آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم۔جود و سخا
خطبہ جمعہ 18؍ مارچ 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
عام طور پر دنیا میں ایک دنیادار انسان دولت کی خواہش کرتا ہے، دولت جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ دنیاداروں میں اپنا ایک مقام بنائے۔ اپنی دولت سے دوسروں کو مرعوب کرے۔ اپنے لئے آرام و آسائش کے سامان مہیا کرے۔ اپنے لئے آرام دہ رہائش اور آرام دہ سواریوں کا انتظام کرے۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے دولت کے انبار چھوڑ کر جائے تاکہ وہ بھی اس کے بعد آسائش کی زندگی گزار سکیں۔ اور اس میں بھی ایک چھپی ہوئی خواہش ہوتی ہے کہ میرے مرنے کے بعد لوگ یہی کہیں گے کہ فلاں امیر آدمی مرنے کے بعداتنی دولت چھوڑ کر مرا۔ اور اس کی اولاد اتنی دولت میں کھیل رہی ہے۔ یہ تو ہیں ظاہری دنیاداروں کی باتیں۔ ہر ایک کو نظر آرہے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنے خیال میں انسانیت کے ہمدرد اور غمخوار ہوتے ہیں، جو انسانی ضرورتوں کے پورا کرنے کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے عمل بھی ان دنیاداروں سے کوئی مختلف نہیں ہو رہے ہوتے، صرف ظاہری نعرے اور دعوے ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ کبھی بھی اپنے مفاد کی قربانی کرتا ہوا ان میں سے کوئی بھی نظر نہیں آئے گا۔ لیکن دولت کے ملنے پر اور پھر اس کے خرچ کرنے کے جو طریقے ہیں اس بارے میں جو اُسوہ ٔحسنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے قائم فرمایا ہے اس کی مثالیں آپؐ کی زندگی کا ہی حصہ ہیں۔ یہ تو بعض دفعہ ہو جاتا ہے کہ دنیا کے دکھاوے کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا لوگ ہمدردی کا اظہار کرر ہے ہوتے ہیں اور اس کی خاطر پھر بعض لوگ اپنی طرف سے سخاوت کا اظہار بھی کر دیتے ہیں، لوگوں کے لئے خرچ بھی کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ وقتی جذبہ ہوتا ہے۔ لیکن صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور لوگوں کی تکلیفوں کو دور کرنے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ان کا احساس کرتے ہوئے یہ جودوسخا کے نظارے ہمیں صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نظر آئیں گے۔ یہ معیار نہ کبھی اس سے پہلے قائم ہوئے اور نہ قائم ہوں گے۔ بہرحال ایک اسوہ حسنہ ہے جو آپ نے ہمارے لئے قائم فرمایا۔ جہاں آپؐ رات دن اس فکرمیں رہتے تھے کہ لوگ ایک خدا کو پہچانیں، روحانیت میں ترقی کریں۔ وہاں اپنی آسائش اور اپنے آرام کی فکر نہیں تھی بلکہ ایک یہ بھی فکر تھی کہ لوگوں کی ضروریات کس طرح پوری ہوں۔ اپنے بیوی بچوں کے آرام و آسائش کی کوئی فکر نہیں تھی بلکہ ان کو بھی یہ تعلیم تھی اور یہی تربیت کی کہ دوسروں کے لئے اپنے ہاتھ کو کھولو اور اپنے دل کو کھولو۔ اور ان کو خود یہی تلقین تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے پر زیادہ زور دو، بجائے اس کے کہ مال جمع کرنے اور اکٹھا کرنے پر زورہو، اپنی آرام و آسائش پر زور ہو کیونکہ یہی چیز ہے جو آخری زندگی میں تمہارے کام آئے گی۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ جُود وسخا، لوگوں کی خاطر خرچ کرنا، قربانی کرکے خرچ کرنا یہ بھی آپؐ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی میں کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کے لئے کرتے تھے۔ آپؐ ہی کی ذات ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے اعلیٰ معیار جو کسی انسان میں ہو سکتے ہیں نظر آتے ہیں۔ پس اس جودوسخا کے نمونے بھی خداتعالیٰ کی ذات کے بعد اگر کسی انسان میں نظر آسکتے ہیں تووہ اسی انسان کامل کی ذات ہے۔ آپؐ کو پتہ تھا کہ خداتعالیٰ کی صفات کا سب سے بڑ امظہرمَیں ہوں۔ اور یہ جودوسخا بھی(یہ بھی ایک خُلق ہے، کوئی اس سے باہر نہیں ) چنانچہ آپؐ نے خود فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمام سخاوت کرنے والوں سے بڑھ کر سخاوت کرنیوالا ہے۔ اور پھر مَیں تمام انسانوں میں سے سب سے بڑا سخی ہوں۔ (مجمع الزوائد للھیثمی، کتاب علاماۃ النبوۃ باب فی جودہٖﷺ)
اب یہ کوئی زبانی دعویٰ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ مَیں چند مثالیں پیش کروں گا اس سے ثابت ہو گا کہ آپؐ سے بڑھ کر حقیقت میں دنیا میں کوئی سخی پیدا نہیں ہوا۔ آپؐ کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ دولت خداتعالیٰ نے مجھے دی ہے، مجھے اپنے آرام کے لئے اسے رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع پیدا کئے جب آپؐ کے پا س دولت کے انبار لگ گئے۔ لیکن آپؐ نے کبھی ان کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا بلکہ فوری طور پر لوگوں میں تقسیم کرنے کی فکر ہوتی تھی۔
چنانچہ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَیُعْطِی اللّٰہُ ‘‘ کہ میں تو صرف قاسم ہوں۔ خداتعالیٰ دیتا ہے اور مَیں تقسیم کر دیتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الأعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبیﷺ لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق…)
ان تقسیم کرنے کے نظاروں کی تصویر کشی مختلف روایات میں ہوئی ہے صحابہ نے اپنے اپنے رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جودوسخا کے واقعات کو بیان فرمایاہے۔ ان روایات کو بھی پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ صحابہ اس سے بھی زیادہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن الفاظ ساتھ نہیں دیتے تھے۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ کَانَ النبیﷺ اَحْسَنَ النَّاسِ وَاَجْوَدَالنَّاسِ‘‘ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں میں سے حسین ترین اور سب انسانوں میں سے زیادہ سخی اور سب سے بہادر تھے۔ (بخاری – کتاب الادب باب حسن الخلق والسخاء …)
پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر، معزز، سخی اور نورانی وجود کسی کو نہیں دیکھا۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد جلد اوّل ذکر صفۃ اخلاق رسول اللہﷺ)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور آپؐ کی سخاوت رمضان کے مہینے میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ جاتی تھی۔ جب جبرئیل آپؐ سے ملاقات کرتے تھے اس وقت آپ کی سخاوت اپنی شدت میں تیز آندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ (بخاری – کتاب الصوم – باب أجود ما کان النبیﷺ یکون فی رمضان)
آپ کی سخاوت کا عمومی رنگ بھی ایسا تھا کہ جس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ مَیں آگے بعض روایات سے پیش کروں گا۔ لیکن صحابہ کہتے ہیں کہ رمضان میں تو اس سخاوت کارنگ ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ یہ کبھی عام حالات میں بھی نہیں ہوا کہ کبھی کسی نے مانگا ہو اور آپؐ نے نہ دیا ہو۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا ہو اور آپؐ نے نہ کہا ہو۔ اگر ہوتا تو عطا فرما دیتے ورنہ خاموش رہتے، یا اس کے لئے دعا کر دیتے۔ (شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی الفصل الثانی قیما اکرمہ اللہ تعالی بہ من الاخلاق الزکیۃ)
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ بعض انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپؐ نے مزید عطا فرمایا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپؐ نے کچھ اور عطا فرمایا یہاں تک کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے پاس جو مال ہوتا ہے اسے تم سے روک کر نہیں رکھتا۔ (بخاری -کتاب الز کاۃ – باب الأستعفاف عن المسألۃ)
پھر ایک روایت میں حضرت سھلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک د فعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لباس کی ضرورت محسوس کرکے ایک صحابیہ نے ایک خوبصورت چادر کڑھائی کرکے آپؐ کی خدمت میں پیش کی۔ اور عرض کی کہ یہ میں نے آپؐ کے لئے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے تاکہ آپ ؐ اس کو استعمال فرمائیں۔ (کیونکہ آپؐ سب کچھ دے دیا کرتے تھے، اپنے لئے نہیں رکھتے تھے)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ آپ ؐ اندر گئے اور وہ چادر پہنی اور باہر تشریف لائے تو ایک صحابی نے کہا کیا عمدہ چادر ہے یہ مجھے پہنا دیجئے۔ اس پر لوگوں نے اس کو کہا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پہن لیا ہے اور آپ ؐ کو اس کی ضرورت بھی ہے تو تم نے پھر یہ چادر کیوں مانگ لی۔ حالانکہ تم یہ بھی جانتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی انکار نہیں کیا۔ اس پر اس نے کہا کہ یہ مَیں نے پہننے کے لئے نہیں مانگی، مَیں نے تویہ اپنے کفن کے لئے مانگی ہے۔ (بخاری -کتاب الجنائز – باب من استعد الکفن فی زمن النبیﷺ)
ایک روایت میں آتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نوّے ہزار درہم پیش کئے گئے۔ آپؐ نے انہیں ایک چٹائی پر رکھوا لیا اور تقسیم فرمانے لگے۔ ہر آنے والے سوالی کو عطا فرماتے تھے اور کسی کو بھی خالی ہاتھ نہ جانے دیتے۔ جب آپؐ سارے درہم تقسیم فرما چکے تو ایک اور سوالی آ گیا۔ اس وقت تک ختم ہو چکے تھے تو آپؐ نے فرمایا تم ہمارے نام پر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لو اور جب کہیں سے مال آئے گا یا میرے پاس گنجائش ہو گی تو مَیں تمہارا قرض اتار دوں گا۔ تو اس موقع پر وہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) جس کام کی استطاعت نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ضروری قرار نہیں دیا۔ یعنی جب آپ کے پاس نہیں ہے تو انکار کر دیں۔ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا بڑا برا منایا۔ آپ ؐ کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ وہاں ایک انصاری بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپؐ خرچ کرتے چلے جائیں اللہ آپ کو کبھی بھی مال کی کمی نہیں ہونے دے گا۔ یہ سن کر آپ ؐ مسکرائے اور آپؐ کے چہرے پر خوشی کے آثار جھلکنے لگے۔ اور فرمایا مجھے یہی حکم ملا ہوا ہے۔ (الشفاء لقاضی عیاض الباب الثانی الفصل الثالث عشر۔ الجود والکرم)
اور آپؐ کی اسی سخاوت کی وجہ سے آپؐ پر قرض بھی ہو جاتا تھا۔ لیکن کبھی اس کی پرواہ نہیں کی۔
چنانچہ اس قرض کا ایک روایت میں ذکر آتا ہے کہ عبداللہ الھوزنی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حلب میں ملا اور نبی کریمﷺ کے آمد و خرچ کی بابت سوال کیا کہ کس طرح آمدہوتی تھی، کس طرح خرچ ہوتا تھا؟ تو بلال ؓ کہنے لگے کہ آنحضورﷺ کی وفات تک یہ سارا انتظام، آمد و خرچ کا حساب کتاب، یہ میرے سپرد ہی ہوتا تھا۔ اور اس طرح ہوتا تھا کہ جب بھی کوئی مسلمان کپڑوں سے عاری ہے یا کوئی ضرورت مند ہے اور آپؐ کے پاس آتا تو آپؐ مجھے حکم فرماتے اور مَیں اس کو کپڑا خرید دیتا یا اس کی ضرورت پوری کر دیتا۔ کھانے کی ضرورت ہوتی یا کوئی اور جو بھی انتظام ہوتا۔ اور حضرت بلال ؓ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ رقم نہیں ہوتی تھی اس کے لئے اگر مجھے قرض بھی لینا ہوتا تھا تو میں لے لیاکرتا تھا۔ تو ایک دن ایک مالدار مشرک مجھے ملا اور کہنے لگا کہ اے بلال! مَیں صاحب استطاعت ہوں ! مجھے توفیق ہے تم کسی اور سے کیوں قرض لیتے ہو، جب ضرورت ہو مجھ سے لے لیا کرو۔ تو کہتے ہیں مَیں اس سے قرض لینے لگ گیا۔ تو ایک روز میں وضو کر رہا تھا کہ وہی شخص کچھ اور تاجروں کے ہجوم میں میرے پاس آیا اور مجھے دیکھتے ہی بڑی رعونت سے کہنے لگا کہ اے حبشی! تمہیں علم ہے کہ میرا قرض چکانے کے دن قریب آ گئے ہیں، چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ تومَیں نے کہا ہاں مجھے پتہ ہے۔ بہرحال اس نے بڑے سخت الفاظ میں کہا کہ میں ان دنوں کے اندر اندر اپنا قرض واپس لے کے رہوں گا ورنہ تم میری نوکری کرو گے اور میری بکریاں چراؤ گے اور میری غلامی میں آ جاؤ گے۔ تو بہرحال بلال کہتے ہیں کہ میرے دل پر اس بات کا بڑا اثر ہوا۔ اس کی یہ باتیں مجھے بڑی بری لگیں۔ عشاء کی نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ فلاں مشرک سے اتنا قرض لیا تھا، لوگوں کی ادائیگیوں اور ضرورتیں پوری کرنے کے لئے، اب آج اس نے مجھے قرض کی ادائیگی کے لئے بڑا سخت برا بھلا کہا ہے۔ ابھی کچھ دن رہتے ہیں۔ اور حالت یہ ہے کہ نہ آپ کے پاس کچھ ہے اور نہ میرے پاس ہے کہ قرض کی ادائیگی کا کچھ انتظام کر سکیں۔ تومیرے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ میں کچھ دنوں کے لئے جب تک ادائیگی کا انتظام نہیں ہو جاتا کسی مسلمان قبیلہ کی طرف چلا جاتا ہوں۔ تو کہتے ہیں کہ مَیں یہ کہہ کر اپنے گھر آ گیا اور تیاری کرنے لگا۔ جوتی اور ڈھال وغیرہ اپنے سرہانے رکھ لی کہ صبح صبح سفر شروع کر دوں گا۔ تو کہتے ہیں کہ جب صبح جانے کے لئے تیار تھا تو ایک شخص میرے پاس آیا اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بلا رہے ہیں۔ میں حضورؐ کے پاس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار اونٹ سامان سے لدے پھندے بیٹھے ہیں اور ان پر مال لدا ہوا تھا۔ تو جب میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اجازت چاہی۔ آپؐ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا کہ اے بلال! خوش ہو جا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے قرض کی ادائیگی کا سامان کر دیا ہے۔ اور پھر فرمایاکہ کیا تم نے چار اونٹ نہیں دیکھے؟یہ جو سامان سے لدے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا ہاں جی دیکھے ہیں۔ فرمایا کہ سارا سامان لے لو اور سب قرضے اتار دو۔ یہ فدک کے رئیس نے تحفۃً بھجوائے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا۔ واپس آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ فرمانے لگے کہ بلال جو تیرے پاس تھا اس کا کیا بنا۔ تو کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جو آپ پر تھا وہ سارا قرض اتار دیا اور اب کوئی قرض باقی نہیں رہا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کوئی مال بچا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بچ گیا اس کو بھی ضرورت مندوں کو دے دو اور میری تسلی اور راحت کا سامان کرو۔ جب تک اس میں سے کچھ بھی موجود ہے میں گھر نہیں جاؤں گا۔ جب نماز عشاء ہو گئی تو کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بنا؟مَیں نے عرض کیا کہ مال پڑا ہوا ہے کوئی لینے ہی نہیں آیا۔ تو حضورؐ نے وہ رات مسجد میں گزاری۔ اور جب دوسرے دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا کی تو پھر پوچھا کہ بلال مال کا کیا بنا۔ تو میں نے عرض کی یارسول اللہؐ ! اللہ نے آپؐ کو اس مال سے بے فکر کر دیاہے‘‘۔ یعنی سب تقسیم ہو گیا ہے۔ ’’ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللّٰہ اکبر کہا اور اس کا شکر ادا کیا‘‘ کہ سب مال تقسیم ہو گیا ہے۔ (سنن ابی داؤد – کتاب الخراج – باب فی الامام یقبل ھدایا المشرکین)
اب دیکھیں آپ ؐ لوگوں کے لئے کوئی معمولی قرض نہیں لے رہے۔ بلکہ وہ اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ اس کی ادائیگی کے لئے بھی اونٹوں پہ جو مال لدکے آیا ہے اس سے ادائیگی ہو رہی ہے۔ اور پھر جب اس میں سے کچھ بچ گیا تو پھر یہ خیال نہیں آیا کہ بچ گیا ہے اس کو رکھ لیا جائے۔ آئندہ جب کوئی آئے گا تودے دیں گے یا اپنی ضرورتوں کے لئے استعمال ہو جائے گا۔ نہیں، بلکہ فرمایا کہ مَیں اس وقت تک گھر نہیں جاؤں گا جب تک جو مال بھی پڑا ہے تقسیم نہ ہوجائے۔ ضرورت مند تلاش کرو اور ان میں تقسیم کر دو۔
پھر ایک روایت ہے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین سے واپسی کے موقع پر کچھ بدو آپؐ کے پیچھے پڑ گئے۔ وہ بڑے اصرار سے سوال کر رہے تھے۔ جب آپؐ انہیں دینے لگے تو انہوں نے اتنا رش کیا کہ آپؐ کو مجبوراً ایک درخت کا سہارا لینا پڑا۔ حتیٰ کہ آپؐ کی چادر بھی چھین لی گئی۔ آپؐ نے فرمایا میری چادر تو مجھے واپس دے دو۔ پھر کیکروں کے بہت بڑے جنگل کی طرف اشارہ کیا (ایک درختوں کا جنگل تھا) آپؐ نے فرمایا اگر اس وسیع جنگل کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوں تو مَیں ان کو تقسیم کرنے میں خوشی محسوس کروں گا۔ اور تم مجھے کبھی بخل سے کام لینے والا، جھوٹ بولنے والا یا بزدلی دکھانے والا نہیں پاؤ گے۔ (بخاری – کتاب الفرض الخمس – باب ما کان النبیﷺ یعطی المؤلفۃ قلوبھم)
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کا واسطہ دے کر مانگا جاتا تو آپؐ حسب استطاعت ضرور دیتے۔ ایک دفعہ آپؐ کے پاس ایک آدمی آیا اور آپؐ نے اس کو بکریوں کا اتنا بڑا ریوڑ دیا کہ دو پہاڑوں کے درمیان کی وادی بھر گئی۔ جب وہ بکریاں لے کر اپنی قوم میں واپس آیا تو آ کر کہا کہ اے لوگو! اسلام قبول کر لو۔ محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تو اس طرح دیتے ہیں جیسے غربت و احتیاج کا انہیں کوئی ڈر ہی نہیں۔ (صحیح مسلم- کتاب الفضائل باب فی سخائہٖﷺ)
ایک اور روایت ہے کہ جب آپؐ اس طرح لوگوں میں تقسیم کیا کرتے تھے تو اس دنیا حاصل کرنے کی وجہ سے لوگ ایمان لے آیا کرتے تھے۔ اسلام قبول کر لیا کرتے تھے۔ لیکن جب ایمان حاصل ہو جاتا تھا اسلام قبول کر لیتے تھے تو پھر ان کو مال سے زیادہ اسلام پیارا ہوتا تھا اور پھر وہ بھی قربانیوں میں لگ جایا کرتے تھے۔
پھر غزوہ حنین کے دن ہی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے صَفْوَان کو سو اونٹ دئیے، پھر سواونٹ دئیے، پھر مزید سو اونٹ دئیے۔ یعنی تین سو اونٹ دئیے۔ وہ کہتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ لیکن اس عنایت اور عطا نے میرے بغض کو محبت میں بدل دیا۔ (مسلم -کتاب الفضائل – باب فی سخائہﷺ)
پھر حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ مَیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپؐ نے ایک سخت کھردرے کناروں والی چادر اوڑھ رکھی تھی کہ ایک بدّو آیا۔ اس نے چادر سے پکڑ کر بڑی زور سے اپنی طرف کھینچا۔ یہاں تک کہ آپؐ کی چادر سے آپ ؐ کے کندھوں پر نشان پڑ گئے۔ پھر اس نے کہا اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے ان دو اونٹوں پر اللہ کے اس مال میں سے لدوا دو جو تیرے پاس ہے۔ اور جو مال تم مجھے دو گے وہ مال تمہارا یا تمہارے باپ کا نہیں ہے۔ آپؐ اس کی یہ بات سن کر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ مال تو اللہ کا مال ہے اور مَیں اس کا بندہ ہوں۔ پھر فرمایا کہ اے اعرابی جو سلوک تم نے میرے ساتھ کیا ہے یعنی یہ چادر کھینچی ہے اس کا تم سے بدلہ لیا جائے گا۔ بدّو کہنے لگا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیوں ؟وہ کہنے لگا کہ اس لئے کہ آپ ؐ کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ اس پر آپؐ مسکرا دئیے اور پھر آپؐ نے ایک شخص کو فرمایا کہ اس کو ایک اونٹ پر جَواور دوسرے پر کھجوریں لاد دو۔ (الشفاء لقاضی عیاض، الباب الثانی، الفصل الثانی عشر، الحلم والعفو)
اب دیکھیں مانگنے والے کی کرختگی اور اجڈ پن لیکن آپؐ نے اس کو سامان دینے سے انکار نہیں کیا۔ یہ فرمایا کہ یہ جو جاہلانہ رویہ تم نے اختیار کیا ہے اور چادر کھینچی ہے اس کی سزا تمہیں ملے گی۔ اور یہ بھی شاید مذاق میں ہی کہا ہو۔ لیکن اس بدو کے جواب پر کہ آپؐ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے تو آپؐ فوراً مسکرا دئیے۔ اور یہ آپ ؐ کی نرم طبیعت ہی تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بدو لوگ آپؐ سے اس طرح مخاطب ہوا کرتے تھے۔ ورنہ کب کوئی کسی دنیادار حاکم کے سامنے اس طرح رویہ اختیار کر سکتا ہے۔
ایک مرتبہ عین اقامت نماز کے وقت ایک بدو آیا۔ نماز کھڑی ہونے لگی تھی۔ آپؐ کا دامن پکڑ کر کہا کہ میری ایک معمولی سی ضرورت باقی رہ گئی ہے، خوف ہے کہ مَیں اس کو بھول نہ جاؤں۔ آپؐ اسے پورا کر دیجئے۔ چنانچہ آپؐ اس کے ساتھ تشریف لے گئے اور اس کی ضرورت پوری کرکے واپس آئے اور پھر نما زپڑھائی۔ ‘‘ (الادب المفرد للبخاری باب سخاوۃ النفس حدیث نمبر 278)
ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریمﷺ کے پاس دس درہم تھے۔ کپڑے کا تاجر آیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے چار درہم میں ایک قمیص خریدی۔ وہ چلا گیا تو آپؐ نے وہ قمیص زیب تن فرمائی اور پہن لی۔ اچانک ایک حاجت مند آیا اس نے آ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپؐ مجھے قمیص عطا فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ ؐ کو جنت کے لباس میں سے کپڑے پہنائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی نئی قمیص اتار کر اسے دے دی۔ پھر آپؐ دکاندار کے پاس گئے اور اس سے ایک اور قمیص چار درہم میں خرید لی۔ تو آپؐ کے پاس ابھی دو درہم باقی تھے۔ راستے میں آپ ؐ کی نظر ایک لونڈی پر پڑی جو بیٹھی رو رہی تھی۔ آپؐ نے پوچھا کیوں روتی ہو، کہنے لگی یا رسول اللہ! مجھے مالکوں نے دو درہم کا آٹا خریدنے کے لئے بھیجا تھا اور وہ مجھ سے کہیں گر گئے ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دو درہم اسے دئیے کہ جاؤ آٹا خرید لو۔ پھر بھی وہ روتی جا رہی تھی۔ پھر آپؐ نے پوچھا اب کیوں روتی ہو؟ تو کہنے لگی کہ اس خوف سے کہ گھر والے دیر ہونے کی وجہ سے سزا نہ دیں۔ تو اس پر آپؐ اس بچی کے ساتھ اس کے گھر تشریف لے گئے۔ آپؐ نے سلام کیا۔ پھر دوبارہ سلام کیا۔ پھر تیسری دفعہ سلام کیا۔ تو پھر گھر والوں نے جواباً وعلیکم السلام کہا۔ اس پر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے پہلی بار سلام نہیں سنا تھا۔ انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ! سن لیا تھا۔ لیکن ہم چاہتے تھے کہ آپؐ ہمیں اور زیادہ سلام کریں۔ ہمارے ماں باپ تو آپؐ کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ مجھے اس لونڈی پر ترس آیاکہ کہیں تم اسے دیر سے آنے کی وجہ سے مارو نہ۔ اس لئے مَیں اس کے ساتھ چلا آیا ہوں۔ تو یہ سن کر لونڈی کے مالک نے کہا ہم اللہ کی خاطر اس کو آزاد کرتے ہیں کیونکہ آپؐ اس کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ اس پر آپؐ نے انہیں جنت کی بشارت دی اور فرمایا کہ دیکھو دس درہموں میں اللہ تعالیٰ نے کتنی برکت ڈال دی ہے۔ اپنے نبی کو قمیص پہنا دی اور اس کے ذریعہ سے ایک انصاری شخص کو قمیص پہنا دی۔ اور پھر اس کے ذریعہ سے ایک گردن بھی آزاد کرا لی۔ (مجمع الزوائد للہیثمی کتاب علامات النبوۃ)
تو آپؐ لوگوں کی ضرورتیں پوری کرکے خوش ہوا کرتے تھے۔ تو ایک آزادی ملنے پر تو خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ کوئی غلام آزاد ہو جائے۔
پھر حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین کا مال لایا گیا۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ مسجد میں اس کا ڈھیر لگا دو اور یہ سب سے زیادہ مال تھا جو آنحضرتﷺ کی زندگی میں لایا گیا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے مسجد تشریف لائے تو مال کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو سارا مال تقسیم فرما دیا اور ایک درہم بھی باقی نہیں بچا۔ اور اس وقت کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جسے کچھ نہ کچھ ملا نہ ہو۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ، باب القسمۃ وتعلیق القنو فی المسجد)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ ایک بدو نے ایک دفعہ آ کر اپنی ضرورت سے متعلق سوال کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب حال جو میسر تھا اسے عطا فرما دیا۔ وہ اس پر سخت ناراض ہوا کہ میری ضرورت پوری نہیں ہو رہی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بڑی بے ادبی کے کلمات کہے۔ تو صحابہ کرام کو اس پر بڑی غیرت آئی اور اس کی طرف مارنے کے لئے بڑھے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک دیا۔ اور آپؐ اس بدو کو اپنے ساتھ گھر میں لے گئے۔ اور اس کو وہاں کھانا وغیرہ کھلایا، خاطر تواضع کی اور اس کو مزید انعام و اکرام سے نوازا۔ اور پھر اس سے پوچھا کہ کیا تم اب راضی ہو۔ تو وہ خوش ہو کر بولا کہ اب تو مَیں کیا میرے قبیلے والے بھی آپؐ سے راضی اور خوش ہیں۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میرے صحابہ کے سامنے جا کر بھی یہ اظہار کر دو۔ کیونکہ تم نے ان کے سامنے میرے ساتھ سخت کلامی کرکے ان کی دلآزاری کی تھی۔ اور جب اس نے صحابہ کے سامنے بھی اسی طرح اظہار کیا توآپؐ نے فرمایا :میری مثال اس اونٹ کے مالک کی طرح ہے جو اپنے اڑیل اونٹ کو بھی قابو کر لیتاہے۔ مَیں سخت مزاج لوگوں کو بھی محبت سے سدھا لیتا ہوں۔ (مجمع الزوائد للہیثمی کتاب علامات النبوۃ باب فی حسن خلقہ وحیائہ وحسن معاشرتہ)
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں قبائیں تقسیم فرمائیں اور ایک نابینا صحابی تھے، مخرمہ، ان کو کوئی قبا نہ دی۔ وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ تو وہ اپنے بیٹے کو لے کر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بیٹے کو اندر بھیجا کہ جاؤ اور جا کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا کے آؤ کہ میں باہر آیا ہوں، باہر تشریف لائیں۔ اس پہ وہ اندر گیا تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جب سنا کہ وہ نابینا صحابی مخرمہ آئے ہیں تو آپؐ باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں ایک قبا تھی اور آپؐ نے فرمایا:’اے مَخْرَمہ! خَبَأْتُ ھٰذَا لَکَ‘ کہ اے مخرمہ!مَیں نے قبا تمہارے لئے سنبھال کے رکھی ہوئی تھی۔ (بخاری کتاب فرض الخمس باب قسمۃ الامام ما یقدم علیہ ویخبألمن لم یحضرہ ……)
تو دیکھیں غریب اور نابینا صحابی کو بھولے نہیں۔ بلکہ سامان ایسا آیا ہوتا تھا رش ہوتا تھا کاموں کا بوجھ ہوتا تھا تو بھول بھی جاتے تو ایسی کوئی حرج کی بات نہیں تھی۔ لیکن اس کے لئے بھی حصہ نکال کر رکھا کہ وہ آئے گا اور اس کو دینا ہو گا۔
پھر حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے اور پھر اس کے بدلے میں لوٹاتے بھی تھے۔ جب آپؐ تحفہ لیتے تو لوٹایا بھی کرتے تھے۔ اور بڑھ کر لوٹایا کرتے تھے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر بھی روایات میں آتا ہے کہ جب قبائل گروہ درگروہ آنے شروع ہوئے اور آپؐ کے لئے تحائف لے کے آتے تھے تو آپؐ بڑھ کر ان کو تحائف لوٹایا کرتے تھے۔ (ابوداؤد کتاب البیوع باب فی قبول الھدایا)
پھر حضرت ربیعہ بنتمُعَوَّذ ؓ بیان کرتی ہیں کہ مجھے میرے والد مُعَوَّذ بن عَفْرَاء نے تازہ کھجوروں کا ایک طشت اور کچھ ککڑیاں دیں کہ حضورؐ کی خدمت میں تحفہ کے طور پر لے جاؤ۔ تو کہتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئی چھوٹی ککڑیاں حضور کو بہت پسند تھیں۔ اس زمانے میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین کے علاقے سے کچھ زیورات آئے ہوئے تھے تو آپؐ نے کھجوروں اور ککڑیوں کا تحفہ لے کے مجھے مٹھی بھر زیور عطا فرمایا۔ ایک دوسری روایت میں تو یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ بھر کر سونے کے زیور ربیعہ کو دئیے اور فرمایا یہ زیور پہن لو۔ (مجمع الزوائد للہیثمی کتاب علامات النبوۃ باب فی جودہﷺ)
تو یہ تھا آپؐ کی سخاوت کا انداز کہ کھجوروں اور ککڑیوں کے بدلے میں سونا عنایت فرما رہے ہیں۔ یہ نہیں خیال آیا کہ معمولی سا تحفہ کسی نے مجھے بھیجا ہے، غریب آدمی ہے تو چلو کوئی معمولی سی چیز اس کو لوٹا دی جائے یا اس سے بہتر چیز اس کو لوٹا دی جائے۔ نہیں۔ بلکہ اس کے بدلے میں آپؐ نے سونا عنایت فرمایا۔ اب ان سخاوت کے نظاروں کی مثال دنیا میں ہمیں کہاں نظر آتی ہے؟ سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے۔
پھر ایک اور روایت میں حضرت محمد بن حصین اپنی دادی ام سنبلۃ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تحفہ لائیں۔ آپؐ کی ازواج مطہرات نے اسے قبول نہ کیا۔ (اس وقت کوئی وجہ ہو گی) بہرحال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ لگا تو آپؐ نے حکم دیا اور انہوں نے رکھ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بدلے میں انہیں ایک وادی عطا فرمائی۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ – کتاب النساء – ام سنبلۃ الاسلمیۃ)
ایک بہت بڑا رقبہ عطا فرمایا چھوٹے سے تحفے کے بدلے میں۔ پھر آپؐ اپنے قریبیوں سے تعلق رکھنے والوں کا بھی خوب خیال رکھا کرتے تھے، نوازا کرتے تھے۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی تحفہ آتا تھا تو فرمایا کرتے تھے کہ یہ فلاں عورت کو دے آؤ کیونکہ وہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دوست تھی اور فلاں کو بھی دے آؤ کیونکہ وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پیار کرتی تھی۔ (کتاب الشفاء، للقاضی عیاض الباب الثانی، الفصل الثامن عشر)
عموماً یہی ہوتا تھا کہ آپؐ کسی کو نوازنے کے لئے ذرائع تلاش کرتے تھے کہ کس طرح اس کو فائدہ پہنچایا جائے۔ ہو سکتاہے بعض دفعہ بعض حالات کا علم ہو جانے کے بعد بھی یہ نوازشات ہوتی ہوں۔ روایات میں آتا ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص سے ایک چیز خریدتے اور پھر قیمت چکا دینے کے بعد، وہی چیز اس کو بطور عطیہ واپس فرما دیتے۔ بطور تحفہ کے واپس دے دیتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت عمر ؓ سے ایک اونٹ خریدا اور پھر اسی وقت اسے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کودے دیا۔ ان کے بیٹے کو وہ اونٹ تحفے کے طور پر دے دیا۔ (بخاری – کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا باب اذا وھب بعیرا لرجل وھو راکبہ فھو جائز)
پھر ایک اور روایت میں آتا ہے۔ جابرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں غزوہ سے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپؐ نے فرمایا جو کوئی آگے بڑھ کر گھر والوں کو پہلے ملنا چاہے وہ تیزی سے روانہ ہوکر گھر پہنچ جائے۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ یہ سن کر ہم جلدی سے آگے بڑھے۔ مَیں کالے سرخ بے داغ اونٹ پر سوار تھا اور لوگ مجھ سے پیچھے رہ گئے۔ یکا یک میرا اونٹ اڑ گیا، چلنے سے رک گیا تو جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم مجھ تک پہنچ گئے۔ تو فرمایا کہ اے جابر! اپنا اونٹ مضبوطی سے تھام اور پھر آپؐ نے اس کو ایک چابک ماری تو وہ چل پڑا اور دوسروں سے آگے نکل گیا۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جابر! کیا تو اپنااونٹ بیچتا ہے۔ مَیں نے کہا ہاں بیچوں گا۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ مسجد میں تشریف لے گئے۔ مَیں آپ ؐ کے پاس گیا اور اونٹ کو باندھ دیا اور مَیں نے عرض کی کہ آپؐ کا اونٹ حاضر ہے۔ آپؐ باہر نکلے اور اونٹ کے گرد پھرنے لگے۔ اس کو دیکھا۔ پھر فرمایا یہ ہمارا او نٹ ہے۔ پھر آپ نے اس اونٹ کی قیمت کئی اوقیہ سوناادا فرمائی۔ اور پھر جس کے ہاتھ یہ قیمت بھجوائی تھی اس کو یہ فرمایاکہ یہ جابر کو دے دو۔ پھر آپؐ نے پوچھا کہ کیا تم نے قیمت وصول کر لی ہے۔ تو جابر نے کہا ہاں یا رسول اللہ!۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ یہ رقم بھی تمہاری ہے اور یہ اونٹ بھی تمہار اہے۔ دونوں چیزیں تم لے جاؤ۔ (بخاری – کتاب الجہاد – باب من ضرب دآبۃ غیرہ فی الغزو)
دنیا کے مال کی آپؐ کی نظرمیں کوئی وقعت نہیں تھی اور آپؐ کی ہر وقت یہ خواہش ہوتی تھی کہ جو بھی مال آئے میں لوگوں میں تقسیم کر دوں۔ حضرت ابو ذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں جا رہا تھا۔ تو سامنے اُحد پہاڑ تھا۔ اس کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا آ جائے تو مجھے اس بات سے خوشی ہو گی کہ اس پر تیسرا دن چڑھنے سے پہلے پہلے اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دوں اور ایک دینار بھی اپنے پاس بچا کے نہ رکھوں۔ سوائے اس کے کہ جو مَیں قرض ادا کرنے کے لئے رکھ لوں اور سارا مال خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دوں۔ آپ نے دائیں بائیں، آگے پیچھے ہاتھوں سے اشارہ کرکے بتایا کہ اس طرح سارا مال دے دوں۔ پھر فرمایا کہ جو لوگ زیادہ مالدار ہیں قیامت کے دن وہ گھاٹے میں ہوں گے۔ سوائے ان کے جو اس طرح دائیں اور بائیں، آگے پیچھے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔ (بخاری -کتاب الرقاق -باب قول النبیﷺ ما یسرنی ان عند ی مثل احد ھذا ذھبا)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سخاوت کرنے والا اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور جنت کے بھی قریب اور لوگوں کے بھی قریب ہوتا ہے اور دوزخ سے دور ہوتاہے۔ جبکہ بخیل انسان، (کنجوس انسان) اللہ سے دور ہوتا ہے، لوگوں سے بھی دور ہوتا ہے اور دوزخ سے قریب ہوتا ہے۔ اور جاہل سخی، بخیل عبادت کرنے والے کی نسبت اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے۔ (ترمذی – کتاب البر – باب ما جاء فی السخاء)
یعنی ایک جاہل انسان ہو لیکن سخاوت کرنے والا ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اُس کے جو بڑا عبادت گزار بھی ہو لیکن کنجوس ہو۔ یہ تھی وہ تعلیم جس کے مطابق آپؐ نے اپنی تمام عمر گزاری۔ آپ ؐ کی جودوسخا کے بے تحاشا واقعات ہیں لیکن بیان نہیں ہو سکتے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اخلاقِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ وہ صدہا مواقع میں اچھی طرح کھل گئے اور امتحان کئے گئے اور ان کی صداقت آفتاب کی طرح روشن ہو گئی۔ اور جو اخلاق کرم اور جود اور سخاوت اور ایثار اور فتوت اور شجاعت اور زہد اور قناعت اور اعراض عن الدنیا کے متعلق تھے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں ایسے روشن اور تاباں اور درخشاں ہوئے کہ مسیح کیا بلکہ دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس کے اخلاق ایسی وضاحت تامہ سے روشن ہو گئے ہوں ‘‘۔ آنحضرتؐ کو دنیا سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اور یہ ایسے اخلاق تھے جو آپ میں تمام پہلے نبیوں سے بڑھ کر تھے۔ ’’ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرتؐ پر کھول دئیے سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پر وری میں ایک حبّہ بھی خرچ نہ ہوا۔ نہ کوئی عمارت بنائی نہ کوئی بارگاہ تیار ہوئی۔ بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی اپنی ساری عمر بسر کی۔ بدی کرنے والوں سے نیکی کرکے دکھلائی اور وہ جو دل آزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی۔ سونے کے لئے اکثر زمین پر بستراور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا اور کھانے کے لئے نانِ جَو یا فاقہ اختیارکیا۔ دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرتؐ نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلود ہ نہ کیا۔ اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پراور مسکینی کو امیر ی پر اختیار رکھا۔ اور اس دن سے جو ظہور فرمایا تا اس دن تک جو اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے بجز اپنے مولا کریم کے کسی کوکچھ چیزنہ سمجھا۔
فرمایا:’’ غرض جُود اور سخاوت اور زہد اور قناعت اور مردی اور شجاعت اور محبت الٰہیہ کے متعلق جو جو اخلاق فاضلہ ہیں وہ بھی خداوند کریم نے حضرت خاتم الانبیاء میں ایسے ظاہر کئے کہ جن کی مثل نہ کبھی دنیا میں ظاہر ہوئی اور نہ آئندہ ظاہر ہو گی۔ (براہین احمدیہ ہرچہار حصص – روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 288تا291 بقیہحاشیہ نمبر 11)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’دولت سے دل نہ لگانا۔ دولت سے مغرور نہ ہونا، دولت مندی میں امساک اور بخل اختیار نہ کرنا اور کرم اور جود اور بخشش کا دروازہ کھولنا۔ اور دولت کو ذریعہ ٔ نفس پروری نہ ٹھہرانااور حکومت کو آلۂ ظلم و تعدی نہ بنانا، یہ سب اخلاق ایسے ہیں کہ جن کے ثبوت کے لئے صاحب دولت اور صاحب طاقت ہونا شرط ہے۔ اور اسی وقت بپایۂ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب انسان کے لئے دولت اور اقتدار دونوں میسر ہوں‘‘۔
فرمایا: ’’اور اس بارے میں سب سے اول قدم حضرت خاتم الرسل، محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال وضاحت سے یہ دونوں حالتیں وارد ہو گئیں۔ اور ایسی ترتیب سے آئیں کہ جس سے تمام اخلاق فاضلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثل آفتاب کے روشن ہو گئے۔ اور مضمون {اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم} کا بپایہ ثابت پہنچ گیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور پر علیٰ وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے۔ کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کوتصدیق کیا۔ اور ان کا مقرب اللہ ہونا ظاہر کر دیا ہے۔ ‘‘ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 283 تا 285 بقیہ حاشیہ نمبر 11)
خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ مارچ 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن، لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔