خداتعالیٰ کی معرفت اور اس کے حصول کے طریق
خطبہ جمعہ 16؍ ستمبر 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ(البقرۃ: 22)
پھر فرمایا:
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو! عبادت کرو اپنے رب کی جس نے تم کو پیدا کیا اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیکنڈے نیوین ممالک کا (جو مجھے بتایا گیا ہے اس کے مطابق) پہلا جلسہ ہے جو، دنیا کے لئے بھی بتا دوں کہ اکٹھا ایک جگہ تینوں ممالک کا یعنی ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کامشترکہ ہو رہا ہے۔ تینوں ممالک سے آپ لوگ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ان جلسوں کے قیام کا ایک بہت بڑا مقصد افراد جماعت کے تقویٰ کے معیار کو بلند کرنا اور اپنے ماننے والوں کو ایک خدا کی حقیقی پہچان کروا کر ان کو اس کے سامنے جھکنے والا، اس کی عبادت کرنے والا اور اس کے حکموں پر عمل کرنے والا بنانا تھا۔ اور آپ ؑ نے اپنی آمد کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد یہی بیان فرمایاہے جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں۔ :
’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا مَیں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جومجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں ‘‘۔
پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد ہر احمدی کا یہی مقصد ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچے چلے جانے کی کوشش کرتا رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچے جانے کے لئے یا اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے لئے جو کوشش ہے اس میں ایک تو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اس کی عبادت کرنا ہے، جس کا قرآن کریم میں بڑا واضح ذکر ہے یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔ یہ عبادات ہیں۔ اور پھر دوسرے احکامات ہیں جو معاشرے کو حسین بنانے اور آخر کار اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے حقیقی عبد بنانے والے احکامات ہیں۔ تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ سب کچھ یعنی بندے کو خداتعالیٰ کے حضور جھکانا اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والا بنانا، اس نور کی وجہ سے ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا ہے۔
پس آج اس زمانے میں خداتعالیٰ تک پہنچنے کے راستے اگر کسی کو نظر آ سکتے ہیں تو وہ احمدی کو نظر آ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وابستہ رہنے کا عہد کیا ہے۔ کیونکہ اس نے یہ عہد کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق جس حکم اور عدل نے آنا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا تھا اس کو ماننے کے بعد اس کے ہر حکم کو سچے دل سے ماننے والے بنیں گے۔ یہ ہر احمدی کا عہد ہے، یہ عہد ہے اور یہ عہد ہونا چاہئے۔ اگر آج ہر احمدی اس سوچ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کر رہا تو وہ آپؑ کے لائے ہوئے نور سے بھی حصہ نہیں پا رہا اور وہ خداتعالیٰ کے احکامات پر بھی عمل نہیں کر رہا اور اسی طرح اس کا عبادت گزار بھی نہیں ہے۔ پھر تو صرف منہ کی باتیں ہیں کہ ہم احمدی ہیں جبکہ عمل اس سے مختلف ہیں۔ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی نئی شریعت تو لے کر نہیں آئے تھے۔ آپؑ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے طور پر آپؐ کی لائی ہوئی شریعت یعنی قرآن کریم کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے آئے تھے۔ آپ تو دنیا کو اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں لیکن اگر ایک احمدی ہونے کا دعویٰ کرنے والا ان باتوں پر عمل کرنے والا نہیں ہے تو وہ کبھی بھی اس نور سے منور نہیں ہو سکتا، وہ کبھی بھی اس روشنی سے حصہ نہیں پا سکتا جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے۔
پس ہر احمدی کو، ہر اس شخص کو جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے منسوب کرتا ہے، ہر اس شخص کو جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق عبادت گزار بندہ بھی بننا ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے جو دوسرے احکامات ہیں ان پر بھی عمل کرنا ہو گا۔ آج ان باتوں کو کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح بیان فرما دیا ہے کہ اس میں کوئی ابہام نہیں رہا۔ آپؑ نے اپنی جماعت کو خصوصاً اور دنیا کو عموماً بڑے درد سے ایک خدا کی طرف آنے، اس کی عبادت کرنے، اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی بارہانصیحت فرمائی ہے۔
ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں :
’’ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے، ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے۔ اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے، اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو‘‘۔ (کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحہ 21)
پس ہر احمدی کا جو پہلا مقصد ہونا چاہئے وہ اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنا ہے۔ اور اس کے لئے سب سے بنیادی چیز اس کی عبادت ہے۔ جو آیت میں نے شروع میں تلاوت کی ہے، ترجمہ بھی آپ نے سن لیا ہے، اس میں خداتعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ اور بڑے واضح الفاظ میں یہ بتا کرنصیحت فرمائی ہے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیاہے، وہ تمہارا رب ہے، اس نے پیدا کرنے کے بعدتمہارے لئے سامان بھی میسر فرمائے ہیں۔ اس نے تم سے پہلوں کو بھی پیدا کیا تھا، ان کی بھی پرورش کی تھی۔ پس اس احسان پر کہ تمہیں اس نے پیدا کیا، شکر گزاری کے طور پر تمہیں چاہئے کہ اس کی عبادت کرو، اور یہ عبادت بھی تمہیں تقویٰ میں بڑھائے گی اور جب تقویٰ میں بڑھو گے تو خدا کا مزید قرب حاصل کرنے والے بنو گے اور اس کے فضلوں کے وارث بنو گے۔ کیونکہ تم اپنے اس رب کی عبادت کر رہے ہو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمام مخلوق کو بھی پیدا کیا ہے۔ وہ خدا رب العالمین ہے، تمام عالم کو پیدا کرنے والا ہے، تو جو خدا اس کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اس سے دور جا کر تم کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہو، کس طرح زندگیاں گزار سکتے ہو۔ اگر تم حقیقت میں اس کے سامنے جھکنے والے بنو گے تو وہ علاوہ تمہیں تقویٰ میں بڑھانے کے اپنا قرب حاصل کرنے والا بنانے کے، تمہیں رزق بھی ایسے ایسے ذریعوں سے دے گا جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے{وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا} (الطلاق:3) اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا۔ اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا۔ اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کو رزق آنے کا خیال بھی نہیں ہو گا۔ پس اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے تقویٰ ضروری ہے تاکہ پیار حاصل کرنے کے بعد یہ نعمتیں ملیں۔ اور تقویٰ حاصل کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے ہمیں بتایا جیسا کہ پہلے بھی واضح ہو گیا کہ مَیں ہی تمہارا رب ہوں، تمہیں رزق بھی دیتا ہوں، تمہیں پالنے کے سامان بھی پیدا کرتا ہوں۔ اور تمہاری ضروریات بھی پوری کرتا ہوں۔ اور تمام کائنات کا پیدا کرنے والا بھی ہوں۔ یہ تمام کائنات جو ہے میرے ایک اشارے پر حرکت کرنے والی ہے۔ ذرا سا اس کائنات کابیلنس (Balance) خراب ہو جائے تو تباہی و بربادی آ جائے۔ پس فرمایا کہ میری عبادت کرو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مضمون کو یعنی یہ بتانے کے لئے کہ اپنے ربّ کی عبادت کرو، اس طرح بیان فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ: ’’اے لوگو! اس خدا کی پرستش کرو جس نے تم کو پیدا کیا‘‘۔
پھر فرمایا:’’ عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے اسی سے دل لگاؤ۔ پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے اور دوسری سب چیزوں کو اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھا جائے اور جو شخص اولاد کو یاوالدین کو یا کسی اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت انہیں کا فکر رہے تو وہ بھی ایک بت پرستی ہے۔ بت پرستی کے یہی تو معنی نہیں کہ ہندوؤں کی طرح بت لے کر بیٹھ جائے اور اس کے آگے سجدہ کرے۔ حد سے زیادہ پیار و محبت بھی عبادت ہی ہوتی ہے‘‘۔ (الحکم جلد 12نمبر 48مورخہ 22؍ اگست 1908ء صفحہ نمبر 1)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے تو وہ معبود ہو جاتا ہے اور یہ صرف خداتعالیٰ ہی کا وجود ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ کسی انسان یا اور مخلوق کے لئے ایسا نہیں کہہ سکتے‘‘۔ (الحکم جلد 9نمبر 43مورخہ 10؍ دسمبر 1905ء صفحہ 5)
پس کسی سے بھی ضرورت سے زیادہ محبت یا اپنے کسی کام میں بھی ضرورت سے زیادہ غرق ہونا اس حد تک Involveہو جانا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہوش ہی نہ رہے، یہ شرک ہے۔ کاروباری آدمی ہے یا ملازمت پیشہ ہے۔ اگر نمازوں کو بھول کر ہر وقت صرف اپنے کام کی، پیسہ کمانے کی فکر ہی رہے تو یہ بھی شرک ہے۔ نوجوان اگر کمپیوٹر یا دوسری کھیلوں وغیرہ یا مصروفیات میں لگے ہوئے ہیں جس سے وہ اللہ کی عبادت کو بھول رہے ہیں تویہ بھی شرک ہے۔ پھر گھروں میں بعض ظاہری شرک بھی غیر محسوس طریقے سے چل رہے ہوتے ہیں، اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ایک طرف تو احمدی کہلاتے ہیں گو یہ بہت کم احمدی گھروں میں ہے جبکہ دوسرے لوگوں میں بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی ایک آدھے گھر میں بھی کیوں ہو۔ ایسے گھروں میں بعض دفعہ ایسی فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جن میں گند اور غلاظت کے علاوہ دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا کو دکھایا جا رہا ہوتاہے۔ پھر ان مورتیوں کو جو پوجنے والے ہیں یہ لوگ اپنے گھروں میں ان چیزوں کو رکھتے ہیں، شیلفوں میں سجا کر رکھا ہوتا ہے یا بعض خاص جگہ پر رکھا ہوتا ہے۔ تو ڈراموں میں دیکھ دیکھ کر، ان کے دیکھا دیکھی بعض اپنے گھروں میں بھی ان مورتیوں کو سجا لیتے ہیں۔ بازار میں ملنے لگ گئی ہیں کہ سجاوٹ کر رہے ہیں۔ اپنے گھروں میں ڈرائنگ رومز وغیرہ میں شیلفوں میں رکھ لیتے ہیں۔ توپھر ان فلموں کو دیکھنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ احساس ختم ہو جاتا ہے۔ ان مورتیوں کو گھروں میں رکھنے کی وجہ سے، چاہے سجاوٹ کے طور پر ہی ہوں، احساس مر جاتا ہے۔ اور اگر کسی گھر میں عبادتوں میں سستی ہے، نمازوں میں سستی ہے تو ایسے گھروں میں پھر بڑی تیزی سے گراوٹ کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ہر احمدی کو نہ صرف ان لغویات سے پرہیز کرنا ہے بلکہ اپنی عبادتوں کے معیارکو بھی اوپر لے کر جانا ہے۔ ہم ہرنماز میں {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن} کی دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں کہ ہمیں عبادت کرنے والا بنا۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے یقینا اس کو ہر قسم کے شرک سے پاک ہونا چاہئے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہر احمدی کو اپنے دل کو ٹٹولنا چاہئے کہ ایک طرف تو ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بننے کی خداتعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں دوسری طرف دنیا داری کی طرف ہماری نظر اس طرح ہے کہ ہم اپنی نمازیں تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اپنے کام کا حرج نہیں ہونے دیتے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں رازق ہوں اور اپنی عبادت کرنے والوں کے لئے رزق کے راستے کھولتا ہوں۔ لیکن ہم منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے، حق ہے لیکن ہمارے عمل اس کے الٹ چل رہے ہیں۔ اُس وقت جب ایک طرف نماز بلا رہی ہو اور دوسری طرف دنیا کا لالچ ہو، مالی منفعت نظر آ رہی ہو تو ہم میں سے بعض رالیں ٹپکاتے ہوئے مال کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس وقت یہ دعوے کھوکھلے ہوں گے کہ ہم ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں۔ پس جماعت کے ہر طبقے، عورت، مرد، بچے، بوڑھے، جوان، ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر کیا روحانی تبدیلی ہم میں پیدا ہوئی ہے۔ کیا ہماری عبادتوں کے معیار بڑھے ہیں یا وہیں کھڑے ہیں یا گر رہے ہیں، کہیں کمی تو نہیں آ رہی۔ جب ہر کوئی خود اس نظر سے اپنے جائزے لے گا تو انشاء اللہ عبادتوں کے معیار میں یقینا بہتری پیدا ہو گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’غرض کہ ہر آن اور پل میں اس کی طرف رجوع کی ضرورت ہے اور مومن کا گزارا تو ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کا دھیان ہر وقت اس کی طرف لگا نہ رہے۔ اگر کوئی ان باتوں پر غور نہیں کرتا اور ایک دینی نظر سے ان کو وقعت نہیں دیتا تو وہ اپنے دنیوی معاملات پر ہی نظر ڈال کر دیکھے کہ کیا خدا کی تائید اور فضل کے سوا کوئی کام اس کا چل سکتا ہے؟ اور کوئی منفعت دنیا کی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ دین ہو یا دنیا ہر ایک امر میں اسے خدا کی ذات کی بڑی ضرورت ہے اور ہر وقت اس کی طرف احتیاج لگی ہوئی ہے۔ جو اس کا منکر ہے سخت غلطی پر ہے۔ خداتعالیٰ کو تو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہے کہ تم اس کی طرف میلان رکھو یا نہ۔ وہ فرماتا ہے {قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ} (الفرقان:78) کہ اگر اس کی طرف رجوع رکھو گے تو تمہارا ہی اس میں فائدہ ہو گا۔ انسان جس قدراپنے وجود کو مفید اور کار آمد ثابت کرے گا اسی قدر اس کے انعامات کو حاصل کرے گا۔ دیکھو کوئی بیل کسی زمیندار کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو مگر جب وہ اس کے کسی کام بھی نہ آوے گا، نہ گاڑی میں جُتے گا، نہ زراعت کرے گا، نہ کنوئیں میں لگے گا تو آخر سوائے ذبح کے اور کسی کام نہ آوے گا‘‘۔ (یہاں کے پَلے بڑھوں کو شاید تصور نہ ہو، یہاں یہ پرانی چیزیں شاید میوزیم میں پڑی ہوں۔ ہمارے پاکستان ہندوستان وغیرہ میں بیل ابھی بھی پالے جاتے ہیں اور ان کو بڑی توجہ سے پالا جاتاہے کاشتکاری کے لئے جس سے ہل چلایا جاتا ہے۔ ٹریکٹر اور مشینری وغیرہ تو بہت سے لوگوں کے پاس بہت کم ہے۔ تو فرما یا کہ جب ان کاموں کے لئے بیل پالا جائے گا اگر وہ کام کے قابل نہیں رہا تو سوائے ذبح کرنے کے اور کچھ نہیں ہو گا اور ) ایک نہ ایک دن مالک اسے قصاب کے حوالے کر دے گا۔ ایسا ہی جو انسان خدا کی راہ میں مفید ثابت نہ ہو گا تو خدا اس کی حفاظت کا ہرگز ذمہ دار نہ ہو گا۔ ایک پھل اور سایہ دار درخت کی طرح اپنے وجود کو بنانا چاہئے تاکہ مالک بھی خبر گیری کرتا رہے (ایسا درخت بناؤ جس کو پھل لگتے ہوں جس سے سایہ ملتا ہو۔ جس کا کوئی فائدہ ہو۔ اور تبھی تو اس کو پالنے والا اس کی خبر گیری کرے گا) لیکن اگر اس درخت کی مانند ہو گا کہ جو نہ پھل لاتا ہے اور نہ پتیّ رکھتا ہے کہ لوگ سایہ میں آ بیٹھیں تو سوائے اس کے کہ کاٹا جاوے اور آگ میں ڈالا جاوے اور کس کام آ سکتا ہے۔ خداتعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے۔ {مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} (الذّاریات: 57) جو اس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتااور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں، فلاں مکان بنا لوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے۔ انسان کے دل میں خداتعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شے ہو جاوے گا۔ اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہاکا ہی درد ہے (جو دنیااور جو کچھ دنیا میں ہے اس کا ہی درد ہے) تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا۔ خداتعالیٰ مہلت اس لئے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اسے وہ کیا کرے۔ پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے۔ سب عبادتوں کا مرکز دل ہے۔ اگر عبادت تو بجا لاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی۔ اس لئے دل کا رجوع تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 222`221۔ جدید ایڈیشن)
پس انسان کی پیدائش کا یہ مقصد ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو اور یہ سب ہماری اپنی بہتری کے لئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو تو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے تو ایک مقصد ہمیں بتایا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو گے تو میرا قرب پاؤ گے ورنہ شیطان کی گود میں گر جاؤ گے۔ اور جو شیطان کی گود میں گر جائے وہ نہ صرف خداتعالیٰ سے دور چلاجاتا ہے بلکہ کسی نہ کسی رنگ میں معاشرے میں فساد پھیلانے کا بھی باعث بنتا ہے۔ پس اللہ کی عبادت بندوں کے فائدے کے لئے ہے ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے{قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ} (الفرقان:78) یعنی ان کو بتا دو کہ میرا رب اس کی کیا پرواہ رکھتا ہے اگر تم دعا نہ کرو، اس کی عبادت نہ کرو، اس سے اس کا فضل نہ چاہو۔ اللہ تعالیٰ نے عبادت کرنے کا یہ حکم بھی تمہارے ہی فائدے کے لئے دیا ہے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک نظارہ دکھایا گیا کہ بہت ساری بھیڑیں ہیں جوایک لائن میں ذبح کی ہوئی پڑی ہیں اور آواز آتی ہے{قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ} (الفرقان:78) اور پھر ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ تم کیا ہو، آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو نا۔ اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے۔ (تلخیص رؤیا از الحکم مورخہ 17؍ اگست 1901ء صفحہ 1)
پس یہ رؤیا بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے۔ یہ نظارہ بھی جو ہے یہ ہم احمدیوں کو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننے کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے کہ دوسرے لوگ جو اللہ کی عبادت نہیں کرتے تو اللہ کو ان کی پرواہ ہی کیا ہے۔ کوئی ان کی پرواہ نہیں۔ لیکن تم لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ زمانے کے امام کو ہم نے مانا ہے تم تو اپنی عبادتوں سے غافل نہ ہو۔ تم تو اس نور اور روشنی سے حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے ہیں۔ اگر تم نے بھی عبادتوں میں کمزوریاں دکھائیں تو اس نور سے بھی حصہ نہیں ملے گا اور خدا سے بھی دور ہو گے اور جو خدا سے دور ہو اللہ کو اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی۔
پس ہمیں چاہئے کہ ہم وہ بے فائدہ بھیڑیں نہ بنیں کہ جن کی خدا کوکچھ بھی پرواہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ان مقربوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں جن کے آنکھ، کان، ہاتھ، اور پاؤں خداتعالیٰ ہو جاتا ہے۔ جن کی خاطر خداتعالیٰ لڑتا ہے۔ جن کو اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے۔ ہمارا ہر فعل ایسا ہو جو خدا کی رضا حاصل کرنے والا ہو۔ اس کے لئے جیسا کہ پہلے بتایا ہے محنت کی بھی ضرورت ہے، کوشش کرکے عبادتیں کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اس کا فضل مانگتے ہوئے عبادتوں کی طرف توجہ کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ مدد فرماتا ہے، فرمائے گاانشاء اللہ۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا شرط یہ ہے کہ خالص ہو کر اس کی عبادت کی جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ:’’ اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری، کنکر پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر اوّل صفحہ 347 جدید ایڈیشن)
پس ہمیں چاہئے کہ ہر قسم کے کنکر، پتھر کو دل میں سے نکال دیں اور خدا کا سچا عبادت گزاربنیں۔ جب انسان اس طرح کوشش سے اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے تو پھر اللہ اس سے زیادہ بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اپنے بندوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہوں جیسا وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو مَیں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو مَیں اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور اگر وہ میری طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو مَیں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں۔ اور جو میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں۔ اور اگر وہ میری طرف چلتے ہوئے آتا ہے تو مَیں دوڑتے ہوئے اس کی طرف جاتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قول اللہ تعالیٰ و یحذرکم اللہ۔ ۔ )
پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس سے وہ عمل سرزد ہوں اور وہ عبادتیں عمل میں آئیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے والی ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میرے آنے کا مقصدایک خدا کی پہچان اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کروانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جن حکموں پہ ہم نے عمل کرنا ہے ان کا علم کس طرح ہو؟ وہ ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے۔ اس کو غور سے پڑھنے اور سمجھنے سے اس کا علم حاصل ہو گا۔
پس اس طرف بھی ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ{ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن} (البقرۃ: 3)۔ یہ وہ کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔ پس جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اپنے ربّ کی عبادت کرو تو تقویٰ میں بڑھو گے۔ اور تقویٰ میں بڑھنے کے لئے قرآن کریم جو خدا کا کلام ہے اس کو بھی پڑھنا ضروری ہے، اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ پس تقویٰ اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک قرآن کریم کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا زندگیوں کا حصہ نہ بنا لیا جائے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اللہ جلّ شانُہٗ نے قرآن کریم کے نزول کی علت غائی{ِھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن} قرار دی ہے۔ (یعنی اس کا مقصد متقیوں کے لئے ہدایت ہے) اور قرآن کریم سے رشد اور ہدایت اور فیض حاصل کرنے والے بالتخصیص متقیوں کو ہی ٹھہرایا ہے۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 139)
یعنی خاص طور پر جو تقویٰ میں بڑھنے والے ہوں گے وہی قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کریں گے۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی کوئی قوم قرآن کریم پڑھنے کے لئے اور ایک دوسرے کو پڑھانے کے لئے خداتعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھی ہوتی ہے تو ان پر سکینت نازل ہو تی ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کے گرد حلقے بنا لیتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الوتر- باب فی ثواب قرا ء ۃ القرآن)
پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور فرشتوں کے حلقے میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے، اپنے بچوں کو پڑھائیں، انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں۔ اور یاد رکھیں کہ جب تک ان چیزوں پہ عمل کرنے کے ماں باپ کے اپنے نمونے بچوں کے سامنے قائم نہیں ہوں گے اس وقت تک بچوں پہ اثر نہیں ہو گا۔ اس لئے فجر کی نماز کے لئے بھی اٹھیں اور اس کے بعد تلاوت کے لئے اپنے پر فرض کریں کہ تلاوت کرنی ہے پھر نہ صرف تلاوت کرنی ہے بلکہ توجہ سے پڑھنا ہے اور پھر بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی پڑھیں، انہیں بھی پڑھائیں۔ جو چھوٹے بچے ہیں ان کو بھی پڑھایا جائے۔
آنحضرتﷺ نے ہمیں قرآن کریم پڑھنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے، کس طرح پڑھنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف پڑھو اور اس کے غرائب پر عمل کرو۔ ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب فضائل القرآن الفصل الثالث)
غرائب سے مراد اس کے وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور وہ احکام ہیں جن کو کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ جب قرآن کریم اس طرح ہر گھرمیں پڑھا جا رہا ہو گا، غور ہو رہا ہو گا، ہر حکم جس کے کرنے کا خداتعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اس پر عمل ہو رہا ہو گا اور ہر وہ بات جس کے نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اس سے بچ رہے ہو ں گے، اس سے رک رہے ہوں گے تو ایک پاک معاشرہ بھی قائم کر رہے ہوں گے۔ عبادتوں کے معیاروں کے ساتھ ساتھ آپ کے اخلاق کے معیار بھی بلند ہو رہے ہوں گے۔ آپس کی رنجشیں دور کرنے کی بھی کوشش ہو رہی ہو گی۔ جھوٹی اناؤں اور عزتوں سے بھی بچ رہے ہوں گے۔ تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بھی آپ کوشش کر رہے ہوں گے۔ اگر ایک شخص بظاہر نمازیں پڑھنے والا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جوقرآن کریم میں احکامات دیئے ہیں ان پر عمل نہیں کر رہا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایسے نمازیوں کی نمازوں کو ان کے منہ پر مارتا ہے۔ یہی نمازیں ہیں جو نمازیوں کے لئے لعنت بن جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی ان عبادتوں کا ذکر کیا ہے جو تقویٰ میں بڑھاتی ہیں۔ اور تقویٰ بڑھتا ہے ان احکامات پر عمل کرنے سے جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں۔ جن کی تعداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے پانچ سو یا سات سو بتائی ہے۔ اور آپؑ نے فرمایا کہ جو ان حکموں پر عمل نہیں کرتا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس یہ ہوشیاری یا چالاکی کسی کام نہیں آئے گی۔ بعض لوگوں کو اپنی علمیت پہ بڑا ناز ہوتا ہے اور دوسروں کے علم کا استہزاء کر رہے ہوتے ہیں۔ یا کسی اور بات کا بڑا فخر ہے اس پر استہزاء ہو رہا ہوتا ہے مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔ تو چاہے وہ قرآن کریم کا علم ہو یا کوئی اور علم ہو کیونکہ یہ علم جو ہے یہ تقویٰ سے عاری ہوتا ہے اس لئے اس علم کی بھی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں جو اس نے حاصل کیا ہے۔ بے فائدہ علم ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ان احکامات پر عمل کرو۔ اگر صرف پڑھ لیا دوسروں کو بتا دیا اور خود عمل نہ کیا تو ایسے لوگوں کو قرآن ہدایت نہیں دیتا۔ ہدایت بھی تقویٰ کے ساتھ مشروط ہے اور عبادت کرنے کا بھی اس لئے حکم دیا تاکہ تم تقویٰ میں ترقی کرو۔ پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ تقویٰ کے حصول کے لئے عبادت کرے اور تقویٰ کے حصول کے لئے ہی قرآن کریم پڑھے اور پڑھائے، قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والا بنے۔
اب مثلاً قرآن کریم کا ایک حکم آپس میں محبت اور پیار کی فضا پیدا کرنا ہے اور دوسروں کو اچھی بات کہنا ہے، نرمی اور پیار سے بات کرنا ہے۔ چبھتی ہوئی اور کڑوی بات نہ کرنے کا حکم ہے جس سے دوسروں کے جذبات کو تکلیف ہو۔ جیسا کہ فرمایا ہے {قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا} یعنی لوگوں سے نرمی اور پیار سے بات کیا کرو۔ ایسے طریقے سے جن سے کسی کے جذبات کو تکلیف نہ پہنچے۔ معاشرے میں اکثر جھگڑے زبان کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں۔ اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ اس عضو کو سنبھال لو تو جہنم سے بچ جاؤ گے۔ یہ بھی جہنم میں لے جانے کا ایک ذریعہ ہے۔ بعض لوگ بڑے نرم انداز میں باتیں کر دیتے ہیں جو کسی کی برائی ظاہر کر دے۔ یا بڑے آرام سے نرم الفاظ میں کوئی چبھتی ہوئی بات کر دی۔ اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو بڑے آرام سے بات کی تھی۔ دوسرا شخص ہی بھڑک گیا ہے۔ اس کو پتہ نہیں کیا تکلیف ہوئی۔ تو یہ چالاکیاں بھی کسی کے سامنے کہو گے تو شایددنیا کے فیصلہ کرنے والوں کی نظر سے تو بچا لیں گی، لیکن اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اس کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
پس ایک احمدی کو باریکی میں جاکراپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر آپ یہ کر لیں گے تو ان ملکوں میں بھی اور دنیا میں ہر جگہ جہاں احمدیوں کے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، دلوں میں بغض اور کینے پلتے بڑھتے ہیں ان کی اصلاح ہو جائے گی۔ پس اپنی اصلاح کے لئے قرآن کریم کو غور سے پڑھیں اور اس کے احکامات کو زندگیوں کا حصہ بنائیں ور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انذار کے نیچے بھی آ سکتے ہیں۔ ایک روایت ہے حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خوفناک چیز کا ذکر کرکے فرمایا کہ ایسا اس وقت ہو گا جب دین کا علم مٹ جائے گا۔ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! علم کیوں کر مٹ جائے گا جبکہ ہم قرآن پڑھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھا رہے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنی اولاد کو پڑھاتے رہیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آفرین ہے زیاد! مَیں تمہیں مدینہ کا انتہائی سمجھدار آدمی سمجھتا تھا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہود و نصاریٰ انجیل کی کتنی تلاوت کرتے ہیں مگر ان کی تعلیمات پر کچھ بھی عمل نہیں کرتے۔ (سنن ابن ماجۃ کتاب الفتن، باب ذھاب القرآن والعلم)
پس اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے دین کا علم دوبارہ قائم ہواہے۔ یہ روشنی اور نور ہمیں دوبارہ ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نور اور روشنی دوبارہ میسر فرمائی ہے۔ اگر اپنے آپ کو بدلیں گے نہیں تو صرف قرآن کریم پڑھنا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ اور پھر ایسے لوگوں سے جو عمل نہیں کرتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بیزاری کا اظہار فرمایا ہے کہ مجھ سے تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ کاٹے جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:’’ اصل یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھایا ہے جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے (اور آج دیکھ لیں کہ ان کا یہی حال ہے ہر جگہ سے ماریں پڑ رہی ہیں۔ ان کے ملکوں میں آ کر غیر ان کو ما ر رہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ پابندی نہیں ہے) جس قدر وہ قرآن شریف سے دور جا رہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جا رہے ہیں۔ قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4۔ صفحہ379۔ جدید ایڈیشن)
پس ہر احمدی اپنے جائزے لے، غور کرے، گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے جائزے لے۔ مائیں بچوں کو شروع سے ہی اس کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ ہر روز کی تلاوت کے بعد جائزہ لینا چاہئے کہ اس میں بیان کردہ جو حکم ہیں، اوامر اور نواہی ہیں کرنے اور نہ کرنے کی باتیں ہیں۔ ہم کس حد تک ان پر عمل کر رہے ہیں۔ تبھی ہم اپنی اصلاح کی کوشش کر سکتے ہیں۔ پس دعا کے ساتھ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں۔ قرآن شریف کے تیس سپارے ہیں۔ اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پورا عملدر آمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ مگر مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے (یعنی اس کی چابی اور طاقت دعا ہے) دعا کومضبوطی سے پکڑ لو۔ میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتاہوں کہ پھر اللہ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 149جدید ایڈیشن)
اللہ کرے کہ ہم جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے منسوب کرتے ہیں۔ آپؑ کی خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بھی بن جائیں اور اس کے حکموں پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والے بھی ہوں۔ اس کے حکموں پر عمل کرنے والے بھی ہوں اور جہاں ہماری سمجھ میں اور ہمارے عمل میں روک پیدا ہو وہاں خدا کے آگے جھکیں اس کے حقیقی عابد بنتے ہوئے اس سے راہنمائی چاہیں۔ اس سے عرض کریں کہ اے خدا تو نے ہی کہا ہے کہ خالص ہو کر میرے آگے جھکو تو میں راہنمائی کرو ں گا اور ہدایت دوں گا۔ ہم ہدایت کے طلبگار ہیں۔ جب اس طرح دعائیں ہوں گی تو یقینا اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔
یہ جلسے کے دن جن میں خداتعالیٰ نے آپ کو ایک روحانی ماحول میسر فرمایا ہے ان میں اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی بڑھائیں۔ حقیقی تقویٰ کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کریں، فہم حاصل کرنے کی کوشش کریں، سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان جلسے کے دنوں میں مختلف موضوعات پر تقاریر ہوں گی۔ جن کا محور تو وہی ایک ہوتا ہے کہ تقویٰ۔ ان سے بھی فائدہ اٹھائیں اور اپنے علاوہ اپنے بیوی بچوں کو بھی اس امر پر قائم کریں کہ ہم نے ان تین دنوں میں روحانیت میں ترقی کرنے کی کوشش کرنی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے۔ اس لئے یہ نہ ہو کہ آپ لوگ جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے ہیں، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے ہیں۔ بعض واقف کافی دیر بعد ایک دوسرے کو ملے ہوں گے کہ اپنی محفلیں جما کر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں باتیں کرتے رہیں اور جلسے سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ بلکہ جلسے سے ہر ایک کو جو شامل ہونے والا ہے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب بھرپور فائدہ اٹھائیں گے تو تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بھی بنیں گے۔ اللہ کرے کہ آپ سب اس جلسے کی برکات سے فیض حاصل کرنے والے ہوں۔ (آمین)
سکنڈے نیوین ممالک کے پہلے جلسہ کے موقع پر بصیرت افروز خطاب
خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍ستمبر 2005 ء بمقا م گوتھن برگ (سویڈن)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔