خلیفہ وہی ہے جو خدا بناتاہے
خطبہ جمعہ 21؍ مئی 2004ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
{وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ}(سورۃ النور: 56)
اس کا ترجمہ ہے:کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے، یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خلافت کا وعدہ کیا ہے لیکن ساتھ شرائط عائد کی ہیں کہ ان باتوں پر تم قائم رہو گے تو تمہارے اندر خلافت قائم رہے گی۔ لیکن اس کے باوجود خلافت راشدہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں صرف تیس سال تک قائم رہی۔ اور اس کے آخری سالوں میں جس طرح کی حرکات مسلمانوں نے کیں اور جس طرح خلافت کے خلاف فتنے اٹھے اور جس طرح خلفاء کے ساتھ بیہودہ گوئیاں کی گئیں اور پھر ان کو شہید کیا گیا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ختم ہو گئی اور پھرملوکیت کا دور ہوا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرما دیا تھا اور اس ارشاد کے مطابق ہی تھا کہ اگر تم ناشکری کرو گے تو فاسق ٹھہرو گے۔ اور فاسقوں اور نافرمانوں کا اللہ تعالیٰ مدد گار نہیں ہوا کرتا تو بہرحال اسلام کی پہلی تیرہ صدیاں مختلف حالات میں اس طرح گزریں جس میں خلافت جمع ملوکیت رہی پھر بادشاہت رہی پھر اس عرصہ میں دین کی تجدید کے لئے مجدد بھی پیدا ہوتے رہے۔ یہ ایک علیحدہ مضمون ہے، اس کا ویسے تو میں ذکر نہیں کر رہا۔
لیکن جو بات میں نے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خوشخبریاں دی تھیں اور جو پیشگوئیاں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اپنی امت کو بتائی تھیں اس کے مطابق مسیح موعود کی آمد پر خلافت کا سلسلہ شروع ہونا تھا اور یہ خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی رہنا تھا اور رہنا ہے انشاء اللہ۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔ (مسند احمد بن حنبل۔ مشکوٰۃ کتاب الرقاق باب الانذار والتحذیر الفصل الثالث)
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس دور میں اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس دائمی خلافت کے عینی شاہد بن گئے ہیں بلکہ اس کو ماننے والوں میں شامل ہیں اور اس کی برکات سے فیض پانے والے بن گئے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت ایک مبارک امت ہے۔ یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری زمانہ، یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے۔
اس آخری زمانے کی بھی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرما دی کہ وہ کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپؐ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی جب آپؐ نے اس کی آیت {وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ} پڑھی جس کے معنے یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی ان صحابہ ؓ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے۔ تو ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا جواب نہ دیا۔ اس آدمی نے تین دفعہ یہ سوال دوہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی ؓ ہم میں بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا یعنی زمین سے اٹھ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ واپس لے آئیں گے۔
یعنی آخرین سے مراد وہ زمانہ ہے جب مسیح موعود کا ظہور ہو گا اور اس پر ایمان لانے والے، اس کا قرب پانے والے، اس کی صحبت پانے والے صحابہ کا درجہ رکھیں گے۔ پس جب ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور یہ زمانہ پانے کی توفیق عطا فرمائی جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کا درجہ دیا ہے۔ تو یہ بھی ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق خلافت علی منہاج نبوت بھی قائم رہے۔ یہاں یہ وضاحت کر دی ہے جیسا کہ پہلے حدیث(کی روشنی)میں مَیں نے کہا کہ مسیح موعود کی خلافت عارضی نہیں ہے بلکہ یہ دائمی خلافت ہو گی۔
اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں اس آیت کی کچھ وضاحت کرتا ہوں، آپؑ فرماتے ہیں :۔
’’اللہ تعالیٰ دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھا تا ہے، دوسرے ایسے وقت جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خداتعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتے ہیں خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتاہے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشیں نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خداتعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا۔ {وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا}(النور:۵۶)۔ یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا ویں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا۔ جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ ؑ کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ معاملہ ہوا اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا‘‘۔
فرمایا:’’ سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تامخالفوں کی دوجھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلادے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے۔ اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے‘‘۔ اور یہ وعدہ بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اس لئے اس وقت تک ہے جو لوگ نیک اعمال بجا لاتے رہیں گے وہ ہی خلافت سے چمٹے رہیں گے۔ ’’ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خد اوعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں۔ اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔ سو تم خد اکی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا وے کہ تمہارا خدا ایسا قادر ہے، ۔ اپنی موت کو قریب سمجھو۔ تم نہیں جانتے کہ کسی وقت وہ گھڑی آ جائے گی‘‘۔
اور فرمایا کہ:’’ چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں ‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کئی کھڑے ہو جائیں بیعت کرنے کے لئے بلکہ مختلف اوقات میں ایسے آتے رہیں گے۔ ’’ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خداتعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعدمل کر کام کرو‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۴ تا ۳۰۷)
چنانچہ دیکھ لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد آپؑ نے ہمیں خوشخبریاں بھی دے دی تھیں کہ آپ ؑ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے انشاء اللہ خلافت دائمی رہے گی اور دشمن دو خوشیاں کبھی نہیں دیکھ سکے گا کہ ایک تو وفات کی خبر اس کو پہنچے اور اس پر خوش ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر ایسے بھی تھے جنہوں نے خوشیاں منائیں اور پھر یہ کہ وہ جماعت کے ٹوٹنے کی خوشی وہ دیکھ سکیں گے، یہ کبھی نہیں ہو گا۔ دشمن نے بڑا شور مچایا، بڑا خوش تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ تھاکہ {مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا}کا ہمیں نظارہ بھی دکھایا۔ اور بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اب کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں، طبیعت کمزور ہو چکی ہے اور شاید اس طرح خلافت کا کنٹرول نہ رہ سکے اور شاید وہ خلافت کا بوجھ نہ اٹھا سکیں اور انجمن کے بعض عمائدین کا خیال تھا کہ اب ہم اپنی من مانی کر سکیں گے۔ کیونکہ عمر کی وجہ سے بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو اگر ہم حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خدمت میں نہ بھی پیش کریں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور ان کو پتہ نہیں چلے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمن کی یہ تمام اندرونی اور بیرونی جو بھی تدبیریں تھیں ان کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور اندرونی فتنے کو بھی دبا دیا اور دنیا نے دیکھاکہ کس طرح ہر موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے اس فتنہ کو دبایا اور کتنے زور اور شدت سے اس کو دبایا اور کس طرح دشمن کا منہ بند کیا۔
آپ ؓ فرماتے ہیں :
’’ چونکہ خلافت کا انتخاب عقل انسانی کا کام نہیں، عقل نہیں تجویز کر سکتی کہ کس کے قویٰ قوی ہیں کس میں قوت انسانیہ کامل طور پر رکھی گئی ہے۔ اس لئے جناب الٰہی نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ{وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ} خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے وَعَدَہُُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامِنْکُمْ وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ۔ (حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ۲۵۵)
فرمایا کہ:’’ مجھے نہ کسی انسان نے، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رداء کو مجھ سے چھین لے‘‘۔ (الفرقان، خلافت نمبر۔ مئی جون ۱۹۶۷ء صفحہ ۲۸)
پھرآپ ؓ فرماتے ہیں کہ:’’ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھا دینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے۔ یہ کام تو ایک مُلاّں بھی کر سکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفے کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں۔ بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیاجائے‘‘۔ (الفرقان، خلافت نمبر۔ مئی جون ۱۹۶۷ء صفحہ ۲۸)
پھر دنیا نے دیکھا کہ آپؓ کے ان پر زور خطابات سے اور جو آپ نے اس وقت براہ راست انجمن پر بھی ایکشن لئے، جتنے وہ لوگ باتیں کرنے والے تھے وہ سب بھیگی بلّی بن گئے، جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ اور وقتی طور پر ان میں کبھی کبھی اُبال آتا رہتا تھا اور مختلف صورتوں میں کہیں نہ کہیں جا کر فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن انجام کار سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں ملا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد پھر انہیں لوگوں نے سر اٹھایا اور ایک فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی، جماعت میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور بہت سارے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی طرف مائل بھی کر لیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر خلافت کا انتخاب ہوا تو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد کو ہی جماعت خلیفہ منتخب کرے گی۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے ان شور مچانے والوں کو، انجمن کے عمائدین کو یہ بھی کہہ دیا کہ مجھے کوئی شوق نہیں خلیفہ بننے کا، تم جس کے ہاتھ پر کہتے ہو میں بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جماعت جس کو چنے گی میں اسی کو خلیفہ مان لو ں گا۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ان لوگوں کو پتہ تھا کہ اگر انتخاب خلافت ہوا تو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب ہی خلیفہ منتخب ہوں گے۔ اس لئے وہ اس طرف نہیں آتے تھے اور یہی کہتے رہے کہ فی الحال خلیفہ کا انتخاب نہ کروایا جائے۔ ایک، دو، چار دن کی بات نہیں، چند مہینوں کے لئے اس کو آگے ٹال دیا جائے، آگے کر دیا جائے اور یہ بات کسی طرح بھی جماعت کو قابل قبول نہ تھی۔ جماعت تو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونا چاہتی تھی۔ آخر جماعت نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد ؓ کو خلیفہ منتخب کیا اور آپ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور اس وقت بھی مخالفین کا یہ خیال تھا کہ جماعت کے کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور خزانہ ہمارے پاس ہے اس لئے چند دنوں بعد ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی رحمت کا ہاتھ رکھا اور خوف کی حالت کو پھر امن میں بدل دیا اور دشمنوں کی ساری امیدوں پہ پانی پھیر دیا اور ان کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں۔ پھر خلافت ثانیہ میں 1934ء میں ایک فتنہ اٹھا اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دبا دیا اور جماعت کو مخالفین کوئی گزند نہیں پہنچا سکے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہم پتہ نہیں کیا کر دیں گے۔ پھر 1953ء میں فسادات اٹھے۔ جب پاکستان بن گیا اس وقت دشمن کا خیال تھا کہ اب ہماری حکومت ہے یہاں انگریزوں کی حکومت نہیں رہی اب یہاں انصاف تو ہم نے ہی دینا ہے اور ان لوگوں کو انصاف کا پتہ ہی کچھ نہیں تھا اس لئے اب تو جماعت ختم ہوئی کہ ہوئی۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو ان سخت حالات اور خوف کی حالت سے ایسا نکالا کہ دنیا نے دیکھا کہ جو دشمن تھے وہ تو تباہ و برباد ہو گئے، وہ تو ذلیل و خوار ہو گئے لیکن جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی شان کے ساتھ پھر آگے قدم بڑھاتی ہوئی چلتی چلی گئی۔
غرض کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور 52سال رہا اور ہر روز ایک نئی ترقی لے کر آتا تھا۔ کئی زبانوں میں آپ ؓ کے زمانے میں تراجم قرآن کریم ہوئے۔ بیرونی دنیا میں مشن قائم ہوئے۔ افریقہ میں، یورپ میں مشنز قائم ہوئے اور بڑی ذاتی دلچسپی لے کر ذاتی ہدایات دے کر۔ اس زمانے میں دفاتر کا بھی نظام اتنا نہیں تھا۔ خود مبلغین کو براہ راست ہدایات دے دے کر اس نظام کو آگے بڑھایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہندو پاکستان میں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی اور خاص طور پر افریقہ میں لاکھوں کی تعداد میں سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوئیں۔ پھر دیکھیں آپ نے کس طرح انتظامی ڈھانچے بنائے۔ صدر انجمن احمدیہ کا قیام تو پہلے ہی تھا اس میں تبدیلیاں کیں، ردّو بدل کی۔ اس کو اس طرح ڈھالا کہ انجمن اپنے آپ کو صرف انجمن ہی سمجھے اور کبھی خلافت کے لئے خطرہ نہ بن سکے۔ پھر ذیلی تنظیموں کا قیام ہے، انصاراللہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ، آپ کی دُور رس نظر نے دیکھ لیا کہ اگر میں اس طرح جماعت کی تربیت کروں گا کہ ہر عمر کے لوگوں کو ان کی ذمہ واری کا احساس دلا دوں اور وہ یہ سمجھنے لگیں کہ اب ہم ہی ہیں جنہوں نے جماعت کو سنبھالنا ہے اور ہر فتنے سے بچا نا ہے۔ اپنے اندر نیک تبدیلی اور پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے۔ اگر یہ احساس پید اہو جائے قوم کے لوگوں میں تو پھر اس قوم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ تو دیکھ لیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے ہر ملک میں یہ ذیلی تنظیمیں قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے فعال ہیں اور آج جرمنی کی خدام الاحمدیہ بھی اسی سلسلے میں اپنا اجتماع کر رہی ہے۔ تو یہ بھی ایک بہت بڑی انتظامی بات تھی جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت میں جاری فرمائی۔ پھر تحریک جدید کا قیام ہے، ۔ جب دشمن یہ کہہ رہا تھا کہ میں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا اس وقت آپ ؓ نے تحریک جدید کا قیام کیا اور پھر بیرون ممالک میں مشن قائم ہوئے۔ پھر وقف جدید کا قیام ہے جو پاکستان اور ہندوستان کی دیہاتی جماعتوں میں تبلیغ کے لئے تھا۔ اب تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں پھیل گئی۔ غرضیکہ اتنے کام ہوئے ہیں اور اسی شخص کو جس کو اپنے زعم میں بڑے پڑھے لکھے اور عقلمند اور جماعت کو چلا نے کا دعویٰ کرنے والے سمجھتے تھے کہ یہ بچہ ہے اس کے ہاتھ میں خلافت کی باگ ڈور ہے اور یہ کچھ نہیں کر سکتا اسی بچے نے دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ اور تمام دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس الہام کو بھی پورے کرنے والے ہو گئے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ:
’’ جو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کل خیالات کو یکجا جمع کرناہے۔ اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے۔ ممکن ہے کسی ایک بات میں دوسرا شخص اس سے بڑھ کر ہو۔ ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے لئے صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ پڑھاتا اچھا ہے کہ نہیں یا اعلیٰ ڈگری پاس ہے یا نہیں۔ ممکن ہے کہ اس کے ماتحت اس سے بھی اعلیٰ ڈگری یافتہ ہوں۔ اس نے انتظام کرنا ہے، افسروں سے معاملہ کرنا ہے، ماتحتوں سے سلوک کرنا ہے یہ سب باتیں اس میں دیکھی جاویں گی۔ ا سی طرح سے خدا کی طرف سے جو خلیفہ ہو گا اس کی مجموعی حیثیت کو دیکھا جاوے گا۔ خالد بن ولید جیسی تلوار کس نے چلائی ؟ مگر خلیفہ ابو بکر ہوئے۔ اگر آج کوئی کہتا ہے کہ یورپ میں میری قلم کی دھاک مچی ہوئی ہے تووہ خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ خلیفہ وہی ہے جسے خدا نے بنایا۔ خدا نے جس کو چن لیا اُس کو چن لیا۔ خالد بن ولید نے 60آدمیوں کے ہمراہ 60ہزار آدمیوں پر فتح پائی۔ عمر ؓ نے ایسا نہیں کیا‘‘۔ (حضرت عمر ؓ نے)’’ مگر خلیفہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہوئے۔ حضرت عثمان ؓ کے وقت میں بڑے جنگی سپہ سالار موجود تھے، ایک سے ایک بڑھ کر جنگی قابلیت رکھنے والا ان میں موجود تھا۔ سارے جہان کو اس نے فتح کیا، مگر خلیفہ عثمان ؓ ہی ہوئے۔ پھر کوئی تیز مزاج ہوتا ہے، کوئی نرم مزاج، کوئی متواضع، کوئی منکسرالمزاج ہوتے ہیں، ہر ایک کے ساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے جس کو وہی سمجھتا ہے۔ جس کو معاملات ایسے پیش آتے ہیں۔ (خطبات محمود جلد۴ صفحہ ۷۲، ۷۳)
پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ:
’’ میں ایسے شخص کو جس کو خداتعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خداتعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا تو اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی‘‘۔ (خلافت حقہ اسلامیہ صفحہ ۱۸)
چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جس بھی حکومت نے ٹکّر لی اس کے اپنے ٹکڑے ہو گئے۔ اور پھر خلافت رابعہ میں بھی یہی نظارے ہمیں نظر آئے۔
ایک اور جگہ حضرت خلیفہ ثانیؓ نے چھٹی ساتویں خلافت تک کا بھی ذکر کیا ہوا ہے۔ تفصیل تو میں آگے بتاتا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ یہ سب لوگ مل کر جو فیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کے لئے قبول ہو گا۔ یعنی انتخاب خلافت کمیٹی کے بارے میں۔ اور جماعت میں سے جوشخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہو گا اور جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہو گا، اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہو گا، وہ بڑا ہو یا چھوٹا ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔ (خطبہ جمعہ ۲۴؍جنوری ۱۹۳۶ء مندرجہ الفضل ۳۱؍جنوری ۱۹۳۶ء)
پھر خلافت ثالثہ کادور آیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی وفات کے بعد پھر اندرونی اور بیرونی دشمن تیز ہوا۔ لیکن کیا ہوا ؟ کیا جماعت میں کوئی کمی ہوئی؟ نہیں، بلکہ خداتعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق پہلے سے بڑھ کر ترقیات کے دروازے کھولے۔ مشنوں میں مزید توسیع ہوئی۔ افریقہ میں بھی، یورپ میں بھی اور پھر افریقہ کے دورے کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں سکیم کا اجراء فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، ایک رؤیا کے مطابق۔ ہسپتال کھولے گئے۔ سکول کھولے گئے، ہسپتالوں میں اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مریض شفا پا چکے ہیں۔ گورنمنٹ کے بڑے بڑے ہسپتالوں کو چھو ڑ کر ہمارے چھوٹے چھوٹے دو ر دراز کے دیہاتی ہسپتالوں میں لوگ اپنا علاج کرانے آتے ہیں۔ بلکہ سرکاری افسران بھی اس طرف آتے ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ہمارے ہسپتالوں میں جو واقفین زندگی ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں وہ ایک جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ا ور ان کے پیچھے خلیفہ وقت کی دعاؤں کا بھی حصہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے خلیفہ کی لاج رکھنے کے لئے ان دعاؤں کو سنتا ہے اور جہاں بھی کوئی کارکن اس جذبے سے کام کر رہا ہو کہ میں دین کی خدمت کر رہا ہوں اور میرے پیچھے خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی اس میں بے انتہا برکت ڈالتا ہے۔ پھر سکولوں میں ہزاروں لاکھوں طلباء اب تک پڑھ چکے ہیں بڑی بڑی پوسٹ پر قائم ہیں۔ ہمارے گھانا کے ڈپٹی منسٹر آف انرجی جو ہیں انہوں نے احمدیہ سکول میں شروع میں کچھ سال تعلیم حاصل کی۔ پھر ایک سکول سے دوسرے سکول میں چلے گئے وہ بھی احمدیہ سکول ہی تھا۔ اور آج ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑا رتبہ دیا ہوا ہے۔ اسی طرح اور بہت سارے لوگ ہیں۔ افریقن ملکوں میں جائیں تو دیکھ کر پتہ لگتا ہے۔ یہ سب جو فیض ہیں اس وجہ سے ہیں کہ ڈاکٹر ہوں یا ٹیچر، ایک جذبے کے تحت کام کر رہے ہیں اور یہ سوچ ان کے پیچھے ہوتی ہے کہ ہم جو بھی کام کر رہے ہیں ایک تو ہم نے دعا کرنی ہے، خود اللہ تعالیٰ سے فضل مانگنا ہے اور پھر خلیفۃ المسیح کو لکھتے چلے جانا ہے تاکہ ان کی دعاؤں سے بھی ہم حصہ پاتے رہیں۔ اور یہ جو افریقن ممالک میں ہمارے سکول اور کالج ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کا بھی ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ کل ہی سیرالیون کی رہنے والی خاتون بچوں کے ساتھ مجھے ملنے آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں تو خاندان میں اسلام کا پتہ ہی کچھ نہیں تھا۔ احمدیہ سکول میں میں نے تعلیم حاصل کی اور وہیں سے مجھے احمدیت کا پتہ لگا اور بڑے اخلاص اور وفاکا اظہار کر رہی تھیں۔ وہ بڑی مخلص احمدی خاتون ہیں۔ اسی طرح اور بہت سے ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں جو ہمارے ان سکولوں سے تعلیم حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں شامل ہوئے اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پھر خلافت ثالثہ میں ہی آپ دیکھ لیں، 74ء کا فساد ہوا اس وقت ان کا خیال تھاکہ اب تو احمدیت ختم ہوئی کہ ہوئی، ایک قانون پاس کر دیا کہ ہم ان کو غیرمسلم قرار دے دیں گے تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔ کئی شہید کئے گئے، جانی نقصان کے ساتھ ساتھ مالی نقصان بھی پہنچایا گیا۔ کاروبار لوٹے گئے، گھروں کو آگیں لگا دی گئیں، دکانوں کوآگیں لگا دی گئیں، کارخانوں کو آگیں لگا دی گئیں۔ لیکن ہوا کیا؟ کیا احمدیت ختم ہو گئی۔ پہلے سے بڑھ کر اس کا قدم اور تیز ہو گیا، باپ کو بیٹے کے سامنے قتل کیا گیا، بیٹے کوباپ کے سامنے قتل کیا تو کیا خاندان کے باقی افراد نے احمدیت چھوڑ دی؟۔ ان میں اور زیادہ ثبات قدم پیدا ہوا، ان میں اور زیادہ اخلاص پیدا ہوا۔ ان میں اور زیادہ جماعت کے ساتھ تعلق پیدا ہوا۔ دشمن کی کوئی بھی تدبیر کبھی بھی کارگر نہیں ہوئی اور کبھی کسی کے ایمان میں لغزش نہیں آئی۔ اور پھر اب دیکھیں کہ ان نیکیوں پہ قائم رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو جو جانی نقصان ہوا یا جن خاندانوں کو اپنے پیاروں کا جانی نقصان برداشت کرنا پڑا، اگلے جہان میں تو اللہ تعالیٰ نے جزا دینی ہے اللہ نے اُن کو اِس دنیا میں بھی ان کو بے انتہا نوازا ہے۔ مالی لحاظ سے بھی اور ایمان کے لحاظ سے بھی۔ جو پاکستان میں رہے ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے کاروباروں میں برکت دی۔ کئی لوگ ملتے ہیں جن کے ہزاروں کے کاروبار تھے اب لاکھوں میں پہنچے ہوئے ہیں۔ جن کے لاکھوں کے کاروبار تباہ کئے گئے تھے ان کے کاروبار کروڑوں میں پہنچے ہوئے ہیں اور آپ لوگ بھی جو یہاں نکلے، اسی وجہ سے نکلے، آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی لئے نکلنے کا موقع دیا کہ جماعت پرپاکستان میں تنگیاں اور سختیاں تھیں۔ اور یہاں آ کے اگر نظر کریں پچھلے حالات میں اور اب کے حالات میں تو آپ کو خود نظر آ جائے گا کہ آپ پہ اللہ تعالیٰ کے کتنے فضل ہوئے ہیں۔ مالی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے کتنا آپ کو مضبوط کر دیا ہے۔ اب اس کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ لوگ اس کے آگے مزید جھکیں اور اس کے عبادت گزار بنتے چلے جائیں۔ اپنی نسلوں میں بھی یہ بات پیدا کریں کہ سب کچھ جو تم فیض پا رہے ہو یہ اس سختی اور تنگی کا فیض ہے جو جماعت پہ پاکستان میں تھی اور آج ہم اس کی وجہ سے کشائش میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ نیک اعمال بجا لانے کی شرط قائم ہے اور ہر وقت قائم ہے۔
پھر خلافت رابعہ کا دور آیا۔ پھر دشمن نے کوشش کی کسی طرح فتنہ وفساد پیدا کیا جائے لیکن جماعت ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو گئی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا۔ انتخاب خلافت کے ان حالات کے بعد جو بڑی سختی کے چند دن یا ایک آدھ دن تھے دشمن نے جب وہ سکیم ناکام ہوتی دیکھی تو پھر دو سال بعد ہی خلافت رابعہ میں، 84ء میں، پھر ایک اور خوفناک سکیم بنائی کہ خلیفۃ المسیح کو بالکل عضوِ معطّل کی طرح کرکے رکھ دو۔ وہ کوئی کام نہ کر سکے۔ اور جب وہ کوئی کام نہیں کر سکے گا تو جماعت میں بے چینی پیدا ہو گی اور جب جماعت میں بے چینی پیدا ہو گی تو ظاہر ہے وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتی چلی جائے گی، اس کا شیراز ہ بکھرتا چلا جائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر پر اپنی تدبیر کو کیسے حاوی کیا۔ ان کی ہر تدبیر کو کس طرح الٹا کے ماراکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے وہاں سے نکلنے کے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چھپ کے نکلے۔ کھلے طور پر نکلے اور سب کے سامنے نکلے اور کراچی سے دن کے وقت یا صبح شروع وقت کی ہی وہ فلائیٹ تھی۔ بہرحال وہاں کوشش بھی کی گئی کہ روکا جائے لیکن وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور وہ نہیں پہچان سکے۔ جماعت میں اس سے بڑی سچائی کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے ہجرت کی ہے تو جو اس وقت سلوک ہوا تھا اس سلوک کی کچھ جھلکیاں ہم نے اس ہجرت کے وقت بھی دیکھیں اور جس سے ہمارے ایمانوں کو مزید تقویت پہنچی ہمارے ایمان مزید مضبوط ہوئے۔ پھر یہاں پہنچ کر بیرونی ممالک میں جماعتوں کو مشنوں کو منظم کرنے کا کام بہت وسعت اختیار کر گیا۔ اور اسی طرح دعوت الی اللہ کا کام بھی بہت وسیع ہو گیا۔ اور پھر لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں جماعت میں داخل ہونا شروع ہو گئے، پھر ایم ٹی اے کا اجراء ہوا، ایک ملک میں تو پلان تھا کہ یہاں خلیفۃ المسیح کی آواز کو روک دیا جائے لیکن ایم ٹی اے نے تمام دنیامیں وہ آواز پہنچا دی اور دشمن کی تدبیریں پھر ناکام ہو کر ان پر لوٹ گئیں۔ پہلے تو مسجد اقصیٰ ربوہ میں خلیفۃ المسیح کا خطبہ سنتے تھے اب ہر شہر میں، ہر گاؤں میں، ہر گھر میں یہ آواز پہنچ رہی ہے۔ پھر افریقہ میں خدمت انسانیت کے کام کو اس دور میں بڑی وسعت دی گئی۔ غرض کہ ایک انتہائی ترقی کا دور تھا اور ہر روز جو دن چڑھ رہا تھا وہ ایک نئی ترقی لے کر آ رہا تھا۔ دشمن خیال کرتا ہے یا انسان اپنی سوچ سے بعض اوقات سوچتا ہے کہ یہاں انتہاء ہو گئی اور اب اس سے زیادہ ترقی کیاہو گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسے نظارے دکھاتا ہے کہ انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔
پھر آپ کی وفات کے بعد دشمنوں کا خیال تھا کہ اب تو یہ جماعت گئی کہ گئی اب بظاہر کوئی نظر نہیں آتا کہ اس جماعت کو سنبھال سکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے سب نے دیکھے۔ بچوں نے بھی اور نوجوانوں نے بھی، مردوں نے بھی اور عورتوں نے بھی اپنے ایمانوں کو مضبوط کیا۔ حتیٰ کہ غیر از جماعت بھی کیامسلمان اور کیا غیرمسلمان سب نے ہی یہ نظارے دیکھے کیونکہ ایم ٹی اے کے ذریعے یہ ہر جگہ پہنچ رہے تھے۔ لندن میں مجھے کسی نے بتایا کہ ایک سکھ نے کہا کہ ہم بڑے حیران ہوئے آپ لوگوں کا یہ سارا نظام دیکھ کر اور پھر انتخاب خلافت کا سارا نظارہ دیکھ کر۔ پاکستان میں ہمارے ڈاکٹر نوری صاحب کے پاس ایک غیر از جماعت بڑے پیر ہیں یا عالم ہیں وہ آئے(مریض تھے اس لئے آتے رہے) اور ساری باتیں پوچھتے رہے کہ کس طرح ہوا، کیا ہوا اور پھر بتایا کہ میں نے بھی ایم ٹی اے پر دیکھا تھا۔ دشمن بھی وہ جس طرح کہتے ہیں نہ کہ کھلے طور پر تو نہیں دیکھتے لیکن چھپ چھپ کر ایم ٹی اے دیکھتے ہیں۔ یہ سارے نظارے دیکھے اور ڈاکٹر صاحب کو کہنے لگے کہ یہ ایسا نظارہ تھا جو حیرت انگیز تھا۔ اور باتوں میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ٹھیک ہے آپ کو پھر تسلیم کرنا چاہئے کہ جماعت احمدیہ سچی ہے کہتے ہیں کہ یہ تو میں نہیں کہتا، یہ مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ جماعت احمدیہ سچی نہیں ہے لیکن یہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت آپ کے ساتھ ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہمارے ساتھ ہو گئی تو پھراور کیا چیز رہ گئی۔ یہ آنکھوں پر پردے پڑے ہونے کی بات ہے اور دلوں پر پردے پڑے ہونے کی بات ہی ہے۔
اب اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو خلافت کے منصب پر فائز کیا کہ اگر دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو شاید دنیا کے لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں لیکن خداتعالیٰ دنیا کا محتاج نہیں ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا کہ:
’’ خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح مولوی نورالدین صاحب اپنی خلافت کے زمانے میں چھ سال متواتر اس مسئلے پرزور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہے، نہ انسان۔ اور درحقیقت قرآن شریف کو غور سے مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہر قسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انہیں ہم بناتے ہیں۔ (انوارالعلوم جلد ۲ صفحہ ۱۱)
پھر آپؓ فرماتے ہیں :
’’ خداتعالیٰ جس شخص کو خلافت پر کھڑا کرتا ہے وہ اس کو زمانے کے مطابق علوم بھی عطا کرتا ہے اگر وہ احمق، جاہل اور بیوقوف ہوتا ہے‘‘۔ پھر فرمایا کہ:’’ اس کے یہ معنی ہیں کہ خلیفہ خود خدا بناتا ہے اس کے تومعنی ہی یہ ہیں کہ جب کسی کو خداخلیفہ بناتا ہے تو اسے اپنی صفات بخشتا ہے۔ اور اگر وہ اسے اپنی صفات نہیں بخشتا تو خداتعالیٰ کے خود خلیفہ بنانے کے معنی ہی کیا ہیں ‘‘۔ (الفرقان۔ مئی جون ۱۹۶۷ء صفحہ ۳۷)
میں جب اپنے آپ کو دیکھتا ہوں، اپنی نااہلی اور کم مائیگی کو دیکھتا ہوں اور میرے سے زیادہ میرا خدا مجھے جانتا ہے کہ میرے اندرکیا ہے تو اس وقت ہر لمحے اللہ تعالیٰ کی قدرت یاد آ جاتی ہے۔
مکرم میر محمود احمد صاحب نے ایک شعر کہا ؎
مجھ کو بس ہے میرا مولیٰ، میرا مولیٰ مجھ کو بس
’کیا خدا کافی نہیں ہے‘ کی شہادت دیکھ لی
اس کی بیک گراؤنڈ جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک تو’ کیا خدا کافی نہیں ‘ کی شہادت ’اَلَیۡسَ اللّٰہُ‘ کی انگوٹھی ہے جو خلیفۃ المسیح کو ملتی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں تھیں جو آپؑ کے تین بیٹوں کو ملیں۔ اور جو’ مولیٰ بس‘ کی انگوٹھی تھی(ایک انگوٹھی جس پر ’مولیٰ بس‘ کا الہام کندہ تھا)وہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ کے حصہ میں آئی تھی اور یہ میں نے پہنی ہوئی ہے۔ اس کے بعد میرے والد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمدصاحب کو ملی اور ان کی وفات کے بعد میری والدہ نے مجھے دے دی۔ میں تو اس کو بڑی سنبھال کے رکھتا تھا، پہنتا نہیں تھا لیکن انتخاب خلافت کے بعد میں نے یہ پہننی شروع کی ہے۔ تو ’مولیٰ بس‘ کے نظارے اور ’ کیا خدا کافی نہیں ہے‘ کے نظارے مجھے تو ہر لمحہ نظر آتے ہیں کیونکہ اگر ویسے میں دیکھوں تومیری کوئی حیثیت نہیں ہے۔
لوگوں کے دلوں میں محبت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ کوئی انسان محبت پیدا نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھا دے۔ تو مخالفوں کی خوشیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پامال کیا۔ اب بھی بعض مخالفین شور مچاتے ہیں، منافقین بھی بعض باتیں کر جاتے ہیں۔ وہ چاہے جتنا مرضی شور مچالیں، جتنا مرضی زور لگا لیں، خلافت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اور جب تک اللہ چاہے گا یہ رہے گی اور جب چاہے گا مجھے اٹھا لے گا اور کوئی نیا خلیفہ آ جائے گا۔ لیکن حضرت خلیفہ اول ؓ کے الفاظ میں میں کہتا ہوں کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ ہٹا سکے یا فتنہ پیدا کر سکے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہے اور ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہے۔ افریقہ میں بھی مَیں دورہ پرگیا ہوں ایسے لو گ جنہوں نے کبھی دیکھا نہیں تھا اس طرح ٹوٹ کر انہوں نے محبت کا اظہار کیا ہے جس طرح برسوں کے بچھڑے ملے ہوتے ہیں یہ سب کیا ہے؟ جس طرح ان کے چہروں پر خوشی کا اظہار میں نے دیکھا ہے، یہ سب کیا ہے؟۔ جس طرح سفر کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرکے وہ لوگ آئے، یہ سب کچھ کیا ہے؟۔ کیا دنیا دکھاوے کے لئے یہ سب خلافت سے محبت ہے جو ان دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ تو جس چیز کو اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے وہ انسانی کوششوں سے کہاں نکل سکتی ہے۔ جتنا مرضی کوئی چاہے، زور لگا لے۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو باقاعدہ میں نے آنسوؤں سے روتے دیکھا ہے۔ تو یہ سب محبت ہی ہے جو خلافت کی ان کے دلوں میں قائم ہے۔ بچے اس طرح بعض دفعہ دائیں بائیں سے نکل کے سیکیورٹی کو توڑتے ہوئے آ کے چمٹ جاتے تھے۔ وہ محبت تو اللہ تعالیٰ نے بچوں کے دل میں پیدا کی ہے، کسی کے کہنے پہ تو نہیں آ سکتے۔ اور پھر ان کے ماں باپ اور دوسرے ارد گرد لوگ جو اکٹھے ہوتے تھے ان کی محبت بھی دیکھنے والی ہوتی تھی۔ پھر اس بچے کو اس لئے وہ پیار کرتے تھے کہ تم خلیفہ وقت سے چمٹ کے اور اس سے پیار لے کر آئے ہو۔ یہ سب باتیں احمدیت کی سچائی کی دلیل ہیں۔ اگر کسی کی نظر ہو دیکھنے کی تبھی دیکھ سکتا ہے۔ چند لوگ اگر مرتد ہوتے ہیں یا منافقانہ باتیں کرتے ہیں تو ان کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ایک بدفطرت اگر جاتا ہے تو جائے، اچھا ہے خس کم جہاں پاک۔ وہ اپنے بدانجام کی طرف قدم بڑھا رہا ہے وہی اس کا انجام مقدر تھا جس کی طرف جا رہا ہے۔ لیکن جب اس کے مقابل پر ایک جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سینکڑوں سعید روحوں کو احمدیت میں داخل کرتا ہے۔
یاد رکھیں وہ سچے وعدوں والا خدا ہے۔ وہ آج بھی اپنے پیارے مسیح کی اس پیاری جماعت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا اور کبھی نہیں چھوڑے گا۔ وہ آج بھی اپنے مسیح سے کئے ہوئے وعدوں کو اسی طرح پورا کر رہا ہے جس طرح وہ پہلی خلافتوں میں کرتا رہا ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز رہا ہے جس طرح پہلے وہ نوازتا رہا ہے اور انشاء اللہ نوازتا رہے گا۔ پس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کہیں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرکے خود ٹھوکر نہ کھا جائے۔ اپنی عاقبت خراب نہ کر لے۔ پس دعائیں کرتے ہوئے اور اس کی طرف جھکتے ہوئے اور اس کا فضل مانگتے ہوئے ہمیشہ اس کے آستانہ پر پڑے رہیں اور اس مضبوط کڑے کو ہاتھ ڈالے رکھیں تو پھر کوئی بھی آپ کابال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خلیفہ وہی ہے جو خدا بناتاہے۔ خدا نے جس کو چن لیا اس کو چن لیا۔
مخالفین اور منافقین جتنا مرضی زور لگا لیں خلافت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اور جب تک اللہ چاہے گا یہ رہے گی۔
٭…خلافت کا یہ سلسلہ دائمی ہے۔ انشاء اللہ
٭…ہم خوش قسمت ہیں کہ آنحضرتﷺ کی یہ پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں
٭…منکرین خلافت کے منصوبے اور ان کی نامرادیاں
٭…حضرت مصلح موعود کا تابناک دورِ خلافت اور جماعت کی ترقی
٭…خلافت ثالثہ اور رابعہ میں الٰہی تائید و نصرت اور اس کا تسلسل
٭…مجھ کو بس ہے میرا مولیٰ، میرا مولی مجھ کو بس
۲۱؍مئی۲۰۰۴ء بمطابق۲۱؍ہجرت۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام بادکروزناخ(جرمنی)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔