آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم۔ عجز وانکسار
خطبہ جمعہ 11؍ مارچ 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا۔ (الفرقان: ۶۴)
پھر فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی اور عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں سلام۔
ان عبادالرحمن میں سے سب سے بڑے عبد رحمن وہ نبیوں کے سردار حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کی قوت قدسی نے عبادالرحمن پیدا کئے۔ تکبر سے رہنے والوں کو عجز کے راستے دکھائے۔ ان کے ذہنوں سے غلام اور آقا اور امیر اور غریب کی تخصیص ختم کر دی۔ یہ سب انقلاب کس طرح آیا۔ یہ اتنی بڑی تبدیلی دلوں میں کس طرح پیدا ہوئی۔ کیا صرف پیغام پہنچانے سے؟ تعلیم دینے سے؟ نہیں، اس کے ساتھ ساتھ خود بھی عبدیت کے اعلیٰ معیار آپؐ نے قائم کئے۔ خود بھی یہ عاجزی اور انکساری کے نمونے دکھا کر اپنے عمل سے ثابت کرکے دکھایا کہ جو کچھ مَیں کہہ رہا ہوں اس کے اعلیٰ معیار بھی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ یہ عاجزی اور انکساری کے نمونے آپؐ نے عمل سے دکھائے کہ یہ میری زندگی کے ہر پہلو میں نظر آئیں گے۔ معاشرے کے غریب اور کمزور طبقے سے بھی میرا یہی سلوک ہے، جاہل اور اجڈ لوگوں سے بھی میرا یہی سلوک ہے، بڑوں سے بھی یہی سلوک ہے اور چھوٹوں سے بھی یہی سلوک ہے۔ اور یہی سلوک ہے جو میری زندگی کے ہر لمحے میں ہر ایک کے ساتھ تمہیں نظر آئے گا۔ اور یہی کچھ دیکھتے ہوئے خداتعالیٰ نے آپؐ کو یہ سند عطا فرمائی کہ{وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ}(القلم:5) یعنی ہم قسم کھاتے ہیں کہ تو اپنی تعلیم اور عمل میں نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی اس قسم نے آپؐ کو عاجزی میں اور بھی بڑھایا۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت حسین بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مجھے میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بندہ پہلے بنایا ہے اور رسول بعد میں۔ (مجمع الزوائد للھیثمی -کتاب علامات النبوۃ -باب فی تواضعہﷺ)
اور حضرت حسینؓ کا یہ جو بیان ہے یہ کسی شخص کے اُس رویّہ پر ہے جس نے آپؐ سے بے انتہا محبت کرکے غیر ضروری طور پر بعض الفاظ آپؐ کے لئے استعمال کر دئیے تھے۔ آپؐ نے فرمایا تم جو میرے لئے الفاظ استعمال کر رہے ہو مجھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات اپنے لئے یاد ہے کہ یہ الفاظ آپ نے اپنے لئے فرمائے تھے کہ مجھے بھی میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو۔ پس یہ ہے عاجزی کی وہ اعلیٰ مثال جو آپؐ نے اپنی اولاد در اولاد میں بھی پیدا کر دی کہ یاد رکھو کہ میں بھی اللہ کا بندہ ہوں یعنی {بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ}(الکہف:111) کی وضاحت فرمائی اور پھر فرمایا کہ پھر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھ پر وحی نازل فرمائی اور اپنا رسول بنایا۔ یہ اعلیٰ درجہ کی ہدایت اور آپ کا جواب آپ کے مقام کو اور بھی بلند کرتا ہے۔ آپ کیونکہ ایک اعلیٰ درجہ کے عبد کامل تھے اس لئے یہ تعلیم دی اور اس پہ بڑا زور دیا کہ مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا۔
اس بارے میں ایک اور روایت میں آتا ہے، حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری بہت زیادہ تعریف نہ کرو جس طرح عیسائی ابن مریم کی کرتے ہیں۔ مَیں صرف اللہ کا بندہ ہوں۔ پس تم صرف مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔ (بخاری- کتاب احادیث الانبیاء۔ باب قول اللہ واذکر فی الکتب مریم…)
تو فرمایا کہ مَیں تو ایک عاجز انسان ہوں، ایک بشر ہوں، اللہ کا بندہ ہوں۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے رسول ہونے کے ناطے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے تم نے میری پیروی کرنی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت مجھ پر اتاری ہے اور یہ کامل اور مکمل تعلیم بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا کے مقام کو بندے کے مقام سے نہ ملاؤ۔ اور عیسائیوں کی طرح نہ کرنا جنہوں نے ایک عاجز انسان کو جو خدا کا نبی تھا اور نبی بھی ایک محدود قوم کے لئے تھا، اس عاجز انسان کو انہوں نے خدا کا بیٹا بنا لیا۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپؐ کی اطاعت خداتعالیٰ کی اطاعت کے برابر ہے لیکن آپ نے امت کو یہی تلقین کی کہ اس سے یہ نہ سمجھنا کہ میرا مقام بندگی سے بڑھ گیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ:
’’ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہو سکتا ہے۔ پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضورؐ کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی اور بار بار {اِنَّمَآاَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ}(الکہف:111) ہی فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ کلمہ ٔ توحید میں اپنی عبودیت کے اقرار کا ایک جزو لازم قرار دیا۔ جس کے بدوں مسلمان، مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ سوچو اور پھر سوچو، پس جس حال میں ہادیٔ اکمل کی طرز زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقام قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 140)
پھر روزمرہ کے معمولات ہیں ان میں بھی امت کی تربیت کے لئے کوئی موقع بھی آپؐ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جس سے آپؐ کے بشر ہونے اور عاجز ہونے کا اظہار نہ ہوتا ہو۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی مگر اس میں کچھ کمی بیشی ہو گئی۔ جب آپؐ نے سلام پھیرا تو عرض کی گئی کہ کیا نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا یہ کیا کہہ رہا ہے؟ تو صحابہ ؓ نے عرض کی کہ آپؐ نے اتنی نماز پڑھائی ہے، کچھ کم یا زیادہ تھی۔ یہ سن کر آپ ؐ قبلہ رخ مڑ گئے اور دو سجدے کئے۔ سجدہ سہو کیا، پھر سلام پھیرا، پھر ہماری طرف چہرہ کرکے فرمایا کہ اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو مَیں تمہیں ضرور بتاتا لیکن مَیں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں۔ مَیں بھی بھولتاہوں جس طرح کہ تم بھولتے ہو۔ پس جب مَیں بھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دیا کرو۔ اور جب تم میں سے کسی کو نماز پڑھتے ہوئے شک گزرے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو چاہئے کہ وہ یقینی بات کو اختیار کرے اور پھر فرمایا کہ سجدہ سہو کر لیا کرو۔ (بخاری -کتاب الصلوٰۃ -باب التوجہ نحوالقبلۃ حیث کان)
پھر حضرت ام سلمہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اپنے جھگڑے لے کر میرے پاس آتے ہو اور مَیں بھی ایک بشر ہوں اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے ایک اپنی دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز ہو اور مَیں جو سنوں اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ پس جس کو مَیں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ ایسی صورت میں اس کو آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔ (بخاری-کتاب الجہاد والسیر- باب حفر الخندق)
باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ آپؐ کامل انسان تھے اور ظاہر ہے کہ کامل انسان کی فراست بھی ایک اعلیٰ درجہ پر پہنچی ہوئی فراست تھی۔ اور اس فراست سے بھی آپؐ جھوٹ اور سچ کا کچھ اندازہ لگا سکتے تھے لیکن ایک بشر ہونے کا احساس آپؐ کواس قدر تھا، فرمایاکہ اگر مجھ سے اپنے حق میں غلط فیصلہ کرواؤ گے تو آگ کا ٹکڑا کھاؤ گے۔
آج کل دیکھ لیں ایک معمولی عقل والا انسان بھی ہو کوئی، اس کو فیصلے کا اختیار دیا جائے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے تمہاری باتوں سے اندازہ ہو گیا ہے۔ اتنی فراست مجھ میں ہے کہ میں سچ اور جھوٹ کو دیکھ لوں۔ لیکن آپؐ کا ایک بڑا محتاط طریقہ تھا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ آپؐ عاجزی اور انکسارکا کس طرح اظہار فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حسن خلق کا مالک نہیں تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صحابہ میں سے یااہل بیت میں سے کسی نے آپؐ کو بلایا ہو اور آپ نے اس کو’ لبیک‘ یا ’حاضر ہوں ‘ کہہ کر جواب نہ دیا ہو۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اسی وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے{وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ}(القلم:5) کہ تو خلق عظیم پر فائز کیا گیا ہے۔ تو دیکھیں بادشاہ ِدو جہان اللہ کا سب سے پیارا، آخری نبی لیکن عاجزی کی یہ انتہا کہ ہر بلانے والے کو ایک عام آدمی کی طرح جواب دے رہے ہیں کہ مَیں حاضر ہوں۔ بلکہ عام آدمی سے بھی بڑھ کر عاجزی دکھاتے ہوئے۔
پھر حضرت ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے دیکھا کہ حضورؐ اپنی سوٹی کو ٹیکتے ہوئے ہماری طرف آ رہے ہیں۔ ہم حضور کو دیکھ کر احتراماً کھڑے ہو گئے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ نہیں بیٹھے رہو اور دیکھو جس انداز میں عجمی ایک دوسرے کے احترام کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تم ایسے نہ کھڑے ہوا کرو۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ مَیں تو اللہ کا صرف ایک بندہ ہوں۔ اس کے دوسرے بندوں کی طرح مَیں بھی کھاتا پیتا ہوں اور انہیں کی طرح اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ (الشفاء لقاضی عیاض – الباب الثانی -الفصل التاسع عشر- باب تواضعہﷺ)
پھر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کی طرف رخ پھیرتے تو پورا رخ پھیرتے۔ نظر ہمیشہ نیچی رہتی۔ یوں لگتا جیسے فضا کی نسبت زمین کی طرف آپؐ کی نظر زیادہ پڑتی ہے۔ آپؐ اکثر نیم وا آنکھوں سے دیکھتے، اپنے صحابہ ؓ کے پیچھے پیچھے چلتے اور جب کبھی خاص جگہوں پہ جانا ہوتا تو ان کا خیال رکھتے۔ ہر ملنے والے کو سلام میں پہل کرتے۔ (شمائل ترمذی باب خَلْقِ رسول اللّٰہﷺ )
اور آپؐ کا یہ صحابہ ؓ کے ساتھ اس طرح گھل مل کر بیٹھنا اور کوئی تخصیص نہ ہونا بعض نئے آنے والوں کومشکل میں ڈال دیتا تھا۔ جو آپؐ کو جانتے نہ تھے ان کے لئے آپؐ کو پہچاننا مشکل ہو جایا کرتا تھا۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر جب مدینہ میں ورود فرما ہوئے تو دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ کی شدت تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سائے میں تشریف فرما ہوئے۔ لوگ جو ق در جوق آنے لگے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جو آپؐ کے ہم عمر ہی تھے۔ اہل مدینہ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے قبل نہ دیکھا تھا۔ لوگ آپؐ کے پاس آنے لگے مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وجہ سے آپؐ کو نہ پہچانتے تھے۔ پہچاننا مشکل ہو گیا۔ تو آپؐ اس قدر عاجزی اور سادگی کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ سب لوگ حضرت ابوبکر ؓ کو ہی سمجھنے لگے کہ وہ ہی نبی ہیں، رسول خدا ہیں۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ محسوس کیا تو کھڑے ہو گئے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کرنے لگے جس سے لوگوں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام – منازل المھاجرین بالمدینۃ – باب قدومہﷺ قباء)
پھر آپؐ کی انتہائی عاجزی کا ایک اور روایت میں یوں ذکر آتا ہے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا: اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم)، اے ہم میں سے سب سے بہترین اور اے ہم میں سے بہترین لوگوں کی اولاد، اور اے ہمارے سردار اور ہمارے سرداروں کی اولاد!۔ آپ نے سنا تو فرمایا کہ دیکھو تم اپنی اصل بات کہو اور شیطان کہیں تمہاری پناہ نہ لے۔ مَیں محمدبن عبداللہ ہوں اور اللہ کا رسول ہوں۔ مَیں نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرا مقام اس سے بڑھا چڑھا کر بتاؤ جو اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔ یہ ساری باتیں جو آنے والے نے کہی تھیں سچ تھیں ایک بھی غلط نہیں تھی لیکن آپؐ کی عاجزی نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس طرح کوئی آپؐ کی تعریف کرے۔ فوراً اسے ٹوک دیا۔ کسی دنیاوی بادشاہ کے دربار میں جائیں بلکہ کسی عام امیر آدمی کے پا س ہی چلے جائیں توجب تک اس کی تعریف نہ کریں وہ آپ کی بات سننا نہیں چاہتا۔ اکثر یہی ہوتا ہے اور وہ بھی جھوٹی تعریفیں ہوتی ہیں، مبالغہ سے پُر ہوتی ہیں۔ لیکن آپؐ کے بارے میں حقیقت بیان کی جا رہی ہے اس کوبھی آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں اس طرح بیان نہ کرو۔ پھر باوجود اس کے کہ آپؐ کو اپنے اعلیٰ مقام کا خوب خوب علم تھا لیکن عاجزی کا اظہار اس سے بڑھ کر تھا۔
حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَیں بنی آدم کا سردار ہوں مگر اس میں کوئی فخر کی بات نہیں اور قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے زمین کو پھاڑا جائے گا۔ مگر اس میں کوئی فخر کی بات نہیں۔ قیامت کے دن مَیں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا۔ اور سب سے پہلا ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ لیکن وَلَافَخْرَ اس میں کوئی فخر کی بات نہیں۔ اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔ لیکن اس میں کوئی فخر نہیں۔ (ابن ماجہ -کتاب الزھد – باب ذکر الشفاعۃ)
پھر سفروں یا جنگوں وغیرہ پر جاتے ہوئے بھی سواریوں کی کمی کی وجہ سے جو سلوک دوسرے قافلے والوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا آپؐ اپنے لئے بھی وہی پسند فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جنگ بدرکے موقع پر جب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے تشریف لے گئے تو صرف ستّر سواریاں تھیں اور تمام صحابہ ان پر سوار نہ ہو سکتے تھے چنانچہ تین تین اور چار چار صحابہ باری باری ایک ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی کوئی الگ اونٹ نہ تھا۔ آپؐ اور حضرت علی ؓ اور مرثد بن ابی مرثد، ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام – غزوۃ بدر الکبریٰ عدد ابل المسلمین)
اور باوجود اصرار کے بھی آپؐ نہیں مانا کرتے تھے کہ نہیں اسی طرح باری کے حساب سے ہم بیٹھیں گے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے عبداللہؓ بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ آپؐ کے لئے کپڑے کا سایہ کیا گیا۔ جب آپ نے سایہ دیکھا اور سر اوپر اٹھایا اور دیکھا آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کو کپڑے سے سایہ کیا جا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا رہنے دو۔ کپڑا لے کر رکھ دیا اور فرمانے لگے مَیں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں۔ (مجمع الزوائد للھیثمی کتاب علامات النبوۃ باب فی تواضعہﷺ)
پھر ایک روایت میں ایک سفر کا حال یوں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ سفر پر تھے۔ راستہ میں کھانا تیار کرنے کا وقت آیا تو ہر ایک نے اپنے اپنے ذمے کچھ کام لئے۔ کسی نے بکری ذبح کرنے کا کام لیا تو کسی نے کھال اتارنے کا، اور کسی نے اسے پکانے کی ذمہ داری لی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کرکے لاؤں گا۔ صحابہ نے عرض کیا حضور! ہم کام کرنے کے لئے کافی ہیں۔ آپؐ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا مَیں جانتا ہوں لیکن مَیں امتیاز پسند نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کو ناپسند کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں میں امتیازی شان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہو۔
پھر باوجود اس کے کہ بعض کاموں کے لئے کارندے مقرر کئے ہوئے تھے لیکن آپ کے پاس وقت ہوتا تھا تو وہ کام خود بھی کر لیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے۔ عبداللہ بن طلحہ ؓ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ مجھ سے انس بن مالک ؓ نے کہا کہ صبح کے وقت میں ابو طلحہ کے ساتھ اس کے نومولود بیٹے کو گھٹی دلوانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ مَیں نے دیکھا کہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اونٹ داغنے کا آلہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے اونٹوں کو نشان لگارہے تھے۔ جو زکوٰۃ میں بیت المال کے پاس اونٹ آئے تھے ان کو نشان لگا رہے تھے۔ (بخاری -کتاب الزکاۃ -باب وسم الامام ابل الصدقۃ)
آپ اس انتظار میں نہیں رہے کہ بیت المال کے اونٹ ہیں جن لوگوں کے سپرد یہ کام کیا ہوا ہے وہ خود آ کر یہ کام کر لیں گے۔ بلکہ جب دیکھا کہ وقت ہے تو ایک عام کارکن کی طرح خود ہی یہ کام سر انجام دینے لگے۔
پھر گھر کے کام کاج بھی آپ ایک عام آدمی کی طرح کیا کرتے تھے۔ پہلے بھی ذکر آ چکا ہے اور یہی آپ فرماتے تھے کہ مَیں تو محض ایک انسان ہوں اور عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا ہوں اور اٹھتا بیٹھتا ہوں اور اس لئے مَیں کام بھی کرتا ہوں۔ پھر ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں، اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مدد فرماتے تھے۔ آپؐ کپڑے خود دھو لیتے تھے۔ گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے تھے۔ خود اونٹ کو باندھتے تھے۔ اپنے پانی لانے والے جانور اونٹ وغیرہ کو خود چارہ ڈالتے تھے۔ بکری خود دوہتے تھے، اپنے ذاتی کام بھی خود کر لیتے تھے۔ خادم سے کوئی کام لیتے تو اس میں اس کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے۔ حتیٰ کہ اس کے ساتھ مل کر آٹا بھی گوندھ لیتے۔ بازار سے اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے۔ (تلخیص از مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 121 و اسد الغابۃ ذکر محمد ؐ ذکر جمل من اخلاقہ ومعجزاتہﷺ، مشکوٰۃ المصابیح -کتاب الفضائل – باب فی اخلاقہ وشمائلہﷺ)
اب جو گھر میں کام ہو رہے ہیں وہ تو کسی کو باہر نظر نہیں آ رہے لیکن بازار سے جب سامان لا رہے ہیں کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھا کہ خود اپنی چیزیں بازار سے اٹھا کر لاؤں گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ یہ اس معاشرے میں جہاں بڑائی کا بہت زیادہ اظہار ہوتا تھا اس معاشرے میں یہ ایک عجیب چیز تھی۔ کبھی بھی آپؐ کو اس جھوٹی عزت کی پرواہ نہیں تھی۔
پھر حضرت ابو مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مخاطب ہوئے تو وہ تھر تھر کانپنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اپنے آپ کو سنبھالومَیں کوئی بادشاہ نہیں بلکہ ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔ (ابن ماجہ -کتاب الأطعمۃ – باب القدید)
تو اپنی عاجزی کا اظہار فرمایا۔ آپؐ کو یہ برداشت نہ تھا کہ کوئی آپؐ کو ایک عام انسان سے زیادہ سمجھے۔ یہ تو دنیاداروں کی نشانی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عام انسانوں سے بڑا سمجھتے ہیں اور یہ ذہنیت اس تکبر کی وجہ سے ہوتی ہے جو ایک دنیا دار کے ذہن میں ہوتا ہے اور آپؐ جو عاجزی کے اعلیٰ ترین خلق پر قائم تھے کس طرح برداشت کر سکتے تھے کہ کوئی آپؐ سے اس طرح خوفزدہ ہو جس طرح متکبر بادشاہ سے لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعے کا یوں ذکر فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
’’ دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیاں اگرچہ ایسی تھیں کہ تمام انبیائے سابقین میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر آپؐ کو خداتعالیٰ نے جیسی جیسی کامیابیاں عطا کیں آپؐ اتنی ہی فروتنی اختیار کرتے گئے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص آپؐ کے حضور پکڑکر لایا گیا۔ آپؐ نے دیکھا تو وہ بہت کانپتا تھا اور خوف کھاتا تھا۔ مگر جب وہ قریب آیا تو آپؐ نے نہایت نرمی اور لطف سے دریافت فرمایا کہ تم ایسے ڈرتے کیوں ہو؟ آخر میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں اور ایک بڑھیا کا فرزند ہوں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 548 جدید ایڈیشن- الحکم مورخہ 30`26اگست 1908ء صفحہ 3)
پھر معاشرے کے دھتکارے ہوئے طبقے، غریب لوگ بلکہ ذہنی طور پر کمزور لوگوں کے لئے بھی آپؐ انتہائی عاجزی سے ان کا خیال کیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آیا کرتے تھے۔
چنانچہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا، حضورؐ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ مجھے آپؐ سے کچھ کام ہے۔ لیکن آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان لوگوں کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتی میرے ساتھ آ کر علیحدگی میں سنیں۔ حضورؐ نے اس کی بات سن کر فرمایا کہ اے فلاں ! تو مدینہ کے راستوں میں سے جس راستے پر تو چاہے میں وہاں تیرے ساتھ جاؤں گا۔ وہاں بیٹھ کر تیری بات سنوں گا اور جب تک تیری بات سن کر تیری ضرورت پوری نہ کر دوں وہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ حضور ؐ کی بات سن کر وہ حضورؐ کو ایک راستہ پر لے گئی۔ وہاں جا کر بیٹھ گئی۔ حضور بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جب تک اس کی بات سن کر اس کا کام نہ کر دیا حضور وہیں بیٹھے رہے۔ (مسلم -کتاب الفضائل -باب قربۃ من الناس…)
اب یہ نہیں کہ بے عقل ہے، غریب ہے، چھوڑ دیا بلکہ اس سے بھی انتہائی عاجزی سے پیش آئے۔
پھر ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ: ’’خالی شیخیوں سے اور بے جا تکبر اور بڑائی سے پرہیز کرنا چاہئے اور انکساری اور تواضع اختیار کرنی چاہئے۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ حقیقتاً سب سے بڑے اور مستحق بزرگی تھے ان کے انکسار اور تواضع کا ایک نمونہ قرآن شریف میں موجود ہے۔ لکھا ہے کہ ایک اندھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر قرآن شریف پڑھا کرتا تھا۔ ایک دن آپؐ کے پاس عمائد مکہ اور رؤسائے شہر جمع تھے اور آپؐ ان سے گفتگو میں مشغول تھے۔ باتوں میں مصروفیت کی وجہ سے کچھ دیر ہو جانے سے وہ نابینا اٹھ کر چلا گیا۔ یہ ایک معمولی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق سورۃ نازل فرما دی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں گئے اور اسے ساتھ لا کر اپنی چادر مبارک بچھا کر بٹھایا۔ اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں عظمت الٰہی ہوتی ہے ان کو لازماً خاکسار اور متواضع بننا ہی پڑتا ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کی بے نیازی سے ہمیشہ تر ساں و لرزاں رہتے ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 612-611جدید ایڈیشن- الحکم مورخہ 18؍ مئی 1908ء صفحہ 1تا 14)
پھر دیکھیں اس عاجزی کا ایک اور اعلیٰ نمونہ۔ آپ ؐ جن کے منہ سے نکلے ہوئے ہر کلمے کو خداتعالیٰ قبولیت کا شرف بخشتا تھا یہاں تک کہ آپؐ کو یہ دعا بھی کرنی پڑی کہ یااللہ! بعض دفعہ میں کسی کو مذاق میں یا ویسے ہی کوئی بات کہہ دیتا ہوں تو کہیں اس کی وجہ سے اس کو پکڑ میں نہ لے لینا بلکہ اس کے بد اثر سے اس کو محفوظ رکھنا۔ جس ہستی کا یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ میری اتنی سنتا ہے کہ عام کہی ہوئی بات سے بھی کوئی پکڑ میں نہ آ جائے تو اس کے باوجود وہ اپنے لئے کسی دوسرے کو دعا کے لئے کہے تو یہ عاجزی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمرؓ نے عمرہ پر جانے کے لئے اجازت چاہی توآپ نے اجازت دیدی اور کمال انکسار سے فرمایا کہ اے میرے بھائی ! ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس بات سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا بھی مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (ابوداؤد -کتاب الوتر- باب الدعاء)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خوشی یقینا اس بات سے بھی ہوئی ہو گی اور یقین ہو گا کہ آپؐ کے یہ فرمانے کے بعد میری دوسری بھی تمام دعائیں قبول ہو جائیں گی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کی دعاؤں کی قبولیت کی بھی یقینا دعا کی ہو گی۔
پھر دیکھیں عاجزی کی انتہا ہے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تمام انبیاء پر فضیلت دی۔ آپ کو خاتم النبییّن فرمایا ہے۔ تمام امتوں کی فلاح آپؐ کے ہاتھ پر اکٹھا ہونے میں رکھی ہے۔ لیکن جب ایک مسلمان اور یہودی کی لڑائی ہوتی ہے تو آپ مسلمان کو نصیحت کرتے ہیں، سرزنش کرتے ہیں۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی اور مسلمان کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ مسلمان نے کہا اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی اور چن لیا۔ اس پر یہودی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی اور چن لیا۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ دے مارا۔ یہودی شکایت لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور تمام واقعہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کیا۔ آپؐ نے اس مسلمان کو بلا کر اس واقعہ کے بارے میں پوچھا اور تفصیل سن کر اس مسلمان پر ناراض ہوئے اور فرمایا لَا تُخَیِّرُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی مجھے موسیٰ ؑ پر فضیلت نہ دو۔ (بخاری -کتاب الخصومات -باب ما یذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیہود)
پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے خوف اور عاجزی کی ایک اور مثال۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی(اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہ پائے گا)۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپؐ بھی؟ فرمایا: ہاں مَیں بھی اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پاؤں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لے گا۔ (یعنی اس کی رحمت کے نتیجہ میں مجھے نجات ملے گی)۔ پس تم سیدھے رہو اور (شریعت کے) قریب رہو اور صبح و شام اور رات کے اوقات میں (عبادت کے لئے) نکلو اور میانہ روی اختیار کرو اور میانہ روی اختیار کرو تو تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے‘‘۔ (بخاری -کتاب الرقاق -باب القصد والمداومۃ علی العمل)
دیکھیں جس نبی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اس نبی کی بیعت بھی خداتعالیٰ کی بیعت ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ میرے سے وہ کام ہو ہی نہیں سکتے جو خداتعالیٰ کی رضا کے خلاف ہوں بلکہ اپنی بشریت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فرما رہے ہیں کہ مجھے بھی اپنے اعمال کی وجہ سے کچھ نہیں ملے گا بلکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کی وجہ سے ملے گا۔
ایک اور موقع پر اپنے عزیزوں کو اور اپنی بیٹی فاطمہ کو کہا کہ تم لوگ یہ نہ سمجھنا کہ میرے ساتھ تعلق، میرے ساتھ پیار یا محبت یا میرا تم سے پیار یا محبت تمہیں بخش دے گا، تمہاری بخشش کے سامان پیدا کر دے گا۔ فرمایا کہ بلکہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ یہ کبھی نہ سمجھنا کہ خداتعالیٰ تم سے اس لئے درگزر فرمائے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو(فاطمہؓ کو فرمایا تھا)۔ باوجود اس کے کہ آپؐ کو شفاعت کا حق دیا گیا تھا۔ آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے فاطمہ! میری لاڈلی بیٹی تیرے تھوڑے عمل بھی ہوں گے تو مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور تیری شفاعت کروں گا تو بخش دی جائے گی۔ فرمایامیری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پس اس کا فضل اور رحم ہر وقت مانگنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ مجھے بھی اس کے رحم کی چادر نے ہی لپیٹنا ہے۔
پھر دیکھیں عاجزی کا وہ نظارہ جہاں اگر کوئی اور ہو تو فخر سے سر اونچا ہو اور چہرے سے رعونت ٹپکتی ہو، تکبر ہو۔ فتح حاصل کر لینے کے بعد دشمن کے بچوں اور بوڑھوں کو بھی چیونٹیوں کی طرح کچل دیا جاتا ہے لیکن جس شان اور طاقت سے آپؐ نے مکہ فتح کیا اس وقت آپؐ کے دل کی جو کیفیت تھی اس کا اظہار بھی بے اختیار آپؐ کے عمل سے ہو گیا۔ اس عمل کا نقشہ تاریخ نے یوں کھینچا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے وہ دن آپ کے لئے بہت خوشی اور مسرت اور عظمت کے اظہار کا دن تھا۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے ان فضلوں کے اظہار پر خدا کی راہ میں بچھے جاتے تھے۔ خدا نے جتنا بلند کیا آپ انکساری میں اور بڑھتے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپؐ کا سر جھکتے جھکتے اونٹ کے کجاوے سے جا لگا۔ جس کجاوہ پر بیٹھے ہوئے تھے اس کے آگے ابھرے ہوئے حصے سے جا لگا اور اللہ تعالیٰ کے نشانوں پر اس کی حمدوثنا میں مشغول تھے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام – ذکر فتح مکۃ – باب وصول النبی ؐ الیٰ ذی طوٰی)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں :
’’ عُلُوّ جو خداتعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے‘‘ یعنی بلندی اور اعلیٰ مقام’’ وہ انکسار کے رنگ میں ہوتا ہے۔ اور شیطان کا عُلُوّ استکبار سے ملا ہوا تھا‘‘ یعنی شیطان کی بلندی تکبر میں ہوتی ہے۔ ’’ دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکّہ کو فتح کیا تو آپؐ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح ان مصائب او رمشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکّہ میں آپؐ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیاجاتا تھا جب آپ ؐ نے دیکھا کہ میں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیا ہوں تو آپؐ کا دل خدا کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے سجدہ کیا‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 404حاشیہ جدید ایڈیشن- الحکم 31؍ اکتوبر 1902ء صفحہ 7)
پس یہ ہے عاجزی کی وہ اعلیٰ ترین مثال جو طاقت و فتح حاصل کر لینے کے بعد آپؐ نے دکھائی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی آپؐ کی اس عاجزی کو کس طرح انعامات سے نوازا۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اسرافیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس تواضع کی بدولت جو آپؐ نے اس کے لئے اختیار کی یہ انعام عطا کیا ہے کہ آپؐ قیامت کے روز تمام بنی آدم کے سردار ہوں گے۔ سب سے اول حشر بھی آپؐ کا ہو گا۔ سب سے پہلے شفیع بھی آپؐ ہوں گے۔ (کتاب الشفاء للقاضی عیاض- الباب الثانی- الفصل التاسع عشر -تواضعہﷺ)
حجۃ الوداع کے موقع پر جو آپؐ نے دعا کی اس کے الفاظ یہ تھے۔ اے اللہ! تو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے۔ میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے خوب واقف ہے۔ میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں ہے مَیں ایک بدحال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں۔ تیری مدد اور پناہ کا طالب ہوں، سہما اور ڈرایا ہوا، اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس چلا آیا ہوں۔ مَیں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں۔ ہاں تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگار کی طرح زاری کرتا ہوں۔ ایک اندھے نابینے کی طرح ٹھوکروں سے خوفزدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں۔ میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں۔ میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلود ہے۔ اے اللہ تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بدبخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا۔ اے وہ جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا ہے اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے۔ (مجمع الزوائدللھیثمی – کتاب الحج – باب فی العرفۃ والوقوف بھا)
دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتنی تسلیاں اور انعامات ملنے کے باوجود قرآن کریم میں کئی جگہ ان کا ذکر ہے۔ اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھا کہ مَیں ہوں تو اللہ کا ایک بندہ ہی۔ ہوں تو ایک بشر ہی اس لئے آخر تک اس عاجزی کے ساتھ اپنے خدا سے اس کا رحم اور فضل مانگتے رہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ خدا کی رضا میں فانی لوگ نہیں چاہتے کہ ان کو کوئی درجہ اور امامت دی جاوے۔ وہ ان درجات کی نسبت گوشہ نشینی اور تنہا عبادت کے مزے لینے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مگر ان کو خداتعالیٰ کشاں کشاں خلق کی بہتری کے لئے ظاہرکرتا اور مبعوث فرماتا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو غار میں ہی رہا کرتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کسی کو پتہ بھی ہو۔ آخر خدانے ان کو باہر نکالا اور دنیا کی ہدایت کا بار ان کے سپرد کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہزاروں شاعر آتے اور آپؐ کی تعریف میں شعر کہتے تھے مگر لعنتی ہے وہ دل جو خیال کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعریفوں سے پھولتے تھے۔ وہ ان کو مردہ کیڑے کی طرح خیال کرتے تھے۔ مدح وہی ہوتی ہے جو خدا آسمان سے کرے۔ یہ لوگ محبت ذاتی میں غرق ہوتے ہیں۔ ان کو دنیاکی مدح و ثنا کی پروا نہیں ہوتی۔ تو یہ مقام ایسا ہوتا ہے کہ خدا آسمان اور عرش سے ان کی تعریف اور مدح کرتا ہے۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 187 جدید ایڈیشن- الحکم مورخہ 31؍ مارچ 1903ء صفحہ7کالم 3)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍ مارچ 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن، لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔