نماز جمعہ کی اہمیت اور عظمت اور اس کے آداب
خطبہ جمعہ 12؍ نومبر 2004ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشھدو تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔(سورۃ الجمعہ:آیت نمبر 11,10)
ترجمہ:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جب جمعہ کے دن کے ایک حصے میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پس جب نماز اداکی جا چکی ہو تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
رمضان کا آج آخری جمعہ ہے اور کل انشاء اللہ آخری روزہ ہے گویا آج کا روزہ تو آدھے سے زیادہ گزر گیا صرف ایک روزہ رہ گیا ہے یوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ {اَیَّامًا مَّعْدُوْدَات} یہ گنتی کے چند دن گزر گئے اور پتہ بھی نہیں چلا الحمدللہ۔ عموماً رمضان کے اس آخری جمعہ میں حاضری عام جمعوں کی نسبت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ سال بھی کہا تھا، اور انشاء اللہ کہتا رہوں گا جب تک اللہ چاہے گا، کہ جو لوگ جمعوں پر باقاعدہ نہیں آتے اب ان کو یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ یہ جمعہ رمضان کا جو آخری جمعہ ہے اس پر ضرور جانا چاہئے اور شامل ہونا چاہئے، اس کی برکات سے فائدہ اٹھانا چاہئے تو ایسے لوگوں کو اب یہ کوشش کرنی چاہئے کہ یہ جمود جو اب ٹوٹا ہے کہ وہ مسجد میں جمعہ پڑھنے آئیں اور جمعہ پڑھنے آئے ہیں ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ یہ برف جو ان کے ذہنوں اور دلوں پر جمی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کو جمعہ کی اہمیت کا احساس نہیں تھا اس برف کو رمضان کی گرمی نے پگھلا دیا ہے، اس ماحول نے پگھلا دیا ہے جو رمضان کے مہینے میں ہر گھر میں ایک ماحول بن جاتا ہے۔ اور چھوٹے بڑے سست یاعبادت بجالانے والے سب کوشش کرتے ہیں کہ اپنی اپنی توفیق کے مطابق رمضان کی برکتوں کو سمیٹ لیں۔ تو اب ایسے حالات ہوئے ہیں کہ ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی آواز پر اس کے حضور مسجد میں آ کر عبادت کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے جمعہ پر یا رمضان کے جمعوں پر آنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو اب مستقل یہ بات اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لینی چاہئے کہ جو توجہ ہم میں ایک دفعہ پید اہو گئی ہے یہ اب قائم رہنی چاہئے۔ اگر یہ سوچ قائم رہی تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنا قرب پانے والے بندوں پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں یہ سورہ جمعہ کی آیات میں سے دو آیتیں ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی اہمیت کا بتایا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ وہ خاص جمعہ جو رمضان کے مہینے کا آخری جمعہ ہے اس میں مسلمان یہ طریق اختیار کریں جس کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ بلکہ بغیر کسی تخصیص کے، بغیر کسی جمعہ کے فرق کے ہر جمعہ کے بارے میں بتایا کہ جو بھی جمعہ ہے وہ برابر ہے اور اس میں ایمان والوں کو جمعہ کی اہمیت کے پیش نظر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس میں باقاعدہ حا ضر ہوں اور اس میں کچھ ہدایات دی ہیں۔ وہ باتیں کیا ہیں وہ ہدایات کیا ہیں جن کا ایک مومن کو خیال رکھنا چاہئے۔ وہ یہ ہیں کہ جب جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے لئے بلایا جائے تو بغیر کسی بہانے کے، بغیر کسی کاروباری مصروفیت کی اہمیت کا دل میں خیال لائے سب کام چھوڑ کر فوراً مسجد کی طرف جانا شروع کر دو اور اس کام میں دیرنہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ جمعہ کی ایک اہمیت ہے اور وہ اہمیت ہمیشہ تمہارے پیش نظر رہنی چاہئے۔ اگر تمہیں علم ہوجائے اس اہمیت کا اور یہ پتہ چل جائے کہ جمعہ کی عبادت تمہیں کیا سے کیا بنا سکتی ہے اگر تمہیں پتہ ہو کہ جمعہ میں کی گئی دعائیں کتنا درجہ پاتی ہیں تمہیں پتہ ہو کہ جمعہ کے دن تم شیطان کے چنگل سے بھی بچ سکتے ہو اور کس طرح بچ سکتے ہو جس کی وجہ سے تم ہمیشہ نیکیوں پر قائم رہتے چلے جاؤ گے اور ہمیشہ نیکیوں پر قائم رہنے کی صلاحیت تم میں پیدا ہو جائے گی، تو کبھی جمعہ نہ چھوڑو پھر تمہیں یہ خیال نہ آئے کہ کوئی بات نہیں جمعہ تو پڑھا ہی جائے گا کاروبار کر و یا دوستوں کے ساتھ سیر کے لئے چلے جاؤ یا اسی طرح اور بہانے تراشنے لگو بلکہ اس آیت کے مطابق جمعہ پر آنے کے لئے جلدی کرو گے۔ اس اہمیت کو آنحضرتﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دنوں میں بہترین دن جن میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اور اسی میں وہ جنت میں داخل کئے گئے اور اسی دن ھبوطِ آدم ہوا۔ یعنی جنت سے نکلے بھی۔ اور اس میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں مسلمان بندہ جو بھی اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کر دیتاہے۔ (ترمذی کتاب الجمعۃ باب فی الساعۃ التی ترجی فی یوم الجمعۃ)
تو یہ اہمیت ہے اس دن کی کہ دنوں میں سے بہترین دن ہے اس لئے کہ آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے اس دن وہ جنت میں بھی داخل کئے گئے اور انہیں جنت سے نکالا بھی گیا۔ اب جنت میں داخل بھی کیا گیا اور نکالا بھی گیا دونوں باتیں ایک ساتھ ملا دی گئی ہیں۔ مختصراً اس بارے میں بتاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جن اور انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت ہے کہ وہ عبادت کریں۔ اب جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اس کے احکامات پر عمل کریں گے تو آدمؑ کی یہی اولاد جنت کی وارث بھی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والی بھی ہو گی اور قبولیت دعا کے نشان دیکھنے والی بھی ہو گی۔ اور جو لوگ عبادت کرنے والے نہیں ہوں گے، احکامات پر عمل کرنے والے نہیں ہوں گے، شیطان کے بہکاوے میں آنے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کو اور اس کی عبادت کو جو خاص اہمیت رکھی ہے اس کو نظر انداز کرنے والے ہوں گے، اپنی مصروفیات اور کاروبار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے اس خاص دن کی عبادت سے غافل ہوں گے وہ پھر جنت کے وارث نہیں بن سکتے۔ بلکہ جس طرح آدم کو اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دئیے تھے ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا تھا تو تم بھی یہ نہ سمجھو کہ مسلمان کہلا کر جنت کے وارث کہلاؤ گے بلکہ احکامات پر عمل کرکے جنت مل سکتی ہے۔ اس لئے اپنے باپ آدم کے تجربے سے فائدہ اٹھاؤ اور شیطان سے بچنے کی کوشش کرتے رہو۔ اس سے مقابلہ کرو اور ہر جمعہ کو جو تمہیں خداتعالیٰ نے اکٹھے ہونے کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرو اور اس دن کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے یہ سہولت بھی دے دی ہے یا یہ انعام بھی تمہیں دے دیا ہے کہ اس میں ایک ایسا وقت رکھ دیا ہے کہ جب عبادت کے دوران تمہاری دعا کو قبولیت کا شرف اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ اس لئے سال کے بعد نہیں بلکہ ہر ساتویں دن ایک اہتمام کے ساتھ اس کی عبادت کی طرف توجہ دو تو جنت سے نکلنے کی بجائے، نیک اعمال اور عبادت کی وجہ سے اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جنتوں کے وارث ٹھہرو گے۔
اب دیکھیں جنت سے نکلنے کے ساتھ ہی یہ دوقسمیں بنائی ہیں شیطان سے مقابلہ کی طاقت بھی دے دی ہے اور فرمایا یہ مقابلہ اور شیطان کے خلاف جہاد پھر تمہیں جنت میں داخل کر دے گا۔ بلکہ تمہارے لئے دو جنتیں مقرر ہو گئیں اس دنیا کی جنت بھی اور اگلے جہان کی بھی۔ پھر عام طور پرکسی اچھی یاد کا یا کسی کی سالگرہ منانی ہوتو سال کے بعد ایک دن آتا ہے یا اگر کسی شیطان صفت سے نجات ملی ہو تو پھر بھی سال گزرنے پر اس دن کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے سات دن کے بعد یہ ایک دن رکھ دیا ہے یہ یاد کرانے کے لئے کہ میں نے جس دن آدم کو جنت میں داخل کیا تھا تم اس دن کو یاد کرو، اکٹھے ہو کردعائیں کرو، میرے نبیﷺ پر درود بھیجو، میرے احکامات کی تعمیل کرو تو ہمیشہ جنت میں رہو گے۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ اگر یہ نیک کام نہیں کرو گے تو آدم کی طرح جنت سے نکالے بھی جاؤ گے اس لئے ہوش کرو۔ اور ساتھ یہ بھی خوشخبری دے دی اس ہدایت کے ساتھ کہ اس میں تمہاری دعائیں تمہاری گریہ وزاری جو تم کرو گے وہ بھی قبو ل ہو گی، ایک وقت ایسا آئے گا جو قبولیت کا درجہ پائے گی تاکہ تم جنت سے فائدہ اٹھاتے رہو۔ یہ زمین بھی تمہارے لئے جنت بن جائے یہ دنیا بھی تمہارے لئے جنت بن جائے اور آئندہ بھی، موت کے بعد بھی دائمی جنت کے تم وارث ٹھہرو۔ گویا شیطان سے بچنے کے لئے ہمیں ہتھیار بھی مہیا فرما دیا اور اس ہتھیار کے کارگر ہونے کی ضمانت بھی عطا فرما دی۔ لیکن کیونکہ جیسا کہ میں نے کہاشیطان بھی اس دن بڑی تیزی دکھا رہا ہوتا ہے کیونکہ شیطان نے اس دن بہکایا تھا اس لئے تمہیں بھی اپنی عبادتوں میں ایک خاص مقام پیدا کرنا ہو گا اور جب یہ خاص مقام حاصل ہو جائے گا تو تبھی شیطان کے اَور حملوں سے بچ سکو گے، جیسا کہ میں پہلے کہہ آیا ہوں۔ ایک روایت میں قبولیت دعا کے بارے میں اس طرح آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے جمعہ کے ذکر میں فرمایا کہ اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جب مسلمان کو ایک ایسی گھڑ ی ملے اور وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو تو جو دعا مانگے وہ قبول کی جاتی ہے۔ آپؐ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا لیکن یہ گھڑی بہت مختصر ہوتی ہے۔ (مسلم کتاب الجمعۃ باب فی الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ)
اب یہ دیکھیں یہاں بھی جمعہ کی ہی بات کی گئی ہے کہ گھڑی آتی ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ جمعۃ الوداع میں خاص گھڑی آتی ہے۔ پھر اگلی آیت میں یہ فرمایا کہ خاص وقت میں مصروفیت کے باوجود جب تم نماز کے لئے اکٹھے ہوتے ہو اور جب نماز پڑھ لی تو پھر تمہیں اجازت ہے کہ اللہ کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو۔ یعنی تمہارے دنیاوی کام کاج اگر کوئی ہیں، مصروفیات اگر ہیں تو جمعہ کی نماز کے بعد ان کو بجا لاؤ۔ لیکن یاد رکھو کہ تمہارا مقصد پیدائش جو ہے وہ ہمیشہ تمہارے پیش نظر رہنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جمعہ کی نماز کے بعد اب عصر کی نماز یا قضاء کرکے پڑھو یا بھول جاؤ کہ پڑھنی بھی تھی کہ نہیں۔ نہیں، بلکہ جمعہ پڑھنے کے بعد بھی اگر تمہیں دنیاوی کام کرنے کی مجبوری ہے تو ضرور کرو۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے تو یہ لکھا ہے کہ اگر مجبوری ہے تو کرو ورنہ ذکر الٰہی میں وہ وقت گزارو۔ لیکن اس کام کے دوران بھی ذکر الٰہی کرتے رہو اور پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ باقی نمازیں بھی وقت پر ادا کرنی ہیں۔ یہ غلط فہمی جو بعض میں ہوتی ہے کہ جمعہ نماز پڑھ لی باقی دیکھی جائے گی اس کی بھی اصلاح فرما دی کہ ذکر الٰہی ہر وقت رکھو اور جب دل میں ذکر الٰہی کر رہے ہو گے تو لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پھر نماز کا بھی خیال رہے گا اور نمازیں وقت پر پڑھو گے اور جب نمازیں وقت پر پڑھوگے تو شیطان سے بھی بچتے رہو گے اور برائیوں سے بھی بچتے رہو گے۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہ {اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ}(العنکبوت:46) نماز ناپسندیدہ اور بری باتوں سے روکتی رہتی ہے اور اس وجہ سے پھر جنت سے نکلنے کی بجائے، جنت میں داخل ہونے والے بن جاؤ گے۔ اور جو انذار ہے اس دن کا اس دن سے بچ جاؤ گے، برائیوں سے بچ جاؤ گے۔ توعبادت کرنے کا ایک تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا پھر شیطان سے بچنے کے لئے عبادت کرو جمعے کا خاص خیال رکھو اور پھر عبادت کے آگے کچھ طریقے بھی آنحضرتﷺ نے ہمیں بتائے ہیں۔ اب ہر کوئی ہم میں سے یہ جانتا ہے کہ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ صرف اور صرف آنحضرتﷺ کے واسطہ سے ہی ہے۔ اس وقت اگر کوئی زندہ مذہب ہے تو اسلام ہے۔ اس وقت اگر کوئی مذہب بندے کا خدا سے براہ راست تعلق پیدا کر سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ لیکن یہ براہ راست اس طرح ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کو ذریعہ بنائے۔ جو آپ کی پیروی نہیں کرتا وہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو آپ پر درود نہیں بھیجتا اس کی دعائیں بھی وہ قبولیت کا درجہ نہیں پاتیں۔ اس لئے ہمیں حکم ہے کہ آنحضرتﷺ پر درود بھیجتے رہو۔ اور اس ذریعے سے خدا کا قرب پانے والے بن جاؤ لیکن جمعہ کے دن اس درود کی بھی ایک خاص اہمیت ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ:دنوں میں سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے اس دن مجھ پر بہت زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ اس دن تمہارا یہ درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب تفریع اابواب الجمعۃ)
تو دیکھیں یہاں بھی جمعہ کی اہمیت درود کے حوالے سے بتائی گئی ہے اور درود آپؐ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو شفاعت کا حق عطا فرمایا ہے۔ پھر یہ جمعہ کا درود ہی ہے اگر ہم بھیجیں گے تو آپؐ کو پیش ہو کر ہمارے کھاتے میں جمع ہوتا چلا جائے گا۔ بلکہ ہر وقت درود بھیجنا چاہئے اور جمعہ پہ خاص طور پر۔ تو یہ جمعہ کے دن کی اہمیت بتانے کے لئے ہے۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ جمعۃ الوداع کے دن جو تم درود بھیجو گے وہ خاص طور پر میرے سامنے پیش ہو گا بلکہ ہر جمعہ کے دن جو درود ہے وہ پیش ہو گا۔ یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ جمعۃ الوداع کی کوئی اپنی خاص اہمیت نہیں کوئی حیثیت نہیں۔ کہیں قرآن و حدیث سے اس کا پتہ نہیں لگتا۔ یہ سب بعد کی اخترائیں ہیں، بعد کی باتیں ہیں جو بعض مفاد پرست علما ء یا نام نہاد فقہاء نے اپنے مطلب حاصل کرنے کے لئے بنا لی ہیں۔ پھر اس کے ذریعہ سے عوام الناس کو بھی گمراہ کیا جاتا ہے تو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ شیطان بھی خاص طورپر اس دن کے حملے زیادہ زور دار طریقے سے کرتا ہے اور زیادہ منصوبے بنا کے کرتا ہے۔ اس لئے اس کو یہ تکلیف ہے اور تھی کہ آج کے دن آدمؑ کو پیدا کیا گیا ہے؟ میرے مقابلے پہ لایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے نیچے دکھایا ہے کم ترحیثیت میری ہو گئی ہے تو اصل میں تو شیطان کی لڑائی اللہ تعالیٰ سے تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے بندوں کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اس کے لئے اس کو چھٹی بھی ملی ہوئی ہے کہ ٹھیک ہے کرو جو تمہارے قابو میں آئیں گے وہ جہنم میں جائیں گے۔ جو نیکیوں پہ قائم رہیں گے وہ جنت میں جائیں گے۔ وہ تواس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ رحمن کے بندے کم سے کم دنیا میں ہوں لیکن آج احمدی کا یہ کام ہے کہ جمعہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمیشہ جمعہ کی حاضری کو لازمی اور یقینی بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور آنحضرتﷺ پر درود کی وجہ سے رحمان کے بندے بننے کی کوشش کریں۔ اور جب رحمان کے بندے بننے کی کوشش کر رہے ہوں گے توصرف جمعوں کی حاضر ی کی فکر ہی نہیں ہو گی ہمیں، بلکہ پھر نمازوں کی حاضری کی بھی فکر ہو گی۔ اور مسجدوں کی آباد ی کی بھی فکر ہو گی۔ اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی بھی فکر ہو گی۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرتﷺ فرمایا کرتے تھے کہ پانچ نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک، اور رمضان اگلے رمضان تک ان کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ جب تک کہ وہ بڑے بڑے گناہوں سے بچتا رہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الطہارۃ)
تو یہاں بات بالکل کھول دی کہ پانچ نمازیں کفارہ بنتی ہیں یعنی جب انسان کو ایک نماز کے بعددوسری نماز کی فکر رہے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش بھی کرتا رہے اور پھر نمازیں بھی ادا کرے پھر ایک جمعہ اگلے جمعہ تک کا کفارہ بنتا ہے۔ ان سات دنوں میں نماز کی ادائیگی کی وجہ سے اور بڑے بڑے گناہوں سے بچنے کی وجہ سے اور اس سوچ کی وجہ سے کہ میں نے گزشتہ جمعہ میں یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ فلاں فلاں برائی نہیں کرنی اور اس وجہ سے خدا سے معافی کا طلبگار ہوا تھا تو پھر یقینا وہ انسان برائی سے بچنے کی کوشش بھی کرتا رہے گا۔ کیونکہ یہ احساس رہے گا کہ میں بھی گزشتہ جمعہ میں خدا سے فلاں برائی کو چھوڑنے اور فلاں چیز کے حصول کا طلبگار ہوا تھا۔ اگر میں نے دوبارہ یہی برائی کی تو کس منہ سے اگلے جمعہ اس کے سامنے حاضر ہوں گا۔ تو اس طرح یہ کفّارہ بن جاتا ہے۔ اگلا جمعہ گواہی دیتاہے کہ یہ بڑے گناہوں سے بچتا رہا۔ اور اگر سال کے بعد ہی جمعہ پڑھنا ہے توسال کے بعد تو انسان ویسے بھی بھول جاتا ہے بہت ساری باتیں، بہت سارے وعدے، بہت سارے عہد کئے ہوئے ہیں یا نہیں کئے ہوئے۔ پھر فرمایا کہ رمضان کفارہ بن جاتا ہے۔ اگر نمازوں اور جمعوں کی ادائیگی ہو رہی ہوگی اور نیکیاں قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو ظاہر ہے رمضان نے بھی اس کا کفّارہ بننا ہے۔ تو کفّارے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نمازیں یہ جمعے یہ رمضان اس بات کی گواہی کے لئے کھڑے ہو جائیں گے کہ بعض چھوٹی چھوٹی غلطیاں جو اس شخص سے ہوئی ہیں یا بعض بیوقوفیوں کی وجہ سے جو غلطیاں ہوئی ہیں یہ عبادتیں کہیں گی کہ اے اللہ تیرے خوف کی وجہ سے اور تجھ سے محبت کی وجہ سے یہ انسان یہ مومن بندہ تیرے حضور پانچ وقت حاضر ہوتا رہا، تیرے سے ان برائیوں کی معافی بھی مانگتا رہا ہے اور بڑے گناہوں سے بھی بچتا رہا ہے۔ جمعہ کہے گا کہ ان سات دنوں میں اس شخص نے بڑے بڑے گناہوں اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کی اور محفوظ رہا لیکن بعض چھوٹی غلطیاں ہو بھی گئی ہیں تو معاف کر دے۔ یہ بہرحال اپنا عہد نبھانے کی کوشش کرتا رہا ہے رمضان کہے گا کہ جو رمضان کا حق تھا اس طرح اس مومن بندے نے روزے بھی رکھے اور آئندہ رمضان کے انتظار میں بھی رہا اور عموماً برائیوں سے بچتا رہا چھوٹی موٹی غلطیاں کوتا ہیاں اگر ہو گئی ہیں تو اس کو معاف کر دے۔ تو جب یہ عبادتیں جو ہیں یہ اس مومن بندے کا اس طرح ساتھ دے رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو رہی ہوں گی تو ان عبادتوں کی وجہ سے بشرطیکہ وہ نیک نیتی سے کی گئی ہوں، دکھاوے کے لئے نہ ہوں کیونکہ دکھاوے کی عبادتیں منہ پہ ماری جاتی ہیں تو نیک نیتی سے کی گئیں عبادتیں اس کو نیکیوں میں اور بڑھاتی چلی جائیں گی اور وہ نیکیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرتا چلا جائے گا۔ اور ایک وقت آئے گا کہ جب چھوٹی چھوٹی برائیاں بھی دور ہو جائیں گی۔ تو یہ ہے عبادتوں کا کفارہ ادا کرنے کا مطلب۔ پھر جمعہ کے دن قبولیت دعا کے بارے میں ایک روایت اس طرح آتی ہے۔
پھر ایک روایت ہے ابو جعدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس نے متواتر تین جمعے جان بوجھ کر چھوڑ دئیے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے۔ (ترمذی کتاب الجمعۃ باب ما جاء فی ترک الجمعۃ)
تو جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ کوئی روایت نہیں ملتی جس سے جمعۃ الوداع کا پتہ لگتا ہوکہ اس کی کوئی خاص اہمیت ہے اس دن پڑھ لو تو بس سب کچھ معاف ہو گیا۔ لیکن ہر جمعہ کی اہمیت کا روایت میں بہرحال ذکر ہے۔ اب اس روایت میں بھی یہی فرمایا کہ جان بوجھ کر جمعہ چھوڑنے والے کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ اور جن کے دلوں پر مہر لگ جائے وہ دین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ جب خدا کوبھی بھول جاتے ہیں۔ بڑا سخت انذار ہے۔ ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ اب جو لوگ سال کے بعد جمعہ پڑھتے ہیں یا عید پڑھتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جمعہ بھی ایک طرح کی عید ہی ہے۔ پہلی حدیث سے واضح ہو گیا تین جمعے سے زیادہ چھوڑو تو پھر داغ لگ جاتا ہے۔
پھر جو عید کو اہمیت دیتے ہیں جمعے کو اہمیت نہیں دیتے اس بارے میں آنحضرتﷺ نے ایک جمعے کے خطبے کے دوران ہی فرمایا کہ اے مسلمانو! اس دن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عید بنایا ہے۔ اس روز نہایا کرو اور مسواک ضرور کیا کرو۔ (المعجم الصغیر للطبرانی۔ باب الحاء من اسمہ الحسن)
یعنی اس روز نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کے اچھے کپڑے پہن کے جس طرح عید کی خوشی مناتے ہیں اس طرح خوشی مناؤ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ایک جگہ اکٹھے ہو۔ تو بعض لوگ میں نے دیکھا ہے شائد اس وجہ سے جمعہ والے دن اپنی توفیق کے مطابق خاص طور پر کھانا بھی بڑے اہتمام سے پکاتے ہیں۔ تو اگر یہ اہتمام اس سوچ کی وجہ سے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ عید سمجھ کے مناؤ توکھانے کے ساتھ ساتھ پھر ثواب ملتا چلا جائے گا۔
پھر جمعہ پر آنے والوں کو آپﷺ نے ایک اور پیارے انداز میں ترغیب بھی دلائی ہے۔ روایت میں آتا ہے ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابو عبداللّٰہ اَغَرّ نے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب جمعہ کا دن ہوتا ہے مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے ہوتے ہیں وہ مسجد میں پہلے آنے والے کو پہلا لکھتے ہیں اور اس طرح وہ آنے والوں کی فہرست تیار کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب امام خطبہ دے کر بیٹھ جاتا ہے تو وہ اپنے رجسٹربند کر دیتے ہیں اور ذکر الٰہی سننے میں لگ جاتے ہیں۔ (مسلم کتاب الجمعۃ۔ باب فضل التہجیر یوم الجمعۃ)
تو پہلے آنا بھی ثواب کا کام ہے کہ جلدی آنے کا حکم ہے اللہ تعالیٰ کا کہ جلدی نماز کی طرف آیا کرو۔ کیونکہ شیطان تو اسی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ کسی طرح روکے اور اگر اس کی کوششوں کے باوجود مسجد میں آنے کی طرف توجہ رہتی ہے، جمعہ پڑھنے کی طرف توجہ رہتی ہے جو اس زمانے میں اور بہت سی مصروفیات کی وجہ سے اور زیادہ اہمیت اختیارکر گئی ہے، تو آنے کی وجہ سے ہی وہ ثواب کا حق دار ٹھہررہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے بہت سارا ثواب کا حصہ لے رہاہوتا ہے۔ اس جلدی آنے کے بارے میں ایک اور روایت میں اس طرح آتا ہے۔
عَلْقَمَہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ہمراہ جمعہ کے لئے گیا۔ انہوں نے د یکھا کہ ان سے پہلے تین آدمی مسجد پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے کہا چوتھا میں ہوں۔ پھر کہا خیر چوتھا ہونے میں کوئی دوری نہیں۔ پھر کہا میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور جمعوں میں آنے کے حساب سے بیٹھے ہوں گے یعنی پہلا، دوسرا، تیسراپھر انہوں نے کہا چوتھا اور چوتھا بھی اللہ تعالیٰ کے دربار میں بیٹھنے کے لحاظ سے کوئی دور نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا۔ باب ما جاء فی التہجیر الی الجمعۃ)
تو جمعہ پر جلدی آنے کے لئے صحابہ کی یہی کوشش ہوتی تھی اور یہ شوق ہوتا تھا۔ احمدیوں کو بھی اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے کیونکہ یہ سورہ جمعہ ہی ہے جس میں آخرین کا، مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کا پہلوں سے یعنی صحابہ سے ملنے کا ذکر ہے۔ تو یہ ملنا تو تبھی ملنا ہو گا جب ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کر رہے ہوں گے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا ہے احمدیوں کو جمعہ کی حاضری اور اس کی حفاظت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔ کیونکہ ایک تو اپنی ذات میں جمعہ کی ایک خاص اہمیت ہے۔ جو باتیں میں نے ابھی بتائی ہیں قرآن و حدیث سے بڑا واضح ہے۔ دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد جو ایک ہاتھ پر جمع ہو کر اپنے اوپر ہم نے ایک اور زیادہ ذمہ واری ڈال لی ہے کہ اکٹھے ہو کر دعائیں کرتے ہوئے ہم نے تمام دنیا کو ایک ہاتھ پہ جمع بھی کرنا ہے۔ تمام دنیا کو آنحضرتﷺ کے غلام کی جماعت میں شامل بھی کرنا ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھانا ہے اس کے لئے کوششیں بھی بہت زیادہ کرنی ہو ں گی۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ احمدیوں میں تو نہیں ہوتا لیکن بعض غیروں میں ہوتا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے، نظریہ ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن قضاء عمری پڑھ لو تو پچھلی تمام زندگی کی چھوڑی ہوئی نمازیں ادا ہو جاتی ہیں اور ان دو رکعتوں میں سب کچھ پورا ہو گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ احمدی اس بدعت سے پاک ہیں۔ اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کسی نے پوچھا تو آپ ؑ نے فرمایاکہ:’’ جو شخص عمداً سال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضاء عمری والے دن ادا کر لوں گا وہ گنہگار ہے۔ اور جو شخص نادم ہو کر توبہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کرو ں گا تو اس کے لئے حرج نہیں۔ ہم تو اس معاملے میں حضرت علی ؓ ہی کا جواب دیتے ہیں ‘‘۔
حضرت علی ؓ کا جواب ایک اور روایت میں آپ نے اس طرح فرمایا ہے کہ:’’ ایک دفعہ ایک شخص بے وقت نماز پڑھ رہا تھاکسی شخص نے حضرت علی ؓ کو کہا کہ آپ خلیفۂ وقت ہیں آپ اسے منع کیوں نہیں کرتے۔ فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بنایا جاؤں۔ کہ {اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی۔عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی}(العلق:11-10) ہاں اگر کسی شخص نے عمداً نماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضاء عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیا ہے‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’ ہاں اگر کسی شخص نے عمداً نماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضاء عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیاہے۔ اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے‘‘ یعنی اگر شرمندگی بھی ہے یہ کہتا ہے کہ توبہ تائب کرنا چاہتا ہے’’ تو پڑھنے دو‘‘ اس کو ’’کیوں منع کرتے ہو۔ آخر دعا ہی کرتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ اس میں پست ہمتی ضرور ہے‘‘ اور ہمارے لئے فرمایا بعض لوگ اعتراض بھی کر دیتے ہیں کہ’’ دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچے نہ آ جاؤ‘‘۔ (الحکم مورخہ 24؍ اپریل 1903ء صفحہ 12 کالم نمبر 3)
تو یہ تھی جمعہ کی اہمیت لیکن ان ساری باتوں کے باوجو د بعض لوگ خطبہ سنیں گے کچھ اپنے پہ سختی طاری کر لیں گے، کچھ دوسروں کے لئے سخت ہو جائیں گے۔ کچھ لوگوں کے لئے جمعہ پہ چھوٹ بھی ہے اس کا بھی میں ذکر کر دیتا ہوں۔ طارق بن شہاب ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرنا ایسا حق ہے جو واجب ہے۔ یعنی فرض ہے۔ سوائے چار قسم کے افراد کے یعنی غلام، عورت، بچہ اور مریض۔ (ابوداؤد۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الجمعۃ للمملوک والمرأۃ)
تو ان چار کو چھوٹ دی گئی ہے۔ خاص طور پر بچوں والی عورتیں جن کے بالکل چھوٹے بچے ہیں جن کے رونے یا شور کرنے سے دوسرے ڈسٹرب ہو رہے ہوں ان کی نماز خراب ہو رہی ہو خطبہ سننے میں دقت پیدا ہو رہی ہو ان کے لئے تو بہتر یہی ہے کہ وہ گھر میں ہی رہیں، گھر میں ہی نماز ادا کر لیا کریں۔ یہ جو چھوٹ دی گئی ہے یہ اپنی تکلیف یا مجبوری کے علاوہ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لئے بھی ہے۔ اور پہلے یہاں ذکر ہے غلام کا، غلام تو اس زمانے میں رہے نہیں لیکن بعض دفعہ شیطان نفس میں ڈال دیتا ہے ملازم پیشہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم اس کی کیٹگری میں آگئے۔ وہ اس میں نہیں ہیں، میں واضح کر دوں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ چھوٹے بچوں والی عورتوں کو توجمعہ پڑھانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کے نبیﷺ نے یہ چھوٹ دی ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں اور جمعہ کے آداب کے لحاظ سے بھی ضروری ہے۔ جمعہ کا خطبہ جو ہے وہ بھی جمعہ کا حصہ ہے۔ اس لئے اس میں بھی خاموش بیٹھنا ضروری ہے۔ بچوں کے بولنے کی وجہ سے ماں باپ ان کو چپ کرواتے ہیں چاہے وہ آہستہ آواز میں چپ کروا رہے ہوں تو ساتھ بیٹھے ہوئے کو پھر بھی تکلیف ہوتی ہے، خاص طور پر عورتوں کی طرف سے کافی شکایتیں آتی ہیں۔ اس لئے احتیا ط کا تقاضا یہی ہے کہ چھوٹے بچے اور ان کی مائیں گھر پر ہی رہیں۔ ہاں عیدپر آنے کا حکم ہے اس پر ضرور آیا کریں۔ کیونکہ پرسوں عید بھی ہے یہ نہ ہو کہ سمجھیں کہ عیدبھی معاف ہو گئی۔ اور بچوں کے لئے علیحدہ جگہ جہاں بنی ہو وہاں بیٹھنا چاہئے، عام جو نماز کا ہال ہے وہاں نہ بیٹھیں۔ یہاں بیت الفتوح میں تو اللہ کے فضل سے ویسے بھی ایک علیحدہ جگہ بنی ہوئی ہے بچوں کے لئے۔ لیکن شاید رش کی وجہ سے وہ علاقہ بھی مردوں کو مل جائے مجھے نہیں پتہ کیا پروگرام ہے ان کا۔ لیکن بہرحال بچوں والی عورتیں ایک طرف ہو کر بیٹھیں، دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں۔ آنحضرتﷺ نے تو جائز وجہ سے بھی خطبے کے دوران بولنے کو نا پسند فرمایا ہے۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جمعے کے روز جب امام خطبہ دے رہا ہو اگر تم اپنے قریبی ساتھی کواگر وہ بول رہا ہے تو اس کو کہو خاموش ہو جاؤ تو تمہارا یہ کہنا بھی لغو فعل ہے۔ (ترمذی کتاب الجمعۃ باب ما جاء فی کراھیۃ الکلام والامام یخطب)
تو یہ دیکھیں یوں خاموش کروانا، بول کے خاموش کروانے کی بھی پابندی ہے اس کو بھی لغو قرار دیا گیا ہے۔ کسی کو بھی چپ کروانا ہو چاہے چھوٹے بچوں کو یا بڑوں کو تو ہاتھ کے اشارے سے چپ کروانا چاہئے۔ تو یہ جمعہ سے متعلق چند باتیں ہیں جومیں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمعہ کی اہمیت کو سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور اپنی ذمہ داریوں کو اس سلسلے میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ رمضان جس کا کل یہاں آخری روزہ ہے باقی دنیا میں بھی کل یا پرسوں ختم ہو جائے گا اس رمضان میں جو برکات ہم نے حاصل کی ہیں اور اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ اس کوشش کو یا ان کوششوں کو دائمی بنا دے، ہماری زندگیوں کا حصہ بنا دے۔ اور جیساکہ حدیث میں بیان ہوا ہے سارا سال ہمیں گناہوں سے بچنے اور عبادتوں کے معیار قائم کرنے کی توفیق ملتی رہے تاکہ آئندہ رمضان بھی جو آئے اور اس کے علاوہ جتنے رمضان بھی ہماری زندگیوں میں آنے مقدر ہیں ہمارے لئے کفّارہ بن جائیں۔ جو آج جمعۃالوداع میں شامل ہوئے ہیں، جمعہ میں شامل ہوئے ہیں جمعۃ الوداع سمجھ کر وہ اس عہد کے ساتھ اٹھیں اور وہ لوگ بھی جو کبھی کبھار جمعوں پہ آتے ہیں تین چار جمعے Miss کرنے کے بعد ایک جمعہ پڑھ لیاوہ بھی اس عہد کے ساتھ اٹھیں کہ یہ جمعہ جوہے، جمعۃالوداع نہیں ہے۔ بلکہ جس طرح دوڑ شروع ہونے سے پہلے ایک لائن بنائی جاتی ہے جس پر دوڑنے والے دوڑ شروع ہونے سے پہلے کھڑے ہوتے ہیں یہ جمعہ جو ہے یہ اس لائن کی طرح ہو اور دل میں یہ عہد ہو کہ آج اس پوائنٹ سے ہم نے یا اس لائن سے ہم نے اپنی نیکیوں کی دوڑ شروع کر دینی ہے۔ اور نہ کوئی نماز قضاء کرنی ہے اور نہ کوئی جمعہ چھوڑنا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پرعمل کرتے ہوئے خاص کوشش ہمیشہ کرتے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی اداکرنے ہیں۔ اپنے لئے بھی دعائیں کرنی ہیں، اپنے بھائیوں کے لئے بھی دعائیں کرنی ہیں۔ اور یہ رمضان کا جو ڈیڑ ھ د ن رہ گیا ہے اس میں خاص طور پر توجہ دیں اور دعائیں کرتے رہیں۔ کوئی لمحہ بھی قبولیت دعاکالمحہ ہو سکتا ہے۔ ا س میں بھی جتنے دن جتنا عرصہ رہ گیا ہے چاہے چند گھنٹے ہوں اس میں بھی اپنے اندر روحانی تبدیلی پیداکرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا کی ایک درخواست یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش میں اور پاکستان میں بھی حالات کافی خراب ہیں۔ بنگلہ دیش میں احمدیوں کے لحاظ سے، پاکستان میں عمومی طور پر لیکن احمدیوں کے علیحدہ بھی۔ تو ان کوبھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ عالم اسلام کو بھی اپنی دعاؤں میں یادرکھیں۔ مسلمانوں پر آج کل بڑا شدید ظلم ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور مسلمانوں کو بھی عقل اور سمجھ دے جو اس زمانے کے امام کو پہچانیں۔
٭…احمدیوں کو جمعہ کی حاضری اور اس کی حفاظت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے
٭…نماز جمعہ اور درود شریف، جمعہ والے دن خصوصی طور پر درود شریف زیادہ پڑھیں۔
12؍ نومبر ۲۰۰۴ء بمطابق12؍ نبوت۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔