آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم۔شکرگزاری
خطبہ جمعہ یکم اپریل 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں وہ تمام اخلاق جمع تھے جن کا انسانی سوچ احاطہ کر سکتی ہے اور آپ کی ذات میں وہ تمام صفات جمع تھیں جن کی جھلک اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں اور انبیاء میں نظر آتی ہے یا آ سکتی ہے۔ ان میں سے ایک خُلق شکر گزاری کا بھی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ { شَاکِرًا لِّاَنْعُمِہٖ} (النحل:122) یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا شکر گزار تھا اور حضرت نوح ؑ کے بارے میں فرمایا کہ {اِنَّہ کَانَ عَبْدًاشَکُوْرًا} (بنی اسرائیل:4) یعنی وہ یقینا شکر گزار بندہ تھا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سند صرف ان دو انبیاء کو ملی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکے بارے میں تو فرمایا ہے کہ آپؐ میں تو تمام انبیاء کی خوبیاں اکٹھی کر دی گئی ہیں بلکہ آپؐ افضل الرسل ہیں یعنی تمام رسولوں سے بڑھ کر ہیں۔ ان تمام خوبیوں، ان تمام اخلاق، جو بھی خلق ہیں، او ر ان تمام صفات کی انتہا دیکھنی ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں دیکھو۔ آپؐ کے بارے میں فرمایا {وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن} (الاحزاب:41) آپؐ کا مقام اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب ہے۔ ان تمام اخلاق اور صفات کے اعلیٰ معیار جو پہلے انبیاء میں پائے جاتے تھے۔ یا آئندہ آنے والے میں پائے جائیں گے ان سب کی انتہا آپؐ کی ذات میں پوری ہوئی گویا کہ ان سب پر آپؐ نے اپنے نمونوں کی مہر لگا دی۔ اور اب یہی نمونے ہیں جو رہتی دنیا تک قائم رہنے والے ہیں۔ پس یہ سب سے بڑی سند ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا فرمائی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے ذکر کیا یہ خلق جو ہے شکر گزاری کا آج اس کے بارے میں کہوں گا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر گزار ہونے اور بندوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے کیا کیا طریق آپؐ نے اختیار کئے اس پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت، ہر لمحہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے۔ کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے جس میں خدا تعالیٰ کے حضور شکر کے جذبات کے ساتھ دُعا نہ کی ہو۔ آپ کی ہر وقت یہ کوشش رہتی تھی کہ سب سے بڑھ کر عبدشکور بنیں اور اس کے لئے ہر وقت دعا مانگا کرتے تھے۔
چنانچہ روایت میں آتا ہے، عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ ’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ لَکَ شَاکِرًا لَکَ ذَاکِرًا ‘‘ یعنی اے میرے اللہ تو مجھے اپنا شکر بجالانے والا اور بکثرت ذکر کرنے والا بنا دے۔ (ابوداؤد -کتاب الوتر- باب ما یقول الرجل اذا سَلَّمَ)
ایک اور روایت میں آتا ہے اس میں دعا کے ساتھ یہ زائد الفاظ آتے ہیں۔ اپنے رب کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ مَیں تیراسب سے زیادہ شکر کرنے والا ہوں اور تیری نصیحت کی پیروی کرنے والا ہوں اور تیری وصیت کو یاد کرنے والا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 311 مطبوعہ بیروت)
آئندہ جو آگے میں مثالیں پیش کروں گاان سے پتہ لگے گا کہ آپؐ کس حد تک شکر گزاری کرتے تھے۔ کس طرح ہر وقت ہر لمحہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ شکر کے جذبات کا اظہار کریں۔ لیکن اس کے باوجود یہ فکر ہے اور یہ دعا کررہے ہیں کہ مَیں ہمیشہ شکر گزار بندہ بنوں، شکر گزار رہنے والا بنوں۔ آپ ہر بات خواہ وہ چھوٹی سے چھوٹی ہو لیکن جس سے آپ کی ذات کو فائدہ پہنچتا ہو یا پہنچا ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی ذات کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تو سوال ہی نہیں کہ اس کا شکریہ ادا کئے بغیر رہیں۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جب بھی پہلی بارش ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے۔
اس بارے میں حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضورﷺ کے ساتھ تھے۔ بارش ہوئی اور آپﷺ نے اپنے سر سے کپڑا ہٹا دیا اور ننگے سر پر بارش لینے لگے۔ پوچھنے پر فرمایا کہ یہ میرے رب سے تازہ تازہ آئی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل – جلد 3صفحہ267- مطبوعہ بیروت)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ پہلی بارش پر بارش کے قطرے زبان پر لیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کا شکر گزاری کا طریقہ یہی ہے کہ اس کو اپنے اوپر لیا جائے یا اس کو چکھا جائے۔
پھر اور بہت ساری باتیں ہیں مثلاً کھانے کے بعداللہ تعالیٰ کا شکر کس طرح ادا کرتے تھے۔
روایت میں آتا ہے ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ جب بھی کوئی چیز کھاتے یا پیتے تو اس کے بعد یوں شکر ادا کیا کرتے تھے کہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ‘‘کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا۔ (ابوداؤد کتاب الاطعمۃ باب ما یقول الرجل اذا طعم – حدیث نمبر 3846)
اور کھانے بھی یہ نہیں کہ کوئی بڑے اعلیٰ مرغن قسم کے کھانے کھایا کرتے تھے بلکہ نہایت سادہ غذا تھی اور بڑے شکر کے جذبے سے ہر چیز کھا رہے تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہؓ بن سلام کہتے ہیں کہ مَیں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا آپ نے روٹی کے ایک ٹکڑے پر کھجور رکھی ہوئی تھی اور فرما رہے تھے کہ یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے۔ (ابوداؤد -کتاب الاَیمان – باب الرجل یحلف ان لا یأتدم)
اور اکثر یہ ہوتا تھا کہ سرکہ سے یا پانی کے ساتھ ہی روٹی تناول فرمالیا کرتے تھے۔ اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کیا کرتے تھے۔
پھر جب نیا کپڑا پہنتے تو اسے پہن کر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے۔ اس کے بد اثرات سے بچنے کی دعا مانگا کرتے تھے۔ اس بار ے میں حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ جب کوئی نیا کپڑپہنتے تو اس کا نام لے کر(عمامہ، قمیض یا چادر) یہ دعا مانگتے کہ ’’ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ أَسْأَلُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَہٗ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہٗ ‘‘ کہ اے اللہ ہر قسم کی تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں۔ توُ نے ہی مجھے پہنایا۔ میں تجھ سے اس کے خیر اور جس غرض کیلئے بنایا گیا اس کی خیر مانگتا ہوں۔ اور تجھ سے اس کے شر اور جس غرض کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ترمذی – کتاب اللباس باب ما یقول اذا لبس ثوبا جدیدًا- حدیث نمبر 1767)
اصل میں تو اس کے بہت سارے پہلو ہیں۔ ایک تو بعض دفعہ بعض کپڑوں میں اس قسم کی چیز بھی ہوتی ہے، آجکل خاص طور پر، جن سے بعض لوگوں کو الرجی بھی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ایک شرکا پہلو نکل جاتا ہے۔ پھر بعض لوگ بڑے اعلیٰ قسم کے سوٹ اور جوڑے سلواتے ہیں گو آپؐ میں وہ چیز تو نہیں آنی تھی لیکن اپنی امت کو سبق دینے کیلئے یہ دعا مانگتے تھے کہ اس کے شر سے بھی بچانا، کسی قسم کے کپڑے سے کبھی کسی قسم کا تکبر پیدا نہ ہو۔
پھر سوتے وقت اور نیند سے بیدار ہوتے ہوئے اللہ کی تعریف کے ساتھ یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر آرام کے لئے جاتے تو یہ دعافرماتے کہ اے اللہ ’’ اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا‘‘ کہ میرا مرنا اور جینا تیرے نام کے ساتھ ہے۔ اور جب صبح ہوتی تو یہ دعامانگتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْر، کہ ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد پھر زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (بخاری – کتاب التوحید – باب السؤال باسماء اللہ تعالی والاستعاذ بھا)
زندگی کا کوئی پہلو نہیں تھا جس میں آپ اپنے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے اس کا شکر ادا نہ فرماتے ہوں۔ حتیٰ کہ رفع حاجت کے لئے جاتے تھے، واپسی پر شکر کے جذبات ہوتے۔ اس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ جب بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو یہ دعا کرتے کہ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْا َٔذَی وَعَافَانِی‘‘۔ کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مضر چیز مجھ سے دور کر دی اور مجھے تندرستی عطا کی۔ (ابن ماجہ -کتاب الطہارۃ -باب ما یقول اِذا خرج من الخلاء)
ڈاکٹر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں جو ہیں معدے اور انتڑیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ان میں صحیح حرکت نہ ہونے کی وجہ سے۔ اجابت نہ ہونے کی و جہ سے۔ بعض اور تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں۔ تو یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ ہر چیز جو جسم کا حصہ ہے، ہر عضو جو ہے وہ صحیح کام کر رہا ہو اور جو اس کا فنکشن ہے وہ پورا کررہا ہو۔ اس پر بھی شکر کرنا چاہئے۔
پھر اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے اعلیٰ معیاراس لئے قائم فرمائے کہ اس کا شکر گزار بندہ بنوں۔ اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عائشہؓ یہ روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ رات کو اس قدر لمبا قیام فرماتے تھے کہ اس کی و جہ سے آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے۔ یہ کھڑے ہو کر جو نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس پر مَیں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے سارے گناہ بخشے گئے ہیں۔ پہلے بھی اور بعد کے بھی تو اب بھی اتنا لمبا قیام فرماتے ہیں ؟ تو آپؐ نے فرمایا کیا مَیں خدا کا عبد شکور نہ بنوں جس نے مجھ پر اتنا احسان کیا ہے۔ کیا مَیں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے نہ کھڑا ہوا کروں۔ (بخاری -کتاب التفسیر۔ سورۃ الفتح۔ باب قولہ لیغفرلک اللہ ما تـقدم من ذنبک وما تأخر)
پھر ایک روایت میں عبادت کے تعلق میں، شکر گزاری کا یہ واقعہ آتا ہے۔ عطا رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مَیں، ابن عمرؓ اور عبیداللہؓ بن عمر کے ساتھ گئے اور ہم نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب ترین بات بتائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھی ہو۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ آپؐ کی یاد میں بیتاب ہو کر رو پڑیں اور کہنے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہر ادا ہی نرالی تھی۔ پھر فرمانے لگیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تشریف لائے اور لیٹے بستر پر۔ پھر آپؐ نے فرمایا اے عائشہ !کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ اپنے ربّ کی عبادت کر لوں۔ میں نے کہا خدا کی قسم مجھے تو آپ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے۔ میری طرف سے آپ کو اجازت ہے۔ تب آپ اٹھے۔ مشکیزہ سے وضو کیا اور نماز کیلئے کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنی شروع کی اور اس قدر روئے کہ آنسو آپ کے سینے پر گرنے لگے اور نماز کے بعد دائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپ کا دایاں ہاتھ آپ کی دائیں رخسار کے نیچے تھا۔ پھر رونا شروع کر دیا یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے۔ فجر کی نماز کے وقت حضرت بلالؓ بلانے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ وزاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا مَیں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں اور میں کیوں نہ روؤں کہ آج رات میرے رب نے یہ آیات نازل کی ہیں۔ وہ آیات ہیں آل عمران کی{اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِلَاٰیٰتٍ لِِّاُولِی الْاَلْبَابِ- الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قَُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ۔ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّار}(آل عمران:192-191) یعنی یقینا آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحب عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ اور اے ہمارے ربّ توُ ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچانا۔
پھر دوسری روایت میں اس کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ! آپ کو اتنا رونا کیوں آر ہا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے گناہ بخش دئیے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا مَیں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ اور میں ایسا کیوں نہ کروں جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس رات اپنی یہ آیات نازل فرمائی ہیں {اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِلَاٰیٰتٍ لِِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ- الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قَُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ۔ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّار}(آل عمران:192-191) تک آیات پڑھیں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کیلئے ہلاکت ہو جو یہ آیات پڑھتا ہے مگر ان پر غور وفکر نہیں کرتا۔ (تفسیر روح البیان زیر تفسیر سورۃ آل عمران آیت نمبر 192-191)
پھر دیکھیں ایک عجیب نظارہ جس سے امت کیلئے فکر اور بخشش کے جذبات کا بھی پتہ چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے شکر کا بھی۔ حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ مکّہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے جب ہم عَزْوَرَاء مقام پر پہنچے تو آنحضور ؐ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کچھ دیر دعا کی۔ پھر حضور سجدہ میں گر گئے۔ اور بڑی دیر تک سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ پھر سجدہ میں گر گئے۔ آپ نے تین دفعہ ایسا کیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نے اپنے رب سے یہ دعامانگی تھی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دے دی۔ میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدہ میں گر گیا اور سر اٹھا کر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزید ایک تہائی امت کی شفاعت کی اجازت فرمائی۔ پھر میں شکرانہ کا سجدہ بجا لایا۔ پھر سر اٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کیلئے مجھے اجازت عطا فرما دی۔ اورمیں اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کیلئے گر گیا۔ (ابوداؤد- کتاب الجہاد- باب فی سجود الشکر)
تو اس عبد شکور کے شکر کے جذبات کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آ پؐ کو شفاعت کا حق عطا فرمادیا۔
پھر ایک روایت میں آپ کے شکر کے جذبات کے پہلو کا یوں پتہ چلتا ہے۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے۔ مَیں ان کے پیچھے گیا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں پہنچ گئے۔ وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گر گئے اور بہت لمبا سجدہ کیا۔ یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپ کی روح قبض کر لی ہے۔ میں آپ کو دیکھنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تو آپ اٹھ بیٹھے اور فرمایا عبدالرحمن کیا بات ہے؟ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض تو نہیں کر لی۔ آپ ؐ نے فرمایا مجھے جبریل نے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں فرماتا ہے کہ جو آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کروں گا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔ یہ سن کر مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ٔ شکر بجالا یا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 191 مطبوعہ بیروت)
اللہ تعالیٰ کا شکر اس لئے بجا لا رہے ہیں، اتنا لمبا سجدہ اس لئے کر رہے ہیں کہ ایک تو اُمّت کوآپ کیلئے دعاؤں اور درود کی ترغیب دی جا رہی ہے یہ کہہ کے کہ درود بھیجنے والے پر فضل ہوگا۔ دوسرے اس وجہ سے سجدہ شکر بجا لا رہے ہیں کہ اس درود کی وجہ سے امت کے بھی بخشش کے سامان پید اہو رہے ہیں۔ پھر اگر غیرقوموں میں بھی شکرانے کے طریق کو دیکھا تو اس پر بھی عمل کرنے کی کوشش فرمائی بلکہ عمل کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے شکر ادا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جائے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ایسے یہودیوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے یوم عاشورہ کے روز کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا یہ کیسا روزہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ آج کے دن ہی اللہ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا۔ اور اس روز فرعون غرق ہوا تھا، نوح کی کشتی جُودی پہاڑ پر رکی تھی۔ نوح علیہ السلام نے اور موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں موسیٰ کے ساتھ تعلق کا سب سے زیادہ حقدار ہوں اور اسی وجہ سے اس دن روزہ رکھنے کا بھی میں زیادہ حقدار ہوں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلمنے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی عاشورہ کا روزہ رکھنے کا فرمایا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 360-359 مطبوعہ بیروت)
تو یہاں یہ سوال نہیں کہ دوسری قوموں یا مذہب والوں کا طریق ہے، کیا ضرورت ہے کرنے کی۔ بلکہ نیک کام اور شکرانے کے طور پر جو کام ہو رہا تھا اس طرف آپ کی توجہ پیدا ہوئی۔
پھر اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں آپ کے شکر کا ایک اور عجیب نظارہ نظر آتا ہے۔ جب فتح مکہ ہوئی۔ عموماً فاتح قوم، فتح کے بعد جومفتوح ہوتا ہے، (جس کو فتح کیا جاتا ہے) اس کے شہر اور ملک جو ہیں ان میں بڑے رعب اور دبدبے سے داخل ہوتے ہیں، فخر سے داخل ہوتے ہیں۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ پربھی شکر گزاری کے جذبات لئے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔
روایت میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی طویٰ مقام پر پہنچے تو سرخ یمنی کپڑے کا عمامہ باندھے اپنی سواری پر ٹھہر گئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلمنے جب د یکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح دے کر آپ کی کس قدر عزت افزائی فرمائی ہے تو حضور نے تواضع اور شکر گزاری سے اپنا سر اس قدر جھکایا کہ یوں لگتا تھا کہ آپ کی ریش مبارک سواری کے کجاوے سے چھوجائے گی۔ (السیرۃ النبویۃ لأبن ھشام۔ ذکر فتح مکۃ۔ وصول النبیؐ الٰی ذی طویٰ)
اتنا جھک گئے تھے کہ جس سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اس کا جو آگے ابھار تھا اس پر جا کر آپ کی داڑھی لگ رہی تھی۔ اس جیسی روایات میں بہت ساری ایسی مثالیں ملتی ہیں جو آپ کے عمل کے کئی کئی خُلق ظاہر ہور ہے ہوتے ہیں۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ بندوں کے لئے آپ کی شکر گزاری کے جذبات کس قدر ہوتے تھے۔ کسی سے فائدہ پہنچتا تھا تو اس کا کس قدر شکر ادا کیا کرتے تھے، ایسی عجیب عجیب مثالیں نظر آتی ہیں خوشی غمی کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ذرا سے بھی کام آنے والے کے جذبات کی بے انتہا قدر کیا کرتے تھے۔ ان کا خیال رکھا کرتے تھے۔ پھر اپنے ساتھ براہ راست تعلق والوں کا ہی نہیں (اپنے ساتھ جو واقعہ ہواس سے نہیں ) بلکہ اپنے قریبی سے تعلق رکھنے والوں کیلئے بھی بے انتہا شکر گزاری کے جذبات رکھا کرتے تھے اور ان کا خیال رکھا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پرانے ساتھیوں میں سے تھے، دوستوں میں سے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر خوشی و غمی میں، تکلیف میں، رنج کے موقعہ پر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا تھا۔ ان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے نازک احساسات رکھتے تھے کہ برداشت نہیں تھا کہ حضرت ابوبکر کے بارے میں کوئی ایسی بات کہے جس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ اور یہ سب کچھ شکر گزاری کے جذبات کی و جہ سے تھا کہ اس شخص نے دوستی کا حق نبھایا ہے اور قربانیوں میں پیش پیش رہے ہیں اس لئے یہ برداشت نہیں تھا کہ ان کو کوئی تکلیف پہنچے۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی کا حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے اختلاف ہو گیا۔ حضوؐ ر کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا جب اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تو تم سب نے مجھے جھوٹا کہا اور ابوبکر نے میری سچائی کی گواہی دی اور اپنی جان او رمال سے میری مدد کی۔ کیا تم میرے ساتھی کی دل آزاری سے باز نہیں رہ سکتے۔ پھر ایک دفعہ اپنی وفات کے قریب فرمایا کہ لوگوں میں سے ہمہ وقت موجودگی اور مال کے ساتھ مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر نے کیا ہے۔ فرمایا مسجد نبوی میں کھلنے والی تمام کھڑکیاں بند کر دی جائیں سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔ (بخاری -کتاب فضائل اصحاب النبی ؐ – باب قول النبی ؐ سدوا الابواب الا باب ابی بکر)
پھر حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بڑے اچھے انداز اور تعریفی انداز میں ذکر فرمایا کرتے تھے۔ ایک روز میں نے اس بات سے غیرت کھاتے ہوئے کہا کہ آپ کیا ہروقت اس بڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر بیویاں عطا کیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو انہوں نے مجھے قبول کیا۔ جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو وہ ایمان لائیں۔ جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور اللہ نے انہیں سے مجھے اولاد بھی عطا فرمائی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 117، 118 مطبوعہ بیروت)
بیوی کا جو تعلق تھا وہ تو تھا ہی لیکن وہ ایسی وفا شعار بیوی تھیں جنہوں نے سب کچھ آپ پر قربان کر دیا تھا اور آپ جو سب سے زیادہ شکر گزار انسان تھے، یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اس احسان کو بھولیں جو اس وقت حضرت خدیجہؓ نے کیا تھا۔
پھر تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی نبوت کے 13ویں سال میں، حضور کی ہجرت سے قبل مدینہ سے ستّرلوگوں نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی اور کہا کہ جب حضور مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم اپنی جانوں کی طرح حضور کی حفاظت کریں گے۔ اس موقعہ پر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مدینہ کے یہود کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات ہیں آپ کا ساتھ دینے سے وہ منقطع ہو جائیں گے، کٹ جائیں گے، ختم ہو جائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ جب اللہ آپ کو غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ واپس آ جائیں۔ تو حضورؐ نے فرمایا: نہیں، نہیں۔ ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ تمہارا خون میرا خون ہوگا۔ تمہارے دوست میرے دوست اور تمہارے دشمن میرے دشمن۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، امرا لعقبۃ الثانیۃ، عھد الرسول علیہ السلام علی الانصار)
آپ میں تو شکر گزاری اور احسان مندی انتہا کی تھی۔ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ مہاجرین پر انصار کے احسانوں کو یاد نہ رکھتے۔ چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ آپ نے نہ صرف اس کو یاد رکھا بلکہ خوب خوب نبھایا۔ اپنے آپ کو انصار ہی کا ایک حصہ قرار دیا۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جنگ حنین کے بعد مال غنیمت کی تقسیم پر جب ایک انصاری نے اعتراض کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک دردناک خطاب کیا۔ فرمایا کہ اگر تم یہ کہو کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس توُ اس حال میں آیا کہ توُ جھٹلایا گیا تھا اور ہم نے اس وقت تیری تصدیق کی۔ اور تجھے جب اپنوں نے دھتکار دیا تو ہم نے اس وقت تجھے قبول کیا اور پناہ دی تھی۔ توُ ہمارے پاس اس حال میں آیا کہ مالی لحاظ سے بہت کمزور تھا اور ہم نے تجھے غنی کردیا۔ اگر تم یہ کہو تو میں تمہاری ان باتوں کی تصدیق کروں گا۔ اے انصار! اگر لوگ مختلف گھاٹیوں یا وادیوں میں سفر کر رہے ہوں تو میں اس وادی اور گھاٹی میں چلوں گا جس میں تم انصار چلو گے۔ اگر میرے لئے ہجرت مقدر نہ ہوتی تو میں تم میں سے کہلانا پسند کرتا۔ تم تو میرے ایسے قریب ہو جیسے میرے وہ کپڑے جو میرے بدن کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور باقی لوگ میری اوپر کی چادر کی طرح ہیں۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الطائف ……)
پس یہ شکر گزاری کے جذبات ہی تھے جن کی و جہ سے آپ نے انصار کو اپنے قریب ترین ہونے کا اعزاز بخشا۔
پھر تاریخ میں ہمیں آپ کی احسان مندی اور شکر گزاری کی ایک اور اعلیٰ مثال یوں ملتی ہے کہ جب مسلمانوں پر مکّہ میں طرح طرح کے مصائب ڈھائے گئے تو انہوں نے خدا تعالیٰ کے اِذن سے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ مسلمان ادھر چلے گئے۔ اس وقت شاہ حبشہ نے ان کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بادشاہ نجاشی کے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھا اور ہر موقعہ پر آپ نے اس احسان کی شکر گزاری کا اظہار اپنے عمل سے، اپنے قول سے، اپنی باتوں سے کیا۔
چنانچہ جب نجاشی کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ’’ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے استقبال کیلئے خود کھڑے ہوئے اور آپ کے صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ہم کافی ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ ہمارے ساتھیوں کے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آتے تھے۔ بڑی عزت کی تھی اور ان کواپنے پاس رکھا تھا۔ تو میں پسند کرتا ہوں کہ ان کے اس احسان کا بدلہ خود اتاروں۔ ‘‘ (السیرۃ الحلبیۃ – باب ذکر مغازیہﷺ، غزوۃ خیبر)
پھر ایک واقعہ کا یوں ذکر ہے کہ جب جنگ بدر کے موقعہ پر قیدی لائے گئے تو ان میں حضرت عباس بھی تھے اور آپ کے تن پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے کوئی قمیص تلاش کی لیکن چونکہ وہ لمبے قد کے تھے کسی کی قمیص پوری نہیں آتی تھی۔ تو صحابہ نے جب یہ دیکھا تو پھر عبداللہ بن ابی بن سلول کی قمیص آپ کو پوری آ سکتی تھی وہ لمبے قدکا تھا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے اس کا ذکر کیا۔ ’’ اس پر حضور نے اس کی قمیص لے کر آپ کو پہنا دی۔ ‘‘ باوجود اس کی بعد کی بے انتہا بدزبانیوں اور بدنیتوں اور بدطینتی کے حملوں کے’’ روایت میں آتا ہے کہ اس کی وفات پہ جب اسے قبر میں اتارا گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے اس کو باہر نکالنے کا حکم دیا اور اس کا سر اپنے گھٹنے پر رکھا اور اس کو اپنا لعاب لگایا اور اس کے احسان کا بدلہ چکاتے ہوئے اسے اپنی قمیص پہنائی۔ ‘‘ (بخاری – کتاب الجنائز – باب ھل یخرج المیت من القبر واللحد لعلۃ- حدیث نمبر 1350)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خادموں کو بھی ان کی خدمت کی وجہ سے شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ دعا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ غزوۂ خیبر کے واقعہ میں ذکر آتا ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلمنے حضرت صفیہؓ سے شادی کی تو شادی والی رات حضرت ابوایوب خالد ؓ بن زید نے رات بھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے باہر پہرہ دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح بیدارہوئے اور دیکھا کہ ابوایوب باہر پہرہ دے رہے ہیں تو ان سے پوچھا: مَالَکَ یَا اَ بَا اَیُّوب؟ کہ ابوایوب خیریت تو ہے؟ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ کے بارے میں اس عورت سے خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ آپ کو نقصان نہ پہنچائے کیونکہ جنگ خیبر میں آپ نے اس کے باپ، اس کے خاوند اور اس کے لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے اور اس نے نیا نیا اسلام قبول کیا ہے اس لئے مجھے اس کی طرف سے آپ کے متعلق خوف پیدا ہوا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ان کا یہ اخلا ص دیکھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی۔ اَللّٰھُمَّ احْفَظْ اَ بَا اَیُّوبَ کَمَا بَاتَ یَحْفَظُنِی کہ اے اللہ تو ابو ایوب کی اس طرح حفاظت فرما جس طرح اس نے رات بھر میری حفاظت کی ہے۔ (الروض الأنف ذکر غزوۃ خیبر – بقیۃ امر خیبر حاشیہ)
پھر ایک اور خادم کی خدمت پر اس کو دعا دینے کے واقعہ کا یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بیت الخلاء میں گئے تومَیں نے آپؐ کے لئے پانی رکھا۔ (جانے سے پہلے پانی رکھ دیا وہاں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس نے رکھا ہے تو آپ کو بتایا گیا کہ ابن عباس نے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی کہ ’’ اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ‘‘ کہ اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ بوجھ عطا کر۔ (بخاری -کتاب الوضوء باب وضع الماء عند الخلاء)
دیکھیں تھوڑی سی خدمت پر کتنی جامع دعا آپ نے دی۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ اسماعیل بن ابراہیم بن عبداللہ بن ابی ربیعہ اپنے والد اور اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس ہزار درہم مجھ سے بطور قرض لئے۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس مال آیا تو آپ نے مجھے رقم لوٹا دی اور دعا دیتے ہوئے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تیرے اہل اور مال میں برکت دے۔ نیز فرمایا قرض دینے کا بدلہ شکریہ کے ساتھ ادائیگی ہے۔ (سنن النسائی – کتاب البیوع – باب الاستقراض)
اکثر ایسا ہوتا تھا کہ آپ قرض لوٹاتے تھے تو زائد رقم بھی عطا فرمادیا کرتے تھے اور یہ اسوہ آپ نے اس لئے قائم کیا کہ جنہوں نے قرض لیا ہوا ہے وہ جب واپس کریں تو احسن طریق سے واپس کریں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی دستور تھا کہ جب کوئی خوشی کی خبر ملتی تو فرماتے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ۔ کہ سب تعریف اس خد اکے لئے ہے جس کی نعمت سے نیکیاں کمال کو پہنچتی ہیں اور جب کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جسے آپ نا پسند فرماتے تو یہ دعا کرتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ۔ مَیں ہرحال میں اللہ کی حمد کرتا ہوں۔ (کنزالعمال -باب فی الدعاء – ادعیۃ السرور والحزن حدیث نمبر 5027)
اور یہ شکر گزاری کے جذبات آپ اپنی امت میں بھی پید اکرنا چاہتے تھے اور آپ کی یہ خواہش تھی کہ آپ کی امت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنے۔ اور اللہ کی تعریف کرنے والا اور اس کی حمد بیان کرنے والا بنے۔
چنانچہ حضرت انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب کبھی کوئی بندہ کھانے کا لقمہ کھائے تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرے اور جب پانی کا گھونٹ پیئے تب بھی اس پر اللہ کی حمد بیان کرے یعنی چھوٹی سے چھوٹی نعمت پر بھی اللہ کی حمد اور شکر کرے۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب استحباب حمد اللہ تعالیٰ بعد الاکل والشرب)
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا کہ اب کیا حال ہے اس نے کہا اچھا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے دوبارہ پوچھا کہ اب کیا حال ہے۔ اس نے کہا اچھا ہوں۔ پھر تیسری دفعہ پوچھا اس سے۔ تو اس نے کہا کہ اچھا ہوں اور خدا کی حمد و شکر ادا کرتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہی مَیں چاہتا ہوں کہ تم اس طرح کہو۔ (مجمع الزوائد للھیثمی۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب مایقول اذا سئل عن حالہ)
تو یہ نصیحت تھی سب امت کو کہ اس طرح شکر ادا کرتے ہوئے اپنا حال بتانا چاہئے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف کرتے ہوئے اور شکر کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہئے۔ آپ اپنے پیاروں کے بارے میں ہمیشہ یہ پسند فرماتے تھے کہ وہ شکر گزار بنیں۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دفعہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ بخدا مَیں تم سے محبت کرتا ہوں اور اے معاذ میری تمہیں یہ نصیحت ہے کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا کبھی نہ بھولنا کہ ’’ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلیٰ ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ‘‘ یعنی اے میرے اللہ مجھے توفیق بخش کہ میں تیرا ذکر کروں اور تیرا شکر کروں اور احسن رنگ میں تیری عبادت کروں۔ (ابو داؤد کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار)
پھر آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس نے کھانا کھایا اور اس نے دعا کی کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنِیْ ھٰذَا وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلَا قُوَّۃٍ غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ یعنی سب تعریف اللہ کی ہے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور مجھے یہ رزق بغیر اس کے کہ میری کسی طاقت یا قوت کا دخل ہو عطا فرمایا۔ تو اس سے اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (ترمذی۔ کتاب الدعوات۔ باب ما یقول اذا فرغ من الطعام)
پس شکر گزاری کے جذبات ہی ہیں جو گناہوں کی بخشش کے بھی سامان کرتے ہیں اور پھر اس وجہ سے مزید نیکیاں کرنے کی توفیق بھی پیدا ہوتی ہے۔
پھر آپ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ حضرت نعمانؓ بن بشیر سے روایت ہے۔ حضور ؐ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا؛ جو تھوڑے پر یعنی چھوٹی بات پر شکر نہیں کرتا وہ بڑی نعمت پر بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کیا کرتا۔ اور نعماء الہٰیہ کا ذکر کرتے رہنا شکر گزاری ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں ہیں انسان کے اوپر ان کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ ’’اور اس کا ذکر نہ کرنا کفر اور ناشکری ہے۔ اور جماعت ایک رحمت ہے اور تفرقہ بازی عذاب ہے۔ ‘‘ اس پر بھی شکر کرنا چاہئے کہ ایک جماعت سے منسلک ہے انسان۔ پھر امت کو دنیا کی لالچوں سے دور رہنے اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کیلئے آپ نے اس طرح نصیحت فرمائی ہے کہ’ تم میں سے جو کم درجے والا یا کم وسائل والا ہے تم اس کی طرف دیکھو اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم میں سے اوپر اور اچھی حالت میں ہے۔ ‘‘ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 254مطبوعہ بیروت)
یہ بھی شکر کا ایک انداز ہے اور انسان نچلے کی طرف دیکھنے کی بجائے اوپر والے کی طرف نگاہ کرے تو اس سے حسد پیدا ہوتا ہے اور اگر نیچے والے کو دیکھے تو اس سے شکر پیدا ہوتا ہے۔ ’’یہ طریق اختیار کرنا چاہئے جو تمہیں اس لائق بنا دے گا۔ تم اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری نہیں کرو گے۔ ‘‘ (مسند احمد جلد 4صفحہ 278مطبوعہ بیروت)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد صحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بدوں مشقت اور محنت کے دکھائی ہے‘‘ بغیر کسی محنت اور مشقت کے دکھا دی ہے۔ ’’ وہ راہ جو آپ لوگوں کو اس زمانے میں دکھائی گئی ہے بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے اس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وہ شکر یہی ہے کہ سچے دل سے ان اعمال صالحہ کو بجا لاؤ جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصہ میں آتے ہیں اور اپنی عملی حالت سے مدد لے کر دعا مانگوکہ وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ95-94 جدید ایڈیشن – رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 166)
اللہ کرے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہوں جو آپ نے ہمارے سامنے قائم فرمایا اور ان نصیحتوں پر عمل کرنے والے ہوں جو شکر گزار بندہ بننے کے لئے آپ نے ہمیں فرمائیں۔ اور جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ دعا مانگو کیونکہ دعاؤں کے ساتھ ہی ان پر عمل کرنے کی بھی توفیق ملے گی۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔
خطبہ جمعہ فرمودہ یکم؍ اپریل 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن، لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔