اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ناصراورنصیرکی پرمعارف تفسیر
خطبہ جمعہ 2؍ جون 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی:
{اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْا َشْہَادُ} (المومن:52)
اللہ تعالیٰ جب اپنے انبیاء دنیا میں بھیجتا ہے تو ان کے دل اس یقین سے پُر کرتا ہے کہ زندگی کے ہر لمحہ پر، ہر موڑ پر اللہ تعالیٰ ان کا معین و مدد گار ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کا یہ یقین ہی ہے جو انہیں توکل میں بڑھاتا چلا جاتا ہے اور جو انبیاء کی تاریخ ہمارے سامنے ہے جس کی معراج ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے کیسے کٹھن اور مشکل حالات اور مقامات سے اللہ تعالیٰ اپنے ان خاص بندوں کو اپنی نصرت فرماتے ہوئے نکال کر لے آتا ہے اور پھر اس کے بعد یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے انبیاء کے وقت میں، ان کی زندگی میں ان کے ماننے والے اور اس تعلیم پر عمل کرنے والوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ اور پھر بعد میں جو اس حقیقی تعلیم کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں جو کہ وہ انبیاء لے کر آئے وہ لوگ یہ نظارے دیکھتے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے فضلوں سے حصہ پانے کی معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے اور آپؐ پر ایمان اور آپؐ کی تعلیم پر مکمل عمل اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور نصرتوں کا حصہ دار بناتا ہے اور اس تعلیم پر عمل کرنے والوں کی دنیا و آخرت سنوارتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے وعدہ ہے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ یقینا ہم اپنے رسول کی اور ان کی جو ایمان لائے ہیں اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں بہت سی آیات میں اپنی صفت ناصر اور نصیر کا مختلف پہلوؤں اور مختلف مضامین کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ رسول اور مومنوں سے اللہ تعالیٰ نے مدد کے وعدے کئے اس کا ایک نمونہ ہم اس آیت میں دیکھ چکے ہیں جو مَیں نے پڑھی ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اور کن لوگوں کی خدا نے مدد کی، کن انعامات کے ساتھ مدد کی، کن مختلف حالات میں مدد کی جبکہ ایک لحاظ سے بعضوں پر مایوسی کی کیفیت طاری تھی اور اس طرح کے کئی مضمون ہیں۔ آج مَیں کوشش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے ذکر میں کچھ آیات آپ کے سامنے رکھوں۔ اگر ہم لغت میں دیکھیں تو اس لفظ نَصْر اور نَصَرَ یا نَاصِرْ کے بڑے وسیع معنے ملتے ہیں۔ مثلاً اَلنَّصْرکا مطلب ہے مددگار، بارش۔ اَلنُّصْرَۃ کا مطلب ہے مدد، بہترین مدد، بارش۔ تو یاد رکھناچاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ ناصر بنتا ہے اور نصرت فرماتا ہے، مدد کرتا ہے، مددگار ہوتا ہے تو ایک عام انسانی سوچ والی مدد نہیں ہوتی بلکہ اس کی مدد ایسی کامل اور بھرپور اور زندگی بخش اور بارش کی طرح برسنے والی مدد ہوتی ہے جس میں کوئی سقم نہیں ہو سکتا اور اس مدد کے مقابل پر کوئی مخالف ٹھہر نہیں سکتا۔ لیکن اس مدد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا خالص بندہ بننا اور وہ حالت پیدا کرنا ضروری ہے جو انبیاء پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ ہی کے طفیل یہ مدد ملنی ہے اور وہ مدد حاصل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ وہ حالت ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو آپؐ ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام جیسی نعمت سے نوازا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد تو ہم نے بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں کی تعمیل کر دی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یقیناہمیں ان لوگوں میں شمار ہونا چاہئے جن کی اللہ تعالیٰ مدد فرماتا ہے یا جن سے مدد فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے۔
پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی وجہ سے ہم میں وہ کیفیت پیدا ہو گئی ہے؟ جب ہر لمحہ اور ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی ہم پر بارش ہوتی ہے یا ہو رہی ہے۔ ایسی مدد جو ہماری زندگیوں میں وہ نموپیدا کرنے والی ہو جس سے ہر طرف آنکھوں کو روشن کرنے والا اور دل کو لبھانے والا سبزہ نظر آتا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو ایمان لانے والوں سے اس سلوک کا اظہار فرمایا ہے کہ اس دنیا میں بھی اُن کا مدد گار ہو گا اور اگلے جہان میں بھی، جبکہ ہر چیز کی گواہی ہو گی حتیٰ کہ اپنے اعضاء کی بھی گواہی ہو گی اور وہاں پھر کوئی غلط بیان نہیں دیا جا سکتا۔ جو بھی گواہی ہو گی وہ حقیقت بیان کرنے والی ہو گی اور جواللہ تعالیٰ کے احکامات پر صحیح عمل کرنے والے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمانے کا وعدہ کیا ہے اس وقت جو ایسے لوگ ہوں گے ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق نصرت فرماتے ہوئے بخشش کا سلوک فرمائے گا اور اپنی بخشش کی چادر میں لپیٹ لے گا۔ من حیث الجماعت تو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء سے، اپنے پیاروں سے وعدے کے مطابق ہمیشہ مدد فرمائی ہے اور فرماتا ہے لیکن انفرادی طور پر بھی اپنی حالتوں کو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالتے ہوئے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کی نصرت کو جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور اس خوشخبری سے فائدہ اٹھانا چاہئے کہ مَیں کامل ایمان والوں کی دنیا و آخرت میں مدد کروں گا۔
آج احمدی ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے حقیقی مخاطب بھی ہیں اور مصداق بھی ہیں۔ دوسرے مسلمان جنہوں نے اس زمانے کے امام کو نہیں مانا وہ تو خود ہی اپنے آپ کو اس خوشخبری سے باہر نکال رہے ہیں کیونکہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے دعوے کے باوجود آپؐ کے بعض حکموں پر عمل نہیں کیا اور پیشگوئیوں کی تصدیق نہیں کی۔ اور یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر آج ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے مسلمانوں پر اس وعدے کے مطابق پورے ہوتے نہیں دیکھ رہے۔ اگر کوئی کہے کہ نہیں، یہ غلط ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انکار سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر ہمیں کوئی یہ دکھائے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نصرت کا وعدہ کہاں ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی کمی ہے، کوئی کمزوری ہے تو مسلمانوں کے ایمان کی حالت میں ہے۔ ورنہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ نہ ماننے والوں اور کفار کے منصوبے خاک میں نہ ملیں۔ پس اب بھی وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس دنیا میں دیکھنے کے لئے اور اگلے جہان میں گواہوں کے کھڑے ہونے سے پہلے اس مسیح محمدی کو مانیں۔ ماننے کے حکم کے سب سے پہلے مخاطب مسلمان ہیں۔ اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت مسلمان امت پر کس طرح نازل ہوتی ہے۔
پس آج کل کے حالات کی وجہ مسلمانوں کی عمومی کمزوری اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انکار بھی ہے۔ ورنہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ گزشتہ انبیاء سے کئے گئے وعدے تو اللہ تعالیٰ پورے فرماتا رہا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام نبیوں کے سردار ہیں اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں زمین و آسمان پیدا نہ کرتا اگر تجھے پیدا نہ کرتا، ایسے اعلیٰ پائے کے نبی اور خاتم الانبیاء سے کئے گئے وعدے اللہ تعالیٰ پورے نہ فرماتا۔
ہم پھر ہمدردی کے جذبے سے اور مُسلم اُمّہ سے محبت کی وجہ سے کہتے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ سوچیں اور غور کریں، مسلمان ملکوں میں احمدیت اور امام الزمان کی مخالفت کی بجائے اس کے مدد گار بنیں، اس پر ایمان لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو پورا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ہر لمحہ اور ہر آن مسلمانوں کا مددگار ہو۔ آج ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے مومنین کی جماعت جنہوں نے حقیقی طور پر زمانے کے امام کو مانا ہے اور جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر عمل کر رہے ہیں، ان کے ساتھ تو پورے ہو رہے ہیں۔ اس جماعت کے ساتھ تو پورے ہو رہے ہیں اور من حیث الجماعت ہم ہر روز ایک نئی شان سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ پس ہر احمدی کو بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کو مزید حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو پہلے سے بڑھ کر دنیا کوپہنچانے کی کوشش کرے۔ دنیا کو بتائیں کہ اگر زمانے کے امام کو نہیں مانو گے تو اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم رہوگے اور اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق، اس انذار کے مطابق ان کے خلاف نبی بھی گواہ کھڑے ہوں گے، فرشتے بھی گواہ کھڑے ہوں گے بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ جسم کے تمام اعضاء بھی گواہی دیں گے کہ باوجود پیغام پہنچنے کے، باوجود مسیح موعود کا دعویٰ سننے کے تم لوگوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ مخالفت کی اور مخالفت میں بھی اتنے بڑھے کہ احمدیوں پر ظلم کی وہ داستانیں رقم کرنے لگے جو بعض پہلے انبیاء کی قومیں اپنے انبیاء اور ان سے ماننے والوں سے کرتی ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ میں بھی ظلم ہوتے رہے۔ لیکن اس سلوک سے جماعت کو کبھی بھی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ہر موقع پر ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور مدد کے نظارے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بڑھ کر ہمیں دکھائے اور مخالفت کی ہرآندھی جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت سے اور اونچا اڑا کر لے گئی۔ ہم کسی حکومت پر، کسی تنظیم پر نہ تو بھروسہ کرتے ہیں، نہ ہی مدد مانگتے ہیں۔ ہماری مدد تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مانگتے ہوئے اسی سے وابستہ رہی ہے۔ ہاں بعض گروہوں کی بعض حرکتوں کا، ان کی تصویر دکھانے کے لئے، ان کا چہرہ دکھانے کے لئے، دنیا کو بتاتے ضرور ہیں کہ احمدیوں کے ساتھ بعض جگہوں پر بعض ملکوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ تو قع کبھی نہیں رکھی کہ یہ لوگ ہمارے معین و مددگار ہیں یا ان لوگوں پر ہمارا بھروسہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ{اِنَّا لَنَنْصُرُرُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا} (المومن:52)ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیونکر مدد کر سکتا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُوَ نِعْمَ الْوَکِیْل ہے۔ دنیا اور دنیا کی مددیں ان لوگوں کے سامنے کَالْمَیِّتْ ہوتی ہیں ‘‘۔ یعنی ایک مردے کی طرح ہوتی ہیں ’’اور وہ مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ108-107جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
تو یہ تو ہے ہمارا مدد کا ایک تصور اور ایک تعلیم جس پر ہم عمل کرتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ناصر، نصیر۔ اب مَیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو اپنے انبیاء سے مدد کے سلوک کے اور ان کے مشکل وقت میں دشمن کے خلاف مدد کے نظارے دکھائے ہیں ان کی کچھ مثالیں دیتا ہوں۔ حضرت نوح ؑ کی پکار پر اللہ تعالیٰ نے کس طرح دعا کو قبول کیا اور ظالموں سے نجات دلائی۔ اس کا ذکر قرآن کریم میں یوں آتا ہے{وَنُوْحًا اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَالَہٗ فَنَجَّیْنٰـہُ وَاَھْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ۔ وَنَصَرْنٰـہُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰـتِنَا۔ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمَ سَوْئٍ فَاَغْرَقْنٰھُمْ اَجْمَعِیْنَ} (الانبیاء:78-77)اور نوح کا بھی ذکر کر جب قبل ازیں اس نے پکارا تو ہم نے اسے اس کی پکار کا جواب دیا اور اسے اور اس کے اہل کو ایک بڑی بے چینی سے نجات بخشی۔ اور ہم نے اس کی اُن لوگوں کے مقابل مدد کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلادیا تھا۔ یقینا وہ ایک بڑی بدی میں مبتلا لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔
جس طرح حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے کشتی کے ذریعہ سے بچایا تھا اور دعا قبول کرتے ہوئے قوم کو غرق کیا تھا اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے طاعون کا نشان دے کر فرمایا کہ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں یہ خدا کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھ پر۔
یہ الہام ہوا جو قرآنی آیات ہیں۔ اس پرآپؑ نے کشتی نوح تحریر فرمائی اور اس میں اپنی تعلیم بیان فرمائی کہ جو اس پر ایمان لائیں اور عمل کریں وہ محفوظ رہیں گے۔ اسی طرح آپؑ نے فرمایا جو آپ کا گھر ہے جو بظاہر اینٹوں اور گارے کا گھر ہے، جو اس دار میں پناہ لے گا وہ محفوظ رہے گا۔ تو یہ آپؑ سے اللہ تعالیٰ کا مدد کا وعدہ تھا۔ اور جب وبا پھوٹی تو ایک دنیا نے دیکھا کہ احمدی محفوظ رہے اور بڑی شان سے یہ وعدہ اور یہ الہام پورا ہوا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اور بھی بے شمار الہامات ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اسی تائید و نصرت کے سلسلے میں بعض واقعات بھی ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا مَیں اس وقت یہاں صرف مختلف واقعات کے بارے میں قرآن کریم کی آیات پیش کر رہا ہوں۔ انشاء اللہ باقی باتیں آئندہ بھی ہوں گی۔
پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ ہے۔ جب مخالفین نے آپؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی کس طرح مدد فرمائی اور مخالفین کی تمام تدبیریں ناکام و نامراد ہو گئیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے{قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰ لِھَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْن۔ قُلْنَا یٰـنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ۔ وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْا َخْسَرِیْنَ} (الانبیاء:71-69) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے کہا اس کو جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم کچھ کرنے والے ہو۔ ہم نے کہا اے آگ! تو ٹھنڈی پڑ جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔ اور انہوں نے اس سے ایک چال چلنے کا ارادہ کیا تو ہم نے ان کو کلیۃًنامراد کر دیا۔
پھر حضرت موسیٰ ؑ کے بارے میں آتا ہے کہ{وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰی مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ۔ وَنَجَّیْنٰـھُمَا وَقَوْمَھُمَا مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ۔ وَنَصَرْنٰـھُمْ فَکَانُوْا ھُمُ الْغٰلِبِیْنَ} (الصّٰفّٰت:117-115) اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اور یقینا ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کیا تھا اور اُن دونوں کو اور اُن کی قوم کو ہم نے بہت بڑے کرب سے نجات بخشی تھی اور ہم نے ان کی مدد کی۔ پس وہی غالب آنے والے بنے۔
دیکھیں فرعون کے مقابلے پر کس طرح موسیٰ کو غلبہ عطا فرمایا تھا۔ اس کی تفصیل میں جانے کے لئے تو وقت نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ ایک علیحدہ مضمون ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ایسے نظارے نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
یہاں مَیں اس وقت یہ کہتا ہوں کہ آج مسلمان جو نعرے لگاتے ہیں کہ فلاں فرعون ہے اور فلاں فرعون ہے تو یہ جو واقعات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں یہ اس لئے ہیں کہ اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بھی یہ نظارے دکھائے جائیں گے بشرطیکہ وہ اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔ اگر فرعون پیدا ہوں گے تو فرعونوں کے سر کچلے جائیں گے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت یہ نظارے دیکھتی ہے۔ اگر مسلمانوں نے بھی جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ابھی تک نہیں مانا، یہ نظارے دیکھنے ہیں تو اپنے آپ کو بھی کامل او ر مکمل مومن بناناہو گا تب یہ نظارے نظر آئیں گے۔ پس فرعونوں پر غالب آنے کے لئے اپنی حالتوں پر غور کرنا ہو گا، دیکھنا ہو گا کہ کہاں کہاں کمیاں ہیں۔ اور جو کمی ہمیں نظر آتی ہے وہ یہی ہے کہ زمانے کے مسیح کا انکار کر رہے ہیں۔ جب تک موسیٰ کے ساتھ نہیں جڑیں گے فرعونوں پر غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ پھر جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظاروں کی معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہے، آپ ؐ کی ذات میں ہمیں نظر آتی ہے جس کے بے شمار واقعات ہیں ان واقعات کو تو مَیں اس وقت نہیں لے رہا۔ لیکن قرآن کریم میں جو بعض مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے چند ایک کو بیان کروں گا۔
ایک مثال تو ہجرت کے وقت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا معجزہ دکھایا جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کا یوں ذ کر فرمایا ہے کہ{اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ } (التوبۃ:40)
اس کا ترجمہ یہ ہے، اگر تم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ بھی کرو تو اللہ پہلے بھی اس کی مدد کر چکا ہے جب اسے ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا وطن سے نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل کی اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھا اور اس نے ان لوگوں کی بات نیچی کر دکھائی جنہوں نے کفر کیا تھا۔ اور بات اللہ ہی کی غالب ہوتی ہے۔ اور اللہ کامل غلبہ والا اور بہت حکمت والا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:’’دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشانِ پا یہاں تک ہی آکر ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہو گا۔ مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے، کبوتر نے انڈے دئیے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپؐ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں ‘‘۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر ؓ بھی سن رہے تھے۔ ’’ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھے آئے ہیں لیکن آپؐ کی کمال شجاعت کو دیکھوکہ دشمن سر پر ہے اور آپؐ اپنے رفیق صادق صدیق ؓ کو فرماتے ہیں۔ یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؐ نے زبان ہی سے فرمایا۔ کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں اشارہ سے کام نہیں چلتا‘‘۔ یعنی یہ فقرہ بولا تو یقینا آپؐ نے اونچی آواز میں بولا ہو گا اور کہا ہو گا کیونکہ اشارے سے تو کام نہیں چلتا۔ فرمایا کہ’’باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس امر کی پروا نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔ خداتعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے‘‘ کہ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام زیر سورۃ التوبہ آیت40، جلد 2صفحہ 628)
پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے موقع پر کس طرح آپ کی دعاؤں کو سنا اور مدد فرمائی اور بہت تھوڑے سے مسلمانوں کے ذریعے سے جن کے پاس پوری طرح اسلحہ بھی نہیں تھا یا یوں کہنا چاہئے کہ ایک لحاظ سے تقریباًنہتے تھے، تربیت یافتہ اسلحے سے لیس جنگجو کفار کو شکست دلوائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ {وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ۔ فَاتَّقُوْااللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ} (آل عمران:124) اور یقینا اللہ بدر میں تمہاری نصرت کر چکا ہے جبکہ تم کمزور تھے۔ پس اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم شکر کر سکو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سلسلے میں اور اس بات کو اپنے زمانے کے ساتھ جوڑتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی اور وہ مدد اَذِلَّۃٌ کی مدد تھی۔ جس وقت 313آدمی صرف میدان میں آئے تھے اور کل دو تین لکڑی کی تلواریں تھیں اور ان 313میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے۔ اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہو گی۔ اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعا کی اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ لَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا یعنی اے اللہ اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا۔
فرماتے ہیں کہ:’’سنو! مَیں بھی یقینا اُسی طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت تیار کر رہا ہے۔ وہی بدراور اَذِلَّۃٌ کا لفظ موجود ہے۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ اسلام پر ذلت نہیں آئی؟۔ نہ سلطنت ظاہری میں شوکت ہے‘‘۔
فرماتے ہیں کہ: ایک یورپ کی سلطنت منہ دکھاتی ہے تو بھاگ جاتے ہیں اور کیا مجال ہے جو سر اٹھائیں۔ اس ملک کا کیاحال ہے؟‘‘ہندوستان کی بات کر رہے ہیں۔ ’’کیا اَذِلَّۃ ٌ نہیں ہیں۔ ہندو بھی اپنی طاقت میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک ذلت ہے جس میں ان کا نمبر بڑھا ہوا ہے۔ جس قدر ذلیل سے ذلیل پیشے ہیں وہ ان میں پاؤ گے۔ ٹکڑ گدا مسلمان ہی ملیں گے۔ جیل خانوں میں جاؤ تو جرائم پیشہ گرفتار مسلمان ہی پاؤ گے۔ شراب خانوں میں جاؤ کثرت سے مسلمان۔ اب بھی کہتے ہیں ذلت نہیں ہوئی؟ کروڑ ہا ناپاک اور گندی کتابیں اسلام کے رد ّمیں تالیف کی گئیں۔ ہماری قوم میں مغل، سیّد کہلانے والے اور شریف کہلانے والے عیسائی ہو کر اسی زبان سے سید المعصومین خاتم النبییّن صلی اللہ علیہ وسلم کو کوسنے لگے۔ صفدر علی اور عمادالدین وغیرہ کون تھے؟ اُمہّات المومنین کا مصنف کون ہے؟ ‘‘ یہاں مسلمانوں کا ذکر کیا ہواہے کہ اس وقت کے زمانے میں یہ حالت تھی۔ آج کل بھی دیکھ لیں بعض جگہ اسی طرح کے حالات ہیں۔ فرماتے ہیں کہ:’’جس پر اس قدر واویلا اور شور مچایا گیا اور آخر کچھ بھی نہ کر سکے‘‘۔ اب جو کچھ ہوا، شور شرابے کے بعد کیا ہوا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ سب کچھ بھول بھال گئے ہیں۔ جو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وقتاً فوقتاً فتنے اٹھتے رہتے ہیں اور پھر اسلام کے خلاف جو ایک محاذ بنا ہوا ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’اس پر بھی کہتے ہیں کہ ذلّت نہیں ہوئی۔ کیا تم تب خوش ہوتے کہ اسلام کا اتنا رہا سہا نام بھی باقی نہ رہتا۔ تب محسو س کرتے کہ ہاں اب ذلت ہوئی ہے!!!۔ آہ! مَیں تم کو کیونکر دکھاؤں جو اسلام کی حالت ہو رہی ہے۔ دیکھو! مَیں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہی بدر کا زمانہ ہے۔ اسلام پر ذلّت کا وقت آ چکا ہے۔ مگر اب خدا نے چاہا ہے کہ اس کی نصرت کرے۔ چنانچہ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ مَیں اسلام کو براہین اور حجج ساطعہ کے ساتھ تمام ملّتوں اور مذہبوں پر غالب کرکے دکھادوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو۔ اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے‘‘۔ (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام، زیر سورۃ آل عمران آیت 124جلد 2صفحہ149-150)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کی شان تو قائم ہونی ہے اور احمدیت کے ذریعے سے قائم ہونی ہے۔ گو کہ مخالفین اور دشمن اور جو اسلام کے خلاف ہیں وہ بھی اس وقت پورا زور لگا رہے ہیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدئہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا۔ پھر تم کیوں تعجب کرتے ہوکہ اس نے اسلام کی نصرت کی؟‘‘۔ (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام، زیر سورۃ آل عمران آیت 124جلد 2صفحہ150)
یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کو، آپ کی آمد کو دیکھ کے پریشان نہ ہو، تعجب نہ کرو۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کا ساتھ دیں۔ پس ہر احمدی کو بھی چاہئے کہ یہ پیغام بڑے زور سے دنیا کو پہنچائیں، خاص طور پر اسلامی دنیا کو پہنچائیں۔ جن حالات کا نقشہ حضرت مسیح موعود الصلوٰۃ والسلام نے کھینچا ہے بعینہٖ وہی حالات ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف سے مختلف طریقوں سے دجل سے کام لے کر بھی اور طاقت کے استعمال سے بھی مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اپنی شرائط پر ان سے معاہدے کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پس یہ زمانہ تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آئے اور وہ اس کی سنت کے مطابق اس کے خاص بندوں کے آنے سے ہی آتی ہے۔ آج یہ دعویٰ بھی موجود ہے۔ مسلمانوں کو بھی اس پر سوچنا چاہئے بجائے اس کے کہ مسلمان ممالک مسیح محمدی کی مخالفت میں کھڑے ہو کر اس کے ماننے والوں پر ظلم ڈھائیں، اس کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو۔
اللہ تعالیٰ سب کو عقل دے اور مسلمان امت پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل کرنے والی ہو جس کا نقشہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں کھینچا ہے۔ فرمایا کہ {وَاذْکُرُوٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْا َرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰ وٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ} (الانفال:27)۔ اور یاد کرو جب تم بہت قلیل تھے اور زمین میں کمزور شمار کئے جاتے تھے اور ڈرا کرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں اچک نہ لے جائیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا تاکہ تم شکر گزار بنو۔ پس یہ شکرگزاری اسی وقت ہو سکتی ہے اور ہم ان نعمتوں کے وارث تبھی ہو سکتے ہیں، پہلوں سے تبھی مل سکتے ہیں، یہ نظارے تبھی نظر آئیں گے جب اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی اور اللہ تعالیٰ کی مدد تب نظر آئے گی جب مسیح محمدی کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے، سمجھ دے اور ہمیں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق دے۔ ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے ہم ہمیشہ ہر لمحہ اور ہرآن دیکھتے چلے جائیں۔ یہ مضمون انشاء اللہ آگے بھی چلے گا۔
حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے درمیان فرمایا: کل انشاء اللہ تعالیٰ مَیں نے یورپ کے سفرپر جانا ہے، اجتماعات اور جلسہ وغیرہ دو تین ملکوں جرمنی، ہالینڈ، بلجیم میں ہیں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور نصرت فرماتا رہے۔ اور ہر لحاظ سے یہ سفر بابرکت ہو۔ اور جس مقصد کے لئے یہ سفر اختیار کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ ہر آن اپنی مدد اور نصرت کے نظارے ہمیں دکھاتا رہے۔
آج احمدی ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے حقیقی مخاطب بھی ہیں اور مصداق بھی ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس دنیا میں دیکھنے کے لئے اس مسیح محمدی کو مانیں۔ اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت مسلمان امت پر کس طرح نازل ہوتی ہے۔
فرمودہ مورخہ 02؍ جون 2006 ء(02؍احسان 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔