لغو امور کی تفصیلات اور ان سے بچنے کی ضرورت

خطبہ جمعہ 20؍ اگست 2004ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشھدوتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

{قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ۔وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ۔وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ۔وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ۔اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ۔فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ۔وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ۔وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ۔اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡوٰرِثُوۡنَ۔الَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الۡفِرۡدَوۡسَ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ}(سورۃ المومنون آیات 2تا 12)

انسان دنیا میں بہت سی ایسی باتیں کر جاتا ہے کہ جو برائیوں کی طرف لے جانے والی اور خداتعالیٰ سے دور کرنے والی ہوتی ہیں اور اچھے بھلے سمجھدار لوگ جن کو دین کا بھی علم ہوتا ہے وہ بھی بعض دفعہ ایسی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کے لوگ بھی ایسی باتیں کر سکتے ہیں۔ یہ باتیں، یہ حرکتیں جو جان بوجھ کر کی جا رہی ہوں یا انجانے میں کی جا رہی ہوں لغو، فضول یا بیہودہ حرکتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ اور ایسی حرکتیں کرنے والے یا باتیں کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہلکی پھلکی باتیں ہیں مذاق کی باتیں ہیں، دل لگانے کی باتیں یا حرکتیں ہیں۔ لیکن اُن کو پتہ نہیں چلتا کہ یہی باتیں بعض دفعہ پھر برائیوں کی طرف لے جانے والی اور خداتعالیٰ کے احکامات سے پرے ہٹانے والی بن جاتی ہیں۔ اس لئے ایک مومن کو ہمیشہ ان سے بچنا چاہئے۔ کیونکہ اپنی فلاح اور کامیابی کے لئے بھی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بھی ان سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا حاصل کرنے والوں، اپنے فضلوں اور اپنی رحمتوں کے وارث بننے والوں، اپنی جنتوں کے وارث بننے والوں کے لئے مختلف طریقے سکھائے ہیں کہ اگر ان راستوں پر چلو گے اس طرح اپنی اصلاح کرو گے تو پھر میری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ میری جنتوں تک پہنچنے کی جو سیڑھی ہے اس کے یہ یہ قدم ہیں، یہ یہ درجے ہیں۔ ہر سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے اگر میری رضا حاصل کرنے کی کوشش کرو گے تو فردوس کے مالک ہو گے۔ یعنی میری اُس جنت کے وارث ہو گے جو تمام جنتوں کا مجموعہ ہے۔

وہ اعمال کیا ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث ہو گے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کے مختلف درجے ہیں۔ فرمایا پہلا زینہ یا درجہ نمازوں میں عاجزی دکھانا ہے۔ دوسرا زینہ یہ ہے کہ لغویات سے پرہیز کرنا۔ تیسرا درجہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا ہے۔ پھر چوتھی سیڑھی یا درجہ یہ ہے کہ فروج کی حفاظت کرنا یعنی شرم گاہوں کی۔ اسی طرح منہ آنکھ کان وغیرہ کی بھی حفاظت کرنا اور ان کا صحیح استعمال کرنا۔ پھر پانچواں قدم اس سیڑھی کا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق سے کئے گئے عہدوں اور وعدوں کی ادائیگی۔ پھر چھٹا درجہ ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرنے والے یہ لوگ ہوتے ہیں۔ یعنی ایک فکر کے ساتھ اپنی نمازوں کی بروقت ادائیگی کی طرف توجہ رکھتے ہیں۔ تو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فردوس کے وارث بننے کے لئے، میری جنتوں کے وارث بننے کے لئے تمہیں یہ تمام منزلیں طے کرنی ہوں گی۔ ان میں سے کسی درجے کو بھی کم نہ سمجھو۔ یہ تمہیں بتدریج اُس معیار تک پہنچانے کے لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا معیار ہے۔ اس لئے ان آیات کے شروع میں ہی بتا دیا کہ تمہاری فلاح، تمہاری کامیابی، تمہارا اپنے مقصد کو حاصل کرنے کا دعویٰ اسی صورت میں حقیقت ہو گا جب ہر درجے اور اس سیڑھی کا ہر قدم جس پر تم کامیابی سے چڑھ جاؤ تمہیں اگلے قدم یا اگلے درجے کی طرف لے جانے والا ہو۔ پس نیکیوں کی معراج حاصل کرنے کے لئے تمام نیکیاں بجا لانا ضروری ہے۔ اس لئے کسی ایک نیکی کو بھی کسی صورت میں بھی کم نہ سمجھو۔ کیونکہ آخری منزل پر پہنچنے تک ہر وقت یہ خطرہ ہے۔ جب تک تم آخری منزل تک پہنچ نہیں جاتے یہ خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے کہ کسی ایک قدم پر کسی ایک سیڑھی پر سے بھی تمہارا پاؤں کہیں پھسل نہ جائے۔ اگر پاؤں پھسلا تو تم پھر اپنی پہلی حالت میں واپس آ جاؤ گے۔ اس لئے وہی مومن فلاح پانے والے ہوں گے جو ہر سیڑھی پر پاؤں رکھتے ہوئے اپنے مقصد حیات کو حاصل کرکے اللہ تعالیٰ کی جنتوں تک پہنچ جائیں گے اور جب وہاں پہنچ جائیں گے تو فرمایا پھر فکر کی کوئی بات نہیں ہے تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو کیونکہ اب تمہاری اس محنت کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ بھی تمہاری حفاظت کرے گا۔

ان آیات میں بیان کیا گیا نیکیوں کو حاصل کرنے کا ہر درجہ کیونکہ ایک تفصیل چاہتا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس کی بڑی تفصیل سے تفسیر بیان فرمائی ہے۔ ساروں کی تفصیل تو بیان نہیں ہو سکتی، اس وقت میں نسبتاً ذرا تفصیل سے اس سیڑھی کے دوسرے درجے یعنی{وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن} کے بارے میں کچھ کہوں گا۔

لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغویات میں ڈوبنے کی یہ بیماری آجکل کچھ زیادہ جڑ پکڑ رہی ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ بیماری تقویٰ میں بھی روک بنتی ہے۔ اور اس طرح غیر محسوس طور پر اس کا حملہ ہو رہا ہے کہ اس بیماری کی گرفت میں آنے کے بعد بھی انسان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس بیماری میں گرفتار ہے اور کیونکہ پورا معاشرہ ہر جگہ اور ہر علاقے میں ہر ملک میں اس بیماری میں مبتلا ہے اس لئے اس بیماری کے لپیٹ میں آ کر بھی پتہ نہیں لگتا کہ ہم اس بیماری میں گرفتار ہیں۔ بعض قریبی عزیزوں کو بھی اس وقت پتہ چلتا ہے جب ان لغویات کی وجہ سے ان کے حقوق متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ بیویاں بھی اس وقت شور مچاتی ہیں جب ان کے اور ان کے بچوں کے حقوق مارے جا رہے ہوں۔ اس سے پہلے وہ بھی معاشرے کی روشنی کا نام دے کر اپنے خاوندوں کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہوتی ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ خود بھی ان لغویات میں شامل ہو رہی ہوتی ہیں تو اسی طرح ماں باپ، دوست احباب اس وقت تک کچھ توجہ نہیں دیتے جب تک پانی سر سے اونچا نہیں ہو جاتا۔ نظام جماعت کو بھی پتہ نہیں لگ رہا ہوتا جب تک کسی دوست یا عزیز رشتہ دار کی طرف سے یہ نہ پتہ چل جائے کہ لغویات میں مبتلا ہے۔ بظاہر ایک شخص مسجد میں بھی آ رہا ہوتا ہے اور جماعتی خدمات بھی بجا لا رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بعض قسم کی غلط حرکتوں میں، لغویات میں بھی مبتلا ہوتا ہے اس لئے یہ نہایت اہم مضمون ہے جس پر کچھ کہنا ضروری ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض لوگ بعض باتیں اور حرکتیں ایسی کر رہے ہوتے ہیں جو اُن کے نزدیک کوئی برائی نہیں ہوتی حالانکہ وہ لغویات میں شمار ہو رہی ہوتی ہیں اور نیکیوں سے دور لے جانے والی ہوتی ہیں۔ اور بعض دفعہ جائز بات بھی غلط موقع پر لغو ہو جاتی ہے۔

اب میں بعض تفسیریں بیان کرتا ہوں۔ علامہ فخرالدین رازیؒ {وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن} کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں۔ بہت سے لوگوں نے کہا ہے۔ ایک یہ کہ اللَّغْو میں تمام حرام اور تمام مکروہ شامل ہیں۔ دوسرے یہ کہ اللَّغْو سے مراد صرف ہر حرام ہے۔ تیسرے یہ کہ اللَّغْو کا لفظ خصوصی طور پر قول و کلام میں معصیت پر دلالت کرتا ہے۔ پھر یہ کہ اللَّغْو سے مراد وہ حلال ہے جس کی حاجت نہیں۔ (تفسیر کبیر رازی صفحہ ۷۹ جلد ۲۳)

تو مختلف مفسرین نے جو اس کے مختلف معنی کئے ہیں یعنی حرام چیزیں لغویات میں شامل ہیں، ایک تو اس کی یہ تفسیر ہو گئی جوبڑی واضح ہے۔ مکروہ چیزیں لغویات میں شامل ہیں۔ پھر ایک نے یہ لکھا ہے کہ لغو کا لفظ خاص طور پر بات چیت میں غلط اور گناہ کی باتیں کرنے کو کہتے ہیں۔ اور ایک معنی یہ ہیں کہ ایسا جائز یا حلال کام بھی جس کی کسی مومن کو ضرورت نہیں ہے وہ بھی اگروہ کرتا ہے تو وہ بھی لغویات میں شمار ہوتا ہے۔ تو دیکھیں لغویات سے بچنے کے لئے کس قدر باریکی میں جا کر لوگوں نے اس کے معنے نکالے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ اللَّغْو میں کل باطل، کل معاصی، لغو میں داخل ہیں، تاش، گنجوفہ چوسر سب ممنوع ہیں۔ گپیں ہانکنا، نکتہ چینیاں وغیرہ۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 171)

یعنی ہر قسم کا جھوٹ غلط اور گناہ کی باتیں تاش کھیلنا، اس قسم کی اور کھیلیں۔ آجکل دکانوں پر مشینیں پڑی ہوتی ہیں چھوٹے بچوں کو جوئے کی عادت ڈالنے کے لئے، رقم ڈالنے کے بعد بعض نمبروں کی گیمیں ہوتی ہیں کہ یہ ملاؤ، اتنے پیسے ڈالو تو اتنے پیسے نکل آئیں گے تو اس طرح جیتنے سے اتنی بڑی رقم حاصل ہو جائے گی، یہ سب لغو چیزیں ہیں۔ اسی طرح بیٹھ کر مجلسیں جمانا، گپیں ہانکنا، پھر دوسروں پر بیٹھ کے اعتراض وغیرہ کرنا یہ سب ایسی باتیں ہیں جو لغویات میں شامل ہیں۔ {وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن} کی وضاحت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ دوسرا کام مومن کا یعنی وہ کام جس سے دوسرے مرتبہ تک قوت ایمانی پہنچتی ہے اور پہلے کی نسبت ایمان کچھ قوی ہو جاتا ہے، عقلِ سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ مومن اپنے دل کو جو خشوع کے مرتبہ تک پہنچ چکا ہے لغو خیالات اور لغو شغلوں سے پاک کرے۔ کیونکہ جب تک مومن یہ ادنیٰ قوت حاصل نہ کر لے کہ خدا کے لئے لغو باتوں اور لغو کاموں کو ترک کر سکے جو کچھ بھی مشکل نہیں اور صرف گناہ بے لذت ہے اس وقت تک یہ طمع خام ہے کہ مومن ایسے کاموں سے دستبردار ہو سکے جن سے دستبردار ہونا نفس پر بہت بھاری ہے اور جن کے ارتکاب میں نفس کو کوئی فائدہ یا لذت ہے۔ پس اس سے ثابت ہے کہ پہلے درجے کے بعد کہ ترک تکبر ہے(یعنی پہلا درجہ ترک تکبر ہے عاجزی دکھانا) دوسرا درجہ ترک لغویات ہے۔ اور اس درجہ پر وعدہ جو لفظ اَفْلَحَ سے کیا گیاہے یعنی فوز ِمرام اس طرح پر پورا ہوتا ہے کہ مومن کا تعلق جب لغو کاموں اور لغو شغلوں سے ٹوٹ جاتا ہے تو ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے اس کوہو جاتا ہے اور قوت ایمانی بھی پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اور خفیف تعلق اس لئے ہم نے کہا کہ لغویات سے تعلق بھی خفیف ہی ہوتا ہے‘‘(جیسا کہ پہلے فرمایا کہ باقی گناہوں کے نسبت بعض لغویات چھوڑنی بڑی آسان ہوتی ہیں )’’ پس خفیف تعلق چھوڑنے سے خفیف تعلق ہی ملتا ہے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21 صفحہ 231-230)

تو فرمایا اَفْلَحَ کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے ان لغو کاموں کو چھوڑنے سے پورا کرنا ہے لیکن جیسے کہ پہلے بھی بتایا ہے یہ کامیابی کا ایک حصہ ہے جو خداتعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے، ایک درجہ ہے کہ لغو کام جب انسان چھوڑتا ہے تو خداتعالیٰ بھی اپنے بندے سے کچھ تعلق جوڑتا ہے اس کے تعلق میں بھی کچھ اضافہ ہوتا ہے اور پھر ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

ایک دوسری جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ ایسے مومن کو خداتعالیٰ کی طرف کچھ رجوع تو ہو جاتا ہے مگر اس رجوع کے ساتھ لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو شغلوں کی پلیدی لگی رہتی ہے جس سے وہ انس اور محبت رکھتا ہے۔ ہاں کبھی نماز میں خشوع کے حالات بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں لیکن دوسری طرف لغو حرکات بھی اس کے لازم حال رہتی ہیں اور لغو تعلقات اور لغو مجلسیں اور لغو ہنسی ٹھٹھا اس کے گلے کا ہار بنا رہتا ہے گویا وہ دو رنگ رکھتا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21 صفحہ 235)

تو دیکھیں یہاں آپؑ نے فرمایا کہ یہ لغویات جن سے تعلقات ہیں تمہارے گلے کا ہار بن رہے ہوتے ہیں۔ یہاں جلسوں پر آتے ہیں خطبہ جمعہ سنتے ہیں، نمازوں میں کبھی کبھی بڑا ذوق شوق بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ جو لغوتعلقات ہیں یہ تمہارے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں۔ ان مجلسوں، اجتماعوں اور نمازوں کے بعد تمہارے دل پر جو اثر ہوتا ہے اس کی وجہ سے تم نیکیوں کے راستے اختیار کرنا چاہتے ہو۔ لیکن یہ جو لغو تعلقات ہیں، یہ فضول قسم کے جو لوگ ہیں اور فضول قسم کے لوگوں کی جو دوستیاں ہیں یہ تمہیں پھر واپس انہیں راستوں پر ڈال دیتی ہیں۔ جلسوں کے بعد اجتماعوں کے بعد، جمعہ کے بعد دل پر بعض دفعہ بڑا گہرا اثر ہوتا ہے اور انسان ارادہ کرتا ہے کہ اب میں نے نیکی کی طرف ہی آگے قدم بڑھانا ہے۔ لیکن جب شام ہوتی ہے گھر سے نکلے بازار گئے، کوئی کام کرنے کے لئے گئے، کوئی دوست مل گیا بڑی محبت کا اظہار کیا بڑے طریقے سے بڑی خوبیاں گنوا کر کسی لاٹری کا تعارف کرا دیا۔ تمہارے پیسے بھی اس نے اس طرح ضائع کئے کہ لالچ تو یہ دیا کہ پیسے ضائع نہیں ہوں گے لیکن حقیقت میں پیسے ضائع ہو رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ آپ کے پیسوں کے ساتھ اپنے پیسے بھی ضائع کر رہا ہوتا ہے۔ یا پھر رقمیں جیتنے کے لئے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ مختلف جگہوں پر بعض مشینیں لگی ہوتی ہیں بعض گیمز پڑی ہوتی ہیں خاص طورپر نوجوان اور بچے، ویسے تو بڑے بھی اس میں کافی دلچسپی لیتے ہیں، باتوں باتوں میں ہی ان کو کھیلنے میں لگا دیا۔ اس طرح وہ دوستوں کی باتوں میں آ گئے۔ یا ایسے دوست جن کو سگریٹ پینے کی عادت ہوتی ہے ان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے سگریٹ کی عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے دوسری نشہ آور اشیاء بھی استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو ایسے لوگ جو اس طرح بگاڑنے کی کوشش کریں غلط قسم کے بیہودہ اور لغو لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں، ان سے تعلقات ختم کرنے چاہئیں۔ جلسہ کے دنوں میں بھی بعض دفعہ بعض ایسے نوجوان یہاں آ جاتے ہیں جو نشے کے عادی ہوتے ہیں چاہے ایک آدھ ہی ہو۔ کیونکہ اتنی جرأت کرکے وہی لوگ آتے ہیں جو نشہ کا کاروبار کرنے والوں کے بعض دفعہ ایجنٹ بھی ہوتے ہیں۔ اور یہاں آ کر نوجوانوں کو باتوں باتوں میں لغویات میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ جو لغویات ہیں ایک حد کے بعد یہ گناہ میں شمار ہونے لگ جاتی ہیں تو اس طرح آپ کو بعض لوگ گناہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر لغو مجلسیں ہیں جہاں بیٹھ کر لوگوں کے متعلق باتیں ہو رہی ہوتی ہیں، ہنسی ٹھٹھا کیا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ تمام مجالس بھی لغو مجالس ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ خاص طور پر یہ دن جو جلسے کے دن ہیں یہ آپ کی اصلاح کے دن ہیں، ایک ٹریننگ کے لئے آپ یہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں اگر ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں اور اپنے پہ فرض کر لیں کہ ہم نے صرف اور صرف جلسے کے پروگراموں سے ہی فائدہ اٹھانا ہے کسی بھی قسم کی فضول یا لغو باتوں میں نہیں پڑنا تاکہ ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوں، تاکہ ہماری یہ کوشش ہو کہ ہم کامیابی کی سیڑھی کے اگلے قدم پر پاؤں رکھنے کے قابل ہو سکیں تو ایسے لوگوں کی دعوت پر جو برائی کی طرف بلانے کی دعوت دیتے ہیں قرآن کے حکم کے مطابق عمل کریں کہ{وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا}۔ یعنی جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں۔ بغیر اس طرف توجہ دئیے گزر جاتے ہیں۔ تو جہاں یہ حکم ہے کہ لغو کے پاس سے وقارکے ساتھ منہ پرے کرکے گزر جاؤ وہاں اس آیت میں اس سے پہلے یہ حکم بھی ہے کہ {وَالَّذِیْنَ لَایَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ} کہ ایسے تعلقات جو لوگوں سے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں جو لوگوں کے خلاف منصوبے بنانے والے ہیں وہ جھوٹے بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ کہیں بھی جھوٹی گواہی کی ضرورت پڑے تو وہ دریغ نہیں کرتے۔ اس لئے یاد رکھو کہ یہ لوگ تمہیں بھی جھوٹ بلوانے کی کوشش کریں گے۔ تمہارے سے بھی ایسی حرکات سرزد کروائیں گے کہ تم بھی جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاؤ۔ اس لئے جب کبھی ایسے لوگ تمہارے قریب آئیں تو یاد رکھو کہ شیطان تمہارے خلاف حرکت میں آ گیا ہے اب اپنی خیر منا لو، اب تم جھوٹ بولنے کے لئے تیار ہو جاؤ اب تم بھی جرائم میں ملوث ہونے والے ہو۔ اس لئے بہتر ہے کہ اگر تم سچے ہو، سچے بننا چاہتے ہو، اپنا دامن بچانا چاہتے ہو تو ان لوگوں سے بچ کر رہو تاکہ ہمیشہ سچ پر قائم رہو کیونکہ یہ سب لغو تعلقات والے لوگ ہیں۔ اس لئے بڑے وقار سے ان لوگوں سے پہلو بچاتے ہوئے پرے ہو جاؤ، ایک طرف ہو جاؤ۔ ان کی دوستی کی باتیں، ان کی چکنی چوپڑی باتیں تمہیں ان لغویات میں کہیں ملوث نہ کر دیں یہ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں کہ یہ ہنسی ٹھٹھے اور دوسروں کے جذبات کا خیال نہ رکھنے والی باتیں جب منہ سے نکلیں گی تو مزید برائیوں کی دلدل میں پھنساتی چلی جائیں گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہی وارننگ دے دی ہے کہ جھوٹ جو سب برائیوں کی جڑ ہے اس سے پرہیز کرو اس سے بچو تاکہ تمام لغویات سے بچے رہو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے، جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت سے کام لیتا ہے۔ (بخاری کتاب الادب۔ باب قول اللہ تعالیٰ یاایھاالذین امنوا ااتقوااللہ وکونوا مع الصدقین)

تویہاں مزید کھول دیا کہ جھوٹ ایسی چھوٹی برائی نہیں ہے کہ کبھی کبھی بول لیا تو کوئی حرج نہیں۔ یہ ایک ایسی حرکت ہے جو منافقت کی طرف لے جانے والی ہے۔ ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو بڑی فکر کی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر بعض دفعہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے یا مذاق میں یا کوئی چیز حاصل کرنے کے لئے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، غلط بیانی سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔ پھر وعدہ خلافی ہے یہ بھی جھوٹ کی ہی ایک قسم ہے۔ قرض لے کر ٹال مٹول کر دیا وعدہ خلافی کرتے رہے، توفیق ہوتے ہوئے بھی واپس کرنے کی نیت کیونکہ نہیں ہوتی اس لئے ٹالتے رہے۔ پھر اس کے علاوہ بھی روزمرہ کے ایسے معاملات ہیں کہ جن میں انسان اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھتا۔ پھر میاں بیوی کے بعض جھگڑے صرف اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ خاوند نے فلاں وعدہ کیا تھا پورا نہیں کیا۔ مثلاً یہ وعدہ کر لیا کہ جب میں اپنے کام سے واپس آ جاؤں تو فلاں جگہ جائیں گے۔ اس کو پورا نہیں کیا بلکہ واپس آ کے اپنے دوستوں کی مجلسوں میں گپیں مارنے کے لئے چلا گیا۔ یا اس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آئندہ میرے ماں باپ سے حسن سلوک کرے گا یا کرے گی کیونکہ یہ عورت و مرد دونوں کی طرف سے ہوتا ہے اور پھر اس کو پورا نہیں کیا۔ تو یہی چھوٹی چھوٹی وجہیں ہیں جو جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے، ایک دوسرے کے رشتوں کا، ماں باپ کاخیال رکھنا، یہ تو چیز ایسی ہے کہ یہ تو رحمی رشتوں کے زمرے میں آتا ہے۔ ان سے تو ویسے ہی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔ وعدہ نہ بھی کیا ہو تو حکم ہے کہ حسن سلوک کرو۔ پھر امانت میں خیانت کرنے والے ہیں کچھ عرصہ تو ایمانداری دکھا کے اپنی ایمانداری کا کسی پر رعب جما لیتے ہیں، اور اس کے بعد پھر خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ تمام باتیں جھوٹ ہی کی قسم ہیں اور لغویات میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ ہر وہ چیز جو شیطان کی طرف لے جانے والی ہے وہ لغو ہے۔

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدق فرمانبرداری کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور فرمانبرداری جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور ایک شخص مسلسل سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ نافرمانیوں کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانیاں دوزخ کی طرف لے جاتی ہیں اور ایک شخص مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذّاب شمار ہونے لگتا ہے۔ (بخاری کتاب الادب۔ باب قول اللہ تعالیٰ یاایھاالذین امنوااتقوااللہ وکونوا مع الصدقین)

تو دیکھیں جھوٹ ایک ایسی لغو حرکت ہے جو جب عادت بن جائے تو ایسے شخص کا شمار اللہ کے نزدیک کذاب کے طور پر ہوتا ہے۔ اور کاذب(جھوٹا) جو ہے وہ پھر کبھی ہدایت پانے والا نہیں ہوتا۔ وہ ہدایت سے دور جانے والا ہوتا ہے۔ اور پھر اس کا ٹھکانہ بھی دوزخ ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے حقیقی مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا اور اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر بہتان لگایا ہو گا اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے ساتھ اس نے یہ سلوک کیا ہو گا۔ اگر اس کی نیکیاں اس کا حساب برابر ہونے سے قبل ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے جو گناہ ہیں اس ظلم کرنے کی وجہ سے اس کے سر پہ ڈال دئیے جائیں گے اور پھر اس کو آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب تحریم الظلم)

تو دیکھیں ان لغویات کی وجہ سے جو اس سے سرزد ہوئی ہوں گی اس کی نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ اس کو کوئی فائدہ نہیں دے رہا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے جیسا کہ میں نے پہلے کہاہر سیڑھی پر قدم رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ انجام کار ایسے لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان کا ٹھکانہ پھر جہنم ہوتا ہے۔ پس کسی پر بلاوجہ الزام تراشی کرنا یا کسی کا مال کھانا یا کسی بات کو معمولی سمجھنا کہ یہ ایسا گناہ نہیں ہے کوئی ایسی گناہ کی حرکت کر لینا۔ فرمایا کہ اس کی سزا بھی کسی کا خون بہانے کے برابر ہے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے یونہی بدظنی کرتے ہوئے الزام لگا دیتے ہیں، بغیر تحقیق کے یہ سوچ لیتے ہیں کہ فلاں نے میری شکایت کی ہو گی۔ یا فلاں نے فلاں شخص کو میرے خلاف ابھارا ہے وہ تو ہے ہی ایسا اور ویسا۔ تو بلا سوچے سمجھے ایسے الزام لگانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اگر دوسرے شخص نے تمہارے خلاف واقعی ایسی حرکت کی ہے تو اس کا گناہ اس کے سر ہے تم کیوں بہتان لگا کر، ان لغویات میں پڑ کر اپنے سر اس کا گناہ لیتے ہو۔

ایک دوسرے کا مال بھی بعض لوگ ہوشیاری دکھا کے کھا جاتے ہیں۔ یا درکھو کہ تم نے اس دنیا میں تو ہوشیاری دکھا لی لیکن اس دن کا خیال بھی کرو کہ جب جس کا مال کھایا ہے اس کا گناہ بھی اس حدیث کے مطابق، یہ جو انذار کیا گیا ہے، اس مال کھانے والے کے سر پر ہی پڑے گا۔ اس لئے اس دنیا میں بہت پھونک پھونک کے قدم رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ ہر ہلکی سی برائی بھی بعض دفعہ خوفناک انجام تک لے جاتی ہے۔ اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہنا چاہئے اس کا فضل مانگتے رہنا چاہئے۔

ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس بات کو ترک کر دے جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ (ترمذی۔ کتاب الزھد۔ باب فیمن تکلم بکلمۃ یضحک بھاالناس)

بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بلاوجہ دوسروں کو مشورے دینے لگ جاتے ہیں۔ کسی نے کوئی مشورہ نہ بھی پوچھا ہو تو عادتاً مشورہ دیتے ہیں یا بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو کسی کی دل شکنی کا یا اس کے لئے مایوسی کا باعث بن جاتی ہے۔ مثلاً کسی نے کار خریدی، کہہ دیا یہ کار تو اچھی نہیں فلاں زیادہ اچھی ہے۔ وہ بیچارہ پیسے خرچ کرکے ایک چیز لے آتا ہے اس پہ اعتراض کر دیا یا پھر اور اسی طرح کی چیز لی اس پہ اعتراض کر دیا۔ اس کی وجہ سے پھر دوسرا فریق جس پہ اعتراض ہو رہا ہوتا ہے وہ پھر بعض دفعہ مایوسی میں چِڑ بھی جاتا ہے اور پھر تعلقات پہ بھی اثر پڑتا ہے۔ تو بلاضرورت کی جو باتیں ہیں وہ بھی لغویات میں شمار ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ دو آدمی باتیں کر رہے ہیں تیسرا بلاوجہ ان میں دخل اندازی شروع کر دے، یہ بھی غلط چیز ہے لغویات میں اس کا شمار ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جو لغو کاموں اور لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم سورۃ النحل یا سورۃ یٰس صفحہ359)

تو یہ تمام لغویات جن کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نشان دہی فرمائی ہے یہ کیا ہیں ؟ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا کسی پر الزام تراشی کرنا، بغیر ثبوت کے کسی کو بلاوجہ بدنام کرنا، اس کے افسران تک اس کی غلط رپورٹ کرنا، عدالتوں میں بلاوجہ اپنی ذاتی انا کی وجہ سے کسی کو کھینچنا، گھریلو جھگڑوں میں میاں بیوی کے ایک دوسرے پر گندے اور غلیظ الزامات لگانا پھر سینما وغیرہ میں گندی فلمیں (گھروں میں بھی بعض لوگ لے آتے ہیں ) دیکھنا، تو یہ تمام لغویات ہیں۔ پھر انٹرنیٹ کا غلط استعمال ہے یہ بھی ایک لحاظ سے آجکل کی بہت بڑی لغو چیز ہے۔ اس نے بھی کئی گھروں کو اجاڑ دیا ہے۔ ایک تو یہ رابطے کا بڑا سستا ذریعہ ہے پھر اس کے ذریعہ سے بعض لوگ پھرتے پھراتے رہتے ہیں اور پتہ نہیں کہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ شروع میں شغل کے طور پر سب کام ہو رہا ہوتا ہے پھر بعد میں یہی شغل عادت بن جاتا ہے اور گلے کا ہار بن جاتا ہے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا نشہ ہے اور نشہ بھی لغویات میں ہے۔ کیونکہ جو اس پر بیٹھتے ہیں بعض دفعہ جب عادت پڑ جاتی ہے تو فضولیات کی تلاش میں گھنٹوں بلاوجہ، بے مقصد وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ سب لغو چیزیں ہیں۔ آجکل بعض ویب سائٹس ہیں جہاں جماعت کے خلاف یا جماعت کے کسی فرد کے خلاف گندے غلیظ پراپیگنڈے یا الزام لگانے کا سلسلہ شروع ہوا ہوا ہے۔ تو لگانے والے تو خیر اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں، اپنی عقل کے مطابق کہ یہ مغلظات بک کے وہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا رہے ہیں حالانکہ اُن کی اِن لغویات پر کسی کی بھی کوئی نظر نہیں ہوتی۔ جماعت کا شاید اعشاریہ ایک فیصد بھی طبقہ اس کو نہ دیکھتا ہو، اس کو شاید پتہ بھی نہ ہو۔ تو بہرحال یہ تمام لغویات ہیں اس لئے وہ جو ان گندے غلیظ الزاموں کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، بعض نوجوانوں میں یہ جوش پیدا ہو جاتا ہے تو اس جوش کی وجہ سے وہ جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کوبھی اس سے بچنا چاہئے۔ جماعت کی اپنی ایک ویب سائٹ ہے اگر کوئی اعتراض کسی کی نظر میں قابل جواب ہو کسی کی نظر سے گزرے تو وہ اعتراض انہیں بھیج دینا چاہئے۔ انٹرنیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں پتہ ہے اس کا پتہ کیا ہے۔ اور اگر کسی کے ذہن میں اس اعتراض کا کا کوئی جواب آیا ہو تو وہ جواب بھی بے شک بھیج دیں۔ لیکن وہاں پر خود کسی کے اعتراض کا جواب نہیں دینا۔ ہو سکتا ہے آپ کو جواب دینا صحیح نہ آتا ہو کیونکہ جہاں آپ بھیجیں گے خود ہی چیک کر لیں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اعتراض کا جواب دینا بھی ہے کہ نہیں یا اس معاملے میں پڑنا صرف لغویات یا صرف وقت کا ضیاع ہی ہے۔ کیونکہ اعتراض کرنے والے کی اصلاح تو ہونی نہیں ہوتی کیونکہ اگر ان کا یہ مقصد ہو، یہ نیت ہو کہ انہوں نے اپنی اصلاح کرنی ہے یا کوئی فائدہ اٹھانا ہے تو پھر اتنی غلیظ اور گندی زبان استعمال نہیں ہوتی، شریفانہ زبان استعمال کی جاتی ہے۔ اور بعض اعتراضوں کے جواب کا تو دوسروں کو فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر کسی کے پاس جواب ہو تو اس جماعتی نظام کے تحت جواب بھیج دیں خود ہی نظام اس کو دیکھ لے گا کہ آیا جو جواب آپ نے بھیجا ہے درست ہے یا اس سے بہتر جواب دیا جا سکتا ہے۔ تو بہرحال مقصد یہ ہے کہ جماعت کے کسی بھی فرد کا وقت بلا مقصد ضائع نہیں ہونا چاہئے اس لئے جس حد تک ان لغویات سے بچا جا سکتا ہے، بچنا چاہئے اور جو اس ایجاد کا بہتر مقصد ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

علم میں اضافے کے لئے انٹرنیٹ کی ایجاد کو استعمال کریں۔ یہ نہیں ہے کہ یا اعتراض والی ویب سائٹس تلاش کرتے رہیں یا انٹرنیٹ پر بیٹھ کے مستقل باتیں کرتے رہیں۔ آجکل چیٹنگ(Chatting)جسے کہتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ چیٹنگ مجلسوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے اس میں بھی پھر لوگوں پہ الزام تراشیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں، لوگوں کا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہوتا ہے تو یہ بھی ایک وسیع پیمانے پر مجلس کی ایک شکل بن چکی ہے اس لئے اس سے بھی بچنا چاہئے۔

پھر غلط صحبتوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ بھی لغویات میں شمار ہوتی ہیں ان سے بھی بچو۔ اگر براہ راست ان مجلسوں اور ان صحبتوں میں نہیں بھی شامل ہو تو پھربھی ایسی مجلسوں میں ایسے لوگوں کی صحبتوں میں بیٹھنا جہاں غیر تعمیری گفتگو یا کام ہو رہے ہوں تمہیں بھی متاثر کر سکتا ہے۔ پھر بعض تعلقات ایسے ہوتے ہیں جو متاثر کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی شخص کا تمہارے پر بڑا اچھا اثر ہے اس کی ہر بات کو بڑی اہمیت دیتے ہو لیکن اگر وہ نظام جماعت کے خلاف بات کرتا ہے یا امیر کے خلاف بات کرتا ہے یا کسی عہدیدار کے خلاف بات کرتا ہے تو اس پہ اعتماد کرتے ہوئے اس پہ یقین کر لیتے ہو حالانکہ اس وقت اپنی عقل سے کام لینا چاہئے۔ یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ بھی وہ کہہ رہا ہے وہ سچ اور حق بات ہی کہہ رہا ہے۔ بلکہ انصاف اور عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ نظام تک بات پہنچاؤ۔ یہ بات اس بات کرنے والے کو بھی کہو کہ اگر یہ بات ہے جس طرح تم کہہ رہے ہو تو امیر تک بات پہنچاؤ یا بالا انتظام تک بات پہنچاؤ تاکہ اصلاح ہو جائے۔ تو جب آپ اس طرح کہیں گے تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ یہ شخص صحیح نہیں کیونکہ وہ نہ خود بات آگے پہنچانے پر راضی ہو گا اور نہ آپ کو اجازت دے گا کہ آپ بات آگے پہنچائیں ایسے لوگوں کا کام صرف باتیں کرنا اور فتنہ پھیلانا ہوتا ہے اس لئے ایسے تعلقات لغو تعلقات ہیں ان سے بھی بچیں۔ پھر فرمایا بعض دفعہ تمہارے جوش بھی لغوہوتے ہیں۔ کہیں سے اڑتی اڑتی بات اپنے یا اپنے کسی عزیز کے بارے میں سن لی اور فوراً جوش میں آ گئے اور جس کی طرف بات منسوب کی گئی ہے اس سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے۔ تو یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جو لغویات ہیں۔ مومن کا کام یہ ہے کہ ہمیشہ ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرے اور ہمیشہ اس حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔ زبان ایک ایسی چیز ہے جس کا اچھا استعمال سب کو آپ کا گرویدہ بنا سکتا ہے اور اس کا غلط استعمال دوست کو بھی دشمن بنا سکتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ ایک اور بات بھی ضروری ہے جو ہماری جماعت کو اختیار کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ زبان کو فضول گوئیوں سے پاک رکھا جاوے۔ زبان وجود کی ڈیوڑھی ہے اور زبان کو پاک کرنے سے گویا خداتعالیٰ وجود کی ڈیوڑھی میں آجاتا ہے۔ جب خداتعالیٰ ڈیوڑھی میں آ گیا تو پھر اندر آنا کیا تعجب ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد2 صفحہ182 الحکم 31 مارچ1902)

یعنی ہمارے جسم کا اندرداخل ہونے کا جو دروازہ ہے، جو مین گیٹ(Main Gate)ہے، راستہ ہے، وہ زبان ہے` اگر یہ لغو اور فضول باتوں سے پاک ہے تو سمجھو کہ تمہارے وجود میں داخل ہونے کا راستہ صاف اور پاک ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کیونکہ خوبصورت، پاک اور صاف چیزوں کو پسند کرتا ہے تو اس طرح تمہاری پاک زبان کی وجہ سے خداتعالیٰ بھی تمہارے قریب آ جائے گا۔ تو جب تمہاری پاک زبان سے خداتعالیٰ تمہارے اتنے قریب آ گیا تو پھر عین ممکن ہے کہ تمہارے دوسرے اعمال بھی ایسے ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ کی پسند کے اعمال ہوں اور پھر تمہارا سارا وجود خداتعالیٰ کا پسندیدہ وجود بن جائے۔

پھر آجکل کی لغویات میں سے ایک چیز سگریٹ وغیرہ بھی ہیں جیسا کہ مختصر سا میں پہلے ذکر کر آیا ہوں۔ نوجوانوں میں اس کی عادت پڑتی ہے اور پھر تمام زندگی یہ جان نہیں چھوڑتی سوائے ان کے جن کی قوت ارادی مضبوط ہو۔ اور پھر سگریٹ کی وجہ سے بعض لوگوں کو اور نشّوں کی عادت بھی پڑ جاتی ہے۔

ایک دفعہ ایک شخص نے امریکہ سے تمباکو نوشی سے متعلق اس کے بہت سے مجرب نقصان ظاہر کرتے ہوئے اشتہار دیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوبھی اشتہار سنایا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ:’’ اصل میں ہم اس لئے اسے سنتے ہیں کہ اکثر نو عمر لڑکے، نوجوان تعلیم یافتہ بطور فیشن ہی کے اس بلا میں گرفتار و مبتلا ہو جاتے ہیں تا وہ ان باتوں کو سن کر اس مضر چیز کے نقصانات سے بچیں ‘‘۔ یعنی جو لوگ مبتلا ہوتے ہیں وہ یہ باتیں سنیں تو اس کے نقصانات سے بچیں۔ فرمایا:’’ اصل میں تمباکو ایک دھواں ہوتا ہے جو اندرونی اعضاء کے واسطے مضر ہے۔ اسلام لغو کاموں سے منع کرتا ہے اور اس میں نقصان ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے پرہیز ہی اچھا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ110 الحکم 28فروری1903)

تو وہ لوگ جو اس لغو عادت میں مبتلا ہیں کوشش کریں کہ اس سے جان چھڑائیں۔ اور والدین خاص طور پر بچوں پر نظر رکھیں کیونکہ آجکل بچوں کو نشوں کی باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے عادت بھی ڈالی جاتی ہے۔ اور پھر آہستہ آہستہ یہ ہو جاتا ہے کہ بیچارے بچوں کے برے حال ہو جاتے ہیں۔ آپ یہاں بھی دیکھیں کس قدر لوگ ان نشوں کی وجہ سے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد ان ملکوں میں جن میں آپ رہ رہے ہیں، آپ دیکھیں گے سگریٹ پینے کی وجہ سے حشیش یا دوسرے نشوں میں مبتلا ہو گئی۔ اور اپنے کاموں سے بھی گئے، اپنی ملازمتوں سے بھی گئے، اپنی نوکریوں سے بھی گئے، اپنے کاروباروں سے بھی گئے، اپنے گھروں سے بھی بے گھر ہوئے اور زندگیاں برباد ہوئیں۔ بیوی بچوں کو بھی مشکل میں ڈالا۔ خود پارکوں، فٹ پاتھوں یاپُلیوں کے نیچے زندگیاں گزار رہے ہیں۔ گندے غلیظ حالت میں ہوتے ہیں۔ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ ڈسٹ بنوں (Dust Bins)سے گلی سڑی چیز یں چن چن کے کھارہے ہوتے ہیں۔ تو یہ سب اس لغوعادت کی وجہ سے ہی ہے۔ اس لئے کسی بھی لغو چیز کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں پھر بڑی بن جایا کرتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ حدیث میں آیا ہے ومِنْ حُسْنِ الْاِسْلَامِ تَرْکُ مَالَا یَعْنِیْہِ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے۔ اسی طرح پر یہ پان، حقہ زردہ(یعنی تمباکو جو پان میں کھاتے ہیں ) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرے کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان ان کا بفرض محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آ جاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے` مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور اشیاء نہیں دی جائیں گی۔ یا اگر قید نہ ہو(اور) کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائمقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں۔ عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہئے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے۔ افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ طبّی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قویٰ لے کر انسان آیا ہے ان کو ضائع کر دیتی ہے۔ (ملفوظات جلد2 صفحہ219 الحکم 10جولائی 1902)

اور اب تو افیون سے بھی زیادہ خطرناک نشے پیدا ہو چکے ہیں۔ پس ان لغویات سے بچنے والے ہی تقویٰ پر قائم رہ سکتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔ یہاں جس طرح فرمایا کہ افیون کا نشہ شراب سے بڑھ کر ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شراب کبھی پی لی تو کوئی حرج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور یہ حرام ہے۔ ان ملکوں میں کیونکہ شراب بہت عام ہے اور صحبتیں بھی ایسی مل جاتی ہیں جہاں شراب پینے والے مل جاتے ہیں اس لئے اس بارے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

فرمایا کہ:’’ شراب جو ام الخبائث ہے اسے حلال سمجھا گیا ہے اس سے انسان خشوع و خضوع سے جو کہ اصل جزو اسلام ہے بالکل بے خبر ہو جاتا ہے۔ ایک شخص جو رات دن نشہ میں رہتا ہے ہوش اس کے بجا ہی نہیں ہوتے تو اسے دوسری بدیوں کے ارتکاب میں کیا رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ موقع موقع پر ہر ایک بات مثل، زنا، چوری، قمار بازی وغیرہ کر سکتا ہے۔ ہماری شریعت میں قطعاً اس کو بند کر دیا ہے۔ یہاں تک لکھ دیا ہے کہ یہ شیطان کے عمل سے ہے تاکہ خدا کا تعلق ٹوٹ جاوے‘‘۔

تو شراب کاجو نشئی ہے وہ بھی مختلف جرائم میں گرفتار ہوتا ہے۔ بلکہ ان ملکوں میں بھی جہاں جہاں شراب کی اجازت ہے آپ دیکھیں گے کہ بعض لوگ نشے میں بعض قسم کی حرکات کر جاتے ہیں اور پھر جیلوں میں چلے جاتے ہیں۔ اور پھر یہاں کے معاشرے کے مطابق بعض شریف لوگ بظاہر شراب کے نشے میں دھت ہوتے ہیں اور سڑکوں پہ گرے پڑے ہوتے ہیں، پولیس ان کو اٹھا کے لے جاتی ہے۔

پھر جوا وغیرہ ہے یہ بھی لغویات ہیں۔ یہ بھی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ شرابیوں کو عام طورپر جوا کھیلنے کی بھی عادت ہوتی ہے۔ کسی بھی نشہ کرنے والے کو عادت ہوتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے بنیں۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ سمجھایا کہ یہ تمام چیزیں جو ہیں یہ لغویات اور فضولیات میں شمار ہیں اس لئے ان سے بچو۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’کہ اللہ اللہ! کیا ہی عمدہ قرآنی تعلیم ہے کہ انسان کی عمر کو خبیث اور مضر اشیاء کے ضرر سے بچا لیا۔ یہ منشی چیزیں شراب وغیرہ انسان کی عمر کو بہت گھٹا دیتی ہیں اس کی قوت کو برباد کر دیتی ہیں اور بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں۔ یہ قرآنی تعلیم کا احسان ہے کہ کروڑوں مخلوق ان گناہ کے امراض سے بچ گئی جو ان نشہ کی چیزوں سے پیدا ہوتی ہیں ‘‘۔ اور یہ تو آجکل کی میڈیکل میں ثابت شدہ ہے کہ شراب ہزاروں دماغ کے سیل اور خلیوں کو نقصان پہنچا دیتی ہے اور آہستہ آہستہ آدمی کی بہت ساری دماغی کمزوریاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ تو جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ’’ شراب وغیرہ‘‘ تو اس میں شراب کے ساتھ اور بھی نشے جو آجکل نئے نئے نکل آئے ہیں شامل ہو گئے ہیں۔ پس ان ملکوں میں رہتے ہوئے خاص طور پر جہاں منظم طریقوں سے نشوں کا کاروبار ہوتا ہے اور شراب کی تو ویسے بھی یہاں اجازت ہے بہت استغفار کرتے ہوئے اور اپنے پہلو بچاتے ہوئے ان چیزوں سے بچیں اور بچنے کی کوشش کریں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ خدا کو چھوڑ کر بدی اور گند میں رہنا صرف خدا کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ اس میں خداتعالیٰ پر ایمان میں بھی شک ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ چور جب چوری کرتا ہے تو ایمان اس میں نہیں ہوتا اور زانی جب زنا کرتا ہے تو ایمان اس میں نہیں ہوتا۔ یاد رکھوکہ وسوسے جو بلا ارادہ دل میں پیدا ہوتے ہیں ان پر مواخذہ نہیں ہوتا۔ جب پکی نیت انسان کسی کام کی کرے تو اللہ تعالیٰ مواخذہ کرتا ہے۔ اچھا آدمی وہی ہے جو دل کو ان باتوں سے ہٹا وے۔ ہر ایک عضو کے گناہوں سے بچے۔ ہاتھ سے کوئی بدی کا کام نہ کرے۔ کان سے کوئی بری بات چغلی غیبت، گلہ وغیرہ نہ سنے۔ آنکھ سے محرمات پر نظر نہ ڈالے۔ پاؤں سے کسی گناہ کی جگہ چل کر نہ جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ139 البدر13 مارچ 1903)

کہتے ہیں بعض عادتیں چھٹ نہیں سکتیں۔ فرماتے ہیں کہ:’’ انسان عادت کو چھوڑ سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس میں ایمان ہو اور بہت سے ایسے آدمی دنیا میں موجود ہیں جو اپنی پرانی عادات کو چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جو ہمیشہ سے شراب پیتے چلے آئے ہیں بڑھاپے میں آکر جبکہ عادت کا چھوڑنا خود بیمار پڑنا ہوتا ہے یا بلا کسی خیال کے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور تھوڑی سی بیماری کے بعد اچھے بھی ہو جاتے ہیں ‘‘۔ فرمایا ’’میں حقہ کو نہ منع کرتا ہوں اور نہ جائز قرار دیتا ہوں مگر ان صورتوں میں کہ انسان کو کو ئی مجبوری ہو۔ یہ ایک لغو چیز ہے اور اس سے انسان کو پرہیز کرنا چاہئے‘‘۔

آپؑ فرماتے ہیں، بہت قابل فکریہ ارشاد ہے، کہ:’’ ہر ایک زانی، فاسق، شرابی، خونی، چور، قمار باز، خائن، مرتشی، غاصب، ظالم، دروغ گو(یعنی جھوٹ بولنے والا) جعلساز اور ان کا ہم نشیں (ان میں بیٹھنے والا بھی) اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے‘‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ19)

تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام بڑے بڑے گناہ کرنے والوں، لوگوں کے حق مارنے والوں، لوگوں پہ ظلم کرنے والوں، جھوٹ بولنے و الوں، دھوکہ دینے والوں، لوگوں پر الزام تراشیاں کرنے والوں، بری مجلس میں بیٹھنے والوں کو ایک ہی زمرے میں شمار کیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کا پھر مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ایمان کے دعوے کے بعد ہم میں کہیں کوئی برائی تو نہیں۔ یا ہم ایسی برائیاں کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے والوں میں سے تو نہیں۔ ہماری مجالس پاکیز ہ ہیں، ہمارے اعمال ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہیں، ہم اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔

آج سے جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو گیا ہے۔ ان جلسوں کا مقصد بھی اپنے روحانی معیار کو بلند کرنا اور اپنے اندر نیکیوں کو قائم کرنا ہے۔ پس ان دنوں میں ایک تو دعاؤں پر زور دیں۔ اپنے لئے بھی، اپنے ماحول کے لئے بھی، اپنے عزیزوں کے لئے بھی، اپنے بچوں کے لئے بھی، اور جماعت کے لئے بھی بہت دعائیں کریں۔ دوسرے ہر ایک اپنا جائزہ لیتا رہے کہ کیاکیا لغویات اس میں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ ہر برائی لغو ہے یا ہرلغو حرکت یا بات گناہ ہے، اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر اس جلسے کو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کو کوئی دنیاوی جلسہ نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ ایک دینی اور روحانی جلسہ ہے۔ ایک دینی اور روحانی اجتماع ہے یہاں کسی خریدو فروخت یا صرف میل ملاقات کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا۔ ہمیں ان مجلسوں کو ان قواعد کے تحت لانا چاہئے جو حج کے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ مثلاً رَفَث کی تشریح میں آپ نے فرمایا کہ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ بدکلامی کرنا، گالیاں دینا، گندی باتیں کرنا، گندے قصے سنانا، لغو اور بیہودہ باتیں کرنا جسے پنجابی میں گپیں مارنا کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی حج کو جائے تو اسے کسی بھی قسم کی یہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ نہ بد کلامی کرنی چاہئے، نہ گندے قصے کرنے چاہئیں وغیرہ۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز جو حج کے لئے ہے وہ فسوق ہے۔ اس کے معنے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے باہر نکل جانا۔ تو یہاں بھی یاد رکھیں کہ نظام کی اطاعت اور اس کے ساتھ پورا تعاون آپ کا فرض ہے۔ پھر آپس میں بعض باتوں پر رنجشیں اور پھر بعض دفعہ تلخ کلامیاں بھی ہو جاتی ہیں جب اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو یہ سب لغو چیزیں ہیں۔ نظام جماعت کی یا یہاں جو جلسے کا نظام ہے اس کی ہدایات سے انحراف یہ بھی لغویات میں شمار ہوتا ہے۔ پھر جدال آتا ہے۔ فرمایا کہ یہاں بھی احتیاط کی ضرورت ہے ان تلخ کلامیوں کی وجہ سے ان رنجشوں کی وجہ سے بعض لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں ایک دوسرے پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ کسی ڈیوٹی والے سے یا کسی ڈیوٹی والی سے، کارکنوں سے کوئی ایسی بات ہو جائے مثلاً کسی بچے کو کچھ کہہ دیا تو اس پر اس کے ماں یا باپ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو ان باتوں سے بچنا چاہئے۔ پس کوشش کریں کہ ان دنوں میں ان تمام برائیوں اور لغویات سے اپنے آپ کو بچائیں اور اپنی زبانوں کو ذکر الٰہی سے تر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور سب شامل ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ آمین


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 20؍ اگست 2004ء شہ سرخیاں

    نیکیوں کی معراج حاصل کرنے کے لئے تمام نیکیاں بجا لانا ضروری ہے

    لغویات ایک حد کے بعد گناہ میں شمار ہونے لگتی ہیں

    ٭…انٹرنیٹ کا استعمال جو ایک بہت بڑی لغو چیز ہے

    ٭…Chatting کے نقصانات اور خطرات

    ٭…سکریٹ نوشی کے نقصانات، اس سے جان چھڑائیں

    ۲۰؍ اگست۲۰۰۴ء بمطابق۲۰؍ ظہور۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام مئی مارکیٹ، منہائم(جرمنی)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور