ہارٹلے پول(برطانیہ) میں مسجد ناصر کاافتتاح۔ تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان
خطبہ جمعہ 11؍ نومبر 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کی:
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ (الاعراف:27)
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ۔ (الاعراف: 32)
پھر فرمایا:
الحمدللہ آج ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ ہم ملک کے اِس حصے میں بھی مسجد تعمیر کرنے کے قابل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کی قربانی کو قبول فرمائے اور جس مقصد کے لئے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے یہاں کا رہنے والا ہر احمدی اس مقصد کو پورا کرنے والا ہو۔ اس مسجد کی تعمیرکے لئے مَیں نے انصاراللہ UK کی ذمہ داری لگائی تھی کہ وہ اس کا تمام خرچ ادا کریں یا اکثر حصہ ادا کریں۔ الحمدللہ کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور بڑے کھلے دل کے ساتھ اس قربانی میں حصہ لیا اور اس طرح یہ مسجدکم و بیش ان کی قربانی سے ہی تعمیر ہو گئی۔ جو وعدے انہوں نے کئے تھے وہ بھی 75فیصد ادا ہو چکے ہیں، امید ہے بقایا بھی جلد ہی ادا کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کی صورت میں یا اَورکسی بھی رنگ میں حصہ لیا۔ بہت سا کام والنٹیئرز (Volunteers) نے وقار عمل کی صورت میں کیا۔ دیکھنے والوں کو بظاہر یہ کام ناممکن نظر آتا تھا کہ آج اس تاریخ کو مسجد کا افتتاح ہو سکے گا۔ لیکن ان والنٹیئرز نے اس طرح رات دن کرکے کام کیا ہے کہ اس ناممکن کو آج ممکن بنا دیاہے۔
یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی قربانیوں کے نمونے ہیں جو آج جماعت احمدیہ کے علاوہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتے۔ جب ایک دفعہ کام میں لگ جائیں، ارادہ کر لیں کہ کرنا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعائیں کرتے ہوئے اس کام میں جُت جاتے ہیں اور جنونیوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ نہ رات کا ہوش رہتا ہے نہ دن کا ہوش رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے، ان کی پریشانیوں اور مشکلوں اور مسائل کو دور فرمائے۔
اب یہ مسجد تو بن گئی لیکن ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ ہماری مساجد صرف اس لئے نہیں بنائی جاتیں کہ ایک خوبصورت عمارت ہم بنا دیں اور دوسرے بھی دیکھ کر خوش ہوں کہ دیکھو کتنی اچھی خوبصورت مسجد بنائی ہے اور ہم بھی اس کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ یہ مساجد تو نشان ہیں اس بات کا کہ اللہ والوں کی جماعت جن کے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہتے ہیں ایک خدا کی عبادت کرنے کے لئے، اللہ کے نام پر، اللہ کا گھر تعمیر کرتے ہیں دنیا کا کوئی بھی لالچ، دنیا کی کوئی بھی مصروفیت انہیں خدا کی عبادت سے غافل کرنے والی نہیں ہوتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا صحیح فہم اور ادراک رکھتے ہیں کہ {وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} (الذّاریات: 57) یعنی مَیں نے جنّ اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں اور مجھے پہچانیں۔ عبادت کے لئے جو ہمیں طریقے سکھائے گئے ہیں اور ایک مومن کے لئے جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ، اس کے لئے یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ پانچ وقت نماز ادا کرے۔ پھر نماز کے اوقات معین کرکے بتائے کہ یہ پانچ اوقات ہیں۔ تم پر فرض ہے کہ ان اوقات میں نمازمسجد میں جا کر باجماعت ادا کرو۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’باجماعت نماز اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت ستائیس گنا افضل ہے‘‘۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ)
یعنی اس کا ثواب ستائیس گنا زیادہ ہے۔
پس ہم جب مسجد بناتے ہیں تو کسی دکھاوے یا مقابلے کے لئے نہیں بناتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لئے، اس کی عبادت کے لئے بناتے ہیں۔ اور یہی سوچ ہے جس کے تحت ہر احمدی کو مسجد میں نمازوں کے لئے آنا چاہئے، یہاں کے رہنے والے احمدیوں میں سے بعض تو ایسے ہیں جو کام پر جاتے ہیں، بعض نمازوں کے اوقات مثلاً ظہر، عصر یا بعض حالات میں مغرب پر مسجد میں حاضر نہیں ہو سکتے وہ تو اپنے کام کی جگہ پر پڑھ لیں۔ لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو کسی کام کے بغیر ہیں، اسائلم کے فیصلے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں یا ویسے ہی کام سے فارغ ہو چکے ہیں ان کو پانچوں وقت مسجد میں آنا چاہئے۔ اب یہ مسجد پانچ وقت نمازوں کے لئے کھلنی چاہئے اور جو پہلی قسم مَیں نے کام کرنے والوں کی بیان کی ہے ان کو بھی فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں آنا چاہئے۔ ہر مرد پر یہ فرض ہے بلکہ جو بچے دس سال کی عمر کو پہنچ گئے ہیں ان پر بھی فرض ہے۔ ایک احمدی جس کا یہ دعویٰ ہے کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا اور آپ کو مان کر اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کیا ہے اس کی شان کے خلاف ہے کہ دنیا کی مصروفیتیں یا کام یا اَور اس قسم کے بہانے اسے نماز کے لئے مسجد میں آنے سے روکیں۔ احمدی کی شان یہی ہے کہ ہر دنیاوی مجبوری کو پس پشت ڈال دے، پیچھے پھینک دے۔ دنیا کا کوئی لالچ، دنیا کی کوئی دلچسپی اس کی باجماعت نمازوں میں روک نہ بنے۔ ورنہ یہ قربانیاں بھی بے فائدہ ہیں جو آپ نے مسجد کی تعمیر کے لئے کی ہیں اور یہ عمارت بھی بے فائدہ ہے جو تقویٰ سے پُر دلوں کی بجائے وقتی جوش رکھنے والے دلوں نے بنائی ہے۔ اللہ کرے کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اس مقصد پیدائش کو سمجھتے ہوئے اپنے دل کو تقویٰ سے سجاتے ہوئے مسجد کو آباد کرنے والا ہو۔
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں آدم کے بیٹے کہہ کر بات شروع کی ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے آدم کاذکر چل رہا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں سے روکا لیکن شیطان کے بہکاوے میں آ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ان سے ہو گئی۔ اور پھر جب آدم اور حوّا کو احساس ہوا کہ اللہ کی بات نہ مان کر یہ سب کچھ غلط ہو گیا تو پھر توجہ استغفار کی طرف ہوئی۔ پھر توبہ و استغفار سے انہوں نے اللہ کے فضل کو سمیٹنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور اس کی خشیت ان کے دل میں پیدا ہوئی۔ اس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اے بنی آدم! یقینا ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ یعنی تمہارے سامنے تمہارے باپ آدم کی مثال موجود ہے جب شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا جس سے ایک غلطی سرزد ہوئی، پھر اس کو اپنی کمزوریوں کا پتہ چلا اور پھر توبہ و استغفار اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہی تھا جس نے آدم کے ننگ اور کمزوریوں کو ڈھانپا۔ اب اگر تم نے بھی شیطان کے حملوں سے بچنا ہے اور یہ شیطان کے حملے قدم قدم پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر دنیاوی لالچوں سے بچنے کے لئے کوئی طریق اختیار کرنا ہے تو وہ یہی توبہ و استغفار ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہے اور اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننا ہی ہے۔ اس کے بغیر تمہاری کمزوریوں کو کوئی چیز دور نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے جو تمہیں شیطان کے حملوں سے بچا سکے۔ پس یہی چیزیں ہیں جن کی طرف تمہیں توجہ دینی چاہئے اور جب تم اس پر توجہ دو گے تو تمہارے دل میں اللہ کی خشیت اور اس کا تقویٰ پیدا ہو گا۔ اور جب یہ تقویٰ پیدا ہو گا تو یہ تمہارا لباس بن کر رہے گا، تمہارے حسن کو نکھارے گا، تمہیں ہر شیطانی حملے سے محفوظ رکھے گا، اللہ کا قرب دلانے والا ہو گا۔ پس اگر دین و دنیا کی بھلائی چاہتے ہو تو اس تقویٰ کے لباس کو اپناؤ جو بہترین لباس ہے۔ جس میں تمہاری حفاظت کے ساتھ ساتھ موسم کی شدّت سے، شیطانی حملوں سے بچنے کے علاوہ تمہاری خوبصورتی بھی ہے۔
پھر اگلی آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا کہ اے ابنائے آدم ہر مسجد میں اپنی زینت یعنی لباس تقویٰ ساتھ لے جایا کرو۔ اور کھاؤ اور پیؤ اور اسراف نہ کرو۔ کیونکہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یعنی اے آدم کے بیٹو! گو کہ تمہارا دھیان اور خیال اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف رہنا چاہئے تاکہ تمہاری دنیا و آخرت سنور جائے اور تم اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکو۔ لیکن ایک عمل خاص طور پر اس کا قرب دلانے والاہے جس میں انسان عاجزی، انکساری، تذلل اور دعاؤں کا مختلف شکلوں میں اظہار کرتا ہے اور وہ نماز کی حالت ہے۔ جس میں سجدہ کی حالت بھی آتی ہے جس میں انتہائی تذلل کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے حضور گرتا ہے، جھکتا ہے اور گرنا چاہئے۔ یہ ایک مسلمان کا فرض ہے۔ اس لئے جب تم مسجدمیں اس عبادت کے لئے جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے پر فرض کی ہے، تمہارے لئے مقرر فرمائی ہے، تو اپنے ذہن تمام دنیاوی دلچسپیوں سے مکمل طور پر خالی کرکے جاؤ۔ توبہ و استغفار اور ذکر الٰہی کرتے ہوئے مسجدوں میں داخل ہو تاکہ مکمل توجہ عبادت کی طرف ہو۔ جس طرح ظاہری طور پر وضو کرکے تم اپنے جسم کو پاک کرتے ہو اور وضو کرکے اپنے ظاہری گند کو اتارنے کی کوشش کرتے ہو اسی طرح روحانی طور پر بھی اپنی صفائی کے سامان کر لو۔ اسی سے تمہاری زینت ہے اور تمہارے روحانی حسن میں اضافہ ہو گا۔ اللہ کے حضور جب اس کی خشیت دل میں لئے ہوئے اور تقویٰ کا لباس پہنے ہوئے حاضر ہو گے تو اللہ جو اپنے بندوں کو گلے لگانے کے لئے انتظار میں رہتا ہے دوڑ کر تمہیں اپنی آغوش میں لے لے گا۔ لیکن شرط یہی ہے کہ خالص اللہ کے ہوتے ہوئے اس کے آگے جھکنے والے ہو۔ یہ نہ ہو کہ سستی، کاہلی سے اور نہ چاہتے ہوئے مسجد میں جا رہے ہو۔ اور پھر مسجد میں نماز کا انتظار کرنا پڑ جائے تو وہ بھی دوبھر لگ رہا ہو۔ پھر یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ تو نماز جیسے تیسے پڑھ لی، جس طرح بھی امام نے پڑھائی لیکن اس میں بھی اپنی دنیاوی الجھنوں کے چکر میں پڑے رہے اور پھر سلام پھیر کر جب سنتیں پڑھنے کاوقت آیا تو جلدی جلدی ٹکریں مار لیں تاکہ جلدی فارغ ہوں۔ تو یہی وسوسے ہیں جو شیطان ابن آدم کے دل میں پیدا کرتا ہے کہ جلدی کرو فلاں کام کا حرج نہ ہو جائے۔ ایسا نہ ہو جائے ویسا نہ ہو جائے۔ اس لئے یہ بھی حکم ہے کہ نماز میں جب امام کی انتظار میں یا نماز کھڑی ہونے کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا پڑے تو ذکر الٰہی میں وقت گزارو۔
اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب تک نماز کی خاطر کوئی شخص مسجد میں بیٹھا رہتا ہے نماز میں ہی مصروف سمجھا جاتا ہے۔ اور فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اے اللہ! اس پر رحم کر اس کو بخش دے، اس کی توبہ قبول کر‘‘۔ (مسلم۔ کتاب المساجد۔ باب فضل الصلاۃ المکتوبۃ فی جماعۃ…)
تو دیکھیں نماز کا انتظار کرنے والوں کا بھی کتنا بڑا اجر ہے۔ اس توبہ و استغفار کی وجہ سے، اس انتظار کی وجہ سے، اس ذکر الٰہی کی وجہ سے جو ایک مومن اللہ کے حکم کے مطابق زینت اختیار کرنے کی کوشش کررہا ہے، فرشتے بھی اس پر درود بھیج رہے ہیں اور اس کی زینت کو اور زیادہ صیقل کر رہے ہیں اور زیادہ نکھار رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس میں مدد دے رہے ہیں۔ پس یہ جو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے لئے دوڑ کر آنا ہے، ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ بندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ اس کے نظارے بھی اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے اپنے بندے کو کرواتا ہے، بلکہ اللہ کی عبادت کا جوش رکھتے ہوئے مسجد میں جانے کی وجہ سے ہر اس قدم پر جو مسجد کی طرف اٹھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا بھی ثواب دیتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ’’ جب ایک شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز کی نیت سے مسجد کی طرف آئے یعنی نماز کے علاوہ کوئی اور چیز اسے مسجد میں نہ لائے‘‘۔ ظاہری نمود و نمائش نہ ہو بلکہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے مسجد میں آ رہا ہو ’’تو ایسے شخص کا کوئی قدم نہیں اٹھتا مگر اس وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند ہو جاتا ہے۔ اور ایک گناہ معاف ہو جاتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ)
تو جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ مسجد میں جانے سے پہلے یا نماز پڑھنے سے پہلے زینت سے مراد ظاہری صفائی اور وضو بھی ہے تو یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ اچھی طرح وضو کرو یہ بھی ایک بنیادی حکم ہے۔ اس طرح اچھی طرح وضو کرنے کا طریق بھی آپؐ نے ہمیں سمجھا دیا۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ پانی منگوایا۔ پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھوئے۔ پھر اپنے دائیں ہاتھ سے برتن سے پانی لے کر کلی کی پھر ناک صاف کیا پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک تین بار اپنے ہاتھ دھوئے، کہنیاں شامل کرکے اس کے بعد سر کا مسح کیا پھر تین بار ٹخنوں تک اپنے پاؤں دھوئے۔ وضو میں ٹخنے بھی شامل ہوتے ہیں۔ پھراس طرح وضو مکمل کرنے کے بعد آپ ؓ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے اس طرح وضو کیا جس طرح میں نے کیا ہے پھر وساوس سے محفوظ رہ کر خشوع و خضوع سے دو رکعت نماز پڑھی اس کے پہلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء ثلاثاً ثلاثاً)
پس یہ زینت کے لوازمات ہیں جو ہر مومن کو اختیار کرنے چاہئیں۔ پھر اسی آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے۔ زینت اور لباس تقویٰ کے ذکر کے بعد فرمایا کہ کھاؤ اور پیؤ لیکن حد سے تجاوزنہ کرو۔ ایک تو اس کا یہ مطلب ہے کہ کیونکہ خوراک کا بھی انسانی ذہن پر اثر پڑتا ہے طبیعت پر اثر پڑتا ہے۔ خیالات میں سوچوں پر اثر پڑتا ہے اس لئے پاکیزہ، صاف اور حلال غذا کھاؤتاکہ کسی بھی لحاظ سے تمہارے سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو تمہیں تقویٰ سے دور لے جانے والا ہو۔ جن چیزوں کے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے کھانے سے رک جاؤ۔ جن چیزوں کے پینے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے پینے سے رک جاؤ۔ کیونکہ ان کا کھانا اور پینا اس حکم کے تحت ناجائز ہے۔ اگر کھاؤ پیؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرو گے۔
اسراف کا ایک مطلب گھن لگنا بھی ہے۔ آج کل دیکھ لیں بہت سی بیماریاں جو پیدا ہو رہی ہیں اس خوراک کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں۔ ٹھیک ہے اور بہت سے عوامل بھی ہیں لیکن جب علاج ہو رہا ہو تو ڈاکٹروں کی تان دوائیوں کے علاوہ خوراک پہ بعض دفعہ آ کے ٹوٹتی ہے۔ اور اس زمانے میں جبکہ انسان بہت زیادہ تن آسان ہو گیا ہے سستی اور آرام کی اتنی زیادہ عادت پڑ گئی ہے یہ خوراک ہی ہے جو کئی بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ یہاں یورپ میں بھی کہتے ہیں کہ جوبرگر وغیرہ زیادہ کھانے والے لوگ ہیں ان کوانتڑیوں کی بعض بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ پھر چاکلیٹ کھانے والے بچوں کو کہتے ہیں کہ زیادہ چاکلیٹ نہ کھاؤ دانت خراب ہو جاتے ہیں، کیڑا لگ جاتا ہے۔ اور جب انسان پہ بیماریاں آ جائیں تو پھر یکسوئی سے عبادت بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے حکم ہے کہ مومن کو بھوک چھوڑ کر اور اعتدال سے کھانا چاہئے۔
اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مومن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الأطعمۃ، باب المؤمن یاکل فی معی واحد…)
پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض دوسری چیزیں مثلاً شراب وغیرہ اور دوسری نشہ آور چیزیں جو استعمال کرتے ہیں ان کا بھی اسی وجہ سے مذہب سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ سے بھی دور چلے جاتے ہیں۔ تو اس لئے فرمایا کہ کھانے پینے میں حدود سے تجاوز نہ کرو ورنہ ایسی قباحتیں پیدا ہوں گی، ایسی حالت پیدا ہو گی، ایسی تکلیفیں ہوں گی جو گھن کی طرح تمہاری صحت کو کھا لیں گی اور نیکیوں، عبادتوں سے محروم ہو جاؤ گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ واضح ہو کہ قرآن شریف کے رو سے انسان کی طبعی حالتوں کو اس کی اخلاقی اور روحانی حالتوں سے نہایت ہی شدید تعلقات واقع ہیں۔ یہاں تک کہ انسان کے کھانے پینے کے طریقے بھی انسان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر اثر کرتے ہیں۔ اور اگر ان طبعی حالتوں سے شریعت کی ہدایتوں کے موافق کام لیا جائے تو جیسا کہ نمک کی کان میں پڑ کر ہر ایک چیز نمک ہی ہو جاتی ہے‘‘۔ یعنی نمک کی جو کان ہے اس میں چیزیں نمکین ہو جاتی ہیں۔ ’’ایسا ہی یہ تمام حالتیں اخلاقی ہی ہو جاتی ہیں۔ اور روحانیت پر نہایت گہرا اثر کرتی ہیں۔ اسی واسطے قرآن شریف نے تمام عبادات اور اندرونی پاکیزگی کی اغراض اور خشوع خضوع کے مقاصد میں جسمانی طہارتوں اور جسمانی آداب اور جسمانی تعدیل کو بہت ملحوظ رکھا ہے‘‘ یہ جو عبادات میں حرکات ہیں اور آداب ہیں مختلف عبادتوں کے، انسان کا ایک معین معتدل نظام ہے۔ اس کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھنا چاہئے۔ اسراف نہ ہو۔ فرمایا کہ:’’ اور غور کرنے کے وقت یہی فلاسفی نہایت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جسمانی اوضاع کا روح پر بہت قوی اثرہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طبعی افعال گو بظاہر جسمانی ہیں مگر ہماری روحانی حالتوں پر ضرور ان کا اثر ہے‘‘۔
پھر فرمایا:’’ جسمانی سجدہ بھی روح میں خشوع اور عاجزی کی حالت پیدا کر تا ہے۔ اس کے مقابل پر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب ہم گردن کو اونچی کھینچ کر اور چھاتی کو ابھار کر چلیں تو یہ وضع رفتار ہم میں ایک قسم کا تکبر اور خود بینی پیدا کرتی ہے۔ تو ان نمونوں سے پورے انکشاف کے ساتھ کھل جاتا ہے کہ بے شک جسمانی اوضاع کا روحانی حالتوں پر اثر ہے‘‘۔
فرمایا:’’ ایسا ہی تجربہ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ طرح طرح کی غذاؤں کا بھی دماغی اور دلی قوتوں پر ضرور اثر ہے۔ مثلاً ذرا غور سے دیکھنا چاہئے کہ جو لوگ کبھی گوشت نہیں کھاتے، رفتہ رفتہ ان کی شجاعت کی قوت کم ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نہایت دل کے کمزور ہوجاتے ہیں اور ایک خداداد اور قابل تعریف قوت کو کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کی شہادت خدا کے قانون قدرت سے اس طرح پر بھی ملتی ہے کہ چارپایوں میں سے جس قدر گھاس خور جانور ہیں کوئی بھی ان میں سے وہ شجاعت نہیں رکھتا جو ایک گوشت خور جانور رکھتا ہے۔ پرندوں میں بھی یہی بات مشاہدہ ہوتی ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ اخلاق پر غذاؤں کا اثر ہے۔ ہاں جو لوگ دن رات گوشت خوری پر زور دیتے ہیں اور نباتاتی غذاؤں سے بہت ہی کم حصہ رکھتے ہیں وہ بھی حلم اور انکسار کے خُلق میں کم ہو جاتے ہیں۔ اور میانہ روش کو اختیار کرنے والے دونوں خُلق کے وارث ہوتے ہیں۔ اسی حکمت کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے {کُلُوْاوَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْا} (الاعراف:32) یعنی گوشت بھی کھاؤ اور دوسری چیزیں بھی کھاؤ مگر کسی چیز کی حد سے زیادہ کثرت نہ کرو تا اس کا اخلاقی حالت پر بداثر نہ پڑے اور تا یہ کثرت مضر صحت بھی نہ ہو۔ اور جیسا کہ جسمانی افعال اور اعمال کا روح پر اثر پڑتا ہے ایسا ہی کبھی روح کا اثر بھی جسم پر جا پڑتا ہے۔ جس شخص کو کوئی غم پہنچے آخر وہ چشم پُرآب ہو جاتا ہے اور جس کو خوشی ہو آخر وہ تبسم کرتا ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ321-319)
تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خوراک کا اخلاق پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اور جب اخلاق پر بداثر پڑے گا تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پیروی بھی متاثر ہو گی اور نتیجتًا عبادتوں پر بھی اثر پڑے گا۔ اور پھر فرمایا کہ جسمانی وضع قطع کا اخلاق پر اثر پڑتا ہے۔ جو حالتیں انسان اپنی بناتا ہے تو جب انسان کی وضع قطع ایسی ہو جس سے تکبر جھلکتا ہو، تکبر کا اظہار ہوتا ہو جیسا کہ فرمایا کہ گردن اکڑا کے چلنے والا انسان تو پھر اپنی زینت اس تکبر کو ہی سمجھے گا، اس گردن اکڑانے کو ہی سمجھے گا، خشیت اور عاجزی اس میں پیدا نہیں ہو سکتی۔ اور جب یہ چیزیں پیدا نہیں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی توجہ نہیں ہو گی۔ اگر دنیا کے دکھاوے کے لئے مسجد میں نمازوں کے لئے کبھی آ بھی جائے تو وہ دنیا کمانے کے لئے ہو گا نہ کہ اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی وجہ سے۔ پس یہ جو لوگ بعض دفعہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسجد کی زینت کا، تقویٰ کا کھانے پینے سے کیا تعلق ہے اس میں یہ واضح ہو گیا کہ کھانا پینا بھی اخلاق پہ اثر ڈالتا ہے اور اخلاق عبادتوں پہ اثر ڈالتے ہیں۔ ان لوگوں کی کم فہمی ہے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں بڑی حکمتیں ہیں۔ اسراف کا مطلب فضول خرچی کرنا بھی ہے، کسی کام سے غافل ہونا بھی ہے، کام کو بھلا دینا بھی ہے۔ تو کھانے پینے سے مراد صرف کھانا پینا ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام آسائشوں، سہولتوں کا استعمال، اللہ تعالیٰ نے جونعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کا استعمال ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو نعمتیں مَیں نے تمہیں مہیا کی ہیں ان کا استعمال کرو، جو چیزیں تمہارے لئے حلال ہیں، پاک ہیں، طیب ہیں، ان کو استعمال کرو۔ کھاؤ، جو نعمتیں تمہاری سہولت کے لئے اور تمہاری خدمت کے لئے تمہیں عطا کی ہیں ان کا استعمال کرو۔ لیکن ان کی بھی کچھ حدود ہیں۔ اتنا تجاوز نہ کر جاؤ اور اس حد تک نہ چلے جاؤ کہ ہر وقت انہیں چیزوں کی تلاش میں رہو اور عبادتوں سے غافل ہو جاؤ۔ ایک اچھی سواری، اچھی کار، اچھا گھر اور باقی سہولتیں تمہارے آرام و آسائش کے لئے ہیں اور یہ چیزیں تمہاری زینت میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ اصل زینت تقویٰ میں ہے اور تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے گھروں کو آباد کرنا ہے۔ پس یہ خیال رکھو یہ دنیاوی زینتیں تمہیں اصل زینت سے غافل نہ کر دیں۔ تمہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے دور نہ لے جائیں۔ تمہاری عبادتیں اور تمہارے اعلیٰ اخلاق ہی اصل میں تمہاری زینت ہیں۔ تمہارے مال جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دئیے ہیں، تمہیں اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والے نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر مزید چلانے والے ہوں۔ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اس پُر حکمت تعلیم کو سمجھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بند ہ بنتے ہوئے، توبہ و استغفار کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے توجہ بھی دیتے ہیں اور اس کی راہ میں اس کی دی ہوئی نعمتوں کو خرچ بھی کرتے ہیں۔ اور یہی سوچ ایک احمدی کی ہونی چاہئے۔ ہماری بڑائی اور زینت گردن اکڑا کے چلنے اور اپنے پیسے کے اظہار میں نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے اس کے حکموں پر عمل کرنے اور اس کی راہ میں خرچ کرنے میں ہے۔ پس جب تک ہم میں یہ سوچ قائم رہے گی ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بھی حصہ پاتے چلے جائیں گے اور اس کے فضلوں کے وارث بھی بنتے چلے جائیں گے۔
اس زمانے میں جس میں مادیت کا دور دورہ ہے احمدی ہی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے اس کے گھر بھی تعمیر کرتا ہے اور اس کی عبادت سے اپنے آپ کو سجانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اپنی نسلوں میں بھی ان کی اعلیٰ تربیت کے ذریعہ یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ضمن میں مجھے یاد آیا کہ ہمارے بچپن میں تحریک جدید میں ایک مَدّ مساجد بیرون کی بھی ہوا کرتی تھی۔ ہر سال جب بچے پاس ہوتے تھے تو عموماً اس خوشی کے موقع پر بچوں کو بڑوں کی طرف سے کوئی رقم ملتی تھی۔ وہ اس میں سے اس مد میں ضرور چندہ دیتے تھے یا اپنے جیب خرچ سے دیتے تھے۔ یہ مد اب بھی شاید ہو۔ حالات کی وجہ سے پاکستان میں تو مَیں اس پر زور نہیں دیتا لیکن باہر پتہ نہیں، ہے کہ نہیں اور اسے اب بیرون کہنے کی توضرورت بھی نہیں۔ عموماً مساجد کی ایک مد ہونی چاہئے اس میں جب بچے پاس ہو جائیں تو اس وقت یا کسی اور خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر میں چندہ دیا کریں اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں بے شمار احمدی بچے امتحانوں میں پاس ہوتے ہیں۔ اگر ہر سال ذیلی تنظمیں اس طرف توجہ دیں، ان کو کہیں اور جماعتی نظام بھی کہے کہ اس موقع پر وہ اس مَدّ میں اپنے پاس ہونے کی خوشی میں چندہ دیا کریں تو جہاں وہ اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے کی خاطر مالی قربانی کی عادت ڈال رہے ہوں گے وہاں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل سمیٹتے ہوئے اپنا مستقبل بھی سنوار رہے ہوں گے۔ والدین بھی اس بارے میں اپنے بچوں کی تربیت کریں اور انہیں ترغیب دلائیں تو اللہ تعالیٰ ان والدین کو بھی خاص طور پر اس ماحول میں بہت سی فکروں سے آزاد فرما دے گا۔ اللہ کرے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق عبادتیں کرنے والے بھی ہوں جس طرح آپؑ جماعت کو بنانا چاہتے تھے۔ اور مشرق و مغرب میں مسجدوں کا جال پھیلانے والے بھی ہوں۔ اور پھر ان مسجدوں کو تقویٰ سے پُر دلوں سے بھرنے والے بھی ہوں۔ انشاء اللہ تعالیٰ مساجد کی تعمیر سے بہت سے تبلیغی راستے کھلیں گے اور اللہ کے فضل سے کھلتے بھی ہیں۔ لیکن اس کے لئے ہمیں بھی توبہ و استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے معیار قائم کرنے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
آج اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر یہاں کے پرانے احمدیوں کو یقینا ان دو مخلصین کی یاد بھی آ رہی ہو گی جو یہاں کے ابتدائی احمدیوں میں سے ہیں جنہوں نے یہاں جماعت قائم کی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اپنے بچوں کے بڑے ہونے کی وجہ سے وہ یہاں سے شفٹ ہونا چاہتے تھے، شاید پاکستان جانا چاہتے تھے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر کہ پہلے یہاں جماعت بنائیں اور پھر جائیں۔ ایک مشنری روح کے ساتھ انہوں نے یہاں کام کیا اور جماعت بنائی، تبلیغ کی، مقامی لوگوں میں بھی احمدیت پھیلی۔ اور پھر اس جماعت کی تربیت اور ان مقامی لوگوں کے پیار کی وجہ سے اور تبلیغ کا جو مزا اُن کو آ چکا تھا اس وجہ سے وہ واپس جانے کا خیال ہی بھول گئے اور یہیں کے ہو گئے۔ اور پھر ان دونوں کی یہیں وفات بھی ہوئی اور یہیں دفن بھی ہیں۔ آج ڈاکٹر حمید خان صاحب اور ساجدہ حمید صاحبہ کی روح بھی اس مسجد کی تعمیر کا ثواب حاصل کر رہی ہو گی۔ ان کو بھی یہ ثواب مل رہا ہو گا جن کی کوششوں سے یہ رقبہ خریدا گیا اور جن کی خواہش پر اللہ کے فضل سے یہ مسجد بن بھی گئی ہے۔
ان دونوں فدائین کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی احمدیت کا حقیقی خادم بنائے۔ ان کے چاروں بچوں میں سے بڑی بیٹی یہاں رہتی ہیں۔ ماشاء اللہ، اللہ کے فضل سے اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے کام میں اور ان کے علم میں مزید برکت ڈالے۔ امید ہے کہ چھوٹا بیٹا جو تعلیم کے لئے لندن مقیم ہے وہ بھی یہاں آ کے رہے گا تاکہ اس کام کو جاری رکھے جو اس کے ماں باپ نے جاری کیا۔
بہرحال جب بھی ہارٹلے پول کی تاریخ احمدیت لکھی جائے گی، یہاں کی جماعت کی تاریخ لکھی جائے گی اس جوڑے کا نام سب سے نمایاں ہو گا جنہوں نے یہاں جماعت قائم کی۔ اب تو اللہ کے فضل سے یہاں کافی لوگ ہیں۔ کچھ اسائلم والے بھی آ گئے، دوسرے بھی آ گئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے کہ اس جوڑے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، تبلیغ کے میدان میں بھی آگے بڑھیں اور جماعت میں اضافے کا باعث بنیں اور اس مسجد کے اصل مقصد کو پورا کرنے والے بھی ہوں۔ دوسری بات جو مَیں کہنا چاہتا ہوں وہ ہے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان۔ یکم نومبر سے تحریک جدید کے نئے سال کاآغاز ہو جاتا ہے لیکن گزشتہ جمعہ عید کی وجہ سے اس کا اعلان نہیں کیا گیا اس لئے آج مَیں اس نئے سال کا اعلان کرتا ہوں۔ میرا نہیں خیال کہ خلیفۃ المسیح کے UK ہجرت کر جانے کے بعد لندن سے باہر کبھی تحریک جدید کا اعلان ہوا ہو۔ ہارٹلے پول سے تو بہرحال کبھی نہیں ہوا اور ایم ٹی اے کے ذریعے سےLiveکبھی نہیں ہوا۔ تو آج اس نئی مسجد کے افتتاح کے ساتھ تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان بھی ہو رہا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تحریک جدید کو جاری کرنے کا مقصد یہی تھا کہ مبلغین تیار ہوں جو بیرونی ملکوں میں جائیں، وہاں مشن کھولے جائیں، مسجدیں تعمیر کی جائیں اور اسلام اور احمدیت کے پیغام کو دنیا میں پھیلایا جائے۔ آپؓ نے ایک دفعہ بڑے درد سے فرمایا تھا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ دنیا کے چپہ چپہ پر مسجد بن جائے اور دنیا جس میں عرصہ دراز سے تثلیث کی پکار بلند ہو رہی ہے خدائے واحدکے نام سے گونجنے لگے۔ پس آج ہم خوش تو ہیں کہ عیسائیت کے گڑھ میں ہم نے خدائے واحد کانام بلند کرنے کے لئے ایک اور مسجد کا افتتاح کر دیا ہے۔ لیکن یہ ہماری انتہا نہیں ہے۔ ہمارے مقصد تو تبھی پورے ہوں گے جب ہم ہر شہرمیں، ہر قصبے میں اور ہر گاؤں میں خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے مسجد تعمیر کریں گے اور اس کو پھر خالصتاً خدائے واحد کی عبادت کرنے والی روحوں سے بھر دیں گے۔
پس یہ وہ روح ہے جس کے ساتھ واقفین زندگی اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں اور اسی روح کے ساتھ زندگیاں وقف کرنی چاہئیں ہمارے سارے مبلغین کو، سارے واقفین زندگی کو۔ اور یہ وہ روح ہے جس کے ساتھ مجاہدین تحریک جدید مالی قربانیاں خداتعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں۔ اور اس روح کے ساتھ قربانیاں پیش کرنی چاہئیں۔ جب یہ جذبہ ہر دل میں ہو گا تو قربانیوں کے معیار بھی بڑھیں گے اور ہر ایک صرف اس وجہ سے تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہا ہو گا کہ مجبوری ہے اس کو سیکرٹری تحریک جدید کی طرف سے یا جماعت کی طرف سے توجہ دلائی گئی ہے، بلکہ دلی جوش اور جذبے کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس تحریک میں حصہ لے رہے ہوں گے۔
اب گزشتہ سال کے کوائف بتانے سے پہلے یہ بھی بتا دوں کہ گزشتہ سال مَیں نے اعلان کیا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کے ابتدائی دورمیں یہ توجہ دلائی تھی کہ دفتر اول کے پانچ ہزار مجاہدین کے کھاتے کبھی مردہ نہیں ہونے چاہئیں۔ ان بزرگوں کے لواحقین کو کوشش کرنی چاہئے، ان کے ورثاء کو کوشش کرنی چاہئے کہ جو کھاتے ختم ہو گئے ہیں وہ دوبارہ زندہ ہوں لیکن اُس وقت کیونکہ براہ راست سننے کا ذریعہ نہیں تھا اور ہر ایک تک خبر بھی نہیں پہنچی ہو گی۔ شاید اسی لئے اس اعلان کے باوجود لوگوں نے اس طرف توجہ نہیں کی تھی۔ لیکن گزشتہ سال میرے توجہ دلانے پر ان بزرگوں کی اولادوں نے بھی یا د وسروں نے بھی کافی رقوم بھیجی ہیں اور تقریباً ساڑھے تین ہزارکے قریب مردہ کھاتے زندہ ہو چکے ہیں۔ اور یہ رقوم جو آئی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ہر سال اس آخری ادائیگی کے مطابق جو ان مجاہدین نے کی تھی سوائے ان کے جن کے ورثاء نے خود کھاتے جاری کروائے ہیں باقی جو کھاتے ہیں وہ ان کی آخری ادائیگی کے مطابق جاری کر دئیے گئے ہیں اور انشاء اللہ جاری رہیں گے اور یہ تسلسل قائم رہے گا۔
اب کوائف پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو رپورٹس موصول ہوئی ہیں، (تمام آتی بھی نہیں ہیں ) ان کے مطابق مجموعی ادائیگی 34لاکھ 46ہز ار پاؤنڈ ہے۔ کیونکہ بہت سی جگہوں پر عموماًکرنسی کی قیمت گرنے سے قیمت میں بڑا فرق پڑ جاتاہے۔ پھر بھی وصولی گزشتہ سال سے تین لاکھ اٹھارہ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ پاکستان بھی اپنی پوزیشن کے لحاظ سے حسب سابق اول ہے۔ پھر امریکہ ہے، پھر برطانیہ ہے، جرمنی، کینیڈا، انڈونیشیا، بھارت، بیلجیئم، آسٹریلیا، ماریشس اور سوئٹزر لینڈ۔ آسٹریلیا نے اس دفعہ بڑی کوشش کی ہے کہ دسو یں نمبر سے نویں نمبر پر آیا ہے اور افریقن ممالک میں نائیجیریا نے اس دفعہ بڑا نمایاں کام کیا ہے۔ گزشتہ سال کی نسبت انہوں نے تقریباً دوگنی وصولی کی ہے اور افریقہ کی جماعتوں میں تو نائیجیریا ہی نمبر ایک پر ہے۔
جو مجاہدین ہیں ان کی تعداد 4لاکھ 42ہزار ہے۔ اس میں بڑی گنجائش ہے۔ جماعتوں کو مَیں نے کہا ہے کہ اس میں اضافہ کریں۔ اگر یہ اضافہ کر دیں گے تو کئی گنا چندہ بڑھ سکتا ہے۔ بہرحال گزشتہ سال کی نسبت 24ہزار زائد افراد نے اس قربانی میں حصہ لیا ہے۔
پاکستان کے کیونکہ جماعت وار کوائف بھی بتائے جاتے ہیں اس لئے وہاں جماعتوں کی پوزیشن کے لحاظ سے اوّل لاہور ہے، دوم ربوہ اور سوئم کراچی۔ اور پاکستان میں نمایاں کام کرنے والی جماعتوں میں اسلام آباد، راولپنڈی، کوئٹہ، ملتان، سرگودھا، کنری، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، مردان، واہ کینٹ، خانیوال۔ اس کے علاوہ جو نمایاں چھوٹی جماعتیں ہیں ان میں کوٹلی، کھوکھر غربی، گھٹیالیاں، بشیر آباد سندھ، مظفر گڑھ، بدین، مٹھی نے بھی کافی کام کیا ہے۔ اور ضلعوں کا نام بھی لیا جاتا ہے اس لئے وہ بھی عرض کر دوں۔ ان ضلعوں میں سیالکوٹ، میرپور خاص، بہاولنگر، نارووال، حیدر آباد، پشاور، میرپور آزاد کشمیر، سانگھڑ، منڈی بہاؤالدین اور قصور۔ اس ترتیب سے ان کی پوزیشن ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں کے اموال ونفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور یہ سب قربانی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پانے والے ہوں اور آئندہ ان قربانیوں کو بڑھانے والے بھی ہوں اور اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے والے بھی ہوں۔
مساجد کی تعمیر کا مقصد خدائے واحد کی عبادت ہے۔
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11؍نومبر 2005ء بمقا م مسجد ناصر۔ ہارٹلے پول (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔