اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے ذرائع
خطبہ جمعہ 12؍ مئی 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ جاپان کا جلسہ اس خطبہ کے ساتھ شروع ہو رہا ہے۔ یہ خطبہ جمعہ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہ راست ایم ٹی اے کے ذریعہ سے تمام دنیا میں نشر ہو رہا ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اللہ تعالیٰ آج جماعت احمدیہ پر نازل فرما رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کی ہر دن چڑھنے پر ہم اللہ تعالیٰ کی اس فعلی شہادت سے تصدیق ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن صرف اسی بات پر ہی ہمیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آج ہمیں دنیامیں اپنی تائیدات کے نظارے دکھا رہا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے کہ وہ اپنے بندے سے کئے گئے وعدے کو پورا فرما رہا ہے۔ لیکن روزانہ کے یہ فضل ہم پر بہت بڑی ذمہ داریاں ڈال رہے ہیں۔ آج ہر احمدی کو ان ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے۔ خاص طور پر آپ جو اس خطہ ّ زمین میں رہ رہے ہیں جن سے میں آج براہ راست مخاطب ہوں۔ آپ لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لئے اپنے جائزے لینے ہوں گے کہ کس حد تک ہم ان ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں، کس حد تک ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو خدا کا خالص بندہ بنانے والی ہو، کس حد تک ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس پیغام کو جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی حقیقی پیغام ہے اس علاقے کے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو 1902ء میں اس ملک میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی طرف توجہ پیداہوئی تو آپ ؑ نے فرمایا کہ اگر خدا چاہے گا تو اس ملک میں طالبِ اسلام پیدا کر دے گا۔ پھر آپؑ نے اس ملک میں اسلام کی خوبیوں پر مشتمل لٹریچر شائع کرکے پھیلانے کی خواہش کا بھی اظہار فرمایا۔ پھر آپؑ نے ایک موقع پر فرمایا کہ جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے۔ تو اس ملک کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ خواہش اور ہدایت تھی۔
1935ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں مبلغ بھجوائے۔ اپنے وسائل کے لحاظ سے انہوں نے خوب کام کیا۔ 1959ء میں یہاں پہلے احمدی بھی ہوئے اور ماشاء اللہ خوب ایمان و اخلاص میں ترقی بھی کی۔ پھر جنگ کی وجہ سے حالات بدلے، دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے کچھ روکیں بھی پیدا ہوئیں، پھر اس جنگ کے نتیجہ کے طور پر اس ملک کو بہت بڑا نقصان بھی ہوا۔ لیکن اس بہت بڑے نقصان کے بعد اپنے آپ کو ایک باہمت قوم ثابت کرتے ہوئے اس قوم نے پھر اقتصادی لحاظ سے بہت زیادہ ترقی کی۔ لیکن دنیا کی دوسری قوموں کی طرح یہاں بھی اس ترقی کے ساتھ مادیت کی طرف زیادہ رجحان پیدا ہوا۔ تاہم اس کے باوجود آج بھی ان میں مذہب کے بارے میں احترام ہے اور اسلام کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بعض ملنے والوں نے مجھ سے اس بات کا اظہار کیا، جن میں پڑھے لکھے لوگ بھی تھے اور سیاستدان بھی، کہ ہم اسلام کو جانتے نہیں ہیں، ہمیں بتایا جائے کہ اسلام کیا چیز ہے۔ بہرحال اس ملک کی اقتصادی بہتری کی وجہ سے آپ جو احمدی میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جن میں سے اکثریت پاکستانی احمدیوں کی ہے، آپ لوگوں کو یہاں آنے اور اس ملک میں کام یا کاروبار کرنے کا موقع ملا۔ چند ایک نے یہاں جاپانی عورتوں سے شادیاں بھی کیں۔ ایک دو جاپانی مردوں نے بھی پاکستانی عورتوں سے شادیاں کیں۔ اکثر جاپانی مرد اور عورتیں جو احمدی ہوئے وہ خود بھی اور ان کی اولادیں بھی ماشاء اللہ جماعت سے تعلق اور وفا رکھتے ہیں اور عہد بیعت پر پختگی سے قائم ہیں۔ بعضوں سے میری بات ہوئی تو ان میں جذباتی کیفیت طاری ہو گئی۔ گو کہ یہ جاپانی چند ایک ہی ہیں لیکن ان کی اولادیں انشاء اللہ تعالیٰ جب پھیلیں گی تو پھر مزید جڑیں مضبوط ہوں گی۔ تو جیسا کہ مَیں ذکر کر رہا تھا کہ اس ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کی وجہ سے آپ لوگ پاکستان سے آنے والے احمدی ہیں جن کے خاندانوں میں احمدیت ایک عرصے سے آئی ہوئی ہے اور بعض صحابہ کی اولاد میں سے بھی ہیں، ان کو ہر وقت یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہ یہاں اسلام اور احمدیت کا نمائندہ ہیں۔ شروع میں تو ایک آدھ یہاں مبلغ ہی تھے لیکن گزشتہ 25-20سال میں غیر جاپانی احمدیوں کی تعداد بڑھنی شروع ہوئی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ تقریباً 200کے قریب ہیں۔ اگر ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس خواہش کو سامنے رکھے کہ اس قوم تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے تو یقینا یہاں احمدیت کے پھیلنے کے امکانات ہیں کیونکہ ان میں سے بہت ساری سعید روحیں ہیں جو مذہب کی تلاش میں بھی ہیں۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ صرف اس بات پر ہی انحصار نہ کریں کہ مبلغین یہ کام کریں گے بلکہ خود اپنے آپ کو اس کام میں ڈالیں لیکن تبلیغ کے کام میں ڈالنے سے پہلے خود اپنے جائزے لیں کہ کس حد تک خود اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں۔ اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں۔ خود اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑیں، خود اپنی زندگیوں کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالیں، جنہوں نے یہاں کی عورتوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے عزیزوں، رشتہ داروں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام پہنچائیں۔ آپ کے اپنے عملی نمونے ہی ہیں جو ان لوگوں کی توجہ آپ کی طرف کھینچنے کا باعث بنیں گے۔ اگر صرف دنیاداری ہی آپ کے سامنے رہی اور دنیاداری کی طرف ہی جھکے رہے تو پھر کس منہ سے آپ اسلام کی طرف بلانے والے بنیں گے۔ پس یہ عملی نمونے قائم کرنے کی کوشش کریں اور یہ تبدیلی آپ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے سب سے پہلا کام اس کے آگے جھکنا، اس کی عبادت کرنا اس کی طرف توجہ کرنا ہے، اور یہ تعلق جوڑنے کے لئے سب سے اہم بات جو آپ نے کرنی ہے اور جس کے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے وہ اپنی عبادتوں کی طرف توجہ اور اپنی نمازوں کی حفاظت ہے اور اس کے بغیر ناممکن ہے کہ خداتعالیٰ سے تعلق جوڑا جا سکے۔ یہی نمازوں کی حفاظت ہے جو آپ میں اور آپ کے بیوی بچوں میں اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا باعث بنے گی۔ یہی ہے جو آپ کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی خوبیوں کو دوسروں تک پہنچانے اور اس کے بہترین پھل حاصل کرنے کا باعث بنے گی۔ اور یہی چیز ہے جس سے آپ کی دنیاوی ضروریات بھی خداتعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق پوری فرمائے گا۔ پس اپنی نمازوں میں باقاعدگی اختیار کریں اور اس کے مقابلے پر ہر چیز کو ہیچ سمجھیں، اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہر چیز سے زیادہ تمہارے دل میں میری یاد کی اہمیت ہونی چاہئے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب تم ہمیشہ میرے احسانوں کو یاد کرتے رہو، میرے شکر گزار بندے بنے رہو۔ اور جب اس طرح شکر گزار بنو گے تو پھر سمجھا جائے گا کہ تمہاری نمازیں، تمہاری عبادتیں، میری رضا حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ اپنی عبادت کا حکم دیتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ{اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ} (طٰہٰ:15) یقینا مَیں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لئے نماز کو قائم کر۔
پس یہ حکم بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور ذکر کرنے والوں کے لئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہ نماز قائم کرنے والے ہوں۔ نماز کو ان تمام لوازمات کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں جو اس کا حق ہے اور جس کی تعلیم ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت قائم کرکے دی ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں نمازیں ادا کرنی ہیں۔ یہی چیزیں ہیں جو دین و دنیا کی حسنات لانے کا باعث بنیں گی۔ یہاں آ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے کام اور اس ملک کی جو مصروف زندگی ہے مجھے اس کے ساتھ اپنے آپ کو چلانے کے لئے نمازوں کو آگے پیچھے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، اس کے بغیر گزارا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اللہ ہوں میری عبادت کرو۔ اور ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ معبود صرف مَیں ہی ہوں۔ یہ دنیاوی مصروفیات اور مادی چیزیں اور دنیاوی کام تمہارے معبود نہیں ہیں۔ یہ میری وجہ سے ہی ہے جو تمہیں سب کچھ مل رہا ہے کیونکہ میں رب بھی ہوں۔ فرماتا ہے{رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ۔ ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا} (مریم:66) آسمانوں اور زمین کا وہ رب ہے اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے۔ پس اس کی عبادت کر اور اس کی عبادت پر صبر سے قائم رہ۔ کیا تو اس کا کوئی ہم نام جانتا ہے۔
پس یاد رکھیں کہ رب اللہ تعالیٰ ہے جو تمام چیزوں کا مہیا کرنے والا ہے۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے اور اسی سے ہمیں یہ نعمتیں مہیا ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ جس طرح دوسری مخلوق کو مہیا کرتا ہوں اسی طرح تمہیں بھی کرتا ہوں۔ پس صرف یہ نہ سمجھو کہ تمہارے زور بازو سے تمہیں یہ سب کچھ مہیا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہارے کاروبار میں جو بظاہر بڑے اچھے اور مفید فیصلے ہیں ان میں بھی بے برکتی پیدا کر سکتا ہے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو کر سکتا ہے اس کے لئے بہت آسان ہے کہ جس طرح دوسرے کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں کو رزق مہیا کرتا ہے تمہیں بھی رزق مہیا کر دے۔ دنیا میں آج ہزاروں لاکھو ں لوگ اپنے کاروبار میں دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ اگر صرف ان کی عقل ہی کام کر رہی ہوتی تو یہ کاروبار کیوں دیوالیہ پن کا شکار ہو رہے ہوتے۔ پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہئے۔ ایک احمدی کا کام یہ ہے کہ مستقل مزاجی سے اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت کرتا رہے، اس کے آگے جھکا رہے اس کے حکموں پر عمل کرتا رہے۔ اور عبادت کے لئے جس طرح کہ مَیں نے پہلے بھی آیت کے حوالے سے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت اور ذکر کے لئے نماز قائم کرو۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا ہر احمدی کا کام ہے۔ اور یہ ہمارے ہی فائدے کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نہ ہماری نمازوں کی ضرورت ہے اور نہ ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے{قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَآؤُکُمْ} (سورۃ الفرقان آیت: 78) کہ ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا نہ ہو۔ یعنی یہ تمہاری دعا اور استغفار تمہارے فائدے کے لئے ہیں۔ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ پس ایک احمدی کے لئے اس طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ ورنہ احمدی ہونے کے بعد دعاؤں سے بے رغبتی اور نمازوں سے لاپرواہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث نہیں بنا سکتی۔ جلسہ پرآنے والوں کے لئے بھی اور ویسے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت دعائیں کی ہیں۔ ان سے اگر حصہ لینا ہے اور ان کا وارث بننا ہے تو ہمیں اپنی روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی۔ احمدی ہونے کے بعد جب ہم پہلوں سے ملنے کی باتیں کرتے ہیں تو وہ نمونے بھی قائم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے قائم کئے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ صحابہ نماز کے علاوہ کسی عمل کو بھی ترک کرنا کفر نہ سمجھتے تھے۔ یعنی نماز چھوڑنا ان کے نزدیک کفر کے برابر تھا۔ پس یہ معیار ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (الترغیب وا لترھیب جلد اول صفحہ 284الترھیب من ترک الصلوۃ تعمدا حدیث نمبر 834طبع اول 1994دارالحدیث قاہرہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادت الٰہی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کرکے بیکار کر لیتا ہے‘‘۔ یعنی فطرت جو اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اس کو دنیاداری کے دھندوں میں ڈال دیتا ہے، دوسری مصروفیات میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ دوسری چیزیں اس کے لئے زیادہ فوقیت رکھتی ہیں۔ فرمایا :’’بیرونی تعلقات سے تبدیل کرکے بیکار کر لیتا ہے تو خداتعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے{قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَآؤُکُمْ} (سورۃ الفرقان آیت: 78)
فرمایا کہ مَیں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ مَیں نے ایک رؤیا میں دیکھاکہ میں ایک جنگل میں کھڑا ہوں، شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے۔ اس نالی پر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب جو ہر ایک بھیڑ پر مسلط ہے ہاتھ میں چھری ہے جو انہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہوا ہے۔ میں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں۔ میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں تو میں نے یہی آیت پڑھی{قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَآؤُکُمْ} (الفرقان آیت: 78) یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفور چھریاں چلاد یں۔ یعنی ان بھیڑوں کی گردنوں پر پھیر دیں اور یہ کہا کہ تم ہو کیا؟۔ آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ غرض خداتعالیٰ متقی کی زندگی کی پرواہ کرتاہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے اور جو اس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے۔ اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہرکرے۔ جیسے کلوروفام نیند لاتا ہے اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔ (الحکم جلد 5نمبر30مورخہ 17؍اگست 1901ء صفحہ1)
پس یہ بہت بڑا انذار ہے۔ انسان جوں جوں دنیاوی دھندوں میں پڑتا ہے اللہ کی عبادت سے غافل ہوتا جاتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل شامل حال ہو۔ پس ہر لمحہ، ہر وقت ایک احمدی کو اس فضل کو سمیٹنے کی فکر میں لگے رہنا چاہئے۔ اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو خالص ہو کر اس کے حضور ادا کی جائے۔ پس اپنی عبادتوں کی طرف خاص توجہ دیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کریں تاکہ خداتعالیٰ آپ کی اور آپ کی نسلوں کی حفاظت فرمائے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے۔ (الترغیب وا لترھیب جلد اول صفحہ 284الترھیب من ترک الصلوۃ تعمدا حدیث نمبر 834طبع اول 1994دارالحدیث قاہرہ)
پہلے جو مَیں نے بیان کیا تھا کہ صحابہ نماز ترک کرنے کو کفر کے برابر سمجھتے تھے وہ اس لئے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت پا کر نمازوں کی اہمیت کو سمجھا تھا۔ پس یہاں مزید ڈرایا ہے کہ نمازیں چھوڑنا صرف دین سے انکاری ہونا ہی نہیں ہے بلکہ نمازوں کو چھوڑنے والا شرک کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ اور جتنا زیادہ ہم دنیاوی دھندوں کی طرف بڑھتے جائیں گے اور نمازوں کی پرواہ نہ کریں گے، نمازوں میں بے احتیاطی کا رجحان بڑھتا چلا جائے گا جو کہ آخرکار شرک کرنے والوں کی صف میں لا کھڑا کرے گا۔
پھر بچوں کو نمازوں کی عادت ڈالنے کے بارے میں حکم ہے۔ اکثر کو یہ حکم یاد بھی ہو گا، سنتے بھی رہتے ہیں، لیکن عمل کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو نمازیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ صرف فرض پورا کرنے کے لئے عادت نہ ڈالیں بلکہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت راسخ کر دیں تاکہ وہ یہ سمجھ کر نماز پڑھنے والے ہوں کہ یہ ہمارے فائدے کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہی ہماری دنیا و آخرت کی بقا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک آپ والدین خود بھی اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق نہ جوڑیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سات سال کی عمر کے بچے کو نماز پڑھنے کی تلقین کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور فرمایا کہ جب بچے دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر سختی کرو اور فرمایا اس عمر میں بچوں کو اکٹھے ایک بستر پر بھی نہ سلاؤ۔ تو نماز نہ پڑھنے پر سختی آپ لوگ اس وقت کر سکتے ہیں جب کہ خودآپ کے عمل ہی ایسے ہوں جو بچوں کے لئے نمونہ ہوں۔ نمازیں اللہ تعالیٰ کے لئے پڑھی جانے والی ہوں نہ کہ دنیاوی اغراض کے لئے۔ اور جب اس طرح نمازیں پڑھی جائیں گی تو وہ جہاں آپ کو اور آپ کے بچوں کو اللہ کا قرب دلانے والی ہوں گی اور دنیا و آخرت سنوارنے والی ہوں گی وہاں معاشرے میں بھی اس پاک تبدیلی کا اثر نظر آئے گا۔ آپ کے دلوں کے کینے اور بغض بھی نکلیں گے۔ اور اس طرح سے ہر ایک کو جماعت کے وقار کو اونچا کرنے کی بھی فکر رہے گی۔ معاشرے میں بھی نیک اثر قائم ہو گا۔ جن لوگوں نے یہاں جاپانی عورتوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں ان کے خاندانوں میں بھی احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملے گی جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کے نیک اثر بھی قائم ہوں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے اپنی نسلوں کی بقا کے لئے نمازوں کے ساتھ مالی قربانی کرنے کا بھی حکم ہے۔ فرماتا ہے{اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّأَنْفُسِکُمْ} (التغابن:17) کہ اپنے مال اس راہ میں خرچ کرتے رہویہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر رہے گا۔ اسی طرح اور بے شمار جگہ اللہ تعالیٰ نے نمازوں کے حکم کے ساتھ مالی قربانیوں کا ذکرفرمایا ہے۔ اور آج کل کے زمانے میں جب انسان کی اپنی ضروریات بھی بڑھ گئی ہیں۔ قسم ہا قسم کی ایجادات کی وجہ سے انسانی ترجیحات اور خواہشات بھی مختلف ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں مالی قربانیا ں یقینا بہت اہمیت کی حامل ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے ساتھ مالی قربانیوں کی اس زمانے میں ویسے بھی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ یقینا یہ نفسوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے اس لئے اس طرف بھی توجہ دیں۔ یہ قربانیاں آپ کی اور آپ کی نسلوں کی دنیا و آخرت سنوارنے کی ضمانت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ مختلف پیرایوں میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف جگہوں پر مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ایک سوال کرنے والے کے یہ پوچھنے پر کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لیجائے اور آگ سے دور کر دے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ اور نمبر2یہ کہ نماز پڑھ اور زکوٰۃ دے اور صلہ رحمی کر۔ یعنی رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ (صحیح بخاری کتاالادب باب فضل صلۃ الرحم حدیث نمبر 5983)
عبادت اور نماز کے بارے میں مَیں نے پہلے کچھ تھوڑی سی تفصیل بتائی ہے۔ پھر اس کے بعد زکوٰۃ کا حکم آتا ہے۔ یہ جو زکوٰۃ ہے یہ مالی قربانی ہے۔ ایک تو جن پر زکوٰۃ واجب ہے، اصل تعریف کے لحاظ سے جو زکوٰۃ کی ہے، ان کو زکوٰۃ دینی چاہئے دوسرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ہوتا رہا ہے زکوٰۃ کے علاوہ بھی ضرورت پڑنے پر آپ مالی تحریک فرمایا کرتے تھے اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق صحابہ مالی قربانیاں کیا کرتے تھے تو اس زمانے میں بھی اسی سنت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی بیعت میں آنے والوں کے لئے لازمی قرار دیا ہے کہ باقاعدگی سے مالی قربانی کریں اور چندے دیں۔ اور پھر بعد میں خلفاء نے اس کو باقاعدہ معین نظام کی شکل دے دی۔
پس ہمیشہ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ مالی قربانی اس کے اپنے فائدے کے لئے ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ{وَاَنْفِقُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَاتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ } (البقرہ۔ 196) اور اللہ کے راستے میں جان مال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ پس اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ترجیحات بدل گئی ہیں یا بدل رہی ہیں۔ جانی اور مالی قربانیوں کی بہت اہمیت ہے۔
پس آپ میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں آ کر اللہ تعالیٰ نے جو آپ کے، بہت سوں کے حالات میں بہتری پیدا کی ہے اس کے شکرانے کے طور پر اپنی مالی قربانیوں کے جائزے لیں۔ نظام نے جو شرح مقرر کی ہے کیا آپ اس کے مطابق چندے دے رہے ہیں ؟ یہ چندہ تبھی نفسوں کو پاک کرنے کے ذریعہ بنے گا اور اس حدیث کے مطابق جنت میں لے جانے کا ذریعہ تبھی بنے گا جب خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کے جذبے سے دیا جائے گا۔ جب خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی قربانیاں دی جائیں گی۔ اگر آمد چھپا کر ادائیگیاں کر رہے ہیں، چندے دے رہے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ وہ انسان کے دل کے نہاں درنہاں انتہائی گہرے گہرے جو خانے ہیں ان کو بھی جانتا ہے۔ اگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے پوری شرح سے چندہ نہیں دے سکتے تو صاف اور سیدھی بات کریں کہ گو میری آمد تو زیادہ ہے لیکن بعض مجبوریوں کی وجہ سے میں پوری شرح سے چندہ نہیں دے سکتا۔ اور اس بارے میں کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں کہ جو کوئی بھی مجھے لکھے گابغیر تحقیق کے اس کو کم شرح سے چندہ دینے کی اجازت مل جائے گی جس شرح سے بھی وہ چندہ دینا پسند کرتا ہے۔ لیکن یہ کہہ کر کہ میری آمد ہی اتنی ہے جس پر میں چندہ دے رہا ہوں جبکہ آمد زیادہ ہو تو ایک گناہ تو کم چندہ دے کر کر رہے ہیں اور اس سے بڑا گناہ جھوٹ بول کر۔ اور جھوٹ کو اللہ تعالیٰ نے شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ پس نمازیں بھی اور دوسری نیکیاں بھی تب ہی فائدہ دیتی ہیں جب وہ خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر اور اس کے تمام حکموں پر چلتے ہوئے کی جائیں اور یہی چیزیں ہیں جو آپ کو دین ود نیا کی نعمتوں کا وارث بنائیں گی۔ نسلوں کی حفاظت کریں گی۔ آپ کے اندر ان پاک تبدیلیوں کی وجہ سے آپ کو دعوت الی اللہ کے کام میں مدد دیں گی۔ اس کے بہتر نتائج اور ثمرات حاصل ہوں گے۔ پس اس ذمہ داری کو بھی اللہ تعالیٰ کا ایک اہم حکم سمجھتے ہوئے ادا کریں اور اپنی عبادتوں کے ساتھ ساتھ اپنی مالی قربانیوں کے بھی معیار بڑھائیں۔ یہی باتیں ہیں جوآپ میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا باعث بنیں گی اور اس ذریعہ سے آپ کے عملی نمونے قائم ہوں گے۔ اور یہ عملی نمونے جیسا کہ میں نے کہا تبلیغی میدان کھولیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہراحمدی کو یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ حدیث جو مَیں نے پڑھی تھی اس میں ایک نصیحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ صلہ رحمی کرو یعنی اپنے قریبیوں سے، رحمی رشتہ داروں سے نیک اور اچھا سلوک کرو۔ ان رحمی رشتہ داروں میں میاں بیوی کے ایک دوسرے کے رحمی رشتہ دار بھی شامل ہیں ان کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ ان سے بھی نیک سلوک کرنا چاہئے۔ پس اس لحاظ سے بھی ایک د وسرے کے جذبات کا خیال رکھیں۔ خاص طور پر جن لوگوں نے یہاں شادیاں کی ہوئی ہیں وہ اس بات کو خاص اہمیت دیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے سے، اپنے عملی نمونے قائم کرنے سے تبلیغ کے میدان بھی وسیع ہوں گے اور آپ کا آپس میں محبت و پیاربھی بڑھے گا اور نئی نسلوں کی تربیت بھی صحیح طرح ہوسکے گی۔ پس جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے ہر ایک کو ہرلحاظ سے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہر ایک کی اصلاح کی جو یہ کوشش ہو گی اللہ کے فضل سے بہتر نتائج لائے گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’بیان میں جب تک روحانیت اور تقویٰ و طہارت اور سچا جوش نہ ہو اس کا کچھ نیک نتیجہ مرتب نہیں ہوتاہے۔ وہ بیان جو کہ بغیر روحانیت اور خلوص کے ہے وہ اس پرنالے کے پانی کی مانند ہے جو موقع بے موقع جوش سے پڑ اجاتا ہے اور جس پرپڑتا ہے اسے بجائے پاک و صاف کرنے کے پلید کر دیتا ہے۔ انسان کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ} (المائدۃ:106) یعنی اے مومنو! پہلے اپنی جان کی فکرکرو۔ اگر تم اپنے وجود کو مفید ثابت کرنا چاہو تو پہلے خود پاکیزہ وجود بن جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ باتیں ہی باتیں ہوں اور عملی زندگی میں ان کا کچھ اثر دکھائی نہ دے۔ ایسے شخص کی مثال اس طرح سے ہے کہ کوئی شخص ہے جو سخت تاریکی میں بیٹھا ہے اب اگر یہ بھی تاریکی ہی لے گیا تو سوائے اس کے کہ کسی پر گر پڑے اور کیا ہو گا۔ اسے چراغ بن کر جانا چاہئے تاکہ اس کے ذریعہ سے دوسرے روشنی پائیں ‘‘۔ (البدر جلد 7نمبر20-19 مورخہ24؍ مئی 1908ء صفحہ3)
تو یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہم سے توقعات کہ اندھیرے میں بیٹھے ہوؤں کو روشنی دکھائیں، نہ کہ خود بھی اس تاریکی میں چلے جائیں اور خود بھی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ اور یہ روشنی کس طرح حاصل ہو گی یہ سب کچھ روحانیت میں ترقی کئے بغیرممکن نہیں۔ اور روحانیت کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اور اس کے حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ پس ہر ایک اس طرف سنجیدگی سے توجہ دے اور اپنے اندر تبدیلیوں کے ساتھ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو اس ملک کے ہر گھر میں پہنچانے کی کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ سب کو حقیقی معنوں میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر چلنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم میں سے ہر ایک ان دعاؤں کا وارث بن جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: مَیں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خداتعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے۔ اور بخیل اور مُمسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں۔ اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خداتعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے مَیں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں ‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 619، اشتہار 16؍اکتوبر ح1903جدید ایڈیشن مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس خواہش اور دعا سے حصہ پانے والا ہو۔ اور اگر کوئی کمزوریاں اور کمیاں ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اللہ تعالیٰ ہمیں دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے جویہاں دو دن ہیں جن میں آپ اکٹھے ہو رہے ہیں، یہ خاص طور پر دعاؤں میں گزاریں اور اللہ سے بہت مدد مانگیں تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفسوں کو پاک کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے خوبصورت پیغام کو بھی اس علاقے میں پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے درمیان میں فرمایا کہ: نماز جمعہ اور عصر کے بعد مَیں دو جنازے غائب پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ غائب ہے ایک شہید کا۔ دو دن ہوئے سانگھڑ کے ہمارے ایک احمدی ڈاکٹر مجیب الرحمن پاشا صاحب اپنے کلینک کے باہر کھڑے تھے کہ انہیں نامعلوم افراد نے آ کے فائر کرکے شہید کر دیا اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کوئی موٹر سائیکل پر آیا۔ اس نے منہ ڈھانکا ہوا تھا۔ فائر کرکے دوڑ گیا۔ سر پر زخم آیا جس سے ڈاکٹر صاحب جانبرنہ ہو سکے۔ تو ایک تو ان کی نمازجنازہ ہے۔ آپ بڑے کم گو اور خدمت کرنے والے اور چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔
دوسرا جنازہ غائب جومَیں کسی وجہ سے پڑھا نہیں سکا ہوں۔ چند مہینے پہلے میری ممانی صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر مرزا منور احمدصاحب کی وفات ہوئی تھی۔ آپ حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی بیٹی تھیں۔ مختلف جگہوں پر لجنہ میں ان کو خدمات کی توفیق ملی۔ بڑی ملنسار خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان دونوں کے جنازہ غائب ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے سب سے پہلا کام اس کے آگے جھکنا، اس کی عبادت کرنا اس کی طرف توجہ کرنا ہے، اور یہ تعلق جوڑنے کے لئے سب سے اہم بات اپنی عبادتوں کی طرف توجہ اور اپنی نمازوں کی حفاظت ہے۔
پاکستان سے آنے والے احمدیوں کو ہروقت یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہ یہاں اسلام اور احمدیت کے نمائندہ ہیں۔
سرزمین جاپان سے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ کی پہلی بار ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطہ کے ذریعہ دنیا بھر میں براہ راست نشریات۔
فرمودہ مورخہ 12؍مئی 2006ء (12؍ہجرت 1385ھش) ناگویا (جاپان)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔