آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کا اعلیٰ معیار
خطبہ جمعہ 18؍ فروری 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:۔
اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا(المزّمل :7)
پھر فرمایا:۔
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ رات کا اٹھنا یقینا نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے لئے زیادہ شدید اور قول کے لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے۔
یہ وہ قرآنی حکم ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور آپؐ نے اس کا حق ادا کر دیا بلکہ دعویٰ سے پہلے بھی، نبوت سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی تلاش میں اسی طرح اعتکاف کیا کرتے تھے۔ اپنی راتوں کو آرام میں یا کسی شوق میں گزارنے کی بجائے عبادتوں میں گزارتے تھے۔ راتوں کی عبادت جب رات گہری ہو، ہر طرف خاموشی ہو، بندے اور خدا کے درمیان کسی قسم کی روک ڈالنے والی چیز نہ ہو، بندے اور اللہ کے درمیان راز و نیاز میں کوئی چیز روک نہ بنے، اس وقت جو اللہ کی عبادت کرنے والے ہوتے ہیں وہ یقینا اللہ کا قرب پانے والے اور اس کا پیار حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ خالصتاً اللہ کے قرب کے لئے یہ عبادت بجا لا رہے ہوتے ہیں۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس طرح رات کو اٹھنا اپنے نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے برابر ہے۔ بلکہ یہ شیطان کو ختم کرنے اور اپنے نفس پر قابو پانے کا ایسا زبردست حربہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس وقت کے عہد و پیمان اتنے پکّے اور مضبوط ہوتے ہیں کہ ان کو توڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ شیطان کی ملونی اس میں ہو ہی نہیں سکتی۔ گویا اللہ تعالیٰ کا خالص بندہ بننے اور اپنے نفس کو ہلا ک کرنے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں کہ رات کو اٹھ کر عبادت کی جائے۔ اور یہ عبادت کے اعلیٰ معیار ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑھ کر حاصل کئے۔ بلکہ آپؐ کی قوت قدسی نے صحابہ میں اور امت میں بھی راتوں کو عبادت کے لئے اٹھنے والے پیدا کئے۔
جس سورۃ کی آیت میں نے پڑھی ہے اس سورۃ کے آخر میں ہی اللہ تعالیٰ تصدیق فرماتا ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ رات کے دو تہائی حصے میں یا آدھے حصے میں یا وقت کے لحاظ سے تیسرے حصے میں توُ نے عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کر دئیے، حق ادا کر دئیے۔ ان کی اللہ گواہی دیتا ہے۔ بلکہ ان لوگوں کی بھی گواہی دیتا ہے جو آپؐ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ ان حکموں پر عمل کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی گواہی اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہ جو ہدایت کی گئی تھی کہ عبادت کے لئے اُٹھ اور ان اندھیری راتوں کی دعاؤں میں اپنے آپ کو بھی مضبوط کر اور اپنی امت کے لئے بھی حصار بن جا۔ اس پر نہ صرف پورا اترا بلکہ اعلیٰ ترین معیار قائم کئے، حق ادا کر دیا۔ دوسری جگہ اس کی ایک اس طرح بھی گواہی ملتی ہے۔ فرماتا ہے کہ
الَّذِیۡ یَرٰٮکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ۔وَ تَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیۡنَ(الشعراء:220-219)
یعنی جو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب تو کھڑا ہوتا ہے۔ اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بے قراری کو بھی۔ پس جس کو خداتعالیٰ یہ سند دے دے کہ تمام سجدہ کرنے والوں میں تیرے جیسا بے قرار سجدہ کرنے والا کوئی نہیں۔ جب تو کھڑا ہوتا ہے تو تیرا کھڑا ہونا عبادت کے لئے بھی خداتعالیٰ کی خاطر ہے، عبادت کے لئے ہے۔ اور جب تیرا سجدہ ہوتا ہے تو وہ بھی خدا اور صرف خدا کے لئے ہے۔ اس کے آگے جھکنے کے لئے ہے۔ اس کا رحم حاصل کرنے کے لئے ہے۔ اپنے لئے بھی اور اپنی امت کے لئے بھی۔ تو ایسے شخص کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ دنیاوی لذات کے پیچھے چلنے والا تھا یا ہو سکتا ہے۔
لیکن دنیا میں ایسے لوگ پیدا ہوتے آئے ہیں اور آج کل بھی ایسے پیدا ہو رہے ہیں جو اسلام دشمنی میں خود یا نام نہاد مسلمانوں کو خرید کر، لالچ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر گھٹیا اور بیہودہ الزام لگاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہ جاہل، اُجڈ اور مشرک لوگ، اس عظیم نبی کی قوت قدسی اور دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بنتے نظر نہیں آتے۔ لیکن جو لوگ بغض اور کینے اور دشمنی میں اس حد تک چلے جائیں جن کی انصاف اور دین کی آنکھ کام نہ کرتی ہو، اس لحاظ سے بالکل اندھے ہوں، جن کے دل سیاہ ہوں جو خود غلاظت میں پڑے ہوئے ہوں۔ وہ جب بھی دیکھیں گے، اپنی اسی نظر سے دیکھیں گے۔ وہ جب بھی دیکھیں گے ان کو اپنا اندرونہ ہی نظر آ رہا ہو گا۔ اور صاف اور شفاف شیشہ وہی کچھ دکھاتا ہے جیسی کسی کی شکل ہو، جیسا کسی کا رنگ ہو۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شفاف آئینے میں یہ لوگ جب دیکھیں گے تو ان کو اصل میں تو اپنا آپ نظر آ رہا ہو گا۔ نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر، آپؐ کا حسین چہرہ۔ آپ کا حسین چہرہ دیکھنے کے لئے تو پاک دل ہونا ضروری ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ضروری ہیں۔ خدا کا خوف ضروری ہے، دلوں کے زنگ دور ہونے ضروری ہیں، پھر اس حسین چہرے کی پہچان ہو سکتی ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا ایسے لوگ جو اسلام کو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ اپنے زعم میں بدنام کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ اور ایسی ایسی بیہودہ گوئیاں کر رہے ہوتے ہیں جنہیں کوئی بھی شریف آدمی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ اور یہ لوگ اپنے زعم میں بڑے پڑھے لکھے ہونے اور آزاد خیال ہونے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے سامنے اپنے خیال میں اسلام اور بانی ٔاسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حقائق بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ ایسے لوگ ہیں جن کا اپنا چہرہ ان بیہودہ گوئیوں سے ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔ بہرحال ایسے لوگوں میں سے یہاں آج کل ایک صاحب نے پچھلے دنوں مضمون لکھا تھا، جرنلسٹ ہیں چارلس مور(Charles Moore)۔ استہزاء کے رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عائشہؓ سے شادی کے بارے میں لکھا۔ لیکن بے چارہ اپنے کینے کی وجہ سے، دل میں جو بغض بھرا ہوا تھا اس کی وجہ سے بالکل ہی اندھا ہو گیا ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوٹی عمر کی بچیوں سے کوئی دلچسپی تھی۔ حالانکہ جس کتاب کا حوالہ دے کر اس نے اپنی بات کی ہے، راجرسن(Barnaby Rogerson) کی کتاب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ۔ اس نے واضح طور پر لکھا ہے کہ رخصتانہ حضرت عائشہ ؓ کا بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہوا تھا۔ پھر اس اندھے کو یہ بھی نظر نہیں آیا کہ آپؐ کی پہلی شادی کس عمر میں ہوئی جو جوانی کی عمر تھی۔ پھر یہ نظر نہیں آیا کہ آپؐ کی تمام دوسری بیویاں بڑی عمر کی تھیں۔ جب انسان اندھا ہو جائے تو تاریخ کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ جب بغض اور کینے بڑھ جائیں تو حق بات کہنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ بہرحال اس بحث کو میں اس وقت نہیں لے رہا۔ اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس کام کا اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا تھا کہ میری عبادت کرو اور میرے عبادت گزار پیدا کرو۔ صرف اسی کام سے آپؐ کو دلچسپی تھی اور اسی کے اعلیٰ معیار قائم کرکے دکھانے پر اللہ تعالیٰ نے گواہی بھی دی ہے۔ تو بہرحال جیساکہ میں نے کہا مور(Moore)کی ان بیہودہ گوئیوں کا اس وقت جواب نہیں دے رہا۔ لیکن حقائق اور واقعات اور تاریخ کو سامنے رکھ کر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی دلچسپی تھی تو اپنے پیدا کرنے والے خدا سے تھی اور نہ صرف دلچسپی تھی بلکہ عشق تھا۔ اور ایسا عشق تھا جو کسی عشق کی داستان میں نہیں مل سکتا۔ اگر کوئی خواہش تھی تو صرف یہ کہ میرا جسم، میری جان، میری روح اللہ تعالیٰ کے در پر پڑی رہے۔ اور اس کی راہ میں قربان ہوتی رہے۔ جوانی کے دنوں میں بھی آپؐ کو عورتوں یا لہو و لعب یا کھیل کود سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس وقت بھی ایک خدا کی تلاش میں، اس کی محبت میں، گھر بار چھوڑ کر بیوی بچے چھوڑ کر میلوں دور ایک غار میں جا کرعبادت کیا کرتے تھے تاکہ کوئی بھی وہاں آ کے ڈسٹرب(Disturb)کرنے والا نہ ہو۔ کیا دنیا سے دلچسپی رکھنے والا یا دنیا کی چیزوں سے دلچسپی رکھنے والا، دنیا کی چیزوں پر منہ مارنے والا اس طرح کے عمل دکھایا کرتا ہے؟ اور یہ ایسی چیز ہے جس سے مخالفین بھی اپنی کتابوں میں انکار نہیں کر سکے، چاہے نتیجے اپنی مرضی کے جو بھی نکالیں۔ لیکن حقائق سے انکار نہیں ہو سکتا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے۔ آپؐ عبادت کرنے کے لئے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غار حرا تھی چلے جاتے تھے۔ یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان اس میں جانے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ لیکن آپ نے اس کو اس لئے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا۔ آپؐ بالکل تنہائی چاہتے تھے۔ شہرت کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے۔ مگر خداتعالیٰ کا حکم ہوا {یٰٓـاَیُّھَاالْمُدَّثِّرْ قُمْ فَاَنْذِرْ}(المدّثر :3-2) اس حکم میں ایک جبر معلوم ہوتا ہے اور اسی لئے جبر سے حکم دیا گیا کہ آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑ دیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 34۔ جدید ایڈیشن- البدر مورخہ 24؍ اگست 1904ء صفحہ 4`3)
تو اس تنہائی کو چھوڑنا اور اس کو چھوڑ کر دنیا کے سامنے آنا اور اپنے محبوب کا پیغام دنیا کو پہنچانا یہ بھی اس لئے تھا کہ حکم ہوا تھا کہ یہ کرو۔ نہ کہ اپنی کوئی خواہش کو پورا کرنے کے لئے۔
ایک روایت میں آتا ہے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ:’’ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل تن تنہا کچھ زاد راہ ساتھ لے کر اکیلے چلے جاتے تھے۔ کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر، حرا نامی غار میں جا کر معتکف ہو کر عبادت کیا کرتے تھے۔ وہاں آپ کئی کئی راتیں عبادت میں گزارتے اور پھر جب زادہ راہ ختم ہو جاتا تو آپؐ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آتے اور مزید زاد راہ ساتھ لے لیتے اور پھر تنہائی میں جا کر اللہ کو یاد کرنے لگتے‘‘۔ (بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر 3)
مسلسل کئی کئی دن یہ عمل جاری رہتا تھا۔ ہر وقت یہ فکرہوتی تھی اور اس کوشش میں ہوتے تھے کہ میں اپنے محبوب اللہ سے راز و نیاز کی باتیں کروں۔ جیسا کہ ذکر آ چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپؐ نے جب تبلیغ شروع کی تو خانہ کعبہ میں کی۔ عبادت کے لئے بعض دفعہ تشریف لایا کرتے تھے اور کفار مکہ کو بڑا سخت ناگوار گزرتا تھا کہ یہاں آ کر اس طرح اپنے طریقے سے عبادت کریں۔ اور وہ آپ کو اس عبادت کرنے سے روکنے کے لئے مختلف حیلے اور کوششیں بھی کیا کرتے تھے۔ لیکن آپؐ کو جو خدائے واحد سے عشق تھا وہ ان روکوں اور مخالفتوں سے ختم نہیں ہو سکتا تھا۔ اس مخالفت کے ایک واقعہ کا یوں ذکر بھی ملتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ :’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اس وقت ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران اُن میں سے کسی نے کہا تم میں سے کون فلاں لوگوں کی اونٹنی کی بچہ دانی لائے گا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر جبکہ وہ سجدے میں ہوں رکھے۔ چنانچہ ان لوگوں میں سے بدبخت ترین شخص اٹھا اور اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لایا اور وہ اس وقت کا انتظار کرتا رہا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہوں۔ پھر جونہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اس نے وہ بچہ دانی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں ان کو یہ سب کچھ کرتے دیکھتا رہا مگر میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ کاش مجھ میں ان کو روکنے کی طاقت ہوتی۔ پھر وہ لوگ ایسا کرنے کے بعد ہنستے ہوئے ایک دوسرے پر گرنے لگے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل سجدے میں رہے۔ آپؐ اپنا سرنہیں اٹھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فاطمہؓ آئیں اور انہوں نے اس بچہ دانی کو آپؐ کی کمر سے اتارا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر آپؐ نے تین مرتبہ کہا اے اللہ! ان قریش کو تو ہی سنبھال اور یہ بددعا بھی ان پر بڑی گراں گزری۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضورؐ کی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ ؐ نے نام لے لے کر دعا کی کہ اے اللہ! میں تجھ سے ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط پر گرفت کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ تو راوی کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتویں آدمی کا بھی نام لیا تھا مجھے یاد نہیں رہا۔ لیکن بہرحال راوی کی روایت یہ ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں نے ان لوگوں کو جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں گنا تھا بدر کے گڑھے میں قتل ہونے کے بعد گرے ہوئے دیکھا‘‘۔ (بخاری کتاب الوضوء۔ باب اذا القیٰ علی ظھر المصلّی قذراو جیفۃ حدیث نمبر 240)
تو یہ قبولیت دعا کے نظارے اللہ کا پیارا ہی دکھا سکتا ہے۔ کیا کوئی دنیاوی دلچسپیوں میں ڈوبا ہوا یہ نظارے دکھا سکتا ہے؟ تھوڑے ہی عرصہ میں سب کچھ پورا ہوتا ہوا نظر آیا۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی دلی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی باب سعید بن جبیر عن ابن عباس ؓ )
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس رات کی عبادت میں بھی وہ اعلیٰ معیار قائم کئے جن کی مثال نہیں مل سکتی۔ اس بارے حضرت عائشہ ؓ کی گواہی ہے۔ رسول اللہﷺ کی نماز یعنی تہجد کی نماز کی کیفیت جب آپؓ سے پوچھی گئی تو فرمایا کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے مگر وہ اتنی لمبی اور پیاری اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو۔ ‘‘ (بخاری کتاب التھجد۔ باب قیام النبیﷺ باللیلٍ فی رمضان وغیرہ – حدیث نمبر 1147)
یعنی میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں آپؐ کی اس خوبصورت عبادت کا نقشہ کھینچ سکوں۔ ایک روایت میں آتا ہے مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس وقت شدت گریہ و زاری کے باعث آپؐ کے سینے سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب البکاء فی الصلوٰۃ)
ایک دوسری روایت میں یہ آتا ہے کہ: آپؐ کے سینے سے ایسی آواز اٹھ رہی تھی جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز ہوتی ہے۔ (سنن نسائی- کتاب السھو۔ باب البکاء فی الصلوٰۃ حدیث نمبر 1213)
حضرت عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ: ایک رات مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کو عبادت کی توفیق ملی۔ آپؐ نے پہلے سورۃ بقرہ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور آپؐ کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی۔ پھر قیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔ یعنی جتنی دیر کھڑے تھے، تلاوت کی اتنی ہی دیر رکوع کیا، جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔ پھر قیام کے برابر سجدہ کیا۔ سجدے میں بھی یہی تسبیح دعا پڑھتے رہے۔ پھر کھڑے ہو کر آل عمران پڑھی۔ پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے۔ (ابو داؤد۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب ما یقول الرجل فی رکوعہٖ و سجودہٖ حدیث نمبر 868)
تو یہ رک رک کر، سمجھ کر، رحمت اور عذاب کے موقعوں پر دعا کرکے، پناہ مانگ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح غور کرنا اور پناہ مانگنا، یہ رکنا یہ غور بھی کوئی معمولی نہیں ہوتا تھا۔ یہ دعائیں بھی اور یہ غور بھی بہت اعلیٰ معیار کا تھا جس تک انسان کی شاید سوچ بھی پہنچنی بہت مشکل ہو۔ تبھی تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ہے کہ ان کی نمازوں کے حسن کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھو وہ بیان ہی نہیں کی جا سکتیں۔ پھر حضرت حذیفہ ؓ بن یمان فرماتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دان صحابی تھے۔ ایک رات رسول ؐ اللہ کے ساتھ نماز ادا کی جب نماز شروع کی تو آپ نے کہا اَللّٰہُ اَکْبَرْ ذُوْالْمَلَکُوْتِ وَالْجَبْرُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظْمَۃِ۔ یعنی اللہ بڑا ہے جو اقتدار اور سطوت کبریائی اور عظمت والا ہے۔ پھر آپؐ نے سورۃ بقرہ مکمل پڑھی۔ پھر رکوع فرمایا جو قیام کے برابر تھا۔ پھر رکوع کے برابر کھڑے ہوئے۔ پھر سجدہ کیا جو کہ قیام کے برابر تھا۔ پھر دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْلِیْ، رَبِّ اغْفِرْلِی اے میرے رب مجھے بخش دے، اے میرے رب مجھے بخش دے کہتے ہوئے اتنی دیر بیٹھے جتنی دیر سجدہ کیا تھا۔ پھر دوسری رکعتوں میں آپؐ نے آل عمران، نساء، مائدہ، اَنعام وغیرہ طویل سورتیں پڑھیں۔ (ابو داؤد۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ حدیث نمبر 869)
تو دیکھیں یہ تھے آپؐ کی عبادتوں کے معیار۔ اس لئے روایتوں میں آتا ہے کہ بعض دفعہ کھڑے کھڑے آپؐ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنی لمبی نماز ادا فرمایا کرتے تھے کہ آپ ؐ کے پاؤں متورم ہو کر پھٹ جاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے آپ ؐ سے عرض کی اے اللہ کے رسول! آپؐ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اگلے پچھلے تمام قصور معاف فرما دئیے ہیں۔ توآپؐ نے فرمایا اَفَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔ کیامیں یہ نہ چاہوں کہ میں اللہ کا شکر گزار بندہ بنوں۔ (بخاری کتاب التفسیر۔ سورۃ الفتح- باب قولہ لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک …)
پھر ام المومنین حضرت سودہؓ کی ایک روایت ہے۔ نہایت سادہ مزاج اور نیک خاتون تھیں۔ ایک رات انہوں نے بھی اپنی باری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ اور حضورؐ کے ساتھ جا کر نماز میں شامل ہوئیں۔ پتہ نہیں کتنی دیر نماز ساتھ وہ پڑھ سکیں لیکن بہرحال اپنی سادگی میں دن کے وقت انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس لمبی نماز پہ جو تبصرہ کیا اس سے حضورؐ بہت محظوظ ہوئے۔ کہنے لگیں یا رسول اللہ! رات آپ نے اتنا لمبا رکوع کروایا کہ مجھے تو لگتا تھا جیسے جھکے جھکے کہیں میری نکسیر نہ پھوٹ پڑے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ۔ حرف السین – القسم الاوّل – سودہؓ بنت زمعۃ)
پھر ایک روایت میں آتا ہے عطا ء روایت کرتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میں ابن عمرؓ اور عبیداللہ بن عمرؓ کے ساتھ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کی کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب ترین بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھی ہو۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی یاد سے بیتاب ہو کر رو پڑیں اور کہنے لگیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا ہی نرالی ہوتی تھی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تشریف لائے۔ میرے ساتھ میرے بستر میں لیٹے پھر آپؐ نے فرمایا اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت کر لوں۔ میں نے کہا خدا کی قسم! مجھے تو آپؐ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے۔ میری طرف سے آپ کو اجازت ہے۔ تب آپ اٹھے اور مشکیزہ سے وضو کیا۔ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور نماز میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو آپ کے سینہ پر گرنے لگے۔ نماز کے بعد آپ دائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپؐ کا دایاں ہاتھ آپؐ کے دائیں رخسار پر تھا۔ آپ ؐ نے پھر رونا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے۔ آپؐ اسی حالت میں تھے کہ فجر کی اذان دینے کے بعد بلال آئے جب انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (تفسیر روح البیان زیر تفسیر سورہ آل عمران آیت 192-191)
اب مور صاحب(Moore) کیا کہتے ہیں ؟جس بیوی سے شادی کے بارے میں مور(Moore)نے ذہن کا گند نکالا ہے اس کی گواہی یہ ہے کہ مجھے چھوڑ کر اللہ کے حضور گریہ وزاری کرنے کے لئے حاضر ہو گئے۔ اور یہ کوئی ایک دو دفعہ کی بات نہیں ہے۔ اکثر ایسے واقعات ہوا کرتے تھے۔ بلکہ ہر روز ہر بیوی کے ہاں یہ نظارے نظر آئیں گے۔ اب دیکھیں حضرت عائشہ ؓ کی باری بھی آتی ہے۔ جب نو بیویاں تھیں تو نو دن کے بعد آتی ہو گی۔ آپؐ کی لاڈلی بیوی بھی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ لیکن لاڈلی بھی اس لئے ہیں کہ اس بیوی کے گھر سب سے زیادہ وحی آپؐ پر نازل ہوئی اللہ تعالیٰ کا کلام اترا ہے۔ تو یہاں بھی لاڈ اور پیار کا معیار اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ تو نو دن کے بعدجب اس بیوی کے پاس آتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ دل بے چین ہے، مجھے خدا کی عبادت کرنے دو۔ اور پھر ساری رات گڑ گڑا کر زمین کو تر کرتے رہتے ہیں۔ روتے ہوئے دعائیں کرتے ہوئے گزری۔ اس رب کی شکرگزاری کرتے ہیں جس نے اتنے احسانات کئے ہیں۔ کیا کوئی دنیا دار آدمی ایسے عمل کر سکتا ہے؟ لیکن دنیا داروں کے، اندھوں کے یہ معیار ہی نہیں۔ ان کے تو معیار ہی اور ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :۔ ’’ خداتعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے
{یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا}(الفرقان :65)
کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں۔ اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خداتعالیٰ کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے۔ وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے آپ ساری ساری رات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے تھے۔ ایک رات آپ کی باری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی، کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو حضرت عائشہ ؓ کی آنکھ کھلی۔ دیکھا کہ آپؐ موجود نہیں۔ اسے شبہ ہوا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں۔ اس نے اٹھ کر ہر ایک گھر میں تلاش کیا مگر آپ ؐ نہ ملے۔ آخر دیکھا کہ آپؐ قبرستان میں ہیں اور سجدہ میں رو رہے ہیں۔ اب دیکھو کہ آپ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے۔ توکیا آپؐ کی بیویاں حظِّ نفس یا اتباعِ شہوت کی بنا پر ہو سکتی ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 51-50 جدید ایڈیشن – البدر 8جولائی 1904صفحہ 2`3)
لیکن اعتراض کرنے والوں کو یہ چیز کبھی نظر نہیں آئے گی۔
یہ واقعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں بیان ہو اہے اس کی تفصیل حضرت عائشہؓ یوں بیان فرماتی ہیں : ایک رات حضورؐ میرے پاس تشریف لائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے لئے لیٹے مگر سوئے نہیں۔ اٹھ بیٹھے اور کپڑا اوڑھ لیا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میرے دل میں سخت غیرت پیدا ہوئی۔ میں نے خیال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاید میری کسی سوکن کے ہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔ تو کہتی ہیں کہ میں آپ کے تعاقب میں گئی تو میں نے آپؐ کو بقیع قبرستان میں دیکھا۔ آپؐ مومن مردوں، عورتوں اور شہداء کے لئے مغفرت طلب کر رہے تھے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے اپنے دل میں کہا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ اپنے رب کی طلب میں لگے ہوئے ہیں۔ اور میں دنیا کے خیالات میں ہوں۔ کہتی ہیں میں جلدی جلدی وہاں سے واپس آ گئی۔ کچھ دیر کے بعد حضور بھی میرے پاس تشریف لے آئے جبکہ ابھی تیز چلنے کی وجہ سے میرا سانس پھولا ہوا تھا۔ تو حضورؐ نے دریافت کیا کہ اے عائشہ! تیرا سانس کیوں پھولا ہوا ہے؟ تو میں نے حضور کو ساری بات بتائی۔ اس پر آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا تجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیری حق تلفی کریں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ جبریل میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اس رات میں اللہ تعالیٰ ایک بھیڑ کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگوں کو آگ سے نجات بخشتا ہے۔ یعنی کثرت سے نجات بخشتا ہے۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ نہ کسی مشرک پر نظر کرتا ہے اور نہ کسی کینہ پرور پر۔ نہ قطع رحمی کرنے والے پر اور نہ تکبر سے کپڑے لٹکانے والے پر۔ اور نہ والدین کی نافرمانی کرنے والے پر اور نہ کسی شراب خور پر۔ تو حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ حضورؐ نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی وہ اتاری اور مجھے فرمایا کہ اے عائشہ! کیا تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں آج کی باقی رات بھی عبادت میں گزاروں۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ ضرور۔ تب حضور نے نماز شروع کی اور اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے وہم ہوا کہ شاید آپؐ کا دم نکل گیا ہے۔ کہتی ہیں : میں نے ٹٹول کر آپ کے پاؤں کو چھوا تو آپ کے پاؤں میں حرکت پیدا ہوئی۔ میں نے آپ کو سجدے میں دعائیں کرتے سنا۔ صبح حضورؐ نے فرمایا کہ جو دعائیں میں رات سجدے میں کر رہا تھا وہ جبریل نے مجھے سکھائی تھیں اور مجھے حکم دیا تھا کہ میں سجدوں میں ان کو بار بار دہراؤں۔ (تفسیر الدر المنثور۔ تفسیر سورۃ دخان۔ آیت نمبر4)
اب بتائیے کوئی کہ کیا اس محسن انسانیت جیسا کوئی اور ہے جو ساری ساری رات اپنے رب کے حضور لوگوں کے لئے مغفرت مانگتے ہی گزار دیتا ہے، بخشش مانگتے ہی گزار دیتا ہے۔ اپنے رب کے عشق میں سر شار ہے اور اس کی مخلوق کی ہمدردی نے بھی بے چین کر دیا ہے۔ اپنی رات کی نیند کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے اپنی سب سے چہیتی بیوی کے قرب کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ خواہش ہے تو صرف یہ کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو جائے اور اس کی مخلوق عذاب سے بچ جائے۔ کیا ایسے شخص کے بارے میں کوئی کہہ سکتا ہے۔ کہ وہ نعوذ باللہ دنیا کی رنگینیوں میں ملوث تھا۔ آپ کی راتیں کس طرح گزرتی تھیں اس کی ایک اور گواہی دیکھیں۔ حضرت ام سلمیٰ ؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے۔ پھر سو جاتے، پھر اٹھ بیٹھتے اور نماز ادا کرتے۔ غرض صبح تک یہی حالت جاری رہتی۔ (ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ماجآء کیف کان قراء ۃ النبیﷺ )
حضرت عائشہؓ کی ایک اور روایت ہے کہ ایک رات میری باری میں باہر تشریف لے گئے۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کپڑے کی طرح زمین پر پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں سَجَدَ لَکَ سَوَادِیْ وَ خَیَا لِیْ وَاٰمَنَ لَکَ فُؤَادِیْ۔ رَبِّ ھٰذِہِ یَدَایَ وَ مَا جَنَیْتُ بِھَا عَلَی نَفْسِیْ۔ یَا عَظِیْمًا یُرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِالذَنْبَ الْعَظِیْم۔ کہ اے اللہ ! تیرے لئے میرے جسم و جان سجدے میں ہیں میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے۔ اے میرے رب! یہ میرے دونوں ہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے۔ اے عظیم ! جس سے ہر عظیم بات کی امید کی جاتی ہے، عظیم گناہوں کو تُو بخش دے۔ پھر فرمایا کہ اے عائشہ! جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کے لئے کہا ہے۔ تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو۔ جو شخص یہ کلمات پڑھے سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے۔ (مجمع الزوائد للھیثمی کتاب الصلٰوۃ باب مایقول فی رکوعہ وسجودہ)
آپؐ کو یہ کسی طرح گوارا نہیں تھا کہ آرام دہ بستر پر سوئیں اور گہری نیند ہو جو اللہ کی یاد سے غافل کر دے۔ حضرت حفصہؓ روایت کرتی ہیں کہ: ایک رات انہوں نے بستر کی چادر کی چار تہیں کر دیں، ذرا نرم ہو گیا۔ تو صبح آپ نے فرمایا رات تم نے کیا بچھایا تھا۔ اسے اکہر اکر دو یعنی ایک رہنے دو۔ اس نے مجھے نماز سے روک دیا۔ (الشمائل النبویۃ للترمذی باب ما جاء فی فراش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
شاید کچھ دیر کے لئے گہری نیند آ گئی ہو گی۔ اور آپؐ کو یہ گوارا نہ تھا کہ ذرا دیر کے لئے بھی اللہ سے غافل ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ: جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری یا کسی اور و جہ سے تہجد رہ جاتی تھی تو آنحضورﷺ دن کو بارہ رکعتیں نوافل ادا کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین باب جامع صلاۃ اللیل ومن نام عنہ او مرض)
خدا کی عبادت کے سامنے آپؐ نے اپنی صحت کی بھی کبھی پرواہ نہیں کی۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بیمار تھے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آج بیماری کا اثر آپ پر نمایاں ہے۔ فرمانے لگے اس کمزوری کے باوجود آج رات میں نے نماز تہجد میں طویل سورتیں پڑھی ہیں۔ (الوفا ء باحوال المصطفیٰ للجوزی باب التھجد) اپنی امت کو بھی، اپنے صحابہ کو بھی آپ نے اپنے نمونے سے یہی نصیحت فرمائی کہ خدا کی عبادت سے کبھی غافل نہ ہونا اور خاص طور پر تہجد کی نما زپر توجہ فرماتے تھے۔
حضرت عبداللہ ابن ابی قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ: قیام اللیل مت چھوڑنا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑتے تھے۔ اور جب آپ بیمار ہو جاتے، جسم میں سستی محسوس کرتے تو بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے۔ (سنن ابی داؤد کتاب التطوع باب قیام اللیل حدیث نمبر 1303)
تو اس میں اتنی باقاعدگی تھی اور یہ نصیحت بھی تھی۔ تبھی تو حضرت عائشہ ؓ نے یہ نصیحت آگے چلائی ہے۔ آپ کی خواہش کی تھی کہ میرے ماننے والے بھی اسی طرح نمازوں اور تہجدمیں باقاعدگی اختیار کریں۔ حضرت کعب بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دن کے وقت سفر سے واپس تشریف لاتے اور سب سے پہلے مسجد تشریف لے جاتے۔ وہاں دو رکعت نفل ادا کرتے پھر کچھ دیر وہاں بیٹھتے۔ (مسلم۔ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا باب استحباب رکعتین فی المسجد لمن قدم من سفر أول قدومہ- حدیث نمبر 1659)
اب عام آدمی ہو تو سفر سے واپس آ کر یہ ہوتا ہے کہ سیدھے گھر پہنچیں، بیوی بچوں سے ملنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اپنے سفر کی تکان اتارنے کی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کیا ہے کہ آپ واپسی پر پہلے اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ اس کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اس کا رحم اور فضل مانگتے ہیں۔ اور پھر دوسرے کام کرتے ہیں یا گھر جاتے ہیں۔ جنگ احد میں بھی مسلمانوں کو کیسی خطرناک اور خوفناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوئے تھے لیکن یہ چیز آپ کی عبادت کے رستے میں روک نہیں بن سکی۔ آپ کی عبادت کے رستے میں حائل نہیں ہو سکی۔
ایک روایت میں آتا ہے :غزوئہ اُحد کی شا م جب لوہے کے خود کی کڑیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے رخسار میں ٹوٹ جانے کی وجہ سے آپؐ کا بہت سا خون بہہ چکا تھا۔ کلّے پر لگنے کی وجہ سے خون بہہ چکا تھا۔ آپؐ زخموں سے نڈھال تھے۔ علاوہ ازیں 70صحابہ کی شہادت کا زخم اس سے کہیں بڑھ کر اعصاب شکن تھا۔ اس روز بھی آپ بلال ؓ کی ندا پر(یعنی بلال کی اذان کی آواز پر) نماز کے لئے اسی طرح تشریف لائے جس طرح عام دنوں میں تشریف لاتے تھے۔ غرضیکہ واقعات تو بہت ہیں۔ آپؐ کی زندگی کا تو ہر ہر لمحہ عبادتوں سے سجا ہوا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنی امت کے افراد میں بھی، صحابہ میں بھی عبادتوں کے معیار قائم کروا کر دکھائے۔ نصیحت بھی تبھی اثر کرتی ہے جب نصیحت کرنے والا خود اپنے عمل سے بھی انتہائی معیار دکھا رہا ہو۔ اور اس بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپؐ نے جو کہا وہ کیا نہیں۔ بلکہ صحابہ کی یہ حسرت ہوتی تھی کہ ہم بھی اتنا کر سکیں جتنا آپؐ کرتے ہیں۔ غرضیکہ آپ نے ان لوگوں میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ خواہ کیسا ہی پکا دشمن ہو اور خواہ وہ عیسائی ہو یا آریہ جب وہ ان حالات کو دیکھے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کے تھے اور پھر اس تبدیلی پر نظر کرے گا جو آپؐ کی تعلیم اور تاثیر سے پیدا ہوئی تو اسے بے اختیار آپؐ کی حقانیت کی شہادت دینی پڑے گی‘‘۔ لیکن بعض ایسے اندھے ہوتے ہیں جو اس طرح جائزہ نہیں لیتے یا دیکھتے ہیں تو آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ فرمایا : ’’کہ موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجید نے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے{ یَا کُلُوْنَ کَمَا تَأْکُلُ الْاَنْعَامُ}(محمد :13)یہ تو ان کی کفر کی حالت تھی۔ ‘‘یعنی وہ اس طرح کھاتے ہیں جس طرح جانور کھا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن
’’ پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی یہ حالت ہو گئی کہ{یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا}(الفرقان :65)
یعنی وہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں۔ جو تبدیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے سے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا اس ساری حالت کے نقشہ کو دیکھنے سے بے اختیار ہو کر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کیا۔ دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ یہ نری کہانی نہیں۔ یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 117جدید ایڈیشن- البدر 17؍ جنوری 1907ء صفحہ 11)
پھر آخری بیماری میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدید بخار میں مبتلا تھے اس وقت بھی اگر آپ کو فکر تھی تو صرف نماز کی تھی۔ گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ بتایا گیا کہ لوگ آپؐ کے منتظر ہیں۔ بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایا میرے اوپر پانی کے مشکیزے ڈالو۔ پانی ڈالو۔ تعمیل ارشاد ہوئی۔ حکم پورا کیا گیا۔ پھر غشی طاری ہو گئی۔ پھر ہوش آیا، پھر پوچھا کہ نماز ہو گئی۔ جب پتہ چلا کہ صحابہ ابھی انتظار میں ہیں تو پھر فرمایا مجھ پر پانی ڈالو۔ پھر پانی ڈالا گیا۔ پھر اس طرح پانی ڈالنے سے جب بخار کچھ کم ہوا تو نماز پر جانے لگے۔ مگر پھر کمزوی کی وجہ سے بیہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبیﷺ و وفاتہٖ)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں :جب آپؐ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے۔ اس لئے آپؐ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جب حضرت ابو بکر ؓ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لئے نکلے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپؐ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی آپ اس طرح مسجد کی طرف نکلے کہ د و آدمی آپؐ کو سہارا دے کر لے جا رہے تھے۔ کہتی ہیں کہ میری آنکھوں کے سامنے یہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے اس وقت آپؐ کے قدم زمین سے گھسٹتے جاتے تھے۔ آپؐ کو دیکھ کر حضرت ابوبکر ؓ نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ جائیں۔ اس ارادے کو معلوم کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر ؓ کی طرف اشارہ فرما کر کہا اپنی جگہ پہ کھڑے رہو۔ پھر آپؐ کو وہاں لایا گیا۔ پھر آپؐ ابو بکر ؓ کے ساتھ بیٹھ گئے اور اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنی شروع کی اور آپؐ کی جو حرکت ہوتی تھی اس پر حضرت ابو بکر ؓ تکبیر کہتے تھے۔ اَللّٰہُ اَکْبَر بولتے تھے۔ اور باقی لوگ حضرت ابو بکرؓ کی نماز کی اتباع میں آپؐ کے پیچھے نماز پڑھتے رہے‘‘۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب حد المریض ان یشھد الجماعۃ)
حضرت علی ؓ اور حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت اور آخری پیغام جبکہ آپؐ جان کنی کے عالم میں تھے اور سانس اکھڑ رہا تھا۔ یہ تھا کہ ’’ اَلصَّلوٰۃُ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔‘‘ نماز اور غلام کے حقوق کا خیال رکھنا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب ھل أَوصٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہترین خلاصہ ہے۔ کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے تجویز فرمایا ہزاروں ہزار درود سلام ہوں اس پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجس نے خود بھی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور اپنی امت کو بھی اس کی نصیحت فرمائی۔
اللھم صلّ علی محمد وعلیٰ آل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید۔
حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے بجا طور پر آپؐ کی تعریف میں یہ شعر لکھا ہے کہ ؎
یَبِیْتُ یُجَافِیْ جَنْبَہٗ عَنْ فِرَاشِہٖ
اِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِا لْمُشْرِکِیْنَ الْمَضَاجِعٗ
کہ آپ اس وقت بستر سے الگ ہو کر رات گزار دیتے ہیں جب مشرکوں پر بستر کو چھوڑنا نیند کی و جہ سے بوجھل ہوتا ہے۔ (بخاری کتاب التھجد باب فضل من تعار من اللیل فصلّی۔ حدیث نمبر 1155)
بہرحال ایسے لوگ جو یہ لغویات، فضولیات اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے گزشتہ ہفتے بھی میں نے کہا تھا کہ جماعتوں کو انتظام کرنا چاہئے۔ مجھے خیال آیا کہ ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی کہوں کہ وہ بھی ان چیزوں پہ نظر رکھیں کیونکہ لڑکوں، نوجوانوں کی آج کل انٹرنیٹ اور اخباروں پر توجہ ہوتی ہے، دیکھتے بھی رہتے ہیں اور ان کی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ نظر رکھیں اور جواب دیں۔ اس لئے یہاں خدام الاحمدیہ بھی کم از کم 100ایسے لوگ تلاش کرے جو اچھے پڑھے لکھے ہوں جو دین کا علم رکھتے ہوں۔ اور اسی طرح لجنہ اپنی 100 نوجوان بچیاں تلاش کرکے ٹیم بنائیں جو ایسے مضمون لکھنے والوں کے جواب مختصر خطوط کی صورت میں ان اخبارات کو بھیجیں جن میں ایسے مضمون آتے ہیں یا خطوط آتے ہیں۔ آج کل پھر اخباروں میں مذہبی آزادی کے اوپر ایک بات چیت چل رہی ہے۔ اسی طرح دوسرے ملکوں میں بھی جہاں جہاں یہ اعتراضات ہوتے ہیں۔ وہاں بھی اخباروں میں یا انٹرنیٹ پر خطوط کی صورت میں لکھے جا سکتے ہیں۔ یہ خطوط گو ذیلی تنظیموں کے مرکزی انتظام کے تحت ہوں گے لیکن یہ ایک ٹیم کیEffortنہیں ہو گی بلکہ لوگ اکٹھے کرنے ہیں۔ انفرادی طور پر ہر شخص خط لکھے یعنی 100خدام اگر جواب دیں گے تو اپنے اپنے انداز میں۔ خط کی صورت میں کوئی تاریخی، واقعاتی گواہی دے رہا ہو گا اور کوئی قرآن کی گواہی بیان کرکے جواب دے رہا ہو گا۔ اس طرح کے مختلف قسم کے خط جائیں گے تو اسلام کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تصویر واضح ہو گی۔ ایک حسن ابھرے گا اور لوگوں کو بھی پتہ لگے گا کہ یہ لوگ کس حسن کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے ماند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جو تصور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے مسلمانوں کے پاس دلیل نہیں ہے اس لئے جلد غصے میں آ جاتے ہیں۔ اس کو بھی اس سے رد کرنا ہو گا۔ ہمارے پاس تو اتنی دلیلیں ہیں کہ ان کے پاس اتنی اپنے دفاع کے لئے نہیں ہیں۔ لیکن کیونکہ مسلمان تمام انبیاء کو مانتے ہیں۔ اس لئے انبیاء کے خلاف تو کوئی بات کر نہیں سکتے اور یہ لوگ بے شرم ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کے شر سے پناہ دے۔
خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍فروری 2005 ء بمقام بیت الفتوح۔ مورڈن، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔