تعمیر مساجد کی اہمیت اور برکات اور ہماری ذمہ داری
خطبہ جمعہ 16؍ جون 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :
{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُوْلٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ} (التوبۃ:18)
اس وقت مَیں آپ کے سامنے دو باتیں رکھنا چاہتا ہوں، توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ان میں سے پہلی بات تو مساجد کی تعمیر کے بارہ میں ہے۔ جماعت جرمنی کے سپرد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک کام کیا تھا اور اس بات کا اظہار فرمایا تھا کہ اتنے سالوں میں (چند سال کا معین ٹارگٹ دیا گیا تھا)، 100مساجد تعمیر کرنی ہیں۔ اور یہ پہلا ٹارگٹ 1989ء میں دیا تھا اور میرا خیال ہے کہ اس وقت یہ ٹارگٹ جماعت جرمنی کے افراد کی تعداد اور ان کی استطاعت کا اندازہ لگا کرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دیا تھا کہ دس سال میں سو مساجد بنانی ہیں۔ بہرحال جب ایک عرصہ گزر گیا اور یہ ٹارگٹ پورا نہ ہوا۔ یا اس کی طرف اُس طرح پیشرفت نہ ہوئی جس کی اُنہیں توقع تھی تو پھر 1997ء کے جلسے میں انہوں نے اس طرف توجہ دلائی۔
جس کے بعد پھر کچھ تیزی پیدا ہوئی اور چند مساجد بنیں یا سنٹر خریدے گئے۔ پھر 2003ء میں جب مَیں پہلی دفعہ یہاں جلسہ پر آیا تو امیر صاحب نے چند مساجد کا افتتاح مجھ سے کروایا۔ اس وقت مَیں نے امیر صاحب کو کہا تھا کہ آئندہ جب مَیں آؤں تو کم از کم پانچ مساجد تیار ہوں۔ یا جتنی جلدی آپ پانچ مساجد تیار کر لیں گے اس وقت مَیں اپنا جرمنی کا دورہ رکھ لوں گا۔ بہرحال یہ کام اب تیزی سے جاری رہنا چاہئے۔ تو بہرحال جماعت جرمنی نے اس طرف پھر توجہ کی اور نتیجۃً جب مَیں 2004ء کے جلسے پر آیا تو پانچ مساجد کا افتتاح ہوا۔
بعض لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ یہ ٹارگٹ بہت بڑا ہے، اس کو ہم پورا نہیں کر سکتے تو اس وجہ سے بلاوجہ کی ہماری سُبکی ہو رہی ہے اور ان کے خیال میں میری نظر سے جماعت جرمنی گر رہی ہے۔ یہ بالکل غلط سوچ اور خیال ہے۔ مسجد کی تعمیر کا جو ٹارگٹ آپ کو دیا گیا، جس کو آپ نے قبول کر لیا اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں، اور اسے پوراکرنا چاہئے۔ ہر سال 10مساجد کی تعمیر کی بجائے مَیں نے ہر سال 5مساجد کی تعمیر کا جو ٹارگٹ دیا ہے، اس کوپورا کریں۔ یہ کہہ کر کہ مساجد کی تعمیر بہت مشکل کام ہے اس سے بہرحال آپ نے پیچھے نہیں ہٹنا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ مومن کی یہ شان نہیں ہے۔ اگر ٹارگٹ سامنے نہیں رکھیں گے توپھر آپ لوگ بالکل ڈھیلے پڑ جائیں گے۔ یہ سوچ جو پیدا ہو رہی ہے کہ جو رقم جمع ہوئی ہے یا ہو رہی ہے اس سے مسجد کی بجائے کچھ اور منصوبے شروع کئے جائیں جس سے جماعت کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ یہ بالکل غلط خیال ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جہاں تم جماعت کی ترقی چاہتے ہو وہاں مسجد کی تعمیر کر دو۔ الفاظ میرے ہیں، کم و بیش مفہوم یہی ہے۔ تو اگر اس سوچ کے ساتھ مسجدیں بنائیں گے کہ آج اسلام کا نام روشن کرنے کے لئے اور آج اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے ہم نے ہی قربانیاں کرنی ہیں اور کوشش کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا، اور ہمیشہ فرماتا ہے، فرماتا رہا ہے۔ اور اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بھی ہوتے ہیں، اس کے فضل کے نظارے بھی ہم دیکھتے ہیں۔ اگر یہ دعا کریں گے کہ {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا} (البقرۃ:128) اے ہمارے رب ہماری طرف سے اسے قبول کر لے جو بھی قربانی کی جا رہی ہے۔ تو یقینا یہ دعا کبھی ضائع نہ ہو گی۔ اور آپ کو اپنا یہ خیال خود بخود غلط معلوم ہو گا کہ مسجدوں کے منصوبوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ کچھ اور منصوبے ہمیں کرنے چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمانا صرف جوش دلانے کے لئے نہیں تھا بلکہ ایک درد تھا، ایک تڑپ تھی، ایک خواہش تھی کہ دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلانے کے لئے مساجد کی تعمیر کی جائے۔ جب آپ نے یہ ارشاد فرمایا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہندوستان میں مسجدیں تعمیر نہ کرو یا فلاں علاقے میں نہ کرو، بلکہ ہر جگہ مسجدیں تعمیر کرنے کا آپ نے اظہار فرمایا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی ہندوستان میں مسجدیں بنائی جا رہی تھیں اور آج بھی بنائی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ جو مسجدیں جماعت احمدیہ کے علاوہ کہیں بنائی جاتی ہیں یا موجود ہیں یہ مسجدیں اس زمانے کے امام کا انکار کرنے والوں کی ہیں اور انکار کرنے والوں کی طرف سے بنائی جا رہی ہیں۔ تقویٰ پر بنیاد رکھتے ہوئے نہیں بنائی جا رہی ہوتیں۔ یہ اس لئے بنائی گئی تھیں، بنائی جا رہی تھیں اور بنائی جا رہی ہیں کہ فلاں فرقے کی مسجد اتنی خوبصورت ہے اور اتنی بڑی ہے ہم نے بھی اس سے بہتر مسجد بنانی ہے یا اور بہت سی مساجد کے اماموں کی ذاتی دلچسپیاں ہیں جن کی وجہ سے مسجدیں بڑی بنائی جاتی ہیں۔ جن کو مجھے اس وقت چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن جماعت احمدیہ کی جو مسجد بنتی ہے۔ وہ نہ تو دنیا دکھاوے کے لئے بنتی ہے اور نہ دنیا دکھاوے کیلئے بننی چاہئے۔ وہ تو قربانیاں کرتے ہوئے قربانیاں کرنے والوں کی طرف سے بنائی جانے والی ہونی چاہئے۔ اور اس تصور، اس دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہے اور کی جانی چاہئے کہ اے اللہ اسے قبول فرما لے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کو آباد کرنے والے بھی ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بارے میں توُ فرما چکا ہے کہ یہ آیت جسکی مَیں نے تلاوت کی ہے کہ{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِر} اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ اور پھر {وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ} اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ {وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہ} اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ {فَعَسٰٓی اُوْلٰئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ} (التوبۃ:18) پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔ پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ہمیں کامل مومن بندہ بنا کیونکہ مومن بننا بھی تیر ے فضلوں پر ہی منحصر ہے، تیرے فضلوں پر ہی موقوف ہے۔ آخرت پرہمارا ایمان یقینی ہو۔ جب تیرے حضور حاضر ہوں تو یہ خوشخبری سنیں کہ ہم نے مسجدیں تیری خاطر بنائی تھیں۔ تیری عبادت ہر وقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر تھی اور تیرے دین کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہمارے مقاصد میں سے تھا۔ پس اسی لئے ہم مسجدیں بناتے ہیں اور بناتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ہم نمازوں کی طرف توجہ دیتے رہے۔ کوئی نام نمود، کوئی دنیا کا دکھاوا ہمارا مقصد نہ تھا۔ اے اللہ ہماری تمام مالی قربانیاں تیری خاطر تھیں کہ تیرا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے اور تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں سر بلندہو۔ اور تیرا تقویٰ ہمارے دلوں میں اور ہماری نسلوں کے دلوں میں قائم ہو اور ہمیشہ قائم رہے۔ توُ نے ہمیں ہدایت دی کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا۔ اس کو ماننے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی۔ جس کو تُو نے اس زمانے میں دوبارہ دین اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ پس ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے اس ہدایت سے ہمیں محروم نہ کر دینا بلکہ خود ہمیں ہدایت دئیے رکھنا۔ خود ہمیں سیدھے راستے پر چلائے رکھنا۔ اے اللہ توُ دعاؤں کو سننے والا اور دلوں کا حال جاننے والا ہے۔ ہماری ان عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کو سن، ہماری اس نیک نیت کا بدلہ عطا فرما جو ان مساجد کی تعمیر کے پیچھے کار فرما ہے کہ تیرا نام دنیا کے اس علاقے میں بھی ظاہر ہو جہاں ہم مسجد تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ ہماری نیتیں تیرے سامنے ہیں توُ ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے توُ ہماری پاتال تک سے بھی واقف ہے۔ توُ وہ بھی جانتا ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ پس ہمیں اپنا قرب عطا فرما اور ہمیں مزید مسجدیں بنانے کی توفیق دیتا چلا جا اور ہم پر اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صادق فرما کہ جو شخص اللہ کی خاطر مسجد تعمیر کرتا ہے اللہ بھی اس کے لئے جنت میں اُس جیسا گھر تعمیر کرتا ہے۔ پس تو ہمیں حقیقی مومنوں میں شمار فرما۔
آج احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ایسی سوچ کے ساتھ مسجد تعمیر کر تے ہیں اور مسجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانیاں دیتے ہیں، اور مسجدوں کو آباد رکھتے ہیں۔ لیکن بعض کمزور بھی ہوتے ہیں جو مالی قربانیاں تو دے دیتے ہیں لیکن مسجدوں کو آباد کرنے میں ان سے سستی ہو جاتی ہے۔ اس کے لئے بھی ہر احمدی کو خاص کوشش کرنی چاہئے، ہر انتظام کو خاص کوشش کرنی چاہئے۔
یہ کہنا کہ فلاں شہر میں مسجد اتنی دور ہے، شہر سے دور بنی ہوئی ہے، اس لئے آبادی مشکل ہے۔ یہ سب نفس کے بہانے ہیں۔ اگر ارادہ ہو اور نیت نیک ہو تو آج یہاں ہر ایک کو اس ملک میں اور مغربی ممالک میں سواری میسر ہے جس پر آسانی سے مسجد میں جا سکتے ہیں۔ بہانے تلاش کرنے ہیں تو سو بہانے مل جاتے ہیں۔ مثلاًایک لکھنے والے نے مجھے لکھا کہ جرمنی میں ہماری جومسجدیں بن رہی ہیں وہ آبادی سے باہر بن رہی ہیں، کمرشل ایریا یا انڈسٹریل ایریا ہے وہاں بن رہی ہیں۔ کیا جماعت جرمنی، یا جو بھی مسجدیں بنانے والی کمیٹی ہے، وہ وہاں کے رہنے والے جرمنوں کے لئے مسجدیں بنا رہی ہے یا احمدیوں کے لئے بنا رہی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اللہ سے امید رکھنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے۔ جو پہلے بھی میں نے بتائی ہے کہ{رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا}کہ اے اللہ اس قربانی کو قبول فرما۔ {اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ} (البقرۃ:128)۔ تو دعاؤں کو سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ ہماری نیت یہ ہے کہ مسجدیں بنانے سے ہماری عبادتوں میں بھی باقاعدگی پیدا ہو اور یہ مسجدیہاں تیرے مسیح کی خواہش کے مطابق احمدیت کی تبلیغ کا ذریعہ بھی بنے۔ اس کے لئے ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے، ہماری قربانی کو قبول کرتے ہوئے اس مسجد کے اردگرد ہمیں اس قوم میں سے بھی نمازی عطا فرما دے، تو اللہ تعالیٰ یقینا ایسی دعاؤں کو سنتا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ مسجدیں تعمیر ہوں اور پھر اس کو آباد رکھنے کی بھی پوری کوشش ہو۔ آپ لوگ نیک نیتی سے مسجدیں بناتے چلے جائیں گے تو آبادیاں خود بخود وہاں پہنچ جائیں گی۔ اب مسجد فضل لندن کو دیکھ لیں اس وقت کے مبلغ نے یا شاید کسی احمدی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ بہت دُور جگہ ہے۔ یہاں کوئی نہیں آ ئے گا۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا نہیں جو جگہ مل گئی ہے یہ ٹھیک ہے یہیں بنائیں۔ آج دیکھ لیں جو مسجدفضل لندن کی یہ جگہ ہے، کس طرح آباد ہے۔ یہ علاقہ رہائش کے لحاظ سے بھی مہنگے علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ پھر آسٹریلیا میں سڈنی میں مسجد بنائی گئی تو جنگل تھا۔ رقبہ بڑا مل گیا جماعت نے وہاں لے لیا۔ حال یہ تھا کہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ بعض گلیوں کے جو شرارتی لڑکے ہوتے ہیں، اُچکّے قسم کے لڑکے ہوتے ہیں۔ ان کا اور چوروں اور ڈاکوؤں کابھی روزانہ اس جنگل میں ڈیرہ رہتا تھا۔ ہر روز کوئی گروہ جنگل میں چھپنے کے لئے آ جاتا تھا۔ اور اس علاقے میں سڈنی میں ہماری یہ ایک مسجد تھی۔ یا ایک مشنری صاحب کا گھر تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس زمانے میں شکیل منیر صاحب ہوتے تھے۔ اور وہ گھر بھی ٹین اور لکڑی کی دیوار سے بنا ہوا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے مشنری صاحب روزانہ رات کو پولیس کو فون کر رہے ہوتے تھے کہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ کبھی پولیس خود وہاں ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ سے چوروں ڈاکوؤں کی سرچ (Search) کر رہی ہوتی تھی۔ تو ان میاں بیوی کی جو اکیلے رہتے تھے راتیں بھی شاید جاگ کر گزرتی ہوں لیکن بہرحال اب وہی علاقہ آباد ہونا شروع ہو گیا ہے اور قریب قریب آبادیاں آ رہی ہیں۔ جنگل بھی کافی کٹ گیا ہے۔ ابھی بھی وہاں جو احمدی رہ رہے ہیں جو مسجد سے قریب ترین احمدی بھی ہے وہ بھی بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو (Drive) پہ ہے۔ لیکن پھر بھی وہ خوش ہیں کہ ہماری مسجد ہے اور قریب ہے۔ اس کو دور نہیں سمجھتے۔ یہاں اس ملک میں تو کسی جگہ بھی میرے خیال میں کسی شہر کی مسجد بھی اتنی دور نہیں ہے کہ جو قریب ترین احمدی بھی ہو وہ پچیس تیس منٹ کی ڈرائیو (Drive)پر ہو۔ اس لئے یہ بہانے ہیں کہ مسجد ویرانے بن گئی یا ایسے علاقے میں بن گئی جہاں رہائشی علاقہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم مسجد جا نہیں سکتے۔ پھریہ لکھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ سوائے اس کے جس نے نئی نئی کار چلانی سیکھی ہو اور کار چلانے کا شوق ہو وہ مسجد چلا جائے تو چلا جائے اَور کوئی اتنی دور مسجد میں نہیں جا سکتا۔ پس ان بہانوں کو چھوڑ دیں کہ مسجدیں اتنی دور ہیں۔ یہ بھی ان بے چاروں پر بدظنی ہے جو مسجد میں جاتے ہیں کہ کار چلانے کے شوق میں مسجد آتے ہیں۔ عبادت کرنے کے شوق کے لئے مسجد نہیں آتے۔ مسجد یں بہرحال ہمیں ان بہانوں سے بچتے ہوئے آباد کرنی چاہئیں اور آباد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جماعت کی ترقی کے لئے مساجد کی تعمیرضروری ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی خواہش تھی کہ یورپ میں اگر ہم اڑھائی ہزار مسجدیں بنا لیں تو تبلیغ کے بڑے وسیع راستے کھل جائیں گے۔ ابھی تو ہمارے پاس پورے یورپ میں چند مساجد ہیں جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ پس ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے۔ اور اگر آپ پختہ ارادہ کر لیں تو یقینا یہ کوئی ایسا لمبا سفر نہیں ہے۔ اور یہ کوئی ایسا مشکل ٹارگٹ نہیں ہے کہ آپ حاصل نہ کر سکیں۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے بھی بڑے غور کے بعد (جیسے کہ مَیں نے کہا ہے) یہ ٹارگٹ آپ کودیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر خلفاء بھی یہی کہتے رہے تو ان ارشادات کو سننے کے بعد یہ بات تو ختم ہو گئی کہ مسجدوں کی ابھی ضرورت نہیں ہے، جماعت کچھ کم ہے۔ کہیں اور پیسے خرچ کئے جائیں۔ اب صرف آپ کا مسئلہ یہ رہ گیا کہ جہاں مساجدبنائی جا رہی ہیں وہاں بنائی جائیں یا ذرا باہر نکل کر بنائی جائیں یا شہروں کے اندر بنائی جائیں۔ اور سال میں کتنی بنائی جائیں ؟ یہ جو سوال ہے کہ اگر شہر سے باہر نکل کر بنے تووہاں نمازی نہیں آتے اس کے بارے میں کچھ تو مَیں وضاحت کر چکاہوں، اس لئے اپنی سوچ کو بدلیں۔ اس کے علاوہ بعض عملی دقتیں بھی ہیں جو صرف جرمنی میں نہیں ہیں بلکہ بعض دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہیں۔ جو پلاٹ شہروں کے ساتھ بالکل اندر ہوں بڑے مہنگے ہوتے ہیں۔ پارکنگ کے مسائل ہوتے ہیں۔ مسجد بنانے کیلئے اجازت کے مسائل ہیں۔ اور اس طرح کے کئی اور مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان ملکوں میں مقامی لوگوں اور کونسل سے بڑی بحث و تمحیص کے بعد کہیں جا کر مسجد بنانے کی اجازت ملتی ہے۔ تو سب سے بڑی بات یہی ہے کہ ہمارے وسائل کے لحاظ سے ہمیں نسبتاً بہتر، اچھے پلاٹ کہاں مل سکتے ہیں۔ اس کے مطابق لینے کی کوشش کرنی چاہئے اور لئے جاتے ہیں۔ اب آپ دیکھ لیں آپ کے کئی شہر ہیں۔ جماعتیں ہیں جو بعض قصبوں اور شہروں میں مساجد بنانا چاہتی ہیں۔ لیکن انکے پلاٹ کے حصول اور مسجد کی تعمیرکی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے باوجود خواہش ہونے کے ابھی تک جماعتیں اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکیں۔ اب برلن کی مسجد یہاں بن رہی ہے۔ وہی دیکھ لیں بڑی دقتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ میری یہ شدید خواہش ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی اس خواہش کی جلد از جلد تکمیل ہو جائے کہ برلن مسجد بن جائے۔ خلافت ثانیہ سے برلن میں مسجد بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ ہندوستان کی لجنہ نے اس کیلئے رقم جمع کی تھی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر مسجد تعمیر نہ ہو سکی۔ پھر وہی رقم مسجد فضل لندن میں خرچ ہو گئی۔ بہرحال ابھی ایک عرصہ سے کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن کبھی پلاٹ کے حصول میں دِقت، وہ ملا تو کونسل کے اعتراضات، وہ دور ہوئے تو علاقے کے لوگوں کے اعتراضات، وہ دور ہوئے تو بعض شرارتی عنصر جس کا کام شور شرابا کرنا ہے، ان کی طرف سے طوفان بدتمیزی برپاہو گیا۔ بہرحال امید ہے کوششیں جاری ہیں کہ جلد تعمیر ہو جائے گی، انشاء اللہ تعالیٰ۔ آپ لوگ بھی دعا کریں اور دنیاکے احمدی بھی دعا کریں کہ یہ مسجد تعمیر ہو جائے۔ کیونکہ یہ ایسٹ جرمنی میں ہماری پہلی مسجد ہو گی۔ اور آج کل جو اسلام کو بدنام کرنے والا ایک تصور پیدا کیا جا رہا ہے اسکی وجہ سے یہ ساری روکیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ یہ تعمیر جلد مکمل ہو جائے اور پھر ان کو جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلام کی جو خوبصورت اور حسین تعلیم ہے اسکے بارے میں پتہ چلے گا اور وہ بتائی جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی بھی یورپ میں مسجدیں بنانے کی خواہش تھی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی بھی یہ خواہش تھی اور انہوں نے آپ لوگوں کی استعدادوں کو دیکھتے ہوئے دس سال میں 100مساجد بنانے کی تحریک فرمائی۔ لیکن کچھ سستیوں اور کچھ معاشی حالات کی وجہ سے یہ تعمیر نہ ہو سکی۔ پھر مَیں نے حالات کے مطابق امیر صاحب کو کہا کہ پانچ مسجدیں ہی ہر سال بنائیں۔ کیونکہ جرمنی جماعت کی سابقہ روایات کو دیکھ کر میرا خیال تھا اور ہے کہ جو بھی حالات ہوں آپ اتنی مساجد ہر سال بنائیں گے اور اللہ کے فضل سے بنا سکنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ جرمنی یورپ کا پہلا ملک ہو گا جہاں کے سو شہروں یا قصبوں میں ہماری مساجد کے روشن مینار نظر آئیں گے اور جس کے ذریعہ سے اللہ کا نام اس علاقے کی فضاؤں میں گونجے گا جو بندے کو اپنے خدا کے قریب لانے والا بنے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ کام مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن امیر صاحب کو میرے یہ کہنے پر کہ آپ لوگ پانچ مسجدیں کم از کم بنائیں یا مزید توجہ دیں۔ لوگوں نے یہ تاثر لے لیا ہے کہ شایدمَیں امیر صاحب سے یا جماعت جرمنی سے ناراض ہوں تو یہ بالکل غلط تاثر ہے۔ ہاں اگر آپ لوگ خدا نہ کرے، خدا نہ کرے، خدا نہ کرے، مکمل طور پر اس بات سے انکاری ہو جائیں کہ مسجدیں بن ہی نہیں سکتیں توپھر میری ناراضگی بہرحال حق بجانب ہو گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی نہیں لائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
میرے توجہ دلانے پر اور ذیلی تنظیموں کے سپرد یہ کام کرنے پر کہ آپ لوگوں نے مساجد کی تعمیر کے لئے اپنی تنظیموں کو توجہ دلانی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مثبت نتائج پیدا ہوئے ہیں۔ خدام الاحمدیہ نے ہر سال ایک ملین یورو دینے کا وعدہ کیا تھا اور اللہ کے فضل سے اپنے وعدے سے بڑھ کر ادائیگی کی ہے۔ الحمدللہ۔ گزشتہ سال بھی انہوں نے 1.2ملین دیا۔ اس سال کا وعدہ بھی 1.1ملین کا تھا اور اس سے زائد اللہ تعالیٰ کے فضل سے وصولی ہو چکی ہے۔ الحمدللہ۔ تو اگر نیک نیتی ہو، اللہ کی رضا حاصل کرنامقصود ہو، اس کے نام کی سر بلندی مقصد ہو، اسلام اور احمدیت کا جھنڈا دنیا میں لہرانا چاہتے ہوں تو کوئی معاشی روکیں اور دوسری ضروریات کے جو بہانے ہیں وہ راہ میں حائل نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح انصاراللہ نے بھی میرا خیال ہے پانچ لاکھ یورو کا وعدہ کیا تھا۔ اور لجنہ نے بھی پانچ لاکھ کا۔ میرے پاس ان کی رپورٹ تو نہیں ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ جو بھی انہوں نے وعدہ کیا تھا یہ بھی پورا کر چکے ہوں گے یا کرنے کے قریب ہوں گے۔ یہ تو مجموعی حالت ہے۔ لیکن بعض جماعتیں اور مجالس ایسی ہیں جو سست ہیں۔ وہ اپنے جائزے لیں کہ کہاں کہاں کیا کمزوریاں ہیں، کہاں کمیاں ہیں، کہاں نفس کے بہانے ہیں، کہاں بے توجہگی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر ان کمزوروں کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ذیلی تنظیموں میں میرے خیال میں انصاراللہ میں ابھی گنجائش موجود ہے ان کو کوشش کرنی چاہئے۔ تو بہرحال جیسے کہ مَیں نے پہلے کہا تھا اس تاثر کو اب ختم کر دیں کہ توجہ میں اس لئے دلا رہا ہوں اور ٹارگٹ میں کمی مَیں نے اس لئے کی ہے کہ کوئی ناراضگی تھی، یہ تاثر ختم ہونا چاہئے۔ اور جن کے خیال میں اگر ناراضگی تھی (اوّل تو تھی نہیں ) مگر جن کے خیال میں تھی تو ان کو بجائے باتیں بنانے کے اور اعتراض کرنے کے پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے۔ اور ایسے لوگوں کو بھی میری یہ نصیحت ہے کہ بلاوجہ خود ہی نتیجے اخذ نہ کر لیا کریں اس سے بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں یہ بھی بتا دوں کہ 1997ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ توجہ دلائی تھی تو اس پر ایک تو بعض مرکزی اداروں نے وعدے کئے تھے۔ وہ وعدے جن اداروں نے پورے کر دئیے تھے ان کی ادائیگی وکالت مال کے ذریعہ سے جماعت جرمنی کو کر دی گئی تھی۔ اور جن کے وعدے پور ے نہیں ہوئے تھے یاابھی تک نہیں ہوئے وہ مَیں نے وکالت مال کو کہا ہے کہ جائزہ لے کر وصولی کی کوشش کریں۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں بعض لوگوں نے انفرادی طور پر بھی بعض وعدے کئے تھے، جو جرمنی سے باہرکے تھے۔ وہ بھی امید ہے وصول ہو چکے ہوں گے۔ جو نہیں ہوئے ان کے لئے میں نے کہا ہے کوشش کریں تاکہ اس سلسلہ میں کچھ نہ کچھ مدد ہو جائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 1997ء میں ہی یہ بھی اعلان فرمایا تھا کہ حضرت سیدہ مہر آپا مرحومہ (جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیگم تھیں ) کی طرف سے مساجد کے لئے وعدہ ادا ہو گا۔ کیونکہ حضرت سیدہ مہر آپا نے اپنی جو ساری جائیداد تھی وہ جماعت کے نام کر دی تھی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے فرمایا تھا کہ جو بھی اس کی آمد ہو گی اس میں سے ہر سال کچھ نہ کچھ ادائیگی ہوتی رہے گی۔ (کوئی معین وعدہ کیا تھا جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں )۔ اور وہ ادائیگی بہرحال ہوتی رہی ہے۔ اگر کوئی پچھلے سالوں کا بقایا ہے تو وہ ادا ہو جائے گا۔ لیکن کیونکہ اور جگہوں پربھی خرچ ہوتاہے تو آئندہ بھی اس مقصد کے لئے ان کی جو گنجائش نکل سکتی ہے اسے دیکھ لیں گے۔ امید ہے کہ جب تک آپ مسجدیں بنا نہیں لیتے، انکی طرف سے بھی ہر سال دس ہزار یورو کا وعدہ آتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی جائیداد میں برکت ڈالے۔
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مساجد کی تعمیر کے لئے جو رقم جمع ہوئی۔ (شروع میں جماعت نے بہت قربانی دی تھی) اس سے بعض سنٹر خریدے گئے۔ ان میں بیت السبوح بھی شامل ہے جن پربڑی رقم خرچ ہو گئی۔ ان کی بجائے پہلے مساجدبنانی چاہئے تھیں۔ تو اس بارے میں پہلے بھی مَیں ایک دفعہ مختصراً کہہ چکا ہوں کہ جو کام خلیفۂ وقت کی اجازت سے ہوئے ہوں ان پر زیادہ اظہار خیال نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کی اجازت سے ہی بیت السبوح خریدی گئی تھی اور بعض دوسری عمارتیں اور جگہیں بھی خریدی گئی تھیں۔ پھر بعض علاقے کے احمدیوں کو، بعض جماعتوں کو ایک اور فکر ہے کہ انہوں نے یعنی وہاں کی مقامی جماعت نے اپنے وعدے کے مطابق ایک مسجد کی تعمیر کے لئے جتنی رقم کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ادائیگی کر دی ہے اور وہاں مسجدیں نہیں بنیں۔ اب ان کو مزید نہیں کہنا چاہئے۔ اُن کے خیال میں وہ رقوم جوانہوں نے دیں وہ دوسری مساجدمیں خرچ ہو گئیں۔ تو یاد رکھیں جماعتوں کا، یا جن کا بھی یہ خیال ہے ان کا کام تھا کہ اپنی جگہ پر پلاٹ تلاش کرتے۔ اب مَیں نے مسجد کی تعمیر کے لئے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ تعمیر کے سلسلہ میں امید ہے کہ بہتری ہو گی۔ لیکن اگر ایسی جماعتوں میں جہاں ابھی تک مسجد تعمیر نہیں ہوئی اور مسجد کی تعمیر کے برابر جتنی ان کو ضرورت پڑ سکتی ہے وہ رقم ادا کر چکے ہیں تو ان کو چاہئے کہ جگہ تلاش کریں۔ جب بھی جگہ ملے گی، پلاٹ ملے گا ان کو رقم انشاء اللہ مہیا ہو جائے گی۔ پھر مسجد کی تعمیر کی اجازت لیں تو تعمیر کے لئے بھی انشاء اللہ رقم مہیا ہو جائے گی۔ لیکن یہ کام کرنا کہ پلاٹ بھی لینا اور اس پر تعمیر کی اجازت بھی لینا آپ لوگوں کاکام ہے۔ اگر جماعت جرمنی نے اور دوسرے پراجیکٹ یعنی مسجدوں کے اَور پراجیکٹ شروع کر دئیے ہیں اور رقم وہاں لگ گئی ہے۔ اور آپ کا، ایسی جماعت کا نمبر اس وجہ سے پیچھے چلا گیا ہے تو وہ فکر نہ کریں، مجھے بتائیں۔ ایسی جماعتیں جو اتنی رقم جمع کرچکی ہیں کہ جس سے مسجد بن سکے اور جو ہماراکم از کم اندازہ ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی جماعت میں مسجد کا کام اس رقم کی وجہ سے نہیں رکے گا۔ چاہے مسجد کا چھٹا نمبر ہو یا ساتواں نمبر ہو یا آٹھواں نمبر ہو۔ چاہے پانچ مسجدیں بن رہی ہوں۔ لیکن اگر مالی استطاعت ہے تو یہ کہہ کرکہ ہم اتنی رقم ادا کر چکے ہیں کہ اس سے ایک مسجد بن جائے اس لئے اب ہماری جماعت مزید ادائیگی نہیں کرے گی، یہ غلط طریق کار ہے۔ اپنے ہاتھ روکنے نہیں چاہئیں بلکہ جو کمزور جماعتیں ہیں ان کی مدد کے لئے مسجد کے فنڈ میں ادائیگی کرتے رہیں اور کرتے رہنا چاہئے۔ حدیث آپ نے سن لی ہے کہ مسجد بنانے والا جنت میں اپنا گھر بناتا ہے۔ تو جنت میں جتنے بھی گھر بن جائیں۔ اتنا ہی زیادہ بخشش کا سامان ہو رہا ہو گا۔
پس آپ اس لحاظ سے بے فکر رہیں کہ ہماری طرف پوری طرح توجہ نہیں دی جا رہی۔ اگر مقامی جماعت اور مرکزی کمیٹی جگہ پسند کرتے ہیں۔ توجرمنی کی جماعت کے پاس اگر فوری طور پر رقم میسر نہیں بھی ہو گی تب بھی اس کا انتظام ہو جائے گا۔ انشاء اللہ۔ آپ پلاٹ خریدنے والے بنیں۔ پس آپ لوگ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے آزاد ہو کر اللہ کی خاطر مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ دیتے چلے جائیں اور دیتے چلے جانے والے بنتے رہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس سے آپ کی تبلیغ کے راستے کھلیں گے۔
دوسری اہم چیز یہی ہے کہ تبلیغ کی طر ف کوشش ہو۔ اس کے لئے اپنی حالتوں کو درست کرنے کے بعد، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کے بعد، اپنی مسجدوں کو پیار ومحبت کا نشان بنانے کے بعد، جس سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے پیغام کے ساتھ پیار و محبت کا پیغام ہر طرف پھیلانے کا نعرہ بلند ہو، احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو اپنے علاقے کے ہر شخص تک پہنچا دیں۔ یہی پیغام ہے جو اللہ تعالیٰ کی پسند ہے۔ اور یہی پیغام ہے جس سے دنیا کا امن اور سکون وابستہ ہے۔ یہی پیغام ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا ہے۔ آج روئے زمین پر اس خوبصورت پیغام کے علاوہ کوئی پیغام نہیں جو دنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنا سکے اور بندے کو خدا کے حضور جھکنے والا بنا سکے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ کہ{وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ} (حٰمٓ السجدۃ: 34)۔ یعنی اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو گی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اور کہے کہ مَیں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ پس یہ کامل فرمانبرداری جس کی ہر احمدی سے توقع کی جاتی ہے اس وقت ہو گی جب نیک، صالح عمل ہو رہے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی ہو رہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں گے اور پھر ایسے لوگ جب دعوت الی اللہ کرتے ہیں تو ان کی سچائی کی وجہ سے لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ اور ان نیک کاموں کی وجہ سے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے بھی منظور نظر ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد بھی فرماتا ہے۔ تبلیغی میدان میں ان کی روکیں دور ہو جاتی ہیں۔ وہی مخالفین جو مساجد کی تعمیر میں روکیں ڈال رہے ہوتے ہیں وہی جو مسلمانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہی جو برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے علاقے میں مسلمان عبادت کی غرض سے جمع ہوں جب آپ کے عمل دیکھیں گے، آپ کی عبادتیں دیکھیں گے، آپ کی پیشانیوں پر ان لوگوں کونشان نظر آئیں گے جن سے مومن کی پہچان ہوتی ہے۔ ایسے ظاہری نشان نہیں جیسے آجکل دکھاوے کے لئے لگا لئے جاتے ہیں۔ مجھے کسی نے بتایاکہ کراچی میں وہ جائے نماز خریدنے کے لئے گیا تو جس دکاندار سے جائے نماز خرید ی اُس نے چند پڑیاں بھی لا کر دیں۔ انہوں نے کہا یہ کیا ہے۔ اس نے کہا یہ مصالحے ہیں اس کو رگڑو گے تو ماتھے کی جلد پر ایسا نشان پڑے گا اور یہ مصالحہ لگاؤ گے تو ماتھے کی جلد پر ایسا نشان ڈل جائے گا۔ تو یہ ہیں ان لوگوں کے نشانات۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کی نمازیں بھی الٹا کر ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے پھر اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ تم ایسے کام کرو گے اور تم اپنا ہر فعل خدا کی خاطر کرو گے اور کامل فرمانبردار بن جاؤ گے تو پھر تمہاری ان کوششوں کو اللہ تعالیٰ اس طرح پھل لگائے گا کہ جو تمہارے دشمن ہیں وہ بھی تمہارے دوست بن جائیں گے۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ {اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ} (حٰمٓ السجدۃ: 35) کہ ایسی چیز سے دفاع کر جو بہترین ہو۔ تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا۔ پس بہترین دفاع اسلام کی خوبصورت تعلیم سے، اور اس تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے ہو گا۔ یہ سب الزامات جو آج اسلام پر لگائے جاتے ہیں اُن کو عملی نمونے کے ساتھ دھونے کے لئے، اس پیغام کو پہنچانا بہت ضروری ہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ تعلیم اس لئے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جائے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ سمجھ لے۔
پھر آپ فرماتے ہیں :’’تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں۔ عُجب، خود پسندی، مال حرام سے پرہیز اور بد اخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے۔ جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں ‘‘۔
پھر فرمایا:’’اب خیال کرو کہ یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟۔ اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کایہ منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی بھی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دیا جائے بلکہ اس پر صبرکیا جائے‘‘۔ یہ جو آیت مَیں نے پڑھی ہے اس کے بارے میں ہے۔ ’’اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مخالف تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا۔ اور یہ سزا اُس سزا سے بہت بڑھ کر ہو گی جو انتقامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو۔ یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے۔ خوش اخلاقی ایک ایسا جوہر ہے کہ موذی سے موذی انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ51-50جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس یہ اعمال صالحہ کا معیار ہے جو ہم نے اپنا نا ہے۔ اور اس سے تبلیغی راستے بھی کھلیں گے۔ اور اس سے ہماری آپس کی رنجشیں اور کدورتیں بھی دور ہوں گی۔ کیونکہ نیک نمونے دکھانے کے لئے، احمدی معاشرے کا وقار قائم کرنے کے لئے آپس میں بھی محبت پیار سے رہتے ہوئے رنجشیں دور کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ صبر کرو۔ تو آپس میں زیادہ بڑھ کر صبر کے نمونے دکھانے چاہئیں۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ یہ برداشت اور صبر کی سزا لڑنے کی سزا سے زیادہ سخت ہے۔ اور جب اس نیت سے اپنوں اور غیروں کی سختیاں برداشت کریں گے کہ میری بے صبری اللہ کا پیغام پہنچانے میں کہیں روک نہ بن جائے تو اللہ تعالیٰ ہر طرف سے اپنے فضلوں کی بارشیں برسائے گا انشاء اللہ۔ آپ کو نئے پھل بھی استقامت دکھانے والے اور آگے نیکیوں کو پھیلانے والے عطا ہوں گے اور مسجدوں کی تعمیر میں جو روکیں ہیں وہ بھی دور ہوں گی۔ اور ان قربانیوں کی وجہ سے جو جذبات اور مال کی قربانیاں ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے مال و نفوس میں بھی برکت عطا فرمائے گا۔ پس اس طرف خاص کوشش کریں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ان پاک نمونوں کو دیکھتے ہوئے جو ہم میں سے بعض احمدیوں کے ہیں، یا اکثر احمدیوں میں کہنا چاہئے اور جن کی وجہ سے تبلیغی میدان میں بیعتیں ہوتی ہیں یہ بہت ہی ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں۔ ان نمونوں کو دیکھنے کی وجہ سے جو بیعتیں ہوئی ہیں، جو بھی ان نمونوں کو دیکھتے ہوئے جماعت میں داخل ہوئے ہیں وہ آگے احمدیت کا پیغام پہنچاتے ہیں اور ہر دن ان کو احمدیت پر مضبوطی سے قائم کرتا چلا گیا ہے۔ اور جو کمزور احمدیوں کی صحبت میں رہے وہ ٹھوکر کھا گئے یا ٹھوکرکے قریب پہنچ گئے۔ پس استغفار کرتے ہوئے، اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں کہ استغفار کا ہی حکم اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں ہمیں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جماعت احمدیہ جرمنی کو مساجد کی تعمیر میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لینے اور ہر سال کم سے کم پانچ مساجد تعمیر کرنے کی تحریک۔
فرمودہ مورخہ 16؍جون 2006ء (16؍ احسان 1385ھش) بیت السبوح۔ فرینکفورٹ (جرمنی)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔