امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جماعت کی ذمہ داری
خطبہ جمعہ 6؍ مئی 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(اٰلِ عمران:111)
پھر فرمایا:۔
اس آیت میں جومَیں نے تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہے۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ یعنی ہم لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، بہترین لوگ ہیں۔ اور اب جبکہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش خبریوں کے مطابق آنے والے مسیح اور مہدی کوبھی مان لیا ہے جس نے اسلام کی بھولی ہوئی تعلیم کو دوبارہ ہم میں رائج کیا تو اس مسیح موعود کو ماننے کے بعد ہم یقینا بہترین لوگ ہیں۔ کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک تمام انبیاء کو مان کر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کا اعلان کیا ہے تو اس اعلان کے بعد ہماری ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس اعلان کے ساتھ کہ ہم احمدی مسلمان ہیں ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ کیونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بہترین امت کہلاتے ہو اس لئے کہ دوسروں تک تم نیکیوں کا پیغام پہنچاتے ہو اور ان کو برائیوں سے روکتے ہو۔ اور دوسروں کے بارے میں بھی ہمیشہ نیک سوچ رکھتے ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اچھے لوگ اس لئے ہو کہ صرف اپنے متعلق یا اپنے بیوی بچوں کے متعلق نہیں سوچتے یا اپنے خاندان کے متعلق یا اپنے قبیلے سے متعلق یا صرف اپنے ملک کے لوگوں کے متعلق نہیں سوچتے، بلکہ یہ سوچ رکھتے ہو کہ کوئی شخص چاہے وہ کسی خاندان کا ہو، کسی قبیلے کا ہو، کسی ملک کا ہو تم نے ہر ایک سے نیکی کرنی ہے اور ہر ایک کا دل جیتنا ہے۔ اور یہ تم پر فرض ہے کہ اس دل جیتنے کے لئے کبھی کسی سے کسی قسم کی برائی نہیں کرنی، بلکہ تمہارے ہر عمل سے محبت ٹپکتی ہو۔ اور یہ سب کام تم نے اس لئے کرنے ہیں کہ یہ خداتعالیٰ کا حکم ہے اور اس کے بغیر تمہارا اللہ تعالیٰ پر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ تو دیکھیں بہترین امت اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے نہیں بنایا کہ ہم مسلمان ہو گئے۔ جس طرح بہت سے مسلمانوں کو آپ دیکھتے ہیں، جن سے اگر تم پوچھو کہ مسلمان ہو تو کہتے ہیں کہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں۔ لیکن اگر ان کے عمل کو دیکھو تو نظر آئے گا کہ شیطان بھی ان لوگوں سے دور بھاگتا ہے۔ تو امت مسلمہ کا بہترین فرد ہونے کے لئے ضروری ہے کہ نیک عمل کرو اور برائیوں کو چھوڑو۔ جب اپنے عمل ایسے بناؤ گے تبھی تم دوسروں کو نیکیوں کا حکم دے سکتے ہو اور برائیوں سے روک سکتے ہو۔ ورنہ تو جب بھی تم اصلاح کی کوشش کرو گے تو تمہیں یہی جواب ملے گا کہ پہلے اپنے آپ کو درست کرو، اپنی اصلاح کرو۔
پس خیر امت نہ لوگوں کو دھوکہ دے کر بنا جا سکتا ہے اور نہ خداتعالیٰ کو دھوکہ دے کر بنا جا سکتا ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لئے، جماعت کو مضبوط کرنے کے لئے اچھی باتوں کو اپناؤ اور پھر آگے پہنچاؤ۔ اور جب ایسے عمل نیکیوں پر چلتے ہوئے اور برائیوں سے بچتے ہوئے انجام پا رہے ہوں گے تو پھر تبلیغ میں آسانی ہو گی۔ اور جماعت کے اندر بھی بہترین تربیت ہو رہی ہو گی۔ کیونکہ نیکیوں کو رائج کیا جا رہا ہو گا اور برائیوں سے روکا جا رہاہو گا۔ یہ نیک باتیں اور اچھی باتیں بے شمار ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے۔ مثلاً رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے، امانت ہے، دوسروں کی خاطر قربانی ہے، انسانی ہمدردی ہے، دوسروں کے متعلق اچھے خیالات رکھنے کی تعلیم ہے، سچ بولنا ہے، دوسروں کو معاف کرنا ہے، صبر کرنا ہے، انصاف سے کام لینا ہے، دوسروں پر احسان کرنا ہے، اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہے، ہر طرح کے گند، ذہنی بھی اور جسمانی بھی، سے اپنے آپ کو پاک رکھنا ہے۔ ذہنی گند یہ ہے کہ دماغ میں دوسرے کو نقصان پہنچانے یا اخلاق سے گری حرکتیں کرنے کا خیال دل میں آئے۔ پھر اچھی باتوں میں معاشرے میں آپس میں محبت اور پیار کو بڑھانا ہے۔ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا ہے، ہمسایوں سے، اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے اچھا سلوک کرنا ہے۔ خوش اخلاقی ہے، پھر جو اچھی حیثیت کے ہیں یعنی مالی لحاظ سے بہترحیثیت کے ہیں ان کو خود بھی غریبوں کا خیال رکھنا چاہئے اور اس تعلیم کو پھیلانا بھی چاہئے۔ اسی طرح بیشمار برائیاں ہیں جن سے انسان کو خود بھی رکنا چاہئے اور دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلانی چاہئے کیونکہ نیکیاں اختیار کرنے کے لئے برائیاں چھوڑنا از حد ضروری ہے۔
ان برائیوں میں سے بعض کی مثال دیتا ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن میں یہ برائیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ مثلاً کنجوسی کی عادت ہے یعنی دوسروں کی ضرورت کو دیکھ کر باوجود توفیق ہونے کے اس کی مدد نہ کرنا یا جماعتی چندوں میں ہاتھ روک کر رکھنا۔ پھر بدظنی کرنا ہے، دوسروں پر بلاو جہ الزام لگانا ہے، لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے، حسد کرنا ہے، لغو اور بیہودہ باتیں ہیں جن سے اپنے آپ کو اور جماعت کو فائدہ پہنچنے کی بجائے نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔ کسی کی غیبت کرنا ہے۔ جھوٹ بولنا ہے۔ جھوٹ بھی ایک بہت بڑی لعنت ہے جو انسان کو دوسرے گناہوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ خیانت کرنا ہے، اس میں آنکھ کی خیانت بھی ہے، مرد کا عورت کوبری نیت سے دیکھنا۔ کسی کی امانت میں خیانت بھی ہے۔ اس میں اور بھی بہت سی باتیں آ جاتی ہیں۔ مثلاً اپنا کام صحیح طرح نہ کرنا۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا نیکیاں اختیار کرنے کے لئے برائیاں چھوڑنی ہوں گی۔ کیونکہ نیکی اور بدی ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ اس لئے ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ جب بھی کسی نیکی کو اختیار کریں تو اس کے ساتھ ہی چند برائیاں بھی چھُٹ جائیں۔ اور اس طرح پھر ہر احمدی کا دل ہر برائی سے پاک ہو سکتا ہے۔ اور ہر ایک احمدی مسلمان جس کو نیکی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کا حکم ہے اسے سب سے پہلے اپنے آپ کو ہی برائیوں سے پاک کرنا ہو گا اور نیکیوں کو اختیار کرنا ہو گا۔ تبھی وہ دوسروں کو حکم دے سکتا ہے۔ ورنہ اگر ہم یہ نہیں کرتے تو ہم منافقت اور دوغلی باتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا سخت انذار فرمایا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جہنمی ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو وائل کی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے وسیلہ سے ایک لمبی روایت ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک شخص کو قیامت کے روز لایا جائے گا۔ پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کی انتڑیاں آگ میں پیٹ سے باہر نکل آئیں گی۔ اس پر وہ ان کے گرد اس طرح چکر لگائے گا جس طرح گدھا اپنے کھونٹے کے گرد چکر لگاتا ہے۔ پھر جہنم والے اس کے گرد جمع ہو جائیں گے۔ اور اس سے پوچھیں گے تمہارا کیا معاملہ ہے۔ کیا تو ہمیں معروف کام کرنے اور ناپسندیدہ امور کو ترک کرنے کا حکم نہ دیتا تھا؟ اس پر وہ کہے گا کہ میں تم کو معروف کام کرنے کا حکم دیتا تھا۔ مگر خود معروف کام نہ کرتا تھا۔ اور میں تم کو ناپسندیدہ افعال کا مرتکب ہونے سے روکتا تھا مگر میں خود ان کو بجا لاتا تھا تو دیکھیں کس قدر ڈرایا گیا ہے۔
اس لئے ہر احمدی کو جو نیکیوں کی تلقین دوسروں کو کرتا ہے خود بھی ان نیکیوں پر عمل کرنا چاہئے۔ اور خاص طور پر جن کے سپرد جماعت کی طرف سے یہ کام ہوتا ہے ان کو تو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اس کا فضل مانگنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔
اگر یہ انذار سن کر کسی کو یہ خیال آئے کہ پھر تو بہتر ہے کہ مَیں خاموش رہوں اور کبھی نیکیوں کی تعلیم نہ دوں اور نہ بری باتوں سے روکوں جب تک کہ مَیں خود اس قابل نہیں ہو جاتا۔ اگر یہ خیال آئے گا تو انسان اپنی اصلاح سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ تعلیم دینا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ خداتعالیٰ کا حکم ہے۔ پس ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیکیوں کی تعلیم بھی دے اور ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرتا رہے، اپنا جائزہ بھی لیتا رہے کہ میری اصلاح ہو رہی ہے کہ نہیں۔ یہ انتہائی ضروری امر ہے۔
اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور امر بالمعروف کرو اور تم ضرور ناپسندیدہ باتوں سے منع کرو۔ ورنہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پراپنا عذاب نازل کرے۔ اور عذاب نازل ہونے کے بعد تم دعا کرو گے مگر تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔ (ترمذی۔ ابواب الفتن۔ باب ماجاء فی الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر)
تو آئندہ آنے والی ہر مصیبت سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک مومن نیک باتوں کی طرف لوگوں کو بلائے اور برائیوں سے انہیں روکے۔ تو جیسا کہ فرمایا کہ اس کام کو نہ کرنے کی و جہ سے تم پر عذاب آ سکتا ہے اور پھر دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ نیک کام کرنے کی و جہ سے تمہاری دعائیں بھی قبول ہوں گی اور تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل بھی ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیک باتوں کے کرنے اور پھیلانے اور اسی طرح برائی سے رُکنے اور دوسروں کو روکنے کے بارے میں اس طرح توجہ فرماتے تھے کہ آپ نے نیک کام نہ کرنے والے سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی فرمایا کرتے تھے کہ نیکیاں کرو اور نیکیاں بجا لاؤ۔
چنانچہ ایک روایت میں آپؐ فرماتے ہیں ’’و ہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے بچوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بوڑھوں کی عزت اور احترام کا حق ادا نہیں کرتا اور معروف باتوں کا حکم نہیں دیتا اور ناپسندیدہ باتوں سے منع نہیں کرتا۔ ‘‘ (ترمذی -کتاب البر والصلۃ – باب ما جاء فی رحمۃ الصِّبیان)
یعنی یہ معروف باتیں ہیں۔ اس حد تک کہ بچوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ کیونکہ ان سے حسن سلوک بھی نیک عمل میں ایک عمل ہے۔ اسی طرح بڑوں، بوڑھوں اور بزرگوں کی عزت کا اور احترام کا خیال رکھنا ہے اور اسی طرح اور دوسری نیکی کی باتیں ہیں جن کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ کرنی ضروری ہیں۔ اور جن برائیوں سے رُکنے کا حکم دیا گیا ہے ان برائیوں سے رُکنا بھی ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس طرح نہیں کرتے تو پھر میرا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نیکیوں کے کرنے اور برائیوں سے رکنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’پس زبان کو جیسے خداتعالیٰ کی رضا مندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے۔ اسی طرح امرِ حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی امر ہے۔ {یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} (آل عمران:115) مومنوں کی شان ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے۔ پس یاد رکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو۔ ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے۔ اور انداز بیان ایسا ہونا چاہئے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو۔ اور ایسا ہی تقویٰ کے خلاف بھی زبان کا کھولنا سخت گناہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 282-281 جدید ایڈیشن)
یعنی ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ حق کے اظہار کے لئے کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا کیونکہ جرأت سے نیکیوں کو پھیلانا، ان کے کرنے کاحکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہی ایک معیار ہے جس سے مومن ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن مومن کا عمل بھی اس کے مطابق ہونا چاہئے۔ جب اپنا عمل بھی ہو گا تب ہی اثر بھی قائم ہو گا۔ اور جب عمل ہو گا تو پھر سختی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایسے آدمی کی تلقین کا بھی لوگ نیک اثر لیں گے جن کے اپنے عمل بھی اچھے ہوں گے۔ آپ نے یہی تلقین فرمائی ہے کہ اگر سمجھانے والے کے دل میں تقویٰ ہے، سمجھانے والے کے دل میں نیکی ہے، سمجھانے والے کے دل میں خداتعالیٰ کا خوف ہے تو موقع کے مطابق اگر بات کرو گے تو نیک بات کا اثر ہو گا۔ لیکن موقع محل کے حساب سے تلقین کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی کی برائی دیکھ کر لوگوں کے سامنے ہی اس کو سمجھانے لگ جاؤ گے اور زبان میں تیزی پیدا کرو گے تو پھر دوسرا شخص جس کو تم سمجھا رہے ہو گے نیک اثر نہیں لے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر ضد میں آ کر برائی کرے۔ پس سمجھانے کے لئے بھی موقع اور وقت اور عمل اور تقویٰ ضروری ہے۔ اگر اس طرح عمل ہوں گے تو خداتعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس کے رحم کے بھی یقینا حقدار ہوں گے۔ کیونکہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو یہ نیک عمل کر رہے ہوں گے میں ان پر ضرور رحم کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔
جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے کہ ہر قسم کی برائی سے رُکنے اور ہر قسم کی نیکی اختیار کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان برائیوں اور نیک باتوں کی بعض کی مَیں نے مثالیں بھی دی ہیں، مختصر طور پر نام بتائے ہیں۔ اب ان برائیوں میں سے چند ایک کی وقت کے لحاظ سے کچھ تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ مثلاً غیبت ہے۔ کسی کا اس کے پیچھے برے الفاظ میں ذکر کرنا، قطع نظر اس کے کہ وہ برائی اس میں ہے یا نہیں۔ اگر اس کی کسی برائی کا اس کے پیچھے ذکر ہوتا ہے اور باتیں کی جاتی ہیں تو یہ غیبت ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بیعت لیا کرتے تھے تو اس بات پر خاص طور پر بیعت لیا کرتے تھے کہ غیبت نہیں کروں گا۔ توکتنی اہمیت ہے اس بُرائی کی کیونکہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھریہ بعض دفعہ جماعت میں فتنے کا باعث بنتی ہیں۔ اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس برائی کے متعلق بہت زور دے کر سمجھایا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں۔ لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کرکے دُور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں۔ کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دُور نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعے سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے‘‘۔
آپؑ نے فرمایا کہ: ’’ایک صوفی کے دو مرید تھے۔ ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا۔ دوسرے نے صوفی سے شکایت کی۔ اس نے کہا توُ بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جا کر اٹھا نہیں لاتا۔ وہ اُسی وقت گیا اور اسے اٹھا کر لے چلا۔ کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اسے اٹھا کر لے جا رہاہے‘‘۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ ’’صوفی کا یہ مطلب تھا کہ توُ نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی‘‘۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے برا لگے غیبت ہے۔ اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور توُ بیان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے :۔ { وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔ اَ یُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا} (الحجرات:13) اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیرکیا گیا ہے۔ اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ بات نہیں ہے تو یہ آیت بیکار جاتی ہے۔ اگر مومنوں کو ایسا ہی مطہّر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی؟۔ بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے۔ بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے۔ بعض میں کچھ طاقت آ گئی ہے۔ پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔ اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے۔ اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضاء و قدر کا معاملہ سمجھے۔ جب خداتعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سردست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے۔ قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے۔ بلکہ لکھا ہے اَلْقُطْبُ قَدْ یَزْنِیْ، قطب سے بھی زنا ہو جاتا ہے۔ بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے۔ جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے۔ کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پوری کوشش کرتا ہے۔ ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو۔ بلکہ وہ فرماتا ہے{ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ} (البلد:18) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مَرْحَمَۃیہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے۔ اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سَومرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو‘‘۔ (آپ نے یہاں فارسی کاایک شعر بیان فرمایا ہے اس میں لکھا ہے کہ) ’’خداتعالیٰ تو جان کر پردہ پوشی کرتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کو تو علم ہے اس کے باوجود پردہ پوشی کرتا ہے) مگر ہمسایہ کو علم نہیں ہوتا اور شور کرتا پھرتا ہے۔ خداتعالیٰ کا نام ستّار ہے۔ تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ بنو۔ ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آ گیا ہے تویہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے۔ شیخ سعدیؒ کے دو شاگرد تھے۔ ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کیاکرتا تھا۔ دوسرا جلا بھنا کرتا تھا۔ آخرپہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب مَیں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے۔ شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور توُ نے غیبت کی۔ غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم، دعا، ستّاری اور مَرْحَمَۃ آپس میں نہ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ61-60جدید ایڈیشن- البدر صفحہ 4مورخہ 8؍ جولائی 1904ء)
پس اس سے واضح ہو گیا کہ غیبت کتنی بری چیز ہے اور کتنی بڑی برائی ہے۔
پھر ایک برائی ہے جھوٹ، کوئی شخص اگر ذرا سی مشکل میں بھی ہو تو اس سے بچنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لے لیتا ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جھوٹ کو برائی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ جھوٹ ایسی برائی ہے جو سب برائیوں کی جڑ ہے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک برائی سے چھٹکارہ پانے کی درخواست کرنے والے کو یہی فرمایا تھا کہ اگر ساری برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو ایک برائی کو چھوڑ دو اور وہ ہے جھوٹ۔ اور یہ عہد کرو کہ ہمیشہ سچ بولو گے۔ اب بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ صرف اتنا ہے کہ عدالت میں غلط بیان دے دیا۔ اگر چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تو جھوٹ بول کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ اگر کوئی غیر اخلاقی حرکت کی تو جھوٹ بول دیا۔ یا کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دے دی اور بلاوجہ کسی کو مشکل میں مبتلا کر دیا۔ یقینا یہ سب باتیں جھوٹ ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی غلط بیانیاں کرنابھی جھوٹ ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے ہمیں اس کی ایک مثال دی ہے۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جھوٹ کی تعریف کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا آؤ میں تمہیں کچھ دیتا ہوں اور اسے دیتا کچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہو گا۔ یہ جھوٹ کی تعریف ہے۔ اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو پتہ چلے گا کہ ہم روزانہ کتنی دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ بول جاتے ہیں۔ مذاق مذاق میں ہم کتنی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جھوٹ ہوتی ہیں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اگر ہم اس بارے میں گہرائی میں جا کر توجہ کریں گے۔ تب ہم اپنے اندر سے اور اپنے بچوں کے اندر سے جھوٹ کی لعنت کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’قرآ ن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رِجْس قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے{ فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ} (الحج: 31) دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے۔ اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بُت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمّع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہا ں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دُور نہیں ہوتا۔ مدت تک ریاضت کریں تب جا کر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہو گی‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 266 جدید ایڈیشن- الحکم صفحہ1تا 3 مورخہ24؍ اگست 1902ء)
تو دیکھیں کتنی سچی بات آپؑ نے فرمائی ہے۔ ہم روزانہ اپنی زندگی میں تجربہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی جھوٹ بولنے والا سچ بھی بول دے تو تب بھی ہم اس کو جھوٹا ہی سمجھتے ہیں۔ نیکی اور برائی کے ضمن میں ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض نیکیوں اور بعض برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ اس بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بندے کے دل میں ایمان اور کفر جمع نہیں ہو سکتے اور نہ سچائی اور کذب بیانی اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اور نہ ہی دیانت داری اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ349 مطبوعہ بیروت)
تو پہلی بات تو آپ نے یہ فرمائی کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص جس کے دل میں ایمان ہو وہ کفر کی باتیں بھی کہے۔ جیسا کہ ہم شروع میں آیت میں دیکھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نیکیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہیں۔ اور اس حدیث کے مطابق جو یہ نہیں کرتے ان کے دل میں کفر ہے۔ کیونکہ یہ ہو نہیں سکتاکہ سچائی جواللہ تعالیٰ کا پیغام ہے اور جھوٹ جو کافروں کا عمل ہے ایک جگہ اکٹھے ہو سکیں۔ اور اسی طرح دیانتداری جو ایمان کاحصہ ہے اور خیانت، کسی کا مال کھانا، کسی کام کو صحیح طور پر نہ کرنا جویقینا ایک مومن کی شان نہیں، ایک جگہ جمع کیونکر ہوسکتے ہیں ؟۔
پس ہم جو احمدی مسلمان ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے حکموں پر چلیں گے اور سب برائیوں کوچھوڑیں گے اور تمام نیکیوں کو اختیار کریں گے۔ ہمیں ہر برائی کو چھوڑنے کی بھرپورکوشش کرنی چاہئے۔ اگرانسان کا ارادہ پکا ہو، اوراللہ تعالیٰ سے فضل مانگ رہے ہوں تو یہ ہو نہیں سکتاکہ برائیاں نہ چھٹیں اور آپ اس قابل نہ ہوسکیں کہ دوسروں کو نیکیوں کی تلقین کرنے والے بنیں۔ سچ کو مان کرپھر انسان جھوٹ کس طرح بول سکتاہے اور امانت کی ادائیگی کاعہد کرکے پھر کس طرح خیانت ہو سکتی ہے۔ پس ہر احمدی جو بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہواہے اس کا بیعت کا عہد بھی ایک امانت ہے۔ اور کبھی کسی احمدی کو احمدیت کی تعلیم پر عمل نہ کرکے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہ کرکے خیانت کا مرتکب نہیں ہونا چاہئے۔ پس ہر احمدی اس پرسختی سے عمل کرے کہ نہ تو ذاتی طورپر اور نہ جماعتی طورپر خیانت کا مرتکب ہوگا۔ اگر کسی کے سپرد کوئی جماعتی خدمت ہے تو وہ اسے نہایت ایماندار ی سے ادا کرے گا۔ اگر کسی کو جماعتی اموال کا نگران بنایا گیاہے تو وہ اس کی نہایت ایمانداری سے حفاظت کرے گا اور کبھی کسی خیانت کا مرتکب نہیں ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایاہے کہ تم اپنی امانت کی ادائیگی کے معیاروں کو اس قدربلند کرو کہ اگردنیاوی معاملات میں بھی کوئی شخص تمہارے ساتھ خیانت سے پیش آچکاہے توپھربھی تم اس سے خیانت نہ کرو۔ اگر اس کی کوئی امانت تمہارے پاس ہے تواس کو لوٹا دو۔ توپھر دین کے معاملے میں اس کا کس قدر احساس ہمیں رکھناچاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ امانت و دیانت …… یعنی دوسرے کے مال پر شرارت اور بدنیتی سے قبضہ کرکے اس کو ایذا پہنچانے پر راضی نہ ہونا۔ سو واضح ہو کہ دیانت اور امانت انسان کی طبعی حالتوں میں سے ایک حالت ہے۔ اسی واسطے ایک بچۂ شیرخوار بھی جو بو جہ اپنی کم سنی اپنی طبعی سادگی پر ہوتا ہے۔ اور نیز بباعث صغر سنی ابھی بری عادتوں کا عادی نہیں ہوتا۔ اس قدر غیر کی چیز سے نفرت رکھتا ہے کہ غیر عورت کا دودھ بھی مشکل سے پیتا ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 344)
تو دیکھیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی یہ فطرت بنائی ہے کہ ایک بچہ جس کو دنیا کا کچھ بھی پتہ نہیں وہ بھی اپنا حق پہچانتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ دوسری عورت کا دودھ پینا خیانت ہے۔ اگر ضرورت ہو توآخر اس کو کوشش کے بعد دوسری عورت کا دودھ پینے کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ لیکن بڑے ہو کر ماحول کے زیر اثر بہت سے لوگ اکثر معاملات میں خیانت کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور انبیاء اس ماحول کے اثر کو پاک کرنے اور نیک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں۔ اب ہم جو احمدی ہیں اور جنہوں نے اس زمانے میں مسیح موعود ؑ کی بیعت کی ہے۔ آپ کو مانا ہے، ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ہر قسم کی خیانت سے بھی بچنا چاہئے۔ جھوٹ سے بھی بچناہے دوسری برائیوں سے بھی بچنا ہے۔ اور نہ صرف بچنا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور ایک مومن کی جو اللہ تعالیٰ نے نشانی بتائی ہے، اس نشانی کے مطابق ان برائیوں سے دوسروں کو بھی بچانا ہے اور ان کو بھی نیکیوں کی تعلیم دینی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنے اپنے دائرے میں اس عمل کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو مضبوط احمدی بنائے جو اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔ آمین۔
انشاء اللہ اگلے دو دن تک مَیں اگلے دو ملکوں کے دورے پر جاؤں گا۔ اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت کرے۔ ہر لحاظ سے اپنی مدد اور نصرت فرماتا رہے۔ آمین
خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ مئی 2005 ء بمقام مسجد بیت الرحمن، ممباسہ، کینیا (مشرقی افریقہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔