ہمیں جو کچھ بھی ملنا ہے قرآن کریم کی برکت سے ہی ملنا ہے
خطبہ جمعہ 24؍ ستمبر 2004ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدوتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
{ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ}(سورۃ البقرہ آیت: 3)
دنیا میں، جب سے یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اصلاح کے لئے بے شمار نبی بھیجے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی قوموں کے لئے شریعت لے کر آئے جو کتاب ان پر اتری اس کے احکام انہوں نے اپنی قوم کو بتائے، کچھ ان نبیوں کی پیروی میں بھی تھے جو اس شریعت کو آگے چلانے والے تھے، تو بہرحال نبیوں کا یہ سلسلہ اپنی اپنی قوم تک محدود رہا، یہاں تک کہ انسان کامل اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر اپنی شریعت بھی کامل کی اور آخری شرعی کتاب قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمائی جس میں گزشتہ انبیاء کے تمام واقعات بھی آ گئے اور تمام شرعی احکام بھی اس میں آ گئے اور آئندہ کی پیش خبریاں بھی اس میں آ گئیں۔ اور تمام علوم موجودہ بھی اور آئندہ بھی، ان کا بھی اس میں احاطہ ہو گیا گویا کہ علم و عرفان کا ایک چشمہ جاری ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ایک ایسا چشمہ ہے جو پاک دل ہو کر اس سے فیض اٹھانا چاہے وہ اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ وہ تقویٰ میں بھی آگے بڑھے گا، وہ ہدایت پانے والوں میں بھی شمار ہو گا کیونکہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ اس کے فیوض اور برکات کا درہمیشہ جاری ہے۔ اور وہ ہر زمانے میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھا‘‘۔
تو یہ دعویٰ ہے جو اس کتاب کا ہے اگر تم پاک دل ہو کر اس کی طرف آؤ گے، ہر کانٹے سے ہر جھاڑی سے جو تمہیں الجھا سکتی ہے، تمہیں بچنے کی تمنا ہے اور نہ صرف تمہیں بچنے کی تمنا ہے بلکہ اس سے بچنے کی کوشش کرنے والے بھی ہو اور تمہارے دل میں اگر اس کے ساتھ خدا کا خوف بھی ہے، اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش بھی اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش اور تڑپ بھی ہے پھر یہ کتاب ہے جو تمہیں ہدایت کی طرف لے جائے گی۔ اور جب انسان، ایک مومن انسان، تقویٰ کے راستوں پر چلنے کا خواہشمند انسان قرآن کریم کو پڑھے گا، سمجھے گا اور غور کر ے گا اور اس پر عمل کرے گاتو اللہ تعالیٰ اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ وہ اس ذریعے سے ہدایت کے راستے بھی پاتا چلا جائے گا اور تقویٰ پر بھی قائم ہوتا چلا جائے گا، تقویٰ میں ترقی کرتا چلا جائے گا۔ اور قرآن کریم کی ہدایت تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب کرے گی۔ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو پانے والے بھی ہو گے۔ اللہ تعالیٰ کیونکہ انسانی فطرت کو بھی جانتا ہے اس لئے ہمیں قرآن کریم نے اس بات کی بھی تسلی دے دی کہ یہ کام تمہارے خیال میں بہت مشکل ہے۔ عام طور پر تمہیں یہ خیال نہ آئے کہ اس کتاب کے احکام ہر ایک کو سمجھ نہیں آ سکتے، ہر ایک کے لئے ان کو سمجھنا مشکل ہے۔ اگر کوئی سمجھ آ بھی جائیں تو اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ تو اس بارے میں بھی قرآن کریم نے کھول کر بتا دیا کہ یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ یہ بڑی آسان کتاب ہے۔ اور اس کی یہی خوبی ہے کہ یہ ہر طبقے اور مختلف استعدادوں کے لوگوں کے لئے راستہ دکھانے کا باعث بنتی ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے، ہدایت کے راستے تلاش کرنا چاہتا ہے، وہ نیک نیت ہو کر، پاک دل ہوکر اس کو پڑھے اور اپنی عقل کے مطابق اس پر غور کرے، اپنی زندگی کو اس کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ کوشش تو بہرحال شرط ہے وہ تو کرنی پڑتی ہے۔ دنیاوی چیزوں کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ روٹی کمانے کے لئے دیکھ لیں کتنی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جن کا شیوہ ہی نکمے بیٹھ کرکھانا ہوتا ہے۔ دوسروں سے امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں یا ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیویوں کو کہتے ہیں جاؤ کماؤ، میں گھر میں بیٹھتا ہوں۔ پیشہ ور مانگنے والے بھی مانگنے کی کوششوں میں محنت کرتے ہیں۔ یہاں مغرب میں بھی بہت سارے مانگنے والے سارا دن باجے، ڈھول اور دوسری اس طرح کی چیزیں لے کر سڑکوں اور پارکوں میں بیٹھتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس کوشش میں ہی ہے نا! کہ روٹی حاصل کی جائے۔ تو بہرحال میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر کوشش کرو گے، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی، ہدایت پانے کی اور تقویٰ حاصل کرنے کی تو پھر تمہیں اس کتاب سے بہت کچھ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نیت نیک ہے تو میں نے اس کو تمہارے لئے آسان کر دیا ہے اور کر دوں گا، بشرطیکہ تم اس کو پڑھ کر عمل کرکے ہدایت پانا چاہو۔ جیسا کہ فرماتا ہے {وَلَقَدْ یَسَّرْنَاالْقُرْآنَ لِلْذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُدَّکِرْ}(القمر:18)، اور یقینا ہم نے قرآن کونصیحت کی خاطر آسان بنا دیا ہے، پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا ؟پس یہ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے، یہ اس کا دعویٰ ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی فطرت کی ہر اونچ نیچ کو جانتا ہے۔ اس کے اندر کو بھی جانتا ہے جہاں تک انسان خود بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس کو پتہ ہے کہ کس شخص کی کتنی استعدادیں ہیں۔ اور اس کی فطرت میں کیا کیاخوبیاں یا برائیاں ہیں۔ اس نے فرمایا کہ تم نصیحت پکڑنے والے بنو تم اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنے والے بنو۔ صرف نام کے مسلمان ہی نہ ہو۔ صرف یہ دعویٰ کرکے کہ ہم نے امام مہدی کو مان لیا اور بس قصہ ختم، اس کے بعد دنیاوی دھندوں میں پڑ جاؤ۔ اگر اس طرح کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بھلانے والے ہو گے۔ اور اگر نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کو پانے کی تلاش میں ہو گے، اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہو گے۔ تو فرمایا کہ میں نے قرآن کریم میں انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے آسان انداز میں نصیحت کی ہے۔ بڑے آسان حکم دیئے ہیں جن پر ہر ایک عمل کر سکتا ہے۔ جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اس میں تمام بنیادی اخلاق اور اصول و قواعد کا ذکر بھی آ گیا جن پر عمل کرنا کسی کم سے کم استعداد والے کے لئے بھی مشکل نہیں ہے۔ عبادتوں کے متعلق بھی احکام ہیں تو وہ ہر ایک کی اپنی استعداد کے مطابق ہے۔ عورتوں کے متعلق حکم ہیں تو وہ ان کی طاقت کے مطابق ہیں۔ گھریلو تعلقات چلانے کے لئے حکم ہے تو وہ عین انسان کی فطرت کے مطابق ہے۔ معاشرے میں تعلقات اور لین دین کے بارے میں حکم ہے تو وہ ایسا کہ ایک عام آدمی جس کو نیکی کا خیال ہے وہ بغیر اپنایا دوسرے کا نقصان کئے اس پر عمل کر سکتا ہے۔ پھر جن باتوں کی سمجھ نہ آئے یا بعض ایسے حکم ہیں جو بعض لوگوں کی ذہنی استعدادوں سے زیادہ ہوں، اور بعض گہری عرفان کی باتیں ہیں ان کے سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زیادہ استعداد والوں کو علم دیا کہ انہوں نے ایسے مسائل آسان کرکے ہمارے سامنے رکھے دئیے۔ اور ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق ملی جن کو اللہ تعالیٰ نے حَکَم اور عَدَل بنا کر بھیجا۔ جنہوں نے قرآن کریم کے ایسے چھپے خزانے جن تک ایک عام آدمی پہنچ نہیں سکتا تھا ان خزانوں کے بارے میں کھول کر وضاحت کر دی۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ اور اس دعویٰ کے مطابق ہے کہ اگر تمہیں نصیحت حاصل کرنے کا شوق ہے تو ہم نے قرآن کریم کو آسان بنایا ہے۔ کیونکہ بعض معارف ایسے ہیں کہ ایک عام آدمی کی استعداد سے زیادہ ہیں، اس کی سمجھ سے بالا ہیں۔ ان کو کھولنے کے لئے فرمایاکہ میں اپنے پیاروں پر علم کے معارف کھولتا رہا ہوں اور رہتا ہوں اور اس زمانے میں یہ تمام دروازے مسیح موعود اور مہدی موعود پر کھول دئیے ہیں۔ پس انہوں نے جس طرح آسان کرکے، کھول کر قرآن کریم کی نصیحت ہمیں پہنچائی ہے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اور اگر کوئی ان نصائح پر عمل نہیں کرتا، جن کی خداتعالیٰ سے علم پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے، تو یہ اس کی بدقسمتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنی نصیحت کو آسان کرکے سمجھانے کے لئے اپنا نمائندہ بھیج دیا ہے، اس کی بات نہ ماننا بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اس کو نہ ماننے کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ جن نصائح اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو امام وقت نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر آسان کرکے دکھایا ہے، اس میں یہ لوگ ایچ پیچ تلاش کرتے ہیں اور بعض باتوں کو ناقابل عمل بنا دیا ہے۔ کچھ حکموں کو کہہ دیا کہ منسوخ ہو گئے۔ کچھ کو صرف قصہ کہانی کے طور پر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو کہہ دیا تھا کہ بعض باتیں صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو اللہ نے کامل علم دیا ہے۔ اور اب جبکہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے کے مطابق دین کو سنبھالنے والا ایک پہلوان حکم اور عدل آ گیا تو ان تفسیروں کو بھی ماننا ضروری ہے جو اس نے کی ہیں۔ بہرحال ایک احمدی کو خاص طورپر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے قرآن کریم پڑھنا ہے، سمجھناہے، غور کرنا ہے اور جہاں سمجھ نہ آئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وضاحتوں سے یا پھر انہیں اصولوں پر چلتے ہوئے اور مزید وضاحت کرتے ہوئے خلفاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان کو ان کے مطابق سمجھنا چاہئے۔ اور پھر اس پر عمل کرنا ہے تب ہی ان لوگوں میں شمار ہو سکیں گے جن کے لئے یہ کتاب ہدایت کا باعث ہے۔ ورنہ تو احمدی کا دعویٰ بھی غیروں کے دعوے کی طرح ہی ہو گا کہ ہم قرآن کو عزت دیتے ہیں۔ اس لئے ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ صرف دعویٰ تو نہیں ؟ اور دیکھے کہ حقیقت میں وہ قرآن کو عزت دیتا ہے؟ کیونکہ اب آسمان پر وہی عزت پا ئے گا جو قرآن کو عزت دے گا اور قرآن کو عزت دینا یہی ہے کہ اس کے سب حکموں پر عمل کیا جائے۔ قرآن کی عزت یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض لوگ شیلفوں میں اپنے گھروں میں خوبصورت کپڑوں میں لپیٹ کر قرآن کریم رکھ لیتے ہیں اور صبح اٹھ کر ماتھے سے لگا کر پیار کر لیا اور کافی ہو گیا اور جو برکتیں حاصل ہونی تھیں ہو گئیں۔ یہ تو خدا کی کتاب سے مذاق کرنے والی بات ہے۔ دنیا کے کاموں کے لئے تو وقت ہوتا ہے لیکن سمجھنا تو ایک طرف رہا، اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ایک دو رکوع تلاوت ہی کر سکیں۔ پس ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں۔ پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر پڑھیں۔ یہ تفسیر بھی تفسیر کی صورت میں تو نہیں لیکن بہرحال ایک کام ہوا ہوا ہے کہ مختلف کتب اور خطابات سے، ملفوظات سے حوالے اکٹھے کرکے ایک جگہ کر دئیے گئے ہیں اور یہ بہت بڑا علم کا خزانہ ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کو اس طرح نہیں پڑھتے تو فکرکرنی چاہئے اور ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کہ کیا وہ احمدی کہلانے کے بعد ان باتوں پر عمل نہ کرکے احمدیت سے دور تو نہیں جا رہا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے۔ لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں چنانچہ میں اس وقت اس ثبوت کے لئے بھیجا گیا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اپنی حمایت اور تائید کے لئے بھیجتا رہا ہے۔ کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا کہ {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ} یعنی بے شک ہم نے اس ذکر(یعنی قرآن شریف) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ‘‘۔ (الحکم 17؍نومبر 1905ء)
پس ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں بھی جو کچھ ملنا ہے قرآن کریم کی برکت سے ہی ملنا ہے اور برکت اس کے احکام پر عمل کرنے میں ہی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔ اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہو گئے۔ ابتداء میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ409 الحکم ۳۱ جنوری ۱۹۰۱ء)
پس بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھیں۔ ہر گھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہئے۔ پھرترجمہ پڑھنے کی کوشش بھی کریں۔ اور سب ذیلی تنظیموں کو اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے، خاص طور پر انصاراللہ کو کیونکہ میرے خیال میں خلافت ثالثہ کے دور میں ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا۔ اسی لئے ان کے ہاں ایک قیادت بھی اس کے لئے ہے جوتعلیم القرآن کہلاتی ہے۔ اگر انصار پوری توجہ دیں تو ہر گھر میں باقاعدہ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی کلاسیں لگ سکتی ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو موسیٰ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مومن قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال ایک ایسے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی عمدہ اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے۔ اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو عمدہ ہے مگر اس کی خوشبو کوئی نہیں۔ اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس خوشبو دار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو عمدہ ہے مگر مزاکڑوا ہے۔ اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ایسے کڑوے پھل کی طرح ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہے جس کی خوشبو بھی کڑوی ہے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب اثم من رأی بقراۃ القرآن او تأکل بہ، او فجر بہ)
اس حدیث سے قرآن کریم کی مزید وضاحت یہ ہوتی ہے کہ نہ صرف تلاوت ضروری ہے بلکہ اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنابھی ضروری ہے۔ جو قرآن کریم پڑھتے بھی ہیں اور اس پر غور بھی کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں وہ ایسے خوشبودار پھل کی طرح ہیں جس کا مزا بھی اچھا ہے اور جس کی خوشبو بھی اچھی ہے۔ کیسی خوبصورت مثال ہے۔ کہ ایسا پھل جس کا مزا بھی اچھا ہے جب انسان کوئی مزیدار چیز کھاتا ہے تو پھر دوبارہ کھانے کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ تو قرآن کریم کو جو اس طرح پڑھے گا کہ اس کو سمجھ آ رہی ہو گی اس کو سمجھنے سے ایک قسم کا مزا بھی آ رہا ہو گا اور جب اس پر عمل کر رہاہو گا تو اس کی خوشبو بھی ہر طرف پھیلا رہا ہو گا۔ اس کے احکام کی خوبصورتی ہر ایک کو ایسے شخص میں نظر آ رہی ہو گی۔
پس ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو تقویٰ میں ترقی کرنے والے اور راہ ہدایت پانے والے ہوتے ہیں۔ ان کے گھر کے ماحول بھی جنت نظیر ہوتے ہیں۔ ان کے باہر کے ماحول بھی پرسکون ہوتے ہیں۔ وہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ماں باپ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ صلہ رحمی کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ہمسایوں کے بھی حقوق ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دنیاوی کاموں کے بھی حق ادا کر رہے ہوتے ہیں اور وہ جماعتی خدمات کو بھی ایک انعام سمجھ کر اس کی ادائیگی میں اپنے اوقات صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے، رحمان کے بندے ہوتے ہیں۔ ان کے بچے بھی ایسے باپوں کو ماڈل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کی بیویاں بھی ان سے خوش ہوتی ہیں اور پھر ایسی بیویاں ایسے خاوندوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں، اپنے عملوں کو بھی ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس طرح ایسے لوگ بغیر کچھ کہے بھی خاموشی سے ہی ایک اچھے راعی، ایک اچھے نگران کا نمونہ بھی قائم کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا ہمسایہ بھی ان کی تعریف کے گیت گا رہا ہوتا ہے اور ان کا ماحول اور معاشرہ بھی ایسے لوگوں کی خوبیاں گنوا رہا ہوتا ہے۔ ان کا افسر بھی ایسے شخص کی فرض شناسی کے قصے سنا رہا ہوتا ہے اور اس کا ماتحت بھی ایسے اعلیٰ اخلاق کے افسر کے گن گا رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہوتا ہے۔ اور اس کے دوست اور ساتھی بھی اس کی دوستی میں فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خوبیاں ہیں جو قرآن پڑھ کر اس پر عمل کرکے ایک مومن حاصل کر سکتا ہے۔ بلکہ اور بھی بہت ساری خوبیاں ہیں۔ یہاں تو میں ساری گنوا نہیں سکتا۔ تو جس کو یہ سب کچھ مل جائے وہ کس طرح سوچ سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ کر اس پر عمل نہ کرے جب عمل کرنے کے بعد یہ سب کچھ حاصل ہو رہا ہے۔ اور پھر جو دوسری مثال اس میں دی کہ جو اتنی نیکی رکھتا ہے گو وہ باقاعدہ گھر میں تلاوت تو نہیں کر رہا ہوتا، ترجمہ پڑھنے والا تو نہیں ہے، اس پر غور کرنے والا تو نہیں ہے لیکن جب بھی جمعہ پر آتا ہے، درسوں پر آتا ہے، نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے، وہاں قرآن کریم کی کوئی ہدایت کی بات سن لیتا ہے تو پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو وہ اس کا مزا تو نہیں لیتا جو قرآن کریم کو پڑھنے، سمجھنے اور غور کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے لیکن اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے بھی وہ کچھ نہ کچھ حصہ لے رہاہوتا ہے۔
اس مثال میں جس طرح بیان کیا گیا ایسے لوگ ہیں جو دنیا کے دکھاوے کے لئے قرآن کریم پڑھتے ہیں تو قرآن کریم کی خوشبو اس کو پڑھنے کی وجہ سے ماحول میں قائم ہو گی۔ کوئی نیک فطرت اس سے فائدہ اٹھا لے گا۔ لیکن وہ شخص جو دکھاوے کی خاطر یہ سب کچھ کر رہاہے اس شخص کو اس کا پڑھنا کوئی مٹھاس، کوئی خوشبو میسر نہیں کر سکتی۔ کوئی فائدہ اس کو نہیں پہنچے گا۔ اور پھر وہ شخص جو نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ اس پر عمل کرتا ہے، اس میں تو فرمایا کہ ایسی منافقت بھر گئی ہے کہ جس میں نہ خوشبو ہے اور نہ مزاہے۔ نہ وہ خود فیض پا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسر ااس سے فیض پا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ایسا بننے سے محفوظ رکھے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ اہل اللہ ہوتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں اس پر آپؐ سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ! خدا کے اہل کون ہوتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن والے اہل اللہ اور اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ128مطبوعہ بیروت)
اہل اللہ بننے کے لئے جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے۔ قرآن کریم کو پڑھنے والے بھی بنیں اور اس پر عمل کرنے والے بھی بنیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے‘‘۔ (الحکم 31؍ اکتوبر 1901ء)
پس ہر احمدی کو اپنی کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لئے یہ نسخہ آزمانا چاہئے۔ دین بھی سنور جائے گا اور دنیاوی مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ آج دیکھ لیں مسلمانوں میں جو لڑائی جھگڑے اور دنیا کے سامنے ذلت کی حالت ہے وہ اسی لئے ہے کہ نہ قرآن پڑھتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ جو پڑھتے ہیں وہ عمل نہیں کرتے، سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو ظاہر ہے پھر قرآن کو چھوڑنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکل رہا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’یاد رکھو قرآن کریم حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔ یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن کریم پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں۔ اور وہ اس کو خداتعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے، اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خداتعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپرواہ ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفّٰی اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سے امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے۔ یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے، ۔ اسے تو چاہئے تھا کہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا۔ مگر باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔ اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے۔ اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہورہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ساری کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے، مگر نہیں۔ اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی۔ ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذّاب اور دجّال کہا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہو گی‘‘۔
فرمایا کہ:’’ مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خداتعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے۔ کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے۔ اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ141-140 الحکم 24ستمبر1904)
جب یہ دوسروں کے لئے نصیحت ہے تو یہ ہمارے لئے تو اور بھی زیادہ بڑھ کر ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے جو عمل نہیں کرتے، قرآن کریم میں آیا ہے کہ {وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْآنَ مَھْجُوْرًا}(الفرقان:۱۳)۔ اور رسول کہے گا اے میرے رب یقینا میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔ پس احمدیوں کو ہمیشہ فکر کرنی چاہئے کیونکہ ماحول کا بھی اثر ہو جاتا ہے۔ دنیاداری بھی غالب آ جاتی ہے۔ کوئی احمدی کبھی بھی ایسا نہ رہے جو کہ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت نہ کرتا ہو، کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اس کے احکام پر عمل نہ کرتا ہو۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی کوئی احمدی اس آیت کے نیچے آ جائے کہ اس نے قرآن کریم کو متروک چھوڑ دیا ہو۔ پس اس کے لئے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو کمیاں ہیں ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہمارے اندر کوئی کمی تو نہیں۔ ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ تو نہیں دیا۔ تلاوت باقاعدگی سے ہو رہی ہے یا نہیں۔ ترجمہ پڑھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں۔ تفسیر سمجھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں۔ متروک چھوڑنے کا مطلب یہی ہے کہ اس کے حکموں پر عمل نہیں کر رہیض نہ اللہ کے حقوق ادا کر رہے ہیں نہ بندوں کے حقوق ادا کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں جب ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو ہر ایک کو اپنا علم ہو جائے گا کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت صہیبؓ سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے قرآن کریم کے محرمات کو عملاً حلال سمجھ لیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں۔ یعنی جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی قرآن کریم کے جو احکامات ہیں ان پر عمل نہ کیا۔ تو ایسا شخص لاکھ کہتا رہے کہ الحمدللہ میں مسلمان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتا ہے کہ نہیں تمہارا کوئی ایمان نہیں ہے۔ کیونکہ تم قرآن کریم کے حکموں پر عمل نہیں کر رہے۔ پس ایسے لوگوں کو جو لوگوں کے حق مارتے ہیں ان کے حقوق غصب کر رہے ہیں اس حدیث کو سننے کے بعد سوچنا چاہئے کہ میرا ایمان جا رہا ہے، کس طرح اس کو واپس لے کے آنا ہے۔
پھر ایک روایت میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا کہ عنقریب بہت سے فتنے پیدا ہوں گے دریافت کیا گیا کہ ان فتنوں سے خلاصی کی کیا صورت ہو گی اے جبرائیل!۔ فرمایا کہ فتنوں سے خلاصی کی صورت کتاب اللہ ہے۔ پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف توجہ دیں اس کو پڑھیں، اس کی تلاوت کریں۔ اس کے مطالب کی طرف بھی توجہ دیں اور جیسا کہ پہلے حدیث بیان ہو چکی ہے، اس کا مزا بھی لیں اور اس کی خوشبو بھی پھیلائیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم کو ظاہر کرکے پڑھنے والا، ظاہری طور پر صدقہ دینے والے کی طرح ہے اور قرآن کریم کو چھپا کر پڑھنے والا خفیہ طور پر چندہ دینے والے کی طرح ہے۔ پس جیسا کہ روایت میں ہے کہ صدقہ بلاؤں، خطرات اور فتنوں کو دور کرتا ہے، ان کوٹالتا ہے۔ قرآن کریم کا پڑھنا اور اس طرح پڑھنا کہ اس کی سمجھ بھی آ رہی ہو صدقے کے طور پر قبول ہو گا۔ اور اس کی برکت سے تمام فتنوں سے بھی بچا جا سکتا ہے تمام برائیوں سے بھی بچا جا سکے گا اور ابتلاؤں سے بھی بچا جا سکے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف دو آدمی ایسے ہیں جن کے بارے میں حسد(یعنی رشک جائز ہے۔ یعنی ایسا حسد جو نقصان پہنچانے کے لئے نہیں بلکہ تعریفی رنگ میں ہو)۔ ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہو۔ اور اس پر رشک کرنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی ایسی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی ہے تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے۔ اور دوسرا شخص وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو جس کو وہ وہاں خرچ کرتا ہے جہاں خرچ کرنے کا حق ہے اور اس پر رشک کرنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی ایسی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی تو میں بھی ویسے ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے۔ (بخاری کتاب التمنّی)
قرآن کریم کے پڑھنے کے بھی کچھ آداب ہیں اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے تین دن سے کم عرصے میں قرآن کریم کو ختم کیا اس نے قرآن کریم کا کچھ نہیں سمجھا۔ (ترمذی ابواب القراء ۃ)۔ بعض لوگوں کو بڑا فخر ہوتا ہے کہ ہم نے اتنے دن میں، ایک دن میں یا دو دن میں سارا قرآن کریم ختم کر لیا۔ یا ہم نے اتنے منٹ میں سیپارے ختم کر دئیے یا اتنا سیپار ہ ختم کر دیا۔ بلکہ رمضان کے دنوں میں تو پاکستان میں (اور جگہوں پہ بھی ہو گا) غیروں کی مسجدوں میں مقابلہ ہوتا ہے کہ کون جلدی تراویح پڑھاتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہماری یونیورسٹی کا کا رکن تھا۔ بڑا نمازی غیر ازجماعت، وہ بتاتا تھا کہ میں آج فلاں مسجد میں گیا وہاں فلاں مولوی بڑا اچھا ہے اس نے تو تین منٹ میں دو رکعت نماز پڑھا دی اور آٹھ رکعتوں میں قرآن کریم کا ایک پارہ ختم کر دیا۔ تو جب اسے پوچھو کہ کچھ سمجھ بھی آئی؟۔ سمجھ آئی یا نہ آئی اس نے بہرحال قرآن کریم پڑھ دیا تھا۔ وہ ہی ہمارے لئے کافی ہے۔ حالانکہ حکم یہ ہے کہ قرآن کریم غور سے اور سمجھ کر پڑھو، ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قرآن کریم خوش الحانی سے اور سنوار کر نہیں پڑھتا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ (ابوداؤد۔ کتاب الصلوۃ باب کیف یستحب الترتیل فی القراء ۃ)۔ تو یہ مزید کھل گیا کہ ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھنا چاہئے۔
اور کس طرح پڑھنا چاہئے؟ اس کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے۔ جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے۔ اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے۔ اور ان بداعمالیوں سے بچے جن کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی۔ بلا مدد وحی کے ایک بالائی منصوبہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے وہ اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے، اور ایسی راے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہووہ محدثات میں داخل ہو گی۔ رسم اور بدعات سے پرہیز بہتر ہے۔ اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے۔ بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تدبر میں لگاوے۔ دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے۔ جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الٰہی میرے بھی شامل حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے پھر آگے چل کر ایک اور قسم کا پھول چنتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھاوے۔ اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے۔ ورنہ پھر سوال ہو گا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی۔ خدا تعا لی کے سوا اور کس کی طاقت ہے کہ کہے فلاں راہ سے اگر سورۃ یاسین پڑھو گے تو برکت ہو گی ورنہ نہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۹۱۵ جدید ایڈیشن) یہ باتیں ہوتی ہیں کہ اس طرح سورۃ یاسین پڑھی جائے تو برکت ہو گی اور اگر اس طرح ہو گی تو نہیں ہو گی۔
پس ہر ایک کو اس نصیحت پر عمل کرناچاہئے، دلوں کو پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس طرح غور اور تدبر سے پڑھنا چاہئے جیسا کہ آپؑ نے فرمایا۔ پھر ہر ایک جائزہ لے کہ کتنے حکم ہیں جن پر میں عمل کرتا ہوں۔ تو اگر روزانہ تلاوت کی عادت ہو اور پھر اس طرح روزانہ جائزہ ہو تو کیا دل کے اندر کوئی برائی رہ سکتی ہے۔ کبھی نہیں۔ تو یہ بھی ایک پاک کرنے کا ذریعہ ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے۔ وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے۔ اور خداتعالیٰ کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے‘‘۔ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۰۸، ۳۰۹)
اللہ کرے کہ ہم خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانے والے ہوں اور اپنے دلوں کو منور کرنے والے ہوں اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ انصاراللہ کے ذمّہ خلافت ثالثہ میں یہ لگایا گیا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کریں، قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ دیں۔ گھروں کو بھی اس نور سے منور کریں لیکن ابھی بھی جہاں تک میرا اندازہ ہے انصاراللہ میں بھی 100فیصد قرآن کی تلاوت کرنے والے نہیں ہیں۔ اگر جائزہ لیں تو یہی صورتحال سامنے آئے گی۔ اور پھر یہ کہ اس کا ترجمہ پڑھنے والے ہوں آج انصاراللہ کا اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے یہ بھی ان کے پروگرام میں ہونا چاہئے کہ اپنے گھروں میں خود بھی پڑھیں اور اپنے بیوی بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے‘‘۔ (روحانی خزائن جلد 11، ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 61)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’ قرآن شریف پر تدبر کرو اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے۔ اور آئندہ زمانے کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی تعلیم اس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو، لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں۔ یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے۔ اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102 الحکم 17 جنوری1907)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’ قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی ناامید نہ ہو۔ مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا خدا عَلَی کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْر خدا ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو۔ قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑ ھو بلکہ اس کو خداتعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 191۔ الحکم 17 جون1902)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآن کریم کے مقام کو پہچانیں اور اپنی زندگیاں بھی سنوارنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کی زندگیاں بھی سنوارنے والے ہوں۔ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو ہمیں نصائح فرمائی ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں۔
ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں۔ پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر پڑھیں
٭…تلاوت قرآن کریم کے آداب
٭…قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی ناامید نہ ہو۔
۲۴؍ستمبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۲۴؍تبوک ۱۳۸۳ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔