خلافت کی اہمیت اور برکات

خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2005ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (النور: ۵۶)

پھر فرمایا:

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی تاریخ کا وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت میں شامل لوگوں کی، آپؑ کی وفات کے بعد، خوف کی حالت کو امن میں بدلا۔ اور اپنے وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ کو تمکنت عطا فرمائی یعنی اس شان اور مضبوطی کو قائم رکھا جو پہلے تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے یہ ثابت کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور نبی تھے۔ اور آپؑ وہی خلیفۃ اللہ تھے جس نے چودھویں صدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی شریعت کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھااورآپؑ کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کا سلسلہ ٔ خلافت تا قیامت جاری رہنا تھا۔

پس آج 97سال گزرنے کے بعد جماعت احمدیہ کا ہر بچہ، جوان، بوڑھا، مرد اور عورت اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی اس بارے میں فعلی شہادت گزشتہ 97سال سے پوری ہوتی دیکھی ہے اور دیکھ رہا ہوں۔ اور نہ صرف احمدی بلکہ غیر از جماعت بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ گزشتہ مثالیں تو بہت ساری ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد، پھر حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کے بعد، پھر حضرت مصلح موعود ؓ کی وفات کے بعد۔ لیکن جیسے کہ میں پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں کہ خلافت خامسہ کے انتخاب کی کارروائی دیکھ کر، جو ایم ٹی اے پر دکھائی گئی تھی، مخالفین نے یہ اعتراف کیا کہ تمہارے سچے ہونے کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن یہ بہرحال پتہ لگ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے۔ تو بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے اور اس کی نعمت ہے جس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اور یہ شکر ہی ہے جو اس نعمت کو مزید بڑھاتا چلا جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ { لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَنَّکُمْ }یعنی اگرتم شکر گزار بنے رہو تو میں اور بھی زیادہ دوں گا۔ اس نعمت کے جو افضال ہیں ان سے میں تمہیں بھرتا چلا جاؤں گا۔

بہرحال ایک تو اس دن کی اہمیت کی وجہ سے، آج 27مئی ہے، اور دوسرے جو اس خطبے کا محرک بنا ہے وہ ایک مضمون ہے جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ صاحب نے لکھا تھا لیکن آج کل اس کو کوئی شخص مختلف لوگوں کو بھیج رہا ہے۔ حضرت مرز ابشیر احمدصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو خلافت کا مقام واضح کرنے کے لئے لکھا تھا اور اس کی وضاحت میں اپنے ذوق کے مطابق اس بات کا بھی ذکر فرمایا تھا کہ خلافت جماعت احمدیہ میں کب تک چلے گی یا اس کی کیا صورت ہو گی۔ لیکن یہ بات بہرحال واضح ہے اور اس میں رتی بھر بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ جماعت میں کسی و قت بھی کسی انتشار کا پھیلانا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے ذہن میں نہیں تھا یا مقصد نہیں تھا۔ لیکن اس شخص نے جو آج کل مختلف لوگوں کو یہ مضمون بھیج رہا ہے اس کے عمل سے یہ لگتا ہے کہ جماعت خلافت کے بارے میں شکوک وشبہات میں گرفتار ہو۔ مثلاً اس سے لگتا ہے کہ اس کی نیت نیک نہیں ہے کہ بذریعہ ڈاک جن کو بھی مضمون فوٹو کاپی کرکے بھجوایا گیا اس پر لکھا گیا ہے، ایک مہر لگائی ہے کہ ایک احمدی بھائی کا تحفہ۔ اب اگر نیک نیت تھا تو نام کے ساتھ بلکہ نظام جماعت سے یا مجھ سے پوچھ کربھیج سکتا تھا کہ اس طرح اس مضمون کی میں اشاعت کرنا چاہتا ہوں۔ بڑی ہوشیاری دکھائی ہے کہ مضمون انہیں الفاظ میں بھیجا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ خلیفہ معزول نہیں کیا جا سکتا وغیرہ کی وضاحتیں بھی اس میں ہیں۔ لیکن حضرت میاں صاحب کے اس نظریے کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ ایک وقت میں خلافت کی جگہ ملوکیت لے لے گی یعنی بادشاہت آجائے گی۔ تو بہرحال یہ حضرت میاں صاحب کا اپنا ایک ذوقی نظریہ تھا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس وقت اِس کا علم ہونے کے بعد اس نظریے کی تردید میں ایک وضاحت بھی شائع فرمائی تھی۔ آگے وضاحت میں کچھ باتیں کھولوں گا۔ تو ان صاحب کی حرکت سے لگتا ہے جیسے وہ یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پہلے چار خلفاء کی خلافت تو ٹھیک تھی لیکن اب خلافت نہیں رہی۔ بہرحال اس بارے میں اسی مضمون سے دکھاؤں گا جو حضرت میاں صاحب کا ہے کہ یہ ان صاحب کی عقل کا قصور ہے اور جن کو یہ مضمون بھیجے گئے ہیں ان میں سے بھی اگر کسی کے دل میں کوئی شک، کوئی شبہ ہے تو وہ بھی دور ہو جائے۔

لیکن اس سے پہلے جو میں نے آیت تلاوت کی ہے اس کی کچھ وضاحت کروں گا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ، تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ یعنی خلافت قائم رکھنے کا وعدہ ان لوگوں سے ہے جو مضبوط ایمان والے ہوں اور نیک اعمال کر رہے ہوں۔ جب ایسے معیار مومن قائم کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خلافت کا نظام جاری رکھے گا۔ نبی کی وفات کے بعد خلیفہ اور ہر خلیفہ کی وفات کے بعدآئندہ خلیفہ کے ذریعہ سے یہ خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی۔ اور یہی ہم گزشتہ 100سال سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہوں اور دنیا کے لہو و لعب ان کو متاثر کرکے شرک میں مبتلا نہ کررہے ہوں۔ اگر انہوں نے ناشکری کی، عبادتوں سے غافل ہو گئے، دنیاداری ان کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے احکامات سے زیادہ محبوب ہو گئی تو پھر اس نافرمانی کی وجہ سے وہ اس انعام سے محروم ہو جائیں گے۔ پس فکر کرنی چاہئے تو ان لوگوں کو جو خلافت کے انعام کی اہمیت نہیں سمجھتے۔ یہ خلیفہ نہیں ہے جو خلافت کے مقام سے گرایا جائے گا بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خلافت کے مقام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے فاسقوں میں شمار ہوں گے۔ تباہ وہ لوگ ہوں گے جو خلیفہ یا خلافت کے مقام کو نہیں سمجھتے، ہنسی ٹھٹھا کرنے والے ہیں۔ پس یہ وارننگ ہے، تنبیہ ہے ان کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں یا یہ وارننگ ہے ان کمزور احمدیوں کو جو خلافت کے قیام و استحکام کے حق میں دعائیں کرنے کی بجائے اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کہاں سے کوئی اعتراض تلاش کیا جائے۔

اب مثلاً ایک صاحب نے مجھے لکھا، شروع کی بات ہے، کہ تم بڑی پلاننگ کرکے خلیفہ بنے ہو۔ پلاننگ کیا تھی؟ کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی وفات کا اعلان الفضل اور ایم ٹی اے پر تمہاری طرف سے ہوتا تھا تاکہ لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوں۔ اِنَّالِلّٰہ۔ یہ میری مجبوری تھی اس لئے کہ حسب قواعد مجھے ناظر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے یہ کرنا تھا۔ بہرحال جرأت اس شخص میں بھی نہیں جس نے یہ لکھا کیونکہ یہ بے نام خط تھا۔ تو ایسا شخص تو خود منافق ہے۔ اگر خلافت پر اعتماد نہیں تو پھر احمدی رہنے کا بھی فائدہ نہیں۔ اور اگر پھر بھی ایسا شخص اپنے آپ کو احمدی ثابت کرتا ہے تو وہ منافق ہے۔ مختصراً بتا دوں کہ اس وقت میرا تو یہ حال تھا کہ جب نام پیش ہوا تو میں ہل کر رہ گیا تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ کسی کا بھی ہاتھ میرے حق میں کھڑا نہ ہو۔ اور اس تمام کارروائی کے دوران جو میری حالت تھی وہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے۔ یہ تو بے وقوفوں والی بات ہے کسی کا یہ سوچنا کہ خلافت کے لئے کوئی اپنے آپ کو پیش کرے۔ عموماً غیرمجھ سے پوچھتے ہیں تو اُن کو میں ہمیشہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا یہ جواب دیا کرتا ہوں، ان سے بھی کسی نے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو پتہ تھا کہ آپ خلیفہ منتخب ہو جائیں گے۔ تو ان کا جواب یہ تھا کہ کوئی عقلمند آدمی یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ تو یہ صاحب لکھنے والے یا تو مجھے بیوقوف سمجھتے ہیں اور اپنی بات کی یہ خود ہی تردید بھی کر رہے ہیں (جس سے لگتا ہے کہ یہ بیوقوف نہیں سمجھتے) کیونکہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ تم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا نام پیش کروایا۔ بہرحال مختلف وقتوں میں شیطان اپنی چالیں چلتا رہتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد سلسلہ خلافت کو ہمیشہ کے لئے قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے۔ اب میں اس طرف آتا ہوں، وہ ضمنی باتیں تھیں، کہ خلافت جماعت احمدیہ میں ہمیشہ قائم رہنی ہے۔

حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذاء رساں بادشاہت قائم ہو گی۔ جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔ (مشکوٰۃ المصابیح – کتاب الرقاق باب التحذیر من الفتن۔ الفصل الثالث)

اور یہ جو دوباہ قائم ہونی تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی قائم ہونی تھی۔ پس یہ خاموش ہونا بتاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جو سلسلہ خلافت شروع ہونا ہے یا ہونا تھا۔ یہ دائمی ہے۔ اور یہ الٰہی تقدیر ہے۔ اور الٰہی تقدیر کو بدلنے پر کوئی فتنہ پرداز بلکہ کوئی شخص بھی قدرت نہیں رکھتا۔

یہ قدرت ثانیہ یا خلافت کا نظام اب انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے۔ اور اس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے زمانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ تیس سال تھی تو وہ تیس سالہ دور آپؐ کی پیشگوئی کے مطابق تھا۔ اور یہ دائمی دور بھی آپؐ ہی کی پیشگوئی کے مطابق ہے۔ قیامت کے وقت تک کیا ہونا ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن یہ بتا دوں کہ یہ دور خلافت آپ کی نسل در نسل درنسل اور بے شمار نسلوں تک چلے جانا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ، بشرطیکہ آپ میں نیکی اور تقویٰ قائم رہے۔ اسی لئے اس پر قائم رکھنے کے لئے میں پہلے دن سے ہی مسلسل تربیتی مضامین پر اپنے خطبات وغیرہ دے رہا ہوں۔ یہ وعدہ یا خبرجو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اس کی تجدید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دے کر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’غرض(خداتعالیٰ)دو قسم کی قدرت ظاہرکرتا ہے۔ اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا۔ اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خداتعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے (یعنی ان پڑھ، جاہل، گاؤں کے رہنے والے) اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے۔ تب خداتعالیٰ نے حضرت ابو بکر ؓ صدیق کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا {وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا} (النور:56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پَیر جما دیں گے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا۔ جبکہ حضرت موسیٰ ؑ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جوبنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچاویں، فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا۔ …… سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلا وے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گا توپھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے۔ پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہرہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں۔ اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔ سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھادے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔ اپنی موت کو قریب سمجھو۔ تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آجائے گی۔ اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں۔ (اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک وقت میں بہت سارے ہوں گے اس کا مطلب ہے کہ مختلف وقتوں میں آتے رہیں گے)

’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خداتعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔ اور جب تک کوئی خدا سے روح القدس پا کر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو‘‘۔ (رسالہ الوصیّت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 304تا 307)

تو دیکھیں کہ کتنا واضح ہے کہ خداتعالیٰ کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں تیرے ماننے والے ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ یہ غلبہ توحید کے قیام اور ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی وجہ سے ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں کسی خاص خاندان میں سے یا کسی خاص ملک میں سے ایسے لوگ کھڑے کروں گا جو دین کے استحکام کے لئے کوشش کریں گے بلکہ فرمایا کہ صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعاؤں میں لگے رہو۔

پس بجائے ہوشیاریاں، چالاکیاں دکھانے کے صالح بنو اور دعاؤں میں لگے رہو تاکہ یہ خلافت کا انعام تم میں ہمیشہ جاری رہے۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ اعزاز قائم رکھنے کے لئے، اگر یہ گزشتہ 97سال سے کسی خاص ملک کے لوگوں کے حصے میں آ رہا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے حصے میں آ رہاہے تو اس کو قائم رکھنے کے لئے، دعاؤں اور نیک اعمال کی ضرورت ہے۔ ورنہ کوئی قوم بھی جو اخلاص اور وفا اور تقویٰ میں بڑھنے والی ہو گی اس عَلم کو بلند کرنے والی ہو گی۔ کیونکہ یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ قدرت دائمی ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن دائمی قدرت کے ساتھ شرائط ہیں۔ اعمال صالحہ۔

اب افریقہ کے دورے میں گزشتہ سال کی طرح اس دفعہ بھی مختلف ملکوں میں جا کر میں نے احمدیوں کے اخلاص و وفا کے جو نظارے دیکھے ہیں ان کی ایک تفصیل ہے۔ بعض محسوس کئے جا سکتے ہیں، بیان نہیں کئے جا سکتے۔ تنزانیہ کے ایک دور دراز علاقے میں جہاں سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنے میں چھ سات سو کلو میٹرکا سفر بعض دفعہ آٹھ دس دن میں طے ہوتا ہے۔ ہم اس علاقہ کے ایک نسبتاً بڑے قصبے میں جہاں چھوٹا سا ائر پورٹ ہے، چھوٹے جہاز کے ذریعہ سے گئے تھے تو وہاں لوگ ارد گرد سے بھی ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ان میں جوش قابل دید تھا۔ بہت جگہوں پر وہاں ایم ٹی اے کی سہولت بھی نہیں ہے۔ اس لئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایم ٹی اے دیکھ کر اور تصویریں دیکھ کر یہ تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ یہ جوش بتاتا تھا کہ خلافت سے ان نیک عمل کرنے والوں کو ایک خاص پیار اور تعلق ہے۔ جن سے مصافحے ہوئے ان کے جذبات کو بیان کرنا بھی میرے لئے مشکل ہے۔ ایک مثال دیتا ہوں۔ مصافحے کے لئے لوگ لائن میں تھے ایک شخص نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی جذبات سے مغلوب ہو کر رونا شروع کر دیا۔ کیا یہ تعلق، یہ محبت کا اظہار، ملوک یا بادشاہوں کے ساتھ ہوتا ہے یا خدا کی طرف سے دلوں میں پیدا کیا جاتا ہے۔

ایک صاحب پرانے احمدی جو فالج کی وجہ سے بہت بیمار تھے، ضد کرکے 50-40کلومیٹر یا میل کا فاصلہ طے کرکے مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ اور فالج سے ان کے ہاتھ مڑ گئے تھے، ان مڑے ہوئے ہاتھوں سے اس مضبوطی سے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑاکہ مجھے لگا کہ جس طرح شکنجے میں ہاتھ آ گیاہے۔ کیا اتنا تردد کوئی دنیا داری کے لئے کرتا ہے۔ غرض کہ جذبات کی مختلف کیفیات تھیں۔ یہی حال کینیا کے دور دراز کے علاقوں کے احمدیوں میں تھا اور یہی جذبات یوگنڈا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کے تھے۔ جو رپورٹس شائع ہوں گی ان کوپڑھ لیں خود ہی پتہ چل جائے گا کہ خلافت کے لئے لوگوں میں کس قدر اخلاص ہے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی نیک عمل اور اخلاص جماعت احمدیہ میں ہمیشہ استحکام اور قیام خلافت کا باعث بنتا چلا جائے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ :

’’یاد رہے کہ اگرچہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں۔ اور احادیث بھی اس بارہ میں بہت سی بھری پڑی ہیں۔ لیکن بالفعل اس قدر لکھنا اُن لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمیٰ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرنِ اوّل تک محدود رکھا جاوے‘‘۔ (شہادۃ القرآن۔ روحانی خزائن جلد 6۔ صفحہ 355)

پس اس کے بعد کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ ہم ان بحثوں میں پڑیں کہ خلافت کب تک رہنی ہے اور کب ملوکیت میں بدل جانی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ نیک اعمال کرنے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور خلافت کا سلسلہ ہمیشہ چلتا چلا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی بداندیشی نہیں کہ اسلام کو مردہ مذہب خیال کیا جاوے اور برکات کو صرف قرن اوّل تک محدود رکھا جائے۔ شروع سالوں تک جو اسلام کے ابتدائی سال تھے ان تک محدود رکھا جائے۔ اسی طرح یہ بھی بداندیشی ہے کہ یہ کہا جائے کہ پہلی چار خلافتوں کے مقابل پر چار خلافتیں آ گئیں اور بس۔ اللہ تعالیٰ میں صر ف اتنی قدرت تھی کہ پہلی خلافت راشدہ کے عرصہ کو تقریباً تین گنا کرکے خلافت کے انعام سے نوازے اور اس کے بعد اس کی طاقتیں ختم ہو گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہ۔ اور جیسا کہ میں حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے دکھا آیا ہوں کہ اگر کسی کی ایسی سوچ ہے تو غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے ہاں تم میں سے ہر ایک اپنے عملوں کی فکر کرے۔

اب میں مختصر۱ً ان صاحب کی طرف آتا ہوں جنہوں نے بڑی ہوشیاری سے مضمون پھیلا کر بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی طرف سے ایسے لوگوں کو آلۂ کار بنانے کی کوشش کی ہے جو شاید اس سوچ میں پڑ جائیں لیکن انہیں پتہ نہیں کہ جماعت کی اکثریت خلافت سے سچی وفااور محبت رکھنے والی ہے اور وہ جن کو یہ مضمون بھجوائے گئے ہیں انہوں نے نظام کو یا مجھے اس سے آگاہ کر دیا، ہمیں بھجوا دئیے۔ شیطان نے ایک چال چلی تھی لیکن وہ ناکام ہو گیا۔ لیکن جماعت کو بتانا میرا فرض ہے کہ وہ آئندہ محتاط رہیں۔ ان صاحب نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی اس بات کو انڈر لائن کیا ہے کہ کسی نبی کے بعد خلافت متصلہ کا سلسلہ دائمی طور پر نہیں چلتا بلکہ صرف اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ خداتعالیٰ نبوت کے کام کی تکمیل کے لئے ضروری خیال فرمائے اور اس کے بعد ملوکیت کا دور آ جاتا ہے یعنی تسلسل قائم نہیں رہتا۔ ایک کے بعد دوسرا خلیفہ نہیں آتا۔ روحانی طور پر سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ لیکن یہاں بھی واضح ہو کہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن تھا مکمل ہو گیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ حضرت میاں صاحب کا اپنا نظریہ تھا اور اس بارے میں ایک دو اور جگہ اس مضمون میں جو میں نے الفاظ پڑھے ہیں اس سے ملتے جلتے الفاظ ہیں لیکن یہ صاحب حضرت میاں صاحب کے اُسی مضمون میں یہ الفاظ بھی پڑھ لیں کہ سچے خلفاء کی علامات کیا ہیں۔ آپ اس بارہ میں لکھتے ہیں کہ پہلی اور ظاہری علامت یہ ہے کہ مومنوں کی جماعت کسی شخص کو اتفاق رائے یا کثرت رائے سے خلیفہ منتخب کرے۔ اب یہ صاحب بتائیں کہ کیا خلافت خامسہ کے انتخاب میں یہ نہیں ہوا۔ مجلس انتخاب میں تو بہت سے ایسے ممبران تھے جو مجھے جانتے بھی نہیں تھے لیکن الٰہی تقدیر کے ماتحت انہوں نے میرے حق میں رائے دی اور اکثر نے یہ کہا کہ ہمارے دل میں یہ خدائی تحریک پیدا ہوئی ہے۔ اور اس بات کی وضاحت بھی حضرت میاں صاحب نے مضمون میں کی ہوئی ہے۔ بہرحال میں میاں صاحب کے حوالوں سے اس لئے بات کر رہا ہوں کہ ان کے مضمون میں ہی جواب موجود ہیں۔ اور یہ بھی کہ تم جلد بازی نہ کرو۔ پھر آپ لکھتے ہیں۔ دوسری علامت یہ ہے جو باطنی علامتوں میں سے ہونے کی وجہ سے کسی قدر غور اور مطالعہ چاہتی ہے۔ وہ ہے قرآن شریف کی آیت استخلاف یعنی {وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا} کہ اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ہر خلیفہ کی وفات کے بعد عموماً جماعت میں ایک زلزلہ وارد ہوتا ہے۔ جماعت کے لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں خدا کی سنت ہے کہ وہ اپنے مقرر کردہ خلیفہ کے ذریعہ انہیں اطمینان اور تمکنت عطا فرماتا ہے۔ اب آپ میں سے ہر کوئی گواہ ہے بلکہ دنیا کا ہر احمدی گواہ ہے، ہر بچہ گواہ ہے کہ کیا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد جو ایک خوف کی حالت تھی اسے اللہ تعالیٰ نے سکینت میں نہیں بدل دیا؟اگر ان صاحب کے لئے یہ دلیل کافی نہیں تو اللہ ہی رحم کرے۔ اور تیسری علامت حضرت میاں صاحب نے اپنی ذوقی علامت بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر ظاہر کر دیتاہے کہ کون آئندہ ہونا ہے۔ بہرحال اس کا تعلق تو نبی سے ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر جگہ نبی کی طرف سے اظہار بھی ہو۔ تو ان صاحب سے میں حضرت میاں صاحب کے الفاظ میں یہی کہتا ہوں کہ اس زمانے کی قدر کو پہچانو اور اپنے پیچھے آنے والوں کیلئے نیک نمونہ چھوڑو تاکہ بعد کی نسلیں تمہیں محبت اور فخر کے ساتھ یاد کریں، اور تمہیں احمدیت کے معماروں میں یاد کریں نہ کہ خانہ خرابوں میں۔ بہرحال یہ بتا دوں کہ جب یہ مضمون شائع ہوا تھا۔ جیسا کہ میں نے شروع میں یہ ذکر کیا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کا جواب بھی لکھا تھا۔ تو میرے والد صاحب صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا تھا کہ حضرت میاں صاحب کا جو یہ مضمون ہے اس میں جو ملوکیت والا حصہ ہے اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات اور بعض الہامات سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا۔ ضمناً بتا دوں کہ یہ خط جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں میرے والد صاحب نے لکھا تھا وہ خط بھی میں نے پڑھا ہوا ہے۔ پرانے کاغذات ایک دن میں دیکھ رہا تھا ان میں سے مجھے مل گیا۔ اور اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا نوٹ بھی تھاکہ تمہارا خیال ٹھیک ہے۔ (کیونکہ اس کو پڑھے ہوئے کافی دیر ہو گئی) مجھے یاد پڑتا ہے آپ نے یہ بھی لکھا تھاکہ احمدیت کی خلافت ملوکیت میں نہیں بدلے گی۔ بہرحال پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے الفضل میں ایک پیغام شائع کروایا جو میں پڑھ دیتا ہوں تاکہ جن ذہنوں میں غلط فہمی ہے وہ دور ہو جائے۔ اور یہ بھی اتفاق کہہ لیں، جیسے میں نے بتا دیا، یا الٰہی تقدیر کہ میرے والد صاحب کے ذریعہ ہی اُس وقت خلیفہ ٔ وقت کو اس طرف توجہ پیدا ہوئی اور آپ نے وضاحت فرمائی۔

چنانچہ آپ ؓ فرماتے ہیں کہ: ’’عزیزم مرزا منصور احمد نے میری توجہ ایک مضمون کی طرف پھیری ہے جو مرزا بشیر احمد صاحب نے خلافت کے متعلق شائع کیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ غالباً اس مضمون میں ایک پہلو کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی جس میں مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ تحریر کیا ہے کہ خلافت کا دور ایک حدیث کے مطابق عارضی اور وقتی ہے۔ میں نے اس خط سے پہلے یہ مضمون نہیں پڑھا تھا۔ اس خط کی بنا پر میں نے اس مضمون کا وہ حصہ نکال کر سنا تو میں نے بھی سمجھا کہ اس میں صحیح حقیقت خلافت کے بارے میں پیش نہیں کی گئی۔ مرز ابشیر احمدصاحب نے جس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ خلافت کے بعد حکومت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں قانون نہیں بیان کیا گیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے حالات کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور پیشگوئی صرف ایک وقت کے متعلق ہوتی ہے۔ سب اوقات کے متعلق نہیں ہوتی۔ یہ امر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت نے ہونا تھا اور خلافت کے بعدحکومت مستبدّہ نے ہونا تھا اور ایسا ہی ہو گیا۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ہر مامور کے بعد ایسا ہی ہوا کرے گا۔ قرآن کریم میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت ایک انعام ہے۔ پس جب تک کوئی قوم اس انعام کی مستحق رہتی ہے وہ انعام اسے ملتا رہے گا۔ پس جہاں تک مسئلہ اور قانون کا سوال ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد خلافت ہوتی ہے اور وہ خلافت اس وقت تک چلتی چلی جاتی ہے جب تک کہ قوم خود ہی اپنے آپ کو خلافت کے انعام سے محروم نہ کر دے۔ لیکن اس اصل سے ہرگز یہ بات نہیں نکلتی کہ خلافت کا مٹ جانا لازمی ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی خلافت اب تک چلی آ رہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ پوپ صحیح معنوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کا خلیفہ نہیں لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی تو مانتے ہیں کہ امت عیسوی بھی صحیح معنوں میں مسیح کی امت نہیں۔ پس جیسے کو تیسا تو ملا ہے مگرملا ضرور ہے بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے موسیٰ کے بعد ان کی خلافت عارضی رہی لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کی خلافت کسی نہ کسی شکل میں ہزاوں سال تک قائم رہی۔ اس طرح گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت محمدیہ تواتر کے رنگ میں عارضی رہی لیکن مسیح محمدی کی خلافت مسیح موسوی کی طرح ایک غیر معین عرصے تک چلتی چلی جائے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ پر بار بار زور دیا ہے کہ مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے ساتھ ان تمام امور میں مشابہت حاصل ہے جو امور کی تکمیل اور خوبی پر دلالت کرتے ہیں۔ سوائے ان امور کے کہ جن سے بعض ابتلاء ملے ہوتے ہیں۔ ان میں علاقہ محمدیت، علاقہ موسویت پر غالب آ جاتا ہے اور نیک تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔ جیسا کہ مسیح اول صلیب پر لٹکایا گیا لیکن مسیح ثانی صلیب پر نہیں لٹکایا گیا۔ کیونکہ مسیح اول کے پیچھے موسوی طاقت تھی اور مسیح ثانی کے پیچھے محمدی طاقت تھی۔ خلافت چونکہ ایک انعام ہے۔ ابتلاء نہیں۔ اس لئے اس سے بہتر چیز تو احمدیت میں آسکتی ہے جو کہ مسیح اول کو ملی لیکن وہ ان نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتی جوکہ مسیح اول کی امت کو ملیں۔ کیونکہ مسیح اول کی پشت پر موسوی برکات تھیں اور مسیح ثانی کی پشت پر محمدی برکات ہیں۔ پس جہاں میرے نزدیک یہ بحث نہ صرف یہ کہ بیکار ہے بلکہ خطرناک ہے کہ ہم خلافت کے عرصہ کے متعلق بحثیں شروع کر دیں وہاں یہ امر ظاہر ہے کہ سلسلہ احمدیہ میں خلافت ایک بہت لمبے عرصے تک چلے گی جس کا قیاس بھی اس وقت نہیں کیا جا سکتا۔ (یعنی اس لمبے عرصے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا یہ کہاں تک ہے؟)اور اگر خدا نخواستہ بیچ میں کوئی وقفہ پڑے بھی تو وہ حقیقی وقفہ نہیں ہو گا بلکہ ایسے ہی وقفہ ہو گا جیسے دریا بعض دفعہ زمین کے نیچے گھس جاتے ہیں اور پھر باہر نکل آتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ اسلام کے قرون اولیٰ میں ہوا وہ ان حالات سے مخصوص تھا وہ ہر زمانے کے لئے قاعدہ نہیں تھا‘‘۔ (الفضل 3؍اپریل 1952ء صفحہ 3)

تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی یہ وضاحت میرے خیال میں کافی ہے کیونکہ آپ کو بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ملی تھی۔ ایسے خلیفہ تھے، مصلح موعود تھے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ظاہری و باطنی علوم سے پُرکئے جانے کے بارے میں بتایا تھا۔ اور بہرحال خلیفہ کے مقابل پر کوئی شخص بھی چاہے وہ کتنا ہی عالم ہو کم حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ جماعت کی رہنمائی اور بہتری کے لئے اللہ تعالیٰ خلیفہ سے ایسے الفاظ نکلوا دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق ہوں۔ پس ہر ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ جیسا کہ پہلے بھی ذ کر آ چکا ہے کہ لغویات اور فضولیات میں نہ پڑیں اور استحکام خلافت کے لئے دعائیں کریں تاکہ خلافت کی برکات آپ میں ہمیشہ قائم رہیں۔ جہاں تک میرا سوال ہے، میری غلطیاں اگر نظر آتی ہیں تو مجھے بتائیں لیکن ہر جگہ بیٹھ کر یا خاص دوستوں میں بیٹھ کر، (بعض جگہ سے ایسی رپورٹیں مل جاتی ہیں) کسی کو باتیں کرنے کا حق نہیں ہے کہ اس میں یہ کمی ہے یا یہ کمزوری ہے۔ اگرنیک نیت ہیں تو مجھے بتائیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمدیہ ایمان بالخلافت پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جدوجہد کرتی رہی تو خداتعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلۂ خلافت قائم رہے گا اور کوئی شیطان اس میں رخنہ اندازی نہیں کر سکے گا۔ ‘‘ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 390)

پس ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ سے ان فضلوں کو سمیٹنا چاہئے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے۔ اپنے بزرگوں کی اس قربانی کو یاد کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ انہوں نے جو قیام اور استحکام خلافت کے لئے بھی بہت قربانیاں دیں۔ آپ میں سے بہت بڑی تعداد جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں یا جو میری زبان میں میری باتیں سمجھ سکتے ہیں اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کریں۔ پہلے سے بڑھ کر ایمان و اخلاص میں ترقی کریں۔ ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو باوجود زبان براہ راست نہ سمجھنے کے، باوجود بہت کم رابطے کے، بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی خلیفہ کو دیکھا ہو گا اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں۔ مثلاً یوگنڈا میں ہی جب ہم اترے ہیں اور گاڑی باہر نکلی تو ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے، دو اڑھائی سال کا بچہ تھا، ساتھ ساتھ دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ اس کی اپنی نظر میں بھی پہچان تھی، خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آ رہا تھا، وفا کا تعلق ظاہر ہو رہا تھا۔ اور بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیرتی تھی کہ دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی۔ اتنا رش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پرواہ نہیں کی۔ آخر جب بچے کی نظر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کے مسکرا یا۔ ہاتھ ہلایا۔ تب ماں کو چین آیا۔ تو بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو۔ تو جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں۔ تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ تو کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ وہ تو ایسے ایمان لانے والوں کو جو عمل صالح بھی کر رہے ہوں، اپنی قدرت دکھاتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔ پس اپنے پر رحم کریں، اپنی نسلوں پر رحم کریں اور فضول بحثوں میں پڑنے کی بجائے یا ایسی بحثیں کرنے والوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اور وعدے پر نظر رکھیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کو مضبوط بنائیں۔ جماعت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پھیل چکی ہے اس لئے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہمارا خاندان، ہمارا ملک یا ہماری قوم ہی احمدیت کے علمبردار ہیں۔ اب احمد یت کا علمبردار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے۔

تین سال کے بعد خلافت کو 100سال بھی پورے ہو رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جماعت کو بعض دعاؤ ں کی طرف توجہ دلائی تھی، تحریک کی تھی۔ میں بھی اب ان دعاؤں کی طرف دوبارہ توجہ دلاتا ہوں۔ ایک تو آپ نے اس وقت کہا تھا کہ سورۃ فاتحہ روزانہ سات بار پڑھیں۔ تو سورۃ فاتحہ کو غور سے پڑھیں تاکہ ہر قسم کے فتنہ و فساد سے اور دجل سے بچتے رہیں۔ پھر رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْن کی دعا بھی بہت دفعہ پڑھیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک اور دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو پہلوں میں شامل نہیں تھی کہ رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب۔ یہ بھی دلوں کو سیدھا رکھنے کے لئے بہت ضروری اور بڑی دعا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے خواب میں یہ دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ آئے ہیں اور فرمایا ہے کہ یہ دعابہت پڑھا کرو۔ پھر اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِ ھِمْ پڑھیں۔ پھر استغفار بہت کیا کریں۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ۔

پھر درود شریف کافی پڑھیں۔ ورد کریں۔ آئندہ تین سالوں میں ہر احمدی کو اس طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔

پھر جماعت کی ترقی اور خلافت کے قیام اور استحکام کے لئے ضرور روزانہ دو نفل ادا کرنے چاہئیں۔ ایک نفلی روزہ ہر مہینے رکھیں اور خاص طور پر اس نیت سے کہ اللہ تعالیٰ خلافت کو جماعت احمدیہ میں ہمیشہ قائم رکھے۔

اس کے بعد اب میں پھر یہی کہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں شر ہے تو استغفار کرے اور اسے نکال دے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت اس قدر پھیل چکی ہے اور ایمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے کہ باوجود رابطوں کی سہولیات نہ ہونے کے انشاء اللہ تعالیٰ خلافت سے دور ہٹانے کی کوئی سکیم، کوئی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ضمناً یہ بتا دوں کہ گو میں مشرقی افریقہ کے تین ملکوں کا دورہ کرکے آیا ہوں اور وہاں اندرون ملک غریب جماعتوں تک پہنچنے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن بعض دوسرے ممالک مثلاً ایتھوپیا، صومالیہ، برونڈی، کانگو، موزمبیق، زیمبیا، زمبابوے وغیرہ کے لوگ بھی وفود کی شکل میں آئے ہوئے تھے اور ان سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ بعض لوگ تو سفر کی سہولتیں نہ ہونے اور کچی سڑکیں ہونے کے باوجود دو اڑھائی ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرکے آئے تھے۔ اور غربت کے باوجود اپنے خرچ کرکے آئے تھے۔ ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ دنیاوی لیڈروں اور بادشاہوں کے لئے بھی لوگ جمع ہو جاتے ہیں لیکن بعض جگہ ان کو گھیر کے لایا جاتا ہے۔ پاکستان وغیرہ میں تو اکثر اسی طرح ہوتا ہے، لے کر آجاتے ہیں اور جانے کے لئے پھربیچاروں کے پاس پیسے نہیں ہوتے لیکن وہ اپنے ملک کے لوگ ہیں ان کے لئے اکٹھے بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا شخص جو نہ ان کی قوم کا ہے، نہ ان کی زبان جانتا ہے، نہ اور کوئی چیز کامن ہے اگر مشترک ہے تو ایک چیز کہ وہ احمدی ہیں اور خلافت سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ تو اسی لئے وہ اس قدر تردد کر کے آئے تھے اور یقینا ان کو خلافت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کی وجہ سے انہوں نے یہ اتنی تکلیفیں اٹھائیں۔ پس جب تک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور انشا ء اللہ تعالیٰ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ان تمام نعمتوں سے حصہ لیتی رہے گی جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں جن کے بارہ میں بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر احمدی کو اخلاص و وفا اور اعمال صالحہ میں بڑھاتا چلا جائے اور ہمیشہ وہ خلافت سے جڑے رہیں۔ اس دورے کے دوران ایک افسوسناک سانحہ بھی ہوا جس کا طبیعت پر بڑا اثر رہا۔ زیمبیا سے ایک وفدآیا ہوا تھا واپس جاتے ہوئے ان کا ایک حادثہ ہو گیاجس میں ہمارے غانین معلم جو و ہاں تعینات تھے ابراہیم صاحب، ان کے سمیت پانچ احمدی شہید ہو گئے۔ ان میں ایک غیراحمدی ڈرائیور بھی شامل تھا۔ لیکن اس حادثے نے ان کے ایمان میں کمزوری نہیں پیدا کی بلکہ ان بچنے والوں اور وفات یافتگان کے عزیزوں کا تعلق جماعت سے اور بڑھا ہے۔ اور انہوں نے اس کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر سمجھا اور رضا سمجھا اور یہ اظہار کیا کہ موت تو کہیں بھی آ سکتی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جو زندہ ہیں ان کو ایمان میں اور مضبوط کرے اور جو وفات یافتہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت و مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے۔ یہ جوہمارے غانین مبلغ تھے بہت وفا کا تعلق رکھنے والے، بہت خوبصورت نوجوان تھے۔ ابھی تک میری نظروں کے سامنے ان کا مسکراتا چہرہ گھوم جاتا ہے اور ملاقات کے وقت یہ عزم کرکے گئے تھے کہ ہم نئے سر ے سے جماعت کے پیغام اور تربیت کے کام کو آگے بڑھائیں گے۔ ان کے ساتھ ان کی بیچاری پوری فیملی گئی۔ ان کی بیوی اور دو بچے بھی سفر کر رہے تھے۔ موقع پر وہیں ان کی اہلیہ اور ایک بچہ بھی شہید ہو گئے۔ اور ایک بچہ جس کی عمر پانچ سال ہے بچ گیاتھا۔ تو بہرحال اس بچے کے ذہن پر بھی حادثے کا بہت اثر ہو گا۔ اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے آئندہ ہر دکھ سے بچائے۔ ان سب کی میّتیں غانا بھجوائی گئی ہیں جہاں ان کی تدفین ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سب کے درجات بلند کرے۔ ان کی بلندی درجات کے لئے دعا کریں۔ ابھی جمعہ کی نماز کے بعد میں ان سب کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ مئی 2005ء شہ سرخیاں

    صد سالہ خلافت جوبلی کے حوالہ سے احباب جماعت کے لئے دعاؤں، درود و استغفار، نوافل اور نفلی روزہ رکھنے کی خصوصی تحریک

    خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍مئی 2005 ء (بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن۔ برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور