آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کی مالی قربانی کی شاندار مثالیں
خطبہ جمعہ 23؍ ستمبر 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کی:
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (آل عمران:93)
پھر فرمایا:
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم کامل نیکی ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے خدا کے لئے خرچ نہ کرو۔ اور جوکوئی بھی چیز تم خرچ کرو، اللہ اسے یقینا خوب جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے بنیادی حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ قرآن کریم کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے نماز کے حکم کے ساتھ ہی مالی قربانی کے بارے میں بھی فرما دیا جیسا کہ فرمایا {وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن} (البقرۃ:4) نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے، جہاں اس کی عبادت کرنا ضروری ہے وہاں اس کی راہ میں اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔ اور یہی چیز ہے جس سے تزکیہ نفس بھی ہوتا ہے۔ مال سے محبت کم ہوتی ہے اور ایک مومن اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی وقتاً فوقتاً قومی ضرورت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تحریک فرماتے تھے۔ اور صحابہؓ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے تھے۔ کیا مرد اور کیا عورتیں سب اپنے مال قربان کرتے تھے۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں میں تحریک فرمائی کہ دین کو مالی قربانی کی ضرورت ہے تو حضرت بلال ؓ نے جو اپنی چادر پھیلائی ہوئی تھی وہ عورتوں کے زیورات سے بھر گئی۔ عورتیں امڈی پڑتی تھیں، ایک دوسرے پر گرتی پڑتی تھیں کہ جو کچھ ہے پیش کر دیں۔ ایک دفعہ آپؐ کی تحریک پر حضرت عمر ؓ اپنے گھر کا آدھا سامان لے کر حاضر ہوئے۔ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کا کُل اثاثہ اللہ اور اس کے رسول کے حضورپیش کرنے کے لئے لے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ابو بکر! گھر میں بھی کچھ چھوڑ کے آئے ہو؟ تو عرض کی :گھر میں اللہ اور اس کا رسول ؐ چھوڑ آیا ہوں جس سے بڑھ کر کوئی اثاثہ نہیں ہے، جس سے بڑھ کر کوئی سامان نہیں ہے، جس سے بڑھ کر کوئی جائیداد نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ جب میں اپنے گھر کا آدھا سامان لے کر حاضر ہوا تھا تو اس وقت میرا خیال تھا کہ آج مَیں ابو بکر سے آگے نکل گیا ہوں لیکن کہتے ہیں کہ ابو بکر کی بات سن کر میں نے سوچا کہ مَیں ابو بکر سے کبھی آگے نہیں نکل سکتا۔
جب آیت {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} (آل عمران:93) نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ جو مدینہ کے انصار میں سے سب سے زیادہ مالدار تھے، ان کے کھجوروں کے باغات تھے جن میں سب سے عمدہ باغ ’’بیر حاء ‘‘ نامی تھا جو حضرت طلحہ ؓ کو بہت پسند تھااور مسجد نبوی کے بالکل سامنے اور قریب تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے اور وہاں کے کنویں کا ٹھنڈا پانی پیا بھی کرتے تھے، جو آپؐ کو بڑا پسند تھا۔ آیت نازل ہونے کے بعد حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یہ باغ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ مَیں اسے اللہ کی راہ میں دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری اس نیکی کو قبول کرے گا اور میرے آخرت کے ذخیرے میں شامل کرے گا۔ تو صحابہ ؓ کی مالی قربانیوں کے یہ نمونے ہوتے تھے۔ (بخاری -کتاب الاشربۃ۔ باب استعذاب المآء)
اس آیت کی وضاحت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’تم حقیقی نیکی کو(جو نجات تک پہنچاتی ہے) ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ بنی نوع کی ہمدردی میں وہ مال خرچ نہ کرو جو تمہارا پیارا مال ہے۔ ‘‘ (اور وہ چیزیں خرچ نہ کرو جو تمہاری پیاری ہیں ) (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 358)
پھر آپ نے فرمایا:’’ مال کے ساتھ محبت نہیں چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} کہ تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اُن چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جن سے تم پیار کرتے ہو۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ آجکل کے حالات کا مقابلہ کیا جاوے تو اِس زمانہ کی حالت پر افسوس آتا ہے۔ کیونکہ جان سے پیاری کوئی شے نہیں۔ اور اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان ہی دینی پڑتی تھی۔ تمہاری طرح وہ بھی بیوی اور بچے رکھتے تھے۔ جان سب کو پیاری لگتی ہے۔ مگر وہ ہمیشہ اس بات پر حریص رہتے تھے کہ موقع ملے تو اللہ کی راہ میں جان قربان کر دیں ‘‘۔ (کلمۂ طیبہ صفحہ نمبر 14 تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آل عمران آیت نمبر93)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’ بیکار اور نکمی چیزوں کے خرچ سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ نیکی کا دروازہ تنگ ہے۔ پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ نص صریح ہے {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} (آل عمران:93) جب تک عزیز سے عزیزاور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا۔ اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے توکیونکر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو۔ کیا صحابہ کرامؓ مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھرکہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی ملتا ہے۔ پھر خیال کرو کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔ خدا ٹھگا نہیں جاتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پروا نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897صفحہ 79 طبع اول)
پس چودہ سو سال بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے اپنے ماننے والوں میں یہ انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی اور بہت سوں کے دلوں میں یہ انقلاب پیدا کیا جس کی وجہ سے مسیح محمدی کے ماننے والوں نے بھی پہلوں سے ملنے کی خوشخبری پائی اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ کے انعام سے انعام یافتہ ہوئے۔ آج ہم احمدی بھی جو ان بزرگوں کی اولادیں ہیں اور خالصتاً اللہ کی خاطر ان نیکیوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور جن کے کرنے کا اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر عہد کیا ہے۔ یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کے مطابق دائمی اور ہمیشہ رہنے والا زمانہ ہے اور خلافت حقہ کے ذریعہ اس نے تاقیامت جاری رہنا ہے۔ اس لئے اس تعلیم کے ذریعہ سے جس کی چند جھلکیاں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند اقتباسات سے پیش کی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کیں اور قربانی کے اعلیٰ نمونے قائم کئے اُن تبدیلیوں کو ہم نے اس زمانے میں جاری رکھنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہماری بچت اسی میں ہے کہ ہم اس کی راہ میں اپنا بہترین مال پیش کریں، اس کی رضا حاصل کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {اَنْفِقُوْا خَیْرًالِّأَنْفُسِکُمْ} اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہو گا۔ یعنی تمہارے اپنے لئے بھی یہ بہتر ہے کیونکہ تم جومال خرچ کرو گے اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہارے سے راضی ہو گا، تمہیں مزید نیکیوں کی توفیق ملے گی۔ بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بعد تم اپنے یا اپنے گھر پر یا اپنی اولاد پر جو خرچ کرو گے اس میں بھی برکت پڑے گی۔ تمہارے تھوڑے مال میں بھی خداتعالیٰ اتنی برکت رکھ دے گا جو تم پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اظہار کر رہی ہو گی۔ تمہارے بچوں میں اور ان کی تربیت میں بھی اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا۔ غرض کہ یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں تم سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ فرمایا {وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ} (الحشر:10) اور جو لوگ اپنے دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ پس اگرفلاح پانی ہے، کامیابی حاصل کرنی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اگر اپنے مالوں اور اولادوں میں برکت ڈالنی ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں کبھی کنجوسی اور بخل سے کام نہ لو۔ آج اس بخل سے بچنے کی احمدی کو سب سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد مالی قربانی کا زیادہ فہم اور ادراک حاصل ہوا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ مالی قربانی کرنے والوں کو کس طرح کامیاب فرماتا ہے؟ فرمایا کہ{اِنْ تُقْرِضُوْااللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ} (التّغابن:18)۔ اگر اللہ کو قرضہ حسنہ دو گے تو وہ اُس کو تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہارے لئے بخشش کے سامان پیدا کرے گا اور اللہ بہت قدردان اور ہر بات کو سمجھنے والا ہے۔
پس یہ مالی قربانی قرضۂ حسنہ ہے۔ اللہ کو بظاہر مال کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ اللہ کس طرح قدر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو قربانی ہے کیونکہ یہ تم نے میری خاطر کی ہے۔ اس لئے مَیں اسے تمہیں واپس لوٹاؤں گا۔ اور اللہ تعالیٰ سب قدر کرنے والوں سے زیادہ قدر کرنے والا ہے۔ اس لئے اس کو کئی گنا بڑھا کر لوٹاتا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ کرکے لوٹاتا ہے۔ تو یہ قرضہ حسنہ کیا ہے ؟ یہ تو ایک تجارت ہے اور تجارت بھی ایسی جس میں سوائے فائدے کے کچھ ہے ہی نہیں۔ اس لئے کسی بھی قربانی کرنے والے کو کبھی یہ خیال نہ آئے کہ مَیں نے خدا پر کوئی احسان کیا ہے۔ اور صرف مالی لحاظ سے یا دنیاوی لحاظ سے ایسے قربانی کرنے والوں کے حالات اللہ تعالیٰ ٹھیک نہیں کرتا بلکہ فرمایا کہ تمہارے جودنیاوی فائدے ہونے ہیں وہ تو ہونے ہیں، مَیں گناہ بھی بخش دوں گا۔ انسان گناہوں کا پتلا ہے ایک دن میں کئی کئی گناہ سرزد ہو جاتے ہیں، کئی کئی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ایک تو ان قربانیوں کی وجہ سے ان گناہوں سے بچے رہو گے، نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے گی۔ دوسرے جو غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہو گئی ہیں، اللہ کی راہ میں قربانی کرکے ان کی بخشش کے سامان بھی پیدا کر رہے ہو گے۔ پس اس طرف توجہ کرو اور اللہ کے فضلوں کے وارث ٹھہرو۔
اللہ تعالیٰ کس طرح ان قربانی کرنے والوں کو نوازتا ہے، اس بارے میں ایک حدیث سے روشنی پڑتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر۔ دوسرا کہتا ہے اے اللہ! روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاک کر اور اس کا مال و متاع برباد کر دے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب قول اللہ فاما من اعطی و اتقیٰ…)
تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے لئے فرشتے بھی دعا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ فرشتوں کی دعا کا انتظام اللہ تعالیٰ نے اس لئے کیا ہے کہ وہ قربانی کرنے والوں کی قدر کرتا ہے۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اپنے فضل نازل کرنے کے طریقے ہیں۔ اس حدیث نے تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھادیا کہ ایک طرف تو خداتعالیٰ مالی قربا نی کرنے والوں کی قدر کرتا ہے، ان کی بخشش کے سامان پیدا فرماتا ہے، ان کے مال میں اضافہ کرتا ہے، ان کے نفوس میں برکت ڈالتا ہے۔ دوسری طرف بخیل اور کنجوس او ر دنیا داروں کو نہ صرف ان برکات سے محروم کر رہا ہوتا ہے بلکہ ایسے مواقع بھی آجاتے ہیں کہ جو ان کے پاس ہے اس دنیا میں بھی اس سے محروم کر دیتا ہے۔ اور آخرت میں بھی اس کی ہلاکت کے سامان ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایک سخی اور مالی قربانی کرنے والے کے جنت میں جانے اور بخیل کے دوزخ کے قریب ہونے کے بارے میں ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے، لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا ہے اور دوزخ سے دور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بخیل اللہ سے دور ہوتا ہے، لوگوں سے دور ہوتا ہے، جنت سے دور ہوتا ہے لیکن دوزخ کے قریب ہوتا ہے۔ فرمایا: اَن پڑھ سخی بخیل عابد سے اللہ کی راہ میں زیادہ محبوب ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ، باب الجود والسخاء)
آدمی بڑی عبادتیں کرنے والا بھی ہے لیکن کنجوس ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں اتنا محبوب نہیں جتنا ایک سخی ہے چاہے کم عبادتیں بھی کر رہا ہو۔ عبادتیں تو کم نہیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ پھر عبادتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ دنیاوی لحاظ سے بھی کس طرح نوازتا ہے اور مال میں برکت دیتا ہے، کس طرح قرضہ حسنہ کو لوٹاتا ہے۔ اس بارے میں ایک روایت ہے۔ کئی بار سنی ہو گی۔ لیکن جب مالی قربانیوں کا وقت آتا ہے اس وقت اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کا یوں ذکر فرمایا ہے کہ ایک آدمی جنگل میں جا رہا تھا۔ آسمان پربادل تھے۔ اتنے میں اس نے بادلوں میں سے آواز سنی کہ اے بادل! فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر دے۔ وہ بادل اس طرف چلا گیا۔ وہ آدمی جس نے یہ آواز سنی تھی وہ بادل کے اس ٹکڑے کے پیچھے پیچھے گیا تو دیکھا کہ وہ ایک پتھریلی زمین پہ برس رہا ہے۔ ایک چٹان ہے، پہاڑی سی ہے وہاں بادل برس رہا ہے اور پھر ایک نالے کی صورت میں وہ پانی اکٹھا ہو کے بہنے لگا۔ وہ شخص بھی نالے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تو دیکھا کہ وہ نالہ ایک باغ میں داخل ہوا اور باغ کا مالک اس پانی کو بڑا سنبھال کے، طریقے سے، جہاں جہاں باغ میں پانی کی ضرورت تھی وہاں لگا رہا تھا۔ تو اس آدمی نے جس نے یہ آواز سنی تھی باغ کے مالک سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے وہی نام بتایا جو اس نے بادلوں سے سنا تھا۔ باغ کے مالک نے نام پوچھنے کی وجہ پوچھی۔ تو اس نے بتایا کہ اس طرح میں نے بادل سے آواز سنی تھی۔ وہ کون سا نیک عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تم پر اتنا مہربان ہے۔ باغ کے مالک نے کہا کہ میرا یہ طریق کار ہے کہ باغ سے جو بھی آمدہوتی ہے اس کا ایک تہائی(1/3حصہ) خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہوں۔ اور 1/3حصہ اپنے اہل و عیال کے گزارے کے لئے، گھر کے خرچ کے لئے رکھ لیتا ہوں اور 1/3حصہ دوبارہ اس باغ کی نگہداشت اور ضرورت کے خرچ وغیرہ کے لئے رکھ لیتا ہوں۔ (مسلم -کتاب الزھد۔ باب فضل الانفاق علی المساکین وابن السبیل)
تو اس 1/3کی قربانی کی وجہ سے دیکھیں اللہ تعالیٰ اس شخص پر کس قدرفضل فرما رہاتھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میری خاطر قربانی کرتے ہیں ان کو بغیر اجر کے نہیں جانے دیتا۔ دیکھیں کس کس طرح نوازتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے آپؑ کے ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ نے قربانیوں کا فہم اور ادراک عطا فرمایاہے اور حیرت انگیز طورپر انہوں نے قربانیوں کے معیار قائم کئے ہیں۔ اس بارے میں اپنے صحابہ کی مثال دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ ایسا ہی ہمارے دلی محب مولوی محمد احسن صاحب امروہی جو اس سلسلہ کی تائید کے لئے عمدہ عمدہ تالیفات میں سرگرم ہیں۔ اور صاحبزادہ پیر جی سراج الحق صاحب نے تو ہزاروں مریدوں سے قطع تعلق کرکے اس جگہ کی درویشانہ زندگی قبول کی۔ اور میاں عبداللہ صاحب سنوری اور مولوی برہان الدین صاحب جہلمی او رمولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی اور منشی چودہری نبی بخش صاحب بٹالہ ضلع گورداسپورہ، اور منشی جلال الدین صاحب یلانی وغیرہ احباب اپنی اپنی طاقت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ مَیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں۔ وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سوروپیہ دے گیا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا۔ مگر للّٰہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا‘‘۔ (ضمیمہ انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11۔ صفحہ 314`313 حاشیہ)
اب دیکھیں ! مالی قربانی کرنے کے علاوہ بھی جو وہ ریگولر (Regular) کیا کرتے تھے انہوں نے قربانیوں کے معیار قائم کئے۔ اُس زمانے کا جو سو روپیہ ہے وہ آجکل شاید لاکھ روپے بلکہ مَیں نے حساب کیا ہے اگر گندم کی قیمت کا حساب لیں تو لاکھ روپے سے بھی زیادہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کے قریب بنتا ہے۔ پس آج کے کمانے والے اس زمانے کی کمائی کو دیکھیں۔ ان میں سے بہت سارے بزرگ ہیں جن کی اولادیں یہاں بھی ہیں۔ یورپ میں، دوسرے ملکوں میں اچھا کمانے والی ہیں۔ بڑے اچھے حالات میں ہیں۔ اور آج اپنی کمائی کو دیکھیں اور پھر اپنی قربانی کے معیاروں کا بھی اندازہ لگائیں۔ پھر ایک خادم کے تعلق میں جو ہر وقت قربانی کے لئے تیار رہتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لکھتے ہیں کہ:
’’حبی فی اللہ منشی محمد اروڑا نقشہ نویس مجسٹریٹی۔ منشی صاحب محبت اور خلوص اور ارادت میں زندہ دل آدمی ہیں۔ سچائی کے عاشق اور سچائی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں۔ خدمات کو نہایت نشاط سے بجا لاتے ہیں۔ بلکہ وہ تو دن رات اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت مجھ سے صادر ہو جائے۔ عجیب منشرح الصدراور جان نثار آدمی ہے۔ مَیں خیال کرتا ہوں کہ ان کو اس عاجز سے ایک نسبت عشق ہے۔ شاید ان کو اس سے بڑھ کر اور کسی بات میں خوشی نہیں ہوتی ہو گی کہ اپنی طاقتوں اور اپنے مال اور اپنے وجود کی ہریک توفیق سے کوئی خدمت بجا لاویں۔ وہ دل و جان سے وفادار اور مستقیم الاحوال اور بہادر آدمی ہیں۔ خدائے تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے‘‘۔ (ازالہ اوہا م۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 532)
پھر منشی ظفر احمد صاحب کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی ضرورت کے لئے رقم کا اظہار فرمایا کہ ان کی جماعت ادا کر سکتی ہے تو وہ لینے کے لئے گئے اور گھر جا کر بیوی کازیور بیچ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں وہ رقم پیش کر دی اور یہ نہ بتایا کہ یہ رقم کہاں سے حاصل ہوئی ہے، کس طرح حاصل ہوئی ہے۔ کچھ عرصے بعد جب ان کے دوسرے ساتھیوں کو علم ہوا تو بڑے ناراض ہوئے کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا، ہمیں کیوں ثواب سے محروم رکھا۔ تو یہ جذبے تھے جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے زمانے میں اپنے ماننے والوں میں پیدا کئے۔
حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خسر تھے اور حضرت امّ ناصر کے والد تھے، ان کے بارے میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ قربانی میں اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اگر یہ کچھ نہ بھی دیں تب بھی ان کے قربانی کے وہ معیار جو پچھلے ہو چکے ہیں بہت اعلیٰ ہیں، وہ ہی کافی ہیں۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسی مقصد کے لئے تحریک فرمائی تو انہوں نے (ڈاکٹر صاحب نے) اپنی تنخواہ جو اُس وقت ان کو ملی تھی فوری طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پوری کی پوری بھجوا دی۔ اُن کے قریب جو کوئی موجود تھے انہوں نے کہا کہ کچھ اپنے خرچ کرنے کے لئے بھی رکھ لیں، آپ کو بھی ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آج خدا کے مسیح نے دین کی ضرورت کے لئے رقم کا مطالبہ کیاہے۔ میری ضرورتیں دینی ضرورتوں سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ اس لئے یہ ساری کی ساری رقم جو میرے پاس موجود ہے فوری طور پر بھجوا رہا ہوں۔ غرض کہ ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔ ایک دفعہ کسی نے اعتراض کیا کہ حضرت خلیفہ اول کے بعد کوئی ایسا نہیں ہے جو اتنی قربانی کرنے والا ہو تو اس معترض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:
’’ آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک حکیم مولوی نورالدین صاحب اس جماعت میں عملی رنگ رکھتے ہیں۔ دوسرے ایسے اور ایسے ہیں۔ مَیں نہیں جانتا کہ آپ اس افتراء کا خداتعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی زندگی کی یہ بات کر رہے ہیں۔ اور آج اللہ کے فضل سے یہ تعداد کہیں کی کہیں پہنچی ہوئی ہے) اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں۔ میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں۔ ہاں شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص اور صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذو نادر میں داخل ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ ہزار ہا آدمی دل سے فدا ہیں۔ اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہو جاؤ تو وہ دستبردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں۔ پھر بھی مَیں ہمیشہ ان کو اَور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگر دل میں خوش ہوتا ہوں ‘‘۔ (سیرت المہدی۔ حصہ اوّل صفحہ 165 ایڈیشن دوم مطبوعہ 1935ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں جو پاک تبدیلی پیدا کی اس کی نظیرنہیں ملتی، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور ہر زمانے میں قربانی کرنے والے پیدا ہوتے رہے۔ ان میں امیر بھی ہیں اور غریب بھی ہیں۔ خلافت ثانیہ میں ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مالی تحریک فرمائی تو ہر طبقہ نے لبیک کہا۔ ایک بڑھیا جس کا گزارا بھی مشکل سے ہوتا تھا۔ شاید امداد سے ہوتا تھا یا چند ایک مرغیاں رکھی ہوئی تھیں، ان کے انڈے بیچتی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے پاس آئی اور عرض کی کہ میری جو یہ ایک دو مرغیاں ہیں ان کے انڈے بیچ کر یہ تھوڑے سے پیسے حضور کی خدمت میں اس تحریک کے لئے لائی ہوں۔ دیکھیں اس عورت کا جذبہ جو اس نے خلیفۂ وقت کی طرف سے کی گئی تحریک میں پیچھے رہنا گوارا نہیں کیا۔ یقینا اس کے اس جذبے کی وجہ سے اس کے جو چند پیسے یاجو چند انڈے تھے خداتعالیٰ کے نزدیک کروڑوں روپوں سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔ اور یہ واقعات ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ آج بھی ایسی عورتیں ہیں جو قربانیوں کی اعلیٰ مثال قائم کرتی ہیں۔ ایک خاتون نے اپنا بہت سا زیور خلافت رابعہ کی مختلف تحریکات میں دے دیا تھا۔ میری طرف سے بھی جب بعض تحریکات ہوئیں تو پھر کچھ زیورات جو باقی بچے ہوئے تھے وہ دے دئیے تھے۔ پھر ان کو کچھ زیورات تحفہ ملے یا دوبارہ بنائے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دئیے۔ اسی طرح مردوں میں سے بھی بہت قربانیاں کرنے والے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی توفیق سے بڑھ کر قربانیاں کی ہیں۔ تو قربانی کے یہ معیار آج اللہ تعالیٰ نے صرف جماعت احمدیہ میں ہی قائم فرمائے ہوئے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں ہے کہ کسی پاکستانی یا ہندوستانی کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ باپ دادا صحابی تھے اس لئے ہماری نسلوں میں بھی قربانی کے وہ معیار چل رہے ہیں۔ بلکہ دنیا کے ہر ملک میں، ہر قوم میں، قربانی کی مثالیں قائم ہو رہی ہیں۔ افریقہ میں وہاں کے غریب لوگ بھی آج اپنی مرغیاں یا مرغیوں کے انڈے یا ایک آدھ بکری جو ان کے پاس ہوتی ہے وہ لے کر آتے ہیں کہ پیسے تو نقد ہمارے پاس ہیں نہیں، یہ ہمارے چندے میں کاٹ لیں۔ پھر افریقنوں میں ایسے خوشحال مرد اور عورتیں بھی ہیں جنہوں نے بڑی بڑی مالی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں۔ مسجدوں کے لئے پلاٹ خریدے۔ مسجدیں بنائیں اور کافی بڑی رقم سے بڑی بڑی مسجدیں بنائیں۔ ابھی اسی سال افریقہ کے ایک ملک میں ایک عورت نے ایک بڑی خوبصورت مسجد بناکر جماعت کو پیش کی ہے۔ تو یہ انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد ان لوگوں میں آیا ہے۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے، ہزار ہا آدمی دل سے فدا ہیں۔ اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہو جائیں تو وہ دستبردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیاری جماعت نے یہ نمونے حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی قائم نہیں کئے بلکہ آج بھی یہ نمونے قائم ہیں۔ اور یقینا یہ ان دعاؤں کے پھل ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے لئے کی ہیں۔ جب بھی کوئی مالی تحریک ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان پیاروں نے ہمیشہ لبیک کہا۔
اس سلسلے میں آج مَیں بھی آپ کو، ناروے کی جماعت کو، ایک مالی تحریک کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، ایک ایسی مالی تحریک جس کا دوہرا ثواب ہے۔ جس سے آپ جنتوں کے دوہرے وارث ہو رہے ہیں۔ ایک تو مالی قربانی کرکے اور دوسرے اُس خاص مقصد کے لئے قربانی کرکے جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس نے اپنے لئے جنت میں گھر بنا لیا۔ فرمایاجو مسجد تعمیر کرتا ہے وہ ویسا ہی گھر اپنے لئے جنت میں بناتا ہے۔
جماعت احمدیہ ناروے نے چند سال پہلے اپنی ضرورت کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی اجازت سے بلکہ شاید حضور رحمہ اللہ کے کہنے پر ہی۔ (بہرحال مجھے اس وقت مستحضر نہیں ہے)۔ ایک مسجد بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا۔ ہر ایک نے دوسرے پر الزام دینے کی کوشش کی، بہرحال یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ اور سوائے بیسمنٹ (Basement)کے جو ابھی آتے ہوئے مَیں نے دور سے ہی دیکھی ہے۔ اور وہ بھی اب کافی بُری اور ناگفتہ بہ حالت میں ہے کچھ تعمیر نہیں ہو سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افراد جماعت نے بہت مالی قربانیاں کی ہیں لیکن شاید اپنی طاقت سے بڑھ کر منصوبہ بنا لیا تھا اس لئے پورا نہیں کر سکے۔ ایک احمدی جب ایک دفعہ عہد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ وعدہ کرتا ہے تو پھر اس کو پورا کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے۔ اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن شاید آپ لوگوں کی اس طرف پوری طرح توجہ نہیں ہوئی یا صحیح طریقے سے یاددہانی نہیں کروائی گئی۔ یہ احساس نہیں ہوا کہ اگر یہ مسجد نہ بنی تو ایک عہد کو پورا نہ کرنے کے علاوہ ہم دنیاوی نقصان بھی اٹھا رہے ہیں۔ کیونکہ اس پر جو کچھ بھی بن چکا ہے یا زمین وغیرہ خریدی اس پر بھی کافی رقم خرچ ہو چکی ہے۔ اور پھر کیونکہ استعمال کے قابل جگہ نہیں ہے اس لئے وہ ضائع بھی ہو رہی ہے۔ دوسرے کونسل نے بھی کئی دفعہ سوال اٹھایا ہے اور دوسری تنظیمیں بھی جو نہیں چاہتیں کہ جماعت یہاں مسجد بنائے، یہ جگہ وہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ، مختلف اوقات میں اخباروں وغیرہ میں شور مچاتے رہتے ہیں۔ یا اور طریقوں سے شور مچاتے رہے ہیں۔ او رجو خرچ اب تک ہو چکا ہے وہ اس قدر ہے کہ اگر آپ اس کو بیچیں تو وہ قیمت نہیں مل سکتی۔ اس لئے یہ محاورہ ہے ناں کہ نہ نِگلے بنے نہ اُگلے بنے۔ یہ وہی ہو رہا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے اور جماعت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جماعت کے افراد اور جماعت نے جب بھی ایک منصوبے کے تحت ایک ہو کر، ایک عزم کے ساتھ کسی کام کو شروع کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر اسے انجام تک پہنچایا ہے۔ اگر آپ بھی اب اس کام کو پختہ ارادے سے شروع کریں تو یہ مسجد یقینا بن سکتی ہے۔
مَیں نے آپ میں سے مردوں، عورتوں، بچوں، نوجوانوں کی اکثریت کے چہرے پر اخلاص و وفا کے جذبات دیکھے ہیں۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ آپ کے اخلاص و وفا میں کمی ہے یا کسی سے بھی کم ہیں۔ بعض ذاتی کمزوریاں ہیں اُن کو دور کریں۔ ایک دوسرے سے تعاون کرنا سیکھیں۔ مضبوط ارادہ کریں تو اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر آپ کی مدد فرمائے گا۔ اور اپنے وعدوں کے مطابق ایسے ذریعوں سے آپ کے رزق کے اور آپ کے کاموں کی تکمیل کے اور آپ کے اس وعدے کو پورا کرنے کے سامان پیدا فرمائے گا کہ جس کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ جو کمزور ہیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔ اُن کو بھی بتائیں کہ خدا کا گھر بنانے کے کیا فوائد ہیں۔ جو قربانیاں کر رہے ہیں وہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے عہدوں کی نئے سرے سے تجدید کرتے ہوئے، نئے سرے سے پلاننگ کریں، سب سر جوڑ کر بیٹھیں، ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کریں۔ آج جب دنیا میں ہر جگہ مسجدوں کی تعمیر ہو رہی ہے، ہر جگہ جماعت کی ایک خاص توجہ پیدا ہوئی ہے۔ آج جب دشمن جہاں اس کا زور چلتا ہے ہماری مسجدوں کو نقصان پہنچانے اور ان کو بند کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان ملکوں میں جہاں امن ہے جہاں آپ کے مالی حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں، جہاں خدا کے نام کو ہر شخص تک پہنچانے کی انتہائی ضرورت ہے، آج جہاں اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اسلام کے نور کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اگر بہتر حالات میسر ہونے کے بعد بھی آپ نے خدا کے اس گھر اور اس کے روشن میناروں کی تعمیر نہ کی تو یہ ناشکری ہو گی۔ یاد رکھیں یہ آخری موقع ہے اگر اس دفعہ بھی اور اجازت ملنے کے بعد ابھی آپ لو گ اسے تعمیر نہ کر سکے تو پھر زمین بھی ہاتھ سے نکل جائے گی اور جو رقم اب تک اس پہ خرچ ہوئی ہے وہ بھی ضائع ہو جائے گی اور جماعت کے وقار کو بھی دھکہ لگے گا۔ پس آج ایک ہو کر اس گھر کی تعمیر کریں، اس تعمیر سے جہاں آپ جماعت کے وقار کو روشن کر رہے ہوں گے وہاں اپنے لئے خدا کی رضا حاصل کرتے ہوئے جنت میں گھر بنا رہے ہوں گے۔ اور یاد رکھیں کہ ہر بڑے کام کے لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔ دعاؤں کے ساتھ اس قربانی کے لئے تیار ہوں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا۔
یاد رکھیں اگر یہ موقع آپ نے ضائع کر دیا تو آج نہیں تو کل جماعت احمدیہ کی کئی مساجد اس ملک میں بن جائیں گی۔ لیکن احمد یت کی آئندہ نسلیں، اس جگہ سے گزرتے ہوئے آپ کو اس طرح یاد کریں گی کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جماعت کو مسجد بنانے کا موقع میسر آیا لیکن اس وقت کے لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا اور یہ جگہ ہاتھ سے نکل گئی۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی وہ دن آئے جب آپ کو تاریخ اس طرح یاد کرے۔
اللہ کرے کہ آپ ہمیشہ ان لوگوں میں شمار ہوں جن کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ دل سے فدا ہیں۔ ہمیشہ آپ فدائیت کے نمونے دکھانے والے ہوں۔ پس نوجوان بھی توجہ کریں، بوڑھے بھی توجہ کریں، عورتیں بھی توجہ کریں، بچے بھی اپنے والدین کے پیچھے پڑیں کہ جلد سے جلد اس مسجد کی تعمیر کریں۔ آپ کے اخلاص و وفا کے بارے میں مَیں نے پہلے بھی کہا کہ مجھے کوئی شبہ نہیں ہے صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال جب مَیں نے جلسہ برطانیہ پر وصیت کی تحریک کی تھی تو اس جماعت میں صرف 67موصی تھے اور ایک سال میں تقریباً دُگنے مزید اس میں شامل ہو گئے اور 191کی تعداد ہو گئی۔ کل چندہ دہند آپ کے تقریباً 500 ہیں ہو سکتا ہے جلدی آپ نصف تک بھی پہنچ جائیں۔ یہ بات یقینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ لوگ مالی قربانیاں کرنے میں پیچھے رہنے والے نہیں ہیں۔ اخلاص و وفا میں پیچھے رہنے والے نہیں ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ایک ہو کر کام کریں گے تو یقینا اس میں برکت پڑے گی۔
اللہ کرے کہ آپ میں سے ہر ایک آج یہاں سے اس ارادے کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ اٹھے کہ چاہے جو مرضی ہو جائے، چاہے جو مرضی مجھ پر بیت جائے ہم نے اب اللہ تعالیٰ کے اس گھر کو تعمیر کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جماعت احمدیہ ناروے کو مسجد کی تعمیر کے لئے تحریک
خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ستمبر 2005 ء بمقا م اوسلو۔ (ناروے)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔