آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کا ایک خُلق۔ مہمان نوازی
خطبہ جمعہ 22؍ جولائی 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
مہمان نوازی انبیاء کے خُلق میں سے ایک اعلیٰ خُلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں اس کو یوں بیان فرمایا ہے کہ جب آپؑ کے پاس معزز مہمان آئے تو سب سے پہلا کام جو آپؑ نے کیا وہ یہ تھا کہ {فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ} (الذّاریات:27) یعنی وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔ تو آپ نے مہمانوں سے یہ نہیں پوچھا کہ دُور سے آئے ہو یا نزدیک سے آئے ہو، یابھوک لگی ہے یا نہیں لگی، کھانا کھاؤ گے یا نہیں کھاؤ گے، بلکہ فوری طور پر گھر کے اندر گئے اور کھانا تیار کروا کر لے آئے۔
تو یہ خُلق ہے جو اللہ والوں کا مہمانوں کے ساتھ ہوتا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کا جامع اور افضل الرسل فرمایا ہے ان میں تو یہ خُلق ایسا قائم تھا جس کی مثال نہیں۔ بلکہ زمانہ نبوت سے پہلے بھی آپؐ کا یہ خُلق ایسا تھا کہ دوسروں کو متأثر کیا کرتا تھا۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی اور آپؐ بڑے سخت گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ ؓ سے اس گھبراہٹ کا ذکر کیا تو دیکھیں کیسا جواب تھا۔ روایت میں آتا ہے آپؓ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! جیسے آپؐ سوچ رہے ہیں ویسے ہرگز نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی بھی رُسوا نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کرتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناپید نیکیاں بجا لاتے ہیں، لوگوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفات سماوی کے نازل ہونے پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (بخاری ـکتاب التفسیر۔ سورۃ اقرأ باسم ربک…حدیث نمبر4953)
یعنی جو اعلیٰ اخلاق دنیا سے غائب ہو گئے ہیں ان کو آپ ؐ قائم کرتے ہیں جن میں سے ایک مہمان نوازی بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو یہی خُلق تو پسند ہیں۔ تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایسے اخلاق والے انسان کو خداتعالیٰ ضائع کر دے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مختلف قسم کی نیکیوں میں سے ایک نیکی مہمان نوازی بھی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور اس کی رضا حاصل کرنے کا باعث بنتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مہمان نوازی کے تعلق میں جونمونے قائم فرمائے اور اپنے عمل سے جو اعلیٰ مثالیں ہمارے سامنے پیش فرمائیں اب مَیں ان میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں۔ اور پھر یہ کہ اپنی امت کو بھی نصیحت فرمائی کہ کس طرح مہمان نوازی کرو۔ آپؐ کے پاس گھر میں بھی اگر کوئی مہمان آتا تو جو بھی میسر ہوتا مہمان کو پیش فرماتے۔ بعض دفعہ گھر میں آپ ؐ کھانا تناول فرما رہے ہوتے اگر کوئی آتا تو بڑی بے تکلفی سے آنے والے کو اپنے ساتھ شامل کرتے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ عبدالحمید بن صیفی اپنے والد اور اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ صہیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھجور اور روٹی پڑی ہوئی تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صہیب سے کہا کہ قریب آ جاؤ اور کھاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ صہیب کھجوریں کھانے لگے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کی آنکھ دکھنے آئی ہوئی ہے(اس وقت ان کی ایک آنکھ دکھ رہی تھی) اس کے باوجود تم نے کھجوریں کھانی شروع کر دی ہیں۔ (تو بے تکلف ماحول تھا) حضرت صہیب نے اس پر جواب دیا کہ یا رسول اللہ! میں اس آنکھ کی طرف سے کھارہا ہوں جو درست ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 62-61 مطبوعہ بیروت)
دیکھیں کتنا سادہ اور بے تکلف ماحول ہے۔ بعض دفعہ ایسے موقعے بھی آئے کہ آپؐ کھانا تناول فرما رہے ہیں اور کوئی آ گیا تو اس کو بھی ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی، چاہے کھانا جتنی مرضی تھوڑی مقدار میں ہو۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی کسی کام سے نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی آپؐ کی رہائش کی طرف دروازے تک آپؐ کے ساتھ آ گئے۔ تو آپؐ اندر گئے اور تھوڑی دیر بعد تھوڑا سا کھانا لے کے آئے اور فرمایا کہ آؤ کھائیں۔ لیکن کھانا اتنی کم مقدار میں تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ مَیں ہچکچاتا رہا۔ بہرحال آنحضورؐ نے فرمایا تم لگتا ہے کسی کام سے آئے ہو۔ تو جو بھی کام تھا وہ پوچھااور واپس چلے گئے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ جوساتھ آ گیا اس کو مہمان سمجھا اور گھر کے اندر اس کو لے آئے اور فرمایا کہ آؤ کھانا کھائیں۔ پھر جب کبھی کافی تعداد میں مہمان آ جایا کرتے تھے تو آپؐ مہمانوں کو صحابہ میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور صرف انہی میں نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے ساتھ بھی اس طرح تقسیم کرکے لے جاتے تھے۔ ایک ایسے ہی موقع کا روایات میں یوں ذ کرآتا ہے۔ عبداللّٰہ بن طُھْفَہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کثرت سے مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہر کوئی اپنا مہمان لیتا جائے۔ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت زیادہ مہمان آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے حصہ کا مہمان ساتھ لے جائے۔ عبداللّٰہ بن طُھْفَہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں ان میں تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے۔ چنانچہ جب آپؐ گھر پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: کیا گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کی جی ہاں حُوَیْسَہ نامی کھانا ہے جو مَیں نے آپ کے افطار کے لئے تیار کیا ہے۔ تو راوی کہتے ہیں کہ وہ کھانا ایک برتن میں ڈال کر لائیں (تھوڑا سا ہو گا) اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا لیا اور تناول فرمایا اور پھر فرمایا کہ بسم اللہ کرکے کھائیں۔ پھر ہمیں بھی دیا۔ چنانچہ ہم نے اس کھانے میں سے اس طرح کھایا کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! کیا تمہارے پاس پینے کو کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، حریرہ ہے جو میں نے آپ کے لئے تیار کیا ہے۔ فرمایا: لے آؤ۔ حضرت عائشہ ؓ وہ لائیں تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پکڑا اور برتن کو اپنے منہ کی طرف بلند کیا۔ تھوڑا سا نوش کرکے فرمایا :بسم اللہ کرکے پینا شروع کرو۔ پھر ہم اس سے اس طرح پینے لگے کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ پھر اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے مسجدمیں چلے آئے اور یہاں آنے کے بعد روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم کہاں سونا چاہتے ہو؟ یہاں رہنا ہے یا مسجد جانا ہے؟ تو سب نے کہا ہم مسجد جا کے سوئیں گے۔ تو کہتے ہیں ہم مسجد چلے گئے اور وہاں جا کے سو گئے اور صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، نماز کے لئے ہر ایک کو جگایا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ426مطبوعہ بیروت)
اس روایت میں جو ہے کہ پہلے آپؐ نے اس کو پیا اس سے یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ شاید اس لئے کہ آپؐ نے سمجھا کہ میراپہلے حق ہے میں پی لوں، بلکہ اس لئے کہ اس کی مقدار تھوڑی تھی اور آپؐ کو پتہ تھا کہ آپ ؐ کے پہلے منہ لگانے سے اس میں برکت پیدا ہو گی اور آپؐ کی دعا سے یہ کھانا مہمانوں کے لئے کافی ہو جائے گا۔ اس لئے آپؐ نے پہلے شروع کیا۔ اور پھر مہمانوں کے آرام کے لئے فرمایا کہ جاؤ اب سو جاؤ، جہاں بھی سونا چاہتے ہو۔ پھر نماز کے لئے جگایا۔
مہمان نوازی کے زُمرے میں یہ بھی ہے کہ جب مہمان آئیں اگر وہ آپ کے ہم مذہب ہیں تو ان کو نمازوں کی طرف بھی توجہ دلائی جائے، صبح اٹھایا جائے۔ یہاں بھی ہمارے جلسے پہ اسی لئے انتظام ہوتا ہے تاکہ لوگ نمازوں میں شامل ہو سکیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کی حالت کا اندازہ تھا کہ وہ کس طرح فاقہ کشیاں کرتے ہیں۔ غربت کا زمانہ تھا اور سب سے زیادہ جو اس دور سے گزرتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے۔ فاقے کی حالت میں ہوتے تھے اور جب بھی کھانے کے ظاہری اسباب میسر آتے تھے، چاہے وہ تھوڑے سے ہی ہوں، آپؐ اس یقین کے ساتھ کہ اس کھانے میں خداتعالیٰ میری دعا سے برکت ڈال دے گا، اپنے صحابہ کو بھی بلا لیا کرتے۔ ان لوگوں کوبھی بلا لیا کرتے تھے جو وہاں بھوکے بیٹھے ہوا کرتے تھے تاکہ ان کی بھی اس انتظام کے تحت مہمان نوازی ہو جائے۔
ایک واقعہ کا یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُمِّ سُلَیم کے گھر کے قریب سے گزرتے تو ان کے گھر آتے اور ان کو سلام کہتے۔ حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت نبی کریمؐ کی شادی حضرت زینب ؓ بنت جحش سے ہوئی تو مجھے میری والدہ اُمِّ سُلَیم نے کہا کہ اگر ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تحفہ بھیجیں تو کتنا اچھا ہو گا۔ اس پر میں نے کہا بھیج دیں۔ تو میرے کہنے کے بعد میری والدہ نے کھجور لی اور پنیر کو ایک برتن میں ڈالا اور ان کو ملا کر حَیْس نامی کھانا تیار کیا اور پھر وہ کھانا مجھے دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔ جب مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا توآپؐ نے مجھے ارشاد فرمایا اس برتن کو رکھو۔ پھر کچھ آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ ان کو بلا لاؤ اور ہر وہ شخص جو تمہیں ملے اسے کہنا کہ میں بلا رہاہوں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کیا۔ جب مَیں واپس آیا تو گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ نے اپنا دست مبارک اس کھانے پررکھا اور اس کو برکت دینے کے لئے کچھ دیر دعا کرتے رہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دس افراد کو بلانے لگے جو اس برتن میں سے کھاتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو فرماتے تھے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور ہرشخص اپنے سامنے سے کھائے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ان سب کو بلاتے رہے یہاں تک کہ ان سب نے کھانا کھا لیا۔ (بخاری ـکتاب النکاح۔ باب الھدیۃ للعروس)
دیکھیں کتنا خیال تھا کہ کھانا آیا ہے توباقیوں کو بھی کھلایا جائے۔ جو بھوکے ہیں ان کی بھی مہمان نوازی ہو جائے۔ یہ تھے آپ ؐ کے مہمان نوازی کے طریقے کہ بھوکوں، ضرورت مندوں کو بلا کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کھانا کھلاتے اور مہمان نوازی فرمایا کرتے تھے۔ پھر صرف یہی نہیں کہ آپؐ نے عارضی طور پر کبھی کبھی مہمان بلا لئے اور مہمان نوازی کر دی، بلکہ ایسا بھی ہوا کہ آپ ؐ نے بعض مہمان مستقل اپنے ہاں لمبے عرصے کیلئے ٹھہرائے اور ان کے لئے مستقل خوراک کا انتظام فرمایا۔ حالانکہ اس وقت حالت ایسی تھی کہ خود بھی گھر میں شاید اتنا اچھا انتظام نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ صرف انتظام فرمایا بلکہ کھانے کا انتظام ہی ان کے سپرد کر دیا کہ اپنا پیٹ بھرنے کے بعد میرے لئے بھی رکھ دیاکرو۔
اس کا ذکر یوں ملتا ہے، حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی جن کی محنت و مشقت اور خوراک کی کمی کی وجہ سے قوت سماعت اور بصارت یعنی دیکھنے اور سننے کی جو طاقت تھی متاثر ہو گئی تھیں، نظر اور آنکھوں پر اثر پڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پاس آئے۔ مگر ان میں سے کسی نے ہماری طرف توجہ ہی نہ دی۔ پھر ہم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ ہمیں اپنے گھر والوں کے پاس لے گئے۔ وہاں پر تین بکریاں تھیں۔ آپؐ نے فرمایا ان کا دودھ دوہا کرو اور ہم میں سے ہر ایک اپنا اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کا حصہ لے جاتے۔ یعنی جو کھانے کا انتظام تھا وہ ان لوگوں کے سپرد کر دیا۔ تم پی لیا کرو اور مجھے میرا حصہ دے دیا کرو۔ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت تشریف لاتے اور سلام کرتے تو آواز اتنی اونچی نہ ہوتی کہ سویا ہوا بیدار ہوجائے۔ جو جاگ رہا ہوتا وہ سن لیتا۔ پھر آپؐ مسجد میں تشریف لے جاتے اور نماز ادا فرماتے۔ پھر آپؐ کے پاس پینے کے لئے دودھ لایا جاتا جو آپؐ پی لیتے۔ ایک دن وہ کہتے ہیں کہ بھوک کی وجہ سے مَیں سارا دودھ پی گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو دودھ نہیں تھا لیکن آپؐ کی برکت کی وجہ سے بکری جو دودھ دینے والی تھی اس کو دوبارہ دودھ اتر آیا۔ پھر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپؐ نے فرمایا: نہیں پہلے خود پی لو۔ آپ کوبتایا نہیں تھا کہ ہم سارا پی چکے ہیں۔ تو بہرحال پہلے اُنہیں پلا کے پھر آپؐ نے تھوڑا سا پیا اور بقایا پھر مہمانوں کو دے دیا۔ (ترمذی ـکتاب الاستئذان والادب۔ باب کیف السَّلام)
پھر ایک اور روایت میں اسی مستقل مہمان نوازی کا ذکریوں ملتا ہے۔ مالک بن ابی عامر کی ایک لمبی روایت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص طلحہ بن عبیداللہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے ابو محمد! تم اس یمانی شخص یعنی ابوہریرہ کو نہیں دیکھتے کہ یہ تم میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جاننے والا ہے۔ ہمیں اس سے ایسی ایسی احادیث سننے کو ملتی ہیں جو ہم تم سے نہیں سنتے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ باتیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسکین تھے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان بن کر پڑے رہتے تھے۔ ان کا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے ساتھ ہوتا تھا۔ اور ہم لوگ کئی کئی گھر والے اور امیر لوگ تھے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دن میں کبھی صبح اور کبھی شام آیا کرتے تھے۔ (ترمذی ـ کتاب المناقب- باب مناقب لابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ – حدیث نمبر 3846)
ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب بھی کھانے کی کوئی چیز آتی، تحفہ وغیرہ آتا تو آپ ان لوگوں کو پہلے بلا لیا کرتے جومستقل وہاں پڑے ہوئے تھے۔
پھر آپؐ کی مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ مہمان کوکبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے جس سے مہمان کو یہ خیال پیدا ہو کہ آپؐ کی میرے کھانے پر نظر ہے تاکہ وہ کبھی سبکی محسوس نہ کرے، شرمندگی محسوس نہ کرے۔ بلکہ بعض دفعہ یہ ہوتا کہ اگر مہمان کے ساتھ کھانا کھا رہے ہوتے تو آہستہ آہستہ آپ خود بھی کھاتے رہتے تاکہ مہمان کسی شرمندگی کے بغیر کھاتا رہے۔ لیکن بعض دفعہ یوں بھی ہوا کہ کوئی کافر مہمان ہوا اور ضرورت سے زیادہ خوش خوراکی کا مظاہرہ کیا لیکن آپ نے اظہار نہیں ہونے دیا اور جتنی اس کی خواہش تھی، جتنا وہ پیٹ بھر سکتا تھا اس کے مطابق اس کو خوراک مہیا کی۔
ایک واقعہ یوں بیان ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو کافر تھا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مہمان بنا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہ کر لانے کے لئے فرمایا جو اس کافر نے پی لیا۔ پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ صبح اس نے اسلام قبول کر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کے لئے ارشاد فرمایاجو اس نے پی لیا۔ پھرآپ نے دوسری بکری کا دودھ لانے کا فرمایا تو وہ پورا دودھ ختم نہ کر سکا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن ایک آنت میں کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں کو بھرتا ہے۔ (ترمذی کتاب الاطعمۃ با ماجاء ان المؤمن یاکل فی معی واحد)
تو اس وقت جب وہ کافر تھا، مہمان تو بہرحال تھا اس کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ کھانا مفت مل رہا ہے تو اتنا تو نہ کھاؤ کہ تمہارا پیٹ خراب ہو جائے۔ لیکن اگلے دن جب وہ آپؐ کے سلوک کی وجہ سے خود ہی مسلمان ہو گیا، اس نے اسلام قبول کر لیا تو اس کو خود بھی پتہ لگ گیا کہ زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا ہی نہیں ہوتا۔ ایک رات میں ہی اس نیک فطرت کو احساس بہرحال ہوگیا اور ایک رات میں ہی آپؐ کی قوت قدسی کی وجہ سے، آپؐ کے حسن سلوک کی وجہ سے، مہمان نوازی کی وجہ سے، ایک تو اس کو اسلام کے نور سے منور ہونے کی توفیق مل گئی اور پھر زندگی کے مقصد کا پتہ چل گیا۔ اور پھر اس وقت جو خوراک لی وہ ایک مومن کی خوراک تھی۔
اسی طرح کے ایک واقعہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یوں ذکر فرماتے ہیں کہ:
’’ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبی کواختیار کیا۔ کوئی شخص عیسائی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ حضرت نے اس کی بہت تواضع و خاطر داری کی۔ وہ بہت بھوکا تھا۔ حضرت نے اس کو خوب کھلایا کہ اس کا پیٹ بہت بھر گیا۔ رات کو اپنی رضائی عنایت فرمائی۔ جب وہ سو گیا تو اس کو بہت زور سے دست آیا کہ وہ روک نہ سکا۔ (اس بیچارے کا پیٹ خراب ہو گیا) اور رضائی میں ہی کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے سوچا کہ میری حالت کو دیکھ کر کراہت کریں گے۔ شرم کے مارے وہ نکل کر چلا گیا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سے عرض کی کہ جو نصرانی عیسائی تھا وہ رضائی کو خراب کر گیا ہے… حضرت نے فرمایا کہ وہ مجھے دو تاکہ مَیں صاف کروں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں۔ ہم جو حاضرہیں، ہم صاف کر دیں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ وہ میرا مہمان تھا، اس لئے میرا ہی کام ہے اور اٹھ کر پانی منگوا کر خود ہی صاف کرنے لگے۔ وہ عیسائی جب کہ ایک کوس نکل گیا تو اس کو یاد آیاکہ اس کے پاس جو سونے کی صلیب تھی وہ چارپائی پر بھول آیا ہوں۔ اس لئے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ حضرت اس کے پاخانہ کو رضائی پر سے خود صاف کر رہے ہیں۔ اس کو ندامت آئی اور کہاکہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو مَیں کبھی اس کو نہ دھوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسا شخص کہ جس میں اتنی بے نفسی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پھر وہ مسلمان ہو گیا۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ371-370 جدید ایڈیشن ـ الحکم 17؍ جولائی 1903ء صفحہ 16`15)
دیکھیں کیا کیا مثالیں ہیں جو ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نمونے میں دکھائیں۔ پھر جب کثرت سے وفود آنے لگے تو ان کی مہمان نوازی کابھی آپؐ اہتمام فرماتے تھے۔ اس طرح کہ ایک وفد کو آپؐ نے انصار کے سپرد کیا اور فرمایا ان کا خیال رکھنا اور اچھی طرح مہمان نوازی کرنا اور پھر اگلے دن اس وفد کے افراد سے پوچھا کہ تمہارے بھائیوں نے تمہاری صحیح طرح مہمان نوازی کی ہے؟ سب نے کہا کہ واقعی انہوں نے مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا ہے اور بہترین بھائی ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہمارے لئے عمدہ کھانے کا انتظام کیا اور ہمارے لئے نرم بستر بچھائے پھر ہمیں قرآن و سنت کی باتیں بھی سکھائیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔
تو جیسا کہ پہلے حدیث میں ذکر آ چکا ہے کہ آپ مہمانوں کی ظاہری مہمان نوازی کے ساتھ ان کی روحانی تربیت کی طرف بھی توجہ دیا کرتے تھے۔ اور یہی کچھ آپؐ نے صحابہ کو سکھایا تھا۔ جیسا کہ اس میں ذکر آتا ہے کہ صبح نماز کے وقت آپؐ نے نماز کے لئے جگایا۔ تو اسی اسوہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ بھی اپنے مہمانوں کی مادی اور روحانی دونوں غذاؤں کا خیال رکھا کرتے تھے۔ پھرآپؐ نے ایک وفد کی خود مہمان نوازی اپنے ہاتھوں سے کی۔ صرف اس لئے کہ فرمایا کہ ابتدائے اسلام میں جب مجبور اور مظلوم مسلمانوں پر مکّہ میں زیادتیاں ہو رہی تھیں تو ان کے ہم قوموں نے اس وقت مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا۔ غرض ہر موقع پر آپؐ اس تلاش میں ہوتے تھے کہ کس طرح مہمان کی خدمت کا موقع ہاتھ آئے اور یہی نصیحت آپ صحابہ کو فرمایا کرتے تھے۔ اپنے عمل کے ساتھ اپنی امت کو بھی یہی اسلوب آپؐ نے سکھائے اور نصیحت فرمائی، ترغیب دلوائی۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری سنت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میزبان جس کے گھر مہمان آیا ہو اعزاز و تکریم کے ارادے سے، اس نیت سے کہ اس نے مہمان کو عزت دینی ہے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک الوداع کہنے کے لئے آئے۔ تو الوداع کہنے کے لئے باہر چھوڑنے کے لئے آپؐ باہر دروازے تک آیا کرتے تھے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے، آپؐ نے فرمایا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (صحیح مسلم- کتاب الایمان- باب الحث علی اکرام الجار)
تو مہمان نوازی بھی ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ مہمان کا جائز حق ادا کرو۔ اور جائز حق کے بارے میں فرمایا کہ کم از کم ایک دن اور رات کی مہمان نوازی ہے۔ ویسے تو فرمایا کہ تین دن کی مہمان نوازی ہے۔
پھر آپ کے اس اُسوہ اور نصیحتوں کا یہ اثر تھا کہ صحابہ نے، مردوں نے بھی، عورتوں نے بھی اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کاٹ کر، بھوکا رہ کر اور بچوں کو بھوکا رکھ کر اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کے حق ادا کئے۔ اور اسی طرح کی ایک اعلیٰ مثال روایت میں یوں ملتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپؐ نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ۔ جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا۔ اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا۔ ایک انصاری نے عرض کیا حضور! میں انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارت کا اہتمام کرو۔ بیوی نے جواباً کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ انصاری نے کہا اچھا تم کھانا تیار کرو۔ پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر، بہلا کر سلا دو۔ چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا۔ چراغ جلایا اور بچوں کو بھوکاسلا دیا۔ روتے روتے سو گئے۔ پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا اور پھردونوں مہمانوں کے ساتھ بیٹھے بظاہر کھانا کھانے کی آوازیں نکالتے اور چٹخارے لیتے رہے تاکہ مہمان سمجھے کہ میزبان بھی میرے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ بھوکے سو رہے۔ صبح جب وہ انصاری حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنسا۔ یعنی وہ آیت نازل ہوئی کہ پاک باطن اور ایثار پیشہ مخلص اور مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو دیکھیں کہ کس قدر خوبصورت معیار ہیں مہمان نوازی کے جو صحابہ نے قائم کئے۔ (بخاری، کتاب المناقب باب یؤثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ)
پھر اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چل کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی کس طرح مہمان نوازی کے معیار قائم کئے اور اس ضمن میں جماعت کو نصیحت بھی فرمائی۔ اس کی کچھ جھلکیاں میں دکھاتا ہوں۔ حضورؑ نے ایک جماعت کو خطاب کرکے فرمایا:
’’ میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ و شتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کرنا چاہئے(یعنی سخت الفاظ بھی استعمال کرے) کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے(اگر غیر آتا ہے تو) ہمار اکیا حق ہے کہ اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مریدوں سے چاہتے ہیں۔ یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے بات کریں۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ مہمان کو اگر ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ80-79جدید ایڈیشن ـ الحکم 21؍ فروری 1903ء صفحہ 3 تا 5)
یعنی اگر مہمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو گناہ ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ جو ابھی احمدیت میں داخل نہیں ہوئے، ایک تو وہ احمدی نہیں، اس لحاظ سے بھی نرمی سے پیش آنا چاہئے۔ ویسے بھی مہمان ہیں اس لحاظ سے بھی نرمی سے پیش آنا چاہئے۔ احمدیوں کو بعض اصولوں کا پتہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہیں کہ اگر احمدی ہے تو ضرور سختی سے پیش آیا جائے۔ مہمان احمدی بھی ہے لیکن بعض اصول و قواعد جماعت کے ہیں، جماعت کی روایات ہیں۔ ایک غیر کو توپتہ نہیں، ایک احمدی کو پتہ ہوتا ہے۔ تو اس لحاظ سے آپ نے فرمایا کہ مہمان ہونے کی حیثیت سے بھی اور غیر ہونے کی حیثیت سے بھی اس کا تم زیادہ احترام کرو۔
پھر ایک او ر روایت ملتی ہے کہ:’’ اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مہمان نوازی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اعلیٰ اور زندہ نمونہ ہیں۔ جن لوگوں کو کثرت سے آپ کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی مہمان کو(خواہ وہ سلسلہ میں داخل ہو یا نہ داخل ہو) ذرا سی بھی تکلیف حضور کو بے چین کر دیتی ہے۔ مخلصین احباب کے لئے تو اور بھی آپ کی روح میں جوش اور شفقت ہوتا ہے۔ اس امرکے اظہار کے لئے ہم ذیل کا ایک واقعہ درج کر دیتے ہیں ‘‘۔ (وہ واقعہ یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ)’’ میاں ہدایت اللہ صاحب احمدی شاعر لاہور پنجاب جو کہ حضرت اقدس کے ایک عاشق صادق ہیں اپنی اس پیرانہ سالی میں بھی چند دنوں سے گورداسپور آئے ہوئے تھے۔ آج انہوں نے رخصت چاہی جس پرحضرت اقدس نے فرمایا کہ: آپ جا کر کیا کریں گے، یہاں ہی رہیے، اکٹھے چلیں گے۔ آپ کا یہاں رہنا باعث برکت ہے۔ اگر کوئی تکلیف ہو تو بتلا دو اس کا انتظام کر دیا جاوے گا‘‘۔ پھر اس کے بعد آپؑ نے عام طور پر جماعت کو مخاطب کرکے فرمایا کہ:’’ چونکہ آدمی بہت ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی کی ضرورت کا علم(اہل عملہ کو) نہ ہو۔ اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ جس شے کی اسے ضرورت ہو وہ بلا تکلف کہہ دے۔ اگر کوئی جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو وہ گناہگار ہے۔ ہماری جماعت کا اصول ہی بے تکلفی ہے۔ بعد ازیں حضرت اقدسؑ نے میاں ہدایت اللہ صاحب کو خصوصیت سے سید سرور شاہ صاحب کے سپرد کیا کہ ان کی ہر ضرورت کو وہ بہم پہنچاویں۔ ‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 80-79جدید ایڈیشن ـ الحکم 31؍ جولائی ـ 10؍ اگست 1904صفحہ 14)
اسی طرح ایک دفعہ آسام سے کچھ مہمان آئے اور جب لنگرخانہ میں آ کے اترے تو لنگرخانہ کے عملے کے رویّہ کی وجہ سے ناراض ہو کر اسی طرح اسی ٹانگے پہ بیٹھ کے واپس چلے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب پتہ لگا تو آپؑ بڑے ناراض ہوئے کہ کیوں ایسی صورت پیدا ہوئی۔ اور فوری طور پر اس طرح کہ جوتے پہننا بھی مشکل تھا جلدی جلدی جوتے پہنے اور ان کے پیچھے تیز تیز قدموں سے گئے حالانکہ وہ تانگے پرتھے دور نکل چکے تھے لیکن آپؑ پیدل ان کے پیچھے پیچھے گئے اور روایت میں آتا ہے کہ نہر پہ پہنچ کے آپ نے ان کو وہاں روک لیا اور پھر ان کو واپس لے کر آئے۔ پھر مہمانوں کو کہاکہ آپ ٹانگے پر بیٹھ کر چلیں مَیں پیدل چلتا ہوں۔ بہرحال اس خُلق کو دیکھ کر مہمان بھی شرمندہ تھے۔ وہ شرمندگی سے کہیں، نہیں حضور ہم تو نہیں بیٹھیں گے ساتھ ہی چلے۔ پھر بہرحال واپس قادیان آئے، لنگر میں آ کے آپؑ نے خود سامان اتارنے کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن کیونکہ کارکنان کوشرمندگی کا احساس تھا انہوں نے فوری طور پر آ گے بڑھ کر سامان اتارا۔ تو پھر ان لوگوں کی خوراک کے بارے میں کیونکہ یہ آسام کے لوگ تھے خاص خوراک کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انتظام فرمایا۔
ایک روایت حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آ یا ہوا تھا۔ غالباً 1897ء یا 1898ء کا واقعہ ہو گا۔ مجھے حضرت صاحب نے مسجد مبارک میں بٹھایا جو کہ اس وقت ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔ فرمایا کہ آپ بیٹھئے مَیں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے۔ میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے۔ مگر چند منٹ کے بعد جبکہ کھڑکی کھلی تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اٹھائے ہوئے(طشتری اٹھائے ہوئے، ٹرے اٹھائے ہوئے) میرے لئے کھانا لائے ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھائیے مَیں پانی لاتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ بے اختیار رقت سے میرے آنسو نکل آئے کہ جب حضرت ہمارے مقتداء اور پیشوا ہو کر ہمارے لئے یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہئے۔
پھر ایک دفعہ جب مہمانوں کی زیادتی کی وجہ سے بستر بہت کم ہو گئے تو اپنے گھر میں جو آخری رضائی تھی وہ بھی مہمانوں کودے دی اور خود ساری رات تکلیف میں گزاری تاکہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو۔ پھر ایک دفعہ مہمان نوازی کے بارے میں ذکر ہوا تو فرمایا کہ:
’’ میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو۔ بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتاہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے۔ مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اس سے پیشتر میں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پرہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا۔ ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی اس لئے بمجبوری علیحدگی ہوئی۔ ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے۔ بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں ان کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہو سکتا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ292جدید ایڈیشن ـ البدر مورخہ 15؍ مئی 1903ء صفحہ 130)
ایک دفعہ آپ نے جب مہمان بہت سارے آئے ہوئے تھے میاں نجم الدین صاحب کوجو لنگرخانے کے انچارج تھے، فرمایا، تاکید کی کہ:’’ دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ492جدید ایڈیشن ـ البدر 8؍جنوری 1904ء صفحہ 4`3)
تو دیکھیں کس طرح مہمانوں کی خدمت کی نصیحت فرمائی۔ خدا کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حسن ظن جو آپؑ نے اپنے کارکنوں اور مہمان نوازی کرنے والوں سے اس وقت بھی کیا تھا آج بھی وہ قائم رہے اور ہمیشہ قائم رہے۔ یہ اُسوہ حسنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان نوازی کا ہمارے سامنے رکھا اور جس طرح آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو اس طرف توجہ دلائی، اپنی امت کو اس طرف توجہ دلائی اور جس کی مثالیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے قائم فرمائیں یہ اس لئے ہیں کہ ہم بھی اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کے اُسی طرح حق ادا کرنے والے ہوں۔ اسی طرح جو ہمارے سامنے مثالیں جو قائم کی گئی تھیں۔ اگلے جمعہ سے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہاہے۔ باہر سے مہمان ہمیشہ آتے ہیں۔ اب بھی انشاء اللہ آئیں گے U.K. سے مختلف جگہوں سے بھی آئیں گے۔ بلکہ بیرونی ممالک کے اکثر مہمان تو آنے بھی شروع ہو گئے ہیں۔ بہت سے ہیں جو اپنے عزیزوں کے ہاں ٹھہرے ہوں گے۔ جو تو قریبی عزیز ہیں وہ تو اپنے مہمانوں کی، والدین کی، بھائیوں کی خدمت کرتے ہیں اور کرنی چاہئے۔ مہمان نوازی کے حق ادا کرنے چاہئیں۔ دور سے لوگ آتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہے کہ کوئی واقف کار یا عزیز یا کسی تعارف کی وجہ سے وہ کسی کے گھر ٹھہر گیا ہے تو ہمیشہ کی طرح اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے ان کی مہمان نوازی کے پورے حق ادا کر یں۔ اور اس طرح بعض لوگ ہیں جو جماعتی انتظام کے تحت ٹھہرے ہوئے ہیں اور جماعت کا جوانتظام ہے یہ عارضی کارکنان کے سپرد ہوتا ہے۔ اس لئے بعض دفعہ یوں بھی ہو جاتا ہے کہ نئے آنے والے اور ناتجربہ کار معاونین(کیونکہ نئے شامل ہوتے رہتے ہیں، بعض دفعہ ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں )۔ وہ مہمان نوازی کے حق کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔ اس لئے اُن پر بھی منتظمین کی نظر رہنی چاہئے کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو مہمان کی دل آزاری کا باعث ہو، اس کی کسی تکلیف کا باعث ہو۔ اور جو اپنے گھروں میں مہمان رکھنے والے ہیں وہ بھی اور جماعتی انتظام کے تحت جو مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ کبھی کوئی ایسی بات نہ ہوجوکسی مہمان کے لئے تکلیف کا یا دل دکھانے کا باعث بنے۔ برطانیہ کے مقامی لوگ جو جلسے پر آئیں گے دو تین دن کے لئے ٹھہریں گے۔ جلسہ سننے کے بعد چلے جائیں گے۔ لیکن باہر سے آنے والے جو خرچ کرکے آتے ہیں ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جن کو بڑی مشکل سے ویزے ملے اور خرچ کرکے آتے ہیں۔ اس لئے کم از کم پندرہ دن تو ان کو ٹھہرنے کا حق ہے اور پندرہ دن ان کی مہمان نوازی بھی کرنی چاہئے اور کی جاتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ جو گھروں میں ٹھہرے ہوتے ہیں اگر ان کو دقت ہو کہ اتنا لمبا عرصہ مہمان نوازی نہیں کر سکتے تو ان کو چاہئے کہ جماعتی انتظام کے تحت پھر ان کو جماعت کے سپرد کر دیں تاکہ پندرہ دن تک مہمان نوازی کی جاسکے۔
امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی طرح تمام کارکنان جلسے کے انتظامات میں پوری دلچسپی سے حصہ لیں گے۔ اور مہمانوں کے حق بھی ادا کریں گے۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حسن ظن ہے۔ یہ حسن ظن ہمیشہ جماعت کے کارکنان کا ایک نشان بنا رہے گا۔ اس دفعہ کیونکہ جلسہ کہیں اور ہونا ہے، دو جگہ کی تقسیم کی و جہ سے کچھ مہمان ایک جگہ ٹھہریں گے کچھ مہمان دوسری جگہ ٹھہریں گے۔ بعض شعبوں پر زیادہ ذمہ داریاں پڑ جائیں گی تو اس لئے بھی اپنے آپ کو، کارکنوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہئے کہ اس دفعہ ڈیوٹیاں زیادہ توجہ سے دینی ہوں گی۔ اور ہو سکتا ہے زیادہ وقت کے لئے دینی پڑیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ ہم خداتعالیٰ کی خاطر آنے والے ان مہمانوں کی صحیح طرح مہمان نوازی کر سکیں۔ اللہ سب کو توفیق دے۔
جلسہ سالانہ برطانیہ کے حوالہ سے مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے سے متعلق تاکیدی نصائح
خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍جولائی 2005 ء بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن۔ برطانیہ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔