مہمانوں کے حقوق و فرائض
خطبہ جمعہ 29؍ جولائی 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:
آج شام کو انشاء اللہ تعالیٰ باقاعدہ جلسہ کے افتتاح کے ساتھ جماعت احمدیہ U.K. کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ لیکن جلسے کی رونق، اس کے کام، مہمانوں کی آمد اور گہما گہمی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ کئی دنوں سے شروع ہے۔ اسی طرح جلسے کی تیاریاں بھی ہو رہی تھیں، اس نئے علاقے میں کافی کام تھا اور یہاں مقامی جماعت کی کافی گہما گہمی تھی۔ گزشتہ خطبے میں اسوہ ٔرسولﷺ کی روشنی میں مَیں نے میزبانوں کو، مہمان نوازی کرنے والوں کو، مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کو، مہمان نوازی کی طرف توجہ دلائی تھی۔ آج کے خطبے میں مَیں مہمانوں کو بعض باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ مہمانوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں جن کو اگر مہمان اچھی طرح ادا کریں تو معاشرے میں مزید نکھار پیدا ہوتا ہے، آپس کے تعلقات مزیدنکھرتے ہیں۔ پس جہاں مومن کو یہ حکم ہے کہ مہمان کا خیال رکھو، اُس کو اُس کا حق دو، وہاں مہمانوں کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ تم نے اپنے مہمان ہونے کے حقوق کس طرح استعمال کرنے ہیں اور فرائض کس طرح ادا کرنے ہیں۔ تم نے مہمان بن کر گھر میں کس طرح جانا ہے، کب جانا ہے اور مقصد پورا کرنے کے بعد، کام پورا ہو جائے تو پھر واپس آ جانا ہے۔ گھر والوں کے لئے تنگی کے سامان نہیں کرنے۔ اگر مہمان ان باتوں کو مدنظر رکھیں تو معاشرے کے ہر طبقے میں، مختلف حالات میں جو تعلقات ہیں ان کی وجہ سے جو بے چینیاں پیدا ہو رہی ہوتی ہیں وہ ختم ہو جائیں۔ عموماً معاشرے میں، خاص طور پر ہمارے ملکوں میں یہ ہوتا ہے کہ اچانک بہت سے مہمان آ گئے۔ گھر والے پریشان ہیں کہ کیاکریں۔ بعض دفعہ ایسے حالات نہیں ہوتے کہ ان کی اچھی طرح خدمت کر سکیں اس لئے فرمایا کہ{لَاتَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَأْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا}(النّور:28) کہ اپنے گھروں کے سوادوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو، ان کے رہنے والوں پر سلام بھیجو۔ اجازت کے جو طریقے سکھائے گئے ہیں یہ گھر پہنچ کر ہی نہیں بلکہ آج کل کے زمانے میں تو دور بیٹھ کر بھی اجازت لی جا سکتی ہے۔ جب اجازت مل جائے، گھر والے بھی تیار ہوں ان کو پتہ ہو کہ ہمارے مہمان فلاں تاریخ کو آ رہے ہیں تو ٹھیک ہے پھر اس گھر میں جائیں۔ یہاں جلسے پر جو مہمان آتے ہیں دوسرے ملکوں سے، ان کو تو خیر باہر سے آنا ہوتا ہے، جہاز پر آنا ہوتا ہے اطلاع بھی ہوتی ہے تاکہ کوئی ریسیو (Recieve)کرنے والا بھی مل جائے اور پھر سواری بھی میسر آ جائے اور رہائش گاہوں میں یا گھروں میں لایا بھی جا سکے۔ لیکن چونکہ مہمان نوازی کا عموماً ذکر ہو رہا ہے اس لئے مَیں یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ عام طور پر ہمارے ملکوں میں جو نفسیات ہے، ہمارے ملکوں میں لوگوں کویہ عادت ہے کہ اچانک کسی کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا ہے۔ اور یہ عادت چونکہ اب مہما نوں اور میزبانوں دونوں کا مزاج بن چکا ہے اس لئے عموماً دونوں فریق زیادہ محسوس نہیں کرتے۔ اس صورت میں اگر کھانے وغیرہ میں دیر ہو جائے تو بعض اوقات بعض مہمان شکوہ کرتے ہیں کہ دیکھو دوپہر کا کھانا ہمیں شام کو جا کر دیا۔ گو کہ پاکستان میں ہمارے دیہاتوں میں یہ عادت بھی ہے کہ وہ اطلاع دے کر بھی جائیں تب بھی پہنچنے کے بعد ہی کھانا پکانا شروع کرتے ہیں۔ تو بہرحال یہ چھوٹے چھوٹے شکوے پھر بڑے شکوے بننے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور خاص طور پر ان رشتوں میں جو بڑے نازک رشتے ہوتے ہیں۔ بچوں کے سسرال والوں کا معاملہ آ جاتا ہے تو اس طرح پھر دلوں میں دوریاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ پاکستان کی جومَیں مثال دے رہا ہوں یہ پاکستان کی یا کسی خاص طبقے کی مثال نہیں ہے۔ ان مغربی ممالک میں بھی میرے سامنے ایسی مثالیں ہیں کہ بغیر اطلاع کے بے وقت کسی کے گھر پہنچ گئے خواہ اپنے کسی عزیز کسی رشتے دار کے گھر ہی پہنچے اور گھر والے نے سمجھا کہ اس وقت آئے ہیں تو کھانا کھا کے ہی آئے ہوں گے اور جب گھر والے نے کچھ دیر کے بعد چائے پانی وغیرہ کے متعلق پوچھا تو یہ شکوے پیدا ہوئے کہ مجھے کھانے کے بارہ میں کیوں نہیں پوچھا، بڑا بداخلاق ہے، یہ ہے، وہ ہے۔ تو یوں رشتوں میں پھر دراڑیں پڑنی شروع ہو جاتی ہیں اور دوریاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ آجکل کے زمانے میں جس طرح مَیں نے کہا، رابطے کا نظام بہت تیز ہے، اطلاع کرنے کا نظام بڑا تیز ہے۔ فون کرکے اطلاع کرنی چاہئے، پوچھنا چاہئے کہ فلاں وقت مَیں آ رہا ہوں یا مَیں آنا چاہتا ہوں اگرمصروفیت نہ ہو اور وقت دے سکو تو مَیں آجاؤں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ آداب اس وقت سکھا دئیے جب کسی کو ان آداب کا پتہ ہی نہیں تھا۔
پھر ایک جگہ حکم ہے کہ دعوت پر اگر بلایا جائے تو پھر جاؤ اور وقت پر جاؤ۔ اور پھر جب دعوت سے فارغ ہو جاؤ تو واپس آجاؤ۔ بعض تو بڑی کھلی دعوتیں ہوتی ہیں شادی بیاہ وغیرہ کی۔ ساری ساری رات ہُو ہا ہوتی رہتی ہے، شور شرابے ہوتے رہتے ہیں۔ ہماری جماعت میں تو کم ہے مگر غیروں میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ وہاں تو وقت کی پابندی نہیں ہوتی لیکن بعض سنجیدہ مجلسیں بھی ہوتی ہیں، جماعتی دعوتیں بھی ہوتی ہیں۔ یا ایسی دعوتیں ہوتی ہیں جو جماعتی جگہوں پر کی جا رہی ہوتی ہیں۔ توان میں ان سب آداب کا خیال رکھنا چاہئے جو ان دعوتوں کے لئے مہمانوں کو ادا کرنے ضروری ہیں۔ انہوں نے وقت پرجانا بھی ہے اور فارغ ہوکر اٹھ کر واپس آجانا بھی ہے۔ تو اس طرح کے مہمانوں کے لئے بے شمار احکامات ہیں۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے لوگوں کی دعوت کی۔ کہیں سے کھانا آیا اور لوگوں کو بلا لیا کہ آ جاؤ۔ تو راوی کہتے ہیں کہ جب ساروں نے کھانا کھا لیا تو اکثر لوگ تو چلے گئے، بعض ان میں سے بیٹھے رہے اور باتوں میں مصروف ہو گئے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے پاس بیٹھے نہیں بلکہ آپؐ اٹھ کر اُمَّہَاتُ الْمُؤمنین کے حجرے کی طرف چلے گئے۔ آخر جب کچھ دیر کے بعد وہ لوگ بھی چلے گئے تو پھر آپؐ واپس اپنی جگہ پر آ گئے۔
کئی کام ہوتے ہیں اور آنحضرتﷺ کو تو اور بھی اپنی مصروفیات تھیں۔ ان کے لئے خاص طورپر اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ خیال رکھا کرو اور بیٹھے باتیں نہ کرتے رہا کرو۔ اور نبی کریمﷺ کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنو۔ پھر یہ حکم جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارے میں ہیں وہاں بعض دوسرے حکموں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا ایک عمومی رنگ بھی ہے۔ بعض دفعہ گھر والوں نے رات کو دعوت کے بعد برتن سمیٹنے ہوتے ہیں، کام سمیٹنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر لوگ بیٹھے رہیں تو بلاوجہ کی پریشانی ہوتی ہے۔ تو اس لئے یہ جو حکم ہیں، یہ عمومی رنگ بھی رکھتے ہیں اور مسلمان معاشرے کے لئے، احمدی معاشرے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان پر عمل کیا جائے۔ ضمناً ذ کر کر دوں کہ یہاں مثلاً بیت الفتوح میں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی وسیع جگہ ہے بڑے بڑے ہال ہیں، لوگ اپنی شادیوں کے فنکشنز کے لئے لے لیتے ہیں۔ ٹھیک ہے جماعت کے لوگوں کو ایک اچھی جگہ میسر ہے، بے شک استعمال کریں۔ لیکن اتنا ذہن میں رکھیں کہ یہ تمام کام جو وہاں ہو رہا ہوتا ہے، اس سارے کام کو سمیٹنے والے سب والنٹیئرز ہوتے ہیں۔ کوئی پیڈ (Paid) طبقہ ان کاموں کے لئے جماعت نے نہیں رکھا ہوا۔ والنٹیئرز نے عموماً شادی کے فنکشن کے بعد کام سمیٹنے ہوتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ فنکشن ختم ہو جاتا ہے اور لوگ گھنٹوں بعد بھی، رونق لگائے رہتے ہیں، بیٹھے تصویریں کھنچواتے رہتے ہیں۔ اور والنٹیئرز بے چارے بعض دفعہ رات کو ایک دو بجے گھروں کو پہنچتے ہیں۔ تو ان ہالوں کو استعمال کرنے والوں کو ان والنٹیئرز کا، ان خدمت کرنے والوں کا بھی خیال کرنا چاہئے کہ انہوں نے بھی اپنے گھروں کو جانا ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے آپ مہمان ہوتے ہیں اور وہ بے چارے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ لیکن بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو بعض دفعہ وقت پر اپنا فنکشن ختم کر جاتے ہیں۔ اور جب یہ والنٹیئرز وقت پر ختم کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں تو اس سے صاف پتہ لگ رہا ہوتا ہے کہ بعض لوگ ان سے کافی زیادتی کر جاتے ہیں۔ تویہاں رہنے والوں کومَیں کہہ رہا ہوں، ہمیں بھی، جوبعض موقعوں پر مہمان بنتے ہیں ان باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
پھر بعض دفعہ بعض مہمان بڑے مشکل ہوتے ہیں جیسا کہ مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ کھانا وقت پر نہ ملے، اچھا نہ ملے تو اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں، شکوے شروع ہو جاتے ہیں۔ تو ایسی باتوں سے بھی ایک احمدی کو بچنا چاہئے۔
اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ اسے قبول کرے اور اگر روزہ سے ہے تو حمد و ثنا اور دعا کرتا رہے اور معذرت کرے۔ اور اگر روزے دار نہیں تو جو کچھ پیش کیا گیا خوشی سے کھائے۔ (مسلم – کتاب النکاح – باب الامر باجابۃ الداعی الی دعوۃ)
تو فرمایا کہ جو پیش کیا جائے اسے خوشی سے کھانا چاہئے۔ اور یہ خوشی سے کھانا ہی ہے جو مہمان اور میزبان کے رشتے کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ اس میں پہلا سبق یہی ہے کہ اگر دعوت دی گئی ہے تو دعوت کو قبول کرو۔ کیونکہ یہ بھی رشتوں میں تعلق اور مضبوطی کو قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا دوسری بات جو بیان فرمائی کہ بغیر اعتراض کے کھانا چاہئے، خوشی سے کھانا چاہئے۔ دعوت کرنے والے نے اخلاص سے اہتمام کیا ہوتاہے۔ اس کا اظہارکرنا چاہئے۔ ایک مومن مہمان اپنے ساتھ برکتیں لے کر آتا ہے اس لئے ہمیشہ ایسا مہمان بننا چاہئے جوبرکتیں لانے والا مہمان ہو اور کبھی ایسے مہمان نہ بنیں جو گھر والوں کے لئے پریشانی کاباعث ہوں۔ بلکہ ان کو پریشانی سے نکالنے والے ہوں۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کھانا گھر والے نے تھوڑا پکایا اور مہمان اچانک آ گئے تو اس وقت مل جل کر کھانا چاہئے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک تواحتیاط سے کھائیں اور کھانا ضائع نہ ہو۔ دوسرے، دوسرے مہمانوں کا خیال رکھتے ہوئے اس طرح کھایا جائے کہ سب کو حصہ رسدی مل جائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین کے لئے کافی ہے اور تین کا کھانا چار کے لئے کافی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے اور چارکا آٹھ کے لئے کافی ہے۔ (مسلم – کتاب الاشربۃ – باب فضیلۃ المواساۃ فی الطعام ……)
جلسہ کے دنوں میں بعض اوقات ایسے ہو جاتا ہے کہ کھانے میں وقتی طور پر کمی آ جاتی ہے۔ اس لئے ایک تو یہ کہ کھانا کھانے والوں کو، مہمانوں کو اس وقت صبر سے کام لینا چاہئے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، عموماً جلسے کے دنوں میں اگر کھانے میں وقتی کمی آ جائے۔ بعض دفعہ اگر سالن ہو بھی تو روٹی میں کمی آ جاتی ہے تو وہ بہت تھوڑے وقت کے لئے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ انتظام فرما دیتا ہے، جلدی اصلاح بھی ہو جاتی ہے۔ گزشتہ سال مثلاً مشین میں چند گھنٹوں کے لئے خرابی ہو گئی جس کی وجہ سے پریشانی ہوئی لیکن کیونکہ متبادل انتظام تھا اور اس عرصے میں مشین بھی ٹھیک ہو گئی تو اتنا احساس نہیں ہوا۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ خود جلدی انتظام بھی فرما دیتا ہے۔
ایک دفعہ ربوہ میں روٹی پکانے والوں نے ہڑتال کر دی یا پیڑے بنانے والوں نے کام سے انکار کر دیا۔ روٹی کے پیڑے وہاں مشین سے نہیں بنتے۔ ایک دفعہ عین موقعے پر بڑی دِقّت پیدا ہو گئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ویسے تو جماعت کے افراد کو ہنگامی حالات سے نپٹنے کا بڑا ملکہ دیا ہوا ہے اور جب بھی کوئی ایسے حالات پیدا ہوں ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ایک تو یہ اعلان فرمایا کہ ہر شخص دو روٹیوں کی بجائے (کیونکہ فی کس عموماً دو روٹیوں کا اندازہ رکھا جاتا ہے) ایک کھائے۔ او رپھر ربوہ کے گھروں کو کہا کہ تم روٹیاں بنا کر بھجواؤ۔ تعداد تو اس وقت مجھے یاد نہیں بہرحال ہر گھر کے ذمہ معیّن مقدار لگائی گئی تھی آٹے کی یا روٹیوں کی۔ تو گھروں سے مختلف سائزوں کی روٹیاں آنی شروع ہو گئیں جو تقسیم کے لئے لنگر خانوں میں آجاتی تھیں، وہاں سے تقسیم ہو جاتی تھیں۔ گو اس کے بعد فوری طور پر حالات ٹھیک بھی ہو گئے۔ لیکن اس ارشادکی و جہ سے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ان دنوں میں میرا خیال یہی ہے کہ تقریباً سارا جلسہ ہی لوگوں نے ایک روٹی پر گزارا کیا اور یوں اپنی خوراک نصف کر لی اور دو کے کام آ گئی۔ تو یہ جو آنحضرتﷺ نے بظاہر چھوٹے چھوٹے ارشادات فرمائے ہیں ان کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور جب موقع آئے تب پتہ لگتا ہے کہ ان کی کیا اہمیت ہے۔ اور ان پر عمل کرنے والے بھی آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہی ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالتا ہے۔ مجھے یاد ہے ربوہ میں جب جلسے ہوتے تھے یا جب تک میں وہاں رہا، جلسوں کی ڈیوٹیاں دیتا رہا، تو روزانہ رات کو متوقع مہمانوں کی حاضری کو سامنے رکھتے ہوئے اور جو اس دن کھانا استعمال ہوا تھا، اس دن کی جو حاضری تھی اس کو سامنے رکھتے ہوئے، یہی طریق کار ہے کہ افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے اگلے دن کا جو آرڈر ملا کرتا تھا کہ اتنا کھانا پکانا ہے، اتنی روٹی پکانی ہے۔ تو مَیں نے یہ دیکھا ہے کہ عموماً اتنی تعداد میں روٹی پکا نہیں کرتی تھی کیونکہ کچھ دیر پہلے تک کے جو اندازے ہوتے تھے روٹی کی تعداد اتنی ہی ہوتی تھی۔ لیکن جب آخری وقت آتا تھا تو جو روٹی تقسیم ہوتی تھی وہ اتنے مہمانوں کی یا اس سے زیادہ کی ہوتی تھی جتنا کہ آرڈر دیا جاتا تھا۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس وقت بڑی پریشانی ہوا کرتی تھی کہ روٹی پوری کس طرح ہو گی مہمان بھوکے رہ جائیں گے، ابھی شور پڑ جائے گا، ابھی خلیفۃ المسیح کو رپورٹ ہو جائے گی کہ مہمان بھوکے رہ گئے۔ اور پھر بڑی فکر میں اور دعاؤں میں وقت گزرا کرتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ ایسے انتظامات فرما دیتا تھا کہ یا تو لوگوں کے پیٹ چھوٹے ہو جاتے تھے یا کیا و جہ ہوتی تھی، بہرحال لوگ پیٹ بھر کر کھانا بھی کھا لیتے تھے اور ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ اس کم روٹی سے اتنی ہی تعداد میں یا اس سے زیادہ تعداد میں لوگوں نے کھانا کھایا ہے۔ بعض دفعہ اتنی کمی ہوتی تھی کہ اگرتعداد کو گنا جائے تو ایک ایک آدمی کا کھانا جو تھا وہ تین تین کے لئے کافی ہوا کرتا تھا۔ تو یہ برکت کے نظارے ہمیں جلسے کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خوراک میں برکت ڈالتا ہے۔
پھر مہمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا ہے جس پر اگر عمل کیاجائے تو دونوں طرف کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی تکریم کرے۔ اس کی پر تکلف مہمان نوازی ایک دن رات ہے جبکہ عمومی مہمان نوازی تین دن تک ہے۔ اور تین دن سے زائد صدقہ ہے۔ مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اتنا عرصہ میزبان کے پاس ٹھہرا رہے کہ جو اس کو تکلیف میں ڈال دے۔ (بخاری – کتاب الادب – باب اکرام الضیف وخدمتہ ایاہ بنـفسہ)
اس حدیث کا پہلا حصہ مَیں نے میزبانوں سے متعلق جو گزشتہ خطبہ تھا اس میں بیان کیا تھا۔ لیکن مہمانوں کے فرائض کا حصہ چھوڑ دیا تھا۔ تو جہاں میزبانوں کو فرمایا کہ تم نے مہمان نوازی کرنی ہے اور ایک دن رات تو اچھی طرح کرنی ہے اور پھر عمومی مہمان نوازی ہے جو تین دن رات تک چلے گی۔ اور فرمایا کہ اس سے زائد جو ہے وہ صدقہ ہے۔ اب صدقہ بھی دیکھیں نیکیوں میں اضافے کاباعث بنتاہے۔ توگھر والوں کا یا تمہاری نیکیوں میں اضافے کا باعث ہی بنے گا۔ لیکن ہر ایک کے حالات ہوتے ہیں۔ اور اس کے مطابق ضروری نہیں ہے، لازمی نہیں ہے کہ ہر کوئی اس قابل بھی ہوکہ صدقہ بھی دے سکے۔ تو پھر اسی طرح نارمل زندگی گزرے گی جس طرح عام گھر میں لوگ گزار رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر مہمان زیادہ دیر رہتا ہے تو پھر گھر والے کی مرضی ہے کہ جس طرح عام روکھی سوکھی کھا کر گھر والے گزارہ کر رہے ہیں، مہمان بھی ان کے ساتھ اسی طرح گزارہ کرے۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے حالات ایسے نہیں ہوتے، اس لئے گھر والوں نے کسی کھانے کا ناغہ بھی کردیا، یا کوئی ہلکی پھلکی غذا کھا لی تو پھر مہمان کو یہ شکوہ نہیں ہونا چاہئے کہ اسے اسی طرح کا کھانا ملے، اسی طرح کی غذا ملے بلکہ پھر جس طرح گھر والے گزارہ کر رہے ہیں اسی طرح وہ بھی گزارہ کرے۔ اور مہمان کو صدقے کا لفظ استعمال کرکے یہ توجہ دلا دی کہ اگر اب زائد مہمان نوازی کروارہے ہو تو صدقہ کھا رہے ہو۔ ویسے تو اگر تمہیں یا کسی کو عام طور پر صدقے کی کوئی چیز دی جائے تو بڑا برا منائیں گے کہ انہیں صدقہ دیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک صدقے کی قسم ہے کہ زبردستی کسی کے ہاں لمبا عرصہ مہمان بن کر رہا جائے۔ اور اس طرح گھر والوں کے لئے تکلیف کا باعث بنا جائے۔
ضمناً یہاں ربوہ کے لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کا ذکر کر دیتا ہوں۔ اس کا بڑا وسیع سلسلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روزانہ پندرہ سو سے لے کر دو ہزار آدمی وہاں کھانا کھاتے ہیں۔ کافی بڑی تعداد میں مہمان آ کر ٹھہرتے ہیں۔ وہاں بھی بعض دفعہ دھونس جمانے والے مہمان آ جاتے ہیں، زبردستی کرنے والے مہمان آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لنگر خانہ ہے ہم چاہے جتنا مرضی ٹھہریں تم ہمیں انکار کرنے والے کون ہوتے ہو۔ یہ کہنے والے کون ہو کہ میاں اتنے دن ہو گئے ہیں اب گھر جاؤ۔ تم ہمیں نہیں روک سکتے۔ تو بہرحال جیسا کہ حدیث میں ہے، اسی اصول کے تحت اور اسی حکم کے تحت عموماً مہمانوں کو تین دن کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ آپ کے یہاں ٹھہرنے کی کوئی جائز وجہ ہے مثلاً علاج وغیرہ ہے یا اور کوئی اس قسم کی کوئی دوسری ضرورت ہے تو پھر ایک انتظام ہے اس انتظام کے تحت اجازت لے لیں۔ پھر بے شک ٹھہریں۔ تو بہرحال مہمانوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ اس طرح کا رویہ رکھیں جو میزبان کے لئے تکلیف کا باعث نہ ہو۔ لیکن میزبان جو ہیں یا لنگر خانے والے جو ہیں یا مہمان نوازی کے شعبے جو ہیں ربوہ میں آجکل لنگر خانے کو دارالضیافت کہتے ہیں تو اس کی انتظامیہ کا یا کارکنوں کا یہ کام نہیں ہے کہ کسی بھی مہمان سے سخت رویہ اختیار کریں۔ وہ اپنے بالا انتظام کو اطلاع کرکے اس سے ہدایت لے سکتے ہیں لیکن رویوں میں سختی نہیں آنی چاہئے جس سے مہمانوں کو تکلیف ہو۔
ایک اور روایت میں آتا ہے آپؐ نے یہ ساری باتیں بیان فرما کر فرمایا کہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ ‘‘ (ترمذی – کتاب البر والصلۃ – باب ما جاء فی الضیافۃ وغایۃ الضیافۃ الی کم ھی)
اوپر کی حدیث کی یہ نصیحت بتاتی ہے کہ اگر مہمانوں کو احساس دلانا ہے تو اس کا اظہار اتنی سختی سے نہ ہوکہ مزید جھگڑے شروع ہو جائیں۔ اور یہ نصیحت مہمانوں کے لئے بھی ہے کہ تم اپنے میزبان سے اچھے کلمات میں بات کرو۔ اچھی بات ہی کہا کرو۔ تو دونوں طرف کے لئے یہ نصیحت ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے اچھی بات کہیں۔ پھر ایک ایسی ہی روایت میں جب صحابہ نے پوچھا کہ گھر والوں کو تکلیف میں ڈالنے سے کیا مراد ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا تکلیف میں ڈالنا اس طرح ہے کہ گھر والے کے پاس کھلانے کو کچھ نہ ہو اور وہ(مہمان) اس کے پاس ٹھہرا رہے۔ (مسلم -کتاب اللقطۃ -باب الضیافۃ ونحوھا)
تو دیکھیں ایک حسین معاشرے کے قیام کے لئے کس گہرائی میں جا کر آپؐ نے ہمیں نصائح فرمائی ہیں۔ بعض گھر والے مہمان کی و جہ سے اس طرح بھی تکلیف میں پڑ جاتے ہیں کہ مہمان کا حق ادا کرنے کے لئے، مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کے لئے قرض لے کر بھی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں، برادریوں میں یہ رواج ہے کہ جان بوجھ کر کسی پر مہمان نوازی کا بوجھ ڈال دو۔ اور خاص طور پر غیر احمدی معاشرہ میں (احمدیوں میں تو نہیں ) جب کسی کی موت وغیرہ ہو تو اس پر بڑا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ ایک تو اس بے چارے غریب آدمی کا کوئی عزیز رشتہ دار فوت ہو جاتا ہے اس پر مزید کھانے وغیرہ کابڑا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ صرف اس لئے کہ دیکھیں کس حد تک یہ مہمان نوازی کرتا ہے۔ اسی طرح شادیوں پر کھانے کا ضیاع کیا جاتا ہے اور اگر کوئی نہ کرے تو پھر اس کو بدنام کیا جاتا ہے۔ تو یہ انتہائی گھٹیا حرکتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ احمدی معاشرہ تقریباً اس سے محفوظ ہے۔ کہتے ہیں کہ مہمان رحمت ہوتا ہے۔ تو ایسے بوجھ ڈالنے والے کی و جہ سے وہ مہمان گھر والوں کے لئے رحمت کی بجائے زحمت بن جاتا ہے۔ اس لئے باہر سے آنے والوں کو مَیں خاص طور پر کہہ رہا ہوں کہ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وقت کی پابندی کی جائے خاص طور پرپاکستان سے آنے والوں کو جن کے عزیز رشتہ دار، واقف کار یہاں ہیں۔ جن کے ہاں وہ مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں کہ یہاں لوگوں نے کام پر بھی جاناہوتا ہے اور ان کے لئے کام کرنا بھی ضروری ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو نکمے اور گھر بیٹھنے والے ہوں۔ اس لئے مہمان غیر ضروری توقعات اپنے میزبانوں سے نہ رکھیں کہ وہ آپ کے لئے اپنے کام کا حرج کرکے آپ کو سیریں بھی کروائیں اور آپ کی دوسری خواہشات کو بھی پورا کریں۔ اور آپ کی مرضی کے مطابق اپنے پروگرام رکھیں۔ پس ہمیشہ اپنے میزبانوں کے لئے تکلیف کا باعث بننے سے احتراز کریں، پرہیز کریں۔ اور ان کے لئے رحمت کا باعث بنیں۔ پھر آپؐ نے ہمیں یہ اخلاق بھی سکھائے کہ اگر تمہاری دعوت کی جائے تو صرف وہی جائے جس کی دعوت ہے اور اگرخصوصی حالات ہیں تو پھر گھر والے سے پوچھ کر زائد مہمان لے جا سکتے ہو۔ کھانے کا انتظام محدود ہوتا ہے اور دوسرے انتظامات ہوتے ہیں۔ اگر زائد مہمان ہو جائیں تو اس انتظام میں مہمانوں کی وجہ سے بعض دفعہ خلل پیدا ہو جاتا ہے۔
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جسے ابو شعیب کہا جاتا تھا اپنے قصائی غلام کی طرف گیا اور اس سے کہا کہ میرے لئے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر دو۔ مَیں نے رسول اللہﷺ کے چہرے پر بھوک کے آثار دیکھے ہیں۔ اس نے کھانا تیار کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو جو آپؐ کے پاس بیٹھے تھے بلا بھیجا۔ جب آنحضرتﷺ چلے تو ایک اور شخص بھی آپؐ کے پیچھے ہو لیا جو دعوت کے لئے بلانے کے وقت موجود نہ تھا۔ جب رسول اللہﷺ اس کے دروازے پر پہنچے تو آپؐ نے گھر والے سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ ایک ایسا شخص بھی آ گیا ہے جو اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھا جب تم نے ہمیں دعوت دی تھی۔ اگر تم اجازت دو تو وہ بھی آ جائے۔ اس نے عرض کی ہماری طرف سے اجازت ہے کہ وہ بھی ساتھ آجائے۔ (ترمذی -کتاب النکاح۔ باب ما جاء فیمن یجی ء الی الولیمۃ من غیر دعوۃ)
یہ جو نمونے آپﷺ نے قائم فرمائے۔ یہ ہمیں نصیحت کے لئے اور ہمیں ان باتوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں۔ آپؐ اگر زائد مہمان بغیرپوچھے لے بھی جاتے تو گھر والے نے کیا کہنا تھا۔ گھر والوں کو توپتہ تھا کہ اگر ایک کیا سو آدمی بھی آنحضرتﷺ لے آئیں گے تو آپ ؐ کی دعا سے کھانے میں برکت پڑ جائے گی اور وہ سب کے لئے پورا ہو جائے گا۔ اور اس طرح کے نمونے صحابہ کے سامنے موجودبھی تھے کہ اس طرح کھانے میں برکت پڑتی ہے۔ پس یہ نمونے جو آپؐ نے قائم فرمائے ہیں یہ ہمیں نصیحت کے لئے ہیں کہ مہمان کے کیا اخلاق ہونے چاہئیں۔ کسی کے گھر کوئی آ گیا ہے تو اس کو بغیر اجازت کے کبھی کسی دعوت پرلے کر نہیں جانا۔ اور اگر گھر والے روک دیں تو بن بلائے مہمانوں کو بھی برا نہیں منانا چاہئے۔ اور یہ بنیادی اخلاق ہیں۔ بعض شادیوں پر اگر میاں بیوی کو بلایا گیا ہے تو بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں جس سے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ انتظام میں خلل ہوتا ہے، انتظام متاثر ہوتا ہے اس لئے اس معاملے میں بھی احتیاط کرنی چاہئے۔ اعلیٰ اخلاق اس وقت قائم ہوں گے جب ہم بظاہر چھوٹی چھوٹی بات کو بھی چھوٹا نہیں سمجھیں گے۔
بچوں کے ضمن میں یہ بھی بتلا دوں کہ بچے کھانا کھاتے کم ہیں اور ضائع زیادہ کر رہے ہوتے ہیں اس لئے ان کو ہمیشہ تھوڑی مقدار میں کھانا ڈال کے دینا چاہئے۔ اگر وہ ایک دفعہ ختم کر لیں تو تھوڑا سا اور ڈال دیں۔ لیکن عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بچوں کی پلیٹیں بھر دی جاتی ہیں اور وہ کھا بھی نہیں سکتے۔ اس طرح بعض لوگ عادتاً خود بھی اپنی پلیٹیں بھر لیتے ہیں اور کھا نہیں سکتے اور کھانا ضائع ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی بہت احتیاط کرنی چاہئے اور جلسے کے دنوں میں تو خاص طور پر کھانا اگر خود ڈال رہے ہیں تو خود بھی احتیاط کریں اور جو کھانا ڈالنے والے کارکنان ہیں اگر وہ ڈال کر دے رہے ہیں تو وہ بھی احتیاط کریں۔ بے شک بار بار ڈال کر دیں۔ کسی ڈیوٹی والے نے مہمان کوکھانا دینے سے بہرحال انکار نہیں کرنا۔ لیکن مہمان بھی اتنا زائد نہ ڈلوائیں جتنا وہ کھا نہ سکیں۔ اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی ؓ کی مہمان نوازی کا واقعہ بیان کرتا ہوں کہ وہ کس طرح مہمان نوازی کرتے تھے اور مہمان ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے۔ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہتے ہیں کہ اب مَیں وہ واقعہ لکھتا ہوں جس کا وعدہ اوپر کر آیا ہوں۔ (وہ بیان کر رہے تھے) وہ یہ ہے کہ میرے لئے جو ایک چارپائی حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دے رکھی تھی۔ جب مہمان آتے تو میری چارپائی پر بعض صاحب لیٹ جاتے اور مَیں مصلّٰی زمین پر بچھا کر لیٹ جاتا اور جو میں بستر چارپائی پر بچھا لیتا تو بعض مہمان اسی چارپائی بستر شدہ پرلیٹ جاتے (یعنی بچھے ہوئے بستر پر لیٹ جاتے (تو کہتے ہیں ) کہ میرے دل میں ذرا بھر بھی رنج یا ملال نہ ہوتا اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ مہمان ہیں اور ہم یہاں کے رہنے والے ہیں۔ اور بعض صاحب میرا بستر چارپائی کے نیچے زمین پر پھینک دیتے اور آپ اپنا بستر بچھا کر لیٹ جاتے۔ ایک دفعہ ایسا ہی ہوا تو حضرت اقدس علیہ السلام کو ایک عورت نے خبر دے دی کہ حضرت پیر صاحب زمین پر لیٹے پڑے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا چارپائی کہاں گئی؟ اس نے کہامجھے معلوم نہیں۔ آپ فوراً باہر تشریف لائے اور گول کمرے کے سامنے (حضرت پیر صاحب کہتے ہیں کہ) مجھے بلا یا کہ زمین پہ کیوں لیٹ رہے ہو۔ برسات کا موسم ہے اور سانپ بچھو کا خطرہ ہے(کیڑے مکوڑے نکلتے ہیں تو کہتے ہیں )مَیں نے سب حال عرض کیا کہ ایسا ہوتا ہے اور میں کسی کو کچھ نہیں کہتا، (نہ کہہ سکتا ہوں )آخر ان لوگوں کی تواضع اور خاطر ومدارت ہمارے ذمّہ ہے۔ یہ سن کر آپ اندر گئے اور ایک چار پائی میرے لئے بھجوا دی۔ (تو کہتے ہیں کہ) ایک دو روز تو وہ چارپائی میرے پاس رہی۔ آخر پھر ایسا ہی معاملہ ہونے لگا جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے۔ پھر کسی نے آپؑ سے کہہ دیا۔ پھر آپؑ نے اور چارپائی بھجوا دی۔ پھر ایک روز کے بعد وہی معاملہ پیش آیا۔ پھر آپؑ کو کسی نے اطلاع دی اور صبح کی نماز کے بعد(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے)مجھ سے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب! بات تو یہی ہے جو تم کرتے ہو۔ اور ہمارے احباب کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ (مہمان نوازی اسی طرح کرنی چاہئے)لیکن تم ایک کام کرو، ہم ایک زنجیر لگا دیتے ہیں چار پائی میں زنجیر باندھ کر چھت میں لٹکا دیا کرو۔ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم(وہاں کھڑے تھے) یہ سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ ایسے بھی استاد آتے ہیں جو اس کو بھی اتار لیں گے۔ پھر آپ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) بھی ہنسنے لگے۔ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ۔ مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 345-344)
توآپؑ نے یہی فرمایا کہ اعلیٰ اخلاق تو یہی ہیں جو صاحبزادہ صاحب دکھا رہے ہیں لیکن اس حدیث کے مطابق خاموش رہو یا اچھی بات کرو مہمان کو کچھ کہنا نہیں۔ ہاں حفاظتی انتظام ہے اس کی طرف توجہ دلا دی کہ کس طرح اپنی چار پائی کو محفوظ کر لو۔ مہمان کی مہمان نوازی تو ضروری ہے لیکن مہمان کو بھی یہ خیال ہونا چاہئے کہ دھونس سے تو اپنا حق نہ لے۔ پھر اس کا ایک ہی علاج ہو گا کہ ہر چیز کو تالا لگا دے تاکہ مہمانوں سے محفوظ رہے۔ مہمانوں کو اپنے مہمان ہونے کا حق بھی جائز طور پر استعمال کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ تین دن کے بعد مہمان گھر پر قبضہ کرکے بیٹھا ہو اور گھر والا باہر ہو۔ گو جلسے کے دنوں میں یوں ہوتا بھی ہے۔ ربوہ میں بھی اس طرح ہوا کرتا تھا اور قادیان کے متعلق بھی یہی بتایاجاتا ہے کہ اسی طرح ہوتا تھا کہ جلسے کے دنوں میں تین، چار پانچ چھ دن کے لئے، بعض دفعہ ہفتے کے لئے لوگ اپنے گھر مہمانوں کے لئے دے دیا کرتے تھے۔ دس دن کے لئے بھی دے دیتے تھے اور خود باہر خیموں میں جا کر سو جایا کرتے تھے۔ لیکن یہ گھر والے کی خوشی سے ہوتا ہے۔ زبردستی مہمان کسی کے بستر، پلنگ یا گھر پر قبضہ نہیں کرتے۔ جہاں میزبان کے اعلیٰ اخلاق ہیں اور وہ اعلیٰ اخلاق دکھلاتا ہے وہاں مہمانوں کو بھی اعلیٰ اخلاق دکھانے چاہئیں۔ یہاں بھی ماشاء اللہ لوگ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور اپنے گھر مہمانوں کے لئے پیش کر دیتے ہیں لیکن بعض مہمان ضرورت سے زیادہ توقعات بھی رکھ لیتے ہیں اور اپنے مہمان ہونے کا ناجائز حق جتاتے ہیں۔ مثلاً بعض مہمان کہتے ہیں کہ ہم دوسرے ملک سے آئے ہوئے ہیں یا پاکستان سے آئے ہوئے ہیں پتہ نہیں دوبارہ موقع ملتا ہے کہ نہیں ملتا ہم شاپنگ کرنا چاہتے ہیں، ہمیں شاپنگ کے لئے لے کر جاؤ۔ پھر شاپنگ کے لئے اس بیچارے میزبان کا خرچ بھی کروا دیتے ہیں۔ کچھ تو وہ شرم میں ایسے مہمانوں کو ساتھ لے جا کر تحفہ دے دیتا ہے کچھ یہ کہہ کر اس سے شاپنگ کروا لیتے ہیں کہ اس وقت پونڈ میں پیسے نہیں ہیں، واپس جا کر پیسے ادا کر دیں گے یا اگر یورپ میں جرمنی وغیرہ میں ہیں تو یورو میں واپس جا کر دے دیں گے۔ یہ ان ملکوں میں جب بھی آتے ہیں تو اسی طرح ہوتا ہے بعض کی طرف سے، عموماً نہیں، ایسے چند ایک ہی ہوتے ہیں۔ اُس سے پھر اس طرح شاپنگ کی ادائیگی بھی کروا دیتے ہیں۔ تو اس سے احتیاط کرنی چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا گو اس قسم کے شاپنگ کروانے والے، زبردستی کرنے والے یا بے جھجک ہو کر شاپنگ کروانے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن یہ چند ایک ہی بعض دفعہ بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں۔ گھر والا بیچارہ ان مہمانوں کو رکھ کے تو مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ چند دنوں کے لئے اپنے گھر سے بھی باہر ہوا، اپنے وقت کا بھی ضیاع کردیا اور زبردستی کا ادھار بھی دینا پڑ گیا۔ شاپنگ بھی کروانی پڑ گئی۔ تو بعض عجیب طبیعتیں ہوتی ہیں اور بعض لوگوں کی قریبی رشتہ داری اور تعلق بھی نہیں ہوتا پھر بھی یہ مطالبے کر رہے ہوتے ہیں۔ تو ان پر تو پنجابی کی مثال ہے وہی اصل میں صادق آتی ہے ایسے مہمانوں پر کہ’’ لیا دیو تے لد دیو، تے لدن والا نال دیو ‘‘کہ سامان بھی دو، اٹھا کے پہنچاؤ بھی اور ہمارے ساتھ کوئی بھیجو بھی جو گھر تک چھوڑ کے بھی آئے۔ کیونکہ بعض دفعہ اتنی زیادہ شاپنگ ہو جاتی ہے کہ اپنی ٹکٹ کے مطابق تو وزن کی اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ سامان لے جا سکیں اور پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کہ ہمارا سامان بھجوا بھی دینا۔ ہر ایک جانے والے کا اپنا اپنا سامان ہوتا ہے۔ بھجوانے میں دیر بھی لگ جاتی ہے کبھی کوئی ایسا نہیں ملتا جو خالی ہاتھ جا رہا ہو جو سامان لے جا سکے اور جب عرصہ گزر جاتا ہے اور کچھ وقت لگ جاتا ہے تو پھر شکوے شروع ہو جاتے ہیں کہ جی بڑا غیر ذمہ دار آدمی ہے۔ میں وہاں اپنا سامان چھوڑ کے آیا تھا اس نے ابھی تک مجھے پہنچایا نہیں۔ تو ان باتوں سے ہمیں بچنا چاہئے۔ ایک بھی مثال جماعت میں ایسی نہیں ہونی چاہئے جو ایسی حرکتیں کرنے والے ہوں۔ اور یہاں آنے کے لئے جلسے پر آنے کا جو اصل مقصد ہے اس کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں۔ جلسے کی برکات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے جھولیاں بھر کر جائیں بجائے سامان کی شاپنگ کرنے کے۔ اس سے اعلیٰ کوئی سامان نہیں جو آپ حاصل کریں گے۔ پس اخلاص کے ساتھ جلسے میں شامل ہوں اور اس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں کہ ہم نے برکتیں حاصل کرنی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔ اور جلسے کے پروگرام سننے ہیں۔ ایک جلسے کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جس میں یہ بھی توجہ دلائی کہ جلسے پر بیٹھ کر آرام سے جلسہ سنو اور مکمل سنو۔ صرف تقریروں وغیرہ اور اچھائی یا برائی کو نہ دیکھو بلکہ اس بات کو دیکھو جو بیان کی جا رہی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں۔ مَیں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قیل و قال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آ کر اس پر ہی نہ ٹھہرجائے کہ بولنے والا کیسی جادو بھری تقریر کررہا ہے۔ الفاظ میں کیسا زور ہے۔ مَیں اس بات پر راضی نہیں ہوتا۔ میں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا ہی یہی اقتضاء ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو (میری فطرت یہی چاہتی ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو) جو بات ہو خدا کے واسطے ہو……
مسلمانوں میں ادبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے ورنہ اس قدر کانفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لسّان اور لیکچرار اپنے لیکچرپڑھتے اور تقریر یں کرتے، شاعر قوم کی حالت پر نوحہ خوانیاں کرتے ہیں۔ وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ قوم دن بدن ترقی کی بجائے تنزل ہی کی طرف جاتی ہے۔ بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ266-265جدید ایڈیشن)
پس یہ اخلاص ہے جس کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس مقصد کے لئے آنا چاہئے۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو اور جو بات ہو خدا کے واسطے ہو۔ اس اصول کو ہر ایک اپنے سامنے رکھے اور جلسہ کی برکات سے فائدہ اٹھائے اور ہر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ان دنوں کو دعاؤں میں گزاریں۔ تمام پروگراموں کو سنیں۔ دھیان ہر وقت یہاں بیٹھ کے یہ نہ ہو کہ میں بازار جاؤں گا اور شاپنگ کروں گا یا فلاں کام کرنا ہے یا فلاں کاروبار کی طرف دیکھنا ہے۔ بلکہ جلسے پر آئے ہیں تو جلسے کے مقصد کو ہی پیش نظر رکھیں۔ اور ہر نیکی کی بات جو سنیں اس کو اپنانے کی کوشش کریں۔ اپنی زندگیاں اسی طرح گزارنے کی کوشش کریں جس طرح نیکی کی باتیں آپ کو سکھائی جا رہی ہیں۔ نمازوں اور نوافل کو خاص اہتمام سے ادا کریں۔ جب ان دنوں خاص طور پر ذکر الٰہی اور دعاؤں کا ماحول ہو گا تو اللہ تعالیٰ کی برکات سے آپ ہر لمحہ فیض پارہے ہوں گے۔
اس ذکر الٰہی کے نکتے کو حضرت مصلح موعود ؓ نے بڑے خوبصورت انداز میں یوں بیان فرمایا ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ:
’’مجھے ایک اور خیال آیا اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ جلسے کے ایام میں ذکر الٰہی کرو۔ اس کا فائدہ خداتعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ’’ اُذْکُرُوااللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ ‘‘ اگر تم ذکر الٰہی کرو گے تو خدا تمہارا ذکر کرنا شروع کر دے گا۔ بھلا اس بندے جیسا خوش قسمت کون ہے جس کو اپنا آقا یاد کرے اور بلائے۔ ذکر الٰہی تو ہے ہی بڑی نعمت خواہ اس کے عوض انعام ملے نہ ملے۔ پس تم ذکر الٰہی میں مشغول رہو‘‘۔
پس یہ دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے کے خاص دن ہیں اس میں ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کی بجائے، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ فلاں میری ضرورت پوری ہو اور فلاں کام ہو جائے۔ مَیں جو جلسہ سننے کے لئے آیا ہوں، مَیں مہمان تھا میری فلاں ضرورتیں پوری نہیں کی گئیں اور فلاں بات کاخیال نہیں رکھا گیا، فلاں انتظام درست نہیں تھا، اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اعتراض ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جلسے کے وسیع انتظام ہیں اور ان دنوں میں اس جگہ پر خاص طور پر پورا ماحول مختلف ہے پہلی دفعہ سارے انتظام کئے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کو کچھ مشکلات بھی ہوں، کچھ دقتیں بھی ہوں، تو حوصلے اور صبر سے ان کو برداشت کریں اور مکمل توجہ اس طرف رکھیں کہ ان دنوں میں اپنے دلوں کو، اپنے دماغوں کو، اپنی روحوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے منور کرناہے اور ہر نیکی کی طرف قدم آگے بڑھانا ہے۔ ان دنوں میں دعائیں کریں اور خوب دعائیں کریں، اپنے لئے دعائیں کریں، اپنے بیوی بچوں کے لئے، اپنی نسلوں کے لئے دعائیں کریں، جماعت کی خدمت کرنے والوں کے لئے دعائیں کریں جن میں باقاعدہ خدمت کرنے والے بھی ہیں، واقفین زندگی بھی ہیں اور مختلف دوسری خدمات کرنے والے والینٹیرز بھی ہیں۔ مختلف ممالک میں جو مبلغین جماعت کے پھیلے ہوئے ہیں ان کے لئے بھی دعائیں کریں۔ جماعت کے لئے دعائیں کریں، جماعت کی ترقیات کے لئے دعائیں کریں۔ مختلف ممالک میں مثلاًانڈونیشیا میں آجکل خاص طور پر مخالفین نے بہت شور مچایا ہوا ہے حکومت پر دباؤ ہے کہ جماعت کو یہاں بین (Ban) کیا جائے، پابندی لگائی جائے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی مخالفین وقتاً فوقتاً شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ انڈونیشیا میں گزشتہ جلسے کے دوران مخالفین نے حملہ بھی کیا۔ لوگ بھی زخمی کئے، نقصان بھی پہنچایا۔ پھر وہاں ہمارا سنٹر ہے وہاں بھی حملہ کیا۔ بظاہر حکومت بھی مخالفین کے دباؤ میں ہی لگ رہی ہے۔ ان دنوں میں ان مظلوموں کے لئے بھی خاص طور پر دعائیں کریں۔
اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور جس طرح یہاں امن کی فضا میں جلسے منعقد کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں وہاں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے مواقع میسر آ جائیں۔ یہ بہرحال یہاں کی حکومت کا احسان ہے کہ باوجود اس کے کہ گزشتہ دنوں میں جوواقعہ ہوا، ٹرینوں میں جو بم پھٹے ہیں اور جانی نقصان ہوا ہے اور عموماً یہی کہا جا رہا ہے کہ جو مجرم ہیں وہ پاکستانی ہیں یا مسلمان ہیں۔ بہرحال یہ مسلمانوں پر الزام لگ رہا ہے۔ تو یہاں مقامی لوگوں میں سے جو بعض شدت پسند ہیں مسلمانوں کے خلاف شدید ردّ عمل کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ لوگ یعنی حکومت، بہرحال انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے اور کر رہی ہے۔ مکمل طورپر ظاہری تحفظ کا سامان ہمیں مہیا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور ان نیکیوں کے عوض ان لوگوں کو بھی حق پہچاننے کی توفیق دے۔ ہمارا اصل سہارا تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے اور اسی پر ہمیں بھروسہ ہے اور ظاہری سامان تو ہم اس حکم کے تحت کرتے ہیں کہ اونٹ کا گھٹناباندھو۔ پس ان دنوں میں آج جمعہ کے اس بابرکت دن کے ساتھ خاص طور پر دعاؤں میں لگ جائیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل اور اس کی پناہ مانگتے رہیں اور ہمیشہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس نصیحت پر عمل کرنے والے ہوں جس میں آپؑ نے فرمایاکہ میری طرف سے اپنی جماعت کو بار بار وہی نصیحت ہے جومَیں پہلے بھی کئی دفعہ کر چکا ہوں کہ عمر چونکہ تھوڑی اور عظیم الشان کام درپیش ہے اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خاتمہ بالخیر ہو جائے۔ آپؑ نے فرمایا کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور عمل کرنا ہے۔ اسی سے خاتمہ بالخیر ہوتا ہے۔ ہر فعل اور عمل کو خدا کی رضا کے مطابق کرنا ہے تب خاتمہ بالخیر ہو گا۔ اس عمل کو خالص اللہ تعالیٰ کا ہوتے ہوئے اپنی دعاؤں سے بھی سجانا ہو گا۔ تو عمل کے ساتھ ساتھ دعاؤں پر بھی زور دینا ہو گا اور اگر اس نکتے کو سمجھ جائیں گے اور دعا کو اس طرح مانگیں گے جس طرح کہ اس کا حق ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ مانگیں گے تو پھر وہ دعا یقینا قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کے مطابق زندگیاں ڈھالنے کی توفیق دے۔ تمام مہمان بھی اور میزبان بھی اور تمام دنیا میں اس جلسے کو سننے والے، اور تمام دنیا میں بسنے والے احمدی اس دعا کے مضمون کو سمجھتے ہوئے اس کا حق ادا کرنے والے ہوں۔
اب میں عمومی طور پر بعض ہدایات جو جلسے پر دی جاتی ہیں ان کا بھی مختصراً ذکر کر دیتا ہوں۔ ویسے تو جلسہ کا جو پروگرام چھپا ہے اس میں گزشتہ تمام ہدایات درج کر دی گئی ہیں۔ لیکن بعض لوگوں نے شاید پروگرام نہ لیا ہو اور بعض لوگ صرف پروگرام کا حصہ دیکھ لیتے ہیں، مکمل طور پر اس میں سے نہیں گزرتے۔ اس لئے پہلی بات تو یہ کہ ان تمام ہدایات کو غور سے پڑھ لیں جو پروگرام میں لکھی گئی ہیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں۔ اور جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ سب سے ضروری ہدایت یہی ہے کہ دعا اور نمازوں کی طرف خاص توجہ دیں۔ یہاں بازاروں میں بھی جو سٹا ل لگے ہوئے ہیں جلسے کے وقت میں یعنی جب جلسے کی کارروائی ہو رہی ہوتی ہے اور نمازوں کے وقت میں کوشش کریں کہ بالکل نہ جائیں کیونکہ سٹال بند ہوں گے۔ تھوڑا سا برداشت کریں اور سٹال لگانے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ جس طرح گزشتہ سال انہوں نے اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا سٹال بند کئے تھے، اس سال بھی بند رکھیں۔ اور شعبہ تربیت اس کا جائز ہ لیتا رہے۔ ہنگامی حالت میں اگر کسی کو ضرورت پڑے کھانے پینے کی مثلاً بعض مریض ہوتے ہیں تو مہمان نوازی کا شعبہ ہے وہ ان کی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ اور مہمان نوازی کے جو کارکنان ہیں ان کو مین آفس میں بھی اور رہائش گاہوں میں بھی رہنا چاہئے تاکہ اگر کسی مریض وغیرہ کی کوئی ضرورت ہے تو وہ پوری کر سکیں۔ کارکنان بھی دعاؤں پر زور دیں کہ اللہ کے فضل سے تمام کام خیریت سے ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہونے ہیں اس لئے دعاؤں کے بغیر چارہ نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اگر خوش ہو گیا تو مہمان خود ہی آپ سے خوش ہو جائیں گے۔ نمازوں کا بھی باقاعدہ انتظام رکھیں ان کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دیں۔ بچوں والی مائیں یا باپ جو بچوں کو لے کر آتے ہیں وہ کوشش کریں کہ بچوں کے لئے جو مخصوص جگہیں ہیں وہیں بیٹھیں۔ وہاں اگر جگہ نہیں ہے تو مارکی کے بالکل پچھلے حصے میں بیٹھیں تاکہ باقی جلسہ گاہ اس شور سے یا بچوں کی بے چینی سے ڈسٹرب نہ ہو۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اقتباس سے بھی بتایا ہے کہ جلسے کے جو پروگرام ہیں ان کو غور سے سنیں اور خواتین پردے کا خیال رکھیں۔ مرد بھی غض بصر سے کام لیں، نظریں نیچی رکھیں اور پھر یہ ہے کہ صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ اس دفعہ یہ جو جگہ ہے یہ کرائے کی ہے عارضی طور پر لی گئی ہے۔ اس لئے ہر شخص چاہے باہر سے آنے والے مہمان ہیں یا U.K. سے آنے والے مہمان یا یہاں کے کارکنان ہیں وہ اپنے ارد گرد صفائی کا ضرور خیال رکھیں۔ اور چلتے چلتے بھی اگر کوئی چیز پڑی ہوئی دیکھیں تو فوری طور پر اسے اٹھا کر ڈسٹ بِن (Dust Bin) میں ڈالنے کی کوشش کریں تاکہ اس جگہ پر مالکان کو یہ احساس نہ ہو کہ یہ لوگ جلسہ کرکے ہمارے علاقے میں گند ڈال کے چلے گئے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا تھا کہ آجکل کے حالات کی و جہ سے بعض شدت پسند لوگوں میں مسلمانوں کے خلاف تناؤ ہے اور بعض چھوٹے چھوٹے شہروں میں اس کا اظہار بھی ہوا ہے۔ ان لوگوں بیچاروں کو تو جماعت احمدیہ کا پتہ نہیں۔ وہ ہمیں بھی ان جیسا ہی سمجھتے ہیں کہ شاید یہ بھی اس طرح کے لوگ ہیں جو دہشت گرد ہیں۔ اس لئے ہم نے بہرحال اپنے اچھے نمونے قائم کرنے ہیں اور اگر ان کی طرف سے، نوجوان لڑکوں کی طرف سے بعض اوقات شرارت ہو جاتی ہے، اگر کوئی شرارت کرے بھی اور آپ سے چھیڑ چھاڑ بھی کرے تو اس سے بچنے کے لئے اگر ضرورت ہو اور وہاں کوئی پولیس والا ہے تو اس سے مدد لے لیں۔ اول تو یہ کہ صبر کریں اور وہاں سے نکل آئیں اور اگرپھر بھی آپ کو جسمانی طور پر کوئی اذیت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو پولیس کو اطلاع کریں، انتظامیہ کو اطلاع کریں۔ لیکن خود براہ راست کوشش کریں کہ وہاں سے نکل جائیں اور کسی قسم کا موقع کسی کو نہ ملے۔ کیونکہ ایسی شرات والی جگہوں کے بارے میں یہی حکم ہے کہ وہاں سے آ جاؤ۔ اور عورتیں خاص طور پر ان دنوں میں چھوٹی چھوٹی جگہوں پر بازاروں وغیرہ میں پھرنے کی کوشش نہ کریں۔ جو باہر سے آئی ہوئی ہیں ان کو بعض دفعہ پتہ نہیں لگتا کسی بھی قسم کی کوئی شرارت ہو سکتی ہے۔ پھر جلسہ گاہ اور اس پورے علاقے میں جو ہماری مارکیوں کی جگہ ہے، رہائشی علاقہ ہے جو بھی ہم نے پورا ایریا لیا ہوا ہے اس میں عموماً تو ڈیوٹی سیکیورٹی والوں کی لگی ہوئی ہے، خدام کی لگی ہوئی ہے، پولیس بھی نگرانی رکھ رہی ہے۔ لیکن ہر ایک کو بھی اپنے ماحول پہ نظر رکھنی چاہئے۔ اور اگر کسی کو دیکھیں کہ شرارت کی غرض سے کوئی اندر آ گیا ہے تو فوری طورپر انتظامیہ کو اطلاع کریں۔ اگر کسی پر بھی آپ کو شک پڑتا ہے اس کو نظر میں رکھیں اور ساتھ ساتھ رہیں، نظر سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ اور عورتوں میں بھی خاص طور پراس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور اگر کوئی برقعہ پوش بھی اندر آ ئے اور وہ نقاب وغیرہ نہیں اتارتی تو اس پہ تو خاص طورپر نظر رکھنی چاہئے۔ اور بیگ وغیرہ بھی چیک ہونے چاہئیں لیکن اس طرح کہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ اور سب سے بڑھ کر جس طرح میں نے کہا کہ ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ، خود برکتیں سمیٹنے کے ساتھ ساتھ جلسے کے بابرکت ہونے کے لئے بھی اور خیریت سے اختتام پذیر ہونے کے لئے بھی دعائیں کرتے رہیں اور دعاؤں میں وقت گزاریں۔ اللہ تعالیٰ سب پر اپنا فضل فرمائے اور ہر ایک کو برکات سے حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
جلسہ سالانہ برطانیہ کے مہمانوں کے لئے نہایت اہم ہدایات
خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍جولائی 2005 ء بمقا م رشمور ایرینا۔ برطانیہ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔