے، کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے اور اپنا جو بھی کام ہو، محنت مزدوری کر کے کماتے تھے اور خود کھاتے تھے۔
حضرت زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم میں سے جو شخص رسی لے کر جنگل میں جاتا ہے اور وہاں سے لکڑیوں کا گٹھا پیٹھ پر اٹھا کر بازار میں آتا ہے اور اسے بیچتا ہے اور اس طرح اپنا گزارا چلاتا ہے اور اپنی آبرو اور خودداری پر حرف نہیں آنے دیتا وہ بہت ہی معزز اور اس کا یہ طرز عمل لوگوں سے بھیک مانگنے سے ہزار درجے بہتر ہے۔ نہ معلوم وہ لوگ اس کے مانگنے پر اسے کچھ دیں یا نہ دیں ‘‘۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب استعفاف عن المسالۃ)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کیا نمونہ دکھاتے ہیں اور یہ نمونہ اپنے ماننے والوں سے بھی پسند کرتے تھے، سادہ زندگی کا اور قناعت کا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ہمارے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ایک سادہ زندگی بسر کرتے ہیں وہ تمام تکلفات جو آجکل یورپ میں لوازم زندگی بنا رکھے ہیں یعنی زندگی کے لیے لازمی ضروری سمجھے ہوئے ہیں۔ ان سے ہماری مجلس پاک ہے۔ رسم و عادت کے ہم پابند نہیں ہیں۔ اس حد تک کہ ہر ایک عادت کی رعایت رکھتے ہیں کہ جس کے ترک سے کسی تکلیف یا معصیت کا اندیشہ نہ ہو، باقی کھانے پینے اور نشست و برخاست میں ہم سادہ زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۴۸ البدر ۲۹؍ اکتوبر و ۸ نومبر ۱۹۰۳)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ مباحثہ امرتسر کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امرتسر میں رہائش کا ایک منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور وہ اتنی چوڑی تھی کہ آپؐ کا نیچے کا جسم گھٹنوں تک زمین پر تھا مگر آپ نہایت بے تکلفی اور سادگی سے اس پر لیٹے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ ان واقعات کا دکھ دیکھ کر میرے اور میاں اللہ دین صاحب کے دل پر کیا گزرا۔ آنکھوں کے سامنے نبی کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ گزر گیا۔ کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوریے پر آرام فرما رہے تھے، اٹھے تو لوگوں نے دیکھا کہ پہلوئے مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم لوگ کوئی گدّا بنوا کر حاضر کریں، ارشاد ہوا مجھے دنیا سے کیا غرض، مجھ کو دنیا سے اسقدر تعلق ہے جس قدر اس سوار کو جو تھوڑی دیر کے لیے راہ میں کسی سائے میں بیٹھ جاتا ہے۔ پھر اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں اللہ دین صاحب نے کہا تھا کہ یہاں کوئی دری بچھا دی جائے تو فرمایا نہیں سونے کی غرض سے تو نہیں لیٹا تھا کام میں آرام سے حرج ہوتا ہے اور یہ آرام کے دن نہیں ہیں۔ (سیرت حضرت مسیح موعود ؑ۔ مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ صفحہ ۳۳۰)
حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کرنیل الطاف علی خان صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ کرنیل صاحب کوٹ پتلون پہنے، داڑھی مونچھ منڈوائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا تم اندر چلے جاؤ، باہر سے ہم کسی کو نہ آنے دیں گے۔ پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں، چنانچہ کرنیل صاحب اندر چلے گئے اور آدھ گھنٹے کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے۔ کرنیل صاحب جب باہر آئے تو چشم پر آب تھے۔ مَیں نے ان سے پوچھا آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہیض یعنی رو رہے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بوریے پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن بوریے پر حضور کا گھٹنا ہی تھا اور باقی زمین پر بیٹھے تھے میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں اور حضور نے یہ سمجھا کہ غالباً میں (یعنی کرنیل صاحب) بوریے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ اس لیے حضور نے اپناصافہ بوریے پر بچھا دیا اور فرمایا آپ یہاں بیٹھیں۔ یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے اور میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں بپتسمہ لے چکا ہوں مگر اتنا بے ایمان نہیں ہوا کہ حضور کے صافے پر بیٹھ جاؤں۔ حضور فرمانے لگے کچھ مضائقہ نہیں کوئی حرج نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں میں صافے کو ہاتھ سے ہٹا کر بوریے پر بیٹھ گیا۔ اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا کہ میں شراب بہت پیتا ہوں، دیگر گناہ بھی کرتا ہوں، خدا رسول کا نام نہیں جانتا لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کرکے مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ہیں ان کو چھوڑنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ حضور نے فرمایا استغفار پڑھا کرو اور پنجگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔ جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہامیری حالت دگرگوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا اور ایسی حالت میں اقرار کر کے کہ مَیں استغفار اور نماز ضرور پڑھا کروں گا آپ کی اجازت لے کر آگیا، وہ اثر میرے دل پر اب تک ہے۔ (روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب۔ مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے صفحہ ۹۳، ۹۴)
آجکل ایک فیشن ہے چھری کانٹے سے کھانے کا وہ تو خیر کوئی حرج نہیں کھا لینا چاہئے لیکن اس فیشن میں کیونکہ یہاں کے لوگ بائیں ہاتھ سے کانٹا پکڑ کر کھاتے ہیں اس لیے بائیں ہاتھ سے کھایا جاتا ہے۔ اس بارے میں بھی احمدیوں کو جو اسلامی تعلیم ہے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ رعب دجال میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں تو اس کا استعمال تو غلط نہیں۔ میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا ایک ارشاد پڑھتا ہوں کی آپ نے چھری کانٹے سے کھانے پر فرمایا :’’شریعت اسلام نے چھری سے کاٹ کر کھانے سے تو منع نہیں کیا۔ ہاں تکلف سے ایک بات یا فعل پر زور ڈالنے سے منع کیا ہے۔ اس خیال سے کہ اس قوم سے مشابہت نہ ہو جاوے ورنہ یوں تو ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری سے گوشت کاٹ کر کھایا اور یہ فعل اس لیے کیا کہ تا امت کو تکلیف نہ ہو۔ جائز ضرورتوں پر اس طرح کھانا جائز ہے مگر بالکل اس کا پابند ہو نا اور تکلف کرنا اور کھانے کے دوسرے طریقوں کو حقیر جاننا منع ہے۔ کیونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کی نوبت تتبع کی یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ ان کی طرح طہارت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ ’’مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُم ‘‘سے مراد یہی ہے کہ التزاماً ان باتوں کو نہ کرے ورنہ بعض وقت ایک جائز ضرورت کے لحاظ سے کر لینا منع نہیں ہے جیسے کہ بعض اوقات کام کی کثرت ہوتی ہے اور بیٹھے لکھتے ہوتے ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ کھانا میز پر لگادو اور اس پر کھا لیا کرتے ہیں اور صف پر بھی کھا لیتے ہیں نیچے بیٹھ کے۔ چارپائی پر بھی کھا لیتے ہیں۔ ایسی باتوں میں صرف گزارا کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ فرمایا کہ تشبہہ کے معنے اس حدیث میں یہی ہیں کہ اس لکیر کو لازم پکڑ لینا ورنہ ہمارے دین کی سادگی تو ایسی شے ہے کہ جس پر دیگر اقوام نے رشک کھایا ہے۔ اور خواہش کی ہے کہ کاش ان کے مذہب میں ہوتی اور انگریزوں نے ان کی تعریف کی ہے اور اکثر اصول انہوں نے عرب سے لے کر استعمال کئے ہیں۔ مگر اب رسم پرستی کی خاطر مجبور ہیں ترک نہیں کر سکتے۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۶۷۰۔ البدر۶ جنوری ۱۹۰۳ء)
اب میں واقفین کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پڑھتا ہوں۔ آج تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے حالات بہت بدل گئے ہیں اور واقفین زندگی کے لیے بھی جماعت وسائل کے لحاظ سے جس حد تک سہولتیں بہم پہنچا سکتی ہے پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن واقفین زندگی اور اب واقفین نو بھی بعض اس عمر کو پہنچ گئے ہیں اور جامعہ میں بھی ہیں کچھ اور کالجوں میں پڑھ رہے ہیں ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ ہمیشہ پیش نظر رکھنے چاہئیں جو میں پڑھوں گا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر کچھ کر کے دکھانے والے ہوں، علمیت کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں ہے۔ ایسے ہوں کہ نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں اور ہماری صحبت میں رہ کر یا کم از کم ہماری کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی علمیت کا مل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو۔ تبلیغ کے سلسلے کے واسطے ایسے آدمیوں کے دوروں کی ضرورت ہے، مگر ایسے لائق آدمی مل جاویں جو اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اشاعت اسلام کے واسطے دوردراز ممالک میں جایا کرتے تھے۔ یہ جو چین کے ملک میں کئی کروڑ مسلمان ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ میں سے کوئی شخص پہنچا ہو گا۔ اگر اسی طرح 20یا 30آدمی متفرق مقامات کو چلے جاویں ) اب تو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ہزاروں دے دیے ہیں اب تو بہت جلد تبلیغ ہو سکتی ہے)۔ سینکڑوں تو میدان میں ہیں اور ہزاروں پیچھے سے آ رہے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ۔ مگر جب تک ایسے آدمی ہماری منشاء کے مطابق اور قناعت شعار نہ ہوں تب تک ہم ان کو پورے پورے اختیارات بھی نہیں دے سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایسے قانع اور جفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتوں پر ہی گزر کر لیتے تھے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۸۲۔ پیسہ اخبار ۲۲مئی ۱۹۰۸)
اس زمانے میں بھی کچھ عرصہ پہلے افریقہ میں بعض مبلغین ہمارے گئے ہیں اور وہ وسائل کی کمی کی وجہ سے معمولی غذا کھا کے ہی گزارہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ اپنی زندگیوں میں سادگی پیدا کریں اور قناعت پیدا کریں۔
٭…مومن کا کام یہ ہے کہ اصل مقصود اس کا اللہ تعالیٰ کی رضا ہو نہ کہ دنیا کے پیچھے دوڑنا۔
٭…یہ کافروں کاکام ہے کہ اس دنیاکوہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں،
٭…لازمی چندہ جات اور دیگرمالی تحریکات میں رقوم کی ادائیگی کی طرف توجہ کی تلقین
٭…قناعت اور سادگی اسوہ رسولﷺ کی روشنی میں
٭…حضرت مسیح موعود ؑ کی سادہ زندگی
٭…واقفین زندگی کے لئے ایک ضروری اقتباس
۳۰؍ اپریل۲۰۰۴ء بمطابق۳۰؍شہادت۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔