سچا مومن وہی ہے جو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کرتا ہے
خطبہ جمعہ 23؍ جولائی 2004ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
{وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الۡاِیۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ}۔ (سورۃ الحشر آیت نمبر10)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت جہاں جہاں بھی دنیا میں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکی ہے وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعے برطانیہ کا بھی جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ خلیفہ وقت کی فی الحال لندن میں موجودگی، یا برطانیہ میں موجودگی یا عارضی لیکن لمبے عرصے کے قیام کی وجہ سے اس جلسے کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے آپ کو بعض دفعہ مالی مشکلات میں ڈال کر بھی اور بعض دفعہ جسمانی عوارض اور تکالیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی اس جلسے میں شامل ہونے کے لئے آتے ہیں اور اس طرح یہاں دنیا کے بہت سے ممالک کی نمائندگی ہو جاتی ہے۔ گو اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب میں کینیڈا گیا ہوں تو کینیڈا کے جلسے میں بھی 31ممالک کی نمائندگی ہو گئی تھی۔ اور خاص طور پر وہاں قریب کے جو ممالک تھے، جنوبی امریکہ کے ممالک ان کے کافی نمائندے وہاں آ گئے جو پہلے کبھی جلسوں میں اس طرح شامل نہیں ہوئے۔ پھر تعداد کے لحاظ سے بھی بعض ممالک کے جلسوں کی تعداد یہاں کے جلسوں سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ مثلاً افریقہ کے دورے پہ جب میں گیا ہوں تو وہاں گھانا میں ہی 40ہزار سے زائد تعداد تھی۔ اور پھر نائیجیریا میں صرف دو تین گھنٹے کے لئے ہی 31-30ہزار احمدی مردو خواتین اکٹھے ہو گئے تھے۔ تو اس لحاظ سے دنیا کے مختلف ممالک میں جلسے کی برکات سمیٹنے اور اس سے فیضیاب ہونے کے لئے احمدی اکٹھے ہوتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستان سے ہجرت کی وجہ سے جو خلیفۂ وقت کو کرنی پڑی، انگلستان کے سالانہ جلسہ کو کم و بیش اس کووہی حیثیت حاصل ہو گئی جو مرکزی جلسے کی ہوتی ہے۔ کیونکہ برطانیہ کا جلسہ ہی وہ واحد جلسہ ہے جس میں گزشتہ 21-20سال سے خلیفۂ وقت کی باقاعدہ شمولیت ہو رہی ہے۔ اور ماشاء اللہ انگلستان کی جماعت نے اس ذمہ داری کو خوب نبھایا ہے۔ اور آہستہ آہستہ جلسے کے انتظامات کو اپنی لائنوں پر جس طرح مرکز میں ہوتا تھا یہاں بھی چلا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو آئندہ بھی توفیق دیتا رہے۔ پہلے تو یہاں کے جلسے بڑے مختصر سے ہوتے تھے، اتنے بڑے اور وسیع انتظامات کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن بہرحال اب تو کافی وسیع جلسے ہونے لگ گئے ہیں۔ کیونکہ پہلے تو پوری طرح کارکنان کو اٹکل سے کام کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں آہستہ آہستہ تمام انتظامات بہتر ہونے شروع ہوئے اور اب کافی ترقی ہو چکی ہے۔ اور پھر گزشتہ سال بھی انتظامیہ نے اپنی بہت سی کمزوریوں کی اصلاح کی اور اس سال بھی کوشش کر رہے ہیں اور بعض باتوں کا اگر میں نے ضمناً بھی ذکر کیا ہے تو امیر صاحب نے فوراً اس کے مطابق اصلاح کی کوشش کی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جلسے کے تمام انتظامات میں برکت ڈالے۔ میرے نزدیک جو بنیادی حیثیت ان انتظامات میں ہے وہ مہمان نوازی کی ہے۔ اگر مہمان نوازی کا نظام ٹھیک ہو جائے تو پھر جلسے کے باقی انتظامات کی حیثیت معمولی رہ جاتی ہے۔ کیونکہ باقی انتظامات میں بھی افراتفری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کھانے کے انتظام میں گڑ بڑ ہو جائے یا اسی طرح جودوسرے مہمان نوازی سے متعلقہ انتظامات ہیں ان میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے یا خاطر خواہ انتظام نہ ہو تو اس لحاظ سے یہ مہمان نوازی کا شعبہ بہت اہم شعبہ ہے۔ اس لئے ہر خدمت کرنے والے کارکن کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس نے ہمیشہ جہاں اپنی ڈیوٹی کو صحیح طرح انجام دینا ہے وہاں حسن اخلاق کا رویہ بھی قائم رکھنا ہے اور ہمیشہ مہمانوں سے بڑی نرمی سے پیش آنا ہے۔
قرآن کریم نے ہمیں یہ سنہری اصول بتا دیا کہ یہ مہمان نوازی، خدمت کا جذبہ اور جوش اس وقت پیدا ہو گا جب تم دلوں میں محبت پیدا کرو گے۔ اور جب یہ محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے گی تو پھر تم اپنے آرام پر، اپنی ضروریات پر، اپنی خواہشات پر، ان دور سے آنے والوں کی ضروریات کو مقدم کرو گے اور ان کو فوقیت دو گے۔ اور اگر اس جذبے کے تحت خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم فلاح پا گئے، تم کامیاب ہو گئے۔ اور خاص طور پر ان مہمانوں کے لئے اپنے ان اعلیٰ جذبات کا اظہار کرو گے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں تو پھر تم یقینا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مستحق ٹھہرو گے۔ مہمان نوازی تو نبیوں اور نبیوں کے ماننے والوں کا ایک خاص شیوہ ہے۔ دیکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی مہمان نوازی کو دیکھتے ہوئے فوراً اس وقت آنے والوں سے یہ نہیں پوچھا کہ تم کھانا کھاؤ گے کہ نہیں، ایک بچھڑا ذبح کر دیا اور حضرت خدیجہ ؓ نے بھی پہلی وحی کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوئی تواور بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی حضرت خدیجہ ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا کہ فکر نہ کریں خداتعالیٰ آپ ؐ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ میں مہمان نوازی کا وصف بھی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں آپؐ کے اس اعلیٰ خلق کو اختیار کریں اور آپؐ کے عاشق صادق کے مہمانوں کی خدمت میں جلسے کے ان دنوں میں خاص طور پر کمر بستہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے وارث بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایمان کی یہ نشانی بتائی ہے کہ سچا مومن وہی ہے جو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار)
تو اعلیٰ اخلاق بھی ایمان کی نشانی ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی قسم کھائی ہے۔ ہم جو آپؐ کی امت میں شمار ہوتے ہیں ہم نے بھی انہیں قدموں کی پیروی کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح حکم ہے کہ تم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جو میرا پیارا رسول ہے، اس کے اُسوۂ حسنہ پر چلو۔ اور آپؐ نے ہمیں فرمایا کہ اگر میری پیروی کرنے والے شمار ہونا ہے تو ہمیشہ تمہارے منہ سے عزیزوں، رشتہ داروں، قریبیوں، تعلق داروں اور ہر ایک کے بارے میں خیر کے کلمات نکلنے چاہئیں۔ پھر پڑوسی کے ساتھ بھی عزت اور احترام کا سلوک ہے۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمیں شک پڑتا تھا کہ جس طرح پڑوسی کے حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کہیں وہ ہمارے وارث ہی نہ ٹھہر جائیں، وراثت میں بھی ان کا حصہ نہ ہو۔ پھر اس میں مہمان کا احترام کرنا بھی بتایا ہے اور پھر جو مہمان ہیں وہ تو تمہارے قریب آ کر جب ساتھ رہنے لگ گئے تو ہمسائے بھی بن گئے اس لئے مہمان کا تو دوہرا حق ہو گیا کہ ایک مہمان اور دوسرے جب تک یہاں ہیں تمہارے ہمسائے بھی ہیں۔ اور ان کے بارے میں تمہارے منہ سے کوئی بھی ایسی بات نہیں نکلنی چاہئے جو ان لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنے، کسی تکلیف کا باعث بنے۔
ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو وفود آتے تھے آپؐ ان کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ ؓ کے سپرد کر دیتے۔ ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد حاضر ہوا تو آپؐ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ انصار ان لوگوں کو لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپؐ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میز بانوں نے تمہاری مدارات کیسی کی۔ انہوں نے کہایا رسول اللہ! بڑے اچھے لوگ ہیں ہمارے لئے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 431)
الحمدللہ کہ ہمارے ہاں جماعت میں بھی یہ نظارے دیکھنے میں آتے ہیں اور یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی وجہ سے یہ اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ربوہ میں بھی ہم نے یہی دیکھا بلکہ خود بھی اسی طرح کرتے رہے کہ مہمان جن سے کوئی خونی رشتہ بھی نہیں ہوتا بلکہ اکثر دفعہ سال کے سال ملاقات ہوتی ہے اور بعض دفعہ کئی سال کے بعد کیونکہ جماعتی نظام کے تحت جس کو جس گھر میں ٹھہرایا جائے اس نے وہیں ٹھہرنا ہوتا ہے اور اس لئے ضروری نہیں ہوتا کہ ہر مرتبہ ہر مہمان وہیں ٹھہرے، بعض دفعہ مہمان بدل بھی جاتے ہیں تو صرف اس لئے ان جلسے پہ آنے والے مہمانوں کو مہمان بنا کر گھروں میں رکھا جاتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں اور اسی لئے اپنے آرام کو ان کی خاطر قربان کیا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے یہاں بھی آپ لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے لئے اسی طرح حوصلہ دکھاتے رہے ہیں اور انشاء اللہ دکھاتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ پہلے سے بھی بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کریں۔ اس دفعہ جب میں کینیڈا گیا ہوں تو بعض احمدی گھروں میں یہ دیکھ کر ربوہ کے جلسوں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی کہ گھر والے نیچے ایک کمرے میں یا بیس منٹ(Basement)میں محدود ہو گئے ہیں اور گھر کے کمرے مہمانوں کو دے دئیے، ان مہمانوں کو جن کو جانتے بھی نہیں، کوئی خون کا رشتہ بھی نہیں لیکن ایک مضبوط رشتہ ہے، احمدیت کا رشتہ، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہی اس رشتے کو قائم کیا ہوا ہے اور اس مضبوط رسی کو پکڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر ملک میں ہمیں یہ نظارے دکھائے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپؐ نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ۔ جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں۔ اس پر حضورؐ نے صحابہ ؓ سے فرمایا اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا۔ ایک انصاری نے عرض کیا: حضور! میں انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا او ربیوی سے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کا اہتمام کرو۔ بیوی نے جواباً:کہا۔ آج گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ انصاری نے کہا اچھا تو کھانا تیار کرو اور چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر اور بہلا کر سلا دو۔ چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا، چراغ جلایا، بچوں کو بھوکا سلا دیا۔ پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا۔ اور پھر دونوں مہمانوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ بظاہر کھانا کھانے کی آوازیں نکالتے رہے تاکہ مہمان سمجھے کہ میزبان بھی ہمارے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ خود بھوکے سوگئے۔ صبح جب وہ انصاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہواتو آپؐ نے ہنس کر فرمایا: تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنسا اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’یہ پاک باطن ایثار پیشہ مخلص مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ وہ خود ضرورتمند اور بھوکے ہوتے ہیں۔ اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ‘‘۔ (بخاری کتاب المناقب باب یؤثرون علی انفسہم و لو کان بھم خصاصۃ)(اس کا ترجمہ میں نے پڑھ دیا ہے۔ ) اس حدیث میں جو ہم میں سے بہت دفعہ بہت سے سن بھی چکے ہوں گے، پڑھ بھی چکے ہوں گے لیکن ہر دفعہ جب اس کو پڑھو اس کا عجیب لطف اور مزا ہے اور خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اس صحابی کی جگہ ہم ہوتے کیونکہ یہ مہمان نوازی تو ایسی اعلیٰ پائے کی مہمان نوازی ہے کہ جب تک یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہمان نوازی کی مثال کو محفوظ کر لیا ہے اور ہمیشہ کے لئے یہ حوالہ بن چکی ہے اور ریکارڈ میں رہے گی۔ کیونکہ یہ ایسی مہمان نوازی ہے جس پر خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے خود دیا ہے۔ یہ مثالیں قصے کہانیوں کے طور پر نہیں دی جاتیں۔ آج بھی اگر چاہو تو ایسی مہمان نوازی کی مثال قائم کرسکتے ہو۔ ہر ایک کی اپنی اپنی استعدادیں ہوتی ہیں، توفیق ہوتی ہے۔ اس کے مطابق جتنی زیادہ مہمان نوازی کی جا سکے کرنی چاہئے اور مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اعزاز بہرحال اس انصاری کا قائم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ لیکن ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی خوشنودی کی خاطر قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے مہمان نوازی کریں گے اور اس لئے مہمان نوازی کریں گے کہ یہ خدا کے پیارے مسیح کے مہمان ہیں، محض للہ یہاں یہ اکٹھے ہوئے ہیں۔ اور ان کی خدمت ہم نے کرنی ہے تو چاہے ہمیں پتہ چلے یا نہ چلے یہ مہمان نوازیاں بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ریکارڈ ہو جائیں گی۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی فعل کو بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا۔ تو چاہے اس جہان میں اجر دے، چاہے اگلے جہان میں رکھے، جو نیکیاں ہیں ان کا تو دونوں جہانوں میں اجر ملتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے زندگی میں ہی ایسے سلوک ہو جاتے ہیں جو فوری طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے فضل نظر آ رہے ہوتے ہیں جس سے احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ فضل فلاں وجہ سے ہوا ہے۔ اور جب کبھی ایسا موقعہ ہو تو ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور اور جھکنا چاہئے۔ کسی قسم کی بڑائی دل میں نہیں آنی چاہئے بلکہ عاجزی میں ترقی ہونی چاہئے۔
عبداللّہ بن طُھْفَہ رضی اللّہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کثرت سے مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہر کوئی اپنا مہمان لیتا جائے۔ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت زیادہ مہمان آ گئے۔ اور آپؐ نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے حصے کا مہمان ساتھ لے جائے۔ عبداللہ بن طُھْفَہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ان میں سے تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے۔ چنانچہ جب آپؐ گھر پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: کیا گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں ! حریرہ نامی کھانا ہے جو میں نے آپ کے افطار کے لئے تیار کیا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ وہ کھانا ایک برتن میں ڈال کر لائیں۔ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا کھایا اور پھر فرمایا بسم اللہ پڑھ کر کھائیں اور مہمانوں کو دے دیا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کھانے میں سے اس طرح کھایا کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ اس کے بعد آنحضرتؐ نے فرمایا اے عائشہ! کیا تمہارے پاس پینے کو کوئی چیز ہے۔ انہوں نے کہا :جی ہاں حریرہ ہے جو میں نے آپ کے لئے تیار کیا ہے۔ فرمایا کہ لے آؤ تو وہ لے آئیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برتن لے کے اپنے منہ کو لگایا، اس میں سے تھوڑا سا لیا اور پھر مہمانوں کو دے دیا کہ بسم اللہ کرکے پینا شروع کریں۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم بھی اسے اسی طرح پینے لگے کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر وہ سونے کے لئے مسجد میں چلے گئے اور پھر کہتے ہیں صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور لوگوں کو الصَّلٰوۃ الصَّلٰوۃ کہہ کر لوگوں کو بیدار کرنے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپؐ صبح کے وقت آتے تو لوگوں کو نماز کے لئے اٹھاتے۔ راوی کہتے ہیں جب میرے پاس سے گزرے تو میں اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا :تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا میں عبداللہ بن طُھفہ ہوں۔ آپؐ فرمانے لگے سونے کا یہ انداز ایسا ہے جسے اللہ پسند نہیں کرتا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ 326مطبوعہ بیروت)
الٹے ہو کر سونا بھی ناپسندیدہ فعل ہے۔ سیدھے سونا چاہئے اور بہتر یہی ہے کہ دائیں کروٹ سوئیں۔ اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو۔
جیسا کہ ہر معاملے میں جو بھی جماعتی طور پر ذمہ داریاں بانٹی جاتی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حصہ میں ضرور کچھ نہ کچھ ذمہ داری لیا کرتے تھے۔ یہاں بھی جب مہمانوں کو گھروں میں لے جانے کا موقع آیا تو آپؐ کچھ مہمانوں کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور لگتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے جو بھی خوراک تیار کی ہوئی تھی، جیسا کہ روایت سے ظاہر ہے، وہ بہت تھوڑی مقدار میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کی گئی تھی۔ جب آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ خوراک تھوڑی سی مقدار میں ہے، آپؐ کی افطاری کے لئے تیار کی گئی ہے تو آپ نے اس وجہ سے بھی کہ آپؐ روزے دار تھے اور افطاری کرنی تھی اور اس لئے بھی کہ آپؐ کو پتہ تھا کہ آپ پہلے منہ لگائیں گے تو اللہ تعالیٰ اس خوراک میں برکت ڈال دے گا، پہلے خود کھایا اور پھر باقیوں کو دیا کہ اب کھاؤ۔ اور وہ بھی بغیر دیکھے کھاتے گئے۔ جتنے بھی لوگ تھے سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ پھر پینے کے لئے حریرہ منگوایا تو یہاں روزہ کھولنے والی بات تو کوئی نہیں، زیادہ غالب یہی ہے کہ اس لئے کہ اس خوراک میں برکت پڑ جائے اس کو بھی پہلے آپؐ نے خود پیا۔ تو اسی طرح اور بھی کھانے کے بہت سارے واقعات ہیں آپؐ پہلے لیتے تھے۔ مقصد یہی ہوتا تھا کہ اس میں برکت پڑ جائے کیونکہ جب میں کھاؤں گا، دعا کروں گا تو اس خوراک میں برکت ہو جائے گی۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خوراک پہلے استعمال کی یہ اصل میں مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کے لئے تھا کہ تھوڑی سی خوراک ہے اور اس سے سیر نہیں ہو سکتے تو میں پہلے لوں اور اس پہ دعا پڑھوں تو اللہ تعالیٰ برکت ڈال دے گا۔ اس لئے یہ کوئی عام اصول نہیں ہے بلکہ مہمانوں کی جب خدمت کی جائے تو پہلے مہمانوں کو کھانے کا موقع دینا چاہئے اور اس کے بعد پھر بچا کھچا آپ کھانا چاہئے۔
ایک روایت ہے حضرت عبداللہ بن ؓ سلام کہتے ہیں جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قدم رنجہ فرمایا تو لوگ اژدھام کرکے آپؐ کے گرد جمع ہو گئے، بہت سارا ہجوم کرکے رش کرکے آ گئے۔ کہتے ہیں میں بھی ان میں شامل تھا جو دوڑ دوڑ کر آپؐ کی خدمت میں حاضرہوئے تھے۔ جب آپؐ کا چہرہ خوب مجھ پر روشن ہو گیا تو میں نے جان لیا کہ یہ منہ جھوٹے کا منہ نہیں ہے اور سب سے پہلی بات جو میں نے آپؐ کو کہتے ہوئے سنا وہ یہ تھی کہ سلام کو رواج دو، کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ (مسند احمد بن حنبل۔ مسند باقی الانصار جلد ۵ صفحہ ۴۵۱)
فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے ہوئے سلام کو رواج دو۔ سلام کے رواج دینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ ہر ایک سے محبت سے پیار سے پیش آؤ تبھی سلام کرنے کا بھی حق ادا ہوتا ہے۔ پھر یہ ہے کہ ایک تو ضرورتمندوں کو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔ دوسرے جب تمہارے پاس جب کوئی مہمان آئے تو مہمان نوازی کے اصول کے تحت اس کی کوئی خاطر تواضع کرو۔ بعض دفعہ بعض دُورپار کے رشتہ دار یا کسی حوالے سے واقف لوگ آ جاتے ہیں یہ سمجھ کر کہ فلاں میرے عزیز کا کوئی واقف کار ہے اس سے مل لیں۔ جب ایسے لوگ آئیں تو ان سے بھی اچھے طریقے سے ملنا چاہئے، یہ نہ ہو کہ بیچارے خرچ کرکے جب آپ کے پاس پہنچیں تو بے رخی سے کہہ دو نہ تو میں آپ کو جانتا ہوں، نہ اس واقف کار کو جانتا ہوں اور السلام علیکم کیا اور گھر کا دروازہ بند کر دیا۔ اگر کوئی دھوکے باز ہو اس کا تو چہرے سے پتہ چل جاتا ہے۔ احمدی کی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکل پہچانی جاتی ہے کہ یہ احمدی ہے۔ اس لئے اس کا بھی خیال رکھیں اور پھر اپنے غریب رشتہ داروں سے خاص طور پر صلہ رحمی کا سلوک کرنا چاہئے۔ فرمایا کہ عبادت کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرو کیونکہ یہ تو ہر مومن سے توقع کی جاتی ہے۔ فرض نمازوں کی طرف تو توجہ دو گے ہی، اس کی ادائیگی تو تم کر ہی رہے ہو گے مہمان نوازی کے دنوں میں یہ نہ ہو کہ نمازوں کو بھی بھول جاؤ۔ پھر یہ کہ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ان حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد اب نیکی کے معیار اتنے بلند ہو گئے ہیں اور نمازوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ فرمایا کہ نہیں، حقوق العباد کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور عبادت کے اعلیٰ معیار بھی اس وقت قائم ہوں گے جب بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہو گے۔ اس لئے دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ایک کا دوسرے پر انحصار ہے۔ تب ہی اعلیٰ معیار قائم ہو سکتے ہیں جو ایک مومن کے لئے چاہئیں اور اگر یہ معیار قائم ہو جائیں تو فرمایا کہ تم بے فکر ہو جاؤ کیونکہ یہ معیار قائم کرکے تم بڑے امن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ گے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے صحابہ رضوان اللہ علیھم کی مہمان نوازی صرف مہمانوں تک محدود نہ تھی بلکہ دشمن بھی اس سے محروم نہ تھے۔ یہاں تک کہ جنگ کے قیدیوں سے بھی یہی سلوک تھا۔ چنانچہ ایک شخص ابو عزیز بن عُمیر جو جنگ بدر میں قید ہوئے تھے بیان کرتے ہیں کہ انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارا کر لیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اگر ان کے پاس روٹی کا چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا تو وہ مجھے دے دیتے اور خود نہ کھاتے تھے اور اگر میں تامّل کرتا یعنی تھوڑا سا انکار کرتا تو اصرار کے ساتھ کھلاتے تھے۔ (السیرۃالنبویۃ لابن ہشام حصہ اول حالات غزوۂ بدر صفحہ ۷۰۳)
تو یہ ہیں قربانی کے اعلیٰ معیار کہ جنگی قیدیوں سے بھی اتنا حسن سلوک ہو رہا ہے کہ اپنی خوراک کی قربانی دے کر قیدیوں کو کھلایا جا رہا ہے۔ تو جب غیروں کے ساتھ یہ سلوک ہو تواپنوں سے کس قدر حسن سلوک ہونا چاہئے اور پھر وہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں اس بات کے کس قدر حق دار ہیں کہ ان کی مہمان نوازی میں کوئی بھی کمی نہ آئے۔ اب کچھ روایات حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی ہیں۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب میں 1901ء میں ہجرت کرکے قادیان آیا اور اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لایا اس وقت میرے دو بچے جن کی عمر پانچ سال اور ایک سال تھی، ساتھ تھے۔ پہلے تو حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے وہ کمر ہ رہنے کے واسطے دیا جو حضورؑ کے اوپر والے مکان میں حضورؑ کے رہائشی صحن اور کوچہ بندی کے اوپر والے صحن کے درمیان تھا۔ اس میں صرف دو چھوٹی چھوٹی چارپائیاں بچھ سکتی تھیں۔ چند ماہ ہم وہاں رہے اور چونکہ ساتھ ہی کے برآمدے اور صحن میں حضرت مسیح موعودؑ مع اہل بیت رہتے تھے۔ اس واسطے حضرت مسیح موعودؑ کے بولنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لئے حضرت ام المومنین حیران ہو رہی تھیں (یعنی ان کو بڑی گھبراہٹ تھی) کہ سارا مکان تو پہلے ہی کشتی کی طرح پُر ہے۔ (بہت بھرا ہوا ہے) اب ان کو کہاں ٹھہرایا جائے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا ایک قصہ سنایا۔ کہتے ہیں کہ کیونکہ میں ساتھ کے کمرے میں تھا اس واسطے مجھے ساری کہانی سنائی دے رہی تھی اور وہ قصہ یہ تھا کہ ایک دفعہ ایک جنگل میں ایک مسافر کو شام ہو گئی رات اندھیری تھی، قریب کوئی بستی نہیں تھی وہ بیچارا ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے لئے لیٹ گیا۔ اس درخت کے اوپر پرندوں کا گھونسلہ تھا۔ ان پرندوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات یہ ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں۔ تو مادہ نے نر کی اس بات کا اقرار کیا۔ پھر ان دونوں نے مشورہ کیا کہ رات ٹھنڈی ہے ہمارے مہمان کو آگ سینکنے کی ضرورت پڑے گی۔ آگ تاپنے کی ضرورت پڑے گی تو ہمارے پاس کچھ اور تو ہے نہیں چلو اپنا گھونسلہ اور اپنا آشیانہ توڑ کر نیچے پھینک دیتے ہیں۔ ان لکڑیوں کو جلا کے وہ آگ سینک لے گا۔ انہوں نے تنکا تنکا کرکے اس گھونسلے کو نیچے پھینک دیا تو مسافرنے اس کو جلایا اور اس کو غنیمت جانا اور آگ لگا کے ٹھنڈ سے بچنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد پرندوں نے مشورہ کیا کہ مہمان کو یہ آرام تو پہنچ گیا اس کے لئے کھانے کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہئے۔ اَور تو ہمارے پاس کچھ ہے نہیں ہم خود ہی اس آگ میں جا گرتے ہیں۔ جب بُھن جائیں گے تو مسافر کھا لے گا۔ (ذکر حبیب صفحہ 85تا 87مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ )
تو اس طرح انہوں نے مہمان نوازی کا حق ادا کیا۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت اماں جان کو یہ کہانی سنائی کہ اس طرح مہمانوں کی خدمت کرنی چاہئے۔ آپؑ یہ نمونہ اپنے لوگوں میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے مہمان نوازی کے لئے ہمیشہ یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ قربانی کرنی پڑتی ہے اور چاہے جتنی مرضی سہولتیں ہوں کچھ نہ کچھ ماحول کے مطابق قربانی کرنی ہی پڑتی ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ مہمان کا آنا رحمت کا باعث ہوتا ہے۔ کیونکہ مہمان کے لئے بہرحال قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ یہ مہمان نوازی کے طریقے اور سلیقے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں سکھانا چاہتے ہیں اور ہم سے توقع رکھتے ہیں اس کا آ ج کل اظہار ہونا چاہئے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار یا معزز آدمی آئے تو اس کی عزت و تکریم کرو۔ (سنن ابن ماجہ ابواب الادب باب اذا أتاکم کریم قوم فاکرموہ)
یہاں بھی بعض معززین آتے ہیں، بعض تو احمدی نہیں ہوتے اور بعض احمدی بھی ہوتے ہیں۔ اپنی اپنی قوم میں، اپنے ملک میں ان کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ بہت زیادہ احترام کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے اور انتظامیہ ان کا بہت خیال رکھتی ہے لیکن ہر احمدی کو جو جلسہ پر آر ہا ہو، ان لوگوں کا خاص طور سے خیال رکھنا چاہئے۔ بعض دفعہ بعض مواقع پیش آ جاتے ہیں اس لئے ہمیشہ خیال رکھیں کہ ان لوگوں کا خاص احترام کرنا ہے۔ یہ خیال دل میں کبھی نہ آئے کہ یہ تو فلاں غریب ملک کا آدمی ہے اس کی عزت واحترام اتنا زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب شیطانی خیال ہیں۔ انہیں غریب ملکوں نے احمدیت قبول کرنے میں کھلے دل کا اظہار کیاہے اور ان معززین میں سے اکثریت نے بھی جماعت سے بہت تعاون کیا ہے جو یہاں آتے ہیں۔ اس لئے ان کی عزت و احترام کا ہر احمدی کو بہت خیال رکھنا چاہئے۔
ایک اور واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمان نوازی کا ہے کہ ایک ہندو حضرت اقدس کے حضور حاضر ہوا۔ کیونکہ ہندوؤں کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے اور کھانے پینے کا بھی اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لنگر جاری تھا لوگ آتے تھے، کھاتے تھے۔ لیکن ہندو مہمان کے لئے خاص انتظام کرنا پڑا اور وہ انتظام چونکہ دوسروں کے ہاں کرانا ہوتا تھا اس لئے ظاہر میں اس کی مشکلات بھی ہوتی تھیں۔ تو اس موقعے پہ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مہمان نوازی کا پورا اہتمام فرماتے تھے۔ جب وہ آیا اور آپ سے ملاقات کی تو آپؑ نے فرمایا یہ ہمارا مہمان ہے، اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کر دینا چاہئے۔ ایک شخص کو خاص طور پر حکم دیا کہ ایک ہندو کے گھر اس کے لئے بندوست کیا جاوے۔ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ جلد اول صفحہ 142)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو یہ ہے کہ ایسے غیر جو آتے ہیں ان کے لئے انتظام علیحدہ ہوتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ جتنا بہترین انتظام ہو سکے، کیا جائے۔ ان رش کے دنوں میں لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ڈیوٹی والے بھی اور عام لوگ بھی ایسے لوگوں کے آنے جانے کے وقت میں بھی کوئی ایسا واقعہ نہ ہو جو کسی قسم کی تکلیف کا باعث بنے۔ اس لئے ایک تو کوئی نہ کوئی معاون انتظامیہ کو ان لوگوں کے ساتھ ہمیشہ رکھنا چاہئے تاکہ چیکنگ وغیرہ کے وقت میں کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہو۔ بعض دفعہ اس کے علاوہ بھی بعض احمدی اپنے ساتھ کسی غیر کو جلسہ دکھانے کے لئے لے آتے ہیں تو ان کا بھی انتظامیہ کو خیال رکھنا چاہئے۔ ایک تو اس لئے بھی کہ اس شخص کے بارے میں تسلی ہو جائے اس کے لئے بھی ضروری ہے اور دوسرے مہمان نوازی کے تقاضے کے لئے بھی۔ تسلی کے لئے اس لئے ضرورت پڑتی ہے کہ بعض دفعہ بہت تھوڑے عرصے کی واقفیت ہوتی ہے اور دعوت الی اللہ کے شوق میں لوگ بعض دفعہ بعض غلط لوگوں کو بھی لے آتے ہیں اس لحاظ سے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہرحال غیر محسوس طریقے پر یہ نہ ہو کہ اتنی چیکنگ شروع ہو جائے کہ اگلے کو احساس ہو جائے، اگر کوئی صحیح بھی ہے تو اس کو برا لگنے لگ جائے، دونوں صورتوں کے لئے ہر وقت ایک خاص انتظام رہنا چاہئے۔
ایک روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مغرب کی نماز کے بعد مجلس میں بیٹھے تو میرصاحب نے عبدالصمد صا حب آمدہ از کشمیر کو آگے بلا کر حضور کے قدموں میں جگہ دی اور حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ ان کو یہاں ایک تکلیف ہے کہ یہ چاولوں کے عادی ہیں اور یہاں روٹی ملتی ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْن۔ ہمارے مہمانوں میں سے جو تکلف کرتا ہے اسے تکلیف ہوتی ہے اس لئے جو ضرورت ہو کہہ دیا کرو۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ ان کے لئے چاول پکوا دیا کرو۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 482 البدر ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ء)
یہاں بھی عمومی انتظام ہوتا ہے اور بعض قوموں کے لئے، مختلف ممالک سے لوگ آ رہے ہوتے ہیں مختلف قومیتوں کے لوگ آ رہے ہوتے ہیں، ان کے مطابق کھانے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ بعض لوگوں کو جو عام خوراک کھانے والے ہیں ان کو بھی کچھ نرم یا پرہیزی غذاکی بھی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اس خوراک کا انتظام تو ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ مہمانوں کو پتہ نہیں ہوتا اس لئے انتظامیہ کو اجتماعی قیام گاہوں پر یہ انتظام کرنا چاہئے اور دیکھتے رہنا چاہئے کہ اگر کوئی ایسا مریض کی حالت میں ہو تو اس کے لئے یہ انتظام ہو جائے۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی چھوٹی موٹی بیمار ی ہے یا خوراک کو بدلنا چاہتے ہیں تو وہ مہمان آ جاتے ہیں کہ ہم نے تو پرہیزی کھانا ہی کھانا ہے اور بعض دفعہ مہمان ناجائز سختی بھی کر جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے مجھے بھی اس کا تجربہ ہے، لیکن کارکنان کو اس کے باوجود صبر اور حوصلے اور برداشت سے کام لینا چاہئے۔
حضرت سید حبیب اللہ صاحب حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اطلاع دی تو حضورؑ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پرمیں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے۔ اس واسطے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں۔ (ملفوظات جلد5صفحہ 163۔ بدر 14 مارچ 1907)
تو جیسا کہ میں نے پہلے کہاکہ مہمانوں کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے۔ یہاں بھی یہی سبق ہمیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ہمیں دیا ہے کہ باوجود تکلیف کے اور شدید تکلیف کے، مہمان کے لئے آپؑ گھر سے باہر تشریف لے آئے نہیں تو ایسی حالت نہیں تھی کہ ملتے۔ خود اظہار فرمایا، اس لئے ہمیشہ اس سنہری اصول کو یاد رکھنا چاہئے کہ گھر آئے مہمان سے ضرور مل لینا چاہئے۔ جیسا کہ پہلے میں نے کہا کسی قسم کی ٹال مٹول نہ ہو یا یہ کہ گھر آئے اور بے رخی سے مل کر گھر کا دروازہ بند کر لیں۔ کیونکہ یہاں کے بعض لوگوں کو اندازہ نہیں، پرانے رہنے والے ہیں کہ پاکستان وغیرہ ملکوں سے جو لوگ آتے ہیں کس طرح پیسہ پیسہ جوڑ کے کرایہ بناتے ہیں اور پھر صرف اس لئے کہ یہاں جلسہ اٹینڈ(attend)کریں گے کیونکہ اس جلسے کی ایک مرکزی حیثیت ہو چکی ہے اور اس لحاظ سے بھی ان کا خیال رکھنا چاہئے۔ آپ سب تو یہاں رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ بیت الفکر میں ایک دفعہ لیٹے ہوئے تھے ایک بیان کرنے والے نے بیان کیا اور کہتے ہیں کہ میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرے کی کھڑکی پر لالہ شرمپت یا شاید ملا وامل نے دستک دی۔ میں اٹھ کر کھڑکی کھولنے لگا۔ لیکن حضرت صاحب نے بڑی جلدی اٹھ کر تیزی سے جا کے مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے۔ (سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مرتبہ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ جلد اول صفحہ 160)
تودیکھیں جہاں مریدی کا سوال ہے، اس روایت میں وہاں مرید کی خواہش کے مطابق پاؤں دبانے کی اجازت تو دے دی لیکن جہاں مہمان کے حق کا سوال ہے تو برداشت نہ کیا اور پہلے تیزی سے اٹھ کے خود دروازہ کھول دیا کہ آپ مہمان ہیں۔ آج کل کے پِیروں کی طرح یہ نہیں کہ تم پاؤں دبا رہے ہو اس لئے جاؤ دروازہ کھولو کیونکہ تمہارا مقام ہی یہی ہے۔ تو یہ نمونے ہیں، دیکھیں کس باریکی سے آپ نے ان کا خیال رکھا تاکہ یہ مثالیں جماعت کی ترقی کے لئے قائم ہو جائیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر پنڈی میں دکان کیا کرتے تھے، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی ملاقات کے لئے قادیان آیا۔ سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں شام کے وقت قادیان پہنچا۔ تھا رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا تو کافی رات گزر گئی اور تقریباً بارہ بجے کا وقت ہو گیا کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے تھے۔ ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا او ر دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی۔ میں حضور ؑ کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضورؑ نے بڑی شفقت سے فرمایا کہیں سے دودھ آگیا تھا میں نے کہا کہ آپ کو دے آؤں آپ یہ دودھ پی لیں، آپ کو شاید دودھ کی عادت ہو گی۔ اس لئے دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں۔ سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ سبحان اللہ! کیا اخلاق ہیں۔ خدا کا برگزیدہ مسیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پا رہا ہے اور تکلیف اٹھا رہا ہے۔ (سیرت المہدی حصہ سوم بحوالہ سیرت طیّبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ، چار تقریریں صفحہ ۲۵۱، ۲۵۲)
تو دیکھیں مہمان نوازی کے نظارے، خدا کے مسیح کی مہمان نوازی کے۔ اس واقعہ کو تصور میں لائیں تو ہر ایک کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود رات بہت دیر گئے، ایک ہاتھ میں لالٹین پکڑی ہوئی، اندھیرا بہت زیادہ تھا اور وہاں کے رستے بھی ایسے تھے، اور دوسرے ہاتھ میں دودھ کا گلاس مہمان کے لئے لے کے جا رہے ہیں۔ اسی طرح مہمانوں کی ضرورت کے خیال کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک مہمان نے آکے کہا کہ میرے پاس بستر نہیں ہے تو حضرت صاحب ؑ نے حافظ حامد علی صاحبؓ کو کہا کہ اس کو لحاف دے دیں حافظ حامد علی صاحب نے عرض کیا کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا(اس کے حلیے سے لگ رہا ہو گا کہ لے جانے والا ہے) تو حضور نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ لحاف لے جائے گا تو اس کا گناہ اس کے سر ہو گا۔ اور اگر بغیرلحاف کے سردی سے مر گیا تو ہمارا گناہ ہو گا۔ (سیرت حضرت مسیح موعود ؑ جلد اوّل صفحہ 130مولفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ )
مولوی عبدالکریم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ چار برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔ جون کامہینہ تھا۔ مکان نیا نیا بنا تھا۔ دوپہر کے وقت وہاں چار پائی بچھی ہوئی تھی۔ میں وہاں لیٹ گیا۔ تو حضورؑ ٹہل رہے تھے میں ایک دفعہ جاگا تو آپؑ فرش پر میری چار پائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپ نے بڑی محبت سے پوچھا کہ آپ کیوں اٹھے۔ میں نے عرض کیا آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں اور میں اوپر کیسے سو رہوں۔ مسکرا کے فرمایا کہ میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔ لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے۔ (سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مصنفہ حضرت مولانا عبدا لکریم صاحب صفحہ 41)
حضرت منشی ظفراحمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے۔ اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلے پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں چند معزز مہمان آ کر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر مرتبہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑتا۔ تھوڑی دیرکے بعد کوئی نہ کوئی معزز آ جاتا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ جگہ دے کے خود پیچھے ہٹ جاتے تھے حتیٰ کہ وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ پر پہنچ گئے۔ پھر کہتے ہیں کہ اتنے میں کھانا آیا تو حضورؑ نے جو یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا :آؤ میاں نظام دین! ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ یہ فرما کر حضورؑ مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کوٹھڑی کے اندر بیٹھ کر ایک ہی پیالے میں کھانا کھایا۔ اور اس وقت میاں نظام دین پھولے نہیں سماتے تھے اور جو لوگ میاں نظام دین کو عملاً پرے دھکیل کر حضرت مسیح موعود ؑ کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کٹے جاتے تھے۔ (سیرت طیّبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 188)
گزشتہ جمعے میں میں نے مجالس کے حقوق کے بارے میں بتایا تھا تو یہ واقعہ مجالس کے حقوق سے بھی متعلق ہے اور مہمان نوازی سے بھی متعلق ہے اور دوسرے کے جذبات کے احساس سے بھی متعلق ہے۔
کسی مجلس میں جو بھی نیا آنے والا ہو اس کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ بیٹھے ہوئے آدمی کی جگہ پربیٹھے، چاہے وہ اس کے لئے جگہ خالی بھی کرے۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس وقت تو ایسے لوگوں کو کچھ نہیں کہاکہ کیوں اسے پیچھے دھکیل رہے ہو۔ تربیت کرنا مقصود تھا۔ اصل مقصد تو تربیت تھی ان لوگوں کی۔ تو سوچ لیا تھا کہ ان بڑوں کی اصلاح یا تربیت میں نے کس طرح کرنی ہے۔ اور آپ کا حسّاس دل غریب کے دل کا احساس کر رہا تھا۔ اس لئے آپؑ نے کھانا آتے ہی خاموشی سے کھانا ڈالا اور اٹھا کر ایک طرف لے گئے اور خاموشی خاموشی میں سارے ماحول کو ساری مجلس کو سبق دے دیا کہ تم لوگ جسے حقیر سمجھ کر جوتیوں میں دھکیل چکے تھے یہ نہ سمجھو کہ وہ اس کا حقدار تھا بلکہ وہ تم سب سے زیادہ معزز ہے کیونکہ آج اہل خانہ کے پہلو میں بیٹھ اور خدا کے مسیح کے پہلو میں بیٹھ کر اس کی پلیٹ میں اس کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر جیسا کہ روایت میں بھی آتا ہے، کہ ان بڑوں کا کیا حال ہو گا۔ شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے۔ اس لئے ہمیشہ عاجزی کو پکڑے رکھیں اور ہر مہمان کی عزت و احترام کریں۔ مہمانوں کے ساتھ جو مہمان نوازی کا سلوک ہے وہ ہمیشہ ایک جیسا ہونا چاہئے۔ کسی کو غریب سمجھ کر، حقیر سمجھ کر مہمان نوازی میں فرق نہ آئے۔ اور مہمانوں سے فرق کرنا اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھا کہ ایک دفعہ اس طرح کا فرق ہونے پر جو کارکنان کی طرف سے ہوا اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو خبر دی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ رات اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ لنگر خانے میں رات کو ریاء کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ اب جو لنگر خانے میں کام کر رہے ہیں ان کو علیحدہ کرکے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں۔ جتنی نرم طبیعت تھی اس کے باوجود اتنا ناراضگی کا اظہار فرمایا حضور نے۔ آپؑ نے فرمایا ان لوگوں کو چھ مہینے کے لئے قادیان سے ہی نکال دو۔ اور ایسے شخص مقرر کئے جائیں جو نیک فطرت اور صالح ہوں۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلد 3صفحہ 194روایت میاں اللہ دتا صاحب سہرانی سکنہ بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خان)
ایک اور جگہ ایک روایت میں فرمایا کہ رات خداتعالیٰ کی طرف سے جھڑک آئی ہے(یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جھڑک کا نام دے رہے ہیں ) کہ میرا لنگر ذرا بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ اس میں رِیاء کیا گیا ہے مسکین محروم رہ گئے ہیں اور امراء کو اچھا کھانا کھلایا گیا ہے۔ پھر کھانے کا انتظام حضرت صاحب نے اپنے سامنے کروایا اور سب کو ایک قسم کا کھانا کھلایا۔ ویسے بھی لنگر خانے کا شعبہ خدائی منشاء کے مطابق ایک لمبے عرصے تک حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے پاس ہی رکھا تھا۔ جب مصروفیات بہت زیادہ بڑھ گئیں اور طبیعت میں بھی کچھ کمزوری آ گئی اس وقت پھر ایک انتظامیہ کے سپرد کیا۔ جب آپ انتظام اپنے پاس رکھتے تھے تو اس وقت کا واقعہ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ تھا۔ ان دنوں جلسے کے لئے الگ چندہ جمع ہو کرنہیں جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنے پاس سے صَرف فرماتے تھے، خرچ کرتے تھے۔ تو میر ناصرنواب صاحب مرحوم نے آ کر عرض کیا کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سامان نہیں ہے۔ آپؑ نے فرمایا بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر یعنی حضرت اماں جان کا کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے اس کو بیچ دو اور اس سے اتنا لے لو جس سے رات کی مہمان نوازی کا سامان ہو جائے۔ چنانچہ زیور فروخت یا رہن کرکے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچایا۔ دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت، کہتے ہیں میری موجودگی میں کہا کل کے لئے پھر کچھ نہیں ہے۔ فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کر دیا تھا۔ پہلے تو میں نے جو ظاہری اسباب تھے زیور گھر میں پڑا ہوا تھا اس کو بِکوا کے انتظام کر دیا تھا اب ہمیں ضرورت نہیں ہے، جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں وہ خود انتظام کر لے گا۔ تو اگلے دن کہتے ہیں کہ آٹھ یا نو بجے صبح جب چھٹی رساں (ڈاکیا) آیا تو حضورؑ نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا۔ چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈرز ہوں گے جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے سو سو پچاس پچاس روپے کے(اس زمانے میں سو اور پچاس کی بہت قیمت تھی) اور اس پر لکھا تھا کہ ہم حاضری کے لئے معذور ہیں یعنی جلسے پر حاضر نہیں ہو سکتے، مہمانوں کے اخراجات کے لئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں۔ وہ آپؑ نے وصول فرمائے پھر توکلّ پر ایک تقریر فرمائی۔ اور بھی چند آدمی تھے جہاں آپؑ کی نشست تھی۔ وہاں کا یہ ذکر ہے۔ فرمایا کہ جیسا کہ دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا نکال لوں گا اس سے زیادہ ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے جب ضرورت ہوتی ہے فوراًخداتعالیٰ بھیج دیتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا جس کے مہمان ہیں آپ ہی سنبھال لے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فوراً رقم کا انتظام کر دیا۔ (سیرت المہدی حصہ چہارم غیر مطبوعہ روایات نمبر 1126صفحہ 563,564)
تو جہاں تک آجکل فی زمانہ مہمان نوازی کے اخراجات کا تعلق ہے وہ تو اللہ تعالیٰ مہیا کرتا ہے اس کی تو کوئی فکر کی بات نہیں ہے لیکن یہ یاد رکھیں کہ مہمانوں کی مہمان نوازی میں کوئی تخصیص یا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ایک غیر از جماعت کا آپ کی مہمان نوازی اور جماعت کے احباب کی مہمان نوازی کے بارے میں تبصرہ ہے۔ مولوی ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی تھے ابو النصر آہ ؍مئی 1905ء کو قادیان تشریف لائے اور اخبار وکیل میں اپنے سفر قادیان کی داستان لکھی۔ اس میں یہ اس طرح لکھتے ہیں۔ ’ میں نے اور کیا دیکھا، قادیان دیکھا، مرزا صاحب سے ملاقات کی، مہمان رہا، مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے اور میں شور غذائیں کھا نہیں سکتا تھا(یعنی زیادہ نمک مرچ والی نہیں کھا سکتے تھے) مرزا صاحب نے جبکہ وہ گھر سے تشریف لائے دودھ اور پاؤ روٹی تجویز فرمائی۔ کارکنان کو کہا ان کو دودھ اور روٹی دو کیونکہ یہ مرچیں نہیں کھا سکتے۔ پھر کہتے ہیں آجکل مرزا صاحب قادیان سے باہر ایک وسیع اور مناسب باغ جو خود انہی کی ملکیت ہے۔ میں قیام پذیر ہیں۔ بزرگان ملت بھی وہیں ہیں۔ قادیان کی آبادی تقریباً 3ہزار آدمی کی ہے مگر رونق اور چہل پہل بہت ہے۔ نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی شاندار اور بلند عمارت تمام بستی میں صرف ایک ہی عمارت ہے۔ راستے کچے اور ناہموار ہیں بالخصوص وہ سڑک جو بٹالہ سے قادیان تک آتی ہے۔ اپنی نوعیت میں سب پر فوق لے گئی ہے(یعنی کہ ایسی خراب سڑک ہے جو خراب سڑکوں میں یا سفر کی مشکلات میں سب سے بڑھ گئی ہے) کہتے ہیں آتے ہوئے یکّے میں مجھے ٹانگے میں جس قدر تکلیف ہوئی تھی نواب صاحب کے رتھ نے لَوٹنے کے وقت تخفیف کر دی۔ آئے تو ٹانگے پہ تھے واپسی پہ نواب محمد علی خاں صاحب نے رتھ دے دی تھی اس سے کہتے ہیں کہ میرا سفر نسبتاً آسان ہو گیا۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہوتا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی میں آگے نہ بڑھ سکتا، اتنا گندا راستہ تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا۔ (سیرت حضرت مسیح موعود ؑ مرتبہ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ صفحہ 144-145)
یہ نمونے ہمیں ہمیشہ قائم رکھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم پوری توجہ کے ساتھ اور انشراح صدر کے ساتھ خوش دلی سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر سکیں۔ اور یہاں ان دنوں میں کسی کو کوئی بھی تکلیف نہ ہو۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ لمبے تجربے سے ماشاء اللہ منتظمین اور معاونین بھی اس قابل ہو چکے ہیں کہ ان مہمانوں کی خدمت احسن طور پر انجام دے سکیں۔ تو اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ خدمت کرنی چاہئے اور ہمیشہ صبر، حوصلے اور دعا کے ساتھ اس خدمت پر کمر بستہ رہیں، اس خدمت کو کرتے رہیں اور اپنے کسی قریبی عزیز کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق پائیں۔ علاوہ ان لوگوں کے جو ڈیوٹی پر ہیں وہ تو خدمت پر مامور ہیں، خدمت کریں گے لندن میں رہنے والے اور اسلام آباد کے ماحول میں رہنے والوں سے بھی امید ہے کہ وہ بھی مہمان نوازی کے نمونے دکھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔
جلسہ کے انتظامات میں مہمان نوازی کی بنیادی حیثیت ہے
٭…مہمان اور میزبان کے حقوق و فرائض
٭…مہمان نوازی اور آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کا اسوہ
۳ ۲؍جولائی۲۰۰۴ء بمطابق ۲۳؍وفا ۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔