جماعت احمدیہ کی مساجد کا حُسن ان کے نمازیوں سے ہوتا ہے
خطبہ جمعہ 10؍ جون 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ (البقرة: ۱۲۸)
پھر فرمایا:
کل انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی مسجد کی بنیاد رکھی جائے گی۔ ایک لمبے عرصے سے یہاں مسجد کی تعمیر کی کوشش ہو رہی تھی لیکن بعض روکیں آڑے آتی رہیں جس کی و جہ سے باوجود زمین ہونے کے مسجد کا منصوبہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ الحمدللہ کہ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان روکوں کو دور فرما دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو بھی جزا دے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر کی منظوری میں مدد کی یا مدد دی یا منظوری کے حصول میں کسی طرح بھی شامل ہوئے۔
جماعت احمدیہ کی مساجد کا شمار اُن مساجد میں نہیں ہوتا جو وقتی جوش اور جذبے کے تحت بنا دی جاتی ہیں اور صرف مسجدوں کی ظاہری خوبصورتی کی طرف توجہ ہوتی ہے نہ کہ اس کے باطنی اور اندرونی حسن کی طرف۔ ہماری مساجد وہ نہیں ہیں بلکہ جماعت احمدیہ کی مساجد کا حُسن ان کے نمازیوں سے ہوتا ہے، اس میں عبادت کے لئے آنے والے لوگوں سے ہوتا ہے۔ ہماری مساجد کی بنیادیں تو ان دعاؤں کے ساتھ اٹھائی جاتی ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خدا کے گھر کی بنیادیں اٹھاتے وقت کی تھیں۔ احمدی وہ لوگ نہیں ہیں جو بظاہر ایمان کی حرارت والے کہلاتے ہیں لیکن ان کے دل برسوں میں نمازی نہیں ہوتے۔ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں مانا ان کو تو ایمان کی حرارت کا اِدرَاک بھی نہیں ہے۔ پتہ ہی نہیں کہ ایمان کی حرارت کیا ہوتی ہے۔ وہ تو ایمان کو سطحی طور پر دیکھتے ہیں، سطحی طور پر لیتے ہیں۔ ان لوگوں کوکیا پتہ کہ ایمان کی حرارت کیاہوتی ہے۔ پس یہ اعزاز جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر ملا ہے، اس کو قائم رکھنے کے لئے اپنے ایمانوں پر نظر رکھیں اور اپنی مسجد کی تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعاؤں کو پیش نظر رکھیں تب ہی آپ ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جو گو آخرین میں ہیں لیکن پہلوں سے ملنے والے ہیں۔ وہ دعائیں کیا تھیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کیں۔ جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں ان کا ذکر آتا ہے۔
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے : اور جب ابراہیم اس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی۔ یہ دعا کرتے ہوئے کہ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقینا تو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ اور اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنا دے اور ہماری ذرّیت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر دے اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا۔ اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جُھک جا۔ یقینا تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
پس ہم بھی اس مسجد کی بنیاد رکھتے ہوئے یہی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہماری اس حقیر قربانی کو قبول فرما۔ تیرے حضور ہم یہ قربانی پیش کرتے ہیں۔ تُو نے خود ہی فرمایاہے کہ میں دعاؤں کو سننے والا ہوں۔ تُو علیم بھی ہے، تُو ہمارے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے۔ تُو ہمارے گزشتہ حالات سے بھی باخبر ہے اور ہمارے آئندہ کے حالات بھی تُو جانتا ہے کہ کیا ہونے والے ہیں۔ تُو ہمارے دلوں کو بھی جانتا ہے۔ اگر ہمارے دلوں میں کوئی کجی ہے، کوئی ٹیڑھا پن ہے تو اس کو دور کر دے اور ہمیں بھی ان دعاؤں کا وارث بنا دے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی تھیں۔ اے خد ا!جس طرح تو نے ان دو بزرگوں کی دعاؤں کو سنا آج ہماری بھی سن لے اور اس خانہ خدا کی تعمیر کو، اس مسجد کی تعمیرکو قبول فرما اور ہماری نسل میں سے بھی، ہماری اولادوں میں سے بھی ایسے لوگ ہمیشہ پید اکرتا رہ جو تیری عبادت کرنے والے ہوں۔ اے اللہ! ہم جو دنیا کے اس حصے میں آباد ہیں جہاں دنیاداری اور ہوا و ہوس نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔ اے اللہ! ایسا نہ ہو کہ اس دنیا کی چَکا چَوند کے بہاؤ میں ہم بھی بَہ جائیں۔ اس لئے ہماری رہنمائی فرماتے رہنا اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند مسیح و مہدی موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس زمانے میں خلافت علیٰ منہاج نبوت جو تو نے قائم کی ہے، ہماری کسی غلطی کی و جہ سے اس سے ہمیں دور نہ لے جانا۔ ہماری دُور دُور کی نسلوں تک اس انعام کو قائم رکھنا۔ ہمیں ہمیشہ یہ توفیق دیناکہ ہم اور ہماری نسلیں توبہ کرتے ہوئے ہمیشہ تیری طرف جھکنے والی ہوں اور تو ہمیشہ ہماری توبہ قبول فرماتے ہوئے، ہم پر رحم کرتے ہوئے، ہمیں اپنے رحم اور فضل کی چادر میں لپیٹے رکھنا۔ اور ہمیشہ اس قابل بنائے رکھنا کہ ہم تیری عبادت کرنے والے بھی ہوں اور تیرے انعام ِخلافت سے وابستہ رہنے والے بھی ہوں۔ پس جب ہر احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے یہ دعائیں کرتے ہوئے مساجد کی تعمیر میں حصہ لے گا اور ساتھ ہی اپنے عمل سے اپنی عبادتوں سے ان مساجد کے حسن کو سجا رہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے وعدوں کے مطابق اپنے انعامات سے نوازتا رہے گا۔ پس آپ اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ آپ نے پہلے ابراہیم کوبھی مانا اور اس نے جس عظیم نبی کے آنے کی دعا کی تھی اور جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا تھا اور ایک عظیم نبی، ایک پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا تھا اس پر بھی مکمل اور کامل یقین رکھتے ہوئے اس کی بیشمار پیشگوئیوں کے ساتھ اس پیشگوئی کو بھی آپ نے مانا کہ آخری زمانے میں جو میرا روحانی فرزند مبعوث ہو گا اس کو مان لینا۔ گھٹنوں کے بل برف پر چل کر بھی اس کے پاس جانا پڑے تو اس کے پاس جانا اور میرا سلام کہنا کیونکہ وہ مسیح موعود ومہدی موعود اس اندھیرے کے زمانے میں مبعوث ہو گا جب اسلام کی تعلیم کو یکسر بھلایا جا چکا ہو گا اور اسلام کا فقط نام باقی ہو گا اور یہ مرد جَری اس تعلیم کو، حقیقی اسلامی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں رائج کرے گا، قائم کرے گا۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اس جَری اللہ کو مانا۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اس جَری اللہ نے دین کودوبارہ دنیا میں قائم کرنا تھا۔ اگر ہم ماننے کے بعد اپنے اندر تبدیلیاں پیدا نہیں کریں گے، اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال کو اس معیار تک نہیں لائیں گے جس پر پہلوں نے اپنے معیار قائم کئے اس وقت تک ہمارا ایمان بے کار ہے۔ ہم اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مرد میدان کو ابراہیم کے نام سے بھی پکارا ہے۔ یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ ابراہیم ثانی اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اللہ تعالیٰ کے قریب لانے اور ہمارا تزکیہ کرنے، ہمیں پاک کرنے اور روحانی خزائن تقسیم کرنے کا باعث بنے گا۔ بشرطیکہ ہم اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کریں۔ قرآن کریم میں ان سے پہلی آیتوں میں جن کی میں نے تلاوت کی ہے مقام ابراہیم کو نمونہ کے طور پر اختیار کرنے کا حکم ہے۔ اس مقام کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں وضاحت کرنے سے پہلے آپؑ کے الفاظ میں آپ کے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ایک تعلق کی وضاحت کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’ آیت{ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے۔ تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہو گا۔ اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہو گا‘‘۔ (اربعین نمبر 3- روحانی خزائن جلد 17صفحہ 421)
پس دیکھیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ خوش قسمت ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ اس آخری زمانے کے ابراہیم کو مان کر آپ نجات یافتہ فرقہ بن گئے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ ایمان مکمل طور پر اس تعلیم پر عمل کرنے کا تقاضا کرتا ہے جو نبی لے کر آتے ہیں۔ تو نجات صرف منہ کے کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے، نہیں مل جاتی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھی کچھ قانون ہیں۔ ان کے مطابق ایمان لانے سے نجات ملے گی۔ اللہ تعالیٰ ہراحمدی کو یہ ایمان حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ ایمان کا معیار کس طرح حاصل کرنا ہے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’{ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو۔ اس جگہ مقامِ ابراہیم سے اخلاق مرضیہ و معاملہ با للہ مراد ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلنا اور اللہ تعالیٰ کے مطابق ہر معاملہ کرنا۔ پھر فرمایا:’’ یعنی محبت الٰہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا۔ یہی حقیقی مقام ابراہیم کا ہے جو امت محمدیہ کو بطورتبعیّت و وراثت عطا ہوتا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اور خود کو بالکل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے ماتحت کر دینا ہو، اس کی رضا ہو، اسی سے وفا ہو اس کے حکموں کی وفاداری سے بجا آوری ہو، یہ جب ہو گا تو فرمایا کہ یہی ہے جو امت محمدیہ کو اس پیروی کی وجہ سے مقام ابراہیم کی طرف لے جائے گا۔ بطوررتبعیّت و وراثت عطا ہوتا ہے۔ ‘‘ اور جو شخص قلب ِابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد نمبر 1صفحہ 608 بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
تو یہ ہے وہ مقام جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تعلیم دی اور یہ ہے وہ مقام جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر احمدی کودیکھناچاہتے ہیں۔ ہر احمدی کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت قائم ہو اور ایسی محبت قائم ہو جائے جس کے مقابلے میں ہر دوسری محبت کمتر نظر آئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں شرک کے خلاف ایک عظیم جہاد کیا تھا اور مخالفین نے اس و جہ سے ان کو آگ میں بھی ڈالا تھا۔ لیکن خداتعالیٰ اپنے پیاروں کو اس طرح ضائع نہیں کرتا۔ چنانچہ وہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکی۔ ہمیں بھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو ابراہیم ؑ کی برکات کا حصہ دار بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس زمانے کے ابراہیم کو مان کر ہر قسم کے شرک سے بے زاری کا اظہار کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ لیکن مثلاً نمازوں کے اوقات ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بُت اور خدا، نوکری کے، کاروبار کے، سستیوں کے ہم نے بنائے ہوئے ہیں ان کے پنجے سے نکلنا نہیں چاہتے۔ یا اس طرح نکلنے کی کوشش نہیں کرتے جس طرح کوشش کرنی چاہئے۔ صرف منہ سے یہ کہہ دینا کہ اے اللہ ہمیں مقام ابراہیم پرفائز کر دے، کوئی فائدہ نہیں دے گا جب تک کہ وہ محبت اپنے دل میں پیدا نہ کریں جو ابراہیم علیہ السلام کو اپنے خدا سے تھی۔ جب تک ہم اپنے آپ کو مکمل طور پر خداتعالیٰ کے احکامات کے سپرد نہ کر دیں۔ جب تک ہم اپنے تمام معاملات خدا پر نہ چھوڑ دیں اور عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اناؤں کو نہ چھوڑ دیں۔ جب تک ہم اپنے خاندانوں اور برادری کی بڑائی کے تکبر سے باہر نہ نکلیں۔ جب تک ہم اس چکر میں رہیں گے کہ میں سیّد ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان ہوں یا جاٹ ہوں یا آرائیں ہوں، ان لفظوں سے جب تک باہر نہیں نکلیں گے جب تک ہم اپنے معیار اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تقویٰ کو نہ بنا لیں کوئی فائدہ نہیں۔ تو جب ہم یہ ساری چیزیں کر لیں گے تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم مقام ابراہیم پر قدم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس مقام پر قدم رکھتے ہوئے اپنے تمام معاملات خداتعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں۔ تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم وفاداروں میں ہیں۔ اور اس زمانے کے ابراہیم سے جو عہد بیعت ہم نے باندھا ہے اس کو پورا کرنے والے ہیں۔ پس جب ہم یہ معیار حاصل کر لیں گے یا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تب ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیاروں میں شامل سمجھے جائیں گے۔ اگر نہیں، تو پھر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درختِ وجود کی سر سبز شاخیں نہیں سمجھے جاسکتے بلکہ ایک سوکھی ٹہنی کی طرح جس کو کوئی بھی باغبان برداشت نہیں کرتا، کاٹ کر پھینک دئیے جائیں گے کیونکہ ہم اس مقام کی پیروی نہیں کر رہے، اس مقام پر کھڑے نہیں ہو رہے جس مقام پر کھڑے ہونے کا امت محمدیہ کو حکم دیا گیا ہے۔ پس اس زمانے کے ابراہیم کو مان کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشقِ صادق اور غلامِ صادق بھی ہے ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ اپنے دلوں میں ابراہیمی صفات پیدا کرنی ہوں گی۔ اپنے عملوں کو بھی، اپنی عبادتوں کو بھی اس تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہو گا جس کا ہمیں خدا نے حکم دیا ہے۔ اپنی مساجد سے خدا کی وحدانیت کے نعروں کے ساتھ ساتھ پیار اور محبت اور اُلفت کے نعرے بھی لگانے ہوں گے تاکہ مقام ابراہیم پر کھڑا ہونے والے کہلا سکیں۔ ورنہ یہ بیعت کے دعوے کھوکھلے دعوے ہیں۔ عبادتوں کے یہ معیار قائم کئے بغیر اور عملوں کے یہ معیار قائم کئے بغیر ہم بھی وہیں کھڑے ہوں گے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آج وہ مسلمان کھڑے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانا۔ جن کی مساجد بظاہر نماز پڑھنے والوں سے پُر لگتی ہیں، بھری ہوئی لگتی ہیں لیکن وہاں نفرتوں کے نعروں اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ وہاں جس مُلاّں کے قبضے میں منبر ہے وہ ہر دوسرے فرقے کے خلاف گالیاں بکنے کے علاوہ کچھ نہیں کہتا۔ جہاں جانے والے بعض شرفاء یہ کہہ کر اٹھ کر آ جاتے ہیں کہ مولانا ہم اسلام سیکھنے کے لئے آئے تھے گالیاں اور مغلظات سننے کے لئے نہیں آئے۔ تو بہرحال اس زمانے میں جب مسیح و مہدی کا ظہور ہو چکا ہے ان نام نہاد علماء نے اس کو نہ مان کر یہی کچھ کرنا تھا کیونکہ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی جس کا ایک حدیث میں اس طرح ذکرآتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہ رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور انہیں میں لوٹ جائیں گے۔ ‘‘ (مشکٰوۃ المصابیح کتاب العلم۔ الفصل الثالث روایت نمبر 276)
لیکن آپ لوگ جو ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان چکے ہیں و اپس اس غار کی طرف نہ جائیں جہاں گہرے اندھیرے ہیں۔ بلکہ نیکیوں پر قائم ہوتے ہوئے مسجدوں کو بھلائی، خیر اور روشنی کے مینار بنائیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جو ہماری اس مسجد میں اس نیّت سے داخل ہو گا کہ بھلائی کی بات سیکھے یا بھلائی کی بات جانے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہو گا۔ اور جو مسجد میں کسی اور نیّت سے آئے تو وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کسی ایسی چیز کو دیکھتا ہے جو اس کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ ‘‘ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 350۔ مطبوعہ بیروت)
اس کا مسجد میں آنا بے فائدہ ہے۔ کیونکہ مومنوں کی مساجد منافقین کے لئے، فتنہ پیدا کرنے والوں کے لئے نہیں ہوتیں۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک مسجد میں اس نیت سے داخل ہونے والا ہو کہ ایک خدا کی عبادت کرنی ہے اور بھلائی سیکھنی ہے اور پھر اس سیکھی ہوئی بھلائی کی بات پر خود بھی عمل کرنا ہے اور آگے بھی پھیلانا ہے۔ ہماری نیتیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہوں تاکہ ان لوگوں میں شامل ہوں جو جہاد کا ثواب لینے والے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں اور رنجشیں بھلائی اور خیر سے محروم کرنے والی نہ ہوں۔ ہمارامسجدوں میں آنا ہمارے ماحول کے لئے خیرو برکات کا باعث ہو۔ نہ کہ دکھ اور تکلیف کا۔
پس جب اس نیّت سے ہر کوئی کوشش کر رہا ہو گا تو یہ کوششیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک یقینا مقبول ہوں گی۔ اور جہاں یہ آپ لوگو ں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائیں گی وہاں یہ ماحول میں محبتیں بھی بکھیر رہی ہوں گی۔ جماعت احمدیہ کی مساجد تو بہرحال بھلائی پھیلانے والی اور خیر پھیلانے والی ہیں۔ اس لئے ہر ایک کو یہاں آنا بھی اسی نیّت سے چاہئے۔ اگر کوئی فتنہ وفساد کی نیّت سے آئے گا تو اس کو کامیابی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہر احمدی کو اس لحاظ سے بھی اپنے ماحول کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کبھی کوئی شر جماعت کے اندر یا مساجدمیں کامیاب نہ ہو۔ ہر احمدی کو بھلائی اور خیر کی تعلیم کو ہی ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ یہی چیز ہے جس نے اسلام کی صحیح تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا کردار ادا کرنا ہے، بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھانا ہے۔ یہ تعلیم پھیلانے میں مساجد ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ ہماری مساجد امن کا نشان ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے قریب لانے کی ضامن ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:۔
’’ اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر، جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خدا خود مسلمانوں کوکھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیّت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیاجاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 93جدید ایڈیشن – البدر مورخہ 24؍ اگست 1904)
تو جماعت کی ترقی تبھی ہو گی جب دنیا کو یہ باور کرا دیں گے کہ مساجد خدا تعالیٰ کی مخلوق کو اس کے دَر پر جھکانے کا ذریعہ ہیں نہ کہ فساد کا۔ اللہ کرے یہ مسجد جوآپ یہاں تعمیرکرنے والے ہیں یہ اس کا صحیح حق ادا کرنے والی ہو۔ آپ لوگ اپنی ذمہ واریاں سمجھنے والے ہوں اور یہ مسجد اس علاقے میں جماعت کی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہو، لوگوں کو کھینچنے کا باعث بنے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے۔ بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی۔ اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیاد اروں نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرا دی گئی۔ اس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا۔ یعنی ضرر رساں۔ اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی۔ مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 491 جدید ایڈیشن – بدر صفحہ 1تا 3مورخہ 31؍ اکتوبر 1905ء)
اللہ کرے کہ ہماری اس مسجد کی بنیاد بھی تقویٰ پر ہو۔ اور ہم اپنی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے اس کی تعمیر کریں۔ اس کاخوف اور اس کی خشیت ہمارے دلوں میں قائم ہو اور ہم اس قرآنی حکم پر عمل کرنے والے ہو ں کہ { وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَاوَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا۔ اِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ}(الاعراف:57) یعنی اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ اور اسے خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے رہو۔ یقینا اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب رہتی ہے۔
پس جب ہم اللہ تعالیٰ کا خوف دلوں میں قائم رکھتے ہوئے اسے پکاریں گے اور ہمیں کوئی خواہش، کوئی لالچ ہو گا تو صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے۔ اور ہمیں ان انعاموں کا وارث بنائے جن کا ذکر اس نے انبیاء کے ذکر میں قرآن کریم میں کیا ہے۔ اور ان دعاؤں کا وارث بنائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے کی ہیں۔ ان نیکیوں پر قائم کرے جن کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں سے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمیں ہمیشہ اپنی چادر میں لپیٹے رکھے اور کبھی ہمارا شمار ان فسادیوں میں نہ ہو جن کا اس آیت کے شروع میں ذکر آیاہے اور جو اصلاح کے بعد پھر بگڑ جاتے ہیں۔ بلکہ ہمارا ہر فعل اللہ تعالیٰ کے پیار کو سمیٹنے والا ہو۔ اللہ کرے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں کہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں، اس بات سے کہ میں کسی پر ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو جھوٹی اَنا کے شیطانی چکر میں انسان کو پھنسا دیتی ہیں۔ اور بغیر دیکھے سوچے بدظنیوں پر بنیاد کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں اور سخت کلمات تک جا پہنچتی ہیں۔ ہر احمدی کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس نے زمانے کے امام کو مان کر جو عہد کیا ہے کہیں وہ ان باتوں کے کرنے سے یا صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے سے یا بدظنیوں کی و جہ سے یا دوسرے کو حقیر سمجھنے سے اور تکبر کی وجہ سے وہ اس عہد کو توڑنے والا تو نہیں بن رہا۔ پس جب آپ اس سوچ کے ساتھ اپنے جائزے لے رہے ہوں گے، ہر کوئی اپنا جائزہ لے رہا ہو گا تو جہاں آپ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں میں شمار ہو رہے ہوں گے وہاں محبتوں کی خوشبو بھی فضا میں بکھیر رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ایسے عملوں کی توفیق دے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ یاد رکھو کہ ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلے میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی۔ جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو تو کہتے ہیں شکر الحمدللہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ یہ نکمی حالت ہے۔ خداتعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خداتعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے۔ پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سو دہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں۔ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو۔ اور وہ یہی ہیں کہ خداتعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اس طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشاء کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ خداتعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خداتعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی، (یعنی بغیر عمل کے زندہ نہیں رہ سکتی)۔ ’’یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم ؑ کے وقت سے شروع ہوئی۔ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کرکے دکھاؤ کہ اہل حق کا گروہ تم ہی ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر 2صفحہ 282جدید ایڈیشن – الحکم صفحہ 5تا 8پرچہ 31؍اگست 1902ء)
تو یہ ہے وہ مقام جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھرآپ اپنی جماعت کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ میری تمام جماعت جو اس جگہ حاضر ہے… اس وصیت کو توجہ سے سنیں کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کر میرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے کہ تا وہ نیک چلنی اور نیک بختی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں۔ اور کوئی فساد اور شرارت اور بدچلنی ان کے نزدیک نہ آ سکے۔ وہ پنج وقت نماز جماعت کے پابند ہوں۔ وہ جھوٹ نہ بولیں۔ وہ کسی کوزبان سے ایذا نہ دیں۔ ‘‘ (تکلیف نہ دیں ) ’’ وہ کسی قسم کی بدکاری کے مرتکب نہ ہوں۔ اور کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں ‘‘۔ (اب یہ نہیں کہ ظلم کرنا نہیں ہے بلکہ خیال بھی دل میں نہیں لانا۔ ) ’’غرض ہر ایک قسم کے معاصی‘‘ (یعنی گناہ) ’’اورجرائم اور ناکردنی اور ناگفتنی ‘‘ (یعنی تمام ایسی چیزیں جو نہ کرنی چاہئیں نہ کہنی چاہئیں ) ’’اور تمام نفسانی جذبات اور بے جا حرکات سے مجتنب رہیں۔ اور خداتعالیٰ کے پاک دل اور بے شر اور غریب مزاج بندے ہو جائیں۔ اور کوئی زہریلا خمیر ان کے وجود میں نہ رہے… اور تمام انسانوں کی ہمدردی ان کا اصول ہو اور خداتعالیٰ سے ڈریں۔ اور اپنی زبانوں اور اپنے ہاتھوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک اور فساد انگیزطریقوں اور خیانتوں سے بچا ویں۔ اور پنجوقتہ نماز کو نہایت التزام سے قائم رکھیں ‘‘۔ (جماعت میں یہ ابھی کافی کمی ہے یعنی باقاعدہ نمازیں پانچ وقت نہیں پڑھی جاتیں ) ’’ اور ظلم اور تعدی‘‘ (حد سے بڑھنا) ’’ اور غبن اور رشوت اور اتلافِ حقوق‘‘ (لوگوں کے حقوق مارنا) ’’اور بے جا طرف داری سے باز رہیں ‘‘۔ (اب بے جاطرف داری میں یہ بھی آتا ہے کہ بعض دفعہ اپنے رشتہ داروں کا معاملہ اگر آجائے تو بلا وجہ طرف داری کر دی جاتی ہے۔ جماعت میں اگر کوئی شکایت ہوتی ہے تو بے جا طرفداری کرکے اس کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یا اپنے کسی عزیز کی بے جا طرفداری کرکے دوسرے کے خلاف شکایت کی جاتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن سے جماعت کے ہر آدمی کو بچنا چاہئے۔)
’’اور کسی بد صحبت میں نہ بیٹھیں۔ اور اگر بعدمیں ثابت ہو کہ ایک شخص جو ان کے ساتھ آمد و رفت رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کے احکام کا پابند نہیں ہے… یا حقوقِ عباد کی کچھ پروا نہیں رکھتا اور یا ظالم طبع اور شریر مزاج یا بدچلن آدمی ہے۔ اور یا یہ کہ جس شخص سے تمہیں تعلق بیعت یا ارادت ہے‘‘۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور بعد میں خلفاء سے) ’’اس کی نسبت ناحق اور بے وجہ بدگوئی اور زبان درازی اور بد زبانی او ربہتان اور افتراء کی عادت جاری رکھ کر خداتعالیٰ کے بندوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو تم پر لازم ہو گا کہ اس بدی کو اپنے درمیان سے دور کرو اور ایسے انسان سے پرہیز کرو جو خطرناک ہے۔ اور چاہئے کہ کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو۔ اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو۔ ‘‘ (یعنی حقیقت میں ایسے ہوجاؤ کہ سچے طور پر ان کو نصیحت کرنے والے ہو، مشورہ دینے والے ہو۔ اس کی بہتری چاہنے والے ہو) ’’ اور چاہئے کہ شریروں اور بدمعاشوں اور مفسدوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گزر نہ ہو۔ اور نہ تمہارے مکانوں میں رہ سکیں کہ وہ کسی وقت تمہاری ٹھوکر کا موجب ہوں گے۔ یہ وہ امور اور وہ شرائط ہیں جو میں ابتدا سے کہتا چلا آیا ہوں۔ میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں۔ اور چاہئے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کامشغلہ نہ ہو۔ اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو‘‘۔ (بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ بیٹھ کر مجلسیں جماتے ہیں اور دوسروں پر ہنسی ٹھٹھا کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر فرمایاکہ:) ’’یاد رکھوکہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں۔ اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو۔ اور صبر اور حلم سے کام لو۔ اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو۔ اور جذبات نفس کو دبائے رکھو‘‘۔ (پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:) ’’ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو‘‘۔ (اب نمونہ تو اس وقت بنیں گے جب اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پید اکریں گے کہ جن کا ایک معیار ہو، جو نظرآتی ہوں۔ جن کو دیکھ کر دوسرے یہ کہہ سکیں کہ ہاں واقعی ایسی تبدیلی پیدا ہو چکی ہے کہ یہ نمونہ قابل تقلید ہے۔
پھر فرمایا : ’’سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکالو جو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بد نفسی کا نمونہ ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیکی چلنی کے ساتھ رہ نہیں سکتا وہ جلد ہم سے جُدا ہو جائے کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقینا وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔ سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ۔ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے۔ اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا‘‘۔ (اشتہار مورخہ 29؍ مئی 1898ء مجموعہ اشتہارات جلد نمبر 3صفحہ 46تا 48)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اس معیار پر پہنچ سکیں جس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں لانا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ آپؑ کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں تاکہ تمام دنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرا سکیں۔ ہمارا کوئی فعل ایسا نہ ہو جس سے آپ ؑ نے بیزار ی کا اظہار کیا ہے۔ بلکہ ہمارا ہر قول اور ہر فعل ایسا ہو جو ہمیں آپؑ کی دعاؤں کا وارث بنائے۔
وینکوور۔ کینیڈا کی مسجد کا سنگ بنیاد
خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جون 2005 ء بمقا م وینکوور ۔کینیڈا
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔