شادی بیاہ کے مواقع پر لغویات اور اسراف سے بچنے کی تاکید
خطبہ جمعہ 25؍ نومبر 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ (الاعراف: ۱۵۸)
پھر فرمایا:
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ جو اس رسول نبی اُمّی پر ایمان لاتے ہیں جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور انہیں بُری بات سے روکتا ہے۔ اور ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے اور اُن سے اُن کے بوجھ اور طوق اتار دیتا ہے جو اُن پر پڑے ہوئے تھے۔ پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے عزت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اُس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اتارا گیا یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کے رہنے والوں کے بعض رسم و رواج ہوتے ہیں اور اُن میں سے ایک قسم جو رسم و رواج کی ہے وہ ان کی شادی بیاہوں کی ہے چاہے عیسائی ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب کے ماننے والے۔ ہر مذہب کے ماننے والے کا اپنے علاقے، اپنے قبیلے کے لحاظ سے خوشی کی تقریبات اور شادی بیاہ کے موقع پر خوشی کے اظہار کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ اسلام کے علاوہ دوسرے مذہب والوں نے تو ایک طرح ان رسم ورواج کو بھی مذہب کا حصہ بنا لیا ہے۔ جس جگہ جاتے ہیں، عیسائیت میں خاص طور پر، ہر جگہ ہرعلاقے کے لوگوں کے مطابق ان کے جو رسم و رواج ہیں وہ تقریباً حصہ ہی بن چکے ہیں۔ یا بعض ایسے بھی ہیں جو رسم و رواج کی طرف سے آنکھ بند کر لیتے ہیں۔ لیکن اسلام جو کامل اور مکمل مذہب ہے، جو باوجود اس کے کہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ خوشی کے مواقع پر بعض باتیں کر لو۔ جیسے مثلاً روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے ایک دفعہ ایک عورت کو دلہن بنا کر ایک انصاری کے گھر بھجوایا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے عائشہ رخصتانہ کے موقع پر تم نے گانے بجانے کا انتظام کیوں نہیں کیا ؟حالانکہ انصاری شادی کے موقع پر اس کو پسند کرتے ہیں۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ نکاح کا اچھی طرح اعلان کیا کرو اور اس موقع پر چھاننی بجاؤ۔ یہ دف کی ایک قسم ہے۔ لیکن اس میں بھی آپ نے ہماری رہنمائی فرما دی ہے اور بالکل مادر پدر آزاد نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ اس گانے کی بھی کچھ حدود مقرر فرمائی ہیں کہ شریفانہ حد تک ان پر عمل ہونا چاہئے اور شریفانہ اہتمام ہو، ہلکے پھلکے اور اچھے گانوں کا۔ ایک موقعہ پر آپ نے خود ہی خوشی کے اظہار کے طور پر شادی کے موقع پر بعض الفاظ ترتیب فرمائے کہ اس طرح گایا کرو کہ
اَتَیْنَاکُمْ اَتَیْنَا کُمْ۔ فَحَیَّانَا فَحَیَّاکُمْ
یعنی ہم تمہارے ہاں آئے ہمیں خوش آمدید کہو۔ تو ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہر قسم کی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرو، شادی کا موقعہ ہے کوئی حرج نہیں، ان کی غلط سوچ ہے۔ بعض دفعہ ہمارے ملکوں میں شادی کے موقعوں پر ایسے ننگے اور گندے گانے لگا دیتے ہیں کہ ان کو سن کر شرم آتی ہے۔ ایسے بے ہودہ اور لغو اور گندے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں لوگ سنتے کس طرح ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدی معاشرہ بہت حد تک ان لغویات اور فضول حرکتوں سے محفوظ ہے لیکن جس تیزی سے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہمارے پاکستانی ہندوستانی معاشرہ میں یہ چیزیں راہ پا رہی ہیں۔ دوسرے مذہب والوں کی دیکھا دیکھی جنہوں نے تمام اقدار کو بھلا دیا ہے اور ان کے ہاں تو مذہب کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ شرابیں پی کر خوشی کے موقع پر ناچ گانے ہوتے ہیں، شور شرابے ہوتے ہیں، طوفان بدتمیزی ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس معاشرے کے زیر اثر احمدیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے بلکہ بعض اِکاّ دُکاّ شکایات مجھے آتی بھی ہیں۔ تو یاد رکھیں کہ احمدی نے ان لغویات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے اور بچنا ہے۔ بعض ایسے بیہودہ گانے گائے جاتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا یہ ہندو اپنے شادی بیاہوں پر تو اس لئے گاتے ہیں کہ وہ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں۔ مختلف مقاصد کے لئے، مختلف قسم کی مورتیاں انہوں نے بنائی ہوتی ہیں جن کے انہوں نے نام رکھے ہوئے ہیں ان سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ہمارے لوگ بغیر سوچے سمجھے یہ گانے گا رہے ہوتے ہیں یا سن رہے ہوتے ہیں۔ اس خوشی کے موقعہ پر بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو طلب کرنے کے کہ اللہ تعالیٰ یہ شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے، آئندہ نسلیں اسلام کی خادم پیدا ہوں، اللہ تعالیٰ کی سچی عباد بننے والی نسلیں ہوں، غیر محسوس طور پر گانے گا کر شرک کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ پس جو شکایات آتی ہیں ایسے گھروں کی ان کو مَیں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں۔ پھر ڈانس ہے، ناچ ہے، لڑکی کی جو رونقیں لگتی ہیں اس میں یا شادی کے بعد جب لڑکی بیاہ کر لڑکے کے گھر جاتی ہے وہاں بعض دفعہ اس قسم کے بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہو رہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بعض گھر جو دنیا داری میں بہت زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں ان کی ایسی رپورٹس آتی ہیں اور کہنے والے پھر کہتے ہیں کہ کیونکہ فلاں امیر آدمی تھا اس لئے اس پر کارروائی نہیں ہوئی۔ یا فلاں عہدیدار کا رشتہ دار عزیز تھا اس لئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اس سے صرف نظر کیا گیا۔ غریب آدمی اگر یہ حرکتیں کرے تو اسے سزاملتی ہے۔ بہرحال یہ تو بعض دفعہ لوگوں کی بدظنیاں بھی ہیں لیکن جب اس طرح صرفِ نظر ہو جائے چاہے غلطی سے ہو جائے اور پتہ نہ لگے تو یہ بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس بارے میں واضح کر دوں کہ ایسی حرکتیں جو جماعتی وقار کی اور اسلامی تعلیم اور اقدار کی دھجیاں اڑاتی ہوں اگر مجھے پتہ لگ جائے تو ان پر مَیں بلا استثنا، بغیر کسی لحاظ سے کارروائی کروں گا اور کی بھی جاتی ہیں اس لئے یہ بدظنیاں دور ہونی چاہئیں۔ بعض لوگ اکثر مہمانوں کورخصت کرنے کے بعد اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ علیحدہ پروگرام بناتے ہیں اور پھر اسی طرح کی لغویات اور ہلڑ بازی چلتی رہتی ہے گھر میں علیحدہ ناچ ڈانس ہوتے ہیں چاہے لڑکیاں لڑکیاں ہی ڈانس کر رہی ہوں یا لڑکے لڑکے بھی کر رہے ہوں لیکن جن گانوں اور میوزک پہ ہو رہے ہوتے ہیں وہ ایسی لغو ہوتی ہیں کہ وہ برداشت نہیں کی جا سکتیں اس لئے آج میں خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان اور اس معاشرے کے لوگوں کو جہاں ہندووانہ رسم ورواج تیزی سے راہ پا رہے ہیں، داخل ہو رہے ہیں، ان کے احمدیوں کو کہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں اپنی اصلاح کر لیں اور جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کا نظام جو ہے یہ بھی ان بیاہ شادیوں پہ نظر رکھے اور جہاں کہیں بھی اس قسم کی بیہودہ فلموں کے ناچ گانے یا ایسے گانے جو سراسر شرک پھیلانے والے ہوں دیکھیں تو ان کی رپورٹ ہونی چاہئے۔ اس بارے میں قطعاً کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی کس خاندان کا ہے اور کیا ہے؟ آج کل پاکستان میں کیونکہ شادیوں کا سیزن ہے تو جیسا کہ مَیں نے کہا اِکاّ دُکاّ یہ شکایات پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے چند مہینے خاص طورپرنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو جب بھی اور جہاں بھی اس قسم کی حرکتیں ہو رہی ہوں فوری نوٹس لینا چاہئے لیکن ان دنوں میں جیسا کہ مَیں نے کہا شادیوں کی کثرت کی و جہ سے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی بھی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔ حالانکہ غیروں کو جب ہم اپنی شادیوں پر بلاتے ہیں تو ان کی اکثریت جو ہے وہ ہماری شادی کے طریق کو پسند کرتی ہے کہ تلاوت کرتے ہیں، دعائیہ اشعار پڑھتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور بچی کو رخصت کرتے ہیں۔ اور یہی طریق ہے جس سے اس جوڑے کے ہمیشہ پیار محبت سے رہنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں اور اس کی آئندہ نسل کے لئے اولاد کے لئے بھی نیک صالح ہونے کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ہاں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ لڑکی کی شادی کے وقت دعائیہ اشعارکے ساتھ خوشی کے اظہار کے لئے شریفانہ قسم کے دوسرے شعر بھی پڑھے جا سکتے ہیں اور یہ ہر علاقے کے رسم و رواج کے مطابق جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ انصار پسند کرتے ہیں تو یہ نہیں فرمایا کہ ضرور ہونا چاہئے بلکہ فرمایا کہ انصار پسند کرتے ہیں۔ یہ خاص خاص لوگ ہیں جو پسند ہیں اور اس میں کیونکہ کوئی شرک کا اور دین سے ہٹنے کا اور کسی بدعت کا پہلو نہیں تھا اس لئے آپؐ نے فرمایا کہ اس طرح کرنا چاہئے کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک، ہر قبیلہ، ضرور دف بجایا کرے اور یہ ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے رواج کے مطابق ایسے رواج جو دین میں خرابیاں پیدا کرنے والے نہ ہوں ان کے مطابق خوشی کا اظہار کر لیا کرو یہ ہلکی پھلکی تفریح بھی ہے اور اس کے کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ لیکن ایسی حرکتیں جن سے شرک پھیلنے کا خطرہ ہو، دین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس کی بہرحال اجازت نہیں دی جا سکتی۔ شادی بیاہ کی رسم جو ہے یہ بھی ایک دین ہی ہے جبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تم شادی کرنے کی سوچو تو ہر چیز پر فوقیت اس لڑکی کو دو، اس رشتے کو دو، جس میں دین زیادہ ہو۔ اس لئے یہ کہنا کہ شادی بیاہ صرف خوشی کا اظہار ہے خوشی ہے اور اپنا ذاتی ہمارا فعل ہے۔ یہ غلط ہے۔ یہ ٹھیک ہے جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ آیاہوں اسلام نے یہ نہیں کہا کہ تارک الدنیا ہو جاؤ اور بالکل ایک طرف لگ جاؤ۔ لیکن اسلام یہ بھی نہیں کہتا کہ دنیا میں اتنے کھوئے جاؤ کہ دین کا ہوش ہی نہ رہے۔ اگر شادی بیاہ صرف شور و غل اور رونق اور گانا بجانا ہوتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ شروع ہو کر اور پھر تقویٰ اختیار کرنے کی طرف اتنی تو جہ نہ دلاتے۔ بلکہ شادی کی ہر نصیحت اور ہر ہدایت کی بنیاد ہی تقویٰ پر ہے۔ پس اسلام نے اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جن جائز باتوں کی اجازت دی ہے اُن کے اندر ہی رہنا چاہئے اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مومن کے لئے ایک ایسے انسان کے لئے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے شادی نیکی پھیلانے، نیکیوں پر عمل کرنے اور نیک نسل چلانے کیلئے کرنی چاہئے۔ اور یہی بات شادی کرنے والے جوڑے کے والدین، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی یاد رکھنی چاہئے۔ ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات ہونی چاہئے کہ یہ شادی ان مقاصد کیلئے ہے نہ کہ صرف نفسانی اغراض اور لہو و لعب کیلئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادیاں کی تھیں اور اسی غرض کے لئے کی تھیں اور یہ اسوہ ہمارے سامنے قائم فرمایا کہ شادیاں کرو اور دین کی خاطر کرو۔ یہی آپ نے نصیحت فرمائی۔ نہ ان لوگوں کو پسند فرمایا جو صرف عبادتوں میں لگے رہتے ہیں اور دین کی خدمت میں ڈوبے رہتے ہیں۔ نہ اپنے نفس کے حقوق ادا کرتے ہیں نہ بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف تو جہ دیتے ہیں۔ نہ ان لوگوں کو پسند کیا جو دولت کے لئے، خوبصورتی کے لئے، اعلیٰ خاندان کے لئے رشتے جوڑتے ہیں یا جو ہر وقت اپنی دنیاداری اور بیوی بچوں کے غم میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ نہ ان کے پاس عبادت کے لئے وقت ہوتا ہے اور نہ دین کی خدمت کے لئے کوئی وقت ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ نہ اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیا میں اتنے پڑ جاؤ کہ دین کو بھول جاؤ، نہ یہ کہ بالکل ہی تجرد کی زندگی اختیار کرنا شروع کر دو اور دنیا داری سے ایک طرف ہو جاؤ۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلاکہ کسی صحابی نے کہا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گا اور مسلسل عبادتوں میں اور روزوں میں وقت گزاروں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ مَیں تو عبادتیں بھی کرتاہوں، روزے بھی رکھتا ہوں، بندوں کے دوسرے حقوق بھی ادا کرتا ہوں شادیاں بھی کی ہیں۔ پس جو شخص میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے۔
پھر اسلام کسی بھی طرف جھکاؤ سے منع کرتا ہے۔ اپنا اُسوۂ حسنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے رکھ دیا۔ نہ افراط کرونہ تفریط کرو۔ آخر میں جو فرمایا کہ جو میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے بھی وارننگ ہے جویہ کہتے ہیں کہ شادی صرف خوشی کا نام ہے اور اس میں ہر طرح جو مرضی کر لو کوئی حرج نہیں۔ تو آپ نے یہ کہہ کر کہ جو میری سنت سے منہ موڑ تا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے۔ یعنی افراط کرنے والوں کوبھی بتا دیا کہ لغویات سے بچنا نیکیوں کو قائم کرنا بلکہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنا میری سنت ہے اس لئے تم بھی نیکیوں پر چلنے کی اور لغویات سے بچنے کی، لہو ولعب سے بچنے کی میری سنت پر عمل کرو۔ بعض لوگ بعض شادی والے گھر جہاں شادیاں ہو رہی ہوں دوسروں کی باتوں میں آ کر یاضد کی وجہ سے یاد کھاوے کی و جہ سے کہ فلاں نے بھی اس طرح گانے گائے تھے، فلاں نے بھی یہی کیا تھا، تو ہم بھی کریں گے اپنی نیکیوں کوبرباد کر رہے ہوتے ہیں۔ اس سے بھی ہر احمدی کو بچنا چاہئے۔ فلاں نے اگر کیا تھا تو اس نے اپنا حساب دینا ہے اور تم نے اپنا حساب دینا ہے۔ اگر دوسرے نے یہ حرکت کی تھی اور پتہ نہیں لگا اور نظام کی پکڑ سے بھی بچ گیا تو ضروری نہیں کہ تم بھی بچ جاؤ۔ تو سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب کام کرنے ہیں یا نیکیاں کرنی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنی ہیں، وہ تو دیکھ رہا ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہر اس چیز سے بچنا ہو گا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے۔ اس برائی کے علاوہ بھی بہت سی برائیاں ہیں جو شادی بیاہ کے موقعہ پر کی جاتی ہیں اور جن کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں یہ برائیاں جو ہیں اپنی جڑیں گہری کرتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح دین میں اور نظام میں ایک بگاڑ پیدا ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لئے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا، اب پھر کہہ رہا ہوں کہ دوسروں کی مثالیں دے کر بچنے کی کوشش نہ کریں، خود بچیں۔ اور اب اگر دوسرے احمدی کو یہ کرتا دیکھیں تو اس کی بھی اطلاع دیں کہ اس نے یہ کیا تھا۔ اطلاع تو دی جا سکتی ہے لیکن یہ بہانہ نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں نے کیا تھا اس لئے ہم نے بھی کرنا ہے تاکہ اصلاح کی کوشش ہو سکے، معاشرے کی اصلاح کی جا سکے۔ ناچ ڈانس اور بیہودہ قسم کے گانے جو ہیں ان کے متعلق مَیں نے پہلے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اگر اس طرح کی حرکتیں ہوں گی تو بہرحال پکڑ ہو گی۔ لیکن بعض برائیاں ایسی ہیں جو گو کہ برائیاں ہیں لیکن ان میں یہ شرک یا یہ چیزیں تو نہیں پائی جاتیں لیکن لغویات ضرور ہیں اور پھر یہ رسم و رواج جو ہیں یہ بوجھ بنتے چلے جاتے ہیں۔ جو کرنے والے ہیں وہ خود بھی مشکلات میں گرفتار ہو رہے ہوتے ہیں اور بعض جو ان کے قریبی ہیں، دیکھنے والے ہیں، ان کوبھی مشکل میں ڈال رہے ہوتے ہیں ان میں جہیز ہیں، شادی کے اخراجات ہیں، ولیمے کے اخراجات ہیں، طریقے ہیں اور بعض دوسری رسوم ہیں جو بالکل ہی لغویات اور بوجھ ہیں۔ ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہم ایسے دین کو ماننے والے ہیں جو معاشرے کے، قبیلوں کے، خاندان کے رسم و رواج سے جان چھڑانے والا ہے۔ ایسے رسم و رواج جنہوں نے زندگی اجیرن کی ہوئی تھی۔ نہ کہ ہم دوسرے مذاہب والوں کو دیکھتے ہوئے ان لغویات کو اختیار کرنا شروع کر دیں۔ اس آیت کے ترجمے میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے، آپ سن چکے ہیں کہ تم ایسے دین اور ایسے نبی کو ماننے والے ہو جو تمہارے بوجھ ہلکے کرنے والا ہے۔ جن بے ہودہ رسم و رواج اور لغو حرکات نے تمہاری گردنوں میں طوق ڈالے ہوئے ہیں، پکڑا ہوا ہے، ان سے تمہیں آزاد کرانے والا ہے۔ تو بجائے اس کے کہ تم اُس دین کی پیروی کرو جس کو اب تم نے مان لیا ہے اور اُن طور طریقوں اور رسوم و رواج اور غلط قسم کے بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد کرو، ان میں دوبارہ گرفتار ہو رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تم تو خوش قسمت ہو کہ اس تعلیم کی و جہ سے ان بوجھوں سے آزاد ہو گئے ہو اور اب فلاح پا سکو گے، کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی، نیکیوں کی توفیق ملے گی۔
پس ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو ان رسموں اور لغویات کو چھوڑنے کی و جہ سے ہمیں کامیابیوں کی خوشخبری دے رہا ہے۔ اور ہم دوبارہ دنیا کی دیکھا دیکھی ان میں پڑنے والے ہو رہے ہیں۔ بعض اور باتوں کا بھی مَیں نے ذکر کیا تھا کہ وہ بعض دفعہ احمدی معاشرہ میں نظر آتی ہیں۔ بعض طبقوں میں تو یہ برائیاں بدعت کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ ان کے خیال میں اس کے بغیر شادی کی تقریب مکمل ہو ہی نہیں سکتی یہ باتیں ہماری قوم کے علاوہ شاید دوسری قوموں میں بھی ہوں لیکن ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں نے سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا تھا(بہت سے ایسے بیٹھے ہیں جن کے بزرگوں نے قبول کیا تھا) ان کی یہ سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے اندر کسی ایسے رسم ورواج کو راہ پانے کا موقع نہ دیں جہاں رسم ورواج بوجھ بن رہے ہیں۔ یعنی جن کا اسلام سے، دین سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہو۔ اگر آپ لوگ اپنے رسم و رواج پر زور دیں گے تو دوسری قوموں کا بھی حق ہے۔ بعض رسم و رواج تو دین میں خرابی پید اکرنے والے نہیں وہ تو جیسا کہ ذکر آیا وہ بے شک کریں۔ ہر قوم کے مختلف ہیں جیسا کہ پہلے مَیں نے کہا انصار کی شادی کے موقعہ پر بھی خوشی کے اظہار کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال بیان فرمائی ہے۔ لیکن جو دین میں خرابی پیدا کرنے والے ہیں وہ چاہے کسی قوم کے ہوں رَد کئے جانے والے ہیں کیونکہ احمدی معاشرہ ایک معاشرہ ہے اور جس طرح اس نے گھل مل کر دنیا میں وحدانیت قائم کرنی ہے، اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے، اگر ہر جگہ مختلف قسم کی باتیں ہونے لگ گئیں اس سے پھر دین بھی بدلتا جائے گا اور بہت ساری باتیں بھی پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے پھر بڑی بدعتیں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں، اس لئے بہرحال احتیاط کرنی چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا مثال ہمارے سامنے قائم فرمائی۔ آپ کی لاڈلی بیٹی کی شادی ہوئی سب جانتے ہیں پہلے بھی کئی دفعہ سن چکے ہیں، کس طرح سادگی سے ہوئی؟ اگر دینا چاہتے تو بہت کچھ دے سکتے تھے۔ لوگ تو قرض لے کر جہیز بناتے ہیں۔ آپ کے صحابہ تو آپ پر بہت کچھ نچھاور کر سکتے تھے۔ کئی صاحب حیثیت تھے، چیزیں مہیا کر سکتے تھے لیکن سادگی سے ہی آپؐ نے رخصت کیا۔
ایک روایت میں آتا ہے جو کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور اُمّ المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم حضرت فاطمہ کو تیار کریں تا کہ ان کو علی کے پاس لے جائیں۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنے کمرے کی تیاری کی جس کا نقشہ کھینچا کہ ہم نے کمرے میں مٹی سے لپائی کی پھر دو تکئے تیار کئے جن میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ پھر ہم نے لوگوں کو کھجور اور انگور کھلائے اور انہیں میٹھا پانی پلایا اور ہم نے ایک لکڑی لی جس کو ہم نے کمرے کے ایک طرف لگا دیا تاکہ اس کو کوئی کپڑا لٹکانے اور مشکیزہ لٹکانے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ پس ہم نے حضرت فاطمہ ؓ کی شادی سے زیادہ اچھی شادی اور کوئی نہیں دیکھی۔ (سنن ابن ماجۃ، کتاب النکاح، باب الولیمۃ)
یہ نقشہ تو صرف کھینچا ہے انہوں نے شادی کا۔ اس وقت کے لحاظ سے جو سادگی تھی آپؐ نے اس کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور اپنی بیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اصل چیز یہ سادگی ہی ہے اور خدا کی رضا ہے جس کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ بعد میں بھی ایک موقعہ پر جب انہوں نے غلام کی درخواست کی کہ ہاتھ میں چھالے پڑ گئے ہیں تو آپ ؐ نے یہی فرمایا تھا کہ خود ہاتھ سے کام کرو اور بہت سارے مسلمان ہیں جن کو تمہارے سے زیادہ ضرورت ہے۔ تو بہرحال اپنے گھر سے ہی انہوں نے سادگی کی تعلیم دی اور تلقین کی۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ اس طریقے کے مطابق دو تکئے دینے چاہئیں لیکن ایک مثال ہے سادگی کی سادہ رہنا چاہئے اور بلاو جہ بوجھ ڈال کر اپنی گردنوں پر قرضوں کے طوق نہیں ڈالنے چاہئیں۔ سادگی اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے جو میسر ہو، جو رسم و رواج ہیں اس وقت کے اس کے مطابق یہ فرض پورا کرنا چاہئے۔ شادی کا بھی حق ادا کرنا چاہئے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کا بھی حق ادا کرنا چاہئے لیکن اپنے وسائل کے اندر رہ کے۔
اس ضمن میں یہ ذکر کر دوں کہ اللہ کے فضل سے مریم شادی فنڈ سے بہت سی بچیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں لیکن بعض دفعہ جن کی مدد کی جاتی ہے ان کا یہ بار بار مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ ہمیں فلاں چیز بھی بنا کر دی جائے اور فلاں چیز بھی بنا کے دی جائے یا اتنی رقم ضرور دی جائے، اس سے کم نہیں۔ تو جو چند ایک تنگ کرنے والے ہیں بعض دفعہ ضد کرنے والے، ان لوگوں کو مَیں یہ کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو معاشرے کے رسم و رواج کے بوجھ تلے نہ لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا وہوس سے باز آ جائے گا۔ یعنی کوشش ہو گی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا اور ہوا و ہوس سے بھی باز رہوں گا۔ تو قناعت اور شکر پر زور دیا۔ یہ شرط ہر احمدی کے لئے ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ہو۔ اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مدنظر رکھنا چاہئے۔
اس ضمن میں امراء کو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اب بھی یہ کہتا ہوں، دوبارہ تحریک کر دیتا ہوں کہ مریم شادی فنڈ میں ضرور شامل ہوا کریں اور خاص طور پر جو صاحبِ حیثیت ہیں اور جب ان کے بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں اس وقت یہ ضرور ذہن میں رکھا کریں کہ کسی نہ کسی غریب کی شادی کروانی ہے۔
پھر شادی بیاہوں میں مہر مقرر کرنے کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ یہ بھی رہتا ہے ہروقت۔ اور اگر کبھی خدانخواستہ کوئی شادی ناکام ہو جائے تو پھر لڑکے کی طرف سے اس بارے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے جس کی و جہ سے پھر ان کے خلاف ایکشن بھی ہوتا ہے۔ اس لئے پہلے ہی سوچ سمجھ کر مہر رکھنا چاہئے دنیا کے دکھاوے کے لئے نہ رکھنا چاہئے بلکہ ایسا ہو جو ادا ہو سکے۔ ایسا مہر مقرر نہ ہو، جیسا کہ مَیں نے کہا، صرف دکھاوے کی خاطر ہو اور پھر معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والا ہو۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مَیں نے انصار کی ایک عورت کو شادی کا پیغام بھجوایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کوئی چیز ہوتی ہے۔ اس نے کہا مَیں نے اسے دیکھ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا تو مہر کیا رکھ رہے ہو؟ اس نے کہا چار اوقیہ چاندی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا چار اوقیہ؟۔ سوال کیا۔ چاراوقیہ گویا تم اس پہاڑ کے گوشے سے چاندی کھود کر اسے دو گے۔ ہمارے پاس اتنا نہیں ہے جو ہم تجھے دیں لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ہم تمہیں کسی مہم پر بھجوا دیں وہاں سے تم کچھ مال غنیمت حاصل کر لو۔ پھر آپ نے ایک دستہ بنی عبس کی طرف بھجوایا تو اس شخص کو اس میں شامل کیا۔ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امرأۃ الی ان ینظر الی وجھھا)
تو دیکھیں مہر کے بارے میں بھی آپ نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ طاقت سے بڑھ کر ہو۔ جو اس کی حیثیت کے مطابق نہیں تھا تو کہا یہ بہت زیادہ ہے۔ اور پھر یہ بھی پتہ تھا کہ آپ سے مانگے گا، نظام سے درخواست کرے گا۔ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ مہم پر جاؤ مال غنیمت مل گیا تو اس سے اپنا مہر ادا کر دینا اور یہی بات ہے کہ مہر جو ہے سوچ سمجھ کر رکھنا چاہئے جتنی توفیق ہو جتنی طاقت ہو۔
مہر ایک ایسا معاملہ ہے جس کی و جہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قضاء میں بہت سارے کیس آتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر تو بڑی عجیب صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ شادی سے پہلے لڑکی والے لڑکے کو باندھنے کی غرض سے زیادہ مہر لکھوانے کی کوشش کرتے ہیں اور شادی کے بعد اگر کہیں جھگڑے کی صورت پیدا ہو جائے، طلاق کی صورت ہو جائے، تو لڑکے بہانے بنا کر اس کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر نظام کے لئے اور میر ے لئے اور بھی زیادہ تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں سزا بھی دینی پڑتی ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے واضح ارشادات فرمائے ہیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کسی نے پوچھا مہر کے متعلق کہ اس کی تعداد کس قدر ہونی چاہئے۔ آپؑ نے فرمایا کہ مہر تراضیٔ طرفین سے ہو، آپس میں جو فریقین ہیں ان کی رضا مندی سے ہو جس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے۔ کوئی حد نہیں ہے مہر کی بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مرو جہ مہر سے ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے۔ صرف ڈراوے کے لئے یہ لکھا جایا کرتا ہے کہ مرد قابومیں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں۔ نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے نہ خاوند کی دینے کی۔ جیسا کہ فرمایا : مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب لڑائی جھگڑے ہوں۔ فرمایا کہ میرا مذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنازع آ پڑے تو جب تک اس کی نیت ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرر شدہ ہے تب تک مقرر مہر نہ دلایا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مدنظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیونکہ بدنیتی کی اتباع نہ شریعت کرتی ہے اور نہ قانون۔
تو اس بارے میں جو معاملات آتے ہیں اس کو بھی قضاء کو دیکھنا چاہئے۔ اتنا ہی نظام کو یا قضا کو بوجھ ڈالنا چاہئے جو اس کی حیثیت کے مطابق ہو اور اس کے مطابق حق مہر کا تعین کرنا چاہئے۔ ایسے موقعوں پربڑی گہرائی میں جا کر جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیثیت کا تعین کرنے کے لئے فریقین کو بھی قول سدید سے کام لینا چاہئے۔ نہ دینے والا حق مارنے کی کوشش کرے اور نہ لینے والا اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے کی کوشش کرے۔
حق مہر کی ادائیگی کے بارے میں ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی۔ (شادی کرکے اس کو کہتے ہیں کہ بخش بھی دو) توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’یہ عورت کا حق ہے۔ اسے دینا چاہئے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر نا چاہئے۔ پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر(یعنی عورتوں کی یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر) خاوند کو اپنا مہر بخش دیتی ہیں۔ یہ صرف رواج ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 606جدید ایڈیشن)
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی نے عرض کیا کہ میری بیوی نے مجھے مہر بخش دیا ہے، معاف کر دیا ہے۔ تو آپ نے فرمایا تم نے اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایاجاؤ پہلے ہاتھ پہ رکھو پھر اگر وہ بخش دے، معاف کر دے تو پھر ٹھیک ہے۔ تو جب واپس آئے کہتے ہیں مَیں نے تو اس کے ہاتھ پر رکھا اور وہ دینے سے انکاری ہے۔ فرمایا یہی طریقہ ہے۔ (تلخیص از الازھار لذوات الخمار صفحہ 160طبع دوم)
اصل طریقہ بھی یہی ہے پہلے ہاتھ پر رکھو پھرمعاف کرواؤ۔ اس لئے جو کوشش کرتے ہیں ناں مقدمہ لانے سے پہلے کہ جو ہم نے یہ کہہ دیا وہ کہہ دیا ان کو سوچنا چاہئے۔
اور پھر اسی ضمن میں ایک اور بات بھی بیان کر دوں کیونکہ کل ہی بنگلہ دیش سے ایک نے خط لکھ کر پوچھا تھا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے اور مہر میں نے ادا نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔ تو اسی قسم کا ایک سوال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہوا تھا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے مَیں نے نہ مہر اس کو دیا ہے نہ بخشوایا ہے۔ اب کیا کروں۔ تو آپ نے فتویٰ دیا، فرمایا کہ ’’ مہر اس کا ترکہ ہے اور آپ کے نام قرض ہے۔ آپ کو ادا کرنا چاہئے اور اس کی یہ صورت ہے کہ شرعی حصص کے مطابق اس کے دوسرے مال کے ساتھ تقسیم کیا جاوے۔ جس میں ایک حصہ خاوند کا بھی ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے نام پر صدقہ دیا جاوے۔ ‘‘ (فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ148)
تو بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں یہاں یورپ میں بعض دفعہ ایسے جھگڑے آ جاتے ہیں کہ ملکی قانون جو ہے وہ حقوق دلوا دیتا ہے طلاق کی صورت میں وہ کافی ہے حق مہر نہیں دینا چاہئے۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ حقوق بعض دفعہ اگر بچے ہوں تو بچوں کے ہوتے ہیں۔ دوسرے کچھ حد تک اگر بیوی کے ہوں بھی تو وہ ایک وقت تک کے لئے ہوتے ہیں اس لئے بعد میں یہ مطالبہ کرنا کہ حق مہر نہ دلوایا جائے اور حق مہر میں اس کو ایڈجسٹ کیا جائے یہ میرے نزدیک جائز نہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلی تو بات یہ کہ دیکھ کر حق مہر مقرر کیا جائے۔ حیثیت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس کا تعین قضا کر سکتی ہے کتنا ہے۔ اور جب تعین ہو گیا ہے تو فرمایا کہ یہ تو ایک قرض ہے اور قرض کی ادائیگی بہرحال کرنی ضروری ہے اس لئے یہ بہانے نہیں ہونے چاہئیں کہ حق مہر ادا نہیں کیا۔ تو یہ قرض جو ہے وہ قرض کی صورت میں ادا ہونا چاہئے اس کا ان حقوق سے کوئی تعلق نہیں جو ملکی قانون دلواتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ جس کی حیثیت دس روپے کی ہے اس کا مہر ایک لاکھ کس طرح مقرر ہو سکتا ہے۔ اس لئے حیثیت کے مطابق حق مہر مقرر کرنے کا حق یا تبدیل کرنے کا حق نظام جماعت کو ہے۔ غیر احمدیوں نے تو عجیب عجیب ایسی رسمیں بنا لی ہیں یعنی دین کو بھی بالکل تمسخر بنا دیا ہے۔ بیہودہ قسم کے رسم و رواج جو ہیں وہ بیچ میں ڈال دئیے ہیں مثلاً برصغیر میں ہندوستان، پاکستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی رواج تھا وہیں سے مَیں نے مثال دی ہے کہ مثلاًحق مہر دو من مچھر کی چربی۔ اب نہ اتنی چربی اکٹھی ہو اور نہ حق مہر ادا ہو۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو بالکل غلط طریق کار ہے۔ ہمیں شکر کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہم نے مان لیا جنہوں نے ان بے عمل علماء کے فیصلوں اور فتووں سے ہمیں بچا لیا۔ پس اس بات کا شکرانہ بھی اس بات میں ہے کہ شادی کرنے والے جوڑے بھی ہمیشہ قول سدید اور تقویٰ سے کام لیں اور ان کے عزیز رشتہ دار بھی۔
ایک خرچ جو آجکل شادی بیاہوں پر بہت بڑھ گیا ہے اور کم طاقت رکھنے والے اس خرچ کو پورا کرنے کے لئے مطالبہ بھی کرتے ہیں، مدد کی درخواست بھی کرتے ہیں وہ کھانے کا خرچ ہے۔ لڑکی والے بھی اسراف سے کام لے رہے ہوتے ہیں اور لڑکے والے بھی گو کہ اب پاکستان میں قانون بن گیا ہے کھانا نہیں کھلانا اور ایسی دعوت نہیں کرنی لیکن پھر بھی کچھ لوگ اس کام کو کرتے ہیں اور پھر مختلف طریقے نکال لئے ہیں۔ جب کہا جائے کہ اخراجات تو توفیق اور حیثیت کے مطابق ہونے چاہئیں تو جواب یہی ہوتا ہے کہ صرف ایک کھانا پکایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دھوکا نہیں ہے۔ اگر توفیق نہیں تو نہیں کرنا چاہئے یہ کام۔ پھر قانون کے مطابق عمل ہونا چاہئے۔ یا گھرمیں سادہ سا جو بھی توفیق ہو اس کے مطابق اتنے آدمیوں کو بلا کر کھلایا جائے۔
اسی طرح بعض صاحب حیثیت جو ہیں وہ اپنی شادیوں پر بلاو جہ کھانوں کا ضیاع کر رہے ہوتے ہیں۔ آٹھ دس قسم کے سالن تیار کئے ہوتے ہیں جو کھائے تو جاتے نہیں، ضائع ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان میں بہت سے یہاں یورپ سے جانے والے بھی شامل ہیں جو جا کر اپنی شادیاں کرتے ہیں یا اپنے عزیزوں کی شادیاں کرتے ہیں دکھاوے کی خاطر کہ ہم یورپ سے آ رہے ہیں۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ کھانا پھر بچ جاتا ہے وہ غریبوں میں بھی تقسیم نہیں ہو سکتا کہ چلو کسی غریب کے کام آ جائے تب بھی کوئی بات ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ اگر اتنی کشائش ہے کہ اتنے کھانے پکا سکتے ہیں اور خرچ بھی کر سکتے ہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہا تھا غریبوں کی شادیوں پر خرچ کرنے کے لئے چندہ دے دیں۔ پھر عام طور پر غیر معمولی سجاوٹیں کی جاتی ہیں اس کے لئے کوشش ہو رہی ہوتی ہے۔ بعض لوگ ربوہ میں شادی کرنے والے اس احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہاں سے، باہرسے جانے والے بھی اور ربوہ کے رہنے والے بھی شاید ہوں، رہنے والوں کے پاس تو کم ہی پیسہ ہوتا ہے اس لئے وہ تو اس طرح نہیں کرتے ایک آدھ کے علاوہ، کہ شادی کا انتظام کرنے کے لئے جو لوگ موجود ہیں، جوکاروبار کرتے ہیں ان سے کام کروانے کی بجائے یا ان سے کھانے پکوانے کی بجائے، باہر سے، لاہور وغیرہ سے منگوائے جاتے ہیں کہ زیادہ اعلیٰ انتظام ہو گا۔ ٹھیک ہے ہر ایک کی اپنی اپنی پسندہے اس کے مطابق کریں۔ لیکن کسی احساس کمتری کے تحت یہ کام نہیں ہونا چاہئے۔ احمدی میں اس قسم کا دکھاوے کے لئے احساس کمتری بالکل نہیں ہونا چاہئے بلکہ کسی قسم کا بھی احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے۔ یہی طوق ہیں جو گردنوں کو جکڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے یہ بھی ہے کہ ربوہ میں جو شادی بیاہ کے انتظامات کا کام کرنے والے ہیں۔ ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے اب وہاں تمام سہولتیں میسر ہیں۔ ربوہ میں جو لوگ اس کاروبار میں بیٹھے ہوئے ہیں یا اور دوسرے جو کاروباری لوگ ہیں ان کی مدد کرنی چاہئے۔ چھوٹا سا ایک شہر ہے۔ وہاں یہ کاروباری لوگ اس سہولت کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ احمدیوں کو سہولت میسر آ جائے تو احمدی کو بہرحال احمدی کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور یہ جوکاروباری لوگ ہیں ربوہ میں، ان کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اپنی چیزوں کے اعلیٰ معیار قائم کریں۔ اپنی سروسز کے اعلیٰ معیار قائم کریں تاکہ کسی قسم کی کمی نہ رہے ان کا بھی دوسروں سے مقابلہ ہونا چاہئے۔ اپنی قیمتوں کو بھی مناسب رکھیں تاکہ یہ شکوہ نہ ہو کہ زیادہ قیمتیں لیتے ہیں اس لئے ہم نے کام نہیں کروایا۔ تو یہی کاروبار کا گر ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جب ربوہ قائم فرمایا، بنیاد ڈالی، تو اس وقت جو دکانداروں کو نصیحت فرمائی تھی وہ بھی یہی تھی کہ ایک تو اشیاء کے معیار اچھے رکھو دوسرے کم سے کم منافع لو۔ کاروبار اس سے چمکے گا۔ کاروبار کسی دھوکے سے کامیاب نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے کہ اس کے مطابق عمل کریں۔ اللہ کرے کہ ہم ہر قسم کے رسم و رواج بدعتوں اور بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد رکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والے ہوں اور ہمیشہ اس زمانے کے حَکَم و عدل کی تعلیم کے مطابق دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنا بھی ایسا عمل ہے جو تمام نیکیوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے اور تمام برائیوں اور لغو رسم و رواج کو ترک کرنے کی طرف تو جہ دلاتا ہے۔ تو اس کی طرف بھی خاص تو جہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا کہ: پرسوں انشاء اللہ تعالیٰ مَیں سفر پر روانہ ہورہا ہوں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ سفر بابرکت فرمائے اور اس کے نیک نتائج پیدا فرمائے۔ اور جلد سے جلد ہم ہرجگہ احمدیت اور حقیقی اسلام کی حکومت کو قائم ہوتا دیکھیں۔
خوشی کے ان مواقع پر صاحب حیثیت افراد ’’مریم شادی فنڈ‘‘ میں چندہ دے کر مستحقین کی مدد کریں۔
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 25؍نومبر 2005ء بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔