اللہ تعالیٰ کی صفتِ ناصراورنصیرسیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں
خطبہ جمعہ 23؍ جون 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :
{وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ۔ اِنَّھُمْ لَھُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۔ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ} (الصّٰفّٰت:172تا174)
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اور بلاشبہ ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے حق میں ہمارا یہ فرمان گزر چکا ہے کہ یقینا وہی ہیں جنہیں نصرت عطا کی جائے گی اور یقینا ہمارا لشکر ضرور غالب آنے والا ہے۔
سفر پہ جانے سے پہلے جو جمعہ تھا اس میں مَیں اللہ تعالیٰ کی صفت ناصر اور نصیر کے بارے میں بتا رہا تھا اور بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی نصرت ہر موقع پر فرما کر ان کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دیتا ہے، فکروں کو دور فرما دیتا ہے اور اپنی تائیدات کے نظارے دکھاتا ہے۔ اور ان نظاروں کی انتہا اور معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہم پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے بے انتہا واقعات ہیں جہاں ہمیں قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت نظر آتی ہے۔ مَیں نے اس خطبے میں قرآن کریم سے، ہجرت کے وقت اور پھر جنگ بدر میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی، وہ آیات پیش کی تھیں اور ان کی مختصر وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں کی تھی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے واقعات سے بھری پڑی ہے ان ساروں کو بیان کرنا تو ممکن نہیں ان میں سے کچھ روایات کے حوالے سے مَیں اس وقت آپ کے سامنے رکھوں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح فرشتوں کی فوج کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید ونصرت فرماتا رہا۔
آپؐ کی زندگی میں آپؐ کے دعویٰ نبوت کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن ہر موقع پرآپ ؐ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہا اور جیسا کہ تمام انبیاء سے ہوتا چلا آیا ہے دشمن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ابتداء میں ہی نبی کو نقصان پہنچا کر یا اس کی جماعت کونقصان پہنچا کر ختم کر دیا جائے۔ یا ایسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس سے نبی کا دعویٰ جھوٹا ہونے کا خیال لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کوشش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپؐ کے زمانے میں ہوئی۔ آپؐ کے ماننے والوں پر سختیاں کی گئیں، آپؐ پر بے انتہا ظلم کئے گئے، آپ ؐ کا سوشل بائیکاٹ کیا گیاجس کی وجہ سے آپؐ کے خاندان کو، اور آپؐ کو اور آپ ؐ کے ماننے والوں کو شعب ابی طالب میں ان ظلموں سے بچنے کے لئے جانا پڑا اور وہاں تقریباً تین سال تک رہے۔ وہاں خوراک کا کوئی ایسا ذخیرہ تو تھا نہیں۔ کچھ عرصہ بعد بھوک اور پیاس کی سختیاں سب کو، بچوں کو اور بوڑھوں کو اور عورتوں کو برداشت کرنی پڑیں۔ بھوک اور پیاس سے بچے، بڑے سب بیقرارتھے۔ حالت یہ تھی کہ ایک صحابی نے رات کے وقت چلتے ہوئے اپنے پاؤں کے نیچے آنے والی کسی نرم چیز کو اٹھا کر کھا لیا کہ اپنی بھوک مٹا سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے آج تک نہیں پتہ لگا کہ مَیں نے کیا کھایا تھا۔ بہرحال تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرما دیا کہ بائیکاٹ کا معاہدہ جو قریش کے بعض قبائل نے کیا تھا اور جس کی وجہ سے آپؐ کو اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب کی گھاٹی میں جانا پڑا اور وہاں جا کے رہنا پڑا۔ یہ معاہدہ کعبہ کی دیوار پر لٹکایا گیا تھا تاکہ ہر ایک قبیلے کو پتہ لگ جائے اور کوئی خلاف ورزی نہ کرے۔
اس معاہدے کے بارے میں ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چچا ابو طالب سے فرمایا کہ مجھے میرے خدا نے بتایا ہے کہ جو معاہدہ کعبہ کی دیوار پرلٹکایا گیا ہے وہ تمام کا تمام کیڑے نے کھا لیا ہے اور صرف خدا کا نام اس پر باقی رہ گیا ہے۔ چنانچہ ابو طالب نے خانہ کعبہ جا کر قریش کے بڑے بڑے سردا ر جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان سے کہا کہ اس طرح میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اس معاہدے کو دیکھنے گئے تو اس کی حالت بالکل وہی تھی جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھی۔ چنانچہ اس پر جو نرم دل سرداران قریش تھے انہوں نے کہا اب بہت ہو چکی کیونکہ پہلے بھی ان میں سے بعضوں کے دل نرم ہو رہے تھے اور وہ چاہتے تھے یہ کسی طرح ختم ہو، اس لئے قطع تعلقی اب بند ہونی چاہئے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہی تھی جس کی وجہ سے معاہدہ اس طرح ختم ہوا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ عرصہ تک آپ ؐ کو اور آپؐ کے ماننے والوں کو ایک امتحان سے گزرنا پڑا لیکن اس بات کی طاقت اس وقت کسی میں نہ تھی کہ ان سرداران قریش کے مقابلے پر اس گھاٹی سے باہر آ کر اپنے روزمرہ کے معمولات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مدد ہی تھی جس نے ایسا انتظام فرما دیا۔ اس معاہدے کا کچھ بھی نہ رہا اور چند شرفاء کے دل میں اس وجہ سے خوف اور ہمدردی کے جذبات بھی پیدا ہوئے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے حق میں تائید و نصرت کی ہوائیں چلاتا ہے۔ ایسے مواقع دکھاتا ہے جو غیروں کو بھی نظر آئیں۔ گو راستے میں عارضی مشکلات آتی ہیں لیکن آخر کار خدا کا گروہ ہی غالب آتا ہے۔ اور اس وعدے کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ پر توکّل کی وجہ سے انبیاء اور ان کی جماعتیں اللہ کے پیغام کو آگے بھی پہنچاتی ہیں اور اس کے ساتھ چمٹی رہتی ہیں اور باوجود سختیاں اور تکلیفیں برداشت کرنے کے ان کے قدم پیچھے نہیں ہٹتے اور ان کے دلوں میں کبھی غیراللہ کا کوئی خوف پیدا نہیں ہوتا۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام نبیوں کے سردار، خاتم الانبیاء تھے آپؐ پر بھی مشکلات کے بہت زیادہ ایسے موقعے آئے جو زیادہ کڑی مشکلات تھیں، بہت زیادہ سخت مشکلات تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت کے غیر معمولی نظارے بھی دکھائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پانچ مواقع آپؐ کی زندگی کے ایسے ہیں جو انتہائی غیر معمولی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بغیر ان سے نکلنا محال ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ انکے اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ:
’’یاد رہے کہ پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا۔ اگر آنجناب درحقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے۔
ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھا لی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے۔
دوسرا وہ موقعہ تھا جب کہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابو بکر ؓ کے چھپے ہوئے تھے۔
تیسرا وہ نازک موقعہ تھا جبکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا۔ اور آپؐ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کار گر نہ ہوئی۔ یہ ایک معجزہ تھا۔
چوتھا وہ موقعہ تھا جب کہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا۔
پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے۔
پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پُر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تما م دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ درحقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپؐ کے ساتھ تھا‘‘۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ264-263حاشیہ)
شعب ابی طالب کی قید سے باہر آنے کے کچھ عرصے بعد ہی حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ ؓ انتقال کر گئے۔ ان دو شخصیتوں کا قریش مکّہ کو کچھ تھوڑا بہت لحاظ تھا۔ ابو طالب کے بزرگ ہونے کی وجہ سے اور حضرت خدیجہ ؓ ایک مالدار عورت تھیں، کافی اثر و رسوخ تھا۔ ان کی وفات کے بعد تو سب قریش اس بات پر قائم ہو گئے تھے کہ اب تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر صورت میں ختم کرنا ہے کیونکہ اب ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ تمام سرداروں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم تمام سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ ٔ قتل میں شامل ہوں گے تاکہ بنی ہاشم کے لئے کسی بدلے کی صورت نہ بن سکے اور وہ بدلہ نہ لے سکیں۔ تمام سرداروں کے مقابلے پر آنا اُن کے لئے مشکل ہو گا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سازش کا پتہ لگ گیا۔ چنانچہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اس قتل کی ساز ش کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے جو مَیں نے ابھی اقتباس پڑھا ہے کہ یہ بڑا سخت موقع تھا جب قریش نے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا۔ تمام سردار قریش تلواریں تانے کھڑے تھے لیکن بے وقوفوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ انہوں نے جس منصوبہ بندی کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے (تاکہ کسی پر الزام نہ آئے) جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ تو سب سے زیادہ اس نبی کی حفاظت اور نصرت فرماتا ہے۔ بیسیوں واقعات ان کفار کی نظر میں پہلے بھی گزر چکے تھے۔ وہ اس بات کے خود بھی گواہ تھے لیکن پھر بھی ان کو عقل نہ تھی۔
ابو جہل جو اس سارے پروگرام کا سرغنہ تھا وہ بھول گیا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک تاجر کا حق دلوانے کے لئے ابو جہل کے دروازے پر گئے تھے توکیا نظارہ اس نے دیکھا تھاکہ آپؐ کی مدد کے لئے دو خونخوار اونٹ آپ کے دائیں بائیں کھڑے تھے تاکہ وہ آپؐ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ تو اس کی وجہ سے اس نے آپؐ کے کہنے کی فوراً تعمیل بھی کی اور اس تاجر کا قرضہ بھی دے دیا۔ بہرحال جب منصوبہ بندی کرکے یہ سب لوگ آپؐ کے دروازے کے باہر گھیرا ڈال کر کھڑے تھے اور گھیراؤ کیا ہوا تھا تو آپ ؐ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگوں کی امانتیں دے کر ان کو یہ ہدایت دے رہے تھے کہ ان کو واپس لوٹا کر صبح آجانا اور تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ تاکہ کفار اگر دیوار پر سے جھانکیں اور دیکھیں تو یہی سمجھیں کہ مَیں لیٹا ہوا ہوں اور آپؐ ہجرت کیلئے تیاری کرنے لگے۔ آپؐ نے حضرت علی ؓ کو یہ بھی فرمایا کہ دشمن تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکے گا۔ یہ یقین تھا آپؐ کو نہ صرف اپنی ذات کے بارے میں بلکہ اپنے ماننے والوں کے بارے میں بھی کہ یہ سچے ایمان والے ہیں۔ آج کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ظاہر ہونا ہے، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے عظیم نظارے نظر آنے ہیں اس لئے اے علی! تم جو میرے دین پر مکمل ایمان لاتے ہو بے فکر رہو دشمن تمہیں کوئی بھی گزند نہیں پہنچا سکے گا۔ پھر آپؐ بڑے آرام سے ان دشمنوں کے درمیان سے ہی نکل گئے۔ نہ کوئی خوف اور نہ فکر کہ باہردشمن کھڑا ہے اگر پکڑا گیا تو کیا ہو گا۔ یہ تو خیر فکر تھی ہی نہیں کہ پکڑا جاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اجازت سے یہ ہجرت ہو رہی تھی اسلئے دل اس یقین سے پُرتھا کہ اللہ تعالیٰ خود ہی حفاظت فرمائے گا اور ہر قدم پرمدد فرماتے ہوئے محفوظ رکھے گا۔ مکّہ سے نکلتے ہوئے آپکو بڑا صدمہ بھی تھا۔ آپؐ نے یہ الفاظ کہے کہ مکّہ! تو مجھے ساری دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے۔ خیر وہاں سے نکل کر آپؐ کو حضرت ابو بکر ؓ بھی راستے میں مل گئے(جن سے پروگرام پہلے ہی طے تھا) اور آپؐ انکو ساتھ لے کر غار ثورکی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابو بکر ؓ نے غار کو اچھی طرح صاف کیا تمام سوراخوں کو اچھی طرح بند کیا جو غار میں تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اب آپ اندر تشریف لے آئیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے اور بے فکر ہو کر حضرت ابو بکر ؓ کی ران پر سر رکھ کر سو گئے۔ کوئی اور ہو تو فکر سے ایسے حالات میں نیند اڑ جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ شامل حال رہنے کا اس قدر یقین تھا کہ کسی قسم کی فکر کا کوئی شائبہ تک نہ پیدا ہوا۔ چنانچہ اگلے آنے والے وقت نے بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت سے دل پُر از یقین تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کس طرح نصرت فرمائی۔ فوراً مکڑی کو حکم دیا کہ غار پر جہاں درخت لگا ہوا تھا اس کے اوپر جالا بُن دو۔ اور کبوتر کو حکم ہوا کہ گھونسلہ بھی بنا دو اور انڈے دے دو۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ حفاظت اور نصرت کے جو فوری سامان فرمائے تھے یہ غیر معمولی نشان تھا۔
قریش جب تعاقب کرتے ہوئے غار کے قریب پہنچے تو وہاں پہنچ کر دیکھ رہے تھے کہ پاؤں کے نشان تو یہاں تک آ رہے ہیں اور اکثر نے کہا کہ یہاں آ کر یا تو ان لوگوں کو زمین نگل گئی ہے یا آسمان پر چڑھ گئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں وہ غار میں نہیں جا سکتے جبکہ مکڑی نے جالا بھی بنا ہو اہے اور گھونسلہ بھی ہے۔ اس صورت میں توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ کسی کو غار میں جھانکنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ اور کسی نے کہا بھی تو دوسروں نے اس کو ردّ کر دیا۔ تو کفار کے دل میں غار میں نہ جھانکنے کا یہ خیال آنا بھی اللہ تعالیٰ کی اس نصرت کی وجہ سے تھا جو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرما رہا تھا۔ یہ لوگ اتنا قریب تھے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے شدید گھبراگئے تھے۔ لیکن آپؐ نے فرمایا {لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا} (التوبۃ:40) کوئی فکر نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو یہ دوسرا موقع تھا جب دشمن قریباً آپ کے سرپر پہنچ گیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ کی مدد پر اتنا یقین تھا کہ کوئی پرواہ نہیں کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس دوسرے واقعہ کا ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو تائید فرماتے ہوئے اس خطرناک حالت سے نکالا۔
پھر تیسر اواقعہ جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان کیا ہے وہ اُحد کی لڑائی کا ہے۔ یہ ایسا موقع ہے کہ اللہ اپنے خاص بندوں کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے ورنہ اُس وقت جو حالات تھے وہ ایسے تھے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی دنیا دار اس سے بچ کر نکل سکے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے جب جنگ کا پانسہ پلٹا اور کفار نے دوبارہ حملہ کیا تو ایک افراتفری کا عالم تھا۔ اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد صرف چند جاں نثار صحابہ رہ گئے تھے۔ لیکن کفار کے بار بار کے حملے جو ایک ریلے کی صورت میں ہوتے تھے وہ بھی اتنے سخت ہوتے تھے کہ یہ چند لوگ بھی سامنے کھڑے نہیں رہ سکتے تھے، ایک طرف بٹ جاتے تھے اس وجہ سے تتر بتر ہو جاتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ جاتے تھے۔ اس موقع پر تیروں کی بارش بھی آپؐ پر ہوئی جو صحابہ میں سے زیادہ ترحضرت طلحہؓ نے اپنے ہاتھ پر لی۔ اور تلواروں سے بھی حملے ہوئے اور اسی موقعے پر جب صحابہ اِدھر اُدھر ہوئے تو اس وقت جو بھی تلوار یا تیر آتا تھا اللہ تعالیٰ اس سے بچا لیتا تھا تاہم دو پتھر دشمن کے پھینکے ہوئے آپؐ کو لگے اور آپؐ زخمی ہو گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ایسے حالات میں جو نتیجہ نکلنا چاہئے اور دشمن کی جو کوشش تھی کہ آج مسلمانوں کو مکمل طورپر شکست کا سامنا کرنے پڑے اور آج موقع ہے کہ ان کو ختم کر دیا جائے یا اتنی کمر توڑ دی جائے کہ یہ اٹھنے کے قابل نہ رہیں تو یہ نتیجہ جو وہ نکالنا چاہتے تھے اور دشمن کی جو کوشش تھی کہ بالکل ختم کر دینا ہے، آپؐ کو قتل کرنے کی بھی نعوذ باللہ کوشش تھی جو ناکام ہوئی۔ ایسے حالات میں سوائے اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت کے یہ ہو نہیں سکتا۔ مسلمانوں کو مکمل طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے جو نقصان اٹھانا پڑا اور اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ نکلا لیکن دشمن کو جس آخری نتیجے کی تمنا تھی، خواہش تھی وہ اللہ تعالیٰ نے پوری نہ ہونے دی۔
پھر (حضرت مسیح موعودؑ نے تو اس کا ذکر نہیں کیا لیکن قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے) حنین کی جنگ میں جب مسلمانوں کو اپنی تعداد دیکھ کر یہ خیال ہوا کہ اب ہم بہت بڑی تعداد میں ہو گئے ہیں، بارہ ہزار کا لشکر ہے کون ہم پر غالب آ سکتا ہے۔ کیونکہ اس لشکر میں نئے آنے والے مسلمان بھی شامل تھے لیکن ان نئے آنے والوں میں ایمان کی کمزوری بھی تھی۔ شروع میں ایک حملے کے بعد ایسی حالت پیدا ہوئی کہ شکست کی صورت پیدا ہونی شروع ہو گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے وعدے کے مطابق کہ میرا لشکر ہی غالب آتا ہے اپنی نصرت فرماتے ہوئے ان بدلے ہوئے مخالف حالات کو مسلمانوں کے حق میں بدل دیا۔
یہاں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ تمہاری اکثریت یا تمہاری عقل یا تمہاری طاقت غالب نہیں آئے گی بلکہ ہر غلبہ میری نصرت کا مرہون منت ہے اس لئے ہمیشہ مجھ سے ہی مدد مانگو۔ اس نکتے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی سمجھتے تھے اور پرانے صحابہ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ تربیت پائی وہ بھی سمجھتے تھے لیکن نئے آنے والوں کو علم نہیں تھا۔ تو بہرحال اس جنگ میں جیسا کہ مَیں نے کہا بعض کمزور ایمان والے بھی تھے اور کیونکہ فورًا فتح مکہ کے بعد ہی یہ جنگ لڑی گئی تھی اور اکثر کے ایمان ایسے پختہ ابھی نہیں ہوئے تھے نہ تربیت تھی او ر کچھ ویسے بھی دل سے ایمان بھی نہیں لائے ہوئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا جہاں تک سوال ہے اللہ سے مدد مانگتے ہوئے آپؐ کی دعا کا تو ہمیشہ یہ حال رہتا تھا جس کی حالت ہمیں جنگ بدر کے واقعہ میں نظر آتی ہے کہ کس طرح تڑپ تڑپ کر آپ اللہ سے نصرت مانگ رہے تھے۔ آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یہ کہناپڑا کہ آپؐ کو اتنی فکر کیوں ہے۔ اللہ کا آپ سے وعدہ ہے کہ وہ ہمیشہ آپ کی تائید و نصرت فرمائے گا۔ تو بہرحال جنگ حنین میں یہ مسلمانوں کے ایمان کی کمزوری تھی جس کا نتیجہ شروع میں مسلمانوں نے دیکھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ؐ کا تو ہر جنگ میں دعا پر اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر اتنا یقین ہوتا تھا لیکن باوجود یقین ہونے کے کبھی دعا کاساتھ نہیں چھوڑا۔ جب بھی کوئی جنگ ہونی ہوتی، مہم سر کرنی ہوتی آپؐ ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کرتے تو یہ دعا کرتے کہ اے اللہ! تو ہی میرا سہارا ہے اور تو ہی میرا مددگار ہے اور تیری ہی دی ہوئی توفیق سے میں جنگ کر رہا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل، مسند انس بن مالک حدیث نمبر 12940 صفحہ 476عالم الکتب بیروت ایڈیشن 1998ء)
تو دعا تو آپؐ ہمیشہ کیا کرتے تھے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اس میں کمزور ایمان والوں کی وجہ سے نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کاذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے{لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَارَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ} (التوبہ:25) کہ یقینا اللہ بہت سے میدانوں میں تمہاری مدد کر چکا ہے خاص طورپر حنین کے دن بھی جب تمہاری کثرت نے تمہیں تکبر میں مبتلا کر دیا تھا۔ پس وہ تمہارے کسی کام نہ آ سکی اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ پھر تم پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ یعنی تمہاری کثرت تعداد یا اس وجہ سے تکبر جو بعض نئے آنے والے مسلمانوں کے دل میں پید اہو گیا تھا یہ کسی کام نہ آ سکا کہ ہماری تعداد زیادہ ہے، ہم طاقتور ہیں، ہمارے پاس ہتھیار بہت زیادہ ہیں۔ اُس وقت پہلا حملہ جیتنے کے باوجود شکست کی صورت پیدا ہو گئی لیکن ہمیشہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت ہی کام آئی اور وہ اس لئے کہ اللہ کا اپنے رسول اور سچے اور پکے مومنوں سے وعدہ ہے کہ مَیں تمہارا مدد گار بنوں گا اور یہ بتا دیا کہ اصل فتح تمہاری پہلے بھی اور آئندہ بھی میری نصرت کی وجہ سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے ہے جس کو مَیں ہمیشہ قبول کرتا ہوں اور اس نصرت اور دعا کا نتیجہ ہے کہ اس جنگ میں بھی حالات بدلے اور پھر مسلمانوں نے آخر نتیجۃً فتح پائی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ عَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (التوبہ:26) پھراللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل کی اور ایسے لشکر اتار ے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اور اس نے ان لوگوں کو عذاب دیا جنہوں نے کفر کیا تھا اور کافروں کی ایسی ہی جزا ہوا کرتی ہے۔
پس یہ جو فتح تھی یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کی وجہ سے تھی اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سے دلوں میں سکینت بھی پیدا کر رہا تھا اور مدد بھی فرما رہا تھا جو دشمنوں کو بھی نظر آ رہی تھی۔
حارث بن بدل نے بیان کیا کہ مَیں جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لئے آیا۔ آپؐ کے سارے صحابہ شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے مگرحضرت عباس بن عبدالمطلب اور ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہما نہیں بھاگے تھے۔ تو حضورؐ نے زمین سے ایک مٹھی لی اور ہمارے چہروں پر پھینک دی تو ہم شکست کھا گئے۔ پس یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ ہر شجر اور حجر ہماری تلاش میں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد اور لشکروں کو مخالفین نے بھی دیکھا۔ ان کو بھی نظر آ رہا تھا کہ یہ مسلمانوں کی فوج نہیں لڑ رہی بلکہ کوئی اور لڑ رہاہے۔ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہے جو فرشتوں کے ذریعے سے حملہ آور ہو رہی ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے خیال میں یہ تھا کہ آج اس جگہ کی ہر مخلوق ہمارے خلاف ہے۔ مٹی کا ایک ذرہ بھی ہمارے خلاف ہے۔ درخت، پتے اور ہر چیز ہمارے خلاف چل رہی ہے اور جنگ لڑ رہی ہے۔ تو یہ تھے اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے۔
اور چوتھا واقعہ جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یہودیہ نے ہلاک کرنے کی خوفناک سازش کی تھی۔ وہ زہر دینا تھا جس کی کافی مقدار آپؐ کو دی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور اس منصوبے کو ظاہر کر دیا۔
روایت میں ذکر آتا ہے کہ ایک یہودی سردار کی بہن نے آپؐ کو ایک بھنی ہوئی ران پیش کی اور اس پر اچھی طرح زہر لگا دیا۔ آپؐ صحابہ ؓ کے ساتھ بیٹھ کر اس کو کھانے لگے۔ کچھ صحابہ ؓ نے پہلے بھی کھانا شروع کر دیا۔ لیکن آپؐ نے جب منہ میں لقمہ ڈالا تو فوراً پتہ لگ گیا۔ آپؐ نے فوراً کہا کہ اس کو چھوڑ دو۔ اس یہودیہ کوبلایا گیا۔ تو اس نے تسلیم کیا اور پھر وہ کہنے لگی کہ آپؐ کو کس نے بتایا ہے ؟ آپؐ نے گوشت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا اس نے۔ پھر آپؐ نے اس سے پوچھا تمہارا اس سے مقصد کیا تھا۔ تم کیا چاہتی تھی؟ ہمیں کیوں ہلاک کرنا چاہتی تھی؟ تو کہتی ہے کہ میرا خیال تھا کہ اگر آپؐ اللہ کے نبی ہیں، رسول ہیں تو اس زہر سے آپ ؐ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس زہر سے محفوظ رکھے گا۔ اور اگر نہیں تو ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ (ابو داؤد کتاب الدیات باب فی من سقی رجلا ……حدیث نمبر 4510)
تو بہرحال اس زہر کا اثر جو تھا وہ بشری تقاضے کے تحت ایک انسان پر جو ہونا چاہئے وہ آپؐ پر تھوڑا سا ہوا۔ آپؐ کے گلے پر اثر رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی مدد فرماتے ہوئے ایک تو پہلے آپؐ کو آگاہ کر دیا کہ یہ زہر ہے۔ پھر باقی جو اس کے خطرناک نتائج ہو سکتے تھے اس سے بھی محفوظ رکھا۔
پھرپانچواں واقعہ جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر کیا ہے۔ یہ بھی بڑا عظیم واقعہ ہے کہ بادشاہِ وقت کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی کس طرح مدد فرمائی۔ اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ یہودیوں نے ایک دفعہ کسریٰ کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت کی۔ سازشیں تو کرتے رہتے تھے کہ کسی طرح آپؐ کو نقصان پہنچائیں۔ اور کچھ نہیں تو یہ طریقہ آزمایا گیا کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہوا ہے اور وہ طاقت پکڑ رہا ہے اور کسی وقت تمہارے خلاف بھی جنگ کرے گا۔ وہ بھی بہرحال کچھ ٹیڑھا سا انسان تھا۔ اس نے یمن کے گورنر کو حکم بھیجا کہ اس طرح مَیں نے سنا ہے کہ عرب میں ایک شخص ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، تم اسے فوراً پکڑ کر گرفتار کرو اور گرفتار کرکے میرے پاس بھجوا دو۔ چنانچہ گورنر نے دو آدمی بھیجے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ تم کوئی سختی نہ کرنا۔ بادشاہ کو دھوکہ لگا ہے ورنہ عربوں میں کیا طاقت ہے کہ وہ کسریٰ کے مقابل پر کھڑے ہوں۔ اس کو کیا پتہ تھا کہ ایک وقت ان میں وہ طاقت آنے والی ہے۔ لہٰذا جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا کہ کس طرح آئے ہو؟ انہوں نے بادشاہ کا پیغام دیا کہ آپ کے خلاف یہ شکایتیں بادشاہ کو پہنچی ہیں جس کی وجہ سے اس نے کہا ہے کہ آپؐ کو گرفتار کرکے اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن ساتھ انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ یمن کے گورنر نے ہمیں کہا تھا کہ سختی نہیں کرنی۔ بہرحال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے دو تین دن انتظار کرو پھر جواب دوں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، انتظار کر لیتے ہیں لیکن یہ ہم بتا دیں کہ آپ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپؐ جواب نہ دیں اور پھر بادشاہ غصے میں آ کر حملہ آور ہو جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو عرب کی خیر نہیں وہ پھر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ بہت طاقتور بادشاہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کوئی بات نہیں دو دن انتظار کرو۔ پھر دوسر ے دن آئے تو آپؐ نے ان کو پھر کہا کہ ٹھہرو۔ پھر وہ تیسرے دن آئے لیکن آپؐ یہی کہتے رہے کہ ابھی ٹھہرو۔ تو تیسرے دن انہوں نے کہا کہ اب تو ہماری معیاد ختم ہو گئی ہے۔ بادشاہ ہم سے بھی ناراض ہو جائے گا۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ تو آپؐ نے فرمایا:پھر میرا جواب سنوکہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار ڈالا ہے۔ جاؤ یہاں سے چلے جاؤ اور اپنے گورنر کو بھی اطلاع کر دو۔
خیر وہ یمن آئے اور انہوں نے گورنر سے کہا کہ انہوں نے تو ہمیں یہ جواب دیا ہے۔ گورنر بہرحال سمجھ دار تھا۔ اس نے کہا کہ اگر اس نے ایران کے بادشاہ کو یہ جواب دیا ہے تو کوئی بات ہو گی اس لئے تم بھی انتظار کرو۔ چنانچہ وہ انتظار کرتے رہے اور دس بارہ دن گزرنے کے بعد جب جہاز وہاں آیا تو انہوں نے آدمی مقرر کیاہوا تھا کہ دیکھو کوئی خبر آئے تو بتانا۔ تو انہوں نے بتایا کہ ایک جہاز تو آیا ہے، اس پر پہلے بادشاہ کا جھنڈا نہیں ہے اَور طرح کا جھنڈا ہے۔ تو گورنر نے کہا جلدی سے ان سفیروں کو لے کر آؤ جو بادشاہ نے بھجوائے ہیں، کوئی پیغام لائے ہوں گے۔ تو جب وہ سفیر گورنر کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ نے ایک خط آپ کے نام دیا ہے۔ اس نے خط دیکھا اس پر مہر بھی دوسرے بادشاہ کی تھی۔ جب اس نے خط کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھاکہ پہلے بادشاہ کی سختیوں کو دیکھ کر ہم نے سمجھا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے اس لئے فلاں رات کو ہم نے اس کو قتل کر دیا تھا اور اب ہم اس کی جگہ پر بیٹھ گئے ہیں۔ یہ وہی رات تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ آج میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا ہے۔ اور اس نے یہ بھی لکھا کہ سب سے میری اطاعت کا عہد لو اور یہ بھی پیغام دیا کہ پہلے بادشاہ نے عرب کے ایک آدمی کو پکڑنے کے لئے جو حکم بھیجا تھا اس کو منسوخ کر دو۔
یہ چیز ایسی تھی جس کو دیکھ کر فوراً اس گورنرکے دل میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک تعلق پیدا ہوا اور اسلام کا دل میں ایک رعب پیدا ہوا اور کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا۔ تو اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ کس طرح مدد فرماتا رہاہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت تو فرمانی تھی اور ہمیشہ فرماتا رہا لیکن آپؐ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کی مدد اور نصرت حاصل کرنے کی طرف متوجہ رہے اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمایا کرتے تھے کہ اے رب! میری مدد فرما اور میرے خلاف(دشمن کی) مدد نہ فرما اور مجھے کامیابی عطا فرما اور میرے مقابل پر دشمنوں کو کامیاب نہ کر۔ میرے لئے موافقانہ تدبیر کر اور میرے خلاف تدبیر نہ کر۔ اور میری راہنمائی فرما اور میرے لئے ہدایت مہیا فرما اور ہر وہ شخص جو میرے خلاف حد سے بڑھ جائے، اس پر مجھ کو کامیاب فرما۔ (جامع ترمذی۔ کتاب الدعوات۔ باب فی دعا ء النبیﷺ)
تو یہ دعا ہے جو آپؐ کرتے تھے اور یہ دعا بڑی جامع دعا ہے جو ہر ایک کو کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عُلُو اور مرتبہ ظاہر کیا ہے۔ اور وہ سورۃ ہے {اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْل} (الفیل:2) یہ سورۃ اس حالت کی ہے کہ جب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دکھ اٹھا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپؐ کو تسلی دیتا ہے کہ مَیں تیرا مؤیدو ناصرہوں۔ اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا توُ نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کِیا؟ یعنی ان کا مکر الٹا کر ان پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کے لئے بھیج دئیے۔ ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی۔ سِجِّیْل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کرکے آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے۔ یعنی آپ کی ساری کارروائی کو برباد کرنے کے لئے جوسامان کرتے ہیں اور تدابیر عمل میں لاتے ہیں ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کواور کوششوں کو الٹا کر دیتا ہے، کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے ہاتھی والوں کوچڑیوں نے تباہ کر دیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی۔ جب کبھی اصحاب الفیل پیدا ہو تب ہی اللہ تعالیٰ ان کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 110۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس اب اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تائید و نصرت کے لئے اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند اور عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے اور اس کے ذریعہ سے اِنشاء اللہ تعالیٰ تائید و نصرت فرماتا رہے گا ہمارا بھی یہ کام ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے طلبگار ہوتے ہوئے اپنے ایمان کو مضبوط کرتے چلے جائیں اور جو وعدے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہیں اُن کو ہم کسی تکبّر یا عقل یا کسی اور وجہ سے ضائع کرنے والے نہ ہوں۔ ایسا نہ ہوکہ وہ ہماری زندگیوں میں نظر نہ آئیں بلکہ ہمارے دلوں میں کبھی اس کا شائبہ بھی پیدا نہ ہو۔ اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہیں اس حیثیت سے جو اللہ تعالیٰ نے نصرت کے وعدے فرمائے ہیں ان کو ہم اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے بھی دیکھیں اور ہماری زندگیوں کا وہ حصہ بھی بنیں۔
اللہ تعالیٰ کی صفتِ ناصراورنصیرسیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی نصرت ہر موقع پر فرما کر ان کے خوف کی حالت کو امن میں بدل دیتاہے اور اپنی تائیدات کے نظارے دکھاتاہے۔
فرمودہ مورخہ 23؍جون 2006ء (23؍احسان 1385ھش) مسجد بیت الفتوح
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔