مجالس کے آداب اور نیک مجالس کی اہمیت
خطبہ جمعہ 16؍ جولائی 2004ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَیۡتُمۡ فَلَا تَتَنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ وَ تَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ}(سورۃ المجادلہ:10)
انسان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مخلوق ہے جو معاشرتی زندگی گزارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ معاشرتی زندگی کا صرف یہی مطلب نہیں کہ ایک گروہ اور ایک جتھہ اور خاندان بنا کر رہ لینا تاکہ اپنے گروہ یا خاندان کی پہچان ہو جائے۔ اس طرح کے گروہ تو دوسرے جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں ان میں بھی یہ احساس ہے کہ اگر اکٹھے رہیں گے جتھہ بنا کررہیں گے تو دوسرے جانوروں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ اپنے بچوں اور کمزوروں کی حفاظت کے لئے بعض جانور بڑی پلاننگ(Planning) سے چلتے ہیں۔ میں جب گھانا میں تھا وہاں جماعت کا ایک فارم تھا جو کہ جنگل کے اندر دریا کے کنارے واقع تھا اور جنگل کی کچھ صفائی کرکے وہ شروع کیا گیا تھا۔ وہاں مختلف قسم کے جانور بھی رہتے تھے۔ ایک دن میں جب فارم پہ گیا تو جو ہمارے وہاں کام کرنے والے تھے، کارندے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم صبح صبح فارم کی طرف جارہے تھے جب ہم جنگل کے سرے پہ پہنچے جہاں سے فارم شروع ہوتا ہے تو دیکھا کہ چیمپینزیز(بندروں کی ایک قسم ہے) ان کا ایک گروہ، بہت بڑا غول وہاں کنارے پر بیٹھا تھا اور جب انہوں نے آدمیوں کی آوازیں سنیں تو دوڑ لگائی اور جب دوڑنے لگے تو پتہ لگا کہ ان میں سے کچھ کمزور بھی ہیں کچھ بڑی عمر کے بوڑھے بھی لگ رہے تھے اور کچھ بچے بھی، تو کیونکہ ان کو اگلے جنگل میں پہنچنے کے لئے میدان سے گزرنا پڑنا تھا یعنی فارم سے تو ان کو بڑا گروہ نظر آیا تو انہوں نے بھی دیکھا کہ یہ کھلے عام ہیں اور ڈر کے دوڑے ہیں تو پھر آدمی میں بھی تھوڑی سی جرأت پیدا ہوجاتی ہے، چار پانچ آدمی تھے ان کے ساتھ ایک کتا تھا، انہوں نے پیچھے دوڑ لگائی تو کہتے ہیں کہ جب وہ کتا جو ان سے آگے آگے دوڑ رہا تھا ان بندروں کے قریب پہنچ گیا تو ان میں سے ایک صحتمند اور پہلوان قسم کا بندر تھا جو اس گروہ کے پیچھے چل رہا تھا جو شاید ان کی حفاظت کے لئے لگایا گیا ہو تو اس نے جب دیکھا کہ اتنے قریب کتا پہنچ گیا ہے تو وہ آرام سے بیٹھ گیا جس طرح ایک پہلوان بیٹھتا ہے، ٹانگوں پہ ہاتھ رکھ کے اور باقی گروہ دوڑتا چلا گیا۔ تو جب کتا اس کے قریب آیا تو اس نے اس زور کا اور جچا تلا انسان کی طرح اس کے تھپڑ مارا ہے کہ وہ کتا چیختا ہوا کئی لڑھکنیاں کھاتا چلا گیا۔ پھر اس نے انتظار کیا کہ کوئی اور بھی آئے جب اس نے دیکھ لیا کہ میرے لوگ محفوظ ہو گئے ہیں تو پھر وہ بھی اس گروہ میں شامل ہوگیا۔
تو یہ حفاظت کایا اپنی خود حفاظتی کا جو نظام ہے اللہ تعالیٰ نے ہر جانور میں رکھا ہوا ہے، اپنے اپنے لحاظ سے جو ہر ایک کی سمجھ بوجھ ہے کچھ ایسے جانور بھی ہیں جو سکھائے بھی جاتے ہیں لیکن بہر حال ان کا ایک محدود دائرہ ہے۔ اور اسی کے اندر وہ رہ سکتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں رکھا ہے اس حدتک ہی وہ کام کرسکتے ہیں ان میں کوئی آداب یا تمیز یا اس قسم کی دوسری یعنی اخلاق وغیرہ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ انہوں نے تو وہی کچھ کرنا ہے جیسا کہ میں نے کہا جو ان کی فطرت میں ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ کہ معاشرے میں رہو، اکٹھے ہو کے رہو، مختلف قوموں اور خاندانوں میں تقسیم بھی کیا ہے لیکن ساتھ ہی فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرو اور اس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرو۔ اخلاق کے اعلیٰ معیار بھی قائم کرو اور ان میں ترقی کرتے چلے جاؤ۔ کیونکہ ایک وسیع میدان ہے جو کھلا ہے۔ اسی طرح روحانیت میں بھی ترقی کرو اپنے دماغوں کو بھی استعمال کرو اور پھر اس کے ذریعے سے ان کو محنت کے ذریعے مزید چمکاتے چلے جاؤ۔ تو بہر حال اس معاشرے میں رہنے کے لئے اپنے ساتھی انسانوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم نے جن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے ان میں سے ایک خلق مجالس کے حقوق بھی ہیں۔ ایک احمدی کو روحانیت سے بھی حصہ ملا ہے اسے اس خلق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر بہت توجہ دینی چاہئے۔ پھر مجالس کی بھی کئی قسمیں ہیں کچھ مجلسیں دنیاداری کے لئے لگتی ہیں اور کچھ مجلسیں دین کی خاطر ہوتی ہیں۔ لیکن ایک مومن کے لئے دنیاوی مجالس بھی اگر وہ اللہ تعالیٰ کے خوف، خشیت اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے لگائی جائیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بن جاتی ہیں۔ قرآن کریم میں مجلسیں لگانے والوں کے لئے مختلف انداز میں نصیحت کی گئی ہے۔ کہیں فرمایا کہ تمہاری مجلسیں دینی غرض کے لئے ہوں یا دنیاوی غرض کے لئے ہوں، دنیاوی منفعت کے لئے ہوں، جو بھی مجالس ہوں، ہمیشہ یاد رکھو ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو۔ اگر تم میرے بندے ہو تو تمہارے منہ سے صرف اچھی بات ہی نکلنی چاہئے۔ ہمیشہ {یَقُوْلُوْاالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن} کا ہی حکم ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہیں کرو گے تو تمہارے معاشرے میں، تمہاری مجالس میں ہمیشہ شیطان فساد پیدا کرتا رہے گا۔ اور یاد رکھو کہ شیطان کی فطرت میں ہے کہ اس نے تمہاری دشمنی کرنی ہی کرنی ہے۔ اس لئے تمہیں چاہئے کہ اپنے گھر میں، اپنی بیوی بچوں کے ساتھ مجلس لگا کر بیٹھے ہو یا اپنے خاندان کے کسی فنکشن(Function) میں اکٹھے ہو یا کاروباری مجلس میں ہو یا دینی مجلس میں ہو۔ ذیلی تنظیموں کے اجلاسوں میں ہو یا اجتماعات میں ہو، جہاں بھی تم ہو کوئی ایسی بات کرو گے جو دل کو جلانے والی ہو، کسی بھی قسم کی طنزیہ بات ہو یا تم اس مجلس کے آداب اور اصولوں کی پابندی نہیں کررہے تو ضرور وہاں فساد پیدا ہوگا۔ اور شیطان یہی چاہتا ہے۔ اس لئے اگر تم صحیح مومن ہو تو اپنی زبان سے اور اپنے عمل سے اس فساد سے بچنے کی کوشش کرتے رہو۔
شیطان کیونکہ مومنوں پر مختلف طریقوں سے حملہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس لئے جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم باہم خفیہ مشورے کرو تو گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی پر مبنی مشورے نہ کیا کرو، ہاں نیکی اور تقویٰ کے بارے میں مشورے کیا کرو اور اللہ سے ڈرو جس کے حضور تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔ دیکھیں اس میں مخاطب مومنوں کو کیا گیا ہے کہ انسان اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک دوسرے سے مشورے لیتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھر اپنی رائے میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے اور لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں تو فرمایا کہ اس صورت میں یہ ہمیشہ یاد رکھو کہ تمہارے مشورے چاہے تمہارے حقوق کی حفاظت کے لئے ہوں یا تمہارے خیال میں نظام میں درستی کے لئے، ان میں کبھی گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کرنے والے مشورے نہ ہوں، جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں کہ شیطان اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کوئی فساد پیدا کرے اس لئے بعض دفعہ بعض لوگ اس لئے اکٹھے ہوجاتے ہیں اور آپس میں بیٹھ کر مشورے شروع ہو جاتے ہیں کہ جماعت کا یہ کام اس طرح نہیں ہونا چاہئے جس طرح امیر کہہ رہا ہے یا مرکز ی عاملہ کہہ رہی ہے یا بعض دفعہ مرکز کہہ رہا ہے بلکہ اس طرح ہونا چاہئے جس طرح ہم کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم موقع پر موجود ہیں، ان لوگوں کو کیا پتہ کہ یہ کام کس طرح کرنا ہے تو یہ جو مشورے ہیں، یہ جو مجلسیں ہیں جہاں اس قسم کی باتیں ہورہی ہیں چاہے تم بدنیتی سے نہیں بھی کررہے تو تب بھی یہ خدا اور رسولؐ کی نافرمانی کے زمرے میں آئیں گی اس لئے کہ جب نظام نے تمہیں واضح طور پر ایک لائن دے دی کہ ان پر چل کر کام کرنا ہے تو تمہارا فرض بنتا ہے کہ ان پر چل کر ہی کام کرو اس کے بارے میں اب علیحدہ بیٹھ کر چند آدمیوں کو لے کر مجلسیں بنا کر باتیں کرنے اور امیر کے احکامات سے روگردانی کرنے کا اب کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اگر نقص دیکھو تو امیر کو یا متعلقہ شعبہ کو یا خلیفہ وقت کو اطلاع کردو اور بس۔ اس کے بعد ایک عام احمدی کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ پھر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کاموں میں برکت ڈالے تاکہ نظام جماعت پر کوئی زد نہ آئے۔ اور مشورے کرنے ہیں تو اس بات پر کریں کہ اس میں جو سقم ہے ان کو اس دیئے ہوئے دائرے کے اندر جو ان لوگوں کو دیا گیا ہے کس طرح سقم دور کرسکتے ہیں اور جماعت کی بہتری کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر اس طرح نہیں کررہے تو پھر سمجھیں کہ شیطان کے قبضے میں آگئے ہیں اور تقویٰ سے دور ہو گئے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس بارے میں پوچھے جاؤ گے۔ تو یہاں بعض دفعہ نظام بھی ایکشن لیتا ہے ایسے لوگوں کے خلاف، اور اگلے جہان کے بارے میں تو اللہ میاں نے کہہ دیا کہ مجھ سے ڈرو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:’’ انسان کے دکھوں میں اور خیالات ہوتے ہیں، سُکھوں میں اور ‘‘ یعنی تکلیف میں اور خیالات ہوتے ہیں اور جب آسائش ہو اس وقت اور خیالات ہوتے ہیں۔ ’’ کامیاب ہو تو اور طریق ہوتا ہے، ناکام ہو تو اور طرز۔ طرح طرح کے منصوبے دل میں اٹھتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی کو محرم راز بناتے ہیں اور جب بہت سے ایسے محرم راز ہوتے ہیں تو پھر انجمنیں بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا تو نہیں مگر یہ حکم ضرور دیا {یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَیۡتُمۡ فَلَا تَتَنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ وَ تَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ۔اِنَّمَا النَّجۡوٰی مِنَ الشَّیۡطٰنِ لِیَحۡزُنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیۡسَ بِضَآرِّہِمۡ شَیۡئًا اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ } (سورۃ المجادلہ:11-10)‘‘ (حقائق الفرقان جلد نمبر4 صفحہ61)
تو فرمایا کہ ایمان والو! ہم جانتے ہیں کہ تم منصوبے کرتے ہو، انجمنیں بناتے ہو مگر یاد رہے کہ جب کوئی انجمن بناؤ تو گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کے بارے میں نہ ہو، بلکہ نیکی اور تقویٰ کے مشورے ہونے چاہئیں۔ جب یہ مجلسیں بنتی ہیں تو پھر یہ بھی امکان ہے کہ اتنا آگے بڑھ جاؤ کہ تقویٰ سے ہی ہٹی ہوئی باتیں کرنے لگ جاؤ۔ رسول کی نافرمانی کی باتیں کرو۔ کیونکہ رسول کا تو واضح حکم ہے کہ میرے امیر کی اطاعت کرو۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو میرے امیر کی اطاعت کرتا ہے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور جو میری اطاعت کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔ یا جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔ تو ایسی مجلسوں میں ایسے مشورے میں نہ بیٹھنے کا حکم ہے۔ احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ جب مجلسیں لگا کر اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں تو پھر امیر کا بھی اور نظام کا بھی تمسخر اڑا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھی، یہ جہاں بھی ہوں، خدا کا خوف کرنا چاہئے۔
پھر بعض مجالس غیروں کی ہیں آجکل کے معاشرے میں تو انسان بہت زیادہ گھل مل گیا ہے تو یہاں بھی جب دین کے خلاف بات سنو تو اٹھ جاؤ۔ جہاں دین کی غیرت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ضرور دکھانی چاہئے۔ لڑنا ضروری نہیں ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ ایسی مجلس سے اٹھ جایا جائے، بیزاری کا اظہار کیا جائے تا کہ ان کو بھی پتہ لگے کہ اس مجلس میں آپ ہیں کہ آپ نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارا مذہب تو یہ ہے اور یہی مومن کا طریق ہونا چاہئے کہ بات کرے تو پوری کرے ورنہ چپ رہے۔ جب دیکھو کہ کسی مجلس میں اللہ اور اس کے رسول پر ہنسی ٹھٹھا ہورہا ہے تو یا تو وہاں سے چلے جاؤ تا کہ ان میں سے نہ گنے جاؤ اور یا پھر پورا پورا کھول کر جواب دو۔ دو باتیں ہیں یا جواب یا چپ رہنا۔ یہ تیسرا طریق نفاق ہے کہ مجلس میں بیٹھے رہنا اور ہاں میں ہاں ملائے جانا۔ دبی زبان سے اخفاء کے ساتھ اپنے عقیدے کا اظہار کرنا۔ (ملفوظات جلد نمبر۵ صفحہ449 بدر ۱۴ مارچ ۱۹۰۸)
تو یہ اصول اپنوں کی مجلس میں بھی جہاں نفاق دیکھو وہاں ضرور یہی رویہ اختیار کرنا چاہئے اور غیروں کی مجلس میں بھی۔ یہی استعمال کرنا چاہئے۔ دین کے معاملے میں کبھی بھی بے غیرتی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ قرآن میں یہی طریق ہے کہ بیزاری کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ جاؤ۔
حضرت ضرغامہؓ بیان کرتے ہیں کہ:’’ میرے والد صاحب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپؐ مجھے کوئی نصیحت کریں۔ آپﷺ نے فرمایا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جب تم کسی قوم کی مجلس میں جاؤ اور انہیں اپنے مزاج کی باتیں کرتے پاؤ تو وہاں ٹھہرو۔ اور اگر وہ ایسی باتوں میں مشغول ہوں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو تو اس مجلس کو چھوڑ دیا کرو‘‘۔ (مسند احمد اوّل مسند الکوفیین حدیث حرملۃ العنبری)
تو یہاں بھی مختلف قسم کے لوگ ہیں، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے ہیں ان یورپین ممالک میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی آجکل تو معاشرہ اتنا مکس اپ(Mixup) ہو گیا ہے، آپ سے تعلق بھی بنتے ہیں، رابطے بھی ہوتے ہیں تو ایسے رابطوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ایسی دوستیاں اب قائم ہو جائیں اور دوستیاں بڑھانے کی خاطر ان لوگوں کی ہر قسم کی فضول مجلسوں میں بھی شامل ہوا جائے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا کہ جہاں مزاج کے مطابق بات نہ ہو۔ اس مجلس سے اٹھ جانا چاہئے۔ جہاں صرف شور شرابا اور ’ ہُوہا ‘ہورہا ہے۔ بلا وجہ غل غپاڑا مچایا جارہاہے۔ یہاں نوجوانوں میں اکثر بلا وجہ شور مچانے کی عادت ہے۔ پھر غلط قسم کی لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستیاں ہیں تو ان سے ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ بچیں ان لوگوں میں تو یہ عادت اس وجہ سے بھی ہے کہ ان کو دین کا پتہ کچھ نہیں، ان کادین کا خانہ خالی ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مزے کا نہیں پتہ، اس لئے وہ اپنی باتوں میں، اس شور شرابے میں، سکون اور سرور تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے نوجوانوں کو ہمارے لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ سے ملنے کے راستے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانے میں سکھاد یئے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ ایسی مجلسیں جو لہو و لعب کی مجلسیں ہوں، فضول قسم کی مجلسیں ہوں اور تاش اور ناچ گانے وغیرہ کی مجلسیں ہوں، شراب وغیرہ کی مجلسیں ہوں، ان سے بچتے رہنا چاہئے۔
اگر انسانیت کی ہمدردی ہے تو یہ کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ ان لوگوں کو بھی ان چیزوں سے بچانے کے لئے صحت مند کھیلوں کی طرف لائیں۔ لیکن ان سے متأثر ہونے کی ضرورت نہیں۔ جن دو مجالس کا میں نے ذکر کیا، آنحضرتﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ کس قسم کی مجالس ہیں جن میں ہمیں بیٹھنا چاہئے۔ اور مجالس کے حقوق کیا ہیں اور آداب کیا ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے، ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجالس تین قسم کی ہوتی ہیں۔ سلامتی والی، غنیمت والی یعنی زائد فائدہ دینے والی اور ہلاک کرنے دینے والی مجالس‘‘۔ (مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری)
تو جیسا کہ پہلے بھی ذکر گزر چکا ہے کہ ایسی مجلسوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے جو دین سے دور لے جانے والی ہوں، جو صرف کھیل کود میں مبتلا کرنے والی ہوں۔ ایسی مجلسیں جواللہ تعالیٰ سے دُور لے جانے والی مجلسیں ہیں وہ یہی نہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتی ہیں بلکہ بعض دفعہ مکمل طور پر، بعض دفعہ کیا یقینی طور پر انسان کی ہلاکت کا سامان پیدا کردیتی ہیں۔ اس لئے ہمیشہ ایسی مجالس کی تلاش رہنی چاہئے جہاں سے امن و سکون اور سلامتی ملتی ہو۔
تو سلامتی والی مجالس کیسی ہیں۔ اس بارے میں ایک روایت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کسی نے حضورﷺ سے پوچھا کہ ہم نشیں کیسے ہوں۔ کن لوگوں کی مجلس میں ہم بیٹھیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ’’مَنْ ذَکَّرَکُمُْ اللّٰہَ رُؤْیَتُہٗ وَزَادَ فِیْ عِلْمِکُمْ مَنْطِقُہٗ وَذَکَّرَ کُمْ بِالْآخِرَۃِ عَمَلُہٗ‘‘یعنی ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھو جن کو دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے اور جن کی گفتگو سے تمہارا دینی علم بڑھے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔ (ترغیب)
تو ایسی مجالس سے ہی سلامتی ملتی ہے جہاں ایسے لوگ ہوں جہاں خدا کا ذکر ہورہا ہو، اس کے دین کی عظمت کی باتیں ہورہی ہوں۔ ایسے مسائل پیش کئے جارہے ہوں اور ایسی دلیلیں دی جارہی ہوں جن سے انسان کا اپنا دینی علم بھی بڑھے اور دعوت الی اللہ کے لئے دلائل بھی میسر آئیں۔ اور قرآن کریم کا عرفان بھی حاصل ہورہا ہو۔ اور ایسی باتیں ہوں جن سے صرف اس دنیا کی چکا چوند ہی نہ دکھائی دے بلکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس دنیا کو چھوڑ کر بھی جانا ہے۔ اس لئے ایسے عمل ہونے چاہئیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب کوئی قوم مسجد میں کتاب اللہ کی تلاوت اور باہم درس وتدریس کے لئے بیٹھی ہو تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ رحمت باری ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے جلو میں لے لیتے ہیں۔ (سنن الترمذی کتاب القراءت باب ما جاء ان القرآن انزل علی سبعۃ أحرف)
تو ایسی نیک مجالس ہیں جو سلامتی کی مجلسیں ہیں۔ ان میں عام گھریلو مجالس، اجتماعات، اور جلسے بھی ہوسکتے ہیں۔ جماعت احمدیہ خوش قسمت ہے کہ اس میں ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں۔ اب انشاء اللہ تعالیٰ یہاں کا جلسہ بھی آنے والا ہے اس سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ ہر طرف سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی بارش ہم پر پڑتی رہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں اور وہاں ذکر الٰہی نہیں کرتے وہ اپنی اس مجلس کو قیامت کے روز حسرت سے دیکھیں گے۔ (مسند احمد مسند المکثرین من الصحابۃ مسند ابی ھریرۃ)
تو ایسے لوگ جن کو ایسے مواقع بھی مل جاتے ہیں سفر کرکے خرچ کرکے جلسے پر بھی آتے ہیں۔ لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی مجلسیں جما کر ہنسی ٹھٹھے اور گپیں مار کر چلے جاتے ہیں۔ ان کو سوچنا چاہئے اور اس حدیث کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے اس لئے جو بھی جلسے پہ آنے والے ہیں اس نیت سے آئیں کہ ان دنوں میں خاص طور پر اپنی زبانوں کو ذکر الٰہی سے تر رکھیں گے۔
پھر ایک روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جب کچھ لوگ اکٹھے ہوں اور بغیر اللہ کا ذکر کئے الگ ہو جائیں تو ضرور ان کا حال ایسا ہی ہے گویا کہ وہ مردہ گدھے کے پاس سے واپس آرہے ہیں۔ اور ان کی مجلس ان کے لئے افسوسناک بات بن جائے گی۔ (ابو داؤد کتاب الآداب باب فی کفارۃ المجلس)
گویا ایسی مجالس جو ہوں تو دینی اغراض کے لئے لیکن ان کی برکات سے فیضیاب نہ ہورہے ہوں، ان سے فائدہ نہ اٹھارہے ہوں اور اپنی علیحدہ مجلسیں لگانے کی وجہ سے ان کا یہ حال ہورہا ہے کہ بجائے اس کے کہ ان دینی مجالس سے فائدہ اٹھائیں۔ جہاں اللہ اور رسولؐ کا ذکر ہو رہا ہے الٹا مردار کی بدبو لے کر واپس جارہے ہوتے ہیں، یعنی بجائے فائدے کے نقصان اٹھارہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے بچائے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دوشخصوں کی طرح ہے جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو۔ کستوری اٹھانے والا تجھے مفت خوشبو دے گا یا تو اس سے خرید لے گا۔ ورنہ کم ازکم تو اس کی خوشبو اور مہک تو سونگھ ہی لے گا۔ اور بھٹی جھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلادے گا یا اس کا بدبودار دھواں تجھے تنگ کرے گا۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب استحباب مجالسۃ الصالحین)
یہ بھی ان مجالس کے ضمن میں ہے کہ ہمیشہ ایسی مجالس میں بیٹھنا اور اٹھنا چاہئے جہاں سے نیکی کی باتیں پتہ لگیں۔ تقویٰ کی باتیں پتہ لگیں، اللہ اور رسولؐ کے احکامات کا علم ہو۔ اگر اپنی اصلاح کرنی ہے اور اپنی زندگی سنوارنا چاہتے ہیں اور دینی علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیشہ جیسا کہ حدیث میں آیا اپنی صحبت نیک لوگوں میں رکھنی چاہئے اور ایسی مجالس کی تلاش میں رہنا چاہئے۔
اس بات کو ایک حدیث میں یوں بھی بیان فرمایا ہے۔ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ تم مومن کے سوا کسی اور کے ساتھ نہ بیٹھو۔ اور متقی آدمی کے سوا اور کوئی تمہارا کھانا نہ کھائے۔ (ترغیب والترھیب بحوالہ صحیح ابن حبان)
بعض کمزور طبیعتیں بعض کا اثر جلدی لے لیتی ہیں۔ بجائے اثر انداز ہونے کے۔ اس لئے ایسے لوگوں کو بہر حال ایسی دوستیوں اور ایسی مجلسوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ہمیشہ یہی کوشش ہونی چاہئے کہ تقویٰ پر قائم رہنے والوں کا، نیکی پر قائم رہنے والے لوگوں کا آنا جانا ہو اور جس حد تک بھی ان بری صحبتوں سے بچا جاسکے بچنا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’جب انسان ایک راستباز اور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے لیکن جو راستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کر جاتی ہے۔ اسی لئے احادیث اور قرآن شریف میں صحبت بد سے پرہیز کرنے کی تاکید اور تہدید پائی جاتی ہے۔ اور لکھا ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اہانت ہوتی ہو اس مجلس سے فی الفور اٹھ جاؤ۔ ورنہ جو اہانت سن کر نہیں اٹھتا اس کا شمار ان میں ہی ہوگا۔ صادقوں اور راستبازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہوتا ہے اس لئے کس قدر ضرورت ہے اس امر کی کہ انسان {کُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ} کے پاک ارشاد پر عمل کرے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے۔ وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھ لیتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذکر کررہے تھے۔ مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی ان میں سے ہی ہے کیونکہ اِنَّھُمْ قَوْمٌ لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کی صحبت سے کس قدر فائدے ہیں۔ سخت بد نصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ507۔ الحکم جنوری ۱۹۰۴)
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پاک مجالس میں تو بیٹھتے ہیں لیکن ان مجالس کی نیکیوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی سوچ ہی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کوئی بری بات نظر آئے تو اس کو لے کر زیادہ شور مچایا جاتا ہے۔ تو ایسے لوگوں کی ہی مثال دیتے ہوئے آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اس شخص کی مثال جو حکمت کی بات سنے اور پھر سنی ہوئی باتوں میں سے سب سے شرانگیز بات کی پیروی کرے ایسے شخص کی ہے جو ایک چرواہے کے پاس آیا اور کہا کہ اپنے ریوڑ میں سے مجھے ایک بکری کاٹ دو۔ تو چرواہا اسے کہے کہ اچھا ریوڑ میں سے تمہیں جو بکری سب سے اچھی لگتی ہے اسے کان سے پکڑلو۔ تو وہ جائے اور ریوڑ کی حفاظت کرنے والے کتے کو کان سے پکڑ لے۔ (مسند احمد باقی مسند المکثرین باقی المسند السابق)
تو ایسے لوگ جو اس سوچ کے ہوتے ہیں اور اس سوچ سے مجلسوں میں آتے ہیں باہر نکل کر اچھی باتوں کا ذکر کرنے کی بجائے اگر انہوں نے کسی کی وہاں برائی دیکھی ہوتو اس کا زیادہ چرچا کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کی صلاحیت ہی یہی ہے اور ان کی کم نظری یہ ہے کہ انہوں نے کتے کے علاوہ کچھ دیکھا ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے آگے بڑھ کر صرف کتے کا کان ہی پکڑتے ہیں۔ اچھی مجلسوں سے فائدہ اٹھانا بھی مومن کی شان ہے۔
اب بعض مجالس کے حقوق کا میں ذکر کرتا ہوں کہ مجلسوں کے آداب کیا ہیں، ان کے حقوق کیا ہیں اور ان میں بیٹھنا کس طرح چاہئے۔ آنحضرتﷺ جب مجلس میں آتے آپؐ کی یہ کوشش ہوتی کہ کسی کو تکلیف نہ ہو اس لئے ہمیشہ اس حالت میں مجلس میں آیا جائے جو مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لئے بھی آسانی کا باعث بنے اور ان کی طبیعتوں پر بھی اچھا اثر ڈالے۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ آپؐ کے وجود سے ایسی بُو آئے جس سے تکلیف ہو۔ (مسند احمد بن حنبل باقی مسند الانصار)
دیکھیں کتنی نفاست ہے، حالانکہ آپؐ کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ آپؐ کے جسم سے ایک عجیب طرح کی خوشبو اٹھا کرتی تھی، بدبو کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ تو اصل میں تو یہ اظہار اپنی مثال دے کر دوسروں کے لئے تھا کہ آپؐ کی نفیس طبیعت پر گراں تھا کہ کوئی بھی ایسی حالت میں مجلس میں آئے جس سے دوسروں کو تکلیف ہو۔ اس لئے جمعہ وغیرہ پر عیدین پر ہمیشہ خوشبو لگا کر آنے کی تلقین ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ یہ دن یعنی جمعہ کا دن عید ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کے لئے بنایا ہے۔ جوکوئی جمعہ ادا کرنے کی غرض سے آئے اسے چاہئے کہ وہ غسل کرے اور جس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبو لگائے اور مسواک کرنا اپنے لئے لازمی کرلو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا باب ما جاء فی الزینۃ یوم الجمعۃ)
تو یہ بھی مجالس کے آداب میں سے ایک ادب ہے اور مجلس کے حقوق میں سے اس کا ایک حق ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’کہ انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ جو شخص باطنی طہارت پر قائم ہونا چاہتا ہے وہ ظاہری پاکیزگی کا بھی لحاظ رکھے۔ پھر ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتاہے { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ}(البقرۃ: 223) یعنی جو لوگ باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں میں ان کو دوست رکھتا ہوں۔ ظاہری پاکیزگی، باطنی طہارت کی ممد اور معاون ہے‘‘۔ یعنی ظاہری پاکیزگی کی وجہ سے باطنی پاکیزگی بھی ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے جو چاہیں۔ ’’ اگر انسان اسے ترک کردے اور پاخانہ پھر کر بھی طہارت نہ کرے تو باطنی پاکیزگی پاس بھی نہیں پھٹکتی۔ پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ کم ازکم جمعہ کے دن ضرور غسل کرے، ہر نماز میں وضو کرے، جماعت کھڑی ہو تو خوشبو لگائے، عیدین اور جمعہ میں جو خوشبو لگانے کا حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے غسل کرنے اور پاک صاف کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے سے سمیّت اور عفونت سے روک ہوگی‘‘۔ یعنی زہر اور عفونت سے روک ہوگی’’ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ قانون مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھاہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ164 رسالۃ الانذار صفحہ ۵۴ تا ۷۳)
پھر آجکل گرمیوں میں اب یہاں بھی کافی گرمی ہونے لگ گئی ہے، پسینہ کافی آتا ہے تو خاص طور پر یہ اہتمام ہونا چاہئے کہ مسجدوں میں یہاں کیونکہ قالین بھی بچھے ہوتے ہیں اس لئے جرابوں کی صفائی کا ضرور خیال رکھنا چاہئے۔ روزانہ دھلی ہوئی جراب پہننی چاہئے۔ تاکہ مجلس میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ(کئی قسم کی طبائع کے لوگ ہوتے ہیں ) بھی کو برا نہ منائیں۔ مجالس کے آداب کے ضمن میں آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک حدیث میں روایت اس طرح ہے یقینا اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے اور ہر وہ شخص جواَلْحَمْدُ لِلّٰہ کی آواز سنے اسے چاہئے کہ وہ کہے یَرْحَمُکَ اللّٰہ یعنی اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے۔ جہاں تک جمائی کا تعلق ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے دبانے کی کوشش کرے، بعض لوگ تو نہیں دبا سکتے لیکن کوشش یہ کرنی چاہئے کہ دبائی جائے۔ لیکن کم ازکم یہ ضرور ہو فرمایا کہ’ منہ کھول کر ہاہا نہ کرے۔ کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے آتی ہے۔ یعنی سستی کا موجب ہوتی ہے اور وہ اس کے آنے پر ہنستا ہے۔ (ترمذی ابواب الاستیذان والادب باب ماجاء ان اللہ یحب العطاس ویکرہ التثاوب)
تو بعض لوگ مجلس میں بیٹھے ہوتے ہیں، جمائی آگئی، دبانا تو کیا منہ پر ہاتھ بھی نہیں رکھتے اور پھر ساتھ بازو پھیلا کے انگڑائی بھی ایسی لیتے ہیں کہ بعض دفعہ بازو جو پھیلتا ہے تو ساتھ والے شخص کے کہیں نہ کہیں ناک منہ پہ لگ جاتا ہے اور بچے بڑوں کی یہ عادت دیکھتے ہیں تو بچے بھی(وقف نو کلاس میں مَیں نے ذکر بھی کیا تھا) اس کا خیال نہیں رکھتے۔ ہمیشہ منہ پہ ہاتھ رکھیں اور ضروری نہیں کہ ساتھ انگڑائی بھی لی جائے۔ اور بعض لوگ تو میں نے دیکھا ہے مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے ایسی زور سے جمائی لیتے ہیں تو آوازیں نکالتے ہیں۔ یہاں تو ہاہا ہے لیکن وہ تو ہائے وائے کی آوازیں نکل رہی ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ شک پڑ جاتا ہے کہ کسی کو کچھ ہو نہ گیا ہو۔ تو نماز پڑھتے وقت کم ازکم احتیاط کرنی چاہئے۔
مجالس کے آداب اور اس کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ جب مجلس میں بیٹھیں تو مجلس میں اگر بات کررہے ہیں تو اس طرح کریں کہ سب سن رہے ہوں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ دو افراد اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر آپس میں کھسر پھسر نہ کریں کیونکہ ایسا کرنا تیسرے شخص کو رنجیدہ کر دے گا۔ (ابو داؤد کتاب الادب باب فی التناجی)
تو بعض دفعہ یہ رنجیدگی بعض طبائع کی وجہ سے لڑائیوں اور جھگڑوں کی وجہ بن جاتی ہے۔ بد ظنیوں کی وجہ بن جاتی ہے تو ہمیشہ مجلسوں میں اس طرح کرنے سے بچنا چاہئے اور اگر کسی سے انتہائی ضروری بات کرنی بھی ہے تو جو ساتھ بیٹھا ہوا شخص ہے اس سے اجازت لے کر، کہ میں فلاں شخص سے فلاں ضروری بات کرنا چاہتاہوں ایک طرف لے جاکے کرنی چاہئے تاکہ کسی بھی قسم کی بدظنی پیدا نہ ہو کیونکہ شیطان جو ہے ہروقت اس تاک میں ہے کہ کسی طرح فساد پیدا کرے۔
ایک روایت میں آتا ہے ایسے لوگوں کے بارے میں جو رستوں پہ مجلسیں جما کے بیٹھ جاتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ رستوں پر بیٹھنے سے بچو، اس پر صحابہؓ نے عرض کی کہ ہمیں رستوں پر مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، وہاں بیٹھ کر ہم باتیں کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر تم راستوں پر نہ بیٹھنے سے انکار کرتے ہو یعنی اس کے علاوہ کوئی چارا نہیں ہے تو پھر رستے کو اس کا حق دو۔ اس پر صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! راستے کا کیا حق ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا غض بصر سے کام لینا۔ پھراپنی آنکھیں نیچی رکھو، ہر ایک کو دیکھتے نہ رہو۔ اور تکلیف دہ چیزوں کو دور کرنا۔ وہاں بیٹھے ہوئے بازار میں کوئی تکلیف دہ چیز دیکھو یا سڑک پر تو اس کو ہٹانے کی کوشش کرو، بعض لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں ان میں بھی صلح و صفائی کرانے کی کوشش کرو۔ پھر سلام کا جواب دینا، نیک باتوں کا حکم دینا۔ اگر کہیں بری بات دیکھو تو پیار سے سمجھاؤ۔ اور ناپسندیدہ باتوں سے منع کرنا۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی الجلوس بالطرقات)
راستے کی مجلسیں لگانے والوں کو فرمایا کہ اگر ایسی مجبوری ہے کہ تم اس کو چھوڑ نہیں سکتے تو یہ جو باتیں گنوائی گئی ہیں اس حدیث میں تو ان کی طرف توجہ دو اور یہ راستے کے حق ہیں اور ان کو ادا کرو تب تم راستے میں مجلس لگانے کا حق ادا کررہے ہوگے۔ نہیں تو پھر کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مجلسیں لگاؤ۔
پھر مجلس میں بیٹھنے کے آداب ہیں بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اس طرح بیٹھے ہیں ایسا زاویہ ہوتا ہے کہ دائیں بائیں (اگر کہیں رش ہے تو) کوئی دوسرا بیٹھ نہ سکے، باوجود اس کے کہ جگہ ہوسکتی ہے۔ تو ایسی مجالس میں جہاں رش کا زیادہ امکان ہو ہمیشہ اس طریق سے بیٹھنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے جگہ بنا سکے، اس سے وسعت قلبی بھی پیدا ہوتی ہے اور ایک مومن کی یہی شان ہے کہ اپنے دل کو وسیع کرے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بہترین مجالس وہ ہیں جو کشادہ ہوں ‘‘۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی سعۃ المجلس)
تو آنحضرتﷺ کا تو ہر فعل اور آپؐ کا ہر خلق قرآن کریم کے مطابق تھا تو یہ بھی تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجَالِسِ کی ہی تشریح ہے کیونکہ اگر یہ کشادگی پیدا ہوگی اور خوش دلی سے جگہ کو کشادہ کرو گے تو آپس میں محبت اور اخوت بھی بڑھے گی۔ اور اس وجہ سے شیطان تمہارے اندر رنجشیں پیدا نہیں کرسکے گا بلکہ تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہوگے۔
مجالس میں بیٹھنے کے ضمن میں ایک روایت میں آتا ہے کہ تم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اس غرض سے نہ اٹھائے کہ تا وہ خود اس جگہ بیٹھے۔ وسعت قلبی سے کام لو اور کھل کر بیٹھو۔ چنانچہ ابن عمرؓ کا طریق تھا کہ جب کوئی آدمی آپ کو جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے۔ (بخاری کتاب الاستیذان باب اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس)
خود تو ہر مومن کو یہی چاہئے کہ دوسرے کا خیال رکھے اور اپنے بھائی کو بیٹھنے کے لئے جگہ دے لیکن کسی دوسرے آنے والے کا حق نہیں بنتا کہ زبردستی کسی کو اٹھائے کہ یہ جگہ میرے لئے خالی کرو۔ یہ بھی مجلس کے آداب کے خلاف ہے اور اس بیٹھنے والے کے حق کے خلاف ہے سوائے اس کے کہ جہاں اجازت ہے، ایسی مجالس میں جہاں مجبوری ہو اٹھانے کے لئے کہا جائے۔ وہ تو قرآن شریف میں بھی حکم آیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ اگرمجلسوں میں تمہیں کہا جائے کہ کشادہ ہو کر بیٹھو یعنی دوسروں کو جگہ دو تو جلد جگہ کشادہ کردوتا دوسرے بیٹھیں اور کہا جائے کہ تم اٹھ جاؤ تو بغیر چون وچرا کے اٹھ جاؤ‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۰ صفحہ۳۶۶)
تو جہاں قرآن کریم میں یہ کشادگی کا حکم ہے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اگر مجلس سے اٹھایا جائے اور انتظامیہ اگر کہے کسی وجہ سے کہ یہاں سے بعض لوگ چلے جائیں، اٹھ جائیں، تو اٹھ جایا کرو۔ کیونکہ بعض مجالس مخصوص ہوتی ہیں ان میں ہر ایک کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تو یہاں بھی ہر احمدی کو کھلے دل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ بعض دفعہ شکایات آجاتی ہیں کہ فلاں عہدیدار نے فلاں مجلس میں مجھے اٹھا دیا یا میرے فلاں بزرگ کو اٹھا دیا۔ تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکوہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ نظام ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ مومن کا شیوہ نہیں ہے کہ ایسی باتوں کا شکوہ کرے۔
پھر بعض مجالس ایسی ہیں مثلاً انتخاب وغیرہ میں بھی بعض لوگ حسب قواعد نہیں بیٹھ سکتے، ان میں بعض کمیاں ہوتی ہیں تو اس پر شکوے بھی نہیں کرنے چاہئیں۔ بڑی خاموشی سے چلے جانا چاہئے۔ یا پھر جو ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا ادا کرنا چاہئے۔ وہ قواعد جن کی پابندی ضروری ہے اور جماعت نے مقرر کئے ہیں وہ کرنے چاہئیں۔ اگر قواعد پہ عمل نہیں کیا پھر شکوے بھی نہ کریں۔ یہ بھی اس مجلس کا حق ہے کہ اگر اٹھایا جائے تو اٹھ جائیں۔ مجلس میں جگہ دینے کے بارے میں آنحضرتﷺ کس قدر خیال فرماتے تھے۔ اس کا اظہار ایک روایت سے ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا، حضور علیہ السلام اسے جگہ دینے کے لئے اپنی جگہ سے کچھ ہٹ گئے۔ وہ شخص کہنے لگا حضور جگہ بہت ہے آپﷺ کیوں تکلیف فرماتے ہیں۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایا ایک مسلمان کا حق ہے کہ اس کے لئے اس کا بھائی سمٹ کر بیٹھے اور اسے جگہ دے۔ (بیھقی فی شعب الایمان۔ مشکوٰۃباب القیام)
تو دیکھیں جب ہمارے آقا و مطاع اپنے عمل سے یہ دکھا رہے ہیں تو ہمیں کس قدر ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مجلس میں آجائے تو بعض لوگ اور زیادہ چوڑے ہوکے اور پھیل کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہمارے بیٹھنے میں تنگی نہ ہو۔
جلسے کے دنوں میں خاص طور پہ جو مہمان آرہے ہیں اور یہاں والے بھی سن رہے ہیں، انشاء اللہ بہت سارے لوگ ہوں گے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ بعض دفعہ جگہ کی تنگی ہو جاتی ہے۔ انتظامیہ کے اندازے بالکل ختم ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں دوسروں کو ضرور جگہ دینی چاہئے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی جلسہ گاہ یا مسجد وغیرہ کے لئے اپنی جگہ سے اٹھے تو واپس آنے پر وہ اس جگہ کا زیادہ حق دار ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب السلام باب اذا قام من مجلسہ ثم عاد فھو احق بہ)
تو بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے، وہ اس تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ فلاں جگہ اگر خالی ہو تو میں جاکر بیٹھوں یا بعض دفعہ کسی مجلس میں کسی کی کوئی پسندیدہ شخصیت یا کوئی دوست وغیرہ ہو تو اس کے اردگرد اگر جگہ نہیں ہوتی تو اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے بھی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح حاصل کیا جائے۔ تو جب بھی موقع ملے کوئی جگہ خالی ہو چاہے کوئی عارضی طور پر پانی پینے کے لئے وہاں سے اٹھا ہو، کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہاں پہ بیٹھ جایا جائے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ چاہے یہ دینی مجالس ہیں یا دعوتوں وغیرہ پر آپ اکٹھے ہوئے ہوئے ہیں یا کہیں بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔ جو کسی کام سے عارضی طور پر اٹھ کر اپنی جگہ سے گیا ہے تو یہ اُسی کی جگہ ہے کسی دوسرے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کی جگہ پر بیٹھ جائے۔ یہ بڑی غلط چیز ہے۔ اور اگر وہ واپس آئے اور آپ ایک دومنٹ کے لئے بیٹھ بھی گئے ہیں تو فوراً اٹھ کر اس کو جگہ دینی چاہئے۔
ایک روایت میں آتا ہے ابن عَبدہ اپنے والد اور دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کوئی شخص مجلس میں آکر دو افراد کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی الرجل یجلس بین الرجلین …)
یہ بھی ایک بہت بری عادت ہے کہ جہاں جگہ دیکھی فوراً آکے بیٹھ گئے۔ اول تو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اگرتین کرسیاں پڑی ہیں تو جو ساتھ جڑی ہوئی کرسیاں ہیں ان پر بیٹھیں تا کہ تیسرا شخص بھی آکے بیٹھ سکے۔ اور اگر کسی وجہ سے خالی پڑی ہے تو آنے والے کو پوچھنا چاہئے تو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو بنیادی اخلاق ہیں اور ہر احمدی میں ان کا موجود ہونا ضروری ہے۔
مجالس کے بارے میں یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ مجالس امانت ہوتی ہیں۔ یعنی جس مجلس میں بیٹھے ہیں اگر وہ پرائیویٹ ہے یا کسی خاص قسم کی مجلس ہے تو اس میں ہونے والی باتوں کو باہر نکالنے کا کسی کوحق نہیں پہنچتا۔ وسیع مجلس یا جلسہ وغیرہ کی اور بات ہے۔ جو پرائیویٹ مجالس ہیں اگر کوئی خاص باتیں ہورہی ہیں تو سننے والوں کو انہیں باہر نہیں نکالنا چاہئے۔ اسی طرح دفتری عہدیداران کو بھی یا کارکنوں کو بھی دفتر میں ہونے والی باتوں کو کبھی باہر نہیں نکالنا چاہئے۔ پھر مختلف ذیلی تنظیمیں ہیں، جماعتی کارکنان ہیں ان کو بھی اپنے رازوں کو راز رکھنا چاہئے۔ یہ بھی مجلس کا حق ہے اور ایک امانت ہے۔ اس کو کسی طرح بھی باہر نہیں نکلنا چاہئے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مجلس کی ہر بات امانت ہوتی ہے سوائے تین قسم کی مجالس کے نمبر1 ایسی مجالس جن میں ناحق خون کرنے کا منصوبہ ہو۔ نمبر2بدکاری کرنے کا منصوبہ ہو اور نمبر3، ایسی مجالس جن میں کسی کا ناحق مال دبانے کا منصوبہ ہو۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی نقل الحدیث)
تو فرمایاکہ ایسی مجالس جن سے کسی کے ذاتی نقصان کا یا قومی نقصان کے احتمال کا، اندیشے کا اظہار ہوتا ہو وہ ضرور متعلقہ لوگوں تک پہنچائی جانی چاہئیں۔ اس کے علاوہ باقی سب امانت ہے۔ کیونکہ اگر یہ باتیں نہیں پہنچائیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی اس جرم میں شریک ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے مجلسیں برخاست کرنے کے بارے میں کہ مجلس برخاست کرتے یا مجلس سے اٹھتے ہوئے آنحضرتﷺ کا کیا طریق تھا اور ہمیں آپؐ نے کیا سکھایا۔ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کا یہ معمول تھا کہ جب مجلس برخاست کرنا ہوتی اور آپؐ اٹھنا چاہتے تو مجلس کے آخر پر یہ دعاکرتے :’’ اے اللہ تو پاک ہے اور تیری حمد کی قسم میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے مغفرت کا طلبگار ہوں اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں ‘‘۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی کفارۃ المجلس)
ایک مرتبہ اسی طرح آپؐ نے دعا کی تو ایک شخص نے کہا کہ یارسول اللہ ! اب آپ ایک ایسی دعا کرنے لگ گئے ہیں کہ پہلے آپ نہیں کیا کرتے تھے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا یہ دعا ان باتوں کا کفارہ ہوگی جو مجلس میں ہوجاتی ہیں۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی کفارۃ المجلس)۔ یعنی آپ نے یہ سکھایا کہ مجلس میں بعض ایسی باتیں بھی ہو جاتی ہیں جو تکلیف دہ ہوتی ہیں ان کے کفارے کے طور پر۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ کچھ ایسے کلمات ہیں جس نے بھی ان کو اپنی مجلس سے اٹھتے ہوئے تین مرتبہ پڑھا تو اللہ تعالیٰ ان کے طفیل اس کے وہ گناہ جو اس نے وہاں کئے ہوں گے ان کو ڈھانپ دے گا۔ اور جس نے یہ کلمات کسی خیر کی مجلس میں اور ذکر الٰہی کی مجلس میں پڑھے تو ان کے ساتھ اس پر مہر کردی جائے گی جیسے کہ مہر کے ساتھ کسی صحیفہ پر مہر کر دی جاتی ہے۔ اور وہ کلمات یہ ہیں۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ۔ اے اللہ تو اپنی حمد کے ساتھ، پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے بخشش کا طالب ہوں اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی کفارۃ المجلس)
پس مجالس میں بہت سی باتیں انجانے میں ایسی ہو جاتی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، جو نقصان کا باعث بن سکتی ہیں اسلئے مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنی چاہئے کہ ہر شیطان کے حملے سے ہمیں محفوظ رکھے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو۔ بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا۔ وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔ گناہ سے بچنے کے لئے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہو اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء وقدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہر گز رہائی نہیں ہوتی‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 96 البدر ۸، ۱۶ ستمبر ۱۹۰۴)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ پاک مجلسوں میں بیٹھنے والے ہوں، اور ان مجالس کی خوبیاں اپنانے والے ہوں، اور ہر وقت شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل، رحم اور مغفرت مانگنے والے ہوں اور ہر احمدی کی ہر مجلس صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف لے جانے والی ہو، نہ کہ شیطان کی طرف لے جانے والی اور فساد پیدا کرنے والی مجلس۔ (آمین)
تم نے جن اخلاق کا مظاہرہ کرناہے ان میں سے ایک خُلق مجالس کے حقو ق بھی ہیں۔ ایک احمدی کو اس خُلق کی ادائیگی کی طرف خاص طورپر بہت توجہ دینی چاہئے۔
٭…دین کے معاملہ میں کبھی بے غیرتی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے
٭…نیک اور سلامتی کی مجالس … اجتماعات اور جلسے
٭…مجالس کے آداب اور نیک مجالس کی اہمیت
۱۶؍جولائی۲۰۰۴ء بمطابق۱۶؍وفا ۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔