بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر نظر رکھے

خطبہ جمعہ 2؍ جولائی 2004ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

{وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا}(سورۃ الفرقان آیت نمبر75)

اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم کو اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کے قویٰ کو جسمانی لحاظ سے مضبوط بنایا ہے اس لئے اس کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی عورت سے زیادہ ہیں۔ اس سے ادائیگی حقوق کی زیادہ توقع کی جاتی ہے۔ عبادات میں بھی اس کو عورت کی نسبت زیادہ مواقع مہیا کئے گئے ہیں۔ اور اس لئے اس کو گھر کے سربراہ کی حیثیت بھی حاصل ہے اور اسی وجہ سے اس پر بحیثیت خاوند بھی بعض اہم ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں۔ اور اسی وجہ سے بحیثیت باپ اس پر ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں۔ اور بہت ساری ذمہ داریاں ہیں، چند ایک کا میں یہاں ذکر کروں گا۔ اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے حکم دیا کہ تم نیکیوں پر قائم ہو، تقویٰ پر قائم ہو، اور اپنے گھر والوں کو، اپنی بیویوں کو، اپنی اولاد کو تقویٰ پر قائم رکھنے کے لئے نمونہ بنو۔ اور اس کے لئے اپنے رب سے مدد مانگو، اس کے آگے روؤ، گڑ گڑاؤ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے اللہ! ان راستوں پر ہمیشہ چلاتا رہ جو تیری رضا کے راستے ہیں، کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہم بحیثیت گھر کے سربراہ کے، ایک خاوند کے اور ایک باپ کے، اپنے حقوق ادا نہ کر سکیں اور اس وجہ سے تیری ناراضگی کا موجب بنیں۔ تو جب انسان سچے دل سے یہ دعا مانگے اور اپنے عمل سے بھی اس معیار کوحاصل کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ نہ ایسے گھروں کو برباد کرتا ہے، نہ ایسے خاوندوں کی بیویاں ان کے لئے دکھ کا باعث بنتی ہیں اور نہ ان کی اولاد ان کی بدنامی کا موجب بنتی ہے۔ اور اس طرح گھر جنت کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔

حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ معیار حاصل کرنے کے لئے کیا نمونے دئیے ہیں اور کیانصائح فرمائی ہیں۔ اس کی کچھ مثالیں میں اس وقت یہاں پیش کروں گا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ امام نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ اور مرد اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاتھا کہ مرد اپنے والد کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری کتاب الجمعۃ۔ باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن)

تو اس روایت میں مختلف طبقوں کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ اپنے اپنے ماحول میں نگران ہیں لیکن اس وقت میں کیونکہ مردوں کے بارے میں ذکر کر رہا ہوں اس لئے اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں۔ عموماً اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ مرد کہتے ہیں کیونکہ ہم پر باہر کی ذمہ داریاں ہیں، ہم کیونکہ اپنے کاروبار میں اپنی ملازمتوں میں مصروف ہیں اس لئے گھر کی طرف توجہ نہیں دے سکتے اور بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری عورت کا کام ہے۔ تو یاد رکھیں کہ بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں، ویک اینڈ ز پر جو ہوتے ہیں۔ انہیں مسجد سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تاکہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح آپ کے ساتھ بانٹ سکیں۔ بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھیں، ان کے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پھر ایک سربراہ کی حیثیت آپ کومل سکتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی جگہ کے سربراہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سربراہ نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔ یہ قابل فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اور اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔ مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے مستقلاً اپنا یہ معمول بنا لیا ہے، یہ روٹین بنا لی ہے کہ اپنے گردو پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے۔ اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ معیار حاصل کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو۔

جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عبداللہ! جو مجھے بتایا گیا ہے کیا یہ درست ہے کہ تم دن بھر روزے رکھے رہتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو یعنی نمازیں پڑھتے رہتے ہو، اس پر میں نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ۔ تو پھر آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو کبھی روزہ رکھو کبھی چھوڑ دو، رات کو قیام کرو اور سو بھی جایا کرو۔ کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری زیارت کو آنے والے کا بھی تم پر حق ہے۔ (بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم)

تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر کے سربراہ کی حیثیت سے گھر والوں کے حقوق کس طرح ادا کیا کرتے تھے اس بارے میں حضرت اسودؓ کی روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر کیا کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا وہ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان من کان فی حاجۃ اھلہ)

تو آپؐ سے زیادہ مصروف اور آپ ؐ سے زیادہ عبادت گزار کون ہو سکتا ہے۔ لیکن دیکھیں آپؐ کا اسوہ کیا ہے کتنی زیادہ گھریلو معاملات میں دلچسپی ہے کہ گھر کے کام کاج بھی کر رہے ہیں اور دوسری مصروفیات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ’’ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے‘‘ اور فرمایا کہ’’ میں تم سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں ‘‘۔ (ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبیﷺ )

ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم اس خوبصورت نمونہ پر، اس اسوہ پر عمل کرتے ہیں ؟ بعض ایسی شکایات بھی آتی ہیں کہ ایک شخص گھر میں کرسی پہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، پیاس لگی تو بیوی کو آواز دی کہ فریج میں سے پانی یا جوس نکال کر مجھے پلا دو۔ حالانکہ قریب ہی فریج پڑا ہوا ہے خود نکال کر پی سکتے ہیں۔ اور اگر بیوی بیچاری اپنے کام کی وجہ سے یا مصروفیت کی وجہ سے یا کسی وجہ سے لیٹ ہو گئی تو پھر اس پر گرجنا، برسنا شروع کر دیا۔ تو ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور دوسری طرف عمل کیا ہے، ادنیٰ سے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرتے۔ اور کئی ایسی مثالیں آتی ہیں جو پوچھو تو جواب ہوتا ہے کہ ہمیں تو قرآن میں اجازت ہے عورت کو سرزنش کرنے کی۔ تو واضح ہو کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی ایسی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح آپ اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے قرآن کو بدنام نہ کریں۔ گھریلو زندگی کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ صدیقہ کی گواہی یہ ہے کہ نبی کریمؐ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم، عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے، آپ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی، ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ نیز آپ ؓ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا یا نہ کبھی خادم کو مارا‘‘۔ خادم کو بھی کبھی کچھ نہیں کہا۔ (شمائل ترمذی باب ما جاء فی خلق رسول اللہﷺ )

آج کل دیکھیں ذرا ذراسی بات پر عورت پر ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے حالانکہ جہاں عورت کو سزا کی اجازت ہے وہاں بہت سی شرائط ہیں اپنی مرضی کی اجازت نہیں ہے۔ چند شرائط ہیں ان کے ساتھ یہ اجازت ہے۔ اور شاید ہی کوئی احمدی عورت اس حد تک ہو کہ جہاں اس سزا کی ضرورت پڑے۔ اس لئے بہانے تلاش کرنے کی بجائے مرد اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور عورتوں کے حقوق ادا کریں جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ؕ وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا}۔ (النساء :35) یعنی مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال ان پر خرچ کرتے ہیں۔ (جو نکھٹو گھر بیٹھے رہتے ہیں وہ تو ویسے ہی نگران نہیں بنتے) پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔ اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو تو ان کو پہلے تو نصیحت کرو(اس میں بے حیائی نہیں ہے ایسی باتیں جو ہمسائیوں میں کسی بدنامی کا موجب بن رہی ہوں، بعض ایسی حرکتیں ہوتی ہیں ) تو پہلے ان کو نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو اور پھر اگر ضرورت ہو تو ان کو بدنی سزا بھی دو اور پھر فرمایا پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر ان کے خلاف کوئی حجت یا بہانے تلاش نہ کرو۔ یقینا اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے، تو فرمایا کہ اس انتہائی باغیانہ رویے سے عورت اپنی اصلاح کر لے تو پھر بلاوجہ اسے سزا دینے کے بہانے تلاش نہ کرو یاد رکھو کہ اگر تم تقویٰ سے خالی ہو کر ایسی حرکتیں کرو گے اور اپنے آپ کو سب کچھ سمجھ رہے ہو گے اور عورت کی تمہارے نزدیک کوئی حیثیت ہی نہیں ہے تو یاد رکھو کہ پھر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے تمہاری پکڑ بھی کر سکتی ہے۔ اس لئے جو درجے سزا کے مقرر کئے گئے ہیں ان کے مطابق عمل کرو اور جب اصلاح کا کوئی پہلو نہ دیکھو، اگر ایسی عورت کا بدستور وہی رویہ ہے تو پھر سزا کا حکم ہے۔ یہ نہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر اٹھے اور ہاتھ اٹھا لیا یا سوٹی اٹھا لی۔ اور اتنے ظالم بھی نہ بنو کہ بہانے تلاش کرکے ایک شریف عورت کو اس باغیانہ روش کے زمرے میں لے آؤ اور پھر اسے سزا دینے لگو۔ ایسے مرد یاد رکھیں کہ خدا کا قائم کردہ نظام بھی یعنی نظام جماعت بھی، اگر نظام کے علم میں یہ بات آ جائے تو ایسے لوگوں کو ضرور سزا دیتا ہے۔ خدا کے لئے قرآن کو بدنام نہ کریں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ ہمارے ہادیٔ کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو۔ بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو‘‘۔ جو باہر بظاہر نیک نظر آتے ہیں ان میں بھی کئی خامیاں ہوتی ہیں، جو بیویوں کے ساتھ یا گھر والوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کر رہے اس لئے معاشرے کو بھی ایسے لوگوں پر غور کرنا چاہئے۔ ظاہری چیز پہ نہ جائیں۔ فرمایا کہ’’ جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔ نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زدو کوب کرے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصے سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنیٰ سی بات پر ناراض ہو کر اس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مر گئی ہے۔ اس لئے ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ{ عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ} ہاں اگر وہ بے جا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۰۳۔ ۴۰۴ الحکم ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو دوسرے میں عیب نظر آتا ہے یا اس کی کوئی اور ادا ناپسند ہے تو کئی باتیں اس کی پسند بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگیں گی۔ تو وہ پسندیدہ باتیں جو ہیں ان کو مدنظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئے۔ آپس میں صلح و صفائی کی فضا پیدا کرنی چاہئے تو یہ میاں بیوی دونوں کونصیحت ہے کہ اگر دونوں ہی اگر اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں تو چھوٹی چھوٹی جو ہر وقت گھروں میں لڑائیاں، چخ چخ ہوتی رہتی ہیں وہ نہ ہوں اور بچے بھی برباد نہ ہوں۔ ذرا ذرا سی بات پر معاملات بعض دفعہ اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان سوچ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں کہ جو کہنے کو تو انسان ہیں مگر جانوروں سے بھی بدتر۔ (مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنسآء)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً پندرہ سال کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے پہلی وحی کے موقع پہ جو گواہی دی، جب وحی ہوئی اور آنحضرتﷺ بہت پریشان تھے کہ کیا ہو گیا تو حضرت خدیجہ ؓ نے عرض کیا کہ بخدا اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے اور رشتہ داروں سے حسن سلوک فرماتے ہیں اور غریبوں ناداروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور معدوم ہوجانے والی نیکیوں کو زندہ کرنے والے ہیں ‘‘ یعنی جو نیکیاں ختم ہو گئی ہیں ان کو دوبارہ زندہ کرنے والے ہیں ’’اور سچ بولنے کے نتیجہ میں پیش آنے والی مشکلات کے باوجود حق کے ہی معین و مددگار ہیں ‘‘۔ یعنی سچی بات ہی کہتے ہیں ’’ اور مہمان نواز بھی ہیں ‘‘۔ (بخاری بدء الوحی کیف کان بدء الوحی)

تو ایک انسان میں جو خصوصیات ہونی چاہئیں خاص طور پر ایک مرد میں جن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے جس سے پاک معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے وہ یہی ہے جن کا ذکر حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کے خلق کے ضمن میں فرمایا کہ صلہ رحمی اور حسن سلوک، رشتہ داروں کا خیال، ان کی ضروریات کا خیال، ان کی تکالیف کو دور کرنے کی کوشش۔ اب صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے اس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے ہیں۔ ان سے بھی صلہ رحمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے۔ اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تُو تکار ہو سکتی ہے؟ کوئی لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ کیونکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات سے ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بری لگی تو فوراً ناراض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا، میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا۔ میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ ہیں تو یہ زود رنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر، یہی پھربڑے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں کے رشتہ داروں سے اور ان کی سہیلیوں سے حسن سلوک فرمایا کرتے تھے۔ بے شمار مثالوں میں سے ایک یہاں دیتا ہوں۔ راوی نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ ؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے یہ تو خدیجہ کی بہن حالہ آئی ہے۔ اور آپ کا یہ دستور تھا کہ گھر میں کبھی کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہ ؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجہ)

لیکن یہاں تھوڑی سی وضاحت بھی کر دوں اس کی تشریح میں۔ بعض باتیں سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے وضاحت کرنی پڑ رہی ہے۔ کیونکہ معاشرے میں عورتیں اور مرد زیادہ مکس اپ(Mixup)ہونے لگ گئے ہیں۔ اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ عورتوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے اور بیویوں کی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ خیال رکھنا بالکل اور چیز ہے اور بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ کرلینا بالکل اور چیز ہے۔ اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ پھر بیوی تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور سہیلی جو ہے وہ بیوی کا مقام حاصل کر لیتی ہے۔ مرد تو پھر اپنی دنیا بسا لیتا ہے لیکن وہ پہلی بیوی بیچاری روتی رہتی ہے۔ اور یہ حرکت سراسر ظلم ہے اور اس قسم کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی۔ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں شادی کرنے کی اجازت ہے یہاں ان معاشروں میں خاص طور پر احتیاط کرنی چاہئے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اُس بیوی کا بھی خیال رکھیں جس نے ایک لمبا عرصہ تنگی ترشی میں آپ کے ساتھ گزارا ہے۔ آج یہاں پہنچ کر اگر حالات ٹھیک ہو گئے ہیں تو اس کو دھتکار دیں، یہ کسی طرح بھی انصاف نہیں ہے۔

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے ایک دفعہ آپؐ کو کہا کہ اے اللہ کے رسول! خدا نے آپؐ کو اس قدر اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں۔ اب اس بڑھیا(یعنی حضرت خدیجہؓ ) کا ذکر جانے بھی دیں۔ توآپؐ نے فرماتے تھے کہ نہیں، نہیں۔ خدیجہ اس وقت میری ساتھی بنی جب میں تنہا تھا۔ وہ اس وقت میری سِپر بنی جب میں بے یارو مددگار تھا۔ وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے ان سے مجھے اولاد بھی عطا کی۔ انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد نمبر۶ صفحہ ۸ ۱۱مطبوعہ بیروت)

تو یہ ہے اسوۂ حسنہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے اور ایسے معاملات سن کر بڑی تکلیف ہوتی ہے، طبیعت بعض دفعہ بے چین ہو جاتی ہے کہ ہم میں سے بعض کس طرف چل پڑے ہیں۔ بیوی کی ساری قربانیاں بھول جاتے ہیں حتیٰ کہ بعض تواس حد تک کمینگی پر آتے ہیں کہ بیوی سے رقم لے کر اس پر دباؤ ڈال کر اس کے ماں باپ سے رقم وصول کرکے کاروبار کرتے ہیں یا زبردستی بیوی کے پیسوں سے خریدے ہوئے مکان میں اپنا حصہ ڈال لیتے ہیں اور پھر اس کو مستقل دھمکیاں ہوتی ہیں۔ اور بعض دفعہ تو حیرت ہوتی ہے کہ اچھے بھلے شریف خاندانوں کے لڑکے بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کچھ خوف خدا کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ ورنہ یہ واضح ہو کہ نظام جماعت، اگر نظام کے پاس معاملہ آ جائے تو، کبھی ایسے بیہودہ لوگوں کا ساتھ نہیں دیتا، نہ دے گا۔ اور پھر یہی نہیں کہ لڑکے خود کرتے ہیں بلکہ ایسے لڑکوں کے ماں باپ بھی ان پر دباؤ ڈال کے ایسی حرکتیں کرواتے ہیں۔ وہ بھی یاد رکھیں کہ ان کی بھی بیٹیاں ہیں اور ان سے بھی یہی سلوک ہو سکتا ہے۔ اور اگر بیٹیاں نہیں ہیں جن کی تکلیف کا احساس ہو، بعضوں کے بیٹے ہوتے ہیں اس لئے ان کو بیٹیوں کی تکلیف کا پتہ ہی نہیں لگتا۔ تو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو تو جان دینی ہے، اس کے حضور تو حاضر ہونا ہے۔

حضرت عائشہؓ ایک روایت کرتی ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دئیے یا جگائے بغیر خود ہی کھانا لے کر تناول فرما لیتے یا دودھ ہوتا تو خود ہی لے کرنوش فرما لیتے۔ (مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف)

یہ اُسوہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لیکن بعض مثالیں ایسی سامنے آتی ہیں، عموماً اب یہ ہوتا ہے کہ مرد لیٹ کام سے واپس آتے ہیں اور یہ روز کا معمول ہے اور اگر بیوی کسی دن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے پہلے کھانا کھا لے تو ایک قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ موڈ بگڑ جاتے ہیں کہ تم نے میرا انتظار کیوں نہیں کیا۔ ہمارے معاشرے میں پاکستانی، ہندوستانی اس مشرقی معاشرے میں یہ بات زیادہ پیدا ہوتی جا رہی ہے، پہلے بھی تھی لیکن پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہونی چاہئے تھی، اس کی بھی اصلاح کرنی چاہئے۔ اور ’زیادہ‘ سے میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک دو فیصد بھی ہمارے اندر ہے تب بھی قابل فکر ہے، بڑھ سکتی ہے۔ پھر اس وجہ سے خاوند تو جو ناراض ہوتا ہے بیوی سے تو ہوتاہے، ساس سسر بھی ناراض ہو جاتے ہیں اپنی بہو سے۔ کہ تم نے کیوں انتظار نہیں کیا۔

پھر ایک روایت ہے۔ آنحضرتؐ کی ایک بیوی حضرت صفیہ ؓ تھیں جو رسول اؐ للہ کے شدید معاند اور یہودی قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیئی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ جنگ خیبر سے واپسی پر آنحضرتؐ نے اونٹ پر حضرت صفیہ ؓ کے لئے خود جگہ بنائی۔ آپؐ نے جو عبا زیب تن کر رکھا تھا اسے اتار کر اور تہہ کرکے حضرت صفیہ کے بیٹھنے کی جگہ پر بچھا دیا۔ پھر ان کو سوار کرتے ہوئے آپ نے اپنا گھٹنا ان کے آگے جھکا دیا۔ اور فرمایا کہ اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہو جاؤ۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃخیبر)

تو دیکھیں کس طرح آپ نے بیوی کا خیال رکھا۔ یہ نمونے آپؐ نے ہمیں عمل کرنے کے لئے دئیے ہیں۔ آج کل بعض لوگ صرف اس خیال سے بیویوں کا خیال نہیں رکھتے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بیوی کا غلام ہو گیا ہے۔ بلکہ حیرت ہوتی ہے بعض لڑکوں کے، مردوں کے بڑے بزرگ رشتہ دار بھی بچوں کو کہہ دیتے ہیں کہ بیوی کے غلام نہ بنو۔ بجائے اس کے کہ آپس میں ان کی محبت اور سلوک میں اضافہ کرنے کا باعث بنیں۔ اپنے لئے کچھ اور پسند کر رہے ہوتے ہیں، دوسروں کے لئے کچھ اور پسند کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نمونہ گھریلو زندگی میں ہے ہر لحاظ سے مثالی اور بہترین تھا آپ اپنے اہل خانہ کے نان و نفقہ کا بطور خاص اہتمام فرماتے تھے۔ یعنی جو ان کے اخراجات ہیں ان کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ اپنی وفات کے وقت بھی ازواج مطہرات کے نان نفقہ کے بارے میں تاکیدی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا خرچہ ان کو باقاعدگی کے ساتھ ادا کیا جائے۔ (بخاری کتاب الوصایا باب نفقۃ القیم للوقف)

اس بات سے وہ مرد جو عورتوں کے مال پر نظر رکھے رہتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ذمہ داری ان کی ہے اور عورت کی رقم پر ان کا کوئی حق نہیں۔ اپنے بیوی بچوں کے خرچ پورے کرنے کے وہ مرد خو د ذمہ دار ہیں۔ اس لئے جو بھی حالات ہوں چاہے مزدوری کرکے اپنے گھر کے خرچ پورے کرنے پڑیں ان کا فرض ہے کہ وہ گھر کے خرچ پورے کریں۔ اور اس محنت کے ساتھ اگر دعا بھی کریں تو پھر اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے اور کشائش بھی پیدا فرماتا ہے۔

ایک روایت ہے حضرت سلمان بن احوص روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضورؐ کے ہمراہ موجود تھے۔ اس موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثناء کے بعد وعظ و نصیحت فرمائی اور پھر فرمایا کہ عورتوں کے بارے میں ہمیشہ بھلائی کے لئے کوشاں رہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ قیدیوں کی طرح بندھی ہوئی ہیں۔ تم ان پر کوئی حق ملکیت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں (یعنی تمہارا حق ملکیت نہیں کہ جب چاہو مارنا شروع کر دو جب چاہو جو مرضی سلوک کر لو۔ سوائے اس کے کہ وہ بے حیائی کی مرتکب ہوں )۔ اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان کے کپڑوں اور کھانے کا بہترین خیال رکھو۔ (ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ فی حق المرأۃ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں آپؐ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے۔ میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کا مطالعہ کرو تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خلیق تھے۔ باوجودیکہ آپ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تھی تو آپؐ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے۔ (ملفوظات جلد نمبر۲ صفحہ ۳۸۷، الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۳)

پھر ایک روایت ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں سے بھلائی سے پیش آیا کرو۔ عورت یقیناً پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی کے اوپر کے حصے میں زیادہ کجی ہوتی ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے۔ اور تم اسے چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس تم اس سے بھلائی ہی سے پیش آیاکرو۔

ایک اور روایت میں ہے کہ عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ دو گے اور اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو تم اس کی کجی کے باوجود اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ (بخاری کتاب الانبیاء باب خلق آدم وذریتہ)

اب پسلی کا زاویہ یا گولائی جو بھی ہے وہی اس کی مضبوطی ہے۔ اور انتہائی نازک حصہ بھی کسی جاندار کا اس کے حصار میں ہے۔ یعنی دل اور بعض دوسری چیزیں بھی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی اس تخلیق سے انسان نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس لئے دیکھ لیں عمارتوں اور پُلوں میں جہاں زیادہ مضبوطی دینی ہواسی طرح گولائی دی جاتی ہے۔ تو فرمایا کہ عورت کا جو مضبوط کردار ہے اس سے اگر فائدہ اٹھانا ہے تو اس کو زیادہ اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کرو ورنہ فائدہ تو کیا وہ تمہارے کسی کام کی بھی نہیں رہے گی۔ لیکن یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ عورت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کا مادہ بہت زیادہ رکھا ہے۔ اگر خو دنمونہ بن کر اس سے نیکی سے پیش آؤ گے تو وہ خود اپنے آپ کو تمہاری خواہشات پر قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے گی۔ اس لئے اس سے زیادہ فائدہ سختی سے نہیں بلکہ پیار و محبت سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ’’ یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو۔ خُذُوْالرِّفْقَ، خُذُوْالرِّفْقَ، فَاِنَّ الرِّفْقَ رَأسُ الْخَیْرَاتِ کہ نرمی کرو نرمی کروکہ تمام نیکیوں کا سر نرمی ہے‘‘۔ …… فرمایا کہ’’ حتی المقدور پہلا فرض مومن کا ہر ایک کے ساتھ نرمی حسن اخلاق ہے اور بعض اوقات تلخ الفاظ کا استعمال بطور تلخ دوا کے جائز ہے۔ (اربعین نمبر ۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۸، ۴۲۹۔ حاشیہ)

اس الہام پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حاشیہ رقم فرمایا ہے اس میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں کہ’’ اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدے میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے {وَعَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ} یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ اور حدیث میں ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طو رپر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو گندے برتن کی طرح مت توڑو۔ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۷۵۔ حاشیہ۔ وتذکرہ صفحہ ۳۹۶، ۳۹۷)

پھر فرمایا:’’ اسی طرح عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادئہ مستقیم سے بہک گئے ہیں ‘‘۔ سیدھے رستے سے ہٹ گئے ہیں۔ ’’ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ{ وَعَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ} مگر اب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیع الرسن کر دیا ہے‘‘۔ (یعنی بے حیائی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی ہے) ’’دین کا ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا۔ بعض ایسے ہیں انہوں نے خلیع الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا۔ اور کنیزوں اور بہائم(یعنی جانوروں ) سے بھی بدتر ان سے سلوک ہوتا ہے۔ مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں۔ غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں۔ یہاں کے پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتار دی اور دوسری پہن لی۔ یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں میں کامل نمونہ ہیں۔ آپ کی زندگی دیکھو کہ آپ عورتوں سے کیسی معاشرت کرتے تھے۔ میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۹۶۔ الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۳ء)

بعض دفعہ گھروں میں چھوٹی موٹی چپقلشیں ہوتی ہیں ان میں عورتیں بحیثیت ساس کیونکہ ان کی طبیعت ایسی ہوتی ہے وہ کہہ دیتی ہیں کہ بہو کو گھر سے نکالو لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب سسر بھی، مرد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہوئی ہے اپنی بیویوں کی باتوں میں آ کر یا خود ہی بہوؤں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں حتیٰ کہ بلاوجہ بہوؤں پہ ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ پھر بیٹوں کو بھی کہتے ہیں کہ مارو اور اگر مر گئی تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بیوی لے آئیں گے۔ اللہ عقل دے ایسے مردوں کو۔ ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں کہ ایسے مرد بزدل اور نامرد ہیں۔ پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ چاہئے کہ بیویوں سے خاوندوں کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ اور خداتعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں اگر انہیں سے ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خداتعالیٰ سے صلح ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے اچھا ہے وہ جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۰۰، ۳۰۱ البدر ۲۲ مئی ۱۹۰۳ و الحکم ۱۷ مئی ۱۹۰۳ء)

ایک دفعہ مسجد میں مستورات کا ذکر چل پڑا تو ان کے متعلق احمدی احباب میں سے سر برآوردہ ممبر کا ذکر سنایا کہ ان کے مزاج میں اول سختی تھی عورتوں کو ایسا رکھا کرتے تھے جیسے زندان میں رکھا کرتے ہیں یعنی قید میں رکھا کرتے ہیں۔ اور ذرا وہ نیچے اترتیں تو ان کو مارا کرتے۔ لیکن شریعت میں حکم ہے کہ{ وَعَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ}(نساء :۲۰)۔ نمازوں میں عورتوں کی اصلاح اور تقویٰ کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ قصاب کی طرح برتاؤ نہ کریں ‘‘(فرمایا کہ قصائی کی طرح برتاؤ نہ کریں )’’ کیونکہ جب تک خدا نہ چاہے کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ۱۱۸البدر ۱۳ مارچ ۱۹۰۳)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے(یعنی اس کے رشتہ داروں سے بھی) نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ (کشتیٔ نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۹)

پھر مرد کے فرائض میں سے بچوں کے حقوق بھی ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ابرار کو اللہ تعالیٰ نے ابرار اس لئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا۔ جس طرح تم پر تمہارے والد کا حق ہے اسی طرح تم پر تمہارے بچے کا حق ہے۔ (الادب المفرد للبخاری باب برالأب لولدہ)

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اس کے ساتھ اس کا ایک چھوٹا بچہ تھا وہ اسے اپنے ساتھ چمٹانے لگا اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس پر رحم کرتا ہے؟ اس پر اس نے کہا جی حضور! تو حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھ پر اس سے بہت زیادہ رحم کرے گا جتنا تو اس پر کرتا ہے اور وہ خدا ارحم الراحمین ہے۔ (الادب المفرد للبخاری باب رحمۃ العیال)

پھر حضرت ایوب اپنے والد اور اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہو۔ (ترمذی ابواب البر والصلۃ باب فی ادب الولد)

تو اس زمانے میں اور خاص طور پر اس ماحول میں باپوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ صرف اپنی باہر کی ذمہ داریاں نہ نبھائیں، گھروں کی بھی ذمہ داری ہے۔ اور اس کو سمجھیں کیونکہ ہر طرف سے معاشرہ اور بگاڑنے والا ماحول منہ کھولے کھڑا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے‘‘۔ (بعض دفعہ بعض باپوں کو سزائیں دینے کا بہت شوق ہوتا ہے)’’گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے‘‘۔ (اپنے آپ کو حصہ دار بنانا چاہتا ہے)۔ ’’ ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں بڑھتے بڑھتے دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد میں سزا سے کوسوں تجاوز کر جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا ہو اور پورا متحمل اور بردبار اور باسکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے‘‘(کہ اگر مغلوب الغضب نہ ہو، غصے میں نہ ہو بلکہ اگر اصلاح کی خاطر سزا دینی ہو تو اس کو حق ہے)’’کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یاچشم نمائی کرے‘‘(یا اس کو معاف کر دے) مگر مغلوب الغضب اور سبک سر اور طائش العقل ہرگز سزاوار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو۔

پھر فرمایا کہ:’’ جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لئے سوز دل سے دعا کرنے کو ایک حزب ٹھہرا لیں اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۰۸، ۳۰۹ الحکم ۱۷ جنوری ۱۹۰۰ء)

بعض لوگ صرف اپنے بچوں تک ہی ربوبیت میں حصہ دار نہیں بنتے بلکہ دوسروں میں اور نظام میں بھی دخل اندازی کرکے اپنے آپ کو بالا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اب کل ہی یہاں مسجد میں ایک واقعہ ہوا ہے۔ وقف نو کی کلاس تھی اور کینیڈا والوں کی کلاس تھی واقفین نو کی۔ تو امریکہ سے ایک شخص اپنے بچے کے ساتھ آیا ہوا تھا اور زبردستی کوشش تھی کہ میرا بچہ بھی کلاس میں بیٹھے گا اور اس حد تک مغلوب الغضب ہو گیا کہ انتظامیہ سے بھی لڑائی شروع کر دی اور بچے کو بھی ڈانٹنا اور مارنا شروع کر دیا بلکہ بچے بیچارے کو غصے میں سیڑھیوں سے نیچے پھینک دیا۔ وہ تو شکر ہے کہ اس کو چوٹیں زیادہ نہیں لگیں اور غصے میں وہ شخص اتنی اونچی بول رہا تھا کہ باہر سے مسجد کے اندر تک آوازیں آ رہی تھیں۔ تو ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا رب صرف ایک رب ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔ اور تمہارے اس غصے سے تمہاری اس بداخلاقی سے اور تو کچھ نہیں ہو گا سوائے اس کے کہ تمہارے اپنے اخلاق ظاہر ہو جائیں کہ وہ کیا ہیں۔ اس لئے استغفار کرو ورنہ ایسے لوگ پھر یاد رکھیں کہ اگر اصلاح کی کوشش نہ کی تو خود ہی اپنی بربادی کے سامان کرتے رہیں گے اور اسی میں گر جائیں گے۔

ایک روایت ہے، حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو۔ (ابن ماجہ ابواب الادب باب برالوالد)

تو اپنے بچوں میں عزت نفس پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کو آداب سکھائے جائیں اس کی ایسے رنگ میں تربیت ہو کہ وہ دوسروں کی بھی عزت اور احترام کرنے والا ہو۔ اس طرح نہ اس کی تربیت کریں کہ اس عزت کی وجہ سے جو آپ اس کی کر رہے ہیں وہ خود سر ہو جائے، بگڑنا شروع ہو جائے، اپنے آپ کو دوسروں سے بالا سمجھنے، دوسروں سے زیادہ سمجھنے لگ جائے اور دوسرے بچوں کو بھی اپنے سے کم تر سمجھے اور بڑوں کا احترام بھی اس کے دل میں نہ ہو۔ تو تربیت ایسے رنگ میں کی جانی چاہئے کہ اعلیٰ اخلاق بھی بچے کو ساتھ ساتھ آئیں۔ تو یہ صاحب بھی جو وقف نو بچے کے باپ ہیں اپنی بھی اصلاح کریں تبھی ان کا بچہ وقف نو کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو لڑکیوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالے اور وہ ان سے بہتر سلوک کرے وہ اس کے لئے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ)

تو دیکھیں کس قدر خوشخبری ہے ان لوگوں کے لئے جن کی لڑکیاں ہیں۔ انسان تو گناہگار ہے ہزاروں لغزشیں ہو جاتی ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ نے بھی قسم قسم کے راستے بخشش کے رکھے ہیں۔ تو لڑکیوں پر افسوس کرنے کی بجائے، جن کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں، ان کو شکر کرنا چاہئے اور ان کی نیک تربیت کرنی چاہئے اور ان کے لئے نیک نصیب کی دعا مانگنی چاہئے لیکن بعض دفعہ ایسے تکلیف دہ واقعات سامنے آتے ہیں کہ بعض لوگ اپنی بیویوں کو صرف اس لئے طلاق دے دیتے ہیں کہ تمہارے ہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تو خوف خدا کرنا چاہئے۔ کیا پتہ اگلی شادی میں بھی لڑکیاں ہی پیدا ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور رات کو نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے اٹھتے اور عبادت کرتے تھے جب طلوع فجر میں تھوڑا سا وقت باقی رہ جاتا تو مجھے بھی جگاتے اور فرماتے تم بھی دو رکعت ادا کرلو۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ، باب الصلوۃخلف النائم)

تو مردوں کی ایک سربراہ کی حیثیت سے یہ بھی ذمہ داری ہے کہ متقی بننے اور متقی خاندان کا سربراہ بننے کے لئے خود بھی نمازوں کی پابندی کریں۔ رات کو اٹھیں یا کم از کم فجر کی نماز کے لئے تو ضرور اٹھیں، اپنی بیوی بچوں کو بھی اٹھائیں۔ جو گھر اس طرح عبادت گزار افراد سے بھرے ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکات کو سمیٹنے والے ہوں گے۔ لیکن یاد رکھیں کہ کوشش بھی اس وقت بار آور ہو گی، اس وقت کامیابیاں ملیں گی کہ جب دعا کے ساتھ یہ کوشش کر رہے ہوں گے۔ صرف اٹھا کے اور ٹکریں مار کے نہیں بلکہ دعائیں بھی مسلسل کرتے رہیں اپنے لئے، اپنے بیوی بچوں کے لئے۔ اس لئے اپنی نمازوں میں بھی اپنی بیوی بچوں کے لئے بہت دعائیں کریں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ {اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ}کہ میری بیوی بچوں کی اصلاح فرما اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے۔ غرض ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں تو ان کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۴۵۶، ۴۵۷۔ ۲ مارچ ۱۹۰۸)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ میرا طریق کیا ہے کہ میں کس طرح دعائیں مانگا کرتاہوں۔ فرمایاکہ مَیں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگا کرتاہوں۔ پہلی یہ کہ اپنے نفس کے لئے دعا مانگتاہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت وجلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے۔ دوسرے پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃ العین عطا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں (یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والے ہوں )۔ پھر تیسرے فرمایا کہ پھرمَیں اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں۔ پھر چوتھے فرمایا کہ میں اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام دعا کرتا ہوں۔ پھر پانچویں فرمایاپھر ان سب کے لئے جو اس سلسلے سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۰۹۔ الحکم ۱۷ جنوری ۱۹۰۰ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں اپنے حقوق و فرائض اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے بیوی بچوں کی طرف سے ہمارے لئے تسکین کے سامان پیدا فرمائے اور آنکھیں ٹھنڈی رکھے۔ اللہ کی عبادت کرنے والے ہوں اور نیکیوں پر قائم رہنے والے ہوں اور جب ہمارا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا وقت آئے تو یہ تسلّی ہو کہ ہم اپنے پیچھے نیک اور دیندار اولاد چھوڑ ے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔

آج جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے بلکہ میرا خیال ہے اس خطبے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے پروگراموں سے آپ سب کو بھی اور آپ کے بیوی بچوں کو بھی فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ جس مقصد کے لئے آپ آئے ہیں اس کو پورا کرنے والے ہوں۔ یعنی اپنی روحانیت کو مزید صیقل کرنے کے لئے، مزید بڑھانے کے لئے۔ ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں پر اور درُود پر بہت زور دیں۔ اپنے اخلاق کے اعلیٰ نمونے دکھائیں، اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں۔ ذرا ذرا سی بات پر غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انتظامیہ ہر وقت آپ کی خدمت پر مامور ہے۔ لیکن اگر کوئی چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہو جائیں تو صرفِ نظر کریں، معاف کرنے کی عادت ڈالیں۔ اللہ کی خاطر ان تین دنوں میں اگر تنگیاں برداشت کربھی لیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس کا اجر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت ملے گا۔ آپس میں محبت اور بھائی چارے کی مثالیں قائم کریں۔ اگر کچھ لوگوں کی آپس کی رنجشیں ہیں تو ان رنجشوں کو دور کریں، ایک دوسرے کو معاف کریں اور آپس میں ایک ہو جائیں۔ اللہ کرے کہ یہ جلسہ آپ سب کے لئے پہلے سے بڑھ کر روحانی تبدیلی لانے کا باعث بنے۔ آمین


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 2؍ جولائی 2004ء شہ سرخیاں

    یاد رکھیں بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے۔

    ٭…آنحضرتﷺ کا گھر کے سربراہ کی حیثیت سے اسوۂ حسنہ

    ٭…میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنی چاہئیں

    ٭…حضرت اقدس رسول اللہﷺ ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں

    ٭…گھریلوں معاملات اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نصائح

    ٭…بچوں کی عزت کرنی چاہئے اور ان کو آداب سکھائے جائیں۔

    ۲؍جولائی۲۰۰۴ء بمطابق۲؍وفا ۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسسی ساگا(کینیڈا)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور