ہماری کامیابی کی ضمانت۔تقویٰ کا اعلیٰ معیار
خطبہ جمعہ 13؍ مئی 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔ حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے۔ جیسا کہ اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ (الانفال: ۳۰)
وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ (الحدید: ۲۹)
یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اِتّقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خداتعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گاجس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے۔ یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قُویٰ اور حواس میں آ جائے گا۔ تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا۔ تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا۔ اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہار ے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا۔ اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں، تمہارے قویٰ کی راہیں، تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے‘‘۔ (آئینہ کمالَاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ178-177)
یہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ صرف دعویٰ ہی کافی نہیں کہ مَیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور اس کا تقویٰ اختیار کرتا ہوں۔ بلکہ اگر اپنے ہر عمل سے یہ ثابت کرو گے کہ اگر مجھے کوئی خوف ہے تو صرف خدا کا خوف ہے، اگر مجھے کوئی خوف ہے تو صرف یہ کہ میرا خدا مجھ سے ناراض نہ ہو جائے، مَیں کوئی ایسا کام نہ کروں جو اس کی ناراضگی کا باعث بنے۔ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ مجھے خدا محبوب ہو۔ اور پھر یہی نہیں کہ کبھی اس کا اظہار ہو گیا اور کبھی نہ، بلکہ اب یہ تمہاری زندگیوں کا حصہ بن جانا چاہئے۔ کوئی دنیاوی لالچ اور کوئی رشتہ تمہیں خداتعالیٰ سے زیادہ محبوب نہ ہو، تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گیا ہے۔
تقویٰ کی وضاحت کرتے ہوئے آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’تقویٰ کے بہت سے اجزء ہیں۔ عُجب، خود پسندی، مال حرام سے پرہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 50 جدید ایڈیشن- رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 83)
یہ چند برائیاں گنوا کر آپؑ نے یہی فرمایا ہے کہ تمام برائیوں سے اس لئے بچنا اور تمام نیکیوں کو اس لئے اختیار کرنا ہے کہ اللہ کاپیار حاصل ہو۔ اور اسی کا نام تقویٰ ہے۔ اور جب تم یہ معیار حاصل کر لو گے تو سمجھو کہ تم نے خداتعالیٰ کا پیار حاصل کر لیا ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے گا تو یاد رکھو کہ وہ انسانوں کی طرح پیار نہیں کرتا کہ کبھی دوستی نبھائی اور کبھی نہ نبھائی او رکبھی پرواہ نہ کی۔ بلکہ جوشخص تقویٰ پر قائم ہو جائے تو ایسے شخص کا اللہ تعالیٰ اس قدرفکر کرتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش سے پتہ لگ رہا ہو گا کہ یہ شخص وہ ہے جو تقویٰ پر قائم ہے اور ایک دنیا دار میں اور اُس میں ایک واضح فرق ہے۔ تقویٰ پر قائم شخص کو اللہ تعالیٰ سرتاپا نورانی بنا دیتا ہے۔ اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو ہی نہیں سکتی جس سے اللہ تعالیٰ کے نور کا اظہار نہ ہو رہا ہو۔ اس کا ہر عمل، اس کا ہر فعل اور اس کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہو رہا ہو گا۔ اور ایسا شخص جب کسی مجلس میں جائے گا، جہاں بھی جائے گا اس کا ایک رعب ہو گا۔ خداتعالیٰ کی تائید اس کے ساتھ ہوگی۔ پس آپؑ فرماتے ہیں کہ یہی تقویٰ ہے جو ہر احمدی میں ہونا چاہئے۔ اگر ہر احمدی یہ حاصل کر لے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق تم میں اور غیر میں ایک واضح فرق ظاہر فرما دے گا۔ پس ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہئے کہ ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جماعت احمدیہ کی فتح اور اس کا غلبہ دنیاوی ہتھیاروں کے ذریعہ سے نہیں ہونا بلکہ یہ نیکیاں اور تقویٰ ہے جو ہماری کامیابی کے ضامن ہیں۔ ورنہ دنیاوی لحاظ سے تو نہ ہمارے پاس طاقت ہے اور نہ وسائل ہیں۔ دنیاوی وسائل کے لحاظ سے تو ہم غیر کا ایک منٹ بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر ہم میں تقویٰ پیدا ہو جائے گا، اگر ہم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کر لیں گے، اگر ہم اپنے دل میں خداتعالیٰ کی محبت پیدا کر لیں گے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمہیں وہ طاقتیں عطا کروں گا جن کا کوئی غیراور کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خاص تبدیلی پیدا کرے۔ اپنے تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہو کر ہم نے جو یہ عہد کیا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں گے، اس کی عبادت بجا لائیں گے، اس کے حکموں پر عمل کریں گے، دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے، مخلوق کے حقوق ادا کریں گے، اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھائیں گے، کسی کا حق نہیں ماریں گے، تکبر نہیں کریں گے، بیوی خاوند اور خاوند بیوی کے حقوق ادا کرے گا اور صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ یہ حقوق ادا کر وتو تبھی ہم متقی کہلا سکتے ہیں۔ جب یہ سارے حقوق ادا کر یں گے تو ہی متقی کہلا سکیں گے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی اس لئے ڈالتا ہے کہ خدا کی رضا حاصل کروں تو اللہ تعالیٰ اس کا بھی ثواب دیتا ہے۔ پس جو کام بھی آپ اللہ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اور اس کے پیار کو حاصل کرنے لئے کریں گے وہ تقویٰ ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس سوچ کے ساتھ آپ اپنا ہر فعل کر رہے ہوں گے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت کبھی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اور نہ صرف آپ جماعتی لحاظ سے مضبوط ہوں گے بلکہ ذاتی طور پر بھی معاشرے میں آپ کا مقام بلند ہو گا۔ آپ کے مال اور اولاد میں خداتعالیٰ برکت نازل فرمائے گا اور آپ کو عزت کا مقام عطا فرمائے گا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے{اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ} (الحجرات:14) یعنی اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ معزز کہے اسے پھر دنیا میں ذلیل ہونے کے لئے چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ جو سب دوستوں سے زیادہ دوستی کا حق ادا کرنے والا ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا داروں کے مقابلے میں اپنے بندے کو ذلیل و رسوا کرائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انبیاء کو دنیاداروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ دنیا دار ہر کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اس کے پیغام کو پھیلنے نہ دیں۔ دنیا کی نظر میں اس کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر کیا خدا نے کبھی ان کو چھوڑا ہے؟ کبھی نہیں۔ نبی تو پھر خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرماتا ہے اور دنیا میں کامیاب کرکے چھوڑتا ہے یا نہ ماننے والوں کو سزا کے طور پر مختلف شکلوں میں عذاب دیتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ایک عام آدمی کو بھی جو تقویٰ پر قائم ہو، نہیں چھوڑتا۔ جو اُس سے تعلق جوڑ لیتا ہے وہ اپنے وعدے کے مطابق اس کی عزت قائم کرتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس میں استحکام ہونا چاہئے، اس میں مستقل مزاجی ہونی چاہئے، اور ذرا سے ابتلا سے دنیا سے ڈر کر جو سب دوستوں سے بڑھ کر دوست اور ولی ہے اس کا در چھوڑ نہیں دینا چاہئے۔ اگر مستقل مزاجی سے اس کے دَر پر جھکے رہیں گے اور اس کا دامن پکڑے رہیں گے تو وہ نہ صرف ہر مشکل سے بچائے گا بلکہ رعب بھی قائم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ تو ایسا باوفا دوست ہے کہ اپنے بندوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کی تکلیفیں دور کرنے کی فکر میں بھی رہتا ہے اور ان کے لئے ان تکلیفوں کو دور کرنے کے راستے نکالتا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے {وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا} (الطلاق:3) یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے تکلیفوں اور پریشانیوں سے بچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے در پر آنے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے متعلق یہ بھی فرماتا ہے کہ مَیں ان کے رزق میں بھی برکت ڈالتا ہوں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بے تحاشا مال ہونا بھی رزق میں برکت ہے۔ ٹھیک ہے اگر کسی نیک آدمی کے پاس مال ہے تو یہ اُس پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس سے وہ اپنے ساتھ اپنے بھائیوں کی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ مال میں برکت اس طرح بھی ڈالتا ہے کہ ایک بندے کو بہت سی لغویات اور گناہوں سے بچا کر رکھتا ہے۔ مثلاً جوا، شراب، زنا وغیرہ سے بچایا ہوا ہے۔ اور اسی رقم سے جہاں ایک احمدی مسلمان اپنے بیوی بچوں کے خرچ بھی برداشت کرتا ہے اور چندے بھی دیتا ہے وہاں اتنی رقم سے لغویات اور گناہوں میں مبتلا ایک شخص کے گھر میں ہر وقت دنگا فساد اور بے برکتی ہی رہتی ہے اور غلاظت اور پھٹکار ہی ہر وقت ایسے گھروں میں پڑی رہتی ہے۔ غرض ایک برکت جو ایک متقی کے پیسے میں ہے وہ غیر متقی کے پیسے میں نہیں۔ پھر ضروریات زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ متقی شخص کے لئے ایسے ذرائع سے رقم کا انتظام کر دیتا ہے جو اس کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ {وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھَُوَ حَسْبُہٗ} (الطلاق:4) یعنی متقی کو اللہ تعالیٰ وہاں سے رزق دے گاجہاں سے رزق آنے کا اس کو خیال بھی نہیں ہو گا۔ اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ تو جب اس حد تک تقویٰ بڑھ جائے گا کہ انسان اس پر توکل کرتے ہوئے غیراللہ کے سامنے نہ جھکے تو پھر وہ خداتعالیٰ کے دینے کے نظارے بھی دیکھتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کرکے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا{وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ} (الطّلاق:4`3) جو شخص خداتعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتاہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں۔ یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اُس کا کام نہیں چل سکتا اِس لئے دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بھولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں۔ خداتعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اُسے ایسے موقع سے بچا لیتا ہے جو خلافِ حق پر مجبور کرنے والے ہوں۔ یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا۔ جب رحمن نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 34۔ ملفوظات جلد 1 صفحہ 8 جدید ایڈیشن)
پھرآپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور حاجات مختلفہ رکھتا ہے۔ اور ان کے حل او ر روا ہونے کے لئے بھی تقویٰ ہی کو اصول قرار دیا ہے۔ معاش کی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہ نجات تقویٰ ہی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’{وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ} (الطّلاق:4-3) متقی کے لئے ہر مشکل میں ایک مَخْرج پیدا کر دیتاہے اور اس کو غیب سے اس سے مخلصی پانے کے اسباب بہم پہنچا دیتا ہے۔ اُس کو ایسے طور سے رزق دیتا ہے کہ اس کوپتہ بھی نہ لگے۔ اب غور کر کے دیکھ لو کہ انسان اور دنیا میں چاہتا کیا ہے۔ انسان کی بڑی سے بڑی خواہش دنیا میں یہی ہے کہ اس کوسُکھ اور آرام ملے۔ اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ مقرر کی ہے جو تقویٰ کی راہ کہلاتی اور دوسرے لفظوں میں اس کو قرآن کریم کی راہ کہتے ہیں۔ اور یا اس کا نام صراط مستقیم رکھتے ہیں۔ کوئی یہ نہ کہے کہ کفار کے پاس بھی مال و دولت اور املاک ہوتے ہیں اور وہ اپنی عیش و عشرت میں منہمک اور مَست رہتے ہیں۔ مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل ذلیل دنیا داروں اور ظاہر پرستوں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ ایک جلن اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ تم نے ان کی صورت کو دیکھا ہے مگر مَیں ایسے لوگوں کے قلب پر نگاہ رکھتا ہوں۔ وہ ایک سَعِیر اور سَلاسِل و اَغلال میں جکڑے ہوئے ہیں ‘‘۔ (الحکم جلد 5 نمبر11صفحہ 3کالم 3 مورخہ 24؍ مارچ 1901ء)
تو فرمایا کہ اصل چیز تقویٰ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ متقی کا کفیل ہوتا ہے۔ لیکن کسی کو خیال آ سکتا ہے کہ کافروں کے پاس بھی اتنا پیسہ ہے وہ عیش کرتے ہیں۔ فرمایا کہ تمہیں ان کے دلوں کا حال نہیں پتہ۔ گووہ بظاہر عیش کر رہے ہوتے ہیں لیکن فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ ان کے دل میں ایک آگ ہوتی ہے جس میں وہ جل رہے ہوتے ہیں۔ ایک ایسے لوہے کے طوق میں ان کا گلا پکڑا ہوا ہوتا ہے جس سے وہ نکل نہیں سکتے۔ دنیا دار بیچارے کو یہی فکر رہتی ہے کہ کہیں ان کا پیسہ ضائع نہ ہو جائے۔ آج کل مختلف قسم کی بیماریاں بھی ایسے لوگوں کو ہیں جو عموماً متقیوں کو نہیں ہوتیں۔ متقی انسان کو اگر کوئی فکر ہوتی ہے تو وہ اس غم میں گھلتا ہے کہ کہیں خداتعالیٰ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ لیکن دنیا دار کی دولت ذرا سی بھی ضائع ہو جائے تو اس کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ پھر وہ اور مختلف قسم کی عیاشیوں میں پڑا ہوتا ہے جس سے مختلف قسم کی بیماریوں کا حملہ ہوتا ہے۔ بعض لوگ اپنی دولت کے حساب میں ساری ساری رات جاگتے ہیں اور اسی وجہ سے بیمار ہو جاتے ہیں۔ بہرحال اگر کسی کے پاس دولت ہے اور تقویٰ نہیں ہے تو یہ دولت بھی ایک وبال ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’یہ(آیت) ایک وسیع بشارت ہے۔ تم تقویٰ اختیار کرو خداتمہارا کفیل ہو گا۔ اس کا جو وعدہ ہے وہ سب پورا کر دے گا‘‘۔ (الحکم جلد 5 نمبر 42 صفحہ 14کالم 2 مورخہ 17؍ نومبر 1901ء)
لیکن یہ بات بہرحال یاد رکھنی چاہئے کہ کامل تقویٰ ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے وعدے بھی پورے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی(یعنی خوش مزاجی اور غصہ) محض خدا کے لئے ہو جائے گی۔ اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں توڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے۔ تم بھی انسان ہو جیسا کہ مَیں انسان ہوں اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے۔ پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو۔ اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو مَیں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے۔ خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے‘‘۔
پھر فرمایا کہ: ’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اُن کے لئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں‘‘۔
فرمایا کہ:’’ یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ309-308)
پس دیکھیں آپ لوگ جو افریقہ کے اس ملک میں بیٹھے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی شاخیں ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق آپؑ کی جماعت کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیاہے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ یہ شخص جھوٹاہے، یہ اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنے والا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والوں اور تقویٰ سے ہٹے ہوئے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہ سلوک فرماتا ہے؟ پس یہ مخالفین جھوٹے ہیں اور یقینا جھوٹے ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے، اُس کے آگے جھکتے ہوئے، تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند مسیح زمان کی جماعت سے چمٹے رہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ذاتی طو رپر بھی اور بحیثیت جماعت بھی اپنے وعدے کے مطابق اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازتا رہے گا۔ اور یقینا آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کئے ہوئے خداتعالیٰ کے اس وعدہ کے مصداق ٹھہریں گے جس کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ :
’’خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے، ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان، نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ 309)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم ہمیشہ صدق کے قدم پر چلنے والے ہوں اور ہمارے ہر عمل سے تقویٰ ظاہر ہوتا ہو۔ یہاں ایک اور بات مَیں بیان کرنے سے نہیں رہ سکتا کہ آپ میں خلافت سے محبت اور وفا کا جذبہ قابل تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تقویٰ پر قائم رکھتے ہوئے اس مضبوط بندھن کو اَور مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور مجھے بھی آپ سے پہلے سے بڑھ کر محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ مجھے پیارے ہیں اس لئے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سر سبز شاخیں ہیں۔ اور ہر وہ شخص مجھے پیارا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ اور آپؐ کے روحانی فرزند سے آپؐ سے محبت کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے یہ سب تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍مئی 2005 ء بمقام مسجد سلام ، دارالسلام ، تنزانیہ (مشرقی افریقہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔