قرآن مجید اور احادیث نبویہ کو سمجھنے کے لئے خود بھی صادق بنو
خطبہ جمعہ 11؍ جون 2004ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ}(سورۃ توبہ: 119)
ترجمہ :اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
اللہ تعالیٰ جب بھی انبیاء مبعوث فرماتا ہے تو اس کے ماننے والے، اس پر ایمان لانے والے، تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور ان کے تقویٰ کا اعلیٰ معیار اس لئے قائم ہو رہا ہوتا ہے، اس کا اظہار اس لئے ہو رہا ہوتا ہے، دنیا کو نظر آ رہا ہوتا ہے(ان کی اپنی طرف سے نہیں ہوتا دنیا کو نظر آتا ہے) اور ان کے اندر یہ تبدیلی اس لئے نظر آ رہی ہوتی ہے کہ انہوں نے اس قرب کی و جہ سے جو ان کو نبی سے ہے اللہ کی مدد اور فضل سے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ خود بھی اس سچی پیروی کی و جہ سے، اس سچے ایمان کی و جہ سے، اپنے اندر تقویٰ قائم ہونے کی و جہ سے، اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی و جہ سے، صادقوں میں شامل ہو گئے ہوتے ہیں۔ اور پھر آگے بہت سوں کی رہنمائی کا باعث بنتے ہیں، بن رہے ہوتے ہیں، تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایاہے یہ فیض رک نہیں جاتا بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ ورنہ تو اس آیت میں جو حکم ہے کہ{کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ} اس کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ عمل رکنے والا ہو تو یہ حکم تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ پھر تو لوگ پوچھتے کہ وہ کون ہیں صادق، وہ کہاں ہیں جن کے ساتھ ہم نے ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے۔
تو یہ معرفت کی باتیں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ؑ کے ذریعے سے ہی پتہ لگی ہیں۔ آپ کی قوت قدسی نے صادقین کی ایک فوج تیار کی جو روحانیت میں اتنی ترقی کر گئی کہ ان کو صحابہ کا مقام حاصل ہو گیا۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی جماعت میں رہ کر آپ کے قرآنی علوم و معارف سے فیضیاب ہو کر ہی صادقین میں شمار ہو سکتا ہے۔ تو جہاں اس آیت میں ایمان لانے والوں کو، تقویٰ کی راہوں پر چلنے والوں کو، یہ حکم ہے کہ تم صادقوں کے ساتھ رہو وہاں ہمیں یہ بھی حکم ہے جس کی و جہ سے ہمیں ایک فکر پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ خود بھی صادق بنو۔ اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہو گئے ہو تو اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرو۔ خود بھی دوسروں کے لئے رہنمائی کا باعث بنو، ورنہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق صادق تو پیدا ہوتے رہیں گے، لیکن یہ نہ ہو کہ ہم تعلیم سے دُور ہٹ کر گمراہی کے گڑھے میں گرتے چلے جائیں اور صادقین کی ایک اور جماعت آجائے جو لوگوں کی رہنمائی کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تو دنیا کوہدایت پر قائم رکھنے کے لئے اپنے نیک بندوں کو بھیجتے رہنا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہیں۔ اس سے دعا مانگتے رہیں کہ ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جو صادقین کے ساتھ جڑنے والے، جڑے رہنے والے ہوں۔ امام الزمان کے ساتھ جڑے رہنے والے ہوں، اس کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے والے ہوں اور اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے والے ہوں اور لوگوں کی رہنمائی کا باعث بھی بنیں۔ یہ نہ ہو کہ ہم دنیا کی طرف جھکتے ہی چلے جائیں اور آہستہ آہستہ دین سے اس قدر دور چلے جائیں کہ شیطان ہم پر حملہ آور ہو جائے۔ اور شیطان تو شروع میں بڑے سبز باغ دکھاتا ہے جب حملہ کرتا ہے اور بعد میں چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے ہمیشہ زندگی میں پھونک پھونک کر قدم مارنا چاہئے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا چاہئے، اس سے دعائیں مانگتے رہنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ{یٰوَیۡلَتٰی لَیۡتَنِیۡ لَمۡ اَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِیۡلًا۔لَقَدۡ اَضَلَّنِیۡ عَنِ الذِّکۡرِ بَعۡدَ اِذۡ جَآءَنِیۡ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِلۡاِنۡسَانِ خَذُوۡلًا}۔ (سورۃ الفرقان آیت:30-29) کہ اے وائے ہلاکت کاش میں فلاں شخص کو پیارا دوست نہ بناتا اس نے یقینا مجھے اللہ کے ذکر سے منحرف کر دیا بعد اس کے کہ وہ میرے پاس آیا اور شیطان تو انسان کو بے یارو مدد گار چھوڑجانے والا ہے۔
پس شیطان سے بچنے کیلئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے۔ اپنی روحانیت کو بڑھانے کی طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے اور اس زمانے میں جو صحیح طریقے ہمیں دین کو سمجھنے کے لئے بتائے وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی بتائے ہیں۔ اس لئے آپؑ کی کتب پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے۔ یہ بات بھی صحبت صادقین کے زمرے میں آتی ہے کہ آپؑ کے علم کلام سے فائدہ اٹھایا جائے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان تباہیوں کے اسباب اور بواعث کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے گندے جلیسوں کی و جہ سے تباہی کے گڑھے میں گرا کرتا ہے۔ وہ پہلے تواپنے دوستوں کی مصاحبت پر فخر کرتا ہے مگر جب اسے کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ{لَیْتَنِیْ لَمْ اَ تَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا}اکہ اے کاش میں فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا اس نے تو مجھے گمراہ کردیا۔ اسی و جہ سے قرآن کریم نے مومنوں کو خاص طور پر نصیحت فرمائی ہے کہ {کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ}(توبہ:۱۱۹)یعنی اے مومنو! تم ہمیشہ صادقوں کی معیت اختیار کیا کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گردوپیش کی اشیاء سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر وہ اپنی دوستی اور ہم نشینی کے لئے ان لوگوں کا انتخاب کرے گا جو اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوں گے اور جن کا مطمح نظر بلند ہو گا تو لازماً وہ بھی اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور رفتہ رفتہ اس کی یہ کوشش اس کے قدم کو اخلاقی بلندیوں کی طرف بڑھانے والی ثابت ہوگی۔ لیکن اگر وہ برے ساتھیوں کا انتخاب کرے گا تو وہ اسے کبھی راہ راست کی طرف نہیں لے جائیں گے۔ بلکہ اسے اخلاقی پستی میں دھکیلنے والے ثابت ہوں گے۔
اس کے بعد پھر حضرت مصلح موعود ؓ نے مثال بیان فرمائی ہے کہ ایک سکھ طالبعلم تھا جس کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑی عقیدت تھی۔ تو اس نے آپؑ کو لکھا کہ پہلے تو مجھے خدا کی ہستی پر بڑا یقین تھا لیکن اب مجھے کچھ کچھ شکوک و شبہات پیدا ہونے لگ گئے ہیں۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو جواب دیا کہ تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی دہریت کے خیالات رکھتا ہے جس کا تم پہ اثر پڑ رہا ہے، اس لئے اپنی جگہ بدل لو۔ چنانچہ اس نے اپنی سیٹ بدل لی اور خودبخود اس کی اصلاح ہوگئی۔ فرماتے ہیں کہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان پر کتنا برا اثر پڑتا ہے۔ یعنی یہی حکمت ہے جس کے ماتحت رسول کریمﷺ جس کسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے تو بڑی کثرت سے استغفار فرمایا کرتے تھے تاکہ کوئی بری تحریک آپؐ کے قلبِ مُطہّر پر اثر انداز نہ ہو‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۴۸۱، ۴۸۲)
تو دیکھیں آنحضرتﷺ بھی استغفار اس کثرت سے پڑھتے تھے۔
پھر ایک حدیث میں روایت ہے اور بہت اہم ہے جس کی طرف والدین کو بھی توجہ دینی چاہئے اور ایسے نوجوانوں کو بھی جو نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ:’’ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے‘‘۔ یعنی دوست کے اخلاق کا اثر انسان پر ہوتا ہے۔ ’’ اس لئے اسے غور کرنا چاہئے کہ وہ کسے دوست بنا رہا ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الادب۔ باب من یومر ان مجالس)
تو والدین کو بھی نگرانی رکھنی چاہئے اور یہ نگرانی سختی سے نہیں رکھنی چاہئے۔ بلکہ بچوں سے بے تکلف ہوں، کئی دفعہ پہلے بھی میں اس بارے میں کہہ چکا ہوں۔ اکثر کہتا رہتا ہوں کہ اس مغربی معاشرے میں بلکہ آجکل تو مغرب کا اثر، دجالی قوتوں کا اثر، شیطان کے حملوں کا اثر، رابطوں میں آسانی یا سہولت کی وجہ سے ہر جگہ ہو چکا ہے، تو میں یہ کہہ رہا ہوں شیطان کے ان حملوں کا مقابلہ کر نے کے لئے والدین کو اپنے بچوں سے ایک دوستانہ ماحول پیدا کرنا ہوگا اور پیدا کرنا چاہئے خاص طور پر ان ملکوں میں جو نئے آنے والے ہوتے ہیں۔ وہ شروع میں تو نرمی دکھاتے ہیں اس کے بعد زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ وہ تصور نہیں ہے کہ بچوں سے بھی دوستی پیدا کی جاسکتی ہے تو ان کو پھر یہ احساس دلانا چاہئے یہ ماحول پیدا کرکے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ بچے کو بچپن سے پتہ لگے پھر جوانی میں پتہ لگے۔ ایک عمر میں آکے والدین خود بچوں سے باتیں کرتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ ان کو دین کی طرف لانے کے لئے، دین کی اہمیت ان کے دلوں میں پیدا کرنے کے لئے انہیں خدا سے ایک تعلق پیدا کروانا ہوگا۔ اس کیلئے والدین کو دعاؤں کے ساتھ ساتھ بڑی کوشش کرنی چاہئے۔ اور اس وقت تک یہ کام نہیں ہوگا جب تک والدین کا شمار خود صادقوں میں نہ ہو۔
پھر یہ بھی نظر رکھنی چاہئے کہ بچوں کے دوست کون ہیں بچوں کے دوستوں کا بھی پتہ ہونا چاہئے۔ یہ مثال تو ابھی آپ نے سن ہی لی۔ اس سیٹ پر بیٹھنے کی وجہ سے ہی صرف اس طالبعلم پر دہریت کا اثر ہو رہا تھا۔ لیکن یہ مثالیں کئی دفعہ پیش کرنے کے باوجود، کئی دفعہ سمجھانے کے باوجود، ابھی بھی والدین کی یہ شکایات ملتی رہتی ہیں کہ انہوں نے سختی کرکے یا پھر بالکل دوسری طرف جا کر غلط حمایت کرکے بچوں کو بگاڑ دیا۔ ایک بچہ جو پندرہ سولہ سال کی عمر تک بڑا اچھا ہوتا ہے جماعت سے بھی تعلق ہوتا ہے، نظام سے بھی تعلق ہوتا ہے، اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں بھی حصّہ لے رہا ہوتا ہے۔ جب وہ پندرہ سولہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو پھر ایک دم پیچھے ہٹنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ہٹتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایسی بھی شکایتیں آئیں کہ ایسے بچے ماں باپ سے بھی علیحدہ ہوگئے۔ اور پھر بعض بچیاں بھی اس طرح ضائع ہو جاتی ہیں۔ جن کا بہر حال افسوس ہوتا ہے۔ تو اگر والدین شروع سے ہی اس بات کا خیال رکھیں تو یہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ پھر بچوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے دوست سوچ سمجھ کر بناؤ۔ یہ نہ سمجھو کہ والدین تمہارے دشمن ہیں یا کسی سے روک رہے ہیں بلکہ سولہ سترہ سال کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ خود ہوش کرنی چاہئے، دیکھنا چاہئے کہ ہمارے جو دوست ہیں بگاڑنے والے تو نہیں، اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے تو نہیں ہیں۔ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہیں وہ تمہارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ تمہارے ہمدرد نہیں ہو سکتے، تمہارے سچے دوست نہیں ہو سکتے۔ اور ایک احمدی بچے کو تو کیونکہ صادقوں کی صحبت سے فائدہ اٹھانا ہے اس لئے یاد رکھیں کہ یہ گروہ شیطان کاگروہ ہے صادقوں کا گروہ نہیں اس لئے ایسے لوگوں میں بیٹھ کے اپنی بدنامی کا باعث نہ بنیں، ایسے بچوں یا نوجوانوں سے دوستی لگا کے اپنے خاندان کی بدنامی کا باعث نہ بنیں اور ہمیشہ نظام سے تعلق رکھیں۔ نظام جو بھی آپ کو سمجھاتا ہے آپ کی بہتری اور بھلائی کیلئے سمجھاتا ہے۔ نمازوں کی طرف توجہ دیں۔ قرآن پڑھنے کی طرف توجہ دیں اللہ تعالیٰ ہمارے ہر بچے کو ہر شیطانی حملے سے بچائے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ:’’ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دوشخصوں کی طرح ہے جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو۔ کستوری اٹھانے والا تجھے مفت خوشبو دے گا یا توُ اس سے خرید لے گا۔ ورنہ کم ازکم تو اس کی خوشبو اور مہک سونگھ ہی لے گا۔ اور بھٹی جھونکنے والا یا تیرے کپڑوں کو جلادے گا یا اس کا بدبودار دھواں تجھے تنگ کرے گا‘‘۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب استحباب مجالسۃ الصالحین)
تو اللہ تعالیٰ ہم سب کو کستوری کی خوشبو بانٹنے والا بنائے اور ہمارے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہوں جو نہ صرف ہمیں فائدہ پہنچا رہی ہوں بلکہ لوگ بھی ہم سے فائد ہ اٹھا رہے ہوں۔ پس اس کے لئے بہت مجاہدے کی ضرورت ہے۔ اپنی نسلوں کو بچانے کیلئے بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ صحبت میں بڑا شرف ہے۔ اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا ہی دیتی ہے۔ کسی کے پاس اگر خوشبو ہو تو پاس والے کو بھی پہنچ ہی جاتی ہے۔ اسی طرح پرصادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے‘‘۔ یعنی صادقوں کی صحبت بھی سچائی کی روح پھونکتی ہے۔ وہ روح پیدا کرتی ہے۔ فرمایا کہ:’’ میں سچ کہتا ہوں کہ گہری صحبت نبی اور صاحب نبی کو ایک کردیتی ہے‘‘۔ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں اگر صحیح تعلق ہو تو روحانیت کا مقام جو نبی کو ملتا ہے اس جیسا ہی مقام سچے طورپر ماننے والے کو بھی مل جاتا ہے۔ تو فرمایا :’’یہی وجہ ہے جو قرآن شریف میں {کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ}(التوبۃ: ۹۱۱) فرمایا ہے۔ اور اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہر زمانے میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں ‘‘۔ (الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍جنور ی۱۹۰۶ء صفحہ ۵۔ ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۶۰۹)
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا(یہ ایک لمبی حدیث ہے اس کا کچھ حصّہ پڑھتا ہوں ) کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور انہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے۔ جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ ساری فضا ان کے اس سایہ برکت سے معمور ہو جاتی ہے۔ جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ لمبا سوال جواب ہے کہ کیا مانگتے ہیں ؟ جنت مانگتے ہیں، پناہ چاہتے ہیں۔ بخشش چاہتے ہیں۔ تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان کو پتہ ہو کہ میری پناہ کیا ہے اور یہ سب کچھ، تو ان کا کیا حال ہوگا؟ اور پھر فرماتا ہے کہ اچھا اگر وہ میری بخشش چاہتے ہیں، بخشش طلب کرتے ہیں تومَیں نے انہیں بخش دیا اور انہیں سب کچھ وہ دے دیا جو انہوں نے مجھ سے مانگا۔ تو فرشتے اس پہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ان میں فلاں خطاکار شخص بھی تھا۔ وہ وہاں سے گزرا اور انہیں ذکر کرتے دیکھ کر یونہی ان میں بیٹھ گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اس کو بھی بخش دیا۔ کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بدبخت نہیں رہتا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ جب انسان ایک راستباز اور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے۔ لیکن جو راستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کرتی جاتی ہے۔ اسی لئے احادیث اور قرآن شریف میں صحبت بد سے پرہیز کرنے کی تاکید اور تہدید پائی جاتی ہے۔ اور لکھا ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اہانت ہوتی ہو اس مجلس سے فی الفور اٹھ جاؤ۔ ورنہ جو اہانت سن کر نہیں اٹھتا اس کا شمار بھی ان میں ہی ہو گا۔ صادقوں اور راستبازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہو تا ہے اس لئے کس قدر ضرورت ہے اس امر کی کہ انسان {کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ} کے پاک ارشاد پر عمل کرے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذکرکررہے تھے مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی ان میں ہی سے ہے کیونکہ اِنَّھُمْ قَوْمٌ لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کی صحبت سے کس قدر فائدے ہیں۔ سخت بد نصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور ہے‘‘۔
فرمایا:’’غرض نفس مطمئنہ کی تاثیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں امّارہ والے میں نفس امّارہ کی تاثیریں ہوتی ہیں۔ اور لوّامہ والے میں لوّامہ کی تاثیریں ہوتی ہیں۔ اور جو شخص نفس مطمئنہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے‘‘۔ (الحکم جلد ۸نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱)
پھر آپ ؑ نے فرمایا:’’ اصلاح نفس کی ایک راہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے{کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ}۔ یعنی جو لوگ قولی فعلی عملی اور حالی رنگ میں سچائی پر قائم ہیں ‘‘۔ یعنی با تیں بھی، ان کے عمل بھی اور ان کی ہر حرکت بھی ایسی ہو اور ان کا حال بھی یہ ظاہر کر رہا ہو کہ وہ سچائی پر قائم ہیں ’’ان کے ساتھ رہو۔ اس سے پہلے فرمایا {یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ} یعنی اے ایمان والو تقویٰ اللہ اختیار کرو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پہلے ایمان ہو پھر سنت کے طور پر بدی کی جگہ کو چھوڑ دے اور صادقوں کی صحبت میں رہے۔ صحبت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جو اندر ہی اندر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ہر روز کنجریوں کے ہاں جاتا ہے اور پھر کہتاہے کہ کیا میں زنا کرتا ہوں۔ اس سے کہنا چاہئے کہ ہاں تو کرے گا اور وہ ایک نہ ایک دن اس میں مبتلا ہو جاوے گا کیونکہ صحبت میں تاثیر ہوتی ہے۔ اسی طرح پر جو شخص شراب خانے میں جاتا ہے۔ خواہ وہ کتنا ہی پرہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں۔ لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ ضرور پئے گا۔ پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ صحبت میں بہت بڑی تاثیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصلاح نفس کیلئے {کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ} کا حکم دیا ہے۔ جو شخص نیک صحبت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت ہی کے رنگ میں ہو لیکن وہ صحبت اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے گی اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز آجائے گا‘‘۔ (الحکم جلد۸ نمبر ۱ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۴)
تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ ایسی گندی جگہوں پر جا کر اگر پھر کوئی کہتا ہے میں کون سا یہ کام کر رہا ہوں۔ شراب خانے میں جاکر اگر کہے کہ مَیں کون سی شراب پی رہا ہوں تو فرمایا کہ ایک دن وہ اس ماحول کے زیر اثر آجائے گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ پینا شروع کردے۔ اس لئے حدیث میں بھی آیا ہے شراب کی ہر قسم کی مناہی کی گئی ہے پلانے کیلئے بھی اور بنانے والے کیلئے بھی اور کشید کرنے کیلئے بھی سب کچھ۔ کچھ سال پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا تھا کہ جو یہاں آکے ایسے ریسٹورنٹ میں کام کرتے ہیں جہاں شراب وغیرہ بیچی جاتی ہے تو اس کام کو ختم کریں اور ملازمتوں کو چھوڑیں اور اس کا جماعت کی طرف سے بڑا اچھا رسپانس تھا اور تقریباً سب نے ہی ایسی ملازمتیں یا ایسے کارو بار چھوڑ دیئے۔ لیکن سؤر کے گوشت کھانے پر بھی قرآن شریف میں مناہی ہے۔ ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جو ایسے ریسٹورنٹس میں کام کرتے ہیں جہاں برگر بناتے ہیں یا برگر Serve کرتے ہیں۔ تو کہتے یہی ہیں کہ ہم کون سا استعمال کررہے ہیں لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بعض دفعہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ پھر انسان ان چیزوں سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہو جاتا ہے۔ اور یہ نہ ہو کسی دن وہ برگر استعمال بھی ہو جائے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی بچت کرلی جائے۔ اور ایسی نوکریوں کو چھوڑ دینا چاہئے۔ کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں صاف ستھرا کام ہوتا ہے وہاں نوکریاں مل سکتی ہیں، ملازمتیں مل سکتی ہیں، تلاش کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ برکت پڑے گی۔ اور یہ اصلاح نفس کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ دو چیزیں ہیں ایک تو دعا کرنی چاہئے اور دوسرا طریق یہ ہے کہ {کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ} راستبازوں کی صحبت میں رہو تاکہ ان کی صحبت میں رہ کر تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہاراخدا قادر ہے، بینا ہے، دیکھنے والا ہے، سننے والا ہے، دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو صدہا نعمتیں دیتا ہے‘‘۔ (البدر۔ جلد نمبر ۲ نمبر ۲۸۔ مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۳ء۔ صفحہ۱)
اس زمانے میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ دعاؤں کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود کی تفاسیر اور علم کلام سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اگر قرآن کو سمجھنا ہے یا احادیث کو سمجھنا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ یہ تو بڑی نعمت ہے ان لوگوں کیلئے جن کو اردو پڑھنی آتی ہے کہ تمام کتابیں اردو میں ہیں۔ اکثریت اردو میں ہیں، چند ایک عربی میں بھی ہیں۔ پھر جو پڑھے لکھے نہیں ان کیلئے مسجدوں میں درسوں کا انتظام موجود ہے ان میں بیٹھنا چاہئے اور درس سننا چاہئے۔ پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اور ایم ٹی اے والوں کو بھی مختلف ملکوں میں زیادہ سے زیادہ اپنے پروگراموں میں یہ پروگرام بھی شامل کرنے چاہئیں جن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات کے تراجم بھی ان کی زبانوں میں پیش ہوں۔ جہاں جہاں تو ہو چکے ہیں اور تسلی بخش تراجم ہیں وہ تو بہر حال پیش ہو سکتے ہیں۔ اور اسی طرح اُردو دان طبقہ جو ہے، ملک جو ہیں، وہاں سے اردو کے پروگرام بن کے آنے چاہئیں۔ جس میں زیادہ سے زیادہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس کلام کے معرفت کے نکات دنیا کو نظر آئیں اور ہمار ی بھی اور دوسروں کی بھی ہدایت کا موجب بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جوبے انتہا لوگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق مل رہی ہے، کروڑوں میں احمدیت داخل ہو چکی ہے ان کی تربیت کیلئے بھی ضروری ہے کہ ان تک بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ پہنچانے کی کوشش کی جائے اور یہ چیز تربیت کے لحاظ سے بڑی فائدہ مند ہوگی۔ تربیت کے شعبوں کیلئے بھی بہت فائدہ مند ہوگی۔ پس دعاؤں کے ساتھ اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور جماعت کو ہر ملک میں جہاں جہاں شعبہ تربیت ہیں ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ دیکھو ایک زمانہ وہ تھاکہ آنحضرتﷺ تن تنہا تھے مگر لوگ حقیقی تقویٰ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے حالانکہ اب اس وقت لاکھوں مولوی اور واعظ موجود ہیں لیکن چونکہ دیانت نہیں، وہ روحانیت نہیں، اس لئے وہ اثر اندازی بھی ان کے اندر نہیں ہے۔ انسان کے اندر جو زہریلا مواد ہوتا ہے وہ ظاہری قیل وقال سے دور نہیں ہوتا اس کے لئے صحبت صالحین اور ان کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے فیضیافتہ ہونے کیلئے ان کے ہمرنگ ہونا اور جو عقائد صحیحہ خدا نے ان کو سمجھائے ہیں ان کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۴۴۶۔ البدر ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۰۳)
چنانچہ دیکھ لیں آج کل اخبار ان باتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ بہت سے کالم نویس لکھتے ہیں ہماری مساجد بھی موجود ہیں۔ آذان کی آواز سن کر ان مساجد کی طرف جانے والے بھی لائنوں میں گروہ در گروہ جارہے ہوتے ہیں، آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں، حج پر بھی جاتے ہیں، صدقہ خیرات بھی بہت لوگ کرتے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری ان تما م نیکیوں کا نتیجہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ اور امت مسلمہ ہر طرف سے خطرات میں گھرتی چلی جارہی ہے۔ تو ان کو پتہ تو ہے کہ کیا وجہ ہے۔ لیکن جو شخص دنیا کی اس زمانے میں اصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھا ہے جو رسول اللہﷺ کا عاشق صادق ہے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ ظاہر ی طور پر تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ادائیگی ہو رہی ہے لیکن اندرونی طور پر ہر رکن اسلام پر عمل کرکے دنیا دکھاوے کی خاطر اس کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ اپنے دنیاوی فائدے اس سے حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ عبادات ہیں تو وہ اظہار کے طور پہ ہیں۔ حج ہے تو وہ اظہار کے طور پر ہے۔ صدقہ و خیرات ہے تو وہ اظہار کے طور پر ہورہا ہے۔ غرض کہ ہر بات میں دنیا کی ملونی نظر آتی ہے۔ تو جب دنیا کی ملونی ہو گئی اور زمانے کے امام کی مخالفت بھی انتہاء کو ہوگئی بلکہ اس کے ماننے والوں کو نقصان پہنچانا ثواب کا کام سمجھنے لگ گئے تو پھر اللہ تعالیٰ کا تو یہی سلوک ہے ایسے لوگوں سے اور یہی ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل اور سمجھ دے جو اپنے ایسے علماء کے پیچھے چل پڑے ہیں جن کا کوئی عمل نہیں۔ ان کے دماغوں میں بھی یہ ہدایت کی بات آئے کہ اب اگر کچھ حاصل کرنا ہے اور اپنی اس گرتی ہوئی عظمت کو بحال کرنا ہے تو یہ سب کچھ صحبت صادقین سے ہی ہو گا اور اس زمانے کے امام اور آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہونے سے ہی ہوگا۔ ورنہ تو پھر یہ لڑائی جھگڑے، ماردھاڑ اور یہ سب ذلت و رسوائی جو ہے یہ سب ان کا مقدر ہے۔ اور پھر آخر کو یہی کہو گے کہ کاش ہم شیطان کے بہکاوے میں نہ آتے۔
پس ہم احمدیوں کا بھی حقیقی معنوں میں یہ فرض بنتا ہے کہ حقیقی معنوں میں صدق پر قائم ہوں اور یہ بات ہمیں بھی اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم امت مسلمہ کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ قرآن شریف میں آیا ہے۔ {قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا}(الشمس:۱۰) اس سے اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔ تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین اور نیکوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت مفید ہے جھوٹ وغیرہ اخلاق رذیلہ دور ہونے چاہئیں۔ اور جو راہ پر چل رہا ہے اس سے راستہ پوچھنا چاہئے۔ اپنی غلطیوں کو ساتھ ساتھ درست کرنا چاہئے جیسا کہ غلطیاں نکالنے کے بغیر املاء درست نہیں ہوتا۔ ویسا ہی غلطیاں نکالنے کے بغیر اخلاق بھی درست نہیں ہوتے۔ آدمی ایسا جانور ہے کہ اس کا تزکیہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے تو سیدھی راہ پر چلتا ہے ورنہ بہک جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۰۹۔ بدر ۵ اکتوبر ۱۹۱۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ رکھے اور کبھی شیطان ہم پر حملہ آور نہ ہوسکے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’ لوگ تلاش کرتے ہیں کہ ہمیں حقیقت ملے لیکن یہ بات جلد بازی سے حاصل نہیں ہوا کرتی جب انسان کی روح پگھل کر آستانہ الوہیت پر گرتی ہے اور اس کو اپنا اصلی مقصود خیال کرتی ہے۔ تب اس کیلئے حقیقت کا دروازہ بھی کھولا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور صحبت صادقین سے ہی باتیں حاصل ہو اکرتی ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۳۴۶، ۳۴۷ الحکم ۱۰ نومبر ۱۹۰۷ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے، اس انعام کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل کرکے عطا فرمایا ہے۔ سچے دل سے آپ ؑ کے تمام دعاوی پر ایمان لانے والے ہوں اور اپنے ایمانوں کو بھی مضبوط کرنے والے ہوں اور صادق کے ساتھ جڑ کر اپنے آپ کو بھی صادق ہونے کے قابل بنائیں اور اپنی نسلوں کو بھی ایک فکر کے ساتھ اس کے ساتھ جوڑے رکھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔
اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہو گئے ہو تو اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کرو
٭…والدین اپنے بچوں سے بے تکلف ہو کر دوستانہ ماحول پیدا کریں
٭…صحبت کا اثر …اور اس کی اہمیت
٭…دعاؤں کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کی تفاسیر اور علم کلام سے فائدہ اٹھانا چاہئے
٭…ایم۔ ٹی۔ اے سے استفادہ اور ایم۔ ٹی۔ اے والوں کے لئے پروگراموں کی راہنمائی
۱۱؍ جون۲۰۰۴ء بمطابق۱۱؍احسان ۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔