ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ سچا مسلمان بننے کی کوشش کرے
خطبہ جمعہ 7؍ اپریل 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
آج کل کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قسم ہا قسم کی ایجادیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ کام کی سہولت کے لئے انسان نے ایسی ایجادیں کر لی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور اس جدید ٹیکنالوجی کو ترقی دینے میں اس چھوٹے سے ملک کا بھی بڑا حصہ ہے۔ لیکن جیسا کہ ابتدائے دنیا سے ہوتا آیا ہے جب انسان مادیت پر انحصار کرنا شروع کر دیتا ہے تو روحانیت میں کمی واقع ہونی شروع ہو جاتی ہے اور یہی آجکل کی دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے۔ دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھول چکا ہے اور دنیاوی او ر مادی مفاد حاصل کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ چھوٹا سا ملک جس نے دنیاوی لحاظ سے بہت ترقی کی ہے یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا تھا کہ وہ صرف دنیا کی خوبصورتیوں اور حسن اور آرام و آسائش اور ایجادوں کے پیچھے پھرتا رہے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد تو بہت بڑا تھا۔ اتنا بڑا مقصد کہ اگر اس کو انسان حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اس دنیا کی جو نعمتیں ملنی ہیں وہ تو ملیں گی ہی، دنیا سے جانے کے بعد اخروی اور دائمی زندگی کا بھی حصہ ملے گا۔ اگلے جہان میں بھی انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا وارث بنے گا۔
اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ {وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} (الذّاریات: 57) اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔
اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
مَیں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس آیت کی رو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہوجانا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے۔ کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا۔ بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدّعا ٹھہرا رکھا ہے، خواہ کوئی انسان اس مدّعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدّعا بلاشبہ خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہی ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد نمبر 10صفحہ 414)
تو یہ ہے انسان کی پیدائش کا مقصد جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد بیان کر دیا اور فرما دیا کہ کیونکہ تمہارا اس دنیا میں آنا بھی میری مرضی سے ہے اور دنیا سے جانا بھی میری مرضی سے ہو گا اس لئے تم وہی کام کرو جس کا مَیں نے حکم دیا ہے۔ اور ہر انسان کو براہ راست تو اللہ تعالیٰ حکم نہیں دیتا بلکہ اپنی سنت کے مطابق انبیاء بھیجتا آیا ہے جو مختلف قوموں میں آتے رہے اور اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے اور اس کی عبادت بجا لانے کی تعلیم دیتے رہے۔ اور یہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھنے اور ایک خدا کے آگے جھکنے اور اس کی عبادت کرنے کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھی انسان کو دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس کے جسمانی اعضاء اور طاقتیں بھی اور اس کی ذہنی صلاحیتیں بھی ایسی رکھی ہیں جو اسے دوسری مخلوق سے ممتاز کرتی ہیں۔ پس یہ انسان کی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جب وہ اپنی صلاحیتوں، اپنی ذہنی اور جسمانی طاقتوں کو دیکھے اور ان ایجادات اور سہولیات کی طرف دیکھے جوان صلاحیتوں کی وجہ سے اسے ملیں تو بجائے خدا سے دور لے جانے کے اسے خدا کے قریب کرنے والی بنیں اور وہ اپنے مقصد پیدائش کو پہچاننے کے قابل ہو سکے۔
بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہر انسان پر اللہ تعالیٰ وحی کر کے رہنمائی نہیں کرتا اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک سنت رکھی ہوتی ہے اور وہ انبیاء کے ذریعہ اصلاح ہے جو وہ مختلف لوگوں میں بھیجتا رہا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں اور قویٰ کے لحاظ سے اس قابل ہو گیا ہے کہ روحانیت کے اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کر سکے تو آخری شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور دین مکمل کرنے اور اپنی نعمتوں کے انتہا تک پہنچنے کا اعلان فرمایا اور یہ اعلان فرمایا کہ اب قیامت تک یہی دین ہے جو قائم رہنے والا دین ہے۔ اگر اس کے ساتھ چمٹے رہو گے تو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے فائدے اٹھاتے رہو گے۔
لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ کچھ عرصے بعد (آپ کی وفات کے کچھ عرصے بعد) امت مسلمہ پراندھیرا زمانہ آئے گالیکن وہ مستقل اندھیرا زمانہ نہیں ہو گا بلکہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عاشق صادق کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھیجے گا جو مسیح و مہدی ہو گا۔ ایسا نبی ہو گا جو آپؐ کی پیروی میں آنے والا نبی ہو گا وہ آ کر پھر اس اندھیرے زمانے کو روشنیوں میں تبدیل کرے گا۔ وہ پھر مسلم اُمّہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے روحانیت کے نور کی کرنیں بکھیرے گا۔ اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ کل اقوام عالم اور تمام مذاہب والوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے گا۔ وہ اس زمانے میں جب مادیت کا دَور دَورہ ہو گا بندے کو خدا سے ملا نے اور اس کے مقصد پیدائش کو پہچاننے کی طرف توجہ دلائے گا۔ اور اس سلسلے میں یعنی مسیح و مہدی کے آنے کے بارے میں سب سے زیادہ توجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دلائی ہے کہ جب وہ آئے تو چاہے برف پر گھٹنوں کے بل پر بھی جانا پڑے اسے جا کر میرا سلام کہنا کیونکہ وہی اللہ کا پہلوان ہے جو اس اندھیرے زمانے اور مادیت کے دور میں جب دنیااپنے پیدا کرنے والے خدا کو بھلا بیٹھی ہو گی میری (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی)تعلیم کے مطابق تمہیں تمہارے پیدا کرنے والے خدا سے ملائے گا تاکہ تم اپنے مقصد پیدائش کو پہچان سکو۔
پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور خدا کے پہلوان کو پہچانا اور مانا اور اس مسیح ومہدی کی جماعت میں شامل ہوئے۔ لیکن ہمارا اس جماعت میں شامل ہونا، ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننا اس صورت میں فائدہ دے گا جب ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے خدا جو بے حد مہربان اور رحمان و رحیم خدا ہے کے آگے جھکنے والے بنیں گے۔ اس کی عبادت سے غافل نہیں ہوں گے۔ دنیا کی مادی روشنی، یہ چکا چوند دنیا کی توجہ کھینچنے والی چیزیں ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والی نہیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ قرآن کریم میں بے شمار احکام ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ یہ حکم سات سوہیں۔ پس ایک احمدی کو احمدیت قبول کرنے کے بعد ڈرتے ڈرتے اپنی زندگی گزارنی چاہئے کہ کہیں کسی حکم کی نافرمانی نہ ہو جائے۔ اب مثلاً ایک حکم ہے حیا کا، عورت کو خاص طور پر پردے کا حکم ہے۔ مردوں کو بھی حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں، حیا دکھائیں۔ عورت کے لئے اس لئے بھی پردے کا حکم ہے کہ معاشرے کی نظروں سے بھی محفوظ رہے اور اس کی حیا بھی قائم رہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ اب آج کل کی دنیا میں، معاشرے میں، ہر جگہ ہر ملک میں بہت زیادہ کھل ہو گئی ہے۔ عورت مرد کو حدود کا احساس مٹ گیا ہے۔ Mix Gatherings ہوتی ہیں یا مغرب کی نقل میں بدن پوری طرح ڈھکا ہوا نہیں ہوتا، یہ ساری اس زمانے کی ایسی بے ہو دگیاں ہیں جو ہر ملک میں ہر معاشرے میں راہ پا رہی ہیں۔ یہی حیا کی کمی آہستہ آہستہ پھرمکمل طور پر انسان کے دل سے، پکے مسلمان کے دل سے، حیا کا احساس ختم کر دیتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے ایک چھوٹے سے حکم کو چھوڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ حجاب ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھربڑے حکموں سے بھی دوری ہوتی چلی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھی دوری بھی ہو جاتی ہے۔ اور پھر انسان اسی طرح آخر کار اپنے مقصد پیدائش کو بھلا بیٹھتا ہے۔ اس لئے اس زمانے میں خاص طور پر نوجوان نسل کو بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ ہر وقت دل میں یہ احساس رکھنا چاہئے کہ ہم اس شخص کی جماعت میں شمار ہوتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق بندے کو خدا کے قریب کرنے کاذریعہ بن کر آیا تھا۔
پس اگر اُس سے منسوب ہونا ہے تو پھر اُس کی تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا اور وہ تعلیم ہے کہ قرآن کریم کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کی بھی تعمیل کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ اس پر عمل کرنے والا بن جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو نری بیعت سے کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس رسم سے راضی نہیں ہوتا جب تک کہ حقیقی بیعت کے مفہوم کو ادا نہ کرے اور اس وقت تک یہ بیعت، بیعت نہیں نری رسم ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بیعت کے حقیقی منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کرو۔ یعنی تقویٰ اختیار کرو، قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو اور اس پر تدبر کرو اور پھر عمل کرو۔ کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نر ے اقوال اور باتوں سے کبھی خوش نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضاکے حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے احکام کی پیروی کی جاوے۔ اور اس کے نواہی سے بچتے رہو۔ اور یہ ایک ایسی صاف بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی نری باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی خدمت ہی سے خوش ہوتا ہے۔ سچے مسلمان اور جھوٹے مسلمان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جھوٹا مسلمان باتیں بناتا ہے کرتا کچھ نہیں۔ اور اس کے مقابلہ میں حقیقی مسلمان عمل کر کے دکھاتا ہے، باتیں نہیں بناتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ میرے لئے عبادت کر رہا ہے اور میرے لئے میری مخلوق پر شفقت کر رہا ہے تو اُس وقت اپنے فرشتے اُس پر نازل کرتا ہے اور سچے اور جھوٹے مسلمان میں جیسا کہ اُس کا وعدہ ہے فرقان رکھ دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر3صفحہ615 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ سچا مسلمان بننے کی کوشش کرے۔ یہ جو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں دنیا میں پیدا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ یہ سب اس زمانے کی ایجادیں یہ مسیح محمدی کی آمد کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔ قرآن کریم بھی اس زمانے کی ایجادوں کی گواہی دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ یہ ہوں گی۔ اور حدیثوں میں بھی اس زمانے کی ایجادوں کی پیشگوئی کی گئی ہے لیکن ایک احمدی کو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ تقویٰ اختیار کرے اور صرف اور صرف دنیاوی مادی چیزوں کے پیچھے ہی نہ پڑا رہے۔ ورنہ اگر ایک احمدی، احمدی ہونے کے بعد تقویٰ اختیار نہیں کرتا توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ ایسے احمدی ہونے کا کیا فائدہ کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لی اور غیروں کی دشمنی بھی مول لی۔ پس مَیں دوبارہ کہتاہوں کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کی توفیق نصیب ہوئی اور آپ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا۔
آپ میں سے کئی لوگوں کو احمدیت اپنے ماں باپ سے وراثت میں ملی ہے۔ اس لئے شاید یہ احساس نہ ہو کہ ان لوگوں نے جنہوں نے شروع میں احمدیت قبول کی تھی کتنی قربانیاں دی ہیں۔ اسی طرح ہمارے ابتدائی مبلغ نے بھی بہت قربانیاں دیں۔ یہاں احمدیت آج سے تقریباً71-70سال پہلے آئی ہے اور شروع میں آنے والے مبلغ حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایازؔ تھے اور شروع کے احمدیوں میں جو تاریخ میں ملتے ہیں ایک حاجی جعفر صاحب تھے اور بہت سارے احمدیوں کے نام ہیں ان لوگوں نے شروع میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ماریں بھی کھائیں اور ان دشمنوں اور مخالفین کے مارنے کی وجہ سے کئی کئی دن ان کو ہسپتال میں رہنا پڑا۔ ان لوگوں کی قربانیوں اور دعاؤں کے طفیل آج آپ اللہ تعالیٰ کے فضل بھی اپنے پر دیکھ رہے ہیں اور یہ جو خوبصورت مسجد اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے یہ بھی انہیں قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس زمانے کی دعاؤں اور قربانیوں کے پھل بعد میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دئیے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری نعمتوں سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا۔ تو یہ قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں اور ہمیشہ پھل لاتی ہیں۔ جس طرح گزشتہ قربانیوں کو پھل لگے ہیں آج کی قربانیوں کو بھی انشاء اللہ تعالیٰ پھل لگیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ آج بھی دنیائے احمدیت میں قربانیوں کی روح قائم ہے اور اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو انشاء اللہ کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہاں کے ہمسایہ ملکوں میں احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے احمدیوں کو انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی کافی نقصان اٹھا نا پڑا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہیں آئی۔
گزشتہ تقریباً ایک سال سے انڈونیشیا میں احمدیوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک ہو رہا ہے۔ احمدی انتہائی ثابت قدمی سے احمدیت پر قائم ہیں۔ ہم ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں لیتے اور ایسے ظلموں پر ہم ہمیشہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں اور ہمیشہ جھکتے رہیں گے۔ یہاں اِس وقت بہت سے انڈونیشین بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر انڈونیشین اس بات کا گواہ ہے کہ ابتلاء اور امتحان انکے جذبۂ ایمان میں کوئی لغزش نہیں لا سکے بلکہ ایمان میں مضبوطی کا باعث بنے ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مَیں اپنے انڈونیشین بہن بھائیوں سے کہتا ہوں کہ اپنی قوم کے احمدیوں کو تسلی دیں کہ صبر کریں اور صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ احمدیت کا ایک طُرّہ امتیاز ہے کہ وہ کبھی ظلم کا بدلہ لینے کیلئے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا۔ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جو ایسی سختی کے، ظلم کے موقعوں پر خدا کے آگے جھکتے ہیں۔ اُس خدا کے آگے جس نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔ اُس خدا کے آگے جس نے کہا کہ میرے سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔ پس اس سے مدد مانگیں، انشاء اللہ وہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا، کبھی ضائع نہیں کرے گا، کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یاد رکھیں آپ اکیلے نہیں ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ عارضی ابتلاء ہے انشاء اللہ گزر جائے گا۔ یہ ابتلاء جو آیا ہے یہ جماعت کی ترقی کیلئے آیا ہے۔
یاد رکھیں کہ جب آپ نے اس زمانے کے مسیح و مہدی کو مان لیا تو خدا تعالیٰ کبھی آپ کی جماعت کو ضائع نہیں کرے گا۔ کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ہے۔ آپ اس مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں جس نے مخالفین کو ان الفاظ میں مخاطب کر کے چیلنج دیا ہے:
’’اے نادانو! اور اندھو!مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو مَیں ضائع ہو جاؤں گا۔ کس سچے وفادار کو خدا نے ذلّت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا۔ یقینا یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں۔ مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ مَیں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا۔ مَیں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں۔ کیا خدا مجھے چھوڑدے گا؟ کبھی نہیں چھوڑے گا۔ کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا؟ کبھی نہیں ضائع کرے گا۔ دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ مَیں اس کے ساتھ، وہ میرے ساتھ ہے۔ کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی۔ اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو، اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو۔ کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں۔ اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑہا ابتلا ہو۔ ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے‘‘۔ (انوار الاسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر 9صفحہ نمبر 23)
آج ہم اس کے عینی شاہد ہیں کہ باوجود سو سال کی کوششوں کے یہ سب مخالفت کی آندھیاں احمدیت کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں اور بگاڑ سکتیں بھی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا آپ کی جماعت کی ترقی اور قیامت تک دوسروں پر غلبے کا وعدہ ہے۔ اس لئے مجھے اس بات کی تو فکر نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو کوئی دنیاوی طاقت نقصان پہنچا سکے گی۔ فکر صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ خدا سے دُور جا کر کوئی احمدی اپنی دنیا وعاقبت خراب نہ کرے۔
پس ہمیشہ ہر احمدی کو یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کیا کسی سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا؟ ہمیں چاہئے کہ احمدی ہونے کے دعوے کے ساتھ ہم اپنے خدا سے سچی وفا کا تعلق جوڑیں اور جب ہمارا سچا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو گا تو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یاد رکھیں کہ عبادتوں کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کے محبت اور صلح کے پیغام کو بھی دنیا تک پہنچانا ہمارا کام ہے۔ کیونکہ آج دنیا کو خدا کے قریب لانے اور دنیا میں اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرتے ہوئے محبت اور بھائی چارے کا پیغام دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم احمدیوں کے سپرد کی گئی ہے۔ پس جہاں یہ باتیں آپ خود یادرکھیں وہاں اپنی اولادوں کے دلوں میں بھی اس کو اچھی طرح گاڑ دیں اور راسخ کر دیں۔ کیونکہ جماعتوں کی زندگیاں تبھی بنتی ہیں جب نسلوں میں بھی یہ نیکیاں قائم ہوتی چلی جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے آپ میں سے اکثر کے چہروں پر اخلاص و وفا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ اخلاص و وفا بڑھاتا چلا جائے۔ وہ وفا جو آپ کو حضرت مسیح موعودؑ اور خلافت احمدیہ سے ہے کبھی ختم نہ ہو بلکہ بڑھتی چلی جائے۔
آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پڑھتا ہوں .آپؑ فرماتے ہیں :
’’اے میری جماعت ! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفر آخرت کیلئے ایسا تیارکرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تیار کئے گئے تھے۔ خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے۔ … اے سعادت مند لوگو تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کیلئے مجھے دی گئی ہے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ63)
فرمایا: ’’تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادت الٰہی اور تزکیۂ و تصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ… ہر قسم کے حسد، کینہ، بغض اور غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق وفجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یاد رکھو کہ انجام ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ212جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم رکھے۔ اور اس پیغام کو دنیا کے محروم طبقے، جنہوں نے ابھی تک احمدیت قبول نہیں کی، ان تک پہنچانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا اسی صورت میں فائدہ دے گا جب ہم اپنے اندر پاک تبدیلیا ں پیدا کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آ گے جھکنے والے بنیں گے۔
فرمودہ مورخہ 07؍اپریل 2006ء(07؍شہادت 1385ھش) مسجد طٰہٰ، سنگا پور
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔