حبل اللہ کے معانی اورخلافت علی منہاجِ نبوت کے تحت ایک جنت نظیر معاشرے کا قیام
خطبہ جمعہ 26؍ اگست 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ (اٰلِ عمران:104)
پھر فرمایا:
اس کا ترجمہ ہے کہ: اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ شاید تم ہدایت پاجاؤ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بے شمار احکامات دے کر ان پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ یہ آیت جومَیں نے تلاوت کی ہے اس کے ترجمہ میں جیسا کہ مَیں نے ابھی پڑھا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ایک ہو کر رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ اللہ کی رسّی تم پر ایک انعام ہے۔ اللہ کی اس رسّی کو پکڑنے کی وجہ سے تم پر اللہ کے فضل نازل ہوئے اور اس کے انعاموں سے تم نے حصہ پایا۔ تمہارے معاشرے کے تعلقات بھی خوشگوار ہوئے اور تمہاری آپس کی رشتہ داریوں میں بھی مضبوطی پیدا ہوئی۔
ہم آنحضرتﷺ کی بعثت سے قبل کے واقعات تاریخ میں پڑھتے ہیں اور پھر آپؐ کی بعثت کے بعد کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح محبتیں بڑھیں اور ایک دوسرے سے کس طرح اخوت کا رشتہ قائم ہوا۔ کس طرح ایک دوسرے کے بھائی بھائی بنے۔ دیکھیں مدینہ کے انصار نے مکّہ کے مہاجرین کو کس حد تک بھائی بنایا کہ اپنی آدھی جائیدادیں بھی ان مہاجرین کو دینے کے لیے تیار ہوگئے بلکہ بعض جن کی ایک سے زائد بیویاں تھیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ ہم ایک بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں اور تم اس سے شادی کرلو۔ تو اس حد تک بھائی چارے اور محبت کی فضا پیدا ہوگئی تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ محبت اور بھائی چارے کی یہ فضا صرف امن اور آسائش کے وقت میں نہیں تھی کہ فراوانی ہے، کشائش ہے تو کچھ دے دیا بلکہ جنگ اور تکلیف کی حالت میں بھی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم ہوئے۔ اور یہ صرف اس لئے تھے کہ ان لوگوں نے اللہ کی ر سّی کی پہچان کی اور اسے مضبوطی سے پکڑا۔
یاد کریں ایک جنگ کے بعد کا وہ نقشہ جب جنگ کے بعد پانی پلانے والے مسلمان زخمیوں کے درمیان پھر رہے تھے، ایک کراہ کی آواز سنی۔ جب وہ پانی پلانے والے اس کراہنے والے صحابیؓ کے پاس پہنچے جو زخموں سے چور تھے، جان کنی کی حالت تھی۔ پانی پلانے والے نے جب پانی ان کے منہ کو لگایا تو اس وقت ایک اور کراہ کی آواز آئی، پانی مانگا گیا۔ پہلے زخمی نے کہا: نہیں، بہتر یہ ہے تم مجھے چھوڑو۔ مَیں اس سے بہتر حالت میں ہوں۔ وہ جس طرح مجھے دیکھ رہا ہے، اسی طرح پانی کی طرف دیکھ رہا ہے، پانی مانگ رہا ہے تم پہلے اس زخمی کو پانی پلاؤ۔ پانی پلانے والے جب اس دوسرے زخمی کے پاس پہنچے تو پھر ایک طرف سے کسی کی کراہتے ہوئے پانی مانگنے کی آواز آئی۔ تو اس دوسرے زخمی نے کہا کہ نہیں وہ زخمی میرے سے زیادہ حقدار ہے، اس کو پانی دو۔ میں برداشت کرلوں گا۔ اس طرح جب پانی پلانے والے تیسرے صحابیؓ کے پاس پہنچے تو جب ان کے منہ کو پانی لگایا گیا تو پانی پینے سے پہلے ہی وہ اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔ اور جب یہ پانی پلانے والے واپس دوسرے کے پاس پہنچے تو ان کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ اور جب پہلے کے پاس پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حضور حاضر ہوچکے تھے۔ (الأستیعاب فی معرفۃ الاصحاب باب عکرمۃ بن ابی جہل)
تو دیکھیں اس آخری جان کنی کے لمحات میں بھی اپنے بھائی کی خاطر قربانی کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہوئے وہ تمام زخمی صحابہؓ اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔ روایت میں آتا ہے کہ پہلے پانی مانگنے والے حضرت عکرمہؓ تھے۔ اور حضرت عکرمہؓ کا یہ حال تھا کہ ایک وقت میں مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے۔ اپنوں کے ساتھ بھی قربانی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اور ایک وقت ایسا آیا کہ دوسرے مسلمان کی خاطر اپنی جان بھی قربان کردی۔ اسی طرح دوسرے دو صحابہؓ تھے۔ تو جان لینے والوں میں قربانی کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہوئے جان دینے کا یہ انقلاب تھا جو ان لوگوں نے آنحضرتﷺ سے منسوب ہونے کے بعد قائم کیا ہے۔ انہوں نے یہ معیار حاصل کئے اور یوں اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہوئے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ وہ رسّی کون سی تھی یا کون سی ہے جس کو پکڑ کر ان میں اتنی روحانی اور اخلاقی طاقت پیدا ہوئی، قربانی کا مادہ پیدا ہوا، قربانی کے اعلیٰ معیار قائم ہوئے۔ جس نے ان میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انہیں اس حد تک اعلیٰ قربانیاں کرنے کے قابل بنادیا۔ وہ رسّی تھی اللہ تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب قرآن کریم، جو احکامات اور نصائح سے پُر ہے۔ جس کے حکموں پر سچے دل سے عمل کرنے والا خداتعالیٰ کا قرب پانے والا بن جاتا ہے۔ وہ رسّی تھی نبی کریمﷺ کی ذات کہ آپؐ کے ہر حکم پر قربان ہونے کے لیے صحابہؓ ہر وقت منتظر رہتے تھے۔ ان صحابہؓ نے اپنی زندگی کا یہ مقصد بنالیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے باہر نہیں نکلنا۔ اور پھر آنحضرتﷺ کے بعد آپؐ کے پہلے چار خلفاء جو خلفاء راشدین کہلاتے ہیں، ان کے توسط سے مسلمانوں نے اُس رسّی کو پکڑا جو اللہ کی رسّی اور اس کی طرف لے جانے والی رسّی تھی۔ اور جب تک مسلمانوں نے اس رسّی کو پکڑے رکھا وہ صحیح راستے پر چلتے رہے۔ اور جب فتنہ پردازوں نے ان میں پھوٹ ڈال دی اور انہوں نے فتنہ پردازوں کی باتوں میں آکر اس رسّی کو کاٹنے کی کوشش کی تو ان کی طاقت جاتی رہی۔ مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں میں اس کے بعد کامیابیاں تو ملتی رہیں لیکن اجتماعی قوت اور رعب جو تھا وہ جاتا رہا۔ وہ قوت جو تھی وہ پارہ پارہ ہوگئی۔ آپس میں بھی لڑائیاں ہوئیں۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا انکار کیا تھا۔
یہاں یورپ میں بھی دیکھیں مسلمان آئے، سپین کو فتح کیا اور اس کو چند سو سالوں کے بعد گنوا بھی دیا۔ اور آج بھی مسلمانوں کی جو یہ ابتر حالت ہے، ناگفتہ بہ حالت ہے، آج بعض مسلمان ممالک جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن اس کے باوجود غیروں کے دست نگر ہیں، اس کی یہی وجہ ہے کہ اللہ کی رسّی کی انہوں نے قدر نہیں کی اور اپنے ذاتی مفادات اللہ اور رسول کی محبت پر غالب کرلئے۔ ذاتی مفادات نے بھائی کی بھائی سے پہچان مٹادی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج یہ سب طاقت کھوئی گئی۔
لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ جس نے آنحضرتﷺ کو آخری شرعی نبی بنا کر دنیا میں بھیجا تھا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آپؐ کی شریعت نے رہتی دنیا تک نہ صرف قائم رہنا تھا بلکہ پھیلنا تھا۔ اپنے وعدے کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ان عملوں کی وجہ سے اس دین کو صفحہ ہستی سے مٹا تو نہیں دینا تھا۔ مسلمانوں کے بگڑنے کی وجہ سے اور ناشکری کی وجہ سے جو ایسی حرکتوں کے منطقی نتائج نکلتے ہیں اور نکلنے چاہئیں وہ تو نکلے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا آنحضرتﷺ سے یہ بھی وعدہ تھا کہ آخرین میں سے تیری امت میں سے تیری لائی ہوئی شریعت کو دوبارہ قائم کرنے کیلیے مَیں مسیح و مہدی کو مبعوث کروں گا تاکہ پھر وہ احکامات لاگو ہوں، تاکہ پھر اللہ کی رسّی کی قدر کا احساس پیدا ہو، تاکہ پھر اس مسیح و مہدی کو ماننے والے اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑسکیں۔ اس آیت کے آخر میں جو یہ فرمایا ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ شاید تم ہدایت پاجاؤ۔ یہ مسلمانوں کو پھر ایک حکم ہے، ایک وارننگ ہے کہ اللہ کے احکامات پر عمل کرو، پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے بعد ضد نہ کرو اور مسیح و مہدی کو مان لو۔ جو تمہارے ساتھ ہوچکا اس سے سبق حاصل کرو۔ اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرو۔ اور اب تمہاری بقا اسی میں ہے کہ اس رسّی کو مضبوطی سے پکڑو۔
لیکن اس میں ہم احمدیوں کے لیے بھی نصیحت ہے بلکہ اوّل مخاطب اس زمانے میں ہم احمدی ہیں کہ ایک انقلاب آج سے چودہ سو سال پہلے آیا تھا اور دشمن کو بھائی بھائی بناگیا تھا اور ایک انقلاب اس زمانے میں اس نبی اُمّی کی قوت قدسی کی وجہ سے، اس کے عاشق صادق کے ذریعہ سے برپا ہوا ہے جس نے تمہیں پھر سے اکٹھا کیا ہے۔ اس لئے اب پہلی باتیں جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں، یہ تاریخ کا حصہ بننے کے لیے تھیں ان پر غور کرو اور اس مسیح و مہدی کو ماننے کے بعد ہمیشہ اس تعلیم پر عمل کرو جو تمہیں دی گئی ہے۔ ورنہ جو عمل نہیں کرے گا وہ اپنے آپ کو آگ کے گڑھے میں گرانے والا ہوگا۔
پہلے زمانے کے لئے آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ خلافت راشدہ کا زمانہ تھوڑا ہوگا اور اسی کے مطابق ہوا۔ لیکن اس زمانے کے لئے آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ میرے غلام صادق کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہوگی وہ علی منہاج نبوت ہوگی اور اس کا دورقیامت تک چلنے والا دور ہوگا۔
خلافت کے قیامت تک قائم رہنے کے بارے میں بعض لوگ اس کی اپنی وضاحت اور تشریح بھی کرتے ہیں۔ ہم میں سے بھی بعض لوگ بعض دفعہ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ تو آج جو یہ باتیں کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رسّی کو کاٹنے کی باتیں کرتا ہے کہ قیامت تک اس نے رہنا ہے یا نہیں یا اس کی کیا تشریح ہے، کیا نہیں ہے۔ اگر کوئی دلیل ان کے پاس اس چیز کی ہے بھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعریف کے بعد ہر چیز باطل ہوچکی ہے۔ وہ دلیل اپنے پاس رکھیں اور جماعت میں فساد کی کوشش نہ کریں۔ بہرحال واضح ہو کہ اب اللہ کی رسّی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود ہی ہے، آپؑ کی تعلیم پر عمل کرنا ہے۔ اور پھر خلافت سے چمٹے رہنا بھی تمہیں مضبوط کرتا چلا جائے گا۔ خلافت تمہاری اکائی ہوگی اور خلافت تمہاری مضبوطی ہوگی۔ خلافت تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرتﷺ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والی ہوگی۔ پس اس رسّی کو بھی مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ ورنہ جو نہیں پکڑے گا وہ بکھر جائے گا۔ نہ صرف خود برباد ہوگا بلکہ اپنی نسلوں کی بربادی کے سامان بھی کررہا ہوگا۔ اس لئے ہر وہ آدمی جس کا اس کے خلاف نظریہ ہے وہ ہوش کرے۔
اس رسّی کو پکڑنا کس طرح ہوگا؟ یہ صرف بیعت کرکے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لینے سے ہی نہیں ہوگا بلکہ ان شرائط بیعت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جو آپؑ نے مقرر فرمائی ہیں۔ دیکھیں کتنی کڑی شرائط ہیں۔ بعض تو بعض عمل کرنے والوں کوبڑی بڑی لگتی ہیں۔ لیکن کس درد سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے۔ کس طرح ایک ایک بات کو لے کر ہمیں سمجھایا ہے کہ میری بیعت میں آنے کے بعد کس طرح تمہیں اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ عبادات اور توحید کے قیام سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی نیکیاں اختیار کرنے، تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے اور اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی تاکہ اللہ کے احکامات کی رسّی کو تھام کر ہم اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکیں، اس کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اور یہی باتیں ہیں جن کی آپؑ کے بعد خلفائے وقت نے تلقین کی اور نصیحت فرماتے رہے۔
تین سال کے بعدانشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو قائم ہوئے سو سال کا عرصہ ہوجائے گا اور جماعت اس جوبلی کو منانے کے لیے بڑے زورشور سے تیاریاں بھی کررہی ہے۔ اس کے لئے دعاؤں اور عبادات کا ایک منصوبہ مَیں نے بھی دیا ہے۔ ایک تحریک دعاؤں کی، نوافل کی مَیں نے بھی کی تھی۔ تو بہت بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر عمل بھی کررہی ہے۔ لیکن اگر ان باتوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں حقوق العباد کے اعلیٰ معیار ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی تو یہ روزے بھی بیکار ہیں، یہ نوافل بھی بیکار ہیں، یہ دعائیں بھی بیکار ہیں۔ ہم جماعت کے عہدیداروں کو یہ رپورٹ تو دے دیں گے کہ خلیفہ وقت کو بتا دوکہ جماعت کے اتنے فیصد افراد نے روزے رکھے یا نوافل پڑھے یا دعائیں کررہے ہیں اور اس پر عمل کررہے ہیں۔ لیکن جب آپس کے تعلقات نبھانے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے، ایک دوسرے کی خاطر قربانیاں دینے اور قربانیوں کے وہ نمونے قائم کرنے، جن کی مَیں نے مثال دی ہے کے بارے میں پوچھا جائے گا تو پتہ چلے گا کہ اس طرف تو توجہ ہی نہیں ہے۔ یا اگر توجہ پیدا ہوئی بھی ہے تو اس حد تک ہوئی ہے جس حد تک اپنے حقوق متأثر نہیں ہوتے۔ اس وقت تک حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے جب تک اپنی ذات کی قربانی نہ دینی پڑے۔ اس وقت تک توجہ پیدا ہوئی ہے جب تک اپنے مال کی قربانی نہ دینی پڑے۔
مال کی قربانی کے ضمن میں یہاں یہ بھی ضمناً ذکر کردوں۔ جرمنی نے آج سے 10 سال پہلے 100 مساجد کا وعدہ کیا تھا۔ اس کی رفتار بڑی سست ہے۔ تو خلافت جوبلی منانے کے لیے اب اس میں بھی تیزی پیدا کریں اور خدام، انصار، لجنہ پوری جماعت مل کر ایک منصوبہ بنائیں کہ ہم نے سال میں صرف چار پانچ مساجد پیش نہیں کرنی بلکہ 2008ء تک اس سے بڑھ کر مساجد پیش کرنی ہیں۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کام میں جُت جائیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ اور آپ کی مساجد کی تعمیر کی رفتار بھی انشاء اللہ تعالیٰ تیز ہوگی۔ جو روکیں راستے میں پیدا ہورہی ہیں وہ بھی دور ہوں گی۔ لیکن بہر حال اس کے لیے دعاؤں پر زور دینے اور پختہ ارادے کی ضرورت ہے۔ مَیں نے یہ ضمناً ذکرکردیاہے۔
تو قربانی کا مَیں ذکر کررہا تھا۔ اگر تو آپ کی توجہ صرف اس حد تک پیدا ہوئی ہے جہاں تک اپنے قریبیوں کے حقوق متأثر نہیں ہوتے۔ اپنے اور اپنے قریبیوں کے مفاد حاصل کرنے کے لیے اگر غلط بیانی اور ناجائز ذرائع استعمال کررہے ہوں اور اگر اس کو بھی کوئی عار نہ سمجھتے ہوں تو پھر حبل اللہ کو پکڑنے کے دعوے جھوٹے ہیں۔ پھر تو خلافت احمدیہ کے احترام اور استحکام کے نعرے کھوکھلے ہیں۔ پھر تو خلیفۂ وقت کے لئے بھی فکر کی بات ہے۔ نظام جماعت کے لیے بھی فکر کی بات ہے اور ایک پکے اور سچے احمدی کے لیے بھی فکر کی بات ہے۔ کیونکہ ان راہوں پر نہ چل کر جن پر چلنے کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے، آگ کے گڑھے کی طرف بڑھنے کا خطرہ ہے۔
پس آج ہر احمدی کو حبل اللہ کا صحیح ادراک اور فہم حاصل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صحابہ کی طرح قربانیوں کے معیار قائم کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے۔ قرآن کریم کے تمام حکموں پرعمل کرنا حبل اللہ کو پکڑنا ہے۔ اگر ہر فرد جماعت اس گہرائی میں جا کر حبل اللہ کے مضمون کو سمجھنے لگے تو وہ حقیقت میں اس وجہسے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے ایک جنت نظیر معاشرے کی بنیاد ڈال رہا ہوگا۔ جہاں بھائی بھائی کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں گے، میاں بیوی کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں گے، ساسوں، بہوؤں کے حقوق بھی ادا ہورہے ہوں گے۔ دوست دوست کے حق ادا کرتے ہوئے اس کی خاطر قربانی دے رہا ہوگا۔ جماعت کا ہر فرد نظام جماعت کی خاطر قربانی دینے کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کررہاہوگا۔
غرض کہ ایک ایسا معاشرہ قائم ہوگا جو مکمل طور پر خداتعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والا معاشرہ ہوگا۔ جس میں وہ لوگ بستے ہوں گے جو اس قرآنی آیت پر عمل کرنے والے ہیں۔ فرمایا{اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ} (آل عمران:135) یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصّہ دباجانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
فرمایا کہ اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یہ اعلیٰ اخلاق دکھانے والے کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے آپس میں محبت و پیارکی فضا پیداکرنے کے لئے، ایک ہو کر رہنے کے لئے، اللہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے، جماعت کی مضبوطی اور وقار کے لئے، ایک دوسرے کے قصور معاف کرتے ہیں۔ اپنی جھوٹی اناؤں کو دباتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھانا شروع ہوجائیں، جھوٹی انائیں رکھنے والے ہوں۔ اس زُعم میں بیٹھے ہوں کہ ہمارا خاندان بڑا ہے۔ جب اس فساد کے زما نے میں اس دنیاداری کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلۂ بیعت میں شامل ہوگئے تو پھر بڑائی کسی قبیلے، برادری یا خاندان کی نہیں ہے۔ پھر بڑائی تقویٰ میں ہے۔ جیسا کہ فرمایا {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ}(الحجرات:14)کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ اور متقی کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرتا ہے۔ ہر وقت اس فکر میں ہے کہ مَیں حبل اللہ کو پکڑے رکھوں۔ پس اگر اللہ کی محبت حاصل کرنی ہے تو ان جھوٹی اناؤں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اور نہ صرف یہ کہ کسی سے برائی نہیں کرنی یا برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا، بلکہ احسان کا سلوک کرنا ہے۔ یہی باتیں ہیں جو ایک حسین معاشرہ قائم کرتی ہیں اور اس کے لئے ایک احمدی کو جہادکرنا چاہئے۔ کیونکہ اگردل تقویٰ میں ہے تو اللہ تعالیٰ کے دین کی مضبوطی کی خاطر، اپنے ایمانوں میں مضبوطی کی خاطر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے گی۔ اور اپنی اناؤں اور غصے کو دبانے کی توفیق ملتی رہے گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔ عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔ (یعنی غرور اور تکبر غضب سے پیدا ہوتا ہے، غصے سے پیدا ہوتا ہے) اور ایسا ہی کبھی خود غضب عُجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ غضب اس وقت ہوگا جب انسا ن اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ23-22 جدید ایڈیشن)
تو جس طرح ایک نیکی سے دوسری نیکی پھوٹتی ہے اسی طرح ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس لئے ہربرائی سے بچنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور خاص طور پر غصہ جس سے غرور اور تکبر پیدا ہوتا ہے یا غرور اور تکبر جس کی وجہ سے انسان غصے میں آجاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہ ایک بہت مشکل امر ہے۔ بہت بڑی مشکل چیز ہے لیکن تمہیں ایک رکھنے کے لئے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کیلئے انتہائی بنیادی امر ہے۔
ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’یادرکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیاجاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلد ی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئے جاتے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ104 جدید ایڈیشن)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ مزید جھنجھوڑنے والے ہیں۔ ایک طرف تو ہم اللہ کی رسّی کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے دعویدار ہوں، ایک طرف تو ہم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے دعویدار ہوں اور دوسری طرف بداخلاقی کے نمونے دکھا رہے ہوں۔ ایک طرف توہم دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لانے کے دعویدار ہوں اور دوسری طرف ہمارے اپنے فعل ایسے ہوں کہ ہمارے ایسے فعلوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں معارف اور حکمت سے محروم کررہا ہو۔ جب ہمارے اپنے اندر حکمت و معرفت نہیں ہوگی یا معارف پیدا نہیں ہوں گے تو دوسروں کو کیا سکھائیں گے۔ پس ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہوگا۔ اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ کیونکہ جس میں عقل اور حکمت نہ ہو، جس کی عقل موٹی ہوگئی ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی رسّی کو پکڑنے کا کیا ادراک ہوسکتا ہے۔
یہاں اس ملک میں آکر آپ میں سے بہتوں کے جومعاشی حالات بہتر ہوئے ہیں اس بات سے آپ کے دلوں میں ایک دوسرے کی خاطر مزید نرمی آنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے آگے سر مزید جھکنا چاہئے کہ اس نے احسان فرمایا اور اس احسان کا تقاضا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رسّی کو مزید مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اس کے حکموں پر عمل کیا جائے۔ اپنے بھائیوں کے حقوق اداکئے جائیں اور یوں اللہ کا پیار بھی حاصل کیاجائے۔ اور جہاں ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کررہے ہوں گے وہاں آپس کی محبت اور پیار اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی وجہ سے آپس میں مضبوط بندھن میں بندھ رہے ہوں گے۔ اور جب ہم اس طرح بندھے ہوں گے اور اللہ کی رسّی کو تھامے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کررہے ہوں گے تو ہمارا ایک رعب قائم ہوگا جو مخالفین کے ہر حملے سے ہمیں محفوظ رکھے گا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا جماعتی وقار بھی جاتا رہے گا اور تمہارے اندر بزدلی بھی پیدا ہوجائے گی۔ جیساکہ فرمایا{اَطِیْعُوا اللّٰہ َ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ} (الانفال:47) اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا۔ اور صبر سے کام لو۔ یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پس ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اگر ایسے مواقع آبھی جائیں جس میں کسی کی طرف سے زیادتی ہوئی ہو تو صبر اور حوصلے سے اس کو برداشت کرنا چاہئے۔ آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں پڑ کر اپنی اناؤں کے سوال پیداکرکے اپنی طاقتوں کو کم نہ کریں۔ ہر بھائی دوسرے بھائی کی عزت کا خیال رکھے۔ ہر بہن دوسری بہن کی عزت کا خیال رکھے۔ اپنے بچوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے احترام پیداکریں۔ عہدیدار افراد جماعت کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور افراد جماعت عہدیداروں کی عزت کریں، ان کے وقار کا خیال رکھیں۔ پھرآپس میں عہدیدار ایک دوسرے کی عزت اور احترام کریں۔ ذیلی تنظیموں کے عہدیدار دوسری ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں کا احترام اپنے اندر اور اپنی تنظیم کے اندر پیداکریں۔ پھر تمام ذیلی تنظیموں کے عہدیدار جماعتی عہدیداروں کا احترام اپنے دل میں پیدا کریں۔ آپس میں تمام عہدیدار ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں۔ عہدیداروں سے مَیں کہتا ہوں کہ جب یہ چیز عہدیداروں کی سطح پر اعلیٰ معیار کے مطابق پیدا ہوجائے گی۔ تو جماعت کے اندر ایک روحانی تبدیلی خود بخود پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ جس طرح آپ تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کررہے ہوں گے۔ اسی طرح افراد جماعت ایک دوسرے کا احترام کررہے ہوں گے اور خیال رکھ رہے ہوں گے۔ ضرورتیں پوری کررہے ہوں گے۔ قربانی دینے کا شوق پیدا ہورہا ہوگا۔ پس اس بات کو چھوٹی نہ سمجھیں۔ یہی باتیں آپ کو اعلیٰ اخلاق کی طرف لے جانے والی ہیں اور انہیں باتوں کے اپنانے سے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے، اپنے اوپر لاگو کرنے سے، ہم جماعت کی ترقی میں اہم کردار اداکررہے ہوں گے۔
ان باتوں کے اختیار کر نے کی طرف توجہ کرنے کیلیے آنحضرتﷺ نے بھی مختلف طریقوں سے ہمیں سمجھایا ہے کہ آپس میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا کس طرح پیدا کرنی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس کے کرب کو دور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے کرب اور اس کی بے چینی کو دور کرے گا۔ اور جو شخص کسی تنگ دست کے لیے آسانی مہیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی اور آرام کا سامان بہم پہنچائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ (ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی السترۃ علی المسلم)
پس یہ آسانیاں پیداکرنا بھی محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ خاص طور پر ایک دوسرے کی پردہ پوشی کی طرف بہت توجہ دیں۔ لیکن یہاں ایک وضاحت بھی کردوں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ غلاظت کو معاشرے میں پلنے اور بڑھنے دیا جائے اور جو غلط حرکات ہورہی ہوں ان سے اس طرح پردہ پوشی کی جائے کہ جو معاشرے پر برا اثرڈال رہی ہو۔ اس کی اطلاع عہدیداران کو دینی ضروری ہے۔ مجھے بتائیں لیکن آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرنا یا کسی کے متعلق باتیں سن کے آگے پھیلانا یہ غلط طریق کار ہے۔ اس معاملے میں پردہ پوشی ہونی چاہئے۔ لیکن اصلاح کی خاطر بتانا بھی ضروری ہے۔ لیکن ہر جگہ بات کرنے سے پرہیزکرنا چاہئے۔ یہ برائیاں اگر کوئی کسی میں دیکھتا ہے تو ایک احمدی کو بے چین ہو جانا چاہئے، اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ بے چینی سے اس کی غلطیوں کو لوگوں پہ ظاہر نہیں کرنا۔ بے چینی اصلاح کے لئے ہونی چاہئے اور وہیں بات کرنی چاہئے جہاں سے اصلاح کا امکان ہو۔ اگر خود اصلاح نہیں کرسکتے تو جس طرح مَیں نے کہا ہے پھر عہدیداروں کو بتائیں، مجھے بتائیں۔ اور پھر یہ عہدیدار رحم اور محبت کے جذبات کے ساتھ اس شخص کی اصلاح کی طرف توجہ کریں۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت عامر کہتے ہیں کہ مَیں نے نعمانؓ بن بشیر کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا توُ مومنوں کو ان کے آپس کے رحم، محبت و شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا۔ جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے۔ اس کا سارا جسم اس کے لئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔ (بخاری کتاب الأدب۔ باب رحمۃ الناس والبھائم)
پس معاشرے کو تکلیف سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو اس بیماری سے بچانے کے لیے پاک دل ہوکر اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے، دعا کرنی چاہئے۔ یہ رویے اگر ہوں گے تو یقینا یہ ایسے رویے ہیں جو معاشرے کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے والے ہوں گے۔
پھر آپس کے تفرقہ کو دور کرنے کے لیے، آپس میں محبت کرنے کے لیے آنحضرتﷺ نے ایک نہایت خوبصورت اصل ہمیں بتادیا۔
روایت میں آتا ہے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے اور یہ کہ وہ راستے میں ایک دوسرے سے ملیں تو منہ پھیرلیں۔ ان دونوں میں سے بہترین وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (الادب المفرد للبخاری، باب من بدا بالسلام)
پس آپس کی رنجشوں کو لمبا نہیں کرنا چاہئے اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور بڑھتے بڑھتے جماعتی وقار کو نقصان پہنچاتا ہے۔ غیر اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کئی خط آتے ہیں لوگ لکھتے ہیں کہ فلاں شخص کے ساتھ ناراضگی تھی، آپ کے کہنے پر جب مَیں اس کے پاس گیا اور اس سے اپنی غلطی کی معافی مانگی تو اس نے سختی سے مجھے جھڑک دیا۔ وہ بات کرنے کا روادار نہیں، سلام کرنے کا روادار نہیں۔ یہاں جرمنی میں کئی ایسے واقعات ہیں۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا یہ بڑا غلط طریقہ ہے۔ صلح کی بنیاد ڈالنی چاہئے۔ اوّل تو ہر ایک کو پہل کرنی چاہئے۔ یہ نظارے نظر آنے چاہئیں کہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دوڑے آئیں۔ ایک دوسرے کو معاف کرنے کی عادت ڈالیں۔ اور پہلے صلح کی بنیاد ڈال کر بہترین مسلمان بنیں اور اسلام اور احمدیت کی مضبوطی کا باعث بنیں۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچارہا ہوتا ہے۔ پھر آپؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں خوب اچھی طرح سے پیوست کرکے (یوں بناکر) بتایا کہ ایک حصہ دوسرے کے لیے اس طرح تقویت کا باعث ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب تشبیک الاصابع فی المسجد)
تو دیکھیں کیا توقعات ہیں آنحضرتﷺ کو ہم سے۔ اس زمانے میں احمدی ہوکر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر یہ عہد کیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے اقوال کو اپنا دستور العمل بناؤں گا۔ ایک فکر کے ساتھ اگر ان اقوال پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو اپنے اندرپاک تبدیلیاں پیداکرنے والے بن جائیں گے۔ معاشرے کو حسین بنانے والے بن جائیں گے۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہ تو نبی ہوتے ہیں اور نہ ہی شہید۔ مگر انبیاء اور شہداء بھی قیامت کے دن ان کے اس مرتبہ پر رشک کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملے گا۔ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ آپس میں ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے اور نہ ہی وہ آپس میں مالی لین دین کرتے تھے بلکہ محض للہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ تو فرمایا بخدا ان کے چہرے اس دن نورانی ہوں گے اور ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہوگا۔ انہیں اس وقت کوئی خوف نہ ہوگا جبکہ لوگ خوف میں مبتلا ہوں گے۔ اور نہ ہی انہیں کوئی غم ہوگا اس وقت جبکہ لوگ غم میں مبتلا ہوں گے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی {اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ} (یونس:63) یعنی سنو جو لوگ اللہ سے سچی محبت رکھنے والے ہیں ان پر نہ کوئی خوف غالب ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ (تفسیر الدرالمنثور تفسیر سورہ یونس زیر آیت 63)
دیکھیں کتنا بڑا اعزاز ہے ایسے دلوں کا جو محض للہ محبت کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرنے والے یقینا ایسے اشخاص ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ جو اپنے اوپر بھی اور اپنے ماحول میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاطراخوت قائم کرنے والے ہیں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے ہیں اور حقوق اللہ کی بھی ادائیگی کرنے والے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کے احکامات پرعمل کرتے ہوئے نہ صرف تفرقہ سے بچ رہے ہیں بلکہ محبتیں بکھیر رہے ہیں اور ایسے ہی لو گ ہیں جن کے بارہ میں کہا جاسکے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی رسّی کو تھامے ہوئے ہیں۔ تو جب اللہ کا بندہ اللہ کا قرب پانے کے لئے اتنی کوشش کرتاہے تو خدا جو سب پیار کرنے والوں سے زیادہ پیار کرنے والاہے، جو سب دوستوں سے زیادہ دوستی کاحق ادا کرنے والاہے اس خدا کے بارہ میں کس طرح سوچا جا سکتاہے کہ وہ اپنے ایسے بندے کو اپنا دوست اور ولی نہیں بنائے گا۔ تبھی تو آنحضرتﷺ نے اس ارشاد فرمانے کے ساتھ ہی یہ آیت پڑھی تھی کہ {اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ} (یونس:63) اور جب ایک دفعہ انسان اللہ کا ولی بن جائے تو پھر ہمیشہ اُس سے وہی فعل سرزد ہوتے ہیں، وہی عمل ہوتے ہیں جو خدا کی منشاء کے مطابق ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے اور آئندہ کے لئے ان سے نیک اعمال کرواتا ہے۔
پس دیکھیں اللہ کی خاطر اپنے بھائیوں سے محبت کرنے کا کتنا بڑا صلہ اللہ تعالیٰ عطا فرمارہا ہے۔ ان کے سب غم دُور فرما دیتاہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا جُوا اپنی گردن پر ڈال رہے ہیں۔ اور پھر اس کے طفیل وہ ہمیشہ نیک اعمال کرنے والے بن جاتے ہیں۔ ان کی ضرورتوں کو بھی اللہ تعالیٰ پورا فرماتا ہے۔ ان کے خوفوں کو بھی اللہ تعالیٰ دور فرما دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی تشریح فرمائی ہے کہ :’’یقینا سمجھ کہ جولوگ اللہ(جلّ شَانُہٗ) کے دوست ہیں یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے (یعنی نہ خوف غالب آتا ہے) کہ کیاکھائیں گے یا کیا پئیں گے یا فلاں بلا سے کیونکر نجات ہوگی۔ کیونکہ وہ تسلی دئے جاتے ہیں۔ اور نہ گزشتہ کے متعلق کوئی حزن و اندوہ انہیں ہوتا ہے (کوئی غم نہیں ہوتا) کیونکہ وہ صبر دئیے جاتے ہیں۔ دوسری یہ نشانی ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں یعنی ایمان میں کامل ہوتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ یعنی خلاف ایمان و خلاف فرمانبرداری جو باتیں ہیں ان سے بہت دور رہتے ہیں۔ ‘‘ (ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات۔ صفحہ 46 حاشیہ طبع اول)
تو دیکھیں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ایک نیکی سے پھرکئی نیکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ تفرقہ کو دُور کرتے ہوئے خدا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے کی وجہ سے ایسے لوگوں کو روزمرہ کے مسائل سے بھی اللہ تعالیٰ غنی کردیتاہے۔ ان کے تمام دنیاوی غم بھی مٹ جاتے ہیں۔ ان کے ایمان میں بھی ترقی ہوتی ہے، ان کے تقویٰ کے معیار بھی بڑھتے ہیں، غرض کوئی نیکی نہیں جو ان سے نہ ہورہی ہو۔ پس ان محبتوں کے بکھیرنے کو معمولی چیز نہ سمجھیں۔ یہ تقویٰ پر چلانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اپنی جماعت کے ہر فرد کو فرشتوں جیسا دیکھنا چاہتے تھے۔
آپؑ فرماتے ہیں : ’’اس سلسلے کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ لوگ دنیا کے گند سے نکلیں اور اصل طہارت حاصل کریں اور فرشتوں کی سی زندگی بسرکریں ‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ473 جدید ایڈیشن)
اور اصل طہارت اور کامل ایمان کس طرح حاصل ہوگا؟ اس کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور مَیں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تا وہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے (یعنی ضد میں آکر ایک کام کرنا تاکہ دوسرا اس سے فائدہ نہ اٹھالے۔ یہ اصول ہر ایسی جگہ پہ لاگو ہوگا جہاں بھی ضد سے کام چل رہے ہوں گے۔ توان ضدوں کو بھی چھوڑنا ہوگا۔ اور ضدوں کو چھوڑیں گے تو آپس میں محبتیں بکھیرنے والے بنیں گے) میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں۔ اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگرمَیں اس کے مقابل پر امن سے سو رہوں۔ اور اس کے لیے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیرنہ کروں۔ اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر مَیں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں۔ بلکہ مجھے چاہئے کہ مَیں اس کی باتوں پر صبر کروں اور اپنی نمازوں میں اس کے لیے رو رو کر دعاکروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے۔ اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزدہو تو مجھے نہیں چاہئے کہ مَیں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں بر جبیں ہو کر تیزی دکھاؤں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں (کسی کے اس طرح عیب تلاش کرنا بھی اور جو باقی باتیں ہوئی ہیں ) کوئی سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو۔ جب تک وہ اپنے تئیں ہر یک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہوجائیں (یعنی اپنی خودپسندی اور بڑائی کو بیان کرنا دور نہ ہوجائے) خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے (قوم کا خادم بننے سے ہی بڑائی ملتی ہے، سرداری ملتی ہے) اور غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے۔ اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں۔ اور غصہ کو کھالینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے‘‘۔ (شہادت القرآن۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ396-395)
پس دیکھیں ہم جو اپنے آپ کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل سمجھتے ہیں، ہم جویہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اس حبل اللہ کوپکڑا تاکہ اللہ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے جو توقعات وابستہ کی ہیں ان پر پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں دعاؤں اور عمل سے اخلاق کے ان اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس حد تک کوشش کرنی چاہئے جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں لے جانا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جلسے کے یہ دن پھر ہمیں مہیا فرمائے ہیں جن کی برکات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خوشخبری دی تھی۔ پس ان برکات کو سمیٹنے کے لیے ان دنوں میں جہاں دعاؤں پر زور دیں وہاں تفرقے کو مٹانے کے لئے اور پیار و محبت کو قائم کرنے کے لئے اپنے عملی نمونے بھی دکھائیں۔ ایک دوسرے کی غلطیاں اور کوتاہیاں معاف کریں۔ یہ آپس کے محبت و بھائی چارے کے اظہار ہی ہیں جن کا اثر پھر آپ کے ماحول سے نکل کر معاشرے میں بھی ظاہر ہوگا۔ دنیا کو خودبخود پتہ چل جائے گا کہ احمدی مسلمان ہی ایسے مسلمان ہیں جو امن اور محبت کی فضا پیدا کرنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو امن پسند اور صلح جُو ہیں لیکن اگر آپ کے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے پولیس آپ کے دروازے پرہوگی تو ماحول بھی آپ کو خوف کی نظر سے دیکھے گا۔ ہمسائے بھی آپ کو خوف کی نظر سے دیکھیں گے۔
پس ان باتوں سے بچنے کے لئے اگر آپ عمل کریں گے تو دنیا خود بخود جان لے گی کہ یہ احمدی مسلمان اَور قسم کے مسلمان ہیں۔ آجکل کے حالات میں یہاں لوگوں کی مسلمانوں پر خاص طور پر بہت گہری نظر ہے۔ اس لئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ہر سطح پر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا سفیربن کر دکھائیں۔ دنیا کو ثابت کرکے دکھائیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے اور اس وجہ سے معاشرے میں ہر طرف محبتیں بکھیرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ اس ذمہ داری کو سمجھ سکیں اور یہ جلسہ بعض پھٹے ہوئے دلوں میں محبتیں پیداکرنے کا باعث بن جائے۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانیاں کرنے کا احساس پیدا ہو اور جماعت کے لیے قربانیوں کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف توجہ پیداہو۔ اور ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بننے والے ہوں۔
خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اگست 2005ء بمقا م مئی مارکیٹ۔ منہائیم (جرمنی)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔