مساجد کی تعمیر اور ہماری ذمہ داریاں
خطبہ جمعہ 17؍ جون 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
وَ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا۔ (الجن: ۱۹)
پھر فرمایا:
اس آیت کا ترجمہ ہے یقینا مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔ یہ ہے وہ تعلیم جس پر عمل کرتے ہوئے جماعت احمدیہ اپنی مساجد کی تعمیر کرتی ہے اور اس میں عبادت کے لئے جاتی ہے۔ ہماری مساجد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ایک نشان ہوتی ہیں۔ اور ہونی چاہئیں اور اسی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ایک لمبے عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل آپ کو، کیلگری جماعت کو، اپنی مسجد بنانے کی اللہ توفیق عطا فرما رہا ہے۔ انشاء اللہ کل بنیاد رکھی جائے گی۔ اللہ کرے کہ آپ کو اس مسجد کی جلد سے جلد تکمیل کی بھی توفیق عطا ہو۔ اور اللہ کرے جن لوگوں نے اس مسجد کی تعمیرمیں حصہ لینے کے لئے وعدے کئے ہوئے ہیں وہ جلد ان وعدوں کو پورا کر سکیں اور جنہوں نے حصہ نہیں لیا وہ جلد اس میں حصہ لینے کی توفیق پائیں۔ اللہ کرے کہ اس مسجد کی تعمیر ان تمام دعاؤں سے حصہ لینے والی ہو اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے والے اور اس میں نمازیں پڑھنے والے بھی ان تمام د عاؤں کے وارث ہوں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے کی تھیں۔ آپ کی اولاد در اولاد اور آپ کی آئندہ نسلیں بھی تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس مسجد میں آنے والی ہوں اور آپ کی یہ مسجد بھی اپنے آقا اور مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں بنائی جانے والی مسجد میں شمار ہو جس کی بنیادیں تقویٰ پر اٹھائی گئی تھیں۔ وہ ایسی بابرکت مسجد ہے کہ اس کی بنیادیں تقویٰ پر اٹھائے جانے کی گواہی خداتعالیٰ نے دی ہے۔ جیسا کہ فرمایا { لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوَیٰ مِنْ اَوَّلِ َیوْمٍ } (التوبۃ:108) یعنی وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔ وہ مسجد ایسی تھی کہ جس کی دیواریں کچی تھیں جس کی چھت کھجور کی خشک ٹہنیوں سے ڈالی گئی تھی اور جس کے فرش پر بارش کے موسم میں چھت ٹپک کر کیچڑ ہو جایا کرتا تھا۔ اور جب اس میں نمازیں پڑھنے والے تقویٰ شعار لوگ نمازیں پڑھا کرتے تھے تو ان کے ماتھوں پر کیچڑ لگ جایا کرتا تھا۔ لیکن وہ کیچڑ بھی ان کے تقویٰ پر ایک مہر ہوتا تھا۔ اس مسجد میں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے اور اللہ کی مخلوق کے حق ادا کرنے والے بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے، درس سنا کرتے تھے۔ اور وہاں پر آنے والے نیک او رپاکباز لوگ وہ لوگ تھے جو اپنی نیکی اور تقویٰ کو بڑھانے کے لئے آتے تھے اور اس مقصد کے لئے بے چین رہتے تھے اور ان کی اسی ادا کو خداتعالیٰ بھی پسند کرتا اور ان سے محبت کرتا تھا۔ کیونکہ وہ بے چین ہوتے تھے خدا کی عبادت کرنے کے لئے، کیونکہ وہ بے چین ہوتے تھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے کے لئے جو کہ خداتعالیٰ کا محبوب ترین نبی تھا۔ ان پاکباز لوگوں کی پاکیزگی کی گواہی خداتعالیٰ نے یوں دی ہے۔ فرمایا { فِیْہِ رِجَالٌ یُحِبُّوْنَ اَنْ یََّتَطَھَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْن} (التوبۃ:108) یعنی اس میں آنے والے ایسے لوگ ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ بالکل پاک ہو جائیں اور اللہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ پس اگر ہم نے مسجدیں بنانی ہیں اور یقینا بنانی ہیں اور اگر ہم نے ان مسجدوں کو آباد کرنا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یقینا کرنا ہے تو پھر ہماری مسجدیں بھی اس مسجد کی تتبع میں بنائی جانی چاہئیں اور بنائی جاتی ہیں جس کی بنیادیں تقویٰ پر تھیں۔ اور جس میں آنے والوں، عبادت کرنے والوں اور بیٹھنے والوں کا محور خدائے واحد تھا اور وہ لوگ خدائے واحد کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے تھے۔ مخفی شرکوں کو بھی انہوں نے اپنے سے کوسوں دور بھگا دیا تھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرنے کے لئے بے چین اور بے قرار ہوتے تھے تبھی تو خداتعالیٰ نے ان کے تقویٰ اور پاکیزگی کی گواہی دی ہے اور ان سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن کیا خداتعالیٰ کے یہ پیار کے اظہار انہیں لوگوں پر ختم ہو گئے ہیں ؟ کیا خداتعالیٰ کے خزانے محدود تھے کہ پہلوں پر آکر ختم ہو گئے؟ نہیں، بلکہ خداتعالیٰ کے خزانے تو لامحدود ہیں۔ پس جب اس کے خزانے لامحدود ہیں تو پھر آج بھی وہ انہیں تقسیم کر سکتا ہے اور کرتا ہے بشرطیکہ بندہ بھی ان شرائط پر عمل کرے، ان حکموں پر عمل کرے جن کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ خدائے واحد کو پکارے، ان مسجدوں کو اس کی عبادت کے لئے خالص کرے اور آباد کرے، اپنے اندر سے مخفی شرکوں کو ختم کرے خداتعالیٰ تو اپنے بندے کو دینے کے لئے بے چین رہتا ہے۔ یہ بندہ ہی ہے جو اس سے منہ موڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی طرف آنے والے بندوں کو دیکھ کر اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنی کہ ایک ماں اپنے گمشدہ بچے کے مل جانے پر خوش ہوتی ہے اور پھر اسے اپنے سینے سے لگاتی ہے۔
آج ہم احمدی جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اور اس کے سلسلہ بیعت میں شامل ہوئے ہیں اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں زمانے کے امام کو مان کر اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے پر پہلوں سے ملنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ پس ان آخرین میں شامل ہونے کا فیض آپ تبھی اٹھا سکتے ہیں جب خدائے واحد کو پکارنے والے اور اس کے آگے جھکنے والے بھی ہوں گے۔ اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی زندگیوں کو بسر کرنے والے بھی ہوں گے اور حقوق العباد ادا کرنے والے بھی ہوں گے۔ آپ کی مساجد اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا درس دینے والی ہوں گی اور یہاں آنے والوں کی بے چین دل کے ساتھ خداتعالیٰ کی عبادت کرنے کی تڑپ بھی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اللہ کا خالص بندہ بننے اور تقویٰ پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس نیت کے ساتھ مسجد بنانے والے ہوں کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنی ہے تاکہ اس ارشاد سے بھی حصہ لیں جس کا حدیث میں بھی ذکر آتا ہے۔
محمود بن لبید روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں مسجد نبوی کی تعمیر نو اور توسیع کا ارادہ فرمایا تو کچھ لوگوں نے اسے ناپسند کیا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ اس مسجد کو اس کی اصل حالت میں ہی رہنے دیا جائے۔ یہ سن کر آپ(حضرت عثمانؓ ) نے فرمایاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مَنْ بَنَیٰ مَسْجِدًا لِلّٰہِ بَنَی اللّٰہُ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ مِثْـلَہُ۔ کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا۔ (مسلم – کتاب المساجد – باب فضل بناء المساجد و الحث علیھا)
پس ہر احمدی کو یہ مقصد سامنے رکھنا چاہئے۔ جب مسجد کی بنیادیں اٹھائی جا رہی ہوں تو یہ ذہن میں ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ جب یہ نیت ہو گی تو یہ نیت تقویٰ پر قائم دل کی ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے جب آپ مالی قربانی کر رہے ہوں گے تو آپ کے دل اللہ کے خوف سے بھرے ہوں گے اور مسجد کی تعمیر میں حصہ اس لئے نہیں لے رہے ہوں گے کہ فلاں نے اتنا چندہ دے دیا ہے تو میں بھی اتنا دوں۔ یہ مقابلہ اس لئے نہیں ہو رہا ہو گا کہ دوسرے کو نیچا دکھانا ہے۔ ہاں اگر مقابلہ کرنا ہے تو اس نیت سے ہو گا کہ نیکیوں میں سبقت لے جانی ہے، نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ہے۔ نیکیوں میں آگے بڑھنے کے وہ نمونے قائم کرنے ہیں جو پہلوں نے کئے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں، نہ کہ اس لئے کہ منفی مقابلہ ہو۔ تو یہ منفی مقابلے تو تقویٰ پر بنیاد نہیں ہو سکتے۔ اس لئے جب خدائے واحد کا گھر بنانا ہے تو تقویٰ پر بنیاد رکھنی ہے، قربانیاں کرنی ہیں، تقویٰ پر قائم ہو کر کرنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر اور احسان ہے کہ اس نے جماعت کو ایسے دل دئیے ہوئے ہیں جو تقویٰ پر قائم ہیں اور اس روح کے ساتھ مالی قربانی کرنے والے ہیں کہ خدا کی رضا حاصل کرنی ہے۔ کئی لوگ ملاقاتوں کے درمیان رو رو کر دعا کے لئے کہتے ہیں کہ ہمارا مسجد کے لئے اتنا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ جلد ادا کرنے کی توفیق دے۔ بلکہ یہ لوگ اظہار کرتے ہیں کہ جو جماعت نے ہم سے توقع کی ہے ہمیں اس سے زیادہ بڑھ کر ادا کرنے کی توفیق دے۔ تو یہ لوگ جو روتے ہوئے اپنے وعدے پورے کرنے کی فکر کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ان کو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ دل دنیا کے دکھاوے کے لئے قربانیاں دینے والے دل ہیں۔ نہیں، بلکہ یہ لوگ وہ لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ قربانیاں کر رہے ہیں اور جب تک اس سوچ کے ساتھ قربانیاں دیتے رہیں گے اس وقت تک آپ اور آپ کی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ٹھہرتی رہیں گی انشاء اللہ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کی رضا حاصل کرنے اور تقویٰ پر قائم رہنے والوں سے محبت کرتا ہے اور ان کے لئے جنت میں گھر تعمیر کرتا ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات اور عمل سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ مسجدیں عمدہ اور مضبوط بنانا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منشاء کے مطابق ہے۔ شروع میں حالات ایسے نہیں تھے کہ زیادہ مضبوط اور پکی مسجدیں بنائی جائیں۔ لیکن جب حالات بہتر ہوئے تو حضرت عثمان رضی للہ تعالیٰ عنہ نے اس کی توسیع بھی کی اور اسے مضبوط بھی بنایا۔ لیکن بنیادی چیز تقویٰ ہے جسے ہمیشہ ہر احمدی کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ یہ جو مسجد نبویؐ کی توسیع کی گئی تھی وہ بھی خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھی اور تقویٰ کی بنیاد پر تھی۔
پس ہر احمدی ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرتے رہیں گے تو خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے اور یوں جنت کے وارث بھی بنتے رہیں گے۔ یہ جنت اس دنیا میں بھی ملے گی اور اگلے جہان میں بھی۔ ایک تو جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے مسجد کی تعمیر اللہ کی رضا کی خاطرہو، دوسرے ان مسجدوں میں اللہ کی عبادت اور اس کا ذکر ہوتا رہے جس کا ایک حدیث میں یوں ذکر آتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرا کرو تووہاں کچھ کھا پی لیا کرو۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ جنت کے باغ کیاہیں ؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مساجد جنت کے باغ ہیں۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! ان سے کھانے پینے سے کیا مراد ہے ؟اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ پڑھنا‘‘۔ (ترمذی -کتاب الدعوات – باب حدیث فی اَسْمَآء اللہ الحسنیٰ مع ذکرھا تماماً)
الحمدللہ کہ آج (یا کل انشاء اللہ تعالیٰ کہہ لیں، ویسے بھی جب ارادہ ہو جائے تب سے کام تو شروع ہو جاتا ہے) آپ بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو رہے ہیں جو جنت کا باغ لگانے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ جلد سے جلد اس کی تکمیل کر سکیں اور یہ جنت کا باغ اپنی تمام تر رو نقوں اور پھلوں کے ساتھ جہاں آپ کو فائدہ دے رہا ہو وہاں دنیا کو بھی نظر آئے۔ شروع میں مَیں نے عرض کیا تھاکہ جس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر ہے وہی مسجد ایسی ہے جو خدائے واحد کی عبادت کرنے والوں کی مسجد کہلاتی ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت دلوں میں رکھتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنا۔ اس کے احکامات میں اس کی عبادتوں کا بھی حکم ہے۔ اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کا بھی حکم ہے۔ پس ہماری عبادتیں بھی اس وقت تک خالص نہیں ہو سکتیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا ہماری قربانیاں بھی اس وقت تک قبولیت کا درجہ نہیں پا سکتیں جب تک ہم اللہ کی مخلوق کے حق ادا کرنے والے بھی نہ ہوں گے۔ رشتوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی نہیں ہوں گے۔ ہمسایوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی نہ ہوں گے اور جب تک ہم اس سوچ میں اپنی زندگی گزارنے والے نہ ہوں گے کہ معاشرے کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ پس جہاں ہر احمدی کو اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی کوشش میں ترقی کرنی ہو گی وہاں معاشرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی۔ تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں اور ہماری مساجد کی بنیادیں تقویٰ پر اٹھائی جانے والی ہیں۔ اور ہمارے میناروں سے خدائے واحد کے حکم کے مطابق محبت کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ و جہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے۔ اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے۔ اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے۔ اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے۔ (ایک مضبوط قلعہ ہے ہر فتنے سے بچنے کے لئے۔ )
’’ ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں ‘‘۔ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 342)
تو یہ ہے ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا، کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس سے محبت کا معیار اس قدر ہو گا کہ ذرا سی بھی جو بات اس کے احکامات کے خلاف ہے وہ دل میں خوف پید اکر دے تو تبھی دل برائیوں کے خلاف سخت ہوتا جائے گا اور اس سے بیزاری کا اظہار ہو گا، تقویٰ پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی اور چھوٹی چھوٹی نیکیاں بجا لانے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ کسی کو نقصان پہنچانے کا، کسی کو نیچا دکھانے کا، کسی کے خلاف چغلی کرنے کا، جھوٹی افواہیں پھیلانے کا کبھی دل میں خیال نہیں آئے گا۔
اس لئے آپؑ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ:
’’ تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں۔ عُجب، خود پسندی (یعنی تکبر، اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنا) مال حرام سے پرہیز (ان چیزوں سے پرہیز، یہ تین چیزیں یعنی تکبر سے بچے، خود پسندی سے بچے حرام کا مال کھانے سے بچے) اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 50۔ جدید ایڈیشن – رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 83)
یہ چیزیں ہیں جن سے بچتے رہو گے تو یہ تقویٰ ہے۔ تو دیکھیں جب انسان ایسی چیزوں سے بچ رہا ہو گا تو وہ یقینا خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا ہو گا۔ اور یہ تقویٰ ہی اس کے لئے تعویذ بن جائے گا۔ بعض لوگ آتے ہیں کہ ہمیں کوئی خاص دعا بتائیں یا کوئی وظیفہ بتائیں جس سے ہماری مشکلات دور ہو جائیں۔ یہ باتیں بعض احمدیوں میں صرف اس لئے رائج ہیں کہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور پوری طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو تعلیم ہے اس کا علم نہ ہونے کی وجہ سے یا توجہ نہ دینے کی وجہ سے بعضوں میں فہم اور ادراک نہیں رہتا۔ یا بعض نئے احمدی ہوئے ہوتے ہیں ان میں بھی یہ باتیں ہوتی ہیں۔ اس معاشرے کے زیر اثر آ جاتے ہیں، ورنہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد صحیح طور پر اس تعلیم پر عمل کرنے والے بن جائیں تو یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی جو ادائیگی ہے وہی ان کے لئے تعویذ کا کام دے گی۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو بظاہر کہنے میں بہت چھوٹی ہے، جب حقوق اللہ ادا کرنے کی کوشش کریں اور باریکی میں جا کر حقوق العباد ادا کرنے کی کوشش کریں، اپنے نفس کا جائزہ لیتے رہیں تو تب پتہ لگے گا کہ یہ چھوٹی باتیں نہیں، بہت بڑی باتیں ہیں۔ عبادتوں کا حق ادا کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی نظر حاصل کرنے والے ہو جائیں گے۔ اور بندوں کے حق ادا کرنے کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے ہو جائیں گے۔ اورجب اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل ہو جائے تو پھر وہ کون سی چیز رہ جاتی ہے جس کا انہیں ورد کرنے کی ضرورت ہو۔ وہ کون سا تعویذ ہے پھر جس کی انہیں ضرورت ہو۔ پس اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھائیں اپنی عبادتوں کے معیار بڑھائیں۔ اور جب یہ حاصل کرلیں گے تو اللہ کے پیاروں میں شمار ہوں گے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شمار ہوں گے تواس کے فضلوں سے حصہ پانے والے ہوں گے اور وہ اپنی قدرت کے نظارے دکھائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :۔ ’’ مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کرے ‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر 1صفحہ 99۔ جدید ایڈیشن – الحکم 24؍ جون 1901ء صفحہ 1`2)
پس جب بھی اللہ تعالیٰ آپ پر فضل فرمائے پہلے سے بڑھ کر اس کے حضور جھکنے والے بن جائیں۔ اس کے حکموں پر عمل کرنے والے بن جائیں۔ کامیابیاں آپ کو برائیوں کی طرف لے جانے والی نہ ہوں بلکہ تقویٰ میں بڑھانے والی ہوں۔ مالی کشائش اور آسودگی آپ کو تقویٰ میں بڑھانے والی بن جائے۔ آج کل دنیا کی ہوا و ہوس نے انسان کو اندھا کر دیاہے۔ نیکی اور بدی کی کوئی تمیز نہیں رہی۔ ہمارے ملکوں میں چھپ کے برائیاں ہوتی ہیں، یہاں ظاہراً بھی ہو جاتی ہیں۔ لیکن ہر جگہ ایک ہی حال ہے۔ ان حالات میں ایک احمدی کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ اسی سورۃ میں، سورۃ جمعہ میں، جس کی ایک آیت کے کچھ حصے مَیں نے Quote کئے ہیں۔ جہاں آخرین والاحصہ Quote کیا تھا۔ اس میں آخرین سے پہلوں کے ساتھ ملنے کا ذکر ہے۔ اور یہ بھی ذکر ہے کہ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو وقت کے نبی کو لہو ولعب کی خاطر اکیلا چھوڑ دیں گے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل نہیں کریں گے اور آپؐ کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو نہیں مانیں گے۔ لیکن ہم جو احمدی ہیں ہم نے تو مسیح و مہدی کو مان لیا ہے، اس کے سلسلہ ٔبیعت میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس لئے اب بڑی فکر کے ساتھ اس دنیا کی چکا چوند سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرتے ہوئے اس تعلیم پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوں جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمیں دی ہے تاکہ اس فیض سے حصہ پانے والے ہوں جو آپ کی ذات سے وابستہ ہے، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ذات سے وابستہ ہے۔ ورنہ مسجدیں تو اور بھی بنتی ہیں۔ بظاہر نیکیاں اور جگہ بھی ہو رہی ہوتی ہیں جن میں تقویٰ کی باتیں نہیں ہوتیں۔ بعض مساجدمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے نفی کی تعلیم دی جا رہی ہوتی ہے۔ پاکستان وغیرہ میں اکثر دیکھیں گے آپ کو ایسا نظر آئے گا۔ اور یہ سب کچھ بھی خدا کے نام پر ہو رہا ہوتا ہے۔ عمارتوں کے لحاظ سے بھی جو یہ دوسرے مسجدیں بناتے ہیں، بہت اعلیٰ پائے کی بھی ہوتی ہیں۔ لیکن وقت کے امام کی نافرمانی کی وجہ سے وہ تقویٰ سے عاری ہوتی ہیں۔ اگر غور کریں تو دل میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ہم بھی اس رَو میں نہ بہہ جائیں۔ لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین اور ایمان ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں عبادت کرنے والے، مخلوق کے حق ادا کرنے والے اور تقویٰ پر قائم رہنے والے اور خلافت سے تعلق اور محبت رکھنے والے، اور اس کے لئے قربانی دینے والے پیدا کرتا رہے گا جو ان چیزوں سے چمٹے رہیں گے اور کبھی وقت کے امام کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر کوئی بدقسمت ایمان کی حالت کے بعد جہالت کی حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے تو وہ اپنی بد قسمتی کو آواز دے رہا ہو گا۔
پس میں پھر آپ سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ آپ پر فضل فرمائے ہیں ان کا اظہار نیک اعمال کی صورت میں کریں۔ بعض دفعہ آسودگیاں برائیوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان سے بچیں اور تقویٰ پر قائم ہوں۔ ان کے اظہار اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی صورت میں کریں۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی صورت میں کریں۔ اپنی گزشتہ حالت پر بھی نظر رکھیں اور اپنے موجودہ حالات کو بھی دیکھیں۔ بہت سے ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان ملکوں میں لا کر مالی لحاظ سے پہلی حالت سے سینکڑوں گنا بڑھا دیا ہے، بہتر حالت میں کر دیا ہے۔ یہ اپنے جائزے آپ کواللہ تعالیٰ کے قریب کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے والے بنائیں گے۔ جب آپ اپنا اس نظر سے جائزہ لے رہے ہوں گے اور جب آپ شکر کریں گے، تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق اپنے فضلوں کی بارش کو مزید بڑھاتا چلا جائے گا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ {لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ} کہ اے لوگو!اگر تم شکرگزار بنے تو تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔ پس جب تقویٰ پر چلتے ہوئے آپ اس شکر گزاری کے مضمون کوبھی ذہن میں رکھیں گے اور یہ شکر گزاری کے اظہار آپ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے بھی کر رہے ہوں گے اور بندوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے بھی کر رہے ہوں گے، مسجد کی تعمیرمیں اور دوسری مالی قربانیوں میں جب اللہ تعالیٰ کے اپنے پر فضلوں کا اظہار کر رہے ہوں گے اس کے حضور جھکتے ہوئے یہ عرض کرتے ہوئے اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہوں گے کہ اے خدا! تو ہی ہے جس کے آگے ہم جھکتے ہیں اور تو ہی ہے جس نے ہمیں اپنی پہلی حالت سے بہتر حالت میں کر دیا ہے۔ جو قربانیاں ہم پیش کرتے ہیں تیرے فضلوں کے مقابلے میں بہت حقیر ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ پہلے سے بہت بڑھ کر آپ پر انشاء اللہ فضل فرمائے گا۔ جیسا کہ میں نے کہا تھا، بہت سے ایسے ہیں جو اس اظہار کے ساتھ قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ جو نہیں کرتے ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ یہ نسخہ آزمائیں۔ تقویٰ پر قدم ماریں عبادتوں کے حق ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ کا شکراپنے پر اس کے فضلوں کے حساب سے کریں۔ پھر اس کے فضلوں کو مزیداپنے پر برستا دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے شکر اور تقویٰ کے معیار کو بڑھاتا چلاجائے۔
یہ مسجد جو آپ بنا رہے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کا باعث بنے گی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ اگر جماعت کو بڑھانا ہے تو جس جگہ بڑھانا چاہتے ہو اس شہر یا قصبہ میں مسجد بنا دو۔ تو یہ مسجد تو انشاء اللہ لوگوں کی توجہ اور دلچسپی کا باعث بنے گی لیکن یہ دلچسپی، لوگوں کی توجہ آپ کی طرف، احمدیت کی طرف اور اسلام کی طرف تبھی ہو گی جب آپ اپنے اندر بھی پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے، آپ کے قول و فعل ایک دوسرے سے ٹکراتے نہ ہوں گے۔ جیسا کہ میں بڑی تفصیل سے پہلے کہہ آیا ہوں کہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ حقوق العباد کے معیار بلند کریں۔ یہ چیزیں جہاں آپ پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ڈال رہی ہوں گی وہاں اس علاقے میں احمدیت کا پیغام بھی پہنچانے کا باعث بن رہی ہوں گی۔ پس اس نیت سے بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیداکریں۔ جومالی قربانی میں زیادہ بڑھ نہیں سکتے وہ اپنے نفس کی اصلاح میں تو بڑھ سکتے ہیں۔ وہ اپنی عبادتوں کے معیار میں تو بڑھ سکتے ہیں۔ وہ علاقے میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی کوشش میں تو بڑھ سکتے ہیں۔ شہرمیں اگر کوئی زیادہ مذہب کی طرف توجہ نہیں دیتا تو ارد گرد کے علاقوں میں نکل جائیں۔ علاقے کے لوگ بڑے دوست دار ہیں، ملنے جلنے والے ہیں۔ ہر طبقے کے احمدی بوڑھا، بچہ، جوان، عورتیں اگر سنجیدگی سے اس طرف توجہ کریں تو جماعت کا کافی تعارف ہو سکتا ہے۔ اور یہ تعارف ہی بعض نیک روحوں کو جماعت کی طرف لے آنے کا باعث بنے گا۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ ان علاقوں میں یہاں بھی اور وینکوور میں بھی اور جگہ بھی جہاں مساجد بن رہی ہیں علاقے میں آپ کے تعارف، احمدیت اور اسلام کے نفوذ کا باعث بنیں گے۔ خدا کے نبی کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہے کہ مسجدیں بناؤ اور جماعتیں بڑھاؤ۔ تو وہ توانشاء اللہ پوری ہو گی۔ بشرطیکہ ہم ایک توجہ کے ساتھ، ایک لگن کے ساتھ کوشش کریں۔ لیکن بنیادی بات یاد رکھیں جس پہ ساری بنیاد ہے کہ تقویٰ کو قائم کریں اور تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے تمام عملوں کو ڈھالیں۔ اللہ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے۔ اگر کسی کی زندگی بیعت کے بعدبھی اسی طرح کی ناپاک اور گندی زندگی ہے جیسا کہ بیعت سے پہلے تھی اور جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر برا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے۔ اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ برے نمونے سے اور وں کو نفرت ہوتی ہے۔ اور اچھے نمونہ سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے ہمارے پاس خط آتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ میں اگرچہ آپ کی جماعت میں ابھی داخل نہیں مگر آپ کی جماعت کے بعض لوگوں کے حالات سے البتہ اندازہ لگاتا ہوں کہ اس جماعت کی تعلیم ضرور نیکی پر مشتمل ہے۔ {اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْن} (النحل:129)‘‘ (یعنی یاد رکھ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ کا طریق اختیار کیا ہوا ہو اور جو نیکو کار ہوں۔)
فرمایا کہ’’ خداتعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔ پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہئے اور اس میں غور کرنا چاہئے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے۔ انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔ انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔ ایک شخص جو اولیاء اللہ میں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ جہاز میں سوار تھے، سمندر میں طوفان آ گیا قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا۔ اس کی دعا سے بچا لیا گیا۔ اور دعا کے وقت اس کو الہام ہو اکہ تیری خاطر ہم نے سب کو بچا لیا۔ مگر یہ باتیں نرا زبانی جمع خرچ کرنے سے حاصل نہیں ہوتیں۔ دیکھو ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ دیا ہے۔ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ مگر دیکھو ان میں غافل عورتیں بھی ہیں، مختلف طبائع اور حالات کے انسان ہیں۔ خدا نخواستہ اگر ان میں سے کوئی طاعون سے مر جاوے یا جیسا کہ بعض آدمی ہماری جماعت میں طاعون سے فوت ہو گئے ہیں توان دشمنوں کو ایک اعتراض کا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایاہے کہ {اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْااِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ} (الانعام:83)‘‘ (یعنی جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے مخلوط نہیں کیا، ظلم سے ملانہیں دیا۔ ایمان لانے کے بعدپھر تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ فرمایا) ’’بہرحال جماعت کے افراد کی کمزوری یا برے نمونے کا اثر ہم پر پڑتا ہے۔ اور لوگوں کو خواہ مخواہ اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پس اس واسطے ہماری طرف سے تو یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بنانے کی کوشش میں لگے رہو۔ جب تک فرشتوں کی سی زندگی نہ بن جاوے تب تک کیسے کہاجا سکتا ہے کہ کوئی پاک ہو گیا۔ { یَفْعَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْن} (التحریم :7)‘‘ (یعنی جو کچھ کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔ ایسے بننا پڑے گا۔ تو) ’’فنا فی اللہ ہو جانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا۔ چاہئے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں، خویش و اقارب اور ہمارے واسطے بھی باعث رحمت بن جاؤ۔ مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ { فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّـنَـفْسِہِ وَمِنْھُمْ مُقْتَصِدٌ وَّ مِنْھُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَا تِ}‘‘ (فاطر:33) (کہ بعض تو ایسے ہیں جو اپنے نفس پہ ظلم کرنے والے ہیں اور بعض ہیں وہ جو درمیانی چال چلنے والے ہیں اور بعض نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والے ہیں۔ فرمایاکہ)’’ پہلی دونوں صفات ادنیٰ ہیں۔ سابق بالخیرات بننا چاہئے۔ ایک ہی مقام پر ٹھہرجانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ دیکھو ٹھہرا ہوا پانی آخر گندہ ہو جاتا ہے۔ کیچڑ کی صحبت کی وجہ سے بدبو دار اور بدمزہ ہو جاتا ہے۔ چلتا پانی ہمیشہ عمدہ، ستھرا اور مزیدار ہوتا ہے اگرچہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہو۔ مگر کیچڑ اس پر کچھ اثر نہیں کر سکتا۔ یہی حال انسان کا ہے کہ ایک ہی مقام پر ٹھہر نہیں جانا چاہئے۔ یہ حالت خطرناک ہے۔ ہر وقت قدم آگے ہی رکھنا چاہئے۔ نیکی میں ترقی کرنی چاہئے ورنہ خداتعالیٰ انسان کی مدد نہیں کرتا۔ اور اس طرح سے انسان بے نور ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ آخر کار بعض اوقات ارتداد ہو جاتا ہے‘‘۔ (بعض جو مرتد ہوتے ہیں دیکھ لیں اسی لئے کہ اپنی نیکیاں خود نہیں کر رہے ہوتے، کبھی پوچھو تو نماز پڑھی نہیں ہوتی، لیکن جماعت پہ اعتراض ہوتا ہے) ’’اس طرح سے انسان دل کا اندھا ہو جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر 5صفحہ 456`455جدید ایڈیشن – الحکم صفحہ 4تا 6مورخہ 2؍ مارچ 1908ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق تقویٰ پر چلنے والا بنائے۔ ہم اپنی عبادتوں کے معیار قائم کرنے والے ہوں اور نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہمارے پیش نظر رہے۔ اللہ سب کو توفیق دے۔ آمین
کیلگری (کینیڈا) میں جماعت احمدیہ کی مسجد کی تعمیر
خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ جون 2005 ء بمقا م کیلگری، کینیڈا
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔