دعوت الی اللہ کا کام ایک مستقل کام ہے

خطبہ جمعہ 4؍ جون 2004ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

{وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ}۔ (سورۃ حٰم سجدہ:۳۴)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ میں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جو بات پسند ہے وہ یہ ہے کہ اس کی مخلوق شیطان کے چنگل سے نکل کر اس کی عبادت بجا لانے والی ہو۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو کھلی چھٹی دے دی، ٹھیک ہے تم میرے بندوں کو ورغلانے کی کوشش کرنا چاہتے ہو تو کرتے رہو، ان کو نیکی کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہو تو کرتے رہو لیکن ساتھ یہ فرما دیا کہ میرے بندے جو نیکی پر قائم رہیں گے ان کو نیکی پر قائم رکھنے کے لئے میرے انبیاء دنیا میں آتے رہیں گے اور ان کے ماننے والوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو میری عبادت بجا لانے والے اور میری طرف جھکنے والے اور مخلوق کو میری طرف لانے کا فریضہ انجام دینے والے ہوں گے۔ اور فرمایا کہ یہی لوگ ہیں نیکیوں پر قائم رہنے والے جو فلاح پانے والے ہوں گے۔ اور یہی لوگ ہیں جو میری ابدی جنتوں کے وارث ہوں گے جو لوگوں کو نیکی کی تلقین کرنے والے ہوں گے اور عبادات بجا لانے والے ہوں گے۔ جس طرح کہ میں نے کہا اور نیک اعمال بجا لانے والے ہوں گے اور اس درد کے ساتھ نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور نیکیوں پر قائم رہنے والے ہوں گے کہ اے شیطان! تو ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ لیکن کیونکہ زبردستی کوئی نہیں ہے اس لئے ایسے بھی لوگ ہوں گے جو شیطان کے بہکاوے میں آ جائیں گے، شیطان کی پیروی کر رہے ہوں گے۔ اور یہ لوگ نور کو چھوڑ کر ظلمات کی طرف جانے والے ہوں گے۔ ان کا ٹھکانہ پھر آگ ہو گا۔ اور فرمایا کہ میں انہیں ضرور آگ میں ڈالوں گا۔

تو یہ دو قسم کے گروہ ہیں ایک اللہ کی عبادت کرنے والے اور ایک شیطان کے بہکاوے میں آنے والے۔ اور اللہ کی عبادت کرنے والے وہ ہیں جو درد کے ساتھ لوگوں کو بھی اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر یہ انعام اور احسان بھی فرمایا ہے کہ اس نے ہمیں اس گروہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی جو تمام انبیاء پر یقین رکھنے والا اور ان پر ایمان لانے والا ہے۔ اور سب سے بڑھ کریہ کہ ہادیٔ کامل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا اور پھر یہ بھی انعام فرمایا کہ اس ہادیٔ کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور عاشق کامل علیہ السلام کی جماعت میں بھی شامل فرما دیا اور اس لحاظ سے ہم اپنے آپ کو جتنا بھی خوش قسمت سمجھیں کم ہے اور اس احسان پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ لیکن واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہم پر ایک ذمہ داری بھی ڈالتا ہے کہ جس قیمتی خزانے کو تم نے حاصل کیا ہے، جس لعل بے بہا کو تم نے پا لیا ہے اس کو اپنے تک ہی محدود نہیں رکھنا بلکہ اس خزانے کو اور ان خزائن کو جو ہزاروں سال سے مدفون تھے، ان خزانوں کو جن کو حاصل کرنے کے بعد انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے، دوسروں تک بھی پہنچائیں، انہیں بھی شیطان کے چنگل سے آزاد کروائیں، اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بنائیں۔ اور اس حدیث پر عمل کرنے والے ہوں کہ جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔ ان کو بھی اس میں سے حصہ دو، اس خزانے کو، اس گہر نایاب کو دبا کر ہی نہ بیٹھ جاؤ بلکہ اس کو دنیا کے ہر شخص تک پہنچاؤ۔ مسلمانوں کو بھی پہنچاؤ کہ وہ بھولے بیٹھے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب کوئی مہدی اور مسیح آتا ہے اور ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور اسی انتظار میں وہ دجال کے دجل کے نیچے دبتے چلے جا رہے ہیں اور نقصان اٹھاتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر طرف سے ان پر سختیاں ہیں۔ کچھ ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہاہے۔ یہاں تک کہ مسلمان اپنے ملکوں میں بھی آزادی سے سانس لینے کے حقدار نہیں ہیں۔ اپنے ملکوں میں بھی وہ وہی کچھ کرنے پر مجبور ہیں جو دجال ان سے کروانا چاہتا ہے۔ پھر جیسا کہ میں نے کہایہ مسلمان خود غرض ملّاؤں اور دجالی قوتوں کے پنجے میں پھنس کے ظلم کی چکی میں اس طرح پس رہے ہیں کہ جس کی کوئی انتہا نہیں اور ان ہوس پرست مُلّاؤں نے انہیں دین سے بھی دور کر دیا ہے اور مسلمان کہلانے کے باوجود خداتعالیٰ کی تعلیم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی دور جا چکے ہیں۔ لیکن ایک احمدی کو کیونکہ عمومی طور پر انسانیت سے ہمدردی بھی ہے اور پھر مسلمانوں سے تو خصوصی طور سے ہمدردی ہونی چاہئے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف منسوب ہونے والے ہیں۔ ہم پر فرض بنتا ہے کہ ان کو ان اندھیروں سے نکالیں، ان تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں کہ مسیح اور مہدی کی جماعت میں شامل ہو جاؤ تو فلاح پاؤ گے۔

اسی طرح عیسائیوں اور دوسرے مذاہب والوں کو بھی اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچائیں۔ ایک درد کے ساتھ ان کے لئے دعائیں کریں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بنائیں۔ دنیا میں تیزی سے تباہی آ رہی ہے اور بڑی تیزی سے تباہی کی طرف دنیا بڑھ رہی ہے۔ اس کی نزاکت کے پیش نظر ہمیں اس طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بہترین ٹھہر سکتے ہیں، تبھی ہم خیر امت ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ اپنی امت کے کسی شخص کے ذریعے کسی دوسرے شخص کے ہدایت پا جانے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر خوشی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے۔ حضرت سہل بن سعد ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ بخدا تیرے ذریعے ایک آدمی کا ہدایت پا جانا، تیرے لئے اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابہ۔ باب فضائل علی بن ابی طالب)

سرخ اونٹ اس زمانے میں بڑی قدر و قیمت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ جس طرح اس زمانے میں بڑی بڑی کاریں ہیں یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ کیونکہ اس زمانے میں سفر کا ذریعہ خاص طور پر ریگستان میں، اور وہ ریگستانی علاقہ ہی تھا اونٹ ہی ہوتا تھا۔ تو فرمایا کہ دنیاوی لحاظ سے جو ایک اعلیٰ معیار ہے کسی انعام کا اس سے بڑھ کر کسی کی ہدایت کا باعث بن کر کسی کو سیدھے راستے پر لا کر تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں کے مورد ہو گے۔

غرض کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والے کا دنیاوی نظر سے بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے، کوئی موازنہ نہیں ہے۔ انسان کی سوچ سے ہی باہر ہے، اس لئے اس طرف بہت توجہ کریں۔ آپ لوگ جو ان ملکوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، یہاں بھی فرض بنتا ہے کہ اسلام کی تعلیم کو پہنچائیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچا لیں۔ اگر خداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کرکے تبلیغ کریں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں۔ (ملفوظات جلد دوم۔ صفحہ ۲۱۹۔ الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۲ء)

دیکھیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت میں یہ پیغام پہنچانے کا کس قدر جوش پایا جاتا ہے۔ پس ہمیں بھی اپنی ترجیحات کو بدلنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کے معاملہ میں سنجیدہ ہونا چاہئے۔ تبھی ہم آپؑ کی بیعت میں شامل ہونے کے دعوے میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں۔ آج جہاد کے لئے ہمیں تلوار چلانے کے لئے نہیں بلایا جا رہا۔ آج ہمیں تیروں کی بوچھاڑ کے آگے کھڑے ہو کرا سلام کا دفاع کرنے کے لئے نہیں کہا جا رہا۔ آج ہمیں توپ کے گولوں کے آگے کھڑے ہونے کے لئے نہیں کہا جا رہا۔ آج ہم سے جو مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اپنے مالوں کو بھی دین کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے وقت کو بھی دین کی راہ میں خرچ کرو۔ آج ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی حسین تعلیم کے وہ بے بہا خزانے دے دئیے ہیں جن کی مدد سے ہم دلائل کے ذریعہ سے دشمن کا منہ بند کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ان دلائل کے سامنے آج نہ کوئی عیسائی ٹھہر سکتا ہے نہ یہودی، نہ ہندو اور نہ کوئی اور۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا ان دلائل کے ذریعے سے ہی ہم معصوم مسلمان امت کو بھی مفاد پرست اور خود غرض اور نام نہاد علماء کے چنگل سے آزاد کروا سکتے ہیں جن کا کام صرف فتنہ پیدا کرنا اور فساد پیدا کرنا ہے۔ اور اب تو ان کے اپنے اخبار یہ کہہ رہے ہیں، سب کچھ لکھ رہے ہیں، روزانہ کے اخبار ان باتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اور اللہ کے نام پر مُلّاں کا فساد زبان زدِ عام ہو چکا ہے خواہ پاکستان ہو یا بنگلہ دیش ہو یا ہندوستان ہو یا اور کوئی اسلامی ملک ہو، ہر جگہ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم سے دور ہٹایا جا رہا ہے اور مفاد پرست فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب گزشتہ کچھ عرصہ سے بنگلہ دیش میں بھی ایک بڑا فساد پیدا ہوا ہوا ہے۔ لیکن بنگلہ دیش کے عوام میں اس وقت باقی ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ شرافت نظر آتی ہے اور اسی طرح اخبارات میں بھی کہ وہ مُلّاں کے خدا کے نام پر اس فساد کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کا اجر دے اور اگلا جرأتمندانہ قدم بھی اٹھانے کی توفیق دے اور ان کو اس قابل بنائے کہ اس زمانے کے امام کو بھی پہچان سکیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اپنی طرف بلانے کے لئے راستے بھی آسان کر دئیے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ذریعہ اور وسیلہ بھی مہیا کر دیا ہے۔ آج مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے ذریعہ سے 24گھنٹے یہی کام ہو رہا ہے، 24گھنٹے اس کام کے لئے وقف ہیں۔ پس اگر اپنے علم میں کمی بھی ہو تو اس کے ذریعہ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ضرورت توجہ کی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں بے چینی پیدا ہو چکی ہے۔ پس ہمیں بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ وسائل بھی میسر ہیں۔ اس لئے درخواست ہے کہ توجہ کریں۔ دنیا میں ہر احمدی اپنے لئے فرض کر لے کہ اس نے سال میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ایک یا دو ہفتے تک اس کام کے لئے وقف کرنا ہے۔ یہ میں ایک یا دو دفعہ کم از کم اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب ایک رابطہ ہوتا ہے تو دوبارہ اس کا رابطہ ہونا چاہئے اور پھر نئے میدان بھی مل جاتے ہیں۔ اس لئے اس بارے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ تمام طاقتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر ایک کو پیش کرنا چاہئے۔ چاہے وہ ہالینڈ کا احمدی ہو یا جرمنی کا ہو۔ یا بلجیم کا ہو یا فرانس کا ہو یا یورپ کے کسی بھی ملک کا ہو یا دنیا کے کسی بھی ملک کا ہو چاہے گھانا کا ہو افریقہ میں یا بورکینا فاسو کا ہو، کینیڈا کا ہویا امریکہ کا ہو یا ایشیائی کسی ملک کاہو، ہر ایک کو اب اس بار ے میں سنجیدہ ہو جانا چاہئے اگر دنیا کو تباہی سے بچانا ہے۔ ہر ایک کو ذوق اور شوق کے ساتھ اس پیغام کو پہنچائیں، اپنے ہم وطنوں کو اپنے اس پیغام کو پہنچائیں، اور جیسا کہ میں نے کہا دنیا کو تباہی سے بچائیں کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیرکوئی قوم بھی محفوظ نہیں۔ اس لئے اب ان کو بچانے کے لئے داعیان الی اللہ کی مخصوص تعداد یا مخصوص ٹارگٹ حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ یا اسی پہ گزارا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اب تو جماعتوں کو ایسا پلان کرنا چاہئے، جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہر شخص، ہر احمدی اس پیغام کو پہنچانے میں مصروف ہو جائے۔ اور آپ لوگ جہاں اس کام سے دنیا کو فائدہ پہنچا رہے ہوں گے ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کر رہے ہوں گے وہاں آپ کو بھی فائدہ ہو گا۔ اپنے آپ کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہوں گے اور ثواب بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی نیک کام اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا کہ ثواب اس پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں ہوتا۔ اور جو شخص کسی برائی اور گمراہی کی طرف بلاتا ہے اس کو بھی اس قدر گناہ ہوتا ہے جس قدر اس برائی کرنے والے کو ہوتا ہے۔ (مسلم کتاب العلم۔ باب من سن حسنۃ او سیئۃ)۔ تو دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کس طرح اپنے بندوں کو اپنی طرف بلانے والوں کو ثواب پہنچا رہا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے اور لمبی عمر پائے تو اس کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے، خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کرے۔ یہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکہ نہیں چلتا۔ جو اللہ تعالیٰ کو دغا دیتا ہے وہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو دھوکہ دیتا ہے وہ اس کی پاداش میں ہلاک ہو جاوے گا۔

پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفاداری کے ساتھ اعلائے کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جاوے اور خدمت دین میں لگ جاوے او ر آج کل یہ نسخہ بہت ہی کارگر ہے کیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے، یہ یونہی چلی جاتی ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۶۳۔ الحکم ۱۷ فروری ۱۹۰۴ء)

پس اگر اپنی عمروں میں برکت ڈالنی ہے، اللہ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو دنیا کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ پیغام پہنچا دیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ اے تمام لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور تمام وہ انسانی روحو جو مشرق و مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتاہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے۔ اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں۔ ‘‘(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۱۴۱)

اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک سچی تڑپ کے ساتھ نوع انسانی کی سچی ہمدردی اور امت محمدیہ کے ساتھ محبت کے جذبے کے تحت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ پیغام دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے والا ہو اور ہم اُسے پہنچاتے چلے جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آج کل، جیسا کہ پہلے میں نے کہا، ایم ٹی اے کا بھی ایک ذریعہ نکال دیا ہے، اپنے دوستوں کو اس سے متعارف بھی کرانا چاہئے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ پیغام پہنچانے کے، تبلیغ کرنے کے بھی کوئی طریقے، سلیقے ہوتے ہیں۔ اس سچی تڑپ اور جوش اور جذبے کے ساتھ حکمت اور دانائی کا پہلو بھی مدنظر رہنا چاہئے۔ حکمت کے ساتھ اس پیغام کو پہنچانا چاہئے تاکہ دنیا پر اثر بھی ہو اور جس نیت سے ہم پیغام پہنچا رہے ہیں وہ مقصد بھی حاصل ہو، نہ کہ دنیا میں فساد پیدا ہو۔ اس لئے اس قرآنی آیت کو اس معاملے میں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔

فرمایا:{اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ}(النحل:۱۲۶)۔ یعنی اپنے رب کے راستے کی طر ف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقینا تیرا رب ہی اسے، جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو، سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔

پس جو مختلف ذرائع ہیں ان کو استعمال کریں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا۔ لیکن مختلف لوگوں کی مختلف طبائع ہوتی ہیں ان طبائع کے مطابق ان کو نصیحت ہونی چاہئے، ان کو تبلیغ ہونی چاہئے۔ اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے جہاں فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو دعائیں کرتے ہوئے کیونکہ اصل چیز تو دعا ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتی ہے تو اللہ سے دعائیں کرتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے ایسی جگہوں سے پھر بچنا چاہئے، اٹھ جانا چاہئے عارضی طور پر۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کے لئے دعائیں کرنی بند کر دیں بلکہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے مسلسل اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ جسے نصیحت کرنی ہو اسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرائے میں دوست بنا دیتی ہے۔ پس {وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن} کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو۔ اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے {یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ}‘‘(البقرۃ:۲۷۰)۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۸)

جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایاکہ حکمت بھی اسے میسر آتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ چاہے اس لئے داعی الی اللہ کو ایک تبلیغ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کے آگے بہت جھکنے والا اور اس سے ہر وقت مدد مانگنے والا ہونا چاہئے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی طرف کسی کو بلا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے واسطے سے ہی سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لئے دعوت الی اللہ کرنے سے پہلے بھی دعائیں کریں۔ اس دوران میں بھی دعائیں کریں اور ہمیشہ بعد میں بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھکتے رہنا چاہئے۔ اور اس سے حکمت و دانائی اور اس کا فضل ہمیشہ طلب کرتے رہنا چاہئے۔ اور جب اس طرح کام کو شروع کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت پڑے گی۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجادلۂ حسنہ کا مطلب کیا ہے۔ فرمایا: اس کا مطلب مدا ہنت نہیں ہے۔ یعنی خوشامدانہ طور پر بزدلی سے بات چھپائی جائے یہ نہیں ہے۔ بلکہ حکمت جرأت کے ساتھ بھی ہونی چاہئے۔ فرمایا کہ: آیت{جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن} کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مداہنہ کرکے خلاف واقعہ بات کی تصدیق کر لیں۔ کیا ہم ایسے شخص کو جو خدائی کا دعویٰ کرے اور ہمارے رسول کو پیشگوئی کے طور پر کذّاب قرار دے(نعوذ باللہ) اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو رکھے(نعوذ باللہ)۔ راست باز کہہ سکتے ہیں ؟ فرمایا’’ کیا ایسا کرنا مجادلۂ حسنہ ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ منافقانہ سیرت اور بے ایمانی کا شعبہ ہے۔ ‘‘(تریاق القلوب۔ روحانی خز ائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۰۵ حاشیہ)

بعض لوگ بعض دفعہ ماحول کو ٹھنڈاکرنے کے لئے ہر بات میں ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں کہ وقت کا تقاضا تھا، ہم سمجھتے تھے کہ اس وقت ہاں میں ہاں ملانے سے ان لوگوں کے ہمارے ساتھ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں تو یہ غلط طریق ہے۔ یہ بزدلی ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی کمی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ دلوں کو تو میں نے بدلنا ہے۔ تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ اس لئے ایسے موقعوں پر بھی جرأت کا اظہار کرتے ہوئے کہ یہ غلط باتیں ہیں وہاں سے اٹھ جانا چاہئے۔ اور ان لوگوں کا معاملہ پھر خدا پہ چھوڑنا چاہئے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے آپ نے فرمایا دلوں کی کچھ خواہشیں اور میلان ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی وقت بات سننے کے لئے تیار رہتے ہیں اور کسی و قت اس کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس لئے لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے تحت داخل ہو کر اسی وقت اپنی بات کہا کرو جب کہ وہ سننے کے لئے تیار ہوں۔ اس لئے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیا جائے تو اندھا ہو جاتا ہے یعنی بعض دفعہ لوگ بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ تو اس قول پر عمل کرنے کے لئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس سے بھی آپ کا رابطہ ہو رہا ہے جس کو بھی آپ نے تبلیغ کرنی ہے اس سے ذاتی تعلق ہواور پھر یہ ذاتی تعلق اور ذاتی رابطہ مستقل رابطے کی شکل میں قائم رہنا چاہئے۔ اور موقع کے لحاظ سے موقع پا کر کبھی کبھی بات چھیڑ دینی چاہئے جس سے اندازہ ہو کہ یہ لوگوں پر اثر کرے گی۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے یا تو بزدلی دکھا دی یا پھر جوش میں پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں اور موقع و محل کا بھی لحاظ نہیں رکھتے۔ اس سے جو تھوڑا بہت تعلق پیدا ہوا ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اور جس کو آپ تبلیغ کر رہے ہیں اس کو بالکل ہی پرے دھکیل دیتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ بعض طبیعتیں ہوتی ہیں جن کا ذاتی میلان یا رجحان ہی دین کی طرف نہیں ہوتا۔ ان کو اگر شروع میں ہی تبلیغ شروع کر دی جائے تو ان کاتو اس سے کوئی تعلق ہی نہیں وہ تو لامذہب لوگ ہیں، وہ تو بعض خدا پر بھی یقین کرنے والے نہیں ہوتے۔ اپنے مذہب سے جو ان کا بنیادی مذہب ہے اس سے بھی دور ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تو وہ ہماری بات کیسے سنیں گے۔ پہلے تو بات یہ ہے کہ ان کو مذہب پر یقین پیدا کروانا ہو گا، پہلے ان کو خدا کی پہچان کروانی ہو گی۔ جب اس طرز پر باتیں ہوں گی تو نہ صرف ایک شخص جس کو آپ تبلیغ کر رہے ہیں اس پر اثر ہو گا بلکہ ماحول پر بھی اثر ہو رہا ہو گا۔ اور ماحول میں بھی یہ اظہار ہو رہا ہو گا کہ یہ شخص خدا کا خوف رکھنے والاہے اور خدا کی خاطر ہر کام کرنے والا ہے اور خدا کی خاطر خدا کی طرف بلانے والا ہے۔ اس میں ایک درد ہے کہ خداتعالیٰ کے بندے اس کے آگے جھکیں اور یہ کسی ذاتی مفاد کے لئے کام نہیں کر رہا۔ اس بات سے کہ جو کچھ بھی ہے خداتعالیٰ کی خاطرہے اس کا ماحول پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے اور دعوت الی اللہ کے او ربھی مواقع میسر آ جاتے ہیں اور اس میں مزید آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارے لوگ مخالفین سے سختی سے پیش نہ آیا کریں۔ ان کی درشتی کانرمی سے جواب دیں اور ملاطفت سے سلوک کریں۔ چونکہ یہ خیالات مدّت مدید سے ان کے دلوں میں ہیں رفتہ رفتہ ہی دور ہوں گے۔ اس لئے نرمی سے کام لیں۔ اگر وہ سخت مخالفت کریں تو اعراض کریں۔ مگر اس بات کے لئے اپنے اندر قوّت جاذبہ پیدا کرو اور قوت جاذبہ اس وقت پیدا ہو گی جب تم صادق مومن بنو گے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۱۷۹ الحکم ۱۰ تا ۱۷ نومبر ۱۹۰۴)

اپنی طرف کھینچنے کے لئے، ایک کشش پیدا کرنے کے لئے کہ لوگ آپ کی طرف کھینچے چلے آئیں فرمایا کہ سچے مومن بنو گے جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دئیے ہیں ان کو بجا لانے کی کوشش کرو گے تب اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل حال رہے گی اور لوگوں پر بھی اثر ہو گا۔ اب دیکھیں کہ عیسائی پادری تبلیغ کرتے ہیں اکثر و بیشتر ایسے ہمدرد بن کے اپنی طرف مائل کر رہے ہوتے ہیں کہ لوگوں کو ان کی طرف رجحان ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر افریقہ میں بڑی ہمدردی سے لوگوں کے ساتھ پیش آ رہے ہوتے ہیں۔ دل میں جو مرضی ہو یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن ظاہری طور پر گاؤں میں جا کے ہمدردی کر رہے ہوتے ہیں، ان کی ضروریات کو پورا کر رہے ہوتے ہیں، ان کو پیغام پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ وہ ایک جھوٹے مقصد کے لئے کر رہے ہیں جبکہ اصل سچائی ہمارے پاس ہے۔ ہمیں تو اس طرف بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے تاکہ انسانیت کو تباہی سے بچایا جا سکے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تبلیغ کے طریقے بتاتے ہوئے کہ کس طرح گفتگو کرنی چاہئے فرماتے ہیں کہ:’’ دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ عوام، متوسط درجے کے، امراء۔ فرمایا کہ’’ عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں ‘‘۔ ان کو اتنا دین کا علم وغیرہ بھی نہیں ہوتا، سمجھ بھی نہیں ہوتی۔ ’’ ان کی سمجھ موٹی ہوتی ہے اس لئے ان کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ امراء کے لئے سمجھانابھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبرا جاتے ہیں۔ اور ان کا تکبر اور تعلّی اور بھی سدّ راہ ہوتی ہے‘‘۔ ایک تو ان کو اپنی دنیاوی پوزیشن کا بڑا خوف رہتا ہے۔ دوسرے تکبر پیدا ہو جاتا ہے۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں ’’اس لئے ان کے ساتھ گفتگو کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ان کے طرز کے موافق ان سے کلام کرے یعنی مختصر مگر پورے مطلب کو ادا کرنے والی تقریر ہو۔ قَلَّ وَدَلَّ۔ مگر عوام کو تبلیغ کرنے کے لئے تقریر بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہئے۔ رہے اوسط درجے کے لوگ، زیادہ تر یہ گروہ اس قابل ہوتا ہے کہ ان کو تبلیغ کی جاوے۔ وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کے مزاج میں وہ تعلّی اور تکبر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو امراء کے مزاج میں ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو سمجھانا بہت مشکل نہیں ہوتا‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۶۱۔ ۱۶۲الحکم ۲۴ مارچ ۱۹۰۲)

پھر آپؑ نے فرمایا چاہئے کہ:’’ جب کلام کرے تو سوچ کر اور مختصر کام کی بات کرے۔ بہت بحثیں کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ پس چھوٹا سا چٹکلہ کسی وقت چھوڑ دیا جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے۔ پھر کبھی اتفاق ہو تو پھر سہی۔ غرض آہستہ آہستہ پیغام حق پہنچاتا رہے اور تھکے نہیں۔ کیونکہ آج کل خدا کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق کو لوگ دیوانگی سمجھتے ہیں۔ اگر صحابہؓ اس زمانے میں ہوتے تو لوگ انہیں سودائی کہتے اور وہ انہیں کافر کہتے۔ دن رات بیہودہ باتوں اور طرح طرح کی غفلتوں اور دنیاوی فکروں سے دل سخت ہو جاتا ہے۔ بات کا اثر دیر سے ہوتا ہے۔ ایک شخص علی گڑھی غالباً تحصیل دار تھا میں نے اس کو کچھ نصیحت کی۔ وہ مجھ سے ٹھٹھا کرنے لگا۔ میں نے دل میں کہا میں بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑنے کا۔ آخر باتیں کرتے کرتے اس پر وہ وقت آ گیا کہ وہ یا تو مجھ پر تمسخر کر رہا تھا یا چیخیں مار مار کر رونے لگا۔ بعض اوقات سعید آدمی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شقی ہے‘‘ یعنی ظالم ہے سنگدل ہے تو’’ یاد رکھو ہر قُفل کے لئے ایک کلید ہے‘‘۔ ایک چابی ہے۔ ’’ بات کے لئے بھی ایک چابی ہے۔ وہ مناسب طرز ہے۔ ‘‘ پھر آپ ؑ دواؤں کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی مریض کو کوئی دوا مفید ہوتی ہے اور کسی کو کوئی تو اس لحاظ سے دوائی بھی دینی چاہئے۔ پھر فرمایا’’ ایسے ہی ہر ایک بات ایک خاص پیرائے میں خاص شخص کے لئے مفید ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ سب سے یکساں بات کی جائے۔ بیان کرنے والے کو چاہئے کہ کسی کے برا کہنے کو برا نہ منائے بلکہ اپنا کام کئے جائے اور تھکے نہیں۔ امراء کا مزاج بہت نازک ہوتا ہے اور وہ دنیا سے غافل بھی ہوتے ہیں۔ بہت باتیں سن بھی نہیں سکتے۔ انہیں کسی موقع پر کسی پیرائے میں نہایت نرمی سے نصیحت کرنی چاہئے۔ ‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۴۴۱ بدر ۱۳ فروری ۱۹۰۸ء)

پھرتبلیغ کرنے والوں کے لئے ایک اور نسخہ بیان فرمایا کہ’’ اس کام کے واسطے وہ آدمی موزوں ہوں گے جو کہ مَنْ یَّتَقِ وَ یَصْبِرْ کے مصداق ہوں۔ ان میں تقویٰ کی خوبی بھی ہو اور صبر بھی ہو۔ پاکدامن ہوں، فسق و فجور سے بچنے والے ہوں، معاصی سے دور رہنے والے ہوں لیکن ساتھ ہی مشکلات پر صبر کرنے والے ہوں۔ لوگوں کی دشنام دہی پر جوش میں نہ آئیں۔ ہر طرح کی تکلیف اور دکھ کو برداشت کرکے صبر کریں۔ کوئی مارے بھی تو مقابلہ نہ کریں جس سے فتنہ و فساد ہو جائے۔ دشمن جب گفتگو میں مقابلہ کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اسے جوش دلانے والے کلمات بولے جس سے فریق مخالف صبر سے باہر ہو کر اس کے ساتھ آمادہ بہ جنگ ہو جائے ‘‘۔ (یعنی لڑائی کی صورت پید اہو جائے)(ملفوظات جلد پنجم صفحہ۳۱۸۔ بدر ۳ اکتوبر ۱۹۰۷ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس میں یہی مسلسل فرمایا کہ تھکنا نہیں۔ دعوت الی اللہ کا کام ایک مستقل کام ہے، مستقل مزاجی سے لگے رہنے والا کام ہے اور یہ نہیں ہے کہ ایک رابطہ کیا یا سال کے آخر میں دو مہینے اپنے ٹارگٹ پورے کرنے کے لئے وقف کر دئیے۔ بلکہ ساراسال اس کام پہ لگے رہنا چاہئے اور اس طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے۔ اور جس آدمی کو پکڑیں اس کا پتہ لگ جاتا ہے کس مزاج کا ہے۔ جو بھی آپ کے رابطے ہوتے ہیں پھر مسلسل اس سے رابطہ ہو۔ آخر ایک وقت ایسا آئے گا یا تو آپ کو اس کے بارے میں پتہ لگ جائے گا کہ اس کا دل سخت ہے اور وہ ایسی زمین ہی نہیں جس پہ کوئی چھینٹا بارش کا اثر کر سکے، کوئی نیکی کا اثر اس پر ہو، تو اس کو تو آپ چھوڑیں۔ لیکن بہت سارے ایسے ہیں جو آپ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس لئے اس عمل کو مسلسل جاری رہنا چاہئے اور سو نہیں جانا چاہئے کہ جی کام سال کے آخر میں کر لیں گے۔

پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں ان میں ایک بہت بڑی خوبی جس کی ضرورت ہے اور جس کے بغیر نہ جوش کام آ سکتا ہے نہ تبلیغ کے لئے کسی قسم کا کوئی شوق کام آ سکتا ہے، نہ تبلیغ کے طریقوں میں حکمت، دانائی اور علم کام آ سکتا ہے وہ جو سب سے ضروری چیز ہے وہ ہے عمل۔ اس لئے میں نے جو پہلی آیت تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کی تعریف کرکے یہ بھی فرمایا کہ صرف وہ نیکی کی طرف بلاتے ہی نہیں ہیں بلکہ نیک اعمال خود بھی بجالانے والے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ وہ خود کچھ کر رہے ہوں اور لوگوں کو کچھ کہہ رہے ہوں۔ اور جب ان کا قول و فعل ایک جیسا ہو گا تو تبھی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ بات کہنے کے بھی حقدار ہوں گے کہ ہم کامل فرمانبرداروں میں سے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ تو غیب کا علم جانتا ہے۔ وہ تو ہمارے سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کا خوب علم رکھتا ہے۔ ہر بات اس کے علم میں ہے۔ اگر ہمارے قول وفعل میں تضاد ہو گا تو وہ فرمائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم کامل فرمانبرداروں میں نہیں ہو کیونکہ تمہارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ کہتے کچھ ہو کرتے کچھ ہو۔ اس لئے ایمان لانے والوں کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی کہ {یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ}(الصف:۲۔ ۳)۔ کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ کہتے ہوجو کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کو تو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ لوگوں کی آنکھوں میں تو دھول جھونکی جا سکتی ہے۔ اپنی ظاہری پاکیزگی کا اظہار کرکے لوگوں سے تو واہ واہ کروائی جا سکتی ہے۔ لوگوں کو تو علم نہیں ہوتا، نیکی کا ظاہری تأثر لے کر وہ کسی کو عہدیدار بنانے کے لئے ووٹ بھی دے دیتے ہیں اور عہدیدار بن بھی جاتے ہیں۔ پھر بڑھ بڑھ کر داعیان میں اپنے نام بھی لکھوا لیتے ہیں۔ لیکن اس کا فائدہ کیا ہو گا۔ کیونکہ تمہارے قول و فعل میں تضاد ہو گا اس وجہ سے تم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار ہو گے۔ فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہے۔ اس لئے ہر ایک کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ کام میں برکتیں بھی اس وقت پڑتی ہیں جب نیتیں صاف ہوں۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ اسلام کی حفاظت اور سچائی کوظاہر کرنے کے لئے سب سے اول تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۶۱۵ الحکم ۳۱ جنوری ۱۹۰۶ء)

تو ہر داعی الی اللہ کو، ہر تبلیغ کرنے والے کو، ہر واقف زندگی کو، ہر عہدیدار کو اور کیونکہ دنیا کی نظر ایک جماعت کی حیثیت سے جماعت کے ہر فرد پر ہے۔ اس لئے ہر احمدی کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا ایک نمونہ بننے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ دعوت الی اللہ کے میدان میں بھی ہماری مدد فرمائے اور ہماری زندگیوں میں بھی اس کے فضل کے آثار ظاہر ہوں۔ جب یہ عملی نمونے ہم دکھانے شروع کر دیں گے اور دکھانے کے قابل ہو جائیں گے اور ہر شخص خواہ وہ کسی عمر کا ہو اور کسی پیشے سے تعلق رکھتا ہو، اپنے ماحول میں اس پاک تبدیلی کے ساتھ تبلیغ میں جت جائے گا تو تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔ اور احمدیت کے جھنڈے کو جلد از جلد دنیا میں گاڑ سکتے ہیں۔ ایک جگہ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں۔ کہ:’’ اپنے پائے اور اپنے طبقے کے لوگوں کو احمدی بنائیں۔ زمیندار زمیندار کو احمدی بنائیں، وکیل وکیل کو، ڈاکٹر ڈاکٹروں کو، انجینئر انجینئروں کو، پلیڈر پلیڈروں کو۔ اسی طرح چند سالوں میں ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کیا جا سکتا ہے کہ طوفان نوح بھی اس کے سامنے مات ہو جائے‘‘۔ (الفضل ۱۵ فروری ۱۹۲۹ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدمدینے کی کیا حالت ہو گئی، ہر ایک حالت میں تبدیلی ہے۔ پس اس تبدیلی کو مدنظر رکھو اور آخری وقت کو ہمیشہ یاد رکھو۔ آنے والی نسلیں آپ لوگوں کا منہ دیکھیں گی۔ اور اسی نمونے کو دیکھیں گی۔ اگر تم پورے طور پر اپنے آپ کو تعلیم کا حاصل نہ بناؤ گے تو گویا آنے والی نسلوں کو تباہ کرو گے۔ انسان کی فطرت میں نمونہ پرستی ہے۔ وہ نمونے سے بہت جلد سبق لیتا ہے۔ ایک شرابی اگر کہے کہ شراب نہ پیو ایک زانی کہے کہ زنا نہ کرو۔ ایک چور دوسرے کو کہے کہ چور ی نہ کرو تو ان نصیحتوں سے دوسرے کیا فائدہ اٹھائیں گے۔ بلکہ وہ تو کہیں گے کہ بڑا ہی خبیث ہے وہ جو خود کرتا ہے اور دوسروں کو اس سے منع کرتا ہے۔ جو لوگ خود ایک بدی میں مبتلاہو کر اسکا وعظ کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ دوسروں کو نصیحت کرنے والے اور خود عمل نہ کرنے والے بے ایمان ہوتے ہیں اور اپنے واقعات کو چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے واعظوں سے دنیا کوبہت بڑا نقصان پہنچتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۱۸۔ الحکم۳۱ جنوری ۱۹۰۴ء)

تو جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا خود کسی بدی میں مبتلا ہو کر دوسرے کو اس بدی سے کس طرح روک سکتے ہو۔ کسی کو کس طرح راستہ دکھا سکتے ہو اگر خود ہی اس راستے کو نہ دیکھا ہو۔ جس شخص کو بھی آپ نصیحت کر رہے ہوں وہ کہے گا پہلے اپنے آپ کو تو سنبھالو، اپنے گھر کی خبر لو، مجھے تم کہہ رہے ہو کہ ایک خدا کی عبادت کرو اور خود تمہارا یہ حال ہے کہ نمازوں کے اوقات میں مجلسیں لگا کر بیٹھے رہتے ہو یا اپنے دنیاوی دھندوں میں مشغول رہتے ہو، اللہ تعالیٰ کا حکم جو تم مجھے بتا رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرو، اس کا خیال رکھو اور تمہاری بیوی کا یہ حال ہے کہ دوسرے گھروں میں بتاتی پھرتی ہے کہ تم انتہائی ظالم خاوند ہو۔ اس پر دست درازی کرتے ہو، اس کو مارتے پیٹتے ہو۔ تم ایک ظالم سسر ہو، اپنی بہو پہ بھی ہاتھ اٹھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ وہ تمہیں کہے گا جس کو بھی تبلیغ کر رہے ہو کہ اپنی بیوی کو بھی سمجھاؤ، اپنے گھر کی بھی خبر لو کہ وہ بھی ان احکامات پر عمل کرے اور اپنی بہو سے حسن سلوک کرے۔ تم خود تو پہلے اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا کرو، تمہارے ہمسائے تو تم سے تنگ آئے پڑے ہیں۔ تم خود تو اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرو۔ تمہارے ماں باپ تو تم سے سخت نالاں ہیں، ناراض ہیں کہ تم بڑھاپے میں ان سے بدتمیزی سے پیش آتے ہو۔ تم اپنے کاروباری ساتھی کو جودھوکہ دے رہے ہو پہلے اس سے تو معاملہ صاف کرو۔ تم اپنے افسروں اور ماتحتوں کے جو حقوق دبائے بیٹھے ہو پہلے وہ تواد اکرو۔ جو زیر تبلیغ ہے پہلے یہ ہی کہے گا اگر اس کو آپ کا علم ہے کہ جب تم اپنے اندر سب تبدیلیاں پیدا کر لو گے تو پھر مجھے نصیحت کرنا، مجھے بھی اپنی جماعت کی خوبیاں بیان کرنا، مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا۔ ورنہ تم خود اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق، قرآن کی تعلیم کے مطابق گنہگار ہو، مجھے کیا راستہ دکھاؤ گے۔

پس استغفار کا مقام ہے، بہت زیادہ استغفار کا مقام ہے۔ جو کوتاہیاں اور غلطیاں ہم سے ہو چکی ہیں ان کی اللہ سے معافی مانگیں۔ اس کے سامنے جھکیں یہ عہد کریں کہ ہم سے جو ظلم ہوئے ان سے محض اور محض رحم فرماتے ہوئے صرف نظر فرما اور آئندہ ہمیں توفیق دے کہ ہم تیرے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں اور ہم تیرے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں اور جو کام تو نے ہمارے سپرد کئے ہیں ان کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں۔ یاد رکھیں کہ ذاتی نمونے کی طرف لوگوں کی بہت توجہ ہوتی ہے، بہت نظر ہوتی ہے۔ کئی واقعات ایسے ہیں۔ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ وہ احمدیت کے بہت قریب تھا، بیعت کرنے کے بہت قریب تھا، لیکن اس کے ایک احمدی عزیز نے اس سے ایک بہت بڑا دھوکہ کیا جس کی وجہ سے وہ باوجود جماعت کو اچھا سمجھنے کے احمدیت قبول کرنے سے انکاری ہو گیا۔ توبہرحال یہ تو اس کی بدقسمتی تھی، شامت اعمال تھی جس کی وجہ سے اس کو موقع نہیں ملا۔ لیکن اس احمدی کا نام بھی اس کی اس بدی کے ساتھ لگ گیا۔ اس لئے اس حدیث کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہدایت کی طرف بلاؤ اور ہدایت کی طرف بلانے والے کا اجر سرخ اونٹوں کے حاصل کرنے سے زیادہ ہے۔ دینی اور دنیاوی انعامات سے اللہ تعالیٰ نوازتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خداتعالیٰ کی عظمت کو مدنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں۔ نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔ جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق ہو یا حقوق العباد کے متعلق ہو بچو‘‘۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۲۱، ۲۲۲ ۲۴اپریل ۱۹۰۳ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ عہد بیعت کو نبھانے والے بنیں۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر بھی لاگو کریں اور دنیا کو پہنچانے والے بھی ہوں۔ او رجلد سے جلد اسلام کا غلبہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ آمین


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 4؍ جون 2004ء شہ سرخیاں

    ہر احمدی اپنے لئے فرض کر لے کہ اس نے سال میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ایک یا دو ہفتے تک اس کام کے لئے وقف کرنا ہے

    ٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذوق و شوق تبلیغ

    ٭…آج کا جہاد۔ دین کی راہ میں حال اور وقت قربان کرنا

    ٭…عمر بڑھانے کا نسخہ۔ خلوص اور وفاداری کے ساتھ خدمتِ دین میں لگ جائیں۔

    ۴؍جون۲۰۰۴ء بمطابق۴؍احسان ۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام نن سپیٹ۔ ہالینڈ

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور