دعوت الی اللہ ایک احمدی کا بنیادی کام ہے
خطبہ جمعہ 8؍ اکتوبر 2004ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدوتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
{اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ}(سورۃ النحل آیت نمبر:126)
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقینا تیرا رب ہی اسے جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہو سب سے زیادہ جانتا ہے اور ہدایت پانے و الوں پر بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔
اس آیت سے آپ کواندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس مضمون پر میں کچھ کہنے والا ہوں۔ چند ماہ پہلے بھی اسی مضمون یعنی دعوت الی اللہ پر تفصیل سے روشنی ڈال چکاہوں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ تو ایک احمدی کا بنیادی کام ہے اور اس کی طرف جتنی بھی توجہ دلائی جائے کم ہے۔ لندن سے چلتے وقت میرے ذہن میں تھا کہ ملک کے اس حصے میں جماعت کی تعداد بہت کم ہے اور اس طرف جماعت کو توجہ دلانی چاہئے۔ اب کچھ اسائلم(assylum) لینے والے لوگ بھی یہاں آ رہے ہیں۔ اور اس وقت کافی آ چکے ہیں۔ یعنی جو پرانی تعداد تھی اس سے گزشتہ چار سالوں میں دگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر آپ سب لوگ صحیح طریق پر اس طرف توجہ دیں اور دعوت الی اللہ کریں تو دنیا کمانے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی حاصل کرنے والے ہوں گے۔ گو کہ تمام برطانیہ میں بلکہ تمام مغربی ممالک میں ہی یہ کمی ہے کہ جس طرح دعوت الی اللہ ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہو رہی۔ جس طرح پیغام پہنچانا چاہئے اس طرح نہیں پہنچایا جا رہا۔ لیکن بہرحال مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ سکاٹ لینڈ والوں کو اس طرف توجہ دلانی چاہئے، یہاں رہنے والے احمدیوں کو اس میدان میں آگے آنے کے بارے میں کچھ کہنا چاہئے۔ پھر مجھے امیر صاحب نے سفر کے دوران ہی بتایا کہ یو۔ کے۔ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے فرائیڈے دی ٹینتھ(Friday the 10th)کا جو پہلا خطبہ دیا تھا وہ یہاں اس جگہ پر دیا تھا۔ جب آپ یہاں اس(مسجد) کے افتتاح کے لئے تشریف لائے تھے۔ تو مجھے یہ خیال آیا کہ اُس خطبے کو بھی دیکھنا چاہئے کہ آپ نے یہاں کی جماعت کو اُس وقت، آج سے 19سال پہلے، کیا نصیحت فرمائی تھی۔
یہ خطبہ 10مئی 1985ء کا تھا۔ جب میں نے دیکھا تو اس میں آپ نے تفصیل سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کیا اور یہ کہ کس طرح مختلف حالات سے گزرتے ہوئے امید اور ناامیدی کی حالت سے گزرتے ہوئے یہ مشن ہاؤس خریدا گیا تھا۔ پھر آپ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے سورۃ فاتحہ کے حوالے سے بتایا کہ ایک بیج ہے جو ہم نے ڈالا ہے اور اس نے پھلنا ہے اور پھولنا ہے، انشاء اللہ۔ آپ نے فرمایا کہ اس افتتاح سے ہم ایک بنیادی اینٹ رکھ رہے ہیں اور اس اینٹ پر آئندہ چل کر وہ عظیم الشان محل تعمیر ہونے ہیں جن پر دنیابسیرا کرے گی۔ اور پھر آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج اس جمعہ میں تمام احمدی یہ عہد کریں کہ ہم نے خدا کی مرضی کے مطابق زندہ رہنا ہے اور مرنا ہے اور دین اسلام کا پیغام تمام دنیا میں پھیلا نا ہے اور ہم پھیلائیں گے۔ اور فرمایا کہ یہ دعاؤں کے ذریعے سے ہی انجام پائے گا اور اپنے اوپر جنونی کیفیت طاری کرنے سے ہی انجام پائے گا۔ پھر آپ نے سکاٹ لینڈ کی جماعت کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ سب نے اپنے آپ کو اشاعت دین کے لئے وقف کرنا ہے اور اپنے آپ کو اس میں جھونک دینا ہے۔ آج آپ یہ فیصلہ کرکے اٹھیں کہ آپ سکاٹ لینڈ کو خدا اور اس کے دین کے لئے فتح کرکے چھوڑیں گے۔
تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے بھی یہاں آ کر اسی مضمون پر خطبہ دینے کا دیکھ کر اور پھر مجھے بھی چلنے سے پہلے اس مضمون پر خطبہ دینے کا خیال آنے سے، مَیں اس بات پر اور بھی زیادہ مضبوط ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس ملک کے اس حصے میں دعوت الی اللہ میں تیزی پیدا کریں۔ کوشش کریں گے اور دعا کریں گے اور جنون کی کیفیت پیدا کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا۔ ابھی تک یہاں کی مقامی جماعت میں صرف بارہ احمدی ہیں اور آخری بیعت اسی سال مارچ 2004ء میں ہوئی تھی جس میں ایک خاتون اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ جماعت میں شامل ہوئی تھیں۔ گویا اس سے پہلے صرف آٹھ مقامی احمدی تھے۔ لیکن میں جو مختلف جگہوں پر گیا ہوں ان لوگوں کی شرافت دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اگر صحیح طورپر پیغام پہنچایا جائے تو یہاں احمدیت کافی پھیل سکتی ہے۔ اب آپ کی تعداد بھی 1985ء کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر آپ کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کے بہتر نتائج پیدا نہ فرمائے۔ سچے دل سے کی گئی کوشش کو خداتعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا۔ آپ لوگوں کو صرف حکمت کے ساتھ چلنے کے طریقے اختیار کرنے پڑیں گے۔
اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت الی اللہ کرو۔ نئے راستے نکالو توتمہیں کامیابیاں ملیں گی۔ اب یہاں عموماً لوگ سادہ ہیں اور سب سے اچھی بات ہے کہ نسبتاً باقی ملک سے زیادہ مذہب سے دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ جب یہ لوگ آپ کو ایک مذہب کے ماننے والے کی حیثیت سے جانیں گے تو پھر یقینا بعض سوال بھی ان کے دلوں میں پیدا ہوں گے۔ آج کل مُلّاں نے اور جنونیوں نے جو اسلام کے نام پر اسلام کی بھیانک تصویر دنیا میں قائم کر دی ہے، یا اپنی حرکتوں سے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا اسلام اور اس کی تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ تو جب آپ ذاتی رابطوں سے آہستہ آہستہ اس بھیانک تصویر کو ان لوگوں کے ذہنوں سے زائل کریں گے تو یہ آپ کے قریب ہوتے چلے جائیں گے۔ آپ کو دوسروں سے مختلف سمجھیں گے۔ اور یہ رابطے کرنے کے لئے جو بہت سے اسائلم لینے والے یہاں آئے ہوئے ہیں انہیں کام وغیرہ کرنے کی بجائے، خاص وقت سے زیادہ تو کام کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر یہاں بھی وہی قانون ہے تو، وہ یہاں بوڑھوں سے بھی رابطے کریں، ان کے لئے تحفے لے کر جائیں، ان کے پاس بیٹھیں، ان سے ہمدردی کریں۔ یہ بھی مغرب کا بڑا محروم طبقہ ہے۔ ان کے اپنے عزیز رشتے دار، بچے ان کو بوڑھوں کے گھروں میں چھوڑ جاتے ہیں Old people House جسے یہ کہتے ہیں۔ بعضوں کو تو سناہے بعض ملکوں میں کئی کئی ہفتے کوئی عزیز رشتے دار نہیں پوچھتا۔ ان بوڑھوں سے جب آپ تعلقات پیدا کریں گے تو ان کی ہمدردی کے ساتھ ساتھ بہت سارے لوگ ہیں جن کو زبان بھی صحیح طریق سے نہیں آتی، آپ اپنی زبان بھی بہتر کر رہے ہوں گے۔ غیر محسوس طریقے پر آپ ان کے پاس بیٹھ کے زبان بھی سیکھ جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے اس جذبہ ہمدردی اور خدمت خلق سے ان کے بعض عزیز بھی آپ کے قریب آ جائیں۔ تو یہ رابطے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس طرح اور بھی بہت سارے مختلف راستے ہیں۔ کوشش ہو توآدمی تلاش کر سکتا ہے جو آپ کو حالات کے مطابق نکالنے ہوں گے۔ ہمسایوں سے حسن سلوک ہے، ان کی مدد ہے، ان کے تہواروں پر عیدوں وغیرہ پر(کچھ لوگ تو یہ کرتے بھی ہیں لیکن سارے نہیں کرتے) ان کے لئے تحفے وغیرہ لے کر جائیں ان کو بلائیں، دعوت دیں۔ ہماری عموماً یہ عادت ہے کہ ایک مہم کی صورت میں، مہینے میں ایک د فعہ یا دو مہینے میں ایک دفعہ ایک تبلیغ ڈے منا لیتے ہیں۔ یا سال میں ایک دو دفعہ ہفتہ منا کر اس میں کچھ حد تک لٹریچر تقسیم کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کر دیا۔ یہ طریق میرے نزدیک ایک حد تک تو ٹھیک ہے لیکن صرف اس پرانحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو جب بھی کوئی معلومات یا تعارف آپ پمفلٹ کی صورت میں دیتے ہیں تو پھر اس کی مدد سے آگے رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ تو پیسہ خرچ کرنے والی بات ہے۔ پھر ایک تسلسل سے یہ چھوٹے پمفلٹ، ان لوگوں تک جن کو دلچسپی ہے ان تک پہنچنے چاہئیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ آجکل مُلّاں نے اسلام کا جو تصور قائم کیا ہوا ہے، اس کے رد ّکے لئے، صحیح تعلیم کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان میں یہ پمفلٹ پہنچنے چاہئیں، یہ پیغام پہنچنا چاہئے۔ ایک ورقہ یا دو ورقہ ان لوگوں تک پہنچے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ وغیرہ ہو۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، تسلسل سے یہ پیغام پہنچتے رہنا چاہئے۔ حالات کے مطابق، حکمت سے، پمفلٹ تقسیم کئے جائیں جو عموماً دئیے بھی جاتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا بعض جگہوں پر کوشش ہوتی ہے لیکن وہی بات ہے کہ تسلسل قائم نہیں رہتا، رابطے قائم نہیں رہتے اور آپ کی اچھی نصیحت کا حکمت کے ساتھ پھینکا ہوا ایک قطرہ لوگوں پر گرتا ہے لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے وہیں وہ قطرہ خشک بھی ہو جاتا ہے۔ اور تسلسل سے گرتے رہنے کی وجہ سے پانی کا جو بہاؤ ہوتا ہے وہ بہاؤ نہیں رہتا۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنے کی شاذ ہی نوبت آتی ہے کہ ایسی دلیل کے ساتھ بحث کرو جو بہترین ہو۔
اس لئے قرآن کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کریں۔ حکمت سے کریں، ایک تسلسل سے کریں، مستقل مزاجی سے کریں، اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ، مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے چلے جائیں۔ دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھیں اور دلیل کے لئے ہمیشہ قرآن کریم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں سے حوالے نکالیں۔ پھر ہر علم، عقل اور طبقے کے آدمی کے لئے اس کے مطابق بات کریں۔ خدا کے نام پر جب آپ نیک نیتی سے بات کر رہے ہوں گے تو اگلے کے بھی جذبات اَور ہوتے ہیں۔ نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی گئی بات اثر کرتی ہے۔ ایک تکلیف سے ایک درد سے جب بات کی جاتی ہے تو وہ اثر کرتی ہے۔ تمام انبیاء بھی اسی اصول کے تحت اپنے پیغام پہنچاتے رہے۔ اور ہر ایک نے اپنی قوم کو یہی کہا ہے کہ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، نیک باتوں کی طرف بلاتا ہوں اور اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا۔ یہی ہمیں قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے۔
اس آیت کے آخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم انتہائی محنت، انتہائی ہمت اور تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے یہ کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو تمہارے ساتھ ملاتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ۔ کیونکہ اس کے علم میں ہے کہ کس نے ہدایت کا راستہ اختیار کرنا ہے اور کون ہے جو چکنا گھڑا ہے جو بھی پانی پھینکو گے وہ نیچے بہہ جائے گا۔ جو بد فطرت ہے اس پر کوئی اثر نہیں ہونا۔ جو آجکل کے مُلّاں کی طرح ہیں کہ علم ہوتے ہوئے بھی ’میں نہ مانوں ‘ کی رٹ لگائے رکھیں گے۔ لیکن تمہارا کام یہ ہے کہ اتمام حجت کرو، اپنا پورا زور لگاؤ پھر معاملہ خدا پر چھوڑو تمہارا کام یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کرتے رہو۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ پہ چھوڑنا ہے تو حکمت اور دانائی سے کرتے رہو اور ان تمام شرائط کے ساتھ کرتے رہو جو اللہ تعالیٰ نے مختلف مواقع پر بیان فرمائی ہیں جن کا میں نے مختصر ذکر بھی کیا ہے۔ تو فرمایا کہ تبھی تم کہہ سکتے ہو کہ {اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ} یعنی میں کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ ورنہ یہ فرمانبرداری کے دعوے کیسے ہیں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے دعوے کیسے ہیں۔ بہرحال اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں۔ جو ہو چکا وہ ہو گیا، جو گزر گیا وہ گزر گیا لیکن آئندہ کے لئے ہمیں نئے عہد کرنے ہوں گے اور جیساکہ میں نے کہاحکمت اور دانائی کی باتیں سیکھنے کے لئے قرآن پڑھنے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے جو قرآن و حدیث کی تشریح اور مزید وضاحتیں ہیں، ان کی طرف توجہ دینی ہو گی اس کے بارے میں میں تفصیلی خطبات پہلے بھی دے چکاہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ جسے نصیحت کرنی ہو اسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے۔ پس {جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ}کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو۔ اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے {یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ}(البقرۃ:270) ‘‘(الحکم جلد 7 نمبر 9۔ مورخہ 10؍مارچ 1903ء صفحہ8)
تویہ حکمت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ہم سب کو اختیار کرنی ہو گی۔ اپنے دوستوں کا حلقہ وسیع کرنا ہو گا۔ پھر ایک تعارف سے دوسرے تعارف نکلتے چلے جائیں گے۔ اور جب لوگ آپ کو ایک امن پسند اور ٹھنڈے مزاج کاآدمی سمجھتے ہوئے تعارف حاصل کریں تو یقینا یہ تعارف مزید مضبوط رابطوں میں تبدیل ہوں گے اور پھل لانے والے ثابت ہوں گے۔
لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ حکمت اور بزدلی میں فرق ہے۔ حکمت دکھانی ہے اپنے دین کی غیرت رکھتے ہوئے۔ اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’آیت {جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن} کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مدا ہنہ کرکے خلاف واقعہ بات کی تصدیق کر لیں ‘‘۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 305 حاشیہ)
یعنی حکمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بزدلی دکھائی جائے، یہ نہیں ہے کہ اپنے قریب لانے کے لئے جو ہماری تعلیم نہیں ہے اس میں بھی ہاں میں ہاں ملائی جائے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں تو اس وقت چپ ہو جائیں کہ اس کو حکمت سے قریب لانا ہے۔ یہ تو پھرشرک کے مدد گار بننے والی بات ہو جائے گی۔ اور بہت سار ے طریقے اور جو اب ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سا منے جلدی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں ‘‘۔ جو اس طرح سخت کلامی کرتا ہے اس کے منہ سے پھر اچھی باتیں نہیں نکلتیں۔ ’’ غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بڑھتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ104 الحکم 10 مارچ1903)
اب ہمارے خلاف یہی غصہ اسی لئے جنون کی حداختیار کر گیاہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ دلوں کی کچھ خواہشیں اور میلان ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی وقت بات سننے کے لئے تیار رہتے ہیں اور کسی وقت اس کے لئے تیار نہیں ہوتے اس لئے لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے تحت داخل ہوا کرو اور اسی وقت اپنی بات کہا کرو جبکہ وہ سننے کے لئے تیار ہوں۔ اس لئے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیاجائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے، (یعنی بات قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے)۔ (کتاب الخراج۔ ابویوسف)
تو یہ ہے حکمت کہ جب بعض حالات ایسے ہوتے ہیں، بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ اس وقت بات کرنی چاہئے جب دل بات سننے کی طرف مائل ہو۔ اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ اپنے رابطے بڑھائیں۔ مستقل مزاجی ہو، ایک تسلسل ہو تو جب ہی پتہ لگے گا کہ کس وقت کسی کے دل کی کیا کیفیت ہے۔ پھر ایم ٹی اے پہ لایا جا سکتا ہے، مختلف پروگرام دکھائے جائیں، مختلف وقتوں میں آتے ہیں کسی وقت کسی کو کوئی پروگرام پسند آ سکتا ہے اور یہ نہیں ہے کہ یہاں کے لوگوں کو ہمارے پروگراموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سکنتھورپ(Scunthorp) مَیں گیا ہوں تو وہاں ڈاکٹر مظفر صاحب ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا ایک انگریز وہاں واقف ہے جو تقریباً باقاعدہ جمعے کے خطبہ سنتاہے، اور شام کو دوبارہ ریکارڈنگ آتی ہے تو گھر والوں کو یا اس کی جب بیوی پوچھے تو کہتا ہے کہ میں فرائیڈے سرمن(Friday Sermon)سن رہا ہوں۔ وہ عیسائی ہے اور باتوں کا اثر لیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے اس نے بعض خطبات کے مضمون بیان کئے کہ یہ بڑی اچھی وقت کی ضرورت ہے۔ جو خطبات بھی آتے ہیں وہ صرف جماعت کے لئے وقت کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کے لئے وہ فائدہ مندہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا مزید سینہ کھولے اور اس کو احمدیت قبول کرنے کی بھی توفیق ملے۔ تو بہرحال ایم ٹی اے بھی آجکل تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جو آج سے 19-18سال پہلے آپ کے پاس نہیں تھا۔ یہ اسی وقت سنا جائے گا جب آپ لوگوں کے قریبی رابطے ہوں گے۔
پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ چاہئے کہ جب کلام کرے تو سوچ کر اور مختصر کام کی بات کرے۔ بہت بحثیں کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ پس چھوٹا سا چٹکلہ کسی وقت چھوڑ دیا جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے۔ پھر کبھی اتفاق ہو تو پھر سہی ‘‘۔ اب اس انگریز کی جو میں بات کر رہا تھا اس نے جو خطبہ سنا اور جس کی وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس بہت تعریف کر رہا تھا وہ لین دین کے معاملات میں جوباتیں کی تھیں ان پر تھا۔ اسی سے وہ بڑا متاثر تھا کہ یہ آجکل کے وقت کی بہت ضرورت ہے۔ تو فرمایا کہ ایسا چٹکلہ چھوڑ دیا جو سیدھا کان کے اندر چلا جائے۔ پھر کبھی اتفاق ہو تو پھر سہی۔ ’’ غرض آہستہ آہستہ پیغام حق پہنچاتا رہے اور تھکے نہیں کیونکہ آج کل خدا کی محبت اور اس کے ساتھ تعلق کو لوگ دیوانگی سمجھتے ہیں۔ اگر صحابہ اس زمانے میں ہوتے تو لوگ انہیں سودائی کہتے اور وہ انہیں کافر کہتے۔ دن رات بیہودہ باتوں اور طرح طرح کی غفلتوں اور دنیاوی فکروں سے دل سخت ہو جاتا ہے۔ بات کا اثر دیر سے ہوتا ہے‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی مثال دے رہے ہیں کہ:’’ ایک شخص علی گڑھی غالباً تحصیلدار تھا ‘‘۔ آپ لوگ تو سارے جانتے ہیں کہ تحصیلدار کیا ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ایک تحصیلدار تھا۔ ’’مَیں نے اس کو کچھ نصیحت کی۔ وہ مجھ سے ٹھٹھا کرنے لگا۔ ‘‘ مذاق کرنے لگا۔ ’’ مَیں نے دل میں کہا مَیں بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑنے کا۔ آخر باتیں کرتے کرتے اس پر وہ وقت آ گیا کہ وہ یا تو مجھ پر تمسخر کر رہاتھا یا چیخیں مار مار کر رونے لگا۔ بعض اوقات سعید آدمی ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شقی ہے‘‘۔ یعنی بعضوں کی اچھی فطرت بھی ہوتی ہے لیکن لگتا اس طرح ہی ہے جس طرح یہ لوگ سخت دل کے ہیں۔ ’’ یاد رکھو ہر قفل کے لئے ایک کلید ہے۔ بات کے لئے بھی ایک چابی ہے۔ وہ مناسب طرز ہے۔ جس طرح دواؤں کی نسبت میں نے ابھی کہا ہے کہ کوئی کسی کے لئے مفید اور کوئی کسی کے لئے مفید ہے۔ ‘‘یہ پیرا میں نے لیا ہے اس سے پہلے دواؤں کا بیان چل رہا ہو گا فرماتے ہیں :’’ایسے ہی ہر ایک بات ایک خاص پیرائے میں خاص شخص کے لئے مفید ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ سب سے یکساں بات کی جائے۔ بیان کرنے والے کو چاہئے کہ کسی کے برا کہنے کو برا نہ منائے بلکہ اپنا کام کئے جائے اور تھکے نہیں۔ امراء کا مزاج بہت نازک ہوتا ہے اور وہ دنیا سے غافل بھی ہوتے ہیں۔ بہت باتیں سن بھی نہیں سکتے۔ انہیں کسی موقع پر کسی پیرائے میں نہایت نرمی سے نصیحت کرنا چاہئے۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 441 بدر 13فروری 1908)
پھر آپؑ نے فرمایا کہ:’’ دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ عوام، متوسط درجے کے امراء‘‘۔ فرمایا کہ:’’ عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں ‘‘۔ تھوڑی عقل و الے ہوتے ہیں۔ ’’ ان کی سمجھ موٹی ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو سمجھانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے‘‘۔ جو بالکل ان پڑھ ہو یہاں تو اللہ کے فضل سے آپ کو ایسے لوگ نہیں ملتے۔ لیکن ہمارے ملکوں میں ایسے ہوتے ہیں۔ ’’ امراء کے لئے سمجھا نا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبرا جاتے ہیں اور ان کا تکبر اور تعلّی اور بھی سدّراہ ہوتی ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ گفتگو کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ان کی طرز کے موافق ان سے کلام کرے۔ یعنی مختصر مگر پورے مطلب کو ادا کرنے والی تقریر ہو’’۔ فرمایا کہ عوام کو تبلیغ کرنے کے لئے تقریر بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہئے اور اوسط درجہ کے لوگ فرمایا کہ’’ زیادہ تر یہ گروہ اس قابل ہوتا ہے کہ ان کو تبلیغ کی جاوے۔ وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کے مزاج میں وہ تعلّی اور تکبر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو امراء کے مزاج میں ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو سمجھانا بہت مشکل نہیں ہوتا‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 162-161 الحکم 24 مارچ1902)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جب حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب کو لندن بھجوایا تو اسی اصول کے تحت یہ بھی نصیحت فرمائی کہ گاؤں کے لوگ حق کو مضبوطی سے قبول کیا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا لندن سے دور کسی چھوٹے سے گاؤں میں جا کر رہیں۔ یعنی کچھ وقت گزاریں، دعائیں کریں اور دعوت کریں اور پھر دیکھیں کہ دعوت الی اللہ کا کتنا اثر ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ یہ بھی نصیحت کر دی کہ یاد رکھیں کہ یہ لوگ سختی بھی کریں گے لیکن سمجھیں گے بھی۔ اس لئے سختی سے گھبرانا نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ جس قدر زور سے باطل حق کی مخالفت کرتا ہے اسی قدر حق کی قوت اور طاقت تیز ہوتی ہے‘‘۔ یعنی جھوٹ سچ کی جتنا مخالفت کرتا ہے اتنی ہی سچ کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ ’’ زمینداروں میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ جتنا جیٹھ ہاڑ تپتا ہے اسی قدر ساون میں بارش زیادہ ہوتی ہے‘‘۔ یعنی جتنی زیادہ گرمی ہو اتنا بارش زیادہ آجاتی ہے، بارشوں کے موسم میں۔ ’’ یہ ایک قدرتی نظارہ ہے۔ حق کی جس قدر زور سے مخالفت ہو اسی قدر وہ چمکتا اور اپنی شوکت دکھاتا ہے۔ ہم نے خود آزما کر دیکھا ہے۔ جہاں جہاں ہماری نسبت زیادہ شور وغل ہوا ہے وہاں ایک جماعت تیار ہو گئی اور جہاں لوگ اس بات کو سن کر خاموش ہو جاتے ہیں وہاں زیادہ ترقی نہیں ہوتی‘‘۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ226 الحکم 24اپریل 1903)
آپ بھی، جو لوگ باہر نکل سکتے ہیں باہر نکلیں، دعائیں کرتے ہوئے یہاں کی جو چھوٹی جگہیں ہیں ان میں رابطے بڑھائیں۔ اور ان لوگوں میں نسبتاً سادگی زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں بھی چھوٹے قصبوں میں سادگی زیادہ ہے۔ تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ ایک موقع ایسا آئے گا کہ باہر سے ہمارا پیغام اندر بڑے شہروں میں آنا شروع ہو گا پہنچنا شروع ہو گا۔ کیونکہ مقامی لوگ ہی اس کو پھیلائیں گے اور یہ مَیں نے مختلف ملکوں میں بھی دیکھا ہے کہ جہاں بھی احمدی چھوٹی جگہوں پر ایکٹو(active) ہیں۔ ان کے رابطے بڑی جگہوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ اور وہاں مقامی لحاظ سے جو بڑے لوگ ہیں، رابطوں میں ان کو بھی وہ لے آتے ہیں، عوام کو بھی لے آتے ہیں، اوسط درجے کے لوگوں کو بھی لے آتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہماری کوشش اور رابطوں میں اور دعاؤں میں بہت کمی ہے۔ یہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینی ہو گی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت قاضی عبداللہ صاحب کو ایک یہ نصیحت بھی فرمائی تھی کہ دعاؤں پر بہت زور دینا ہے۔ اور صرف اپنی کوشش پہ کبھی انحصار نہیں کرنا۔ اور پھر ایک یہ نصیحت فرمائی تھی کہ قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا غور سے مطالعہ کریں تو اس سے بھی انشاء اللہ علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور پھر یہ فرمایا کہ اپنی سوچ اونچی رکھیں۔ دل میں یہ رکھیں کہ آپ نے یورپ کو فتح کرنا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے تو ماننا نہیں۔ ان میں سے بھی سعید فطرت لوگ پیدا ہو سکتے ہیں اور انشاء اللہ ہوں گے اور ہو رہے ہیں۔ میں پھر یہی کہتا ہوں کہ سوچ اونچی رکھیں جس طرح حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا۔ اور مستقل مزاجی سے کام کرتے رہیں اور صرف دنیا کمانے کی طرف ہی توجہ نہ دیں بلکہ احمدیت کا پیغام پہنچانے کی طرف بھی توجہ دیں۔ جب آپ احمدیت کے نام پر یہاں اسائلم لیتے ہیں تو احمدیت کی خدمت کابھی حق ادا کر یں اور پیغام پہنچائیں نہ کہ یہاں کی رنگینیوں میں گم ہو جائیں۔ تو اگر اس طرح اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اور کوشش سے پیغام پہنچائیں گے تو خداتعالیٰ انشاء اللہ برکت ڈالے گا۔ اللہ کرے کہ آپ سنجیدگی سے اس بارے میں کوشش کریں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ دعوت الی اللہ کرو وہاں یہ بھی شرط ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا نیک اعمال بجا لانے والا ہو۔ اور وہی داعی الی اللہ فرمانبرداروں میں سے ہے جو نیک عمل بھی کر رہا ہے۔ یہ نہیں کہ دوسروں کو تبلیغ ہو اور خود نمازوں کی بھی کوئی پابندی نہ ہو، لوگوں کے حق ادا کرنے والے نہ ہوں، عزیزوں رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنے والے نہ ہوں۔ کیونکہ برکت بھی اسی داعی الی اللہ کے کام میں پڑے گی جس کے اپنے عمل بھی ایسے ہوں گے کہ جو دینی تعلیم سے مطابقت رکھتے ہوں گے۔ یہاں کے لوگ بڑے ہوشیار ہیں۔ آپ کی ذرا سی کوئی غلطی کو پکڑ کر وہ آپ کو بتائیں گے۔ اور یہ ہر جگہ ہوتا ہے۔ اس لئے قانون کی پابندی کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اور پھر اس کے ساتھ ساتھ عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ کیونکہ یہی اسلام کی تعلیم ہے کہ تبلیغ اس بات کی کرو یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ بات کہو جس پر سوفیصد خود بھی عمل کر رہے ہو۔ برکت تبھی پڑے گی ورنہ تو تم خود بھی ہو سکتا ہے کہ کہہ کچھ رہے ہو اور کر کچھ رہے ہو اور تمہارا گناہ گاروں میں بھی شمار ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ {یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ۔ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ}(الصّف : 4-3) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو کہ جو تم کرتے نہیں۔ تو داعی الی اللہ کے لئے اپنے پاک نمونے بھی قائم کرنا بہت ضروری ہے اور یہ ہر ایک کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ چاہے کوئی دعوت الی اللہ کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ ہر احمدی کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ وہ جب احمدیت کی طرف منسوب ہوتا ہے تولوگوں کی اس پر نظر رہتی ہے۔ اس کا کوئی بھی غلط کام، غلط حرکت، احمدیت کو جھٹلاتے ہیں۔ اور ایک احمدی کی کوئی بھی غلط حرکت ایک اچھے دعوت الی اللہ کرنے والے کے کام پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لئے اگر خود دعوت الی اللہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے اعمال اتنے درست ہوں کہ دوسرے داعیان الی اللہ کی مدد ہو سکے۔ کبھی کوئی انگلی آپ پہ یہ کہتے ہوئے نہ اٹھے کہ پہلے اپنوں کو تو سنبھالو، پہلے اپنے لوگوں کی حالت تو درست کرو۔ اس لئے ہر احمدی اپنی اصلاح کی طرف ہمیشہ کوشش کرے، توجہ دیتا رہے۔ اپنے آپ کو اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے منسوب رکھنا ہے تو اپنی اصلاح بھی ہمیں کرنی ہو گی تاکہ کوئی بھی شخص جماعت کا، اسلام کا پیغام پہنچانے میں روک نہ بنے۔
بہر حال دعوت الی اللہ کے لئے عمل صالح بھی بہت ضروری ہے اور جب اپنے عمل نیک ہوں گے تو آپ دوسروں کو کہنے میں بھی حق بجانب ہوں گے۔ ورنہ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہتے کچھ ہو اور کرتے کچھ ہو۔ اس طرح تو تم گناہ گا ربن رہے ہو۔ ثواب لینا تو علیحدہ رہا، گناہ میں حصہ لے رہے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لئے سب سے اول تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 615 الحکم 31جنوری1906)
آپ نے یہاں دو باتیں بیان فرمائیں اور اسی قرآنی حکم کے تحت بیان فرمائیں۔ کہ پہلے اپنے نمونے درست کرو، اپنی حالت درست کرو، اپنے اعمال درست کو، پھر دعوت الی اللہ کرو تبلیغ کرو، اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے گا۔ انشاء اللہ
پھر آپؑ فرماتے ہیں : ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینے کی کیا حالت ہو گئی تھی۔ ہر ایک حالت میں تبدیلی ہے۔ پس اس تبدیلی کو مدنظر رکھو اور آخری وقت کو ہمیشہ یاد رکھو۔ آنے والی نسلیں آپ لوگوں کا منہ دیکھیں گی۔ اور اسی نمونہ کو دیکھیں گی۔ اگر تم پورے طور پر اپنے آپ کو اس تعلیم کا عامل نہ بناؤ گے تو گویا آنے والی نسلوں کو تباہ کرو گے‘‘۔
پھر دعوت الی اللہ تو ہے ہی جو ہمارا کام ہے اگر اپنے نمونے نیک نہیں ہوں گے تو اپنی نسلوں کو بگاڑنے والے ہوں گے۔ کیونکہ وہ بھی آپ کا نمونہ دیکھ رہی ہوں گی۔ ’’ انسان کی فطرت میں نمونہ پرستی ہے۔ وہ نمونہ سے بہت جلد سبق لیتا ہے۔ ایک شرابی اگر کہے کہ شراب نہ پیو، یا ایک زانی کہے کہ زنا نہ کر و، ایک چور دوسرے کو کہے کہ چوری نہ کرو تو ان کی نصیحتوں سے دوسرے کیا فائدہ اٹھائیں گے۔ بلکہ وہ تو کہیں گے کہ بڑا ہی خبیث ہے۔ وہ جوخود کرتا ہے اور دوسروں کو اس سے منع کرتا ہے۔ جولوگ خود ایک بدی میں مبتلا ہو کر اس کاوعظ کرتے ہیں وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ دوسروں کو نصیحت کرنے والے اور خود عمل نہ کرنے والے بے ایمان ہوتے ہیں اور اپنے واقعات کو چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے واعظوں سے دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 518 الحکم 31جنوری 1904)
خدا کرے کہ ہم دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دینے والے بھی ہوں اور عمل صالح کرنے والے بھی ہوں۔ تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں احمدیت میں شمولیت کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرنے کی وجہ سے جو انعام دیاہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور شکر گزار بندے بنتے ہیں اور شکر گزار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب یہ شکر گزاری قائم رہے گی اور عمل بھی قائم رہیں گے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے تو تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبرداروں میں شمار ہوں گے۔
پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ گزشتہ کوتاہیوں پر خداتعالیٰ سے معافی مانگیں اور مغفرت طلب کریں اور آئندہ ایک جوش اور ایک ولولے اور جذبے کے ساتھ احمدیت کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے آگے بڑھیں۔ ابھی دنیا کے بلکہ اس صوبہ کے، سکاٹ لینڈکے بہت سے حصے ایسے ہیں جہاں احمدیت کا پیغام نہیں پہنچا، کسی کو احمدیت کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہے۔ پس بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے، دعاؤں کی بھی ضرورت ہے تبھی ہم اس دعوے میں سچے ہو سکتے ہیں کہ ہم تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آئیں گے انشاء اللہ۔ اور اسی لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہے اور آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ والسلام نے جو نسخہ ہمیں دیا ہے وہ یہ ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خداتعالیٰ کی عظمت کو مدنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں۔ نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔ جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک کی بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی سے متعلق ہو، خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو بچو‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ303البدر 24اپریل 1903)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔
دعوت الی اللہ میں تسلسل، مستقل مزاجی، حکمت اور دعاؤں سے کام لیں۔
٭…دعوت الی اللہ اور نصیحت کرنے کے پر حکمت طریق
٭…دعاؤں پر زور دیں اپنی کوشش پر کبھی انحصار نہ کریں۔
٭…داعی الی اللہ کے لئے اپنے پاک نمونے بھی قائم کرنا بہت ضروری ہے۔
٭…ہمارے غالب آنے کے ہتھیار۔ استغفار، توبہ … پانچ وقت کی نمازیں ادا کرنا ہیں۔
۸؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۸؍ اخاء۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الرحمن۔ گلاسگو، (سکاٹ لینڈ۔ برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔