جلسہ سالانہ قادیا ن کے نہایت کامیاب وبابرکت انعقاد پر احباب جماعت کو شکرگز اری کی تاکید
خطبہ جمعہ 30؍ دسمبر 2005ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
بَلِ اللّٰہَ فَاعۡبُدۡ وَ کُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ (الزّمر:67)
پھر فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو دن پہلے ہمارا جلسہ سالانہ قادیان اختتام کو پہنچا تھا۔ اس جلسے کے دوران جو یہاں شامل تھے انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے نظارے دیکھے اور اپنے اندر ایک روحانیت اترتی محسوس کی۔ آپ میں سے ہر ایک جو اس جلسے میں شامل ہوا وہ اس بات کا گواہ ہے، کئی لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا۔ کئی نومبائعین اور خواتین نومبائعات سے بھی جن کی ابھی پوری طرح تربیت بھی نہیں ہوئی یہ اظہار ہوئے۔ بعض کے چہروں اور جذبات سے یہ اظہار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید اور حکم سے جس جلسے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آغاز فرمایا تھا، 100سال سے زائد عرصہ کے بعد آج بھی وہ تائیدات شامل ہونے والوں کے چہروں پر نظر آ رہی ہیں، ان دعاؤں کی قبولیت کے نشان نظر آ رہے ہیں۔ ایک خاتون جنہوں نے چند سال پہلے بیعت کی تھی پاکستان سے آئی ہوئی تھیں اور اداس بیٹھی تھیں۔ اُن سے جب کسی نے پوچھا کہ آپ بڑی خاموش بیٹھی ہیں توکہنے لگیں کہ پہلی دفعہ جلسے میں شامل ہوئی ہوں، ماحول ہی کچھ ایسا ہے، اپنے اندر ایک عجیب قسم کی روحانیت محسوس کر رہی ہوں، اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کر رہی ہوں اور کیونکہ اب واپس جانا ہے اس لئے اداس بھی ہو رہی ہوں۔ تو یہ ایک آدھ نہیں نئے آنے والوں میں ایسی سینکڑوں، ہزاروں مثالیں ملتی ہیں۔ بہرحال مَیں بتا رہا تھا کہ جلسے کی برکات سے آپ جو یہاں شامل ہیں نے فائدہ اٹھایا ہے وہ تو ہے ہی، اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کی نعمت سے جو ہمیں نوازا ہے اور جو انعام عطا فرمایا ہے اس کی بدولت دنیا کے کونے کونے میں احمدیوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کے عظیم الشان نظارے دیکھے ہیں۔ دنیا کے کونے کونے سے لوگوں کی فیکسزآ رہی ہیں کہ ہم نے وہاں ایک خاص ماحول دیکھا جس کا دُور بیٹھے، ایم ٹی اے کو دیکھ کر، ہم پر بھی خاص اثر ہو رہا تھا۔ پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے یہاں سے Liveٹرانسمیشن کا میسّرآ جانا بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں میں سے ایک فضل ہے۔ یہاں بھی اور باہر بیٹھے ہوئے احمدی بھی سمجھتے ہیں کہ بس اس نئی ایجاد سے بڑی آسانی سے فائدہ اٹھا لیا ہے۔ یہاں سے سگنل سیٹلائٹ کے ذریعہ سے بھیج دیا اور وہاں سے ایم ٹی اے سٹوڈیو نے لے کرآگے دنیا میں پھیلا دیا۔ بظاہر تو یہ اسی طرح ہے۔ لیکن ہر ملک کے کچھ قوانین ہیں اور یہاں کے قوانین کے مطابق کافی فارمیلیٹیز (Formalities) سے گزرنا پڑتا ہے۔ باوجود اس کے کہ ہم نے کئی مہینے پہلے اس سلسلے میں کام شروع کر دیا تھا۔ ایک کمپنی سے ٹھیکہ بھی ہو گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی مناسب قیمت پر ہوا تھا۔ لیکن قانون کے مطابق بعض سرکاری محکموں سے اجازت لینی بھی ضروری تھی جو میرے یہاں بھارت پہنچنے کے بعد تک نہیں ملی تھی۔ ہماری انتظامیہ بھی پریشان تھی اور جس کمپنی سے ٹھیکہ ہوا تھااور جن کا سیٹلائٹ استعمال ہونا تھا، وہ بھی پریشان تھے کیونکہ ان کی کچھ چیزیں استعمال ہونی تھیں اور ان کے سیٹلائٹ کے ذریعہ سے رابطہ ہونا تھا اور یہی خیال تھا کہ 16؍دسمبر کا خطبہ Liveنہیں جا سکے گا۔ البتہ اس کمپنی نے ہمیں یہ آفر دی کہ ہم اپنے نام کے ساتھ بھیج دیتے ہیں۔ اس میں قانونی طور پر کچھ حرج بھی نہیں ہو گا، بہت سارے ٹی وی چینلز دو دو ناموں کے ساتھ اپنے پروگرام ٹیلی کاسٹ کرتے ہیں، نشر کرتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں یہ خیال ضرور آیا کہ ابھی تک ایم ٹی اے نے جو اپنی انفرادیت قائم رکھی ہوئی ہے کہ صرف ایم ٹی اے کے نام، نشان اور لوگو (Logo) کے ساتھ دنیا میں ہمارے سارے پروگرام چلتے ہیں، خاص طور پہ جلسوں کے پروگرام، تو اس میں تو ایک اور ٹی وی چینل کا نام بھی آ جائے گا۔ بہرحال 14؍دسمبر تک سب پر مایوسی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات بدلے، سرکاری محکموں سے ایک دن پہلے تک یہی جواب ملا تھا کہ اس میں ابھی وقت لگے گا اتنی جلدی نہ کریں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا 14؍دسمبر کو ایسے حالات بدلے کہ اسی دن دوپہر کو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے اجازت نامہ مل گیا۔ اور 16؍ دسمبر کا خطبہ لائیو (Live) ہر ایک نے سنا۔ پھر اگلا خطبہ ہوا پھر جلسے کے پروگرامز ہوئے جو یقینا اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے اس وعدے کی ایک بار اور بڑی شان سے پورے ہونے کی دلیل ہے کہ’’ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘، مَیں تیرے ہر کام کو سنواروں گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ جو کام مہینوں سے نہیں ہو رہا تھا وہ چند منٹوں میں ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ تائیدات ہمیں اس طرف مزید تو جہ دلاتی ہیں کہ ہم اس کے آگے اور زیادہ جھکنے والے اور شکرادا کرنے والے بنیں۔ اسی طرح اس سلسلے میں ہمیں اس کمپنی کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے اس سلسلے میں ہم سے مکمل تعاون کیا۔ پھر ایم ٹی اے کا سٹاف جو تقریباً تمام والنٹیئرز ہیں۔ کچھ لندن سے آئے تھے، کچھ یہاں کے تھے، کچھ معاونین پاکستان سے آئے تھے ان سب نے اچھی طرح کام کیا، اپنے اپنے فرائض ادا کئے۔ بہرحال یہ اپنی نوعیت کا ایک خاص چینل ہے جو تقریباً والنٹیئرز سے چلتا ہے۔ یعنی زیادہ تر وہی ہیں۔ لندن میں تو بہت بڑی تعدادمیں والنٹیئرز ہیں، ایسے کارکنان ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کیا ہوا ہے، کسی نے پورے ہفتے کے لئے، کسی نے چند گھنٹے کے لئے، کسی نے ہفتے میں چند دن کے لئے اور یہ ایسا واحد ٹی وی چینل ہے جو بغیر اشتہاروں کے چلتا ہے۔ دنیا میں جب بھی کبھی کسی کو ملا ہوں اور ایم ٹی اے کا ذکر ہوا، جب بھی کسی کوبتاتا ہوں کہ یہ 24گھنٹے چلنے والا چینل ہے اور بغیر اشتہاروں کے چلتا ہے۔ تو یہ بات ان سب کے لئے بڑی عجیب ہوتی ہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے، اس کے تو بڑے اخراجات ہوتے ہیں۔ تو یہاں کے علاوہ جن کارکنان کا مَیں نے ذکر کیا ہے، جنہوں نے یہ جلسہ دنیا کو دکھانے کے لئے خدمت کی اور اپنا وقت دیا، ان میں لندن میں بیٹھے ہوئے والنٹیئرز بھی ہیں، ان کوبھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ جو اُس مغربی ماحول میں پلنے بڑھنے کے باوجود بڑے اخلاص و وفا کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کے لئے مدد گار ہو رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہاں بھی آئے، بلکہ بعض دوروں پہ میرے ساتھ افریقہ بھی جاتے ہیں، موسم کی سختیاں اور بے آرامیاں جھیلتے ہیں، کبھی کسی نے شکوہ نہیں کیا۔ اور یہ دو چار نہیں ہیں بلکہ سو ڈیڑھ سو یا اس سے بھی زیادہ ہوں گے اور میرے نزدیک یہ اس زُمرہ میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اس عہد کو سچ کر دکھایا ہے کہ {نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہ} یعنی ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں۔ پس اس تاریخی جلسے کو دنیا میں پہنچانے میں معاون ہونے کی حیثیت سے صرف یہاں سامنے نظر آنے والے ایم ٹی اے کے کارکنان ہی نہیں بلکہ پیچھے بیٹھے ہوئے وہ مدد گار بھی شکریے اور دعاؤں کے مستحق ہیں جنہوں نے بڑے خوبصورت طریق پر یہ پروگرام ساری دنیا میں پہنچایا اور ہر احمدی نے دیکھا۔ جہاں احمدی ان سارے ظاہری جو سامنے کارکنان تھے ان کے لئے دعائیں کر رہے ہوں یا باقی کارکنان کے لئے دعا کر رہے ہوں وہاں ان کارکنان کو بھی جو ان خدمات پرمامور تھے، یہ مَیں کہتا ہوں کہ اس جذبے کو قائم رکھتے ہوئے اور شکر گزار ی کے جذبات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح محمدی کے مددگاروں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی، پہلے سے مزید بڑھ کر اس روح کوقائم رکھتے ہوئے خدمت کرتے چلے جائیں، اللہ اس کی توفیق دے۔
پھر اس کے علاوہ بھی ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے دیکھے وہ بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنانے والے ہونے چاہئیں۔ عموماً جماعت احمدیہ کا جہاں بھی جلسہ سالانہ ہوتا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کی قبولیت کے طفیل ہم اللہ تعالیٰ کے فضل بارش کی طرح برستے دیکھتے ہیں، اور ہر جلسے کے بعد ایک نیا سنگ میل، ایک نئی منزل ہمیں نظر آ رہی ہوتی ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی طرف تو جہ دلا رہی ہوتی ہے۔ اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس بستی میں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنا کامیاب جلسہ ہوا، جہاں پہلے جلسے میں صرف75افراد شامل تھے اور اس بستی کو چند لوگ جانتے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کی قبولیت کے طفیل آج دیکھیں اس بستی میں جلسے کی حاضری 70ہزار افراد کے قریب تھی اور دنیا کے کونے کونے میں قادیان دارالامان کی آواز پہنچ رہی تھی۔ ہمارے سر اِس انعام پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جانے چاہئیں۔ ہمارے دل شکر کے جذبات سے لبریز ہونے چاہئیں تاکہ اللہ تعالیٰ مزید اپنے فضلوں کی بارش برسائے اور اپنے مزید انعامات سے ہمیں بہر ہ ور فرمائے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں شکر گزاری کے کیا طریق بتائے ہیں۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جا۔ یعنی شکرگزاری تبھی ہو گی جب تم اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے اور اس کی مکمل بندگی اختیار کرنے والے ہو گے اور یہی ایک مومن کی شان ہے اور اس سے ایک مومن مزید انعامات کا وارث بنتاہے۔
پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اس نکتے کو سمجھے اور صرف یہ نہ ہو کہ نعرے لگا کر ہی ہماری شکر گزاری کا اظہار ہو رہا ہو، جو ہم نے جلسے میں لگائے اور اس کے بعد ختم ہو گیا۔ بلکہ حقیقی اظہار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کریں، نیک اعمال بجالا کر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کریں، لوگوں کے حقوق ادا کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ حضرت سلیمان ؑ کی ایک دعا کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرماتے ہوئے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے اور یہ دعا ہر احمدی کو بھی ہر وقت یاد رکھنی چاہئے کیونکہ آج احمدی ہی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضلوں کی موسلا دھاربارش ہو رہی ہے۔ اور جتنا ہم اس طرح شکر گزاری کریں گے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا فیض پانے والے ہوں گے۔ اور وہ دعا یوں سکھائی گئی کہ{رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰــہُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ} (النّمل:20) کہ اے میرے رب مجھے توفیق بخش کہ مَیں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جو تجھے پسند ہوں اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر۔ پس اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر تب ادا ہو گا، جب عبادت کے معیار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے نیک اعمال بجا لانے کی طرف بھی ہر وقت تو جہ رہے گی، اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی تو جہ رہے گی اور تبھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے والے ہوں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک اعمال، عبادات کے اعلیٰ ترین معیار اور اسوہ حسنہ ہمارے سامنے رکھا ہے۔ آپ کی عبادتوں کے معیار دیکھیں کبھی آپؐ گھر سے باہر نکل کر ویران جگہ پہ جا کے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے ہیں تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ اللہ تعالیٰ سے کیاراز و نیاز ہو رہے ہیں۔ کبھی اپنے گھر میں بیوی سے اجازت لیتے ہیں کہ مجھے اجازت دو کہ آج رات اپنے ربّ کی عبادت میں گزار دوں۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ آپؐ کو تو اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہوا ہے، تمام انعامات سے نواز دیا ہوا ہے پھر کیوں اپنی جان ہلکان کرتے ہیں ؟ تو کیا خوبصورت جواب عطا فرماتے ہیں کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ ہوں؟
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر آن خدا کو یاد رکھتے تھے۔ (مسلم -کتاب الحیض -باب ذکراللہ تعالیٰ فی حال الجنابۃ وغیرھا)
پس یہ نمونے ہیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے بطور اسوہ پیش فرمائے تاکہ ہم بھی ان پر عمل کریں، ان نمونوں پر چلنے والے ہوں۔ پھر امت کی بخشش کی فکر ہے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ جس حد تک قبولیت دعا کی خوشخبری دیتاہے آپ شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ سجدے میں چلے جاتے ہیں اور ہر دفعہ خوشخبری کے بعد سجدات شکر بجا لاتے ہیں۔ اس بارے میں عامر بن سعد اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے جب ہم عَزَوْرَء مقام کے قریب پہنچے تو وہاں حضور ؐ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کچھ دیر دعا کی۔ پھر حضورؐ سجدے میں گر گئے اور بڑی دیر تک سجدے میں رہے۔ پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ پھر سجدے میں گر گئے۔ آپؐ نے تین دفعہ ایسا کیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نے اپنے رب سے دعا مانگی تھی اور اپنی امت کے لئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے میری امت کے ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دے دی۔ پھر اپنے رب کا شکرانہ بجا لانے کے لئے سجدے میں گر گیا اور سر اٹھا کر پھر اپنی امت کے لئے اپنے رب سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزید ایک تہائی امت کی شفاعت کے لئے اجازت مرحمت فرمائی۔ مَیں پھر شکر انے کا سجدہ بجا لایا۔ پھر سر اٹھایا اور امت کے لئے اپنے ربّ سے دعا کی۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لئے مجھے اجازت عطا فرما دی اور میں اپنے ربّ کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کے لئے گر گیا۔ (ابوداؤد -کتاب الجہاد۔ باب فی سجود الشکر)
پس یہ شکر بھی ایک عظیم نعمت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمیں عطا کیا گیا ہے، اس کو حاصل کرنے کے لئے بھی ہمیں خداتعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننا چاہئے اس کے آگے جھکنا چاہئے اور اس کی عبادت کرنی چاہئے اور صحیح معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر دیکھیں بندوں کی شکر گزاری کے کیا کیا طریق سکھلائے۔ جب مسلمانوں پر مکّہ میں طرح طرح کے مصائب ڈھائے گئے تو انہوں نے خداتعالیٰ کے اِذن سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت شاہ حبشہ نے ان کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بادشاہ نجاشی کے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھا اور ہر موقعہ پر آپؐ نے اس احسان کی شکر گزاری کا اظہا راپنے اقوال و افعال سے فرمایا۔ چنانچہ جب نجاشی کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس ان کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ آپؐ کے صحابہ ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! ان کی خدمت کے لئے ہم کافی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا انہوں نے ہمارے ساتھیوں کو بڑے اکرام سے رکھا تھا اور میں پسند کرتا ہوں کہ ان کے اس احسان کا بدلہ مَیں خود اتاروں۔ (کتاب الشفا للقاضی عیاض- الفصل الثامن عشر – الوفاء وحسن العھد)
پس یہ سبق ہے ہمارے لئے بھی کہ تم بھی ان بندوں کا شکر ادا کرو جو تمہارے کام آئیں۔ یہاں حکومت کی انتظامیہ نے بھی ہر معاملے میں بہترین تعاون کیا ہے۔ جلسہ سے پہلے جلسہ کے مدنظر قادیان کی گلیوں اور سڑکوں کو ٹھیک کروایا۔ سیکیورٹی انتظامات ہر طرح سے صحیح ہونے کی طرف تو جہ دی۔ اور بڑی بھاری تعداد میں پولیس کی نفری یہاں مہیا کی۔ جلسے کے جماعتی انتظامات کے لئے تو اس کی ضرورت نہ تھی کیونکہ جماعت میں تو خود ہی انتظام ہو جاتا ہے۔ احمدی تو خود ہی اپنے انتظامات کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی اور دنیا وی جلسہ ہو تو اتنے بڑے مجمعے میں دنگا فساد کا خطرہ ہوتاہے۔ ہم تو ایک پُر امن قوم ہیں اور جو ایک دفعہ جماعت کے نظام میں اچھی طرح پرو دیا جائے اس کو تو اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس سے تو یہ فعل کبھی سرزد نہیں ہوتا کہ وہ ہنگامہ کرے۔ وہاں اس قسم کی سیکیورٹی کی ضرورت نہیں ہوتی جس طرح باہر ہوتی ہے۔ لیکن شاید بیرونی خطرے کی و جہ سے بھی انہوں نے اپنی ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے سیکیورٹی کا انتظام کیا تھا۔ بہرحال ہمیں اس معاملے میں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
ضمناً یہ بھی بتا دوں کیونکہ یہاں بعض بالکل غیر تربیت یافتہ نومبائعین بھی آئے تھے، جن کو اب اپنی تربیت کی طرف خود بھی تو جہ دینی چاہئے اور جن کے ذریعے سے بیعتیں ہوئی ہیں ان کو بھی ان کی تربیت کی طرف تو جہ دینی چاہئے۔ اور اس کے علاوہ ان کے ساتھ جلسہ دیکھنے کے لئے کچھ غیر از جماعت یا غیر مسلم بھی شامل ہوگئے تھے۔ اور بعض دفعہ پتہ نہیں لگتا کون کس قسم کا انسان ہے۔ تو بہرحال جلسہ جب ختم ہوا ہے تو جلسے کے اختتام پر نظارت دعوت الی اللہ کے اصرار پر کہ ان نومبائعین کو ضرور ملنا چاہئے مَیں نومبائعین کے بلاک میں گیا۔ لیکن ان کی عدم تربیت اور جماعت کے ڈسپلن کا پتہ نہ ہونے کی و جہ سے وہاں ایک ہنگامہ سا ہو گیا تھا۔ بہرحال کچھ توجذبات میں کھڑے تھے لیکن کچھ ایسا عنصر بھی تھا جو صرف شور کرنے والا تھا۔ جس طرح کسی دنیاوی جلسے میں ہوتا ہے یہ بعضوں کے چہروں سے نظر آ رہا تھا۔ اور ہو سکتا ہے کہ بعض شرارت کی غرض سے بھی اندر بٹھائے گئے ہوں کیوں کہ یہاں بھی مخالفت تو ہے۔ بہرحال ہمارے سیکیورٹی والوں کو اس وقت بڑی ہمت کرنی پڑی اور ان لوگوں کو کنٹرول کرنا پڑا۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ جو ان کے لئے احاطہ بنایا گیا تھا وہ اسی میں رہے۔ لیکن اس صورتحال کے باوجود بھی پولیس کی سیکیورٹی کو نہیں بلانا پڑا جس طرح دوسرے جلسوں میں ہوتا ہے۔
یہاں آ کر بلکہ دنیا میں جہاں بھی جماعت کے جلسے ہو رہے ہوں پولیس والے یہی کہتے ہیں کہ آپ کے لوگوں کا کام بڑا آسان ہے کہ خود ہی یہ سارے کام سنبھال لیتے ہیں۔ تو بہرحال جماعت کی روایات سے ہٹ کر تھوڑی دیر کے لئے بدانتظامی ہوئی تھی اور کیونکہ اس وقت Live چل رہا تھا، ایم ٹی اے کے کیمروں نے اسی وقت فوری طور پر اس کو تمام دنیا کو دکھا بھی دیا۔ تو مختلف جگہوں سے یہ پیغام آنے شروع ہو گئے سیکیورٹی والوں کو بھی، مجھے بھی خط آئے کہ یہ کیا کیا؟ اس لئے مَیں نے ذکر کر دیا ہے۔ بہرحال آئندہ انتظامیہ کو بھی خیال رکھنا چاہئے۔ بغیر باقاعدہ پلاننگ کے یہ کام نہیں ہونا چاہئے۔ ایسی صورت میں کیونکہ بعض دفعہ ایسے لوگ جن کا آپ کو معین طور پر پتہ نہ ہو وہ کوئی بھی ایسی حرکت کر سکتے ہیں جس سے نقصان ہو اور جماعتی روایات اور وقار کو خطرہ ہو۔ بہرحال وہ بھی وقت خیریت سے گزر گیا۔ اس پر بھی ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو کسی بھی قسم کے نقصان سے بچا لیا۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا اس دفعہ جلسہ پر 70ہزار کی حاضری تھی جو اب تک قادیان کے جلسوں میں ایک ریکارڈ حاضری ہے۔ سات آٹھ ہزار شاید باہر کے ملکوں سے آئے ہوں گے، باقی تمام یہیں کے تھے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے، ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی تعداد میں لوگوں کو یہاں اکٹھا کیا اور بڑے آرام سے ان کے انتظامات کرنے کا موقع بھی مہیا فرمایا، توفیق بھی عطا فرمائی۔ ان سب کی رہائش اور کھانے کا انتظام بھی احسن رنگ میں پورا ہوا۔ تمام کارکنان نے بڑے احسن رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی ڈیوٹیاں دیں اور دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ مہمانوں کو بھی ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ کارکنان خود بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ کافی بڑے رش کے، جلسے کے دن تھے خیریت سے گزر گئے اور وہ اس قابل رہے کہ آسانی سے ڈیوٹیاں دے سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر سکیں۔ غرض کہ ہر جگہ ہر موقع پر ہمیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کے فضل کے نظارے نظر آتے ہیں اور ہمیں اس کا شکر گزارہونا چاہئے۔
آج ہم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا ادراک رکھنے والے ہیں {وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا} (ابراہیم:34) اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو شمار کرنا چاہو تو اس کو احاطہ میں نہ لا سکو گے۔ انہیں شمار کرنا تو ممکن نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ تو ہم بن سکتے ہیں۔ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت کہ اس کی جو نعمتیں نازل ہوتی ہیں ان کا ذکر کرکے مزید شکرگزار بندہ بننے کی ہم کوشش تو کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے{وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ} (الضُّحٰی:12) اور جہاں تک تیرے رب کی نعمت کا تعلق ہے توُ اسے بکثرت بیان کیا کر۔
1905ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی الہاماً یہ فرمایا تھا کہ{وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ} پس یہ احمدی کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو بے شمار نعمتیں نازل ہو رہی ہیں ان کا شکریہ ادا کرتا چلا جائے اور جیسا کہ شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ نیک اعمال بھی ہونے چاہئیں، عبادتوں کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ بھی ہر احمدی کا فرض ہے کہ ایسا کرے۔
یہ جلسہ ہر ایک احمدی کے آپس کے تعلقات میں مضبوطی پیدا کرنے والا بھی ہونا چاہئے۔ بھائی بھائی کو معاف کرے اور صلح پیدا کرنے کی طرف بھی کوشش ہونی چاہئے۔ صرف کوشش ہی نہیں بلکہ آگے بڑھ کر صلح کرنی چاہئے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف تو جہ ہونی چاہئے۔ رشتہ داروں کو رشتہ داروں کے قصور معاف کرنے کی طرف تو جہ ہونی چاہئے۔ ہر احمدی، ہر دوسرے احمدی بلکہ ہر انسان کے ساتھ ہمدردی اور احسان کا سلوک کرنے والا ہونا چاہئے۔ اور اس طرف تو جہ کریں تبھی شکر گزار بندوں میں شمارہو سکتے ہیں۔ یہ شکر کے جذبات اپنے اندرپیدا کریں گے تبھی جلسے کے فیض سے فیضیاب ہونے والے بھی کہلائیں گے۔ اور مزید اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بھی ہوں گے۔ اور یہی چیز زبان حال سے {وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ} کا آپ کو مصداق بنا رہی ہو گی۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے حصہ پا رہے ہوں گے کہ{لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَا َٔزِیْدَنَّکُمْ} (ابراہیم :8)کہ اگر تم شکر کرو گے تو مَیں ضرور تمہیں بڑھاؤ ں گا۔ پس شکر گزاری کے جذبات سے تمام نیکیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تاکہ آپ کو بھی اور آپ کی نسلوں کو بھی مزید نیکیوں کی توفیق ملتی چلی جائے۔ صرف اس بات پر فخر نہ ہو کہ جلسہ کامیاب ہو گیا ہے بلکہ یہ سوچ رکھیں کہ آپ کی زندگی کے لئے جلسہ تب کامیاب ٹھہرے گا کہ جب آپ اُن نیکیوں کو جن کی آپ کو تلقین کی گئی ہے اور آپ نے سنی ہیں، ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ اس بات کی خوشی منائیں کہ یہ باتیں سن کر آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی زندگی میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس طرف خود بھی تو جہ پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے توفیق بھی عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نزول ہوا ہے۔ پس اس جذبے کے ساتھ اپنی شکر گزاری کے جذبات کو بڑھاتے چلے جائیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ستمبر1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ{وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ} اس لحاظ سے اس سال کے اس آخری جمعہ کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے تشکر سے پُر جذبات کے ساتھ دعاؤں کا دن بنا لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درُود بھیجیں کہ جمعہ کے دن کے دوران درُود خاص اہمیت رکھتا ہے اور پھر یہ شکر اور یہ درود ہمیشہ آپ سب کی زندگیوں کا حصہ بن جائے اور پھر اس شکر کے مضمون کے ساتھ نئے سال کا آغاز ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کریں جو گزشتہ سال عطا ہوئی تھیں تاکہ جو آئندہ آنے والا سال ہے وہ پہلے سے بڑھ کر برکات لانے والا ہو۔ احمدیت کی فتح کے جو آثار ہم دیکھ رہے ہیں وہ مزید قریب تر آجائیں۔ پس خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے کی گئی، شکرگزاری کے جذبات سے پُر ہماری عبادتیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور جماعت کی آئندہ ترقیات کو ہمارے قریب تر لے آئیں گی۔ پس آگے بڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے جھولیاں بھرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنتے چلے جائیں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی بھی کریں اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
شکرگزاری کے جذبات کے ساتھ نیک اعمال بھی ہونے چاہئیں عبادتوں کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30؍دسمبر 2005ء بمقام قادیان دارالامان (بھارت)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔