آنحضرتؐ کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنیوالے کارٹونوں پررنج وغم اورمذمت کااظہار
خطبہ جمعہ 10؍ فروری 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی:
{وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ} (الانبیاء:108)
{اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا} (الاحزاب:58-57)
آجکل ڈنمارک اور مغرب کے بعض ممالک کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے، ابھارنے والے، کارٹون اخباروں میں شائع کرنے پر تمام اسلامی دنیا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور ہر مسلمان کی طرف سے اس بارے میں رد عمل کا اظہار ہو رہا ہے۔ بہرحال قدرتی طور پر اس حرکت پر رد ّ عمل کا اظہار ہونا چاہئے تھا۔ اور ظاہر ہے احمدی بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عشق میں یقینا دوسروں سے بڑھا ہواہے کیونکہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا فہم و ادراک دوسروں سے بہت زیادہ ہے اور کئی احمدی خط بھی لکھتے ہیں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں، تجاویز دیتے ہیں کہ ایک مستقل مہم ہونی چاہئے، دنیا کو بتانا چاہئے کہ اس عظیم نبی کا کیا مقام ہے تو بہرحال اس بارے میں جہاں جہاں بھی جماعتیں Activeہیں وہ کام کر رہی ہیں لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا رد عمل کبھی ہڑتالوں کی صورت میں نہیں ہوتا اور نہ آگیں لگانے کی صورت میں ہوتا ہے اور نہ ہی ہڑتالیں اور توڑ پھوڑ، جھنڈے جلانا اس کا علاج ہے۔
اس زمانے میں دوسرے مذاہب والے مذہبی بھی اور مغربی دنیا بھی اسلام اور بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں۔ اس وقت مغرب کو مذہب سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی اکثریت دنیا کی لہوو لعب میں پڑ چکی ہے۔ اور اس میں اس قدر Involve ہو چکے ہیں کہ ان کا مذہب چاہے اسلام ہو، عیسائیت ہویا اپنا کوئی اور مذہب جس سے یہ منسلک ہیں ان کی کچھ پرواہ نہیں وہ اس سے بالکل لاتعلق ہو چکے ہیں۔ اکثریت میں مذہب کے تقدس کا احساس ختم ہو چکا ہے بلکہ ایک خبر فرانس کی شاید پچھلے دنوں میں یہ بھی تھی کہ ہم حق رکھتے ہیں ہم چاہے تو، نعوذباللہ، اللہ تعالیٰ کا بھی کارٹون بنا سکتے ہیں۔ تو یہ تو ان لوگوں کا حال ہو چکا ہے۔ اس لئے اب دیکھ لیں یہ کارٹون بنانے والوں نے جو انتہائی قبیح حرکت کی ہے اور جیسی یہ سوچ رکھتے ہیں اور اسلامی دنیا کا جو ردّ عمل ظاہر ہوا ہے اس پر ان میں سے کئی لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ یہ رد ّ عمل اسلامی معاشرے اور مغربی سیکولر جمہوریت کے درمیان تصادم ہے حالانکہ اس کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب تو ان لوگوں کی اکثریت جیسا کہ مَیں نے کہا اخلاق باختہ ہو چکی ہے۔ آزادی کے نام پر بے حیائیاں اختیار کی جا رہی ہیں، حیا تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
بہرحال اس بات پر بھی ان میں سے ہی بعض ایسے لکھنے والے شرفاء ہیں یا انصاف پسند ہیں انہوں نے اس نظریے کو غلط قرار دیا ہے کہ اس ردّ عمل کو اسلام اور مغربی سیکولر جمہوریت کے مقابلے کا نام دیا جائے۔ انگلستان کے ہی ایک کالم لکھنے والے رابرٹ فسک (Robert Fisk) نے کافی انصاف سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے۔ ڈنمارک کے ایک صاحب نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرے اور مغربی سیکولرجمہوریت کے درمیان تصادم ہے اس بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ بالکل غلط بات ہے، یہ کوئی تہذیبوں کا یا سیکولر ازم کا تصادم نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق پیغمبر پر خدا نے براہ راست اپنی تعلیمات نازل کیں وہ زمین پر خدا کے ترجمان ہیں جبکہ یہ(یعنی عیسائی) سمجھتے ہیں، (اب یہ عیسائی لکھنے والا لکھ رہا ہے) کہ انبیاء اور ولی ان کی تعلیمات انسانی حقوق اور آزادیوں کے جدید تصور سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گئے ہیں۔ مسلمان مذہب کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور صدیوں کے سفر اور تغیرات کے باوجود ان کی یہ سوچ برقرار ہے جبکہ ہم نے مذہب کو عملاً زندگی سے علیحدہ کر دیا ہے۔ اس لئے ہم اب مسیحیت بمقابلہ اسلام نہیں بلکہ مغربی تہذیب بمقابلہ اسلام کی بات کرتے ہیں اور اس بنیاد پر یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب ہم اپنے پیغمبروں یا ان کی تعلیمات کا مذاق اڑا سکتے ہیں تو آخر باقی مذاہب کا کیوں نہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ کیا یہ رویہ اتنا ہی بے ساختہ ہے۔ کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ کوئی 12-10برس پہلے ایک فلم Last Temptation of christ ریلیز ہوئی تھی جس میں حضرت عیسیٰ ؑ کو ایک عورت کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دکھانے پر بہت شور مچا تھا۔ اور پیرس میں کسی نے مشتعل ہو کر ایک سینما کو نذر آتش کر دیا تھا۔ ایک فرانسیسی نوجوان قتل بھی ہوا تھا۔ اس بات کا کیا مطلب ہے۔ ایک طرف تو ہم میں سے بھی بعض لوگ مذہبی جذبات کی توہین برداشت نہیں کر پاتے مگر ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ مسلمان آزادی اظہار کے ناطے گھٹیا ذوق کے کارٹونوں کی اشاعت پر برداشت سے کام لیں۔ کیا یہ درست رویہ ہے۔ جب مغربی رہنما یہ کہتے ہیں کہ وہ اخبارات اور آزادی اظہار پر قدغن نہیں لگا سکتے تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر متنازعہ کارٹونوں میں پیغمبر اسلام کی بجائے بم والے ڈیزائن کی ٹوپی کسی یہودی رِبّی (Rabbi) کے سر پر دکھائی جاتی تو کیا شور نہ مچتا کہ اس سے اینٹی سمٹ ازم (Anti Semitism) کی بو آتی ہے یعنی یہودیوں کے خلاف مخالفت کی بو آتی ہے اور یہودیوں کی مذہبی دلآزاری کی جا رہی ہے۔ اگر آزادی اظہار کی حرمت کا ہی معاملہ ہے تو پھر فرانس، جرمنی یا آسٹریا میں اس بات کو چیلنج کرنا قانوناً کیوں جرم ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کی نسل کشی نہیں کی گئی۔ ان کارٹونوں کی اشاعت سے اگر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی جو مسلمانوں میں مذہبی اصلاح یا اعتدال پسندی کے حامی ہیں اور روشن خیالی کے مباحث کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اس پر بہت کم لوگوں کو اعتراض ہوتا۔ لیکن ان کارٹونوں سے سوائے اس کے کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام ایک پرتشدد مذہب ہے۔ ان کارٹونوں نے جہاں چہار جانب اشتعال پھیلانے کے اور کیا مثبت اقدام کیا ہے۔ (روزنامہ جنگ لندن۔ 7؍ فروری 2006ء صفحہ1، 3)
بہرحال کچھ رویہ بھی مسلمانوں کا تھا جس کی وجہ سے ایسی حرکت کا موقع ملا، لیکن ان لوگوں میں شرفاء بھی ہیں جو حقائق بیان کرنا جانتے ہیں۔ مَیں نے مختلف ملکوں سے جو وہاں رد عمل ہوئے، یعنی مسلمانوں کی طرف سے بھی اور ان یورپین دنیا کے حکومتی نمائندوں یا اخباری نمائندوں کی طرف سے بھی جو اظہار رائے کیا گیا ان کی رپورٹیں منگوائی ہیں۔ اس میں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہوں نے اخبار کے اس اقدام کو پسند نہیں کیا۔ لیکن بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہیں نہ کہیں سے کسی وقت ایسا شوشہ چھوڑا جاتا ہے جس سے ان گندے ذہن والوں کے ذہنوں کی غلاظت اور خدا سے دُوری نظر آجاتی ہے۔ اسلام سے بغض اور تعصب کا اظہارہوتا ہے۔ لیکن مَیں یہ کہوں گا کہ بدقسمتی سے مسلمانوں کے بعض لیڈروں کے غلط ردّ عمل سے ان لوگوں کو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہی چیزیں ہیں جن سے پھر یہ لوگ بعض سیاسی فائدے بھی اٹھاتے ہیں۔ پھر عام زندگی میں مسلمان کہلانے والوں کے رویے ایسے ہوتے ہیں جن سے یہاں کی حکومتیں تنگ آ جاتی ہیں۔ مثلاً کام نہ کرنا، زیادہ تر یہ کہ گھر بیٹھے ہوئے ہیں، سوشل ہیلپ (Social Help) لینے لگ گئے۔ یا ایسے کام کرنا جن کی اجازت نہیں ہے یا ایسے کام کرنا جن سے ٹیکس چوری ہوتا ہو اور اس طرح کے اَور بہت سے غلط کام ہیں۔ تو یہ موقع مسلمان خود فراہم کرتے ہیں اور یہ ہوشیار قومیں پھر اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بعض دفعہ ظلم بھی ان کی طرف سے ہو رہا ہوتا ہے لیکن مسلمانوں کے غلط ردّعمل کی وجہ سے مظلوم بھی یہی لوگ بن جاتے ہیں اور مسلمانوں کو ظالم بنا دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ شاید مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت اس توڑ پھوڑ کو اچھا نہیں سمجھتی لیکن لیڈر شپ یا چند فسادی بدنام کرنے والے بدنامی کرتے ہیں۔ اب مثلاً ایک رپورٹ ڈنمارک کی ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا، ڈینش عوام کا ردّ عمل یہ ہے کہ اخبار کی معذرت کے بعد مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس معذرت کو مان لیں اور اس مسئلے کو پر امن طور پر ختم کریں تاکہ اسلام کی اصل تعلیم ان تک پہنچے اور Violence سے بچ جائیں۔ پھریہ ہے کہ ٹی وی پر پروگرام آ رہے ہیں کہتے ہیں کہ یہاں کے بچے ڈینشوں کے خلاف ردّ عمل دیکھ کر کہ ان کے ملک کا جھنڈا جلایا جا رہا ہے، ایمبیسیز جلائی جا رہی ہیں بہت ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ ، وہ یہ محسوس کر رہے ہیں گویا جنگ کا خطرہ ہے اور ان کو مار دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اب عوام میں بھی اور بعض سیاستدانوں میں بھی اس کو دیکھ کر انہوں نے ناپسند کیا ہے اور ایک ردّعمل یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ مسلمانوں کی اس دلآزاری کے بدلے میں خود ہمیں ایک بڑی مسجد مسلمانوں کو بنا کر دینی چاہئے جس کا خرچ یہاں کی فرمیں ادا کریں اور کوپن ہیگن کے سپریم میئر نے اس تجویز کو پسندکیا ہے۔ پھر مسلمانوں کی اکثریت بھی جیسا کہ مَیں نے کہا کہتی ہے کہ ہمیں معذرت کو مان لینا چاہئے لیکن ان کے ایک لیڈر ہیں جو 27تنظیموں کے نمائندے ہیں وہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ اگرچہ اخبار نے معذرت کر دی ہے تاہم وہ ایک بار پھر ہمارے سب کے سامنے آ کر معذرت کرے تو ہم مسلمان ملکوں میں جا کر بتائیں گے کہ اب تحریک کو ختم کر دیں۔ اسلام کی ایک عجیب خوفناک تصویر کھینچنے کی یہ کوشش کرتے ہیں۔ بجائے صلح کا ہاتھ بڑھانے کے ان کا رجحان فساد کی طرف ہے۔ ان فسادوں سے جماعت احمدیہ کا تو کوئی تعلق نہیں مگر ہمارے مشنوں کو بھی فون آتے ہیں، بعض مخالفین کی طرف سے دھمکیوں کے خط آتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ جہاں جہاں بھی جماعت کی مساجد ہیں، مشن ہیں، محفوظ رکھے اور ان کے شر سے بچائے۔
بہرحال جب غلط ردّ عمل ہو گا تو اس کا دوسری طرف سے بھی غلط اظہار ہو گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جب ان لوگوں نے اپنے رویے پر معافی وغیرہ مانگ لی اور پھر مسلمانوں کا ردّ عمل جب سامنے آتا ہے تو اس پر باوجود یہ لوگ ظالم ہونے کے، بہرحال انہوں نے ظلم کیا ایک نہایت غلط قدم اٹھایا، اب مظلوم بن جاتے ہیں۔ تو اب دیکھیں کہ وہ ڈنمارک میں معافیاں مانگ رہے ہیں اور مسلمان لیڈر اَڑے ہوئے ہیں۔ پس ان مسلمانوں کو بھی ذرا عقل کرنی چاہئے کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنے ردّعمل کے طریقے بدلنے چاہئیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا تھا شاید بلکہ یقینی طور پر سب سے زیادہ اس حرکت پر ہمارے دل چھلنی ہیں لیکن ہمارے ردّعمل کے طریق اور ہیں۔ یہاں مَیں یہ بھی بتا دوں کہ کوئی بعید نہیں کہ ہمیشہ کی طرح وقتاً فوقتاً یہ ایسے شوشے آئندہ بھی چھوڑتے رہیں، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائیں جس سے پھر مسلمانوں کی دلآزاری ہو۔ اور ایک مقصد یہ بھی اس کے پیچھے ہو سکتا ہے کہ قانوناً مسلمانوں پر خاص طور پر مشرق سے آنے والے اور برصغیر پاک و ہند سے آنے والے مسلمانوں پر اس بہانے پابندی لگانے کی کوشش کی جائے۔ بہرحال قطع نظر اس کے کہ یہ پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں، ہمیں اپنے رویے، اسلامی اقدار اور تعلیم کے مطابق ڈھالنے چاہئیں، بنانے چاہئیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اسلام کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابتداء سے ہی یہ سازشیں چل رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ اس کی حفاظت کرنی ہے، وعدہ ہے اس لئے وہ حفاظت کرتا چلا آرہا ہے، ساری مخالفانہ کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اس زمانے میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے، اور اس زمانے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے ہوئے اور جس طرح حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اور بعدمیں آپؑ کی تعلیم پر عمل کر تے ہوئے آپؑ کے خلفاء نے جماعت کی رہنمائی کی اور ردّعمل ظاہر کیا اور پھر جو اس کے نتیجے نکلے اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ وہ لوگ جو احمدیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہڑتالیں نہ کرکے اور ان میں شامل نہ ہو کر ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی درد نہیں ہے، ان پر جماعت کے کارنامے واضح ہو جائیں۔ ہمارا ردّ عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے۔ قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ناپاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کارروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں۔ اب مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عشق رسولؐ کی غیرت پردو مثالیں دیتا ہوں۔ پہلی مثال عبداللہ آتھم کی ہے جو عیسائی تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے انتہائی غلیظ ذہن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دجّال کا لفظ نعوذباللہ استعمال کیا۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کے بارے میں ایک مباحثہ بھی چل رہا تھا، ایک بحث ہو رہی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سو میں پندرہ دن تک بحث میں مشغول رہا، بحث چلتی رہی اور پوشیدہ طور پر آتھم کی سرزنش کے لئے دعا مانگتا رہا۔ یعنی جو الفاظ اس نے کہے ہیں اس کی پکڑ کے لئے۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ جب بحث ختم ہوئی تو مَیں نے اس سے کہا کہ ایک بحث تو ختم ہو گئی مگر ایک رنگ کا مقابلہ باقی رہا جو خدا کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب’’اندرونہ بائیبل‘‘ میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجّال کے نام سے پکارا ہے۔ اور مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور سچا جانتا ہوں اور دین اسلام کو مِنجانب اللہ یقین رکھتا ہوں۔ پس یہ وہ مقابلہ ہے کہ آسمانی فیصلہ اس کا تصفیہ کرے گا۔ اور وہ آسمانی فیصلہ یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے جو شخص اپنے قول میں جھوٹا ہے اور ناحق رسول کو کاذب اور دجال کہتا ہے اور حق کا دشمن ہے وہ آج کے دن سے پندرہ مہینے تک اس شخص کی زندگی میں ہی جو حق پر ہے ہاویہ میں گرے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ یعنی راستباز اور صادق نبی کو دجال کہنے سے باز نہ آوے اور بے باکی اور بدزبانی نہ چھوڑے۔ یہ اس لئے کہا گیا کہ صرف کسی مذہب کا انکار کر دینا دنیا میں مستوجب سزا نہیں ٹھہرتا بلکہ بے باکی اور شوخی اور بدزبانی مستوجب سزا ٹھہرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں جب مَیں نے یہ کہا تو اس کا رنگ فق ہو گیا، چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کانپنے لگے تب اس نے بلا توقف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر دھر لئے اور ہاتھوں کو مع سر کے ہلاناشروع کیا جیسا ایک ملزم خائف ایک الزام کا سخت انکار کرکے توبہ اور انکسار کے رنگ میں اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے اور بار بار کہتا تھا کہ توبہ توبہ مَیں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی‘‘۔ (مزید تفصیل کے لئے ملا حظہ فرمائیں روحانی خزائن جلد 18نزول المسیح صفحہ 541پیشگوئی نمبر42)
اور پھر بعد میں بھی اسلام کے خلاف کبھی نہیں بولا۔
تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھنے والے شیر خدا کا ردّعمل۔ وہ للکارتے تھے ایسی حرکتیں کرنے والوں کو۔
پھر ایک شخص لیکھرام تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا تھا۔ اس کی اس دریدہ دہنی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو باز رکھنے کی کوشش کی۔ وہ باز نہ آیا۔ آخر آپؑ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی درد ناک موت کی خبر دی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ’’خداتعالیٰ نے ایک اللہ اور رسول کے دشمن کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے اور ناپاک کلمے زبان پر لاتا ہے جس کا نام لیکھرام ہے مجھے وعدہ دیا اور میری دعا سنی اور جب مَیں نے اس پر بددعا کی کہ تو خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ 6سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا۔ یہ ان کے لئے ایک نشان ہے جو سچے مذہب کو ڈھونڈتے ہیں ‘‘۔ (روحانی خزائن جلد 18نزول المسیح صفحہ 549)
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ بڑی درد ناک موت مرا۔
یہی اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سکھائے کہ اس قسم کی حرکت کرنے والوں کو سمجھاؤ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن بیان کرو، دنیا کو ان خوبصورت اور روشن پہلوؤں سے آگاہ کرو جودنیا کی نظر سے چھپے ہوئے ہیں اور اللہ سے دعا کرو کہ یا تو اللہ تعالیٰ ان کو ان حرکتوں سے باز رکھے یا پھر خود ان کی پکڑ کرے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے اپنے طریقے ہیں وہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس طریقے سے کس کو پکڑنا ہے۔
پھر خلافت ثانیہ میں ایک انتہائی بے ہودہ کتاب’’رنگیلا رسول‘‘ کے نام سے لکھی گئی۔ پھر ایک رسالے ’’ورتمان‘‘ نے ایک بیہودہ مضمون شائع کیا جس پر مسلمانان ہند میں ایک جوش پیدا ہو گیا۔ ہر طرف مسلمانوں میں ایک جوش تھا اور بڑا سخت رد عمل تھا۔
اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسیح الثانی نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اے بھائیو! مَیں درد مند دل سے پھر کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جو لڑپڑتا ہے۔ وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے۔ اب یہ حدیث کے مطابق ہے غصہ کو دبانے والا اصل میں بہادر ہوتا ہے۔ فرمایا کہ بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اسے پورا نہ کرے اس سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ آپؓ نے فرمایا اسلام کی ترقی کے لئے تین باتوں کا عہد کرو۔ پہلی بات یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔ پہلے خود اپنے عمل ٹھیک کرو۔ دوسرے یہ کہ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے۔ اسلام کی تعلیم دنیا کے ہر شخص کو پتہ لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں، محاسن خوبصورت زندگی پتہ لگے، اُسوہ پتہ لگے۔ تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے۔
اب ہر ایک مسلمان کا عام آدمی کا بھی لیڈروں کا بھی فرض ہے۔ اب دیکھیں باوجود آزادی کے یہ مسلمان ممالک جو آزاد کہلاتے ہیں آزاد ہونے کے باوجود ابھی تک تمدنی اور اقتصادی غلامی کا شکار ہیں۔ ان مغربی قوموں کے مرہون منت ہیں ان کی نقل کرنے کی طرف لگے ہوئے ہیں۔ خود کام نہیں کرتے زیادہ تر ان پر ہمارا انحصار ہے۔ اور اسی لئے یہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے جذبات سے یہ کھیلتے بھی رہتے ہیں۔ پھر آپؓ نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے بھی شروع کروائے۔ تو یہ طریقے ہیں احتجاج کے، نہ کہ توڑ پھوڑ کرنا فساد پیدا کرنا۔ اور ان باتوں میں جو آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کی تھیں سب سے زیادہ احمدی مخاطب ہیں۔ ان ملکوں کی بعض غلط روایات غیر محسوس طریقے پر ہمارے بعض خاندانوں میں داخل ہو رہی ہیں۔ مَیں احمدیوں کو کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی مخاطب تھے۔ یہ جو اچھی چیزیں ہیں ان کے تمدن کی وہ تو اختیار کریں لیکن جو غلط باتیں ہیں ان سے ہمیں بچنا چاہئے۔ توہمارا ری ایکشن (Reaction) یہی ہونا چاہئے کہ بجائے صرف توڑ پھوڑ کے ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے، ہم دیکھیں ہمارے عمل کیا ہیں، ہمارے اندر خدا کا خوف کتنا ہے، اس کی عبادت کی طرف کتنی توجہ ہے، دینی احکامات پر عمل کرنے کی طرف کتنی توجہ ہے، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی طرف کتنی توجہ ہے۔
پھر دیکھیں خلافت رابعہ کا دور تھا جب رُشدی نے بڑی توہین آمیز کتاب لکھی تھی۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبات بھی دئیے تھے اور ایک کتاب بھی لکھوائی تھی۔ پھر جس طرح کہ مَیں نے کہا یہ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ سال کے شروع میں بھی اس طرح کا ایک مضمون آیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں۔ اس وقت بھی مَیں نے جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ مضامین لکھیں خطوط لکھیں، رابطے وسیع کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی خوبیاں اور ان کے محاسن بیان کریں۔ تویہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حسین پہلوؤں کو دنیا کو دکھانے کا سوال ہے یہ توڑ پھوڑ سے تو نہیں حاصل ہو سکتا۔ اس لئے اگر ہر طبقے کے احمدی ہر ملک میں دوسرے پڑھے لکھے اور سمجھدار مسلمانوں کو بھی شامل کریں کہ تم بھی اس طرح پرامن طور پر یہ ردّ عمل ظاہر کرو اپنے رابطے بڑھاؤ اور لکھو تو ہر ملک میں ہر طبقے میں اتمام حجت ہو جائے گی اور پھر جو کرے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃٌ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ جیسا کہ خود فرماتا ہے {وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ} (الانبیاء:108) کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجامگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر۔ اور آپؐ سے بڑی ہستی، رحمت بانٹنے والی ہستی، نہ پہلے کبھی پیدا ہوئی اور نہ بعد میں ہو سکتی ہے۔ ہاں آپ کا اُسوہ ہے جو ہمیشہ قائم ہے اور اس پر چلنے کی ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے۔ اور اس کے لئے بھی سب سے بڑی ذمہ داری احمدی کی ہے، ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ تو بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃللعالمین تھے اور یہ لوگ آپ کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں جس سے انتہائی بھیانک تصور ابھرتا ہے۔ پس ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار محبت اور رحمت کے اسوہ کو دنیا کو بتانا چاہئے اور ظاہر ہے اس کو بتانے کے لئے مسلمانوں کو اپنے رویے بھی بدلنے پڑیں گے۔ دہشت گردی کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ سے بچنے کی بھی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ جب تک کہ آپ پر مدینہ میں آ کر جنگ ٹھونسی نہیں گئی۔ پھر بہرحال اللہ تعالیٰ کی اجازت سے دفاع میں جنگ کرنی پڑی۔ لیکن وہاں بھی کیا حکم تھا کہ {وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ} (البقرۃ:191) کہ اے مسلمانو! لڑو اللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو یقینا اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اپنے پر نازل ہونے والی شریعت پر عمل کرنے والے تھے۔ ان کے بارے میں ایسے نازیبا خیالات کا اظہار کرنا انتہائی ظلم ہے۔ بہرحال جس طرح یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے معافی مانگ لی ہے اور ہمارے مبلغ کی بھی رپورٹ ہے کہ ان میں سے ایک نے معافی مانگی تھی اظہار کیا تھا۔
دوسرے مسلمانوں کو تو یہ جوش ہے کہ ہڑتالیں کر رہے ہیں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا ردّعمل یہی ہے کہ توڑ پھوڑ ہو اور ہڑتالیں ہوں اور جماعت احمدیہ کا اس واقعہ کے بعد جو فوری ردّ عمل ظاہر ہونا چاہئے تھا وہ ہوا۔ احمدی کا ردّ عمل یہ تھا کہ انہوں نے فوری طور ان پر اخباروں سے رابطہ پیدا کیا۔ اور پھر یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے کہ 2006ء کی فروری میں ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔ یہ واقعہ توگزشتہ سال کا ہے۔ ستمبر میں یہ حرکت ہوئی تھی تو اُس وقت ہم نے کیاکیا تھا۔ یہ جیسا کہ مَیں نے کہا ستمبر کی حرکت ہے یا اکتوبر کے شروع کی کہہ لیں۔ تو ہمارے مبلغ نے اس وقت فوری طور پر ایک تفصیلی مضمون تیار کیا اور جس اخبار میں کارٹون شائع ہوا تھاان کو یہ بھجوایا اور تصاویر کی اشاعت پر احتجاج کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے بارے میں بتایا کہ یہ ہمارا احتجاج اس طرح ہے ہم جلوس تو نہیں نکالیں گے لیکن قلم کا جہاد ہے جو ہم تمہارے ساتھ کریں گے۔ اور تصویر کی اشاعت پر اظہار افسوس کرتے ہیں۔ اس کو بتایا کہ ضمیر کی آزاد ی تو ہو گی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ دوسروں کی دلآزاری کی جائے۔ بہرحال اس کا مثبت ردّعمل ہوا۔ ایک مضمون بھی اخبار کو بھیجا گیا تھاجو اخبار نے شائع کر دیا۔ ڈینش عوام کی طرف سے بڑا اچھا ردّعمل ہوا کیونکہ مشن میں بذریعہ فون اور خطوط بھی انہوں نے ہمارے مضمون کو کافی پسند کیا، پیغام آئے۔ پھر ایک میٹنگ میں جرنلسٹ یونین کے صدر کی طرف سے شمولیت کی دعوت ملی۔ وہاں گئے وہاں وضاحت کی کہ ٹھیک ہے تمہارا قانون آزادی ضمیر کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مذہبی رہنماؤں اور قابل تکریم ہستیوں کو ہتک کی نظر سے دیکھو اور ان کی ہتک کی جائے۔ اور یہاں جومسلمان اور عیسائی اس معاشرے میں اکٹھے رہ رہے ہیں ان کے جذبات کا بہرحال خیال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔
پھر ان کو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر حسین تعلیم ہے اور کیسا اُسوہ ہے اور کتنے اعلیٰ اخلاق کے آپؐ مالک تھے اور کتنے لوگوں کے ہمدرد تھے، کس طرح ہمدرد تھے خدا کی مخلوق سے اور ہمدردی اور شفقت کے مظہر تھے۔ چندواقعات جب ان کو بتائے کہ بتاؤ کہ جو ایسی تعلیم والا شخص اور ایسے عمل والا شخص ہے اس کے بارے میں اس طرح کی تصویر بنانی جائز ہے؟ تو جب یہ باتیں ہمارے مشنری کی ہوئیں تو انہوں نے بڑا پسند کیا بڑا سراہا۔ اور ایک کار ٹونسٹ نے برملا یہ اظہار کیا کہ اگر اس طرح کی میٹنگ پہلے ہوجاتی تو وہ ہرگز کار ٹون نہ بناتے، اب انہیں پتہ چلا ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ اور ساروں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ٹھیک ہے ڈائیلاگ (Dialogue) کا سلسلہ چلتا رہنا چاہئے۔
پھر صدر یونین کی طرف سے بھی پریس ریلیز جاری کی گئی جس کا مسودّہ بھی سب کے سامنے سنایا گیا اور ٹی وی پر انٹرویو ہوا جو بڑا اچھا رہا۔ پھر منسٹر سے بھی میٹنگ کی۔ تو بہرحال جماعت کوشش کرتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں بھی اس طرح ہوا ہے۔ تو بہرحال جہاں بنیاد تھی وہاں جماعت نے کافی کام کیا ہے۔ اور کارٹون کی وجہ جو بنی ہے وہ یہ ہے کہ ڈنمارک میں ایک ڈینش رائٹر نے ایک کتاب لکھی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور قرآن‘‘ جو مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ اس کتاب والے نے کچھ تصویریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا کر بھیجنے کو کہا تھا تو بعضوں نے بنائیں۔ وہ تصویریں تھیں اور اپنا نام ظاہر نہیں کیا کہ مسلمانوں کا ردّ عمل ہو گا۔ تو بہرحال یہ کتاب ہے جو وجہ بن رہی ہے اس اخبار میں بھی کارٹون ہی وجہ بنی تھی تو اس بارے میں بھی ان کو مستقل کوشش کرتے رہنا چاہئے اور دنیا میں ہر جگہ اگر اس کو پڑھ کرجہاں جہاں بھی اعتراض کی باتیں ہوں وہ پیش کرنی چاہئیں اور جواب دینے چاہئیں۔ لیکن وہاں ڈنمارک میں یہ بھی تصور ہے کہتے ہیں بعض مسلمانوں کے ذریعہ غلط کارٹون جو ہم نے شائع ہی نہیں کئے وہ دکھا کے مسلمان دنیا کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے لیکن ہماری اس فوری توجہ سے ان میں احساس بہرحال پیدا ہوا ہے۔ یہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا ان لوگوں کو تو آج پتہ لگ رہا ہے۔ جبکہ یہ تین مہینے پہلے کی بات ہے۔
تو جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ہر ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جو اسلام کے بارے میں جنگی جنونی ہونے کا ایک تصورہے اس کو دلائل کے ساتھ رد کرنا ہمارا فرض ہے۔ پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں۔ اخباروں کو، لکھنے والوں کو سیرت پر کتابیں بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔ پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan) کرنا چاہئے کہ نوجوان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہو تاکہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ رہے۔ کیونکہ یہ حرکتیں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں۔ اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہو گا تو ان چیزوں کو روکا جا سکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر پھر بھی اس کے بعد کوئی ڈھٹائی دکھاتا ہے تو پھر ایسے لوگ اس زمرے میں آتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی۔
جیسا کہ فرماتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰ خِرَۃِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا (الاحزاب:58)
یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اور اس نے ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔ یہ حکم ختم نہیں ہو گیا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں۔ آپؐ کی تعلیم ہمیشہ زندگی دینے والی تعلیم ہے۔ آپؐ کی شریعت ہر زمانے کے مسائل حل کرنے والی شریعت ہے۔ آپؐ کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے۔ تو اس لئے یہ جو تکلیف ہے یہ آپ کے ماننے والوں کو جو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے کسی بھی ذریعہ سے اس پر بھی آج صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زندہ ہے وہ دیکھ رہی ہے کہ کیسی حرکتیں کر رہے ہیں۔ پس دنیا کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ دنیا کو ہمیں بتانا ہو گا کہ جو اذیت یا تکلیف تم پہنچاتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی سزا آج بھی دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس لئے اللہ اور اس کے رسول کی دلآزاری سے باز آؤ۔ لیکن جہاں اس کے لئے اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے بارے میں دنیا کو بتانا ہے وہاں اپنے عمل بھی ہمیں ٹھیک کرنے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے اپنے عمل ہی ہیں جو دنیا کے منہ بند کریں گے اور یہی ہیں جو دنیا کا منہ بند کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے رپورٹ میں بتایا تھا وہاں ایک مسلمان عالم پر یہی الزام منافقت کا لگایا جا رہا ہے کہ ہمیں کچھ کہتا ہے اور وہاں جا کے کچھ کرتا ہے، ابھارتا ہے۔ وہ شایدمَیں نے رپورٹ پڑھی نہیں۔ تو ہمیں اپنے ظاہر اور باطن کو، اپنے قول و فعل کو ایک کرکے یہ عملی نمونے دکھانے ہوں گے۔
مسلمان کہلانے والوں کو بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ احمدی ہیں یا نہیں، شیعہ ہیں یا سنی ہیں یا کسی بھی دوسرے مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جب حملہ ہو تو وقتی جوش کی بجائے، جھنڈے جلانے کی بجائے، توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے، ایمبیسیوں پر حملے کرنے کی بجائے اپنے عملوں کو درست کریں کہ غیر کو انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ ملے۔ کیا یہ آگیں لگانے سے سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام کی نعوذ باللہ صرف اتنی قدر ہے کہ جھنڈے جلانے سے یا کسی سفارتخانے کا سامان جلانے سے بدلہ لے لیا۔ نہیں ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جو آگ بجھانے آیا تھا، وہ محبت کا سفیر بن کر آیا تھا، وہ امن کا شہزاد ہ تھا۔ پس کسی بھی سخت اقدام کی بجائے دنیا کو سمجھائیں اور آپؐ کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتائیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے لیکن مَیں احمدیوں سے یہ کہتاہوں کہ ان کو تو پتہ نہیں یہ عقل اور سمجھ آئے کہ نہ آئے لیکن آپ میں سے ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردّعمل کے طور پر اپنے آپ کوایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ جائے۔ اب بڑے جوش سے لوگ کھڑے ہیں (پاکستان کی ایک تصویر تھی) آگ لگا رہے ہیں جس طرح کوئی بڑا معرکہ مار رہے ہیں۔ یہ پانچ منٹ میں آگ بجھ جائے گی، ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو۔ وہ آگ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی آگ جو آپؐ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو۔ جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے۔ یہ آگ ایسی ہو جو دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسماں تک پہنچتے رہیں۔ پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالنا ہے۔ لیکن اس کے لئے پھر وسیلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بننا ہے۔ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے کے لئے، دنیا کی لغویات سے بچنے کے لئے، اس قسم کے جو فتنے اٹھتے ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں سلگتا رکھنے کے لئے، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار درود بھیجنا چاہئے۔ کثرت سے درود بھیجنا چاہئے۔ اس پُر فتن زمانے میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈبوئے رکھنے کے لئے اپنی نسلوں کو احمدیت اور اسلام پر قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}(الاحزاب:57) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجا کرو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا، بلکہ اس کے تو کئی حوالے ہیں کہ مجھ پر تو اللہ اور اس کے فرشتوں کا درود بھیجنا ہی کافی ہے تمہیں جو حکم ہے وہ تمہیں محفوظ رکھنے کے لئے ہے۔ (بحوالہ تفسیر در منثور جلد 5تفسیر سورۃ الاحزاب آیت 57صفحہ 411 صفحہ 199)
پس ہمیں اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اس درود کی ضرورت ہے۔ باقی اس آیت اور اس حدیث کا جو پہلا حصہ ہے اس سے اس بات کی ضمانت مل گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرانے اور استہزاء کی چاہے یہ لوگ جتنی مرضی کوشش کر لیں اللہ اور اس کے فرشتے جو آپ پر سلامتی بھیج رہے ہیں ان کی سلامتی کی دعاسے مخالف کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر حملوں سے ان کو کبھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ اسلام نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آناہے اور تمام دنیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانا ہے۔
اور جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اس زمانے میں آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر چھوڑا ہے۔
حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی کا ایک حوالہ ہے اقتباس ہے، کہتے ہیں کہ’’ایک بار مَیں نے خود حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا آپ ؑ فرماتے تھے کہ درود شریف کے طفیل اور کثرت سے یہ درجے خدا نے مجھے عطا کئے ہیں اور فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لاانتہا نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصہ رَسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں۔ یقینا کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اور فرمایا کہ درود شریف کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عرش کو حرکت دیناہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔ (اخبار الحکم جلد 7نمبر8صفحہ7پرچہ 28؍ فروری1903ء)
اللہ کرے کہ ہم زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں قائم رکھنے کے لئے، آپ کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے آپ پر درود بھیجتے ہوئے، اللہ کی طرف جھکتے ہوئے، اس سے مددمانگتے ہوئے اس کے فضل اور فیض کے وارث بنتے چلے جائیں۔ اللہ ہماری مدد کرے۔
ڈنمارک اور مغرب کے بعض ممالک کے اخبارات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنیوالے کارٹونوں پررنج وغم اور مذمت کااظہار۔
ہمارا ردّ عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اُسوہ نکھر کر سامنے آئے۔
احمدیوں کو صحافت کا شعبہ اپنانے کی تحریک۔
فرمودہ مؤرخہ 10؍فروری 2006ء (10؍تبلیغ 1385ھش) بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔