آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم۔توکل علی اللہ
خطبہ جمعہ 8؍ اپریل 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا(الاحزاب:4)
پھر فرمایا:
اور اللہ ہی پر توکل کر اور اللہ ہی کارساز کے طور پر کافی ہے۔ یہ قرآنی فرمان اصل میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے ایک تسلی کا پیغام تھا کہ اے نبی! صلی اللہ علیہ وسلم تو بھی بے فکر رہ اور اپنے صحابہ ؓ کو بھی تسلی کروا دے کہ جیسے بھی حالات ہوں۔ ہو سکتا ہے وسیع پیمانے پر تجھے اور تیری جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، تمام قبائل جمع ہو کر تجھے اور تیری جماعت کو ختم کرنے کی کوشش کریں لیکن یہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ پہلے بھی اللہ تعالیٰ کار ساز رہا ہے، تجھے ہر مشکل اور ہر مصیبت سے نکالتا رہا ہے اور آئندہ بھی وہی کار ساز ہے۔ جیسے مرضی حالات ہوں، دشمن کے جو بھی منصوبے ہوں، جیسے بھی منصوبے ہوں، دشمن کبھی بھی اسلام کو مٹانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پس آپ اسی پر ہمیشہ کی طرح توکل کرتے رہیں۔ یہ تسلّی خداتعالیٰ نے اس لئے نہیں دی تھی کہ خدانخواستہ آپؐ خوفزدہ تھے یا توکّل میں کوئی کمی آ گئی تھی۔ بلکہ یہ صحابہ کے حوصلے بڑھانے کے لئے تھا کہ کسی کمزور دل میں بھی کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ہم کمزور ہیں اور اتنی طاقتوں کے سامنے ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ دشمن پر بھی اظہار ہو جائے کہ ہم تمہارے سامنے جھکنے والے نہیں، ہم ہمیشہ کی طرح اس خدائے واحدپر ہی توکّل کرتے ہیں اور اس یقین سے پُر ہیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح ہمارا مددگار ہو گا، ہماری مدد فرماتا رہے گا۔ اور دشمن ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد ہو گا۔ اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا اسلام کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔
پس جیسا کہ میں نے کہا کہ آپؐ کو تو پہلے سے ہی خدا پر اس قدر یقین تھا اور توکّل تھا کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ آپ ؐ نے تو توکّل کے اُس وقت بھی اعلیٰ معیار قائم کئے تھے جب آپؐ کے ساتھی کمزور تھے اور دشمن کے مقابلے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ آپؐ نے تو اس وقت بھی توکّل کے نمونے دکھائے جب آپ ؐ اکیلے تھے اور اکیلے ہی دوسرے شہروں میں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے چلے جایا کرتے تھے۔ آپؐ کو تو اس وقت بھی خداتعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ تھا اور توکل اور یقین تھا کہ آخر کار جیت میری ہی ہونی ہے۔ اور آپؐ نے تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق یہی آواز بلند کی {قُلْ ھُوَ رَبِّیْ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔ عَلَیْہِِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابِ}(الرعد:31) کہ توُ کہہ دے وہ میرا ربّ ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اسی پرمَیں توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میرا عاجزانہ جھکنا ہے۔ پس یہ آپؐ کے توکّل کی قرآنی گواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ اعلان کرنے کے لئے کہہ رہا ہے کہ مَیں جو تیرے دل کا بھی حال جانتا ہوں، مَیں یہ کہتا ہوں کہ اعلان کر دے کہ تو نے ہمیشہ مجھ پر توکّل کیا ہے۔ پھر پہلی کتابوں میں بھی آپ کی اعلیٰ صفات کا ذکر ملتا ہے جن میں توکّل کی صفت بھی ہے۔
اس بارے میں ایک روایت میں یوں ذکر آتا ہے۔ حضرت عطا بن یسار ؓ سے روایت ہے آپؓ بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے ملا۔ مَیں نے کہا مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صفت کے متعلق بتائیں جو تو رات میں مذکور ہے۔ انہوں نے فرمایا۔ اللہ کی قسم! آپؐ کو تورات میں بعض ایسی صفات سے موصوف کیا گیا ہے جن سے قرآن میں بھی آپؐ کو موصوف کیا گیا ہے۔ پھر قرآنی آیت پڑھی کہ{ یٰٓاَیُّھَاالنَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا}(الاحزاب:46) کہ اے رسول ! یقینا ہم نے تجھے شاہد اور مبشراور ڈرانے والا بنا کر اور امیوں کے لئے محافظ بنا کر بھیجا ہے۔ توُ میرا بندہ اور رسول ہے۔ سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّل مَیں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے۔ یہ تورات کی گواہی ہے۔ آپؐ ہمیشہ خداتعالیٰ پر توکّل کرنے والے ہیں۔ آگے روایت اس طرح چلتی ہے کہ آپؐ نہ تند خوہیں، نہ سخت(دل) اور نہ گلیوں میں شوروغوغا کرنے والے ہیں اور نہ بدی کا بدی سے جواب دینے والے ہیں۔ بلکہ درگزر کرنے والے اور معاف کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرگز آپؐ کو وفات نہ دے گا جب تک کہ آپؐ کے ذریعہ سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا(نہ) کر دے اور لوگ یہ کہنے لگیں کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور آپ ؐ کے ذریعہ سے اندھے بینا ہوں اور بہرے سننے لگیں اور دلوں کے پردے اٹھ جائیں۔ (بخاری -کتاب البیوع -باب کراھیۃ السخب فی السوق)
پس یہ وہ متوکّل انسان تھا جس کا نام سینکڑوں ہزاروں سال پہلے سے اللہ تعالیٰ نے مُتوکّل رکھ دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خود توکّل کے اعلیٰ نمونے دکھائے بلکہ اپنے ماننے والوں میں، اپنی امت میں بھی یہ وصف پیدا کرنے کی کوشش فرمائی۔ آپؐ کی زندگی میں جو توکّل کی مثالیں ملتی ہیں، ان میں سے چند مثالیں یہاں رکھتا ہوں۔ لیکن پہلے یہ مختصراً بتا دوں کہ توکّل کہتے کسے ہیں ؟ کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کو؟ کچھ کام نہ کرنے کو؟ اور صرف یہ کہنا کہ ہم بیٹھے ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری ضروریات پوری کر دے گا!۔ یہ توکّل نہیں ہے۔ بلکہ تمام وسائل کو بروئے کار لا کر، استعمال کر کے پھر اللہ تعالیٰ پر انحصار کرنا اور اس کے آگے جھکنا، یہ توکل ہے۔
اس کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں فرمائی ہے کہ:’’ توکل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر خود دعاؤں میں لگ جاؤ کہ اے خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر۔ صدہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں جو اُن اسباب کو بھی برباد اور تہ و بالا کر سکتے ہیں، اُن کی دست برد سے بچا کر ہمیں سچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا ‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 146۔ جدید ایڈیشن۔ الحکم جلد 7مورخہ24؍ مارچ 1903ء صفحہ10)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ جب بھی کوئی مشکل گھڑی آتی جس سے آپؐ کے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوتی تو آپؐ تمام ظاہری کوششیں کرنے کے بعد، تمام ظاہری اسباب استعمال کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔
چنانچہ ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ گھبراہٹ کے وقت آپؐ فرماتے کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے۔ وہ ربّ ہے۔ بڑے تختِ حکومت کا، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ آسمانوں کا رب ہے، وہ زمینوں کا رب ہے۔ وہ بزرگ تخت کا ربّ ہے۔ یعنی وہی ہر چیز کا مالک ہے، وہی اس کا ربّ ہے، اس لئے اسی پر ہر قسم کا انحصار ہونا چاہئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے مواقع پر بھی آپؐ اسی طرح توکل فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ اپنی طرف سے اسباب استعمال کر لئے اس کے بعد ہر چیز خدا پر چھوڑ دی۔ دیکھیں وہ واقعہ جب آپؐ اکیلے ہیں، طائف کے سرداروں کو تبلیغ کے لئے نکلے ہیں جنہوں نے ظلم کی انتہا کی۔ واپس آتے ہیں، بظاہر مکہ میں بھی داخل ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ایک خادم ساتھ ہیں، اور خادم پریشان ہے اب کیا ہو گا؟ لیکن آپؐ کو اپنے رب پر پورا توکّل ہے۔ چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے وہی خادم حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اب آپؐ مکہ میں کیسے داخل ہوں گے جبکہ وہ آپؐ کو نکال چکے ہیں۔ اِدھر بھی رستہ نہیں ہے، اُدھر بھی رستہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس شان توکّل سے جواب دیا کہ اے زید! تم دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ ضرور کوئی راہ نکال دے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کا مددگار ہے۔ وہ اپنے نبی کو غالب کرکے رہے گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سرداران قریش کو پیغام بھجوائے کہ آپؐ کو اپنی پناہ میں لے کر مکّہ میں داخلے کا انتظام کریں۔ سارے سرداروں نے انکار کیا۔ آخر ایک شریف سردار مطعم بن عدی نے آپؐ کو اپنی پناہ میں مکّہ میں داخل کرنے کا اعلان کیا۔ (ابن سعد۔ طبقات الکبری۔ ذکر سبب رسول اللہﷺ الی الطائف)
پس رواج کے مطابق آپؐ نے تدبیر تو کی لیکن توکل اپنے خدا پر ہی تھا اور اس تدبیر سے پہلے ہی آپؐ کو یقین تھا کہ میں ضرور داخل ہو جاؤں گا۔
پھر دیکھیں شان توکل اور یقین کہ اللہ تعالیٰ نیک کام میں ضرور مدد کرتا ہے۔ اس لئے ہر نیکی کے کام میں اس پر توکّل کرتے ہوئے اس کو سرا نجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے کہ مخالف ترین سردار قریش جو تھا اس کے پاس بھی ایک غریب آدمی کا حق دلوانے کے لئے تشریف لے گئے۔ چنانچہ اس واقعہ کا ذکریوں آتا ہے کہ :
ایک دفعہ اراشہ نامی شخص مکّہ میں کچھ اونٹ بیچنے آیا اور ابو جہل نے اس سے یہ اونٹ خرید لئے۔ مگر اونٹوں پر قبضہ کرلینے کے بعد قیمت ادا کرنے سے انکاری ہو گیا یا ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔ اس پر وہ شخص جو مکّہ میں اکیلا تھا، مسافر تھا، کوئی اس کا دوست ساتھی نہیں تھا بے یارو مددگار تھا، بہت پریشان ہوا اور چند دن تک اسی طرح ابو جہل کے پیچھے پھرتا رہا، اس کی منّت سماجت کرتا رہا۔ مگر ہر دفعہ اس کو اسی طرح ٹال مٹول سے جواب ملتا رہا، آخر ایک دن وہ کعبہ میں جہاں قریش سردار بیٹھے ہوئے تھے گیا، اور کہنے لگا کہ اے معززین قریش! آپ میں سے ایک شخص ابو الحکم ہے۔ اس نے میرے اونٹوں کی قیمت دبا رکھی ہے مہربانی کرکے مجھے اس سے دلوا دیں۔ قریش کو شرارت سوجھی، انہوں نے مذاقاًکہا کہ ایک شخص ہے محمد بن عبداللہ نامی وہ تمہیں یہ قیمت دلوا سکتا ہے، تم اس کے پاس جاؤ۔ ان کا تو یہی خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہ جائے گا تو آپؐ ہر حال میں انکار کریں گے۔ اور جب آپؐ انکار کریں گے تو ان لوگوں کو ایک تو مذاق اڑانے کا موقع ملے گا، دوسرے باہر سے آنے والے لوگوں کو آپؐ کی حیثیت کا پتہ لگ جائے گا۔ بہرحال جب یہ اراشہ وہاں پہنچا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنا مدعا بیان کیا کہ اس طرح مَیں نے ابو جہل سے رقم لینی ہے۔ قریش نے اس آدمی کے پیچھے بھی اپنا ایک آدمی بھیج دیا کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ بہرحال اس نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کہانی سنائی اور یہ ذکر کیا کہ ابو الحکم نے میری رقم دبا رکھی ہے اور مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ ہی ہیں جو میری رقم دلوا سکتے ہیں۔ آپؐ کی بڑی منت کی کہ مجھے یہ رقم دلوا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اٹھے اور کہا چلو مَیں تمہارے ساتھ چلتاہوں۔ ابو جہل کے مکان پر آئے اور دروازے پر دستک دی، اس کو باہر بلوایا۔ وہ با ہر آیا تو آپؐ کی شکل دیکھتے ہی ایک دم حیران پریشان ہو گیا۔ آپؐ نے کہا تم نے اس آدمی کی یہ رقم دینی تھی وہ تم ادا کردو۔ اس نے کہا ٹھہریں مَیں ابھی رقم لے کے آتا ہوں۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت ابو جہل کا رنگ بالکل فق ہو رہا تھا۔ کہا محمد! ٹھہرو مَیں ابھی اس کی رقم لاتا ہوں۔ چنانچہ وہ رقم لے کر آیا اور اسی وقت اس شخص کے حوالے کر دی۔ اور وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرکے چلا گیا۔ پھر وہ قریش کی مجلس میں دوبارہ گیا اور ان کا بھی شکریہ ادا کیا کہ تم نے مجھے صحیح آدمی کا پتہ بتایا تھا جس کی وجہ سے مجھے رقم مل گئی ہے۔ اس پر وہ جو سار ے رؤسا بیٹھے تھے بڑے پریشان ہوئے۔ پھر جب وہ آدمی جس کو پیچھے بھیجا تھا آیا تو اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔ اس نے یہ سارا قصہ سنایا تو یہ سب لوگ بڑے حیران تھے۔ تھوڑی دیر بعد ابو جہل خود بھی وہاں اس مجلس میں آ گیا تو اس کو دیکھتے ہی لوگوں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیاکہ فوری طور پر اندر گئے اور ساری رقم واپس کر دی۔ اس قدر تم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سے ڈر گئے تھے۔ اس نے کہا خدا کی قسم! جب مَیں نے محمد کو اپنے دروازے پر دیکھا تو مجھے یوں نظر آیا کہ اس کے ساتھ لگا ہوا ایک مست اور غضب ناک اونٹ کھڑا ہے اور مَیں سمجھتا تھا کہ مَیں نے اگر ذرا بھی چون وچرا کیا تو وہ اونٹ مجھے چبا جائے گا۔ (بحوالہ سیرت خاتم النبیین صفحہ 163-162۔ السیرۃ النبویۃ لأبن ھشام صفحہ281زیر أمر الأراشی الذی باع اباجھل ابلہ)
تو دیکھیں، جیسا کہ مَیں نے کہا، کفار نے تو اس نیت سے کہا تھاکہ آپؐ انکار کریں اور آپؐ کی سُبکی ہو اور باہر کے لوگوں پر آپؐ کا اثر نہ ہو۔ لیکن آپؐ کو اپنے خدا پر کامل توکّل تھا۔ اس لئے فوری طور پر اٹھے اور ساتھ چل دئیے۔ یہ نہ دیکھا کہ وہ کتنا بڑا سردار ہے اور کتنا میرا مخالف ہے۔ پھر کفار کا یہ خیال بھی شاید ہو کہ اگر چلے بھی گئے تو ابو جہل آپؐ سے سختی سے پیش آئے گا اور اس وقت اس شخص کے سامنے آپ ؐ کی حیثیت ظاہر ہو جائے گی۔ لیکن خداتعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اس توکّل کے نتیجہ میں کیسا انتظام فرمایا کہ وہ مجبور ہو گیا۔ ایسے حالات پیدا کئے، اس کو ایسا خوفناک قسم کا اونٹ آپؐ کے پیچھے نظر آنے لگا جس کی وجہ سے وہ فوری طو رپر گیا اور ساری رقم ادا کر دی۔
پھر ہجرت کے وقت دیکھیں خدائی وعدوں پر یقین اور توکل کی وجہ سے دشمن کے سامنے سے نکل گئے اور کسی قسم کا خوف اور ڈر آپؐ کی طبیعت میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ قریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے ان کے بڑے رؤساء آپؐ کے مکان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور مکان کو گھیرے میں لے لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کا نام لے کر اپنے گھر سے نکلے حالانکہ سارے سردار اور قبائل کے لیڈر آپؐ کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے لیکن ان کے ذہن میں یہ کبھی خیال بھی نہیں آ سکتا تھا اور کچھ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا کہ اس طرح اتنی جرأت سے ہمارے سامنے سے نکل سکتے ہیں۔ بہرحال آپ اپنی جگہ حضرت علی ؓ کو اپنے بستر پر لٹا کر وہاں سے نکلے اور پھر توکّل یہ بھی تھا اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین تھا کہ حضرت علی ؓ کو فرمایا کہ تم فکر نہ کرو میرے اس بستر میں لیٹ جاؤ۔ لیکن تمہیں یہ ضمانت ہے کہ تمہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
پھر جب آپؐ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار ثور میں پہنچے تو وہاں جا کر بھی توکّل کی کیا اعلیٰ مثال ہمیں نظر آتی ہے کہ جب دشمن کو گھر سے یہ پتہ لگا کہ آپؐ تو جا چکے ہیں۔ اور آپ کے بستر پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیٹے ہوئے ہیں تو اس وقت بڑے پریشان ہوئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں بھی گئے وہاں عورتوں سے زیادتیاں بھی کیں، سختیاں بھی کیں۔ پھر یہ لوگ جب آپ ؐ کی تلاش میں غار کے بالکل قریب پہنچ گئے اور اتنے قریب پہنچ گئے کہ ان کے قدم بھی نظر آنے لگ گئے تھے، ان کی باتیں بھی سنائی دینے لگ گئی تھیں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی یہ باتیں سن کر پریشان ہو رہے تھے۔ لیکن یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توکّل کی ایک اَور شان نظر آتی ہے۔ آپؐ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو فرماتے ہیں کہ پریشان نہ ہو۔ فرمایا {لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا}(التوبۃ:40) کہ گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر فرمایا کہ اے ابو بکر! تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔
ایک دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ!مَیں اپنی جان کے لئے نہیں گھبرا رہا اگر میں مارا جاؤں تو میں بس اکیلی جان ہوں لیکن خدا نخواستہ اگر آپؐ پر کوئی آنچ آئے تو پھر تو گویا ساری امت کی امت ہی مٹ گئی۔ تو آنحضورﷺ نے اس پر فرمایاکہ گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
پھر جب تین دن کے بعد غار سے نکلے اور مدینہ کی طرف سفر شروع ہوا تو اس وقت بھی توکّل کی ایک اور شان نظر آتی ہے۔ حضرت ابو بکرؓ صدیق نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑا دوڑائے ہوئے ان کے پیچھے آ رہا ہے۔ اس پر حضرت ابو بکرنے پھر گھبرا کر کہا یا رسول اللہ! کوئی ہمارا تعاقب کر رہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کوئی فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ کیسا اللہ پر توکل تھا۔ آپؐ کو یقین تھا، خدا پر توکّل تھا کہ ہم اس کی خاطر نکلے ہیں اس کے حکم سے نکلے ہیں وہ خود ہی ہماری حفاظت فرمائے گا۔
چنانچہ سراقہ خود اس واقعہ کو بیان کرتا ہے کہ مَیں ان کے تعاقب میں نکلااور جب مَیں قریب پہنچ گیا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور مَیں زمین پہ گر گیا۔ پھر تیر چلا کے فال نکالی تو فال اس کے اس تعاقب کے خلاف نکلی۔ لیکن پھر بھی کیونکہ لالچ تھا، کفار نے اعلان کیا ہوا تھا جو پکڑ کے لائے گا اس کو سو اونٹ ملیں گے۔ تو یہ جو سو سو اونٹوں کا لالچ تھا وہ اُس کو اِس بات پر مجبور کر رہا تھا کہ وہ فال کو تسلیم نہ کرے اور تعاقب کرے۔ اس نے پھرتعاقب شروع کیا۔ پھر گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور پھر گر گیا۔ یہ کہتا ہے کہ میں اتنی قریب پہنچ گیا تھا کہ آپؐ قرآن کریم پڑھ رہے تھے اور مَیں آپ ؐ کی تلاوت کی آواز سن رہا تھا۔ اور جب یہ صورتحال تھی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار مڑ کر پیچھے دیکھتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ آپؐ کو تو اپنے خدا پر پورا بھروسہ تھا، پورا یقین تھا، کامل توکل تھا کہ وہ حفاظت فرمائے گا۔ اس لئے محسوس ہی نہ کیا کہ پیچھے مڑ کر دیکھیں۔ بہرحال جب اس نے پھر فال نکالی تو پھر اس کے خلاف آئی۔ پھر اس نے تعاقب کرنا چھوڑ دیا، لیکن آپؐ کو آواز دے کر یہ کہا کہ مَیں اس نیت سے آیا تھا اور مَیں سمجھتا ہوں کہ میرا تعاقب غلط تھا اور مَیں واپس جا رہا ہوں۔ لیکن اس کی یہ درخواست تھی۔ دیکھیں کہاں تو وہ شخص جو پکڑنے آیا تھا اور کہاں یہ معاملہ کہ جب وہ اپنا سارا قصہ سنا کر جانے لگا تو اس نے آپؐ سے ایک تحریر لی کہ جب آپ ؐ کو سارے عرب پر غلبہ عطا ہو گا تو میرا بھی خیال رکھیں۔ اور پھر وہ اپنی امان کا پروانہ لے کرواپس مڑا کہ میرا خیال رکھا جائے گا۔ اس پر آپؐ نے سراقہ کو یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ تیرا کیا حال ہو گا جب کسریٰ کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے۔ سراقہ اس بات پر بڑا حیران ہوا۔ چنانچہ یہ بات بھی حضرت عمر ؓ کے زمانے میں پوری ہوئی۔ (تلخیص ازسیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 242-241)
پھر دیکھیں کفار نے آپؐ کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپؐ پر جنگ ٹھونسی۔ تو آپؐ معمولی تعداد صحابہ ؓ کے ساتھ جو پوری طرح ہتھیاروں سے بھی لیس نہ تھے اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے اپنے سے بڑی اور تعداد کے لحاظ سے بھی اور تجربے کے لحاظ سے بھی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے بھی، جو اچھی طرح لیس فوج تھی اس کے مقابلے پہ نکل کھڑے ہوئے۔ چنانچہ اس واقعہ کا ذکر یوں آتا ہے کہ جنگ بدر کے روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کی صف بندی کرنے اور انہیں تفصیلی ہدایت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگ گئے اور یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اِنْ تَھْلِک ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَہْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ کہ اے اللہ! یہ مسلمانوں کی جماعت اگر تو نے آج ہلاک کر دی تو پھر زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ (مسلم کتاب الجہاد والسیر- باب الأمداد بالملٰئکۃ فی غزوۃ بدر)
آپؐ ہاتھ پھیلائے مسلسل نہایت درد کے ساتھ یہ دعا کررہے تھے۔ راوی کہتے ہیں یہاں تک کہ جس شدت سے، تڑپ سے دعا ہو رہی تھی اس سے آپؐ کا جسم ہلتا تھا تو چادر آپؐ کے کندھوں سے گر جاتی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے، آپؐ کی چادر آپ ؐ کے کندھے پر ڈالی اور عرض کی کہ اے اللہ کے نبی! بس کریں، آپؐ نے اپنے رب سے بہت دعا کر لی ہے۔ اللہ ضرور آپؐ سے کئے ہوئے وعدے پورے کرے گا۔
یہ دعا، یہ گریہ وزاری، یہ آہ وبکا اس لئے نہیں تھی کہ آپؐ کو کوئی خوف تھا کہ پتہ نہیں خداتعالیٰ مدد کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ اگر ایسی کیفیت ہوتی تو تھوڑے سے اور معمولی ہتھیاروں کے ساتھ صحابہؓ کو لے کر جنگ کے لئے باہر نہ نکلتے۔ یہ دعا جو تھی یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے تھی اور یہ ضروری چیز ہے۔ اس لئے صف بندی کرنے کے بعد ان سب کو سمجھا کر کہ جنگ کے طریقے کیا ہوں، کس طرح جنگ کی جائے گی، کہاں کہاں کس نے کھڑے ہونا ہے۔ پھر آپؐ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ جو ظاہری سامان اور تدبیر تھی، جو اسباب ہمیں میسر تھے وہ تو ہم نے کر دئیے ہیں اور یہ سب کچھ تجھ پر توکّل کرتے ہوئے کیا ہے۔ اس لئے اے خدا ! اب اپنے وعدے کو بھی پورا کرنا۔ آج ان صحابہ ؓ کے ایمانوں میں اضافے اور اپنے توکّل میں زیادتی کے لئے اپنی مدد کے ایسے نظارے دکھا جو اِن کو ہمیشہ یاد رہیں۔ جو بعد میں آنے والوں کو بھی یادرہیں۔ جہاں تک آپؐ کے اپنے ذاتی یقین کا تعلق تھا وہ تو اس قدر تھا کہ آپؐ نے جنگ سے پہلے ہی یہ بتا دیا تھا کہ دشمن کا فلاں شخص کہاں گرے گا اور فلاں شخص کس طرح مرے گا۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ جنگ بدر کے دن جنگ سے قبل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان کی بعض جگہوں پر اپنے ہاتھ سے نشان لگائے اور فرمایا یہاں فلاں آدمی ہلاک ہو گا اور اس کے گرنے کی جگہ یہ ہے اور یہ فلاں دشمن کے ہلاک ہونے اور گرنے کی جگہ ہے۔ اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ کہتے ہیں کہ جہاں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشان لگایا تھا اس سے ذرا بھی فرق نہ ہوا اور ہر ایک کافر اسی جگہ ہلاک ہو کر گرا۔ (مسلم -کتاب الجہاد والسیر -باب غزوۃ بدر)
پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور توکّل کی ایک اور مثال۔ حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگی مہم پر گئے۔ جب حضورﷺ صحابہ ؓ کے ساتھ واپس آ رہے تھے تو دوپہر کا وقت ہوا اور قافلہ ایک وادی میں پہنچا جہاں بہت سے درختوں کے جھنڈ تھے۔ تو آپ ؐ نے بھی وہاں پڑاؤ ڈالا۔ اور مختلف لوگ مختلف جگہوں پر بکھر گئے۔ سائے میں بیٹھ گئے یا لیٹ گئے آرام کرنے لگے۔ آپؐ نے بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پہ لٹکا دی۔ (یہ عام واقعہ ہے اکثر نے سنا ہو گا) تھوڑی دیر بعد آپؐ کو کسی دیہاتی نے جگایا۔ ایک دیہاتی آپؐ کے پاس کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ آپ ؐ نے صحابہ ؓ کو آواز دے کر یہ سارا واقعہ سنایا کہ دیکھو میں سویا ہوا تھا یہ دیہاتی آیا اور اس نے مجھے جگا کر کہا کہ بتاؤ مجھ سے تمہیں کون بچائے گا۔ تو میں نے تین بار کہا اللہ، اللہ، اللہ۔ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور وہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع)
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب تلوار گر گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تلوار اٹھالی اور فرمایا کہ اب تمہیں کون بچا سکتا ہے۔ اس پر وہ بہت گھبرایا اور معافیاں مانگنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے جواب دیا میں یہ نہیں مانتا لیکن میں آپؐ سے یہ عہد کرتاہوں کہ آئندہ آپؐ سے کبھی نہیں لڑوں گا اور نہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوں گا جو آپؐ سے لڑتے ہیں۔ خیر آپؐ نے اس کو معاف کر دیا۔ اور جب وہ اپنے لوگوں میں واپس گیا تو اس نے جا کے اعلان کیا کہ میں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا میں سب سے بہتر ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر مغازیہﷺ، غزوۃ ذات الرقاع)
اب دیکھیں یہاں بھی جو شخص قتل کی نیت سے آیا تھا۔ ہاتھ جوڑ کر اپنی آزادی کی بھیک مانگ رہا ہے، اپنی جان بخشی کی بھیک مانگ رہا ہے۔
پھر جنگ احزاب ہے جس میں مسلمانوں پر انتہائی تنگی کے دن تھے۔ مدینہ میں رہ کر ہی دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اور یہ کسی خوف یا اللہ تعالیٰ پر توکّل کی کمی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ جنگی حکمت عملی کے تحت تھا۔ اور مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھودی گئی تھی کہ دشمن کے فوری طور پر یکدم حملہ کرنے سے اس خندق کی وجہ سے محفوظ رہا جا سکے۔ مسلمانوں کی ایسی حالت تھی، اکثر ان میں سے غریب تھے، اکثر روز کی روٹی کمایا کرتے تھے تو باوجود اس تنگی کے سب نے اکٹھے ہو کر اس خندق کی کھدائی میں حصہ لیا تاکہ ان حملوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ اور تمام عرب کے بہت سارے قبائل اکٹھے ہو کر حملہ آور ہوئے تھے۔ مختلف روایتوں میں ان کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے۔ بہرحال کم سے کم تعداد بھی 10ہزار بتائی جاتی ہے۔ کہیں 15ہزار ہے، کہیں 24ہزار ہے۔ ویسے تو 10ہزار کی تعداد بھی مدینہ کی آبادی کے لحاظ سے، اس چھوٹے سے شہر کے لحاظ سے بہت بڑی تعداد ہے۔ بہرحال مسلمان اپنی تنگی کے حالات اور غربت کے حالات کے باوجود اس مقابلے کے لئے اور تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اتنی بڑی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ اور یہ حکمت عملی تھی کہ تھوڑی تعداد ہے اس لئے شہر کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے آگاہ بھی کیا ہوا تھا۔ مسلمانوں کے ایمان میں مضبوطی بھی آ چکی تھی کثرت کو دیکھ کر مسلمان پریشان نہیں ہوئے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توکل نے تو مسلمانوں کو اس وقت توکل میں اور بھی بڑھا دیا تھا۔ اور مخالفین اور منافقین کی باتیں سننے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے تھے۔
پھر دیکھیں ثابت قدمی اور توکل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی کیسا انتظام کیا کہ آندھی اور طوفان نے کفار کو خوفزدہ کر دیا اور وہ بھاگ گئے اور بھاگے بھی ایسی افراتفری میں کہ بہت سارا اپنا سامان خوراک اور دوسرا سامان چھوڑ کر چلے گئے جو مسلمانوں کے کام آیا۔ تو یہ تھا اللہ تعالیٰ پر توکّل کا نتیجہ۔
انہیں دنوں میں جب اس جنگ کی تیاری ہو رہی تھی، خند ق کھودی جارہی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توکّل اور معجزے کی ایک اور مثال اس روایت میں ملتی ہے۔
حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ جب ہم خندق کھو د رہے تھے تو ایک سخت چٹان آئی اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ چٹان آ گئی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا مَیں آتا ہوں۔ اور پھر آپؐ اٹھے اور اس حال میں کہ آپؐ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے کیونکہ ہم نے تین دنوں سے کچھ بھی نہ کھایا تھا، رسول کریم ؐ نے کدال پکڑی اور چٹان پر ضرب لگائی تو چٹان ریزہ ریزہ ہو گئی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ مَیں گھر سے ہو آؤں۔ چنانچہ آپؐ نے اجازت دی۔ حضرت جابر ؓ اپنے گھر آئے، اپنی بیوی سے کہا کہ مَیں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حالت دیکھی ہے کہ جس پر میں صبر نہیں کر سکتا۔ کیا تیرے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے؟۔ تو اس نے کہا میرے پاس کچھ جو اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَوپیسے یہاں تک کہ ہم نے گوشت ہنڈیا میں ڈال دیا۔ اور میں رسول کریمﷺ کے پاس اس حالت میں پہنچا کہ ہنڈیا پکنے کو تیار تھی۔ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہ! ہمارے ہاں کچھ کھانا تیار ہے بس آپ تشریف لے آئیں اور ایک دواورآدمی ہمراہ لے آئیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کھانا کتنا ہے؟ مَیں نے صورت حال بیان کر دی تو آپؐ نے فرمایا کہ بہت ہے اور عمدہ ہے، کَثِیرٌطَیّبٌ۔ جاؤ اور اپنی بیوی سے کہہ دو کہ اس وقت تک ہنڈیا نہ اتارے اور تنور میں روٹی نہ لگائے جب تک مَیں نہ آ جاؤں۔ پھر آپؐ نے اعلان کر دیا کہ سب چلو۔ تمام مہاجرین اور انصار چل پڑے۔ وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچے اور کہا تیرا بھلا ہو حضورؐ تو سب صحابہ ؓ کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں۔ اس نے کہا حضورؐ نے تم سے صورت حال پوچھی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں پوچھی تھی اور مَیں نے سب حالات بتا دئیے تھے۔ بہرحال حضورؐ تشریف لائے اور آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا سب گھر میں آ جاؤ لیکن شور شرابہ نہیں کرنا۔ چنانچہ آپؐ روٹی اور سالن ڈال کر باری باری صحابہ کو دیتے جاتے۔ جبکہ آپؐ نے ہنڈیا اور آٹے کو ڈھانپ کے رکھا۔ اس کا ڈھکنا اٹھایا نہیں۔ اسی طرح آپؐ روٹی تقسیم فرماتے یہاں تک کہ سب نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور پھر بھی کھانا باقی بچ گیا اور آپؐ نے کہا خود بھی کھاؤ اور لوگوں کو بھی بھجواؤ۔ کیونکہ کافی عرصے سے لوگوں کو بھوک برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔ (بخاری -کتاب المغازی -باب غزو ۃ الخندق)
پس یہ آپؐ کا اللہ تعالیٰ پر کامل توکّل ہی تھا جس کی وجہ سے یہ یقین تھا کہ آپؐ کی دعا کی برکت سے اعجاز دکھا یا جائے گا۔ تھوڑے سے اسباب مہیا ہونے کی دیر تھی کہ سارے شہر نے ایک بکری کے بچے اور چند کلو آٹے سے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا۔ جب آپؐ کے پاس کچھ اسباب ہو جاتے تھے تو آپؐ ان کو استعمال کرتے تھے لیکن توکّل ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کیا کرتے تھے۔ آپؐ کی دعاؤں کی چند مثالیں میں یہاں پیش کرتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز سے فارغ ہو جاتے تو یہ دعا کرتے کہ اے اللہ! یہ میری دعا ہے اور تو اسے قبول کرنے والا ہے اور اے اللہ! میری یہ کوشش ہے اور توکل تجھ پر ہی ہے۔ (ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء مایقول اذا قام من اللیل الی الصلاۃ) جو بھی ان کے بعد دعائیں مانگتے ان کی قبولیت کے لئے دعا بھی کرتے اور پھر توکل کا اظہار بھی کرتے۔
پھر حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں تیری فرمانبرداری کرتا ہوں تجھ پر ایمان لاتا ہوں، تجھ پر توکل کرتا ہوں، تیری طرف جھکتا ہوں، تیری مدد سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہوں۔ اے میرے اللہ! میں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ تو مجھے گمراہی سے بچا۔ تو زندہ ہے تیرے سوا کسی کو بقا نہیں۔ جنّ وانس سب کے لئے فنا مقدر ہے۔ (مسلم- کتاب الذکر-باب فی التعوذ من سوء القضاء ودرک الشقاء وغیرہ)
پھر ایک دعا کا اس طرح ذکرآتا ہے کہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ جب آپؐ رکوع میں جاتے تو یہ دعا کرتے تھے کہ ’’اَللّٰھُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ اَسْلَمْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ أَنْتَ رَبِّیْ خَشَعَ سَمْعِیْ وَبَصَرِیْ وَدَمِیْ وَلَحْمِیْ وَعَظْمِیْ وَعَصْبِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ کہ اے اللہ مَیں نے تیرے لئے رکوع کیامیں تجھ پر ایمان لایا، تیرے لئے مسلمان ہوا، اور تجھ پر توکل کیا۔ تو ہی میرا رب ہے۔ میری سماعت اور بصارت، خون اور گوشت اور ہڈیاں اور اعصاب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں۔ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (النسائی- کتاب التطبیق – باب نوع آخر)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ:’’بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَضِلَّ اَوْ اُضَلَّ اَوْ اَزِلَّ اَوْ اُزَلَّ اَوْ اَظْلِمَ اَوْ اُظْلَمَ اَوْ اَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیَّ‘‘ یعنی اللہ کے نام کے ساتھ، اللہ تعالیٰ ہی پہ توکل کرتا ہوں۔ اے میرے اللہ میں گمراہ ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اسی طرح گمراہ کئے جانے سے بھی۔ پھسلنے اور پھسلائے جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ مَیں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے۔ اور اس بات سے بھی کہ مَیں کسی سے جہالت سے پیش آؤں اور اُس پر زیادتی کروں یا کوئی مجھ سے جہالت سے پیش آئے۔ (ترمذی ابواب الدعوات باب منہ دعاء :بسم اللّٰہ توکلت علی اللّٰہ)
یعنی اللہ ہی پر توکل کرتے ہوئے اللہ سے یہ دعا مانگتے تھے کہ اے اللہ! تجھ پر توکل کرتاہوں اس لئے مجھے ان سب برائیوں سے بچا کے رکھنا۔
پھر حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کے وقت نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے کہ:’’ اے اللہ! تیرے لئے ہر قسم کی تعریف ہے۔ تُو زمین و آسمان کا نور ہے۔ اور تیرے لئے ہر قسم کی تعریف ہے اور تو زمین و آسمان کو قائم کرنے والا ہے۔ تیرے لئے ہر قسم کی تعریف ہے تو زمین و آسمان کا ربّ ہے اور اس کا بھی جو ان کے درمیان ہے۔ توُ حق ہے اور تیرا وعدہ بھی سچ ہے، حق ہے۔ اور تیری لقا بھی حق ہے اور جنت بھی حق ہے اور آگ بھی حق ہے اور قیامت بھی حق ہے۔ پھر فرماتے کہ اللہ! مَیں نے تیری فرمانبرداری اختیار کی اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر توکل کیا اور تیری طرف ہی جھکا اور تیری خاطر ہی جھگڑا کیا اور تجھے ہی حکم بنایا۔ پس تو مجھے معاف فرما دے ہر وہ خطا جو مجھ سے سرزد ہوئی اور جو آئندہ ہو گی اور ہر وہ خطا جو پوشیدہ طور پر یا اعلانیہ طور پر کروں، بخش دے وہ گنا ہ جو مَیں نے پہلے کئے اور جو بعد میں کئے اور جومَیں نے نہ چھپائے اور جومَیں نے ظاہر نہ کئے اور تو ہی میرا معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (ترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء ما یقول اِذَا قام من اللیل)
گویا آپؐ کی ہر دعا میں اس بات کا ضرور اظہار ہوتا تھا کہ میری ہر حرکت اور ہر سکون ہر کام تجھ پر توکّل کرتے ہوئے ہی ہے۔ اور تیری ذات پر یقین اور توکّل کے بغیر میری کوئی زندگی نہیں ہے۔ اور سب کچھ جو میری بہتری اور بھلائی میں ہے تجھ پر توکّل کرتے ہوئے تجھ سے ہی مانگتا ہوں۔ پھر دیکھیں اپنی آخری بیماری میں بھی کس طرح توکّل کا اظہار کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس آپؐ نے سات یا آٹھ دینار رکھوائے۔ آخری بیماری میں فرمایا اے عائشہ! وہ سونا جو تمہارے پاس تھا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا وہ میرے پاس ہے۔ آپؐ نے فرمایا وہ صدقہ کر دو۔ پھر حضرت عائشہ ؓ کسی کام میں مصروف ہو گئیں۔ پھر ہوش آئی تو پوچھا کہ کیا صدقہ کر دیا ہے؟ انہوں نے کہا ابھی نہیں کیا۔ پھر آپؐ نے ان کو بھیجا کہ لے کے آؤ۔ آپ ؐ نے وہ دینار منگوائے، ہاتھ پر رکھ کر گنے اور فرمایا کہ محمدؐ کا اپنے رب پر کیا توکّل ہوا، اگر خدا سے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ دینار اس کے پاس ہوں۔ پھر حضور ؐ نے وہ دینارصدقہ کردیئے اور اسی روز آپؐ کی وفات ہوگئی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد۔ السیرۃ النبویۃ الشریفۃ۔ ذکر الدنانیر التی قسمھا رسول اللہﷺ فی مرضہ الذی مات فیہ)
تو آپ کو یہ فکر نہیں تھی کہ میرے بعد میرے بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔ بچے تھے، نواسے تھے، ان کے لئے کچھ چھوڑ جاؤں۔ اللہ تعالیٰ پر یہ توکّل تھاکہ وہ میرے بعد میری وجہ سے ان کا بھی کفیل ہوگا، ان کی ضروریات پوری کرتا رہے گا۔ اس لئے یہی حکم دیا کہ گھرمیں جوکچھ ہے فوری طورپر صدقہ کردو۔
پھرامت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا’’اگر تم اللہ پر توکّل کرو جس طرح کہ اس پر توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ ضرور تمہیں اسی طرح رزق دے گا جس طرح کہ پرندوں کو دیتاہے۔ جوصبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لَوٹتے ہیں۔ (ابن ماجہ ابواب الزھد باب التوکل والیقین)
تو یہاں آپ نے توکّل کرنے کے حق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل کا حق اس وقت ادا ہو سکتا ہے جب اس پر کامل یقین ہو۔ اس کی تمام قدرتوں اور اس کی صفات پر مکمل ایمان ہو۔ اس کے حکموں کی مکمل تعمیل ہو رہی ہو۔ تو جب تقویٰ کی ایسی حالت پیدا ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اپنے بندوں کا کفیل ہو جاتا ہے، ان کی ضروریات پوری کرتا ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ آپؐ نے امت کو یہ خوشخبری دی۔ حضرت حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سعید بن جبیرؓ کے پاس تھا انہوں نے کہا کہ مجھے ابن عباس نے بتایا کہ آنحضورؐ نے فرمایا میرے سامنے امتیں لائی گئیں۔ ان کے ساتھ ان کا نبی بھی تھا۔ ہر نبی کے ساتھ ایک گروہ تھا۔ ایک نبی کے ساتھ دس لوگ تھے، ایک نبی کے ساتھ پانچ تھے، ایک نبی کے ساتھ ایک تھا۔ پھر میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا۔ میں نے پوچھا اے جبریل! کیا یہ میری امت ہے۔ انہوں نے کہا نہیں لیکن افق کی طرف دیکھیں۔ مَیں نے دیکھاتو ایک بہت بڑا گروہ تھا جبریل نے کہا یہ ستّر ہزار ہیں جو تیری امت کے ہراول دستے کے طور پر ہوں گے اور ان سے حساب نہ لیا جائے گا، نہ انہیں عذاب دیا جائے گا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں حضرت جبریل نے کہا کہ وہ تعویذ گنڈے نہیں کرتے تھے اور نہ وہ دَم درُود کرتے تھے۔ اور نہ وہ بدشگون لیتے تھے اور اپنے رب پر توکّل کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بے حساب جانے والے ہیں۔ اس پر مجلس میں بیٹھے ہوئے عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے۔ انہوں نے عرض کی حضور! آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں بنا دے۔ تو آپؐ نے فرمایا: اے عکاشہ ! توُ بھی ان میں شامل ہے۔ (بخاری کتاب الرقاق باب یدخل الجنۃ سبعون ألْفًابغیر حساب)
تو آجکل کے حالات کے مطابق مسلمانوں میں تو یہ عموماً پایا جاتا ہے لیکن غیروں کی دیکھا دیکھی بعض احمدیوں میں بھی تعویذ گنڈوں پر اعتقاد پیدا ہو گیا ہے جو بالکل غلط چیز ہے۔ انڈیا پاکستان وغیرہ سے بھی اور بعض افریقن ممالک سے بھی بعض ایسے خط آتے ہیں جن سے ایسے لوگوں کی حالت کا پتہ لگتا ہے کہ ان کا بہت زیادہ اوٹ پٹانگ چیزوں پر اعتقاد بڑھ رہا ہے۔ پس اس روایت کی روشنی میں یہ دیکھیں اس سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔ کیونکہ وہی لوگ جو اللہ پر توکل کرتے ہیں اور ان برائیوں سے بچنے والے ہیں، ٹونے ٹوٹکوں سے بچنے والے ہیں۔ تعویذ گنڈوں سے بچنے والے ہیں، وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنا چاہئے اور اسی کی پناہ میں رہنا چاہئے۔ بلکہ آپؐ نے تو ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ بدشگونی شرک ہے۔ تو آپؐ نے تین مرتبہ یہ بات دوہرائی اور فرمایا کہ توکّل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے دور فرما دیتا ہے۔ یعنی اگر توکّل کامل ہے تو پھر اگر دل میں کوئی خیال بھی پیدا ہو گا تو شاید اس توکّل کی وجہ سے دور ہو جائے۔ اس لئے یہ جو بدشگونی اور اس قسم کی چیزیں ہیں ان چیزوں سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ شرک کے برابر ہیں۔ کتنا بڑاانذار ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم کے دل کی ہر وادی میں ایک گھاٹی ہوتی ہے۔ اور جس کا دل ان سب گھاٹیوں کے پیچھے لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتاکہ کون سی وادی اس کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے۔ اور جو اللہ پر توکّل کرتا ہے تو اللہ اسے ان سب گھاٹیوں سے بچا لیتا ہے۔ (ابن ماجہ کتاب الزھد باب التوکل)
یعنی دنیا کی ہوا و ہوس، خواہشات اور لالچ کی وادیاں ہیں جن سے دل بھرا ہوا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جہاں غیراللہ نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرنے کی بجائے دنیا کا خوف اور اس پر انحصار زیادہ ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ او ر خداتعالیٰ ہر موقعہ پر دل میں خیال آنے پر ایسے مواقع پیدا کر دیتا ہے کہ اس کا بندہ بچ جائے جس کو اللہ تعالیٰ پر کامل توکل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ واقعات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت ؐ اعلیٰ درجہ کے یک رنگ، اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیرنے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کوئی امید نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ خداتعالیٰ پر مکمل توکل تھا) ’’کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پروا نہ کی کہ تو حید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی۔ اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اٹھانا ہو گا۔ بلکہ تمام شدتوں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کرکے اپنے مولیٰ کا حکم بجا لائے۔ اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعاتِ خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکل کرکے کھلا کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا، اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کرنے والا ایک بھی ثابت نہیں ‘‘۔ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اول صفحہ111، 112)
یعنی یہ چیلنج ہے کہ ایسے حالات پیدا ہوئے۔ جہاں آپؐ کو سب سے زیادہ خطرہ تھا، بے تحاشا دشمنی تھی۔ اس کے باوجود آپ انتہائی ثابت قدمی سے اور مستقل مزاجی سے اپنے کام کو کرتے رہے اسی توکّل کی وجہ سے جو آپؐ کو خداتعالیٰ کی ذات پر تھا۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’تبتل کا عملی نمونہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ نہ آپؐ کو کسی کی مدح کی پروا، نہ ذم کی‘‘۔ (نہ کسی کی تعریف کی پرواہ تھی اور نہ یہ پرواہ کہ کوئی برا کہتا ہے یا نہیں کہتا)۔ ’’ کیا کیا آپؐ کو تکالیف پیش آئیں مگر کچھ بھی پرواہ نہیں کی۔ کوئی لالچ اور طمع آپؐ کو اس کام سے نہ روک سکا جو آپؐ خدا کی طرف سے کرنے آئے تھے۔ جب تک انسان اس حالت کو اپنے اندر مشاہدہ نہ کر لے اور امتحان میں پاس نہ ہو لے کبھی بھی بے فکر نہ ہو۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو شخص متبتّل ہو گا متوکّل بھی وہی ہو گا۔ ‘‘(یعنی جو خدا کی طرف لَو لگانے والا ہو گا اور دنیا کو کچھ نہیں سمجھتاوہی اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا بھی ہو گا۔ ) ’’گویا متوکل ہونے کے واسطے متبتّل ہونا شرط ہے۔ کیونکہ جب تک اور وں کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ ان پر بھروسہ اور تکیہ کرتا ہے اس وقت تک خالصتاً اللہ پر توکل کب ہو سکتا ہے۔ جب خدا کی طرف انقطاع کرتا ہے تو وہ دنیا کی طرف سے توڑتا ہے اور خدا میں پیوند کرتا ہے‘‘۔ (جب اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑو گے تو دنیا سے تعلق توڑو گے)۔ ’’اور یہ تب ہوتا ہے جبکہ کامل توکّل ہو۔ جیسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل متبتل تھے ویسے ہی کامل متوکّل بھی تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اتنے وجاہت والے اور قوم وقبائل کے سرداروں کی ذرا بھی پروا نہیں کی اور ان کی مخالفت سے کچھ بھی متأثر نہ ہوئے۔ آپؐ میں ایک فوق العادت یقین خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا۔ اسی لئے اس قدر عظیم الشان بوجھ کو آپؐ نے اٹھا لیا اور ساری دنیا کی مخالفت کی اور ان کی کچھ بھی ہستی نہ سمجھی۔ یہ بڑا نمونہ ہے توکل کا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ اس لئے کہ اس میں خدا کو پسند کرکے دنیا کو مخالف بنا لیا جاتا ہے۔ مگر یہ حالت پیدا نہیں ہوتی جب تک گویا خدا کو نہ دیکھ لے، جب تک یہ امیدنہ ہو کہ اس کے بعد دوسرا دروازہ ضرور کھلنے والا ہے۔ جب یہ امید اور یقین ہو جاتا ہے تو وہ عزیزوں کو خدا کی راہ میں دشمن بنا لیتا ہے۔ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اور دوست بنا دے گا۔ جائیداد کھو دیتا ہے کہ اس سے بہتر ملنے کا یقین ہوتا ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کی خاطر اگر جائیداد جاتی ہے تو اس سے بہترملنے کی امید ہوتی ہے)۔ ’’ خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدا ہی کی رضا کو مقدم کرنا توتبتّل ہے اور پھر تبتّل اور توکل توام ہیں۔ یعنی تبتّلکا راز توکّل ہے اور توکّل کی شرط ہے تبتّل۔ یہی ہمارا مذہب اس امر میں ہے‘‘۔ (الحکم جلد 5نمبر 37صفحہ 3پرچہ 10؍اکتوبر 1901ء)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے اور اسی پر توکل کرنے والے بنیں۔
خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍اپریل 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن، لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔