اللہ تعالیٰ کی صفتِ ناصراورنصیرسیرت مسیح موعود ؑکی روشنی میں
خطبہ جمعہ 7؍ جولائی 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
گزشتہ خطبے میں، مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید و نصرت میں اللہ تعالیٰ کے اُن نشانات کا ذکر کیا تھا جو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر دکھائے یعنی چاند اور سورج گرہن۔ پھر زمین پر آفات کی صورت میں ہونے والے نشانات۔ پھر اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ایسے علمی نشانات جن کی اس زمانے میں کوئی نظیر نہیں پیش کر سکتا۔
آج مَیں اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی اس تائید و نصرت کی چند مثالیں پیش کروں گا جو اُس نے آپؑ کی فرمائی اور ایسے دشمن کے خلاف اللہ تعالیٰ نے فرمائی جس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح دنیا کے سامنے آپؑ کو رسوا اور خائب و خاسر کیا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر اپنے اس جری اللہ کی مدد فرمائی، دشمن کی ہر کوشش الٹی پڑ گئی۔ اور ان کی طاقت یا حکومت ان کے کوئی کام نہ آ سکی۔ ان بے شمار نشانات میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے لئے دکھائے مَیں وہ چند مثالیں پیش کروں گا جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہایت اہم قرار دیا ہے اور یہ بھی تفصیل سے تو بیان نہیں ہو سکتیں، بہرحال کچھ حد تک پیش کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’میرے لئے بھی پانچ موقعے ایسے پیش آئے تھے جن میں عزت اور جان نہایت خطرہ میں پڑ گئی تھی۔ (1) اوّل وہ موقع جبکہ میرے پر ڈاکٹر مارٹن کلارک نے خون کا مقدمہ کیا تھا۔ (2) دوسرے وہ موقعہ جبکہ پولیس نے ایک فوجداری مقدمہ مسٹر ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی کچہری میں میرے پر چلایا تھا۔ (3) تیسرے وہ فوجداری مقدمہ جو ایک شخص کرم الدین نام نے بمقام جہلم میرے پر کیا تھا۔ (4) وہ فوجداری مقدمہ جو اسی کرم دین نے گورداسپور میں میرے پر کیا تھا۔ (5) پانچویں جب لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میرے گھر کی تلاشی لی گئی اور دشمنوں نے ناخنوں تک زور لگایا تھا تا مَیں قاتل قرار دیا جاؤں۔ مگر وہ تمام مقدمات میں نامراد رہے‘‘۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ263حاشیہ)
اب مَیں ان کی تفصیل بیان کرتا ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ یہ بھی خلاصتہً ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پہلے مقدمے کے بارے میں اپنی کتاب تریاق القلوب میں فرماتے ہیں کہ
’’29جولائی 1897ء کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اَور نہ اس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اس نے کچھ نقصان کیا ہے بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور مَیں اس کو دور سے دیکھ رہا ہوں۔ اور جبکہ وہ قریب پہنچی تو میرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا ہے۔ پھر بعد اس کے میرا دل اس کشف سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام ہوا کہ مَاھٰذَا اِلَّا تَھْدِیْدُالْحُکَّام۔ یعنی یہ جو دیکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حُکام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کارروائی ہو گی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہو اقَدِابْتُلِیَ الْمُوْمِنُوْن ترجمہ: مومنوں پر ایک ابتلاء آیا یعنی بوجہ اس مقدمہ کے تمہاری جماعت ایک امتحان میں پڑے گی۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنَ۔ یہ میری جماعت کی طرف خطاب ہے کہ خدا نے ایسا کیا تا خدا تمہیں جتلاوے کہ تم میں سے وہ کون ہے کہ اس کے مامور کی راہ میں صدق دل سے کوشش کرتا ہے اور وہ کون ہے جو اپنے دعویٰ بیعت میں جھوٹا ہے۔ سو ایسا ہی ہوا۔ ایک گروہ تو اس مقدمہ اور دوسرے مقدمہ میں جو مسٹر ڈوئی صاحب کی عدالت میں فیصلہ ہوا صدق دل سے اور کامل ہمدردی سے تڑپتا پھرا۔ اور انہوں نے اپنی مالی اور جانی کوششوں میں فرق نہیں رکھا۔ اور دکھ اٹھا کر اپنی سچائی دکھلائی۔ اور دوسرا گروہ وہ بھی تھا کہ ایک ذرّہ ہمدردی میں شریک نہ ہو سکے۔ سو ان کے لئے وہ کھڑکی بند ہے جو ان صادقوں کے لئے کھولی گئی۔ پھر یہ الہام ہوا کہ:
صادق آں باشد کہ ایام بلا
مے گزارد با محبت با وفا
یعنی خدا کی نظر میں صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے۔
پھر اس کے بعد میرے دل میں ایک اور موزون کلمہ ڈالا گیا لیکن نہ اس طرح پر کہ جو الہام جلی کی صورت ہوتی ہے بلکہ الہام خفی کے طورپر دل اس مضمون سے بھر گیا ‘‘یعنی دل میں خیال تھا کہ الہام ہے۔ ’’اور وہ یہ تھا۔
گر قضا را عاشقے گردد اسیر
بوسد آں زنجیر را کز آشنا
یعنی اگر اتفاقاً کوئی عاشق قید میں پڑجائے تو اس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہوا۔ پھر اس کے بعد یہ الہام ہوا۔
اِنَّ الَّذِ یْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔ اِنِّیْ مَعَ الْا َفْوَاج آتِیْکَ بَغْتَۃً۔ یَاتِیْکَ نُصْرَتِیْ۔ اِنِّی اَنَاالرَّحْمٰنُ ذُوْالْمَجْدِ وَالْعُلٰی۔ ترجمہ۔ یعنی وہ قادر خدا جس نے تیرے پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا۔ یعنی انجام بخیر و عافیت ہو گا۔ مَیں اپنی فوجوں کے سمیت(جو ملائکہ ہیں )ایک ناگہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا۔ مَیں رحمت کرنے والا ہوں۔ مَیں ہی ہوں جو بزرگی اور بلندی سے مخصوص ہے یعنی میرا ہی بول بالا رہے گا۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلت اور اہانت اور ملامت خلق۔ (اور پھر اخیر حکم ابراء) یعنی بے قصور ٹھہرانا۔ پھر بعد اس کے الہام ہو اوَفِیْہِ شیْئٌ۔ یعنی بریّت تو ہو گی مگر اس میں کچھ چیز ہوگی۔ (یہ اس نوٹس کی طرف اشارہ تھا جو بری کرنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ طرز مباحثہ نرم چاہئے۔) پھر ساتھ اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ بَلَجَتْ آیَاتِیْ کہ میرے نشان روشن ہوں گے اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہو جائیں گے‘‘۔
فرماتے ہیں :’’چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس مقدمے میں جو1897ء‘‘ (کتاب میں 1899ء لکھا ہوا ہے وہ لگتا ہے کتابت کی غلطی ہے) ’’میں عدالت مسٹر جے۔ آر۔ ڈریمنڈصاحب بہادر میں فیصلہ ہوا۔ عبدالحمید ملزم تھا اس نے اقرار کیا کہ اس کا پہلا بیان جھوٹا تھا۔ پھر الہام ہوا کہ لواء ُ فتح۔ یعنی فتح کا جھنڈا۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا کہ اِنَّمَا اَمْرُنَا اِذَا اَرَدْنَا شَیْئًا اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْن۔ یعنی ہمارے امور کے لئے ہمارا یہی قانون ہے کہ جب ہم کسی چیز کا ہو جانا چاہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہو جا۔ پس وہ ہو جاتی ہے‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مَیں نے یہ الہام بہت سارے لوگوں کو پہلے سے بتا دیا تھا اور اس پیشگوئی کی خبر کر دی تھی کہ اگر ان سب کے نام لکھنے بیٹھوں تو صفحوں کے صفحے ان کے بھر جائیں جن کو مَیں نے اطلاع دی تھی۔
پھر آپؑ اس مقدمے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’یہ مقدمہ اس طرح پیدا ہوا کہ ایک شخص عبدالحمید نام (جس کا پہلے ذکر ہو چکاہے) کو بعض عیسائیوں نے جوڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے تعلق رکھنے والے تھے سکھلایا کہ وہ عدالت میں یہ اظہار دے کہ اس کو مرزا غلام احمد نے یعنی اس راقم نے (حضرت مسیح موعودؑ اپنے بارے میں فرماتے ہیں)۔ قادیان سے اس غرض سے بھیجا ہے کہ تا ڈاکٹر کلارک کو قتل کر دے۔ اور نہ صرف سکھلایا بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ ایسا اظہار نہیں دے گا تو وہ قید کیا جائے گا۔ اور ایک یہ بھی دھمکی دی کہ اس کا فوٹو لے کر اس کو کہا گیا (اس کی تصویر کھینچی گئی اور کہا گیا) کہ اگر وہ بھاگ بھی جائے گا تو اس فوٹو کے ذریعہ سے پھر پکڑا جائے گا۔ چنانچہ اس نے مجسٹریٹ ضلع امرتسر کے سامنے یہ اظہار دے دیا اور وہاں سے میری گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری ہوا ‘‘۔ اور حضورؑ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں اس جگہ ناظرین کی پوری دلچسپی کے لئے صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کے حکم کی نقل ذیل میں لکھتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے’’عبدالحمید اور ڈاکٹر کلارک کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے عبدالحمید کو ڈاکٹر کلارک ساکن امرتسر کے قتل کرنے کی ترغیب دی۔ اس بات کے یقین کرنے کے لئے وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد مذکور نقضِ امن کا مرتکب ہو گا یا کوئی قابل گرفت فعل کرے گا جو باعث نقضِ امن اس ضلع میں ہو گی۔ اس بات کی خواہش کی گئی ہے کہ اس سے حفظ امن کے لئے ضمانت طلب کی جائے۔ واقعات اس قسم کے ہیں کہ جس سے اس کی گرفتاری کے لئے وارنٹ کا شائع کرنا زیر دفعہ 14ضابطہ فوجداری ضروری معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا مَیں اس کی گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری کرتا ہوں اور اس کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ آ کر بیان کرے کہ کیوں زیر دفعہ‘‘ (فلاں فلاں جو بھی تھی)۔ ’’حفظ امن کے لئے ایک سال کے واسطے بیس ہزار روپیہ کا مچلکہ اور بیس ہزار روپیہ کی دو الگ الگ ضمانتیں اس سے نہ لی جائیں‘‘۔ اس پہ مجسٹریٹ نے دستخط کئے تھے۔
اس حکم کی تاریخ یکم ستمبر 1897ء تھی اور آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اس وارنٹ سے مطلب یہ تھا کہ تا مجھے گرفتار کرکے حاضر کیا جائے۔ اور سزا سے پہلے گرفتاری کی ذلت پہنچائی جائے۔ مگر یہ تصرّف غیبی کس قدر ایک طالب حق کے ایمان کو بڑھاتا ہے کہ باوجودیکہ امرتسر سے ایسا وارنٹ جاری ہوا۔ مگر خداتعالیٰ نے جیسا کہ مندرجہ بالا الہامات میں اس کا وعدہ تھا اس وارنٹ سے بھی عجیب طور پر محفوظ رکھا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگرحکم کے مطابق یہ وارنٹ عدالت سے جاری ہو جاتا تو قبل اس کے کہ 7؍ اگست 1897ء کا حکم انتقال مِثل کے لئے نفاذ پاتا وارنٹ کی تعمیل ہو جاتی۔ کیونکہ امرتسر اور قادیان میں صرف 35کوس(35میل) کا فاصلہ ہے‘‘۔
پھر فرمایا: ’’اور وہ حکم جو 7؍ اگست 1897ء کو مجسٹریٹ ضلع امرتسر نے اس مقدمے کے بارہ میں دیا تھاوہ یہ ہے ’’مَیں نے وارنٹ جاری کرنا روک دیا ہے کیونکہ یہ مقدمہ میرے اختیار میں نہیں ہے‘‘۔ اس نے یہ نوٹس بھجوایا۔
فرماتے ہیں کہ’’اس حکم کی تفصیل یہ ہے کہ جب صاحب بہادر مجسٹریٹ ضلع امرتسریکم اگست 1897ء کو میری گرفتاری کے لئے وارنٹ جاری کر چکے تو ان کو 7؍ اگست 1897ء کو یعنی حکم سے 6دن کے بعد ہدایات مذکورہ بالا غور کرنے سے پتہ لگا کہ اس حکم میں غلطی ہوئی۔ اور انہوں نے سمجھا کہ میرے اختیار میں نہیں تھا کہ مَیں ایک ایسے ملزم کی گرفتاری کے لئے جو غیر ضلع میں سکونت رکھتا ہے وارنٹ جاری کرتا۔ تب انہوں نے اپنے حکم وارنٹ کو جو عدالت سے نکل چکا تھا اس طرح پر روکنا چاہا کہ 7؍ اگست1897ء کو صاحب مجسٹریٹ ضلع گورداسپورہ کے نام تار دی کہ ہم سے وارنٹ کے اجراء میں غلطی ہوئی ہے، وارنٹ کو روک دیا جائے۔ لیکن اگر وہ وارنٹ درحقیقت یکم اگست1897ء کو جاری ہو جاتا تو اتنی مدت بعد یعنی 7اگست1897ء کو اس کو روکنا ایک فضول امر تھاکیونکہ ان دونوں ضلعوں میں تھوڑا ہی فاصلہ تھا۔ مدت سے اس وارنٹ کی تعمیل ہو چکتی۔ اور گرفتاری کی ذلت اور مصیبت ہمیں پیش آ جاتی۔ لیکن خداتعالیٰ کی قدرت ایسی ہوئی کہ اب تک ہمیں بھید معلوم نہیں کہ وہ وارنٹ باوجود چھ دن گزر جانے کے عدالت مجسٹریٹ ضلع گورداسپور ہ میں پہنچ نہ سکا‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’اب جب ایک نظر سے انسان اُن الہاموں کو دیکھے جن کو ابھی ہم لکھ آئے ہیں جن میں رحمت اور نصرت کا وعدہ ہے اور دوسری طرف اس بات کو سوچے کہ کیونکر عدالت امرتسر کا پہلا وار ہی خالی گیا۔ تو بیشک اس کو اس بات پر یقین آ جائے گا کہ یہ خداتعالیٰ کا تصرف تھا تا وہ اپنے الہامی وعدہ کے موافق اپنے بندہ کو ہر ایک ذلّت سے محفوظ رکھے کیونکہ گرفتار ہو کر عدالت میں پیش کئے جانا اور ہتھکڑی کے ساتھ حکام کے سامنے حاضرہونا یہ بھی ایک ذلّت ہے جس سے دشمنوں کو خوشی پہنچتی ہے‘‘۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’دوسرا نشان خداتعالیٰ کی طرف سے یہ ظہور میں آیا کہ صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپورہ یعنی کپتان ایم ڈبلیو ڈگلس صاحب کے دل میں یہ خداتعالیٰ نے یہ ڈال دیاکہ اس مقدمہ میں وارنٹ جاری کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ سمن کافی ہو گا۔ لہٰذا انہوں نے 9؍اگست 1897ء میرے نام ایک سمن جاری کیا جس کی نقل ذیل میں لکھتا ہوں اور وہ یہ ہے۔
’’سمن …بنام مرزا غلام احمدولد مرزا غلام مرتضیٰ ذات مغل ساکن قادیان مغلاں پرگنہ بٹالہ ضلع گورداسپور ہ۔ جو کہ حاضر ہونا تمہارا بغرض جوابدہی الزام دفعہ 107 ضابطہ فوجداری ضرور ہے۔ لہٰذا تم کو اس تحریر کے ذریعہ سے حکم ہوتا ہے کہ بتاریخ 10؍ ماہ اگست 1897ء کو اصالتًا یا بذریعہ مختار ذی اختیار یا جیسا ہو موقع پر بمقام بٹالہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس حاضر ہو۔ اور اس باب میں تاکید جانو‘‘۔ (تو پہلے جو وارنٹ جاری ہوا تھا وہ صرف ایک پیشی ہو گئی کہ آکر وضاحت کر دیں۔ اور مولوی اس خوشی میں تھے کہ وارنٹ جاری ہو چکا ہے اور ان کا خیال تھا کہ امرتسر کی عدالت میں ہی ہے۔ ریل پر جاتے بھی تھے کہ جاکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذلت دیکھیں۔)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ مولوی حضرات :’’لہٰذا اس تماشا کے دیکھنے کے لئے آئے کہ یہ شخص وارنٹ سے گرفتار ہو کر آئے گا۔ اور اس کی ذلّت ہماری بہت سی خوشی کی باعث ہو گی اور ہم اپنے نفس کو کہیں گے کہ اے نفس اب خوش ہو کہ توُنے اپنے دشمن کو ذلیل ہوتے دیکھ لیا۔ مگر یہ مراد اُن کی پوری نہ ہوئی بلکہ برعکس اس کے خود ان کو ذلّت کی تکالیف اٹھانی پڑیں۔ اگست کی 10تاریخ کو اس نظارہ کے لئے مولوی محمدحسین صاحب موحّدین کے ایڈووکیٹ اس تماشا کے دیکھنے کے لئے کچہری میں آئے تھے تا اس بندئہ درگاہ کو ہتھکڑی پڑی ہوئی اور کانسٹیبلوں کے ہاتھ میں گرفتار دیکھیں اور دشمن کی ذلّت کو دیکھ کر خوشیاں مناویں ‘‘۔ (وہ حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ میں ہتھکڑی پڑی دیکھنا چاہتے تھے۔) ’’لیکن یہ بات ان کو نصیب نہ ہو سکی۔ بلکہ ایک رنج دہ نظارہ دیکھنا پڑا۔ اور وہ یہ کہ جب مَیں صاحب مجسٹریٹ ضلع کی کچہری میں حاضر ہوا تو وہ نرمی اور اعزاز سے پیش آئے اور اپنے قریب انہوں نے میرے لئے کرسی بچھوا دی۔ اور نرم الفاظ سے مجھ کو یہ کہا کہ گو ڈاکٹر کلارک آپ پر اقدام قتل کا الزام لگاتا ہے مگرمَیں نہیں لگاتا۔ خداتعالیٰ کی قدرت ہے کہ یہ ڈپٹی کمشنرایک زیرک اور دانشمند اور منصف مزاج مجسٹریٹ تھا۔ اس کے دل میں خدا نے بٹھا دیا کہ مقدمہ بے اصل اور جھوٹا ہے اور ناحق تکلیف دی گئی ہے۔ اس لئے ہر ایک مرتبہ جومَیں حاضر ہوا وہ عزت سے پیش آیا اور مجھے کرسی دی۔ اور جب مَیں اس کی عدالت سے بری کیا گیا تو اس دن مجھ کو عین کچہری میں مبارکباد دی۔
اور اس کے مقابلے پر جو مولوی صاحب ذلّت دیکھنا چاہتے تھے ان کا کیا حال ہوا؟انہوں نے وہاں پہنچ کے کرسی مانگی تو اس کو انکار ہو گیا۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب مولوی صاحب نے کرسی مانگی تو ’’صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے ان کو جھڑک دیا اور کہا کہ تمہیں کرسی نہیں مل سکتی۔ یہ تو رئیس ہیں اور ان کا باپ کرسی نشین تھا اس لئے ہم نے کرسی دی۔ سو جو لوگ میری ذلّت دیکھنے کے لئے آئے تھے ان کا یہ انجام ہوا‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’میری عادت نہیں تھی کہ کسی کو ملوں اور نہ میرا کسی سے کچھ تعارف تھا۔ پھر اس کے بعد خداتعالیٰ کا یہ فضل ہوا کہ میں عزت کے ساتھ بری کیا گیا۔ اور حاکم مجوزہ نے ایک تبسّم کے ساتھ مجھے کہا کہ آپ کو مبارک ہو آپؑ بری کئے گئے۔ سو یہ خداتعالیٰ کا ایک بھاری نشان ہے کہ باوجود یکہ قوموں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے اتفاق کر لیا تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب ایڈووکیٹ، موحّدین تھے۔ اور ہندوؤں کی طرف سے لالہ رام بھجدت صاحب وکیل تھے۔ اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب تھے۔ اور جنگ احزاب کی طرح بالاتفاق ان قوموں نے میرے پر چڑھائی کی تھی۔ لیکن خداتعالیٰ نے مجسٹریٹ ضلع کو ایسی روشن ضمیری بخشی کہ وہ مقدمہ کی اصل حقیقت تک پہنچ گیا۔ پھر بعد اس کے ایسااتفاق ہوا کہ خود عبدالحمید نے عدالت میں اقرار کر دیا کہ عیسائیوں نے مجھے سکھلا کر یہ اظہار دلایا تھا ورنہ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے کہ مجھے قتل کے لئے ترغیب دی گئی تھی۔ اور صاحب مجسٹریٹ ضلع نے اسی آخری بیان کو صحیح سمجھا اور بڑے زور شور کا ایک چٹھّالکھ کر مجھے بری کر دیا اور خداتعالیٰ کی یہ عجیب شان ہے کہ خداتعالیٰ نے میری بریت کو مکمل کرنے کے لئے اسی عبدالحمید سے پھر دوبارہ میرے حق میں گواہی دلائی تا وہ الہام پورا ہو جو براہین احمدیہ میں آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ فَبَرَّأَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھًا یعنی خدا نے اس شخص کو اس الزام سے جو اس پر لگایا جائے گا بری کر دیا ہے یعنی بر ی کر دیا جائے گا ‘‘۔
’’اب دیکھو کہ اس بندہ درگاہ کی کیسی صفائی سے بریّت ثابت ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس مقدمہ میں عبدالحمید کے لئے سخت مضر تھا کہ اپنے پہلے بیان کو جھوٹا قرار دیتا۔ کیونکہ اس سے یہ جرم عظیم ثابت ہوتا ہے کہ اس نے دوسرے پر ناحق ترغیب قتل کا الزام لگایا۔ اور ایسا جھوٹ اس سزا کو چاہتا ہے جو مرتکب اقدام قتل کی سزا ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنے دوسرے بیان کو جھوٹا قرار دیتا جس میں میری بریّت ظاہر کی تھی تو اس میں قانوناً سزا کم تھی۔ لہٰذا اس کے لئے مفید راہ یہی تھی کہ وہ دوسرے بیان کو جھوٹا کہتا مگر خدانے اس کے منہ سے سچ نکلوا دیا۔ جس طرح زلیخا کے منہ سے حضرت یوسفؑ کے مقابل پر اور ایک مفتری عورت کے منہ سے حضرت موسیٰ ؑ کے مقابل پر سچ نکل گیا تھا۔ سو یہی اعلیٰ درجہ کی بریّت ہے جس کو یوسف اور موسیٰ کے قصّے سے مماثلت ہے۔ اور اسی کی طرف اس الہامی پیشگوئی کا اشارہ تھا کہ بَرَّأَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا۔ کیونکہ یہ قرآن شریف کی وہ آیت ہے جس میں حضرت موسیٰؑ کی بریّت کا حال جتلانا منظور ہے۔ غرض میرے قصّے کو خداتعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ اور حضرت موسیٰؑ کے قصّے سے مشابہت دی اور خود تہمت لگانے والے کے منہ سے نکلوا دیا کہ یہ تہمت جھوٹ ہے۔ پس یہ کس قدر عظیم الشان نشان ہے اور کس قدر عجائب تصرفات الٰہی اس میں جمع ہیں۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک‘‘۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ351-341)
کپتان ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس مقدمہ سے بری فرمایا تھا ان پر کس طرح اس دوران میں تصرف الٰہی ہوا۔ اس کا بیان ایک غیر از جماعت نے یوں دیا ہے۔
راجہ غلام حیدر صاحب جو ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے ریڈر تھے ان کا بیان ہے کہ’’جب عدالت ختم ہوئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ہم فوراً گورداسپور جانا چاہتے ہیں تم ابھی جا کر ہمارے لئے ریل کے کمرے کا انتظام کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں سٹیشن سے نکل کر برآمدے میں انتظام کرنے کے بعد کھڑا تھا تومَیں نے دیکھا کہ سر ڈگلس سڑک پر ٹہل رہے ہیں اور کبھی اِدھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر جاتے ہیں۔ چہرہ پریشان ہے۔ مَیں ان کے پاس گیا اور کہا کہ صاحب آپ باہر آ جا رہے ہیں مَیں نے ویٹنگ روم میں کرسیاں بچھا دی ہیں وہاں جا کے آپ تشریف رکھیں۔ وہ کہنے لگے کہ منشی صاحب آپ مجھے کچھ نہ کہیں۔ میری طبیعت خراب ہے۔ انہوں نے کہا بتائیں تو سہی کہ آخر آپ کی طبیعت کیوں خراب ہے۔ اس کا مناسب علاج کیا جا سکے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ مَیں نے جب سے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ کرکے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گنہگار نہیں، ان کاکوئی قصور نہیں۔ پھر مَیں نے عدالت کو ختم کر دیا اور یہاں آیا تو اب ٹہلتا ٹہلتا جب اس کنارے کی طرف جاتا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے یہ کام نہیں کیا، یہ سب جھوٹ ہے۔ پھر مَیں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے، مَیں نے یہ کام نہیں کیا۔ کپتان ڈگلس صاحب کہنے لگے کہ اگر میری یہی حالت رہی تو مَیں پاگل ہو جاؤں گا۔ مَیں نے کہا صاحب آپ چل کر ویٹنگ روم میں بیٹھئے، سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی انگریز ہیں ان کو بلا لیتے ہیں شاید ان کی باتیں سن کر آپ تسلی پا جائیں۔ تو ڈگلس صاحب نے کہا ٹھیک ہے سپرنٹنڈنٹ صاحب کو بلا لو۔ چنانچہ انہیں جب بلایا گیا تو سر ڈگلس نے انہیں کہا کہ دیکھو یہ حالات ہیں۔ میری جنون کی سی حالت ہو رہی ہے مَیں سٹیشن پر ٹہلتا ہوا اور گھبرا کر اس طرف جاتا تووہاں کنارے پر مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کی شکل مجھے کہتی ہے کہ مَیں بے گناہ ہوں۔ مجھ پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا ہے۔ پھر مَیں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں مرزا صاحب مجھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ تو میری حالت پاگلوں کی سی ہو رہی ہے۔ تم اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتے ہو۔ مدد کرو ورنہ مَیں پاگل ہو جاؤں گا۔ تو سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کہا کہ آپ نے عبدالحمید کو عیسائی پادریوں کے سپرد کیا ہوا ہے اس کو پولیس کی تحویل میں دے دیں تو سارا کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس سے اصل حقیقت پتہ کر لیتے ہیں۔ لیکن جب وہ پولیس کی تحویل میں آیا تو جس طرح اس سے بیان لئے جا رہے تھے تب بھی وہ مان نہیں رہا تھاکیونکہ انسپکٹر پولیس وغیرہ مخالفین کے ساتھ تھے۔ تھوڑی دیر تک سپرنٹنڈنٹ نے جب دیکھا کہ یہ کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تو اس نے خود ہی عبدالحمید کو اپنے پاس بلایا اور پوچھ گچھ شروع کی تو اس نے وہی اپنی داستان جو پہلے لکھوائی ہوئی تھی اور جوپہلا بیان تھا وہی دوہرایا۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کہا تم وقت ضائع نہ کرو۔ تمہیں اب واپس ان کے پاس نہیں جانا بلکہ یہاں سے تمہیں گورداسپور لے کر جائیں گے۔ تو اتنا کہنا تھا کہ عبدالحمید جس نے کہا تھا کہ قتل کے لئے مجھے مرزا صاحب نے بھیجا ہے۔ وہ زار و قطار رونے لگا اور ان کے پیروں میں پڑ گیا اور صاف بیان دیا کہ یہ سب کچھ مَیں ان لوگوں کے کہنے پر بیان دے رہا ہوں۔ اس کے علاوہ اس کے خلاف دوسری گواہیاں بھی کچھ عرصے بعد عدالت میں پہنچ گئیں۔ تو بہرحال اس طرح اس نے اپنا بیان بدل دیا۔ اور جب وہ سارا بیان دوبارہ عدالت میں آیا تو جیسا کہ بیان ہو چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جج نے بری کر دیا‘‘۔ (ملخص از تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ631تا633جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
دوسرا مقدمہ (وقت کے لحاظ سے مختصر کر رہا ہوں ) جس کا ذکر آپؑ نے کیا ہے مولوی محمدحسین بٹالوی کی درخواست پر ڈوئی صاحب کی عدالت میں پیش ہوا تھا جبکہ اس کی رپورٹ اور درخواست بھی مولوی محمدحسین کی طرف سے دلوائی گئی تھی۔ اس مقدمہ کی بھی لمبی تفصیل ہے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف یہ درخواست دی تھی کہ آپ مجھے قتل کروانا چاہتے ہیں۔ ا ور اس کی بنیاد ایک مباہلہ کا چیلنج بنایا۔ بہرحال حکومتی مشینری کی بھی بہت سی گواہیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف وہاں پیش کی گئیں۔ پولیس نے بڑی کوشش کی اور اس مقدمے کے لئے ہر جگہ جا کے اتنا شور مچایا گیا کہ مولوی صاحب نے جیب میں چاقو رکھا ہوتا تھا وہ لوگوں کو دکھاتے تھے اور بھڑکاتے تھے۔ مقدمے کی فیس کے لئے لوگوں سے پیسے بھی اکٹھے کئے گئے۔ بڑی رقم اکٹھی ہو گئی۔ اور پھر اس میں مدد کے لئے ہندو اور عیسائی بھی آ گئے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان سب باتوں کے باوجود کوئی فکر نہ تھی۔
آپؑ نے ایک احمدی کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ: ’’یہ آخری ابتلاء ہے جو محمد حسین کی وجہ سے پیش آ گیا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے راضی ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ مخالفوں نے اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دیا ہے اور خداتعالیٰ کے کام فکر اور عقل سے باہر ہیں‘‘۔ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اول مکتوب نمبر65صفحہ25بار اول بحوالہ تاریخ احمدیت جلد2صفحہ39جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اس مقدمے میں بھی دشمن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا۔ بڑے تفصیلی بیان ہوئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کی بڑی لمبی تفصیل ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بتا دیا تھا کہ آپ کی بریت ہو گی۔
چنانچہ اپنے ایک خط میں جو آپؑ نے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب کو لکھا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’اب فوجداری مقدمے کی تاریخ 14فروری1899ء ہوگئی ہے دراصل بات یہ ہے کہ اب تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی نیت بخیر نہیں۔ جمعہ کی رات مجھے یہ خواب آئی ہے کہ ایک لکڑی یا پتھر کو مَیں نے
جناب الٰہی میں دعا کرکے بھینس بنا دیا ہے۔ اور پھر اس خیال سے کہ ایک بڑا نشان ظاہر ہوا ہے سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں۔ رَبِّیَ الْا َعْلٰی، رَبِّیَ الْا َعْلٰی۔ میرے خیال میں ہے کہ شاید اس کی تعبیر یہ ہو کہ لکڑی اور پتھر سے وہی سخت اور منافق طبع حاکم مراد ہو اور پھر میری دعا سے اس کا بھینس بن جانا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ ہمارے لئے ایک مفید چیز بن گئی ہے جس سے دودھ کی امید ہے۔ اگر یہ تاویل درست ہے تو امید قوی ہے کہ مقدمہ پلٹا کھا کر نیک صورت پر آ جائے گا۔ اور ہمارے لئے مفید ہو جائے گا اور سجدہ کی تعبیر یہ لکھی ہے کہ دشمن پر فتح ہو۔ الہامات بھی اس کے قریب قریب ہیں ‘‘۔ (تذکرہ صفحہ275ایڈیشن چہارم2004ء مطبوعہ ربوہ)
پھر حقیقۃ المہدی میں آپ نے اس کے بارے میں ذرا تفصیل بیان فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’مجھے 21رمضان المبارک 1316 ہجری جمعہ کی رات کو جس میں انتشار روحانیت مجھے محسوس ہوتا تھا اور میرے خیال میں تھا کہ یہ لیلۃ القدر ہے اور آسمان سے نہایت آرام اور آہستگی سے مینہہ برس رہا تھاایک رؤیا ہوا۔ یہ رؤیا اُن کے لئے جو ہماری گورنمنٹ عالیہ کو ہمیشہ میری نسبت شک میں ڈالنے کے لئے کوشش کرتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ کسی نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ اگر تیرا خدا قادر خدا ہے تو توُ اس سے درخواست کر کہ یہ پتھر جو تیرے سر پر ہے بھینس بن جائے۔ تب مَیں نے دیکھا کہ ایک وزنی پتھر میرے سرپر ہے جس کو کبھی میں پتھر اور کبھی لکڑی خیال کرتا ہوں۔ تب مَیں نے یہ معلوم کرتے ہی اس پتھر کو زمین پر پھینک دیا۔ پھر بعد اس کے مَیں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ اس پتھر کو بھینس بنا دیا جائے اور مَیں اس دعا میں محو ہو گیا۔ جب بعد اس کے مَیں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پتھر بھینس بن گیاہے۔ سب سے پہلے میری نظر اس کی آنکھوں پر پڑی۔ اس کی بڑی روشن اور لمبی آنکھیں تھیں۔ تب مَیں یہ دیکھ کر کہ خدا نے پتھر کو جس کی آنکھیں نہیں تھیں ایسی خوبصورت بھینس بنا دیا جس کی ایسی لمبی اور روشن آنکھیں ہیں خوبصورت اور مفید جاندار ہے خدا کی قدرت کو یاد کرکے وجدمیں آگیا اور بلا توقف سجدہ میں گرا۔ اور مَیں سجدہ میں بلند آواز سے خداتعالیٰ کی بزرگی کا ان الفاظ میں اقرار کرتا تھا کہ رَبِّیَ الْاَ عْلٰی، رَبِّیَ الْاَ عْلٰی۔ اور اس قدر اونچی آواز تھی کہ مَیں خیال کرتا ہوں کہ وہ آواز دُور دُور تک جاتی تھی۔ تب میں نے ایک عورت سے جو میرے پاس کھڑی تھی جس کا نام بھانوؔ تھا اور غالباً اس دعا کی اس نے درخواست کی تھی یہ کہا کہ دیکھ ہمارا خدا کیسا قادر خدا ہے جس نے پتھر کو بھینس بناکرآنکھیں عطا کیں۔ اور مَیں یہ اس کو کہہ رہا تھا کہ پھر یکدفعہ خداتعالیٰ کی قدرت کے تصور سے میرے دل نے جوش مارا اور میرا دل اس کی تعریف سے پھر دوبارہ بھر گیا اور پھرمَیں پہلی طرح وجد میں آکر سجدہ میں گر پڑا۔ اور ہر وقت یہ تصور میرے دل کو خداتعالیٰ کے آستانہ پر یہ کہتے ہوئے گراتا تھا کہ یا الٰہی تیری کیسی بلند شان ہے۔ تیرے کیسے عجیب کام ہیں کہ تو نے ایک بے جان پتھرکو بھینس بنا دیا۔ اس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں جن سے وہ سب کچھ دیکھتا ہے۔ اور نہ
صرف یہی بلکہ اس کے دودھ کی بھی امید ہے۔ قدرت کی باتیں ہیں کہ کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ مَیں سجدہ میں ہی تھا کہ آنکھ کھل گئی۔ قریباً اُس وقت رات کے چار بج چکے تھے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ عَلٰی ذٰلِک۔
فرمایا کہ:’’مَیں نے اسکی تعبیر یہ کی کہ وہ ظالم طبع مخالف جو میرے پر خلاف واقعہ اور سراسر جھوٹ باتیں بنا کر گورنمنٹ تک پہنچاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہونگے۔ اور جیسا کہ خداتعالیٰ نے خواب میں ایک پتھر کو بھینس بنا دیا او ر اس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں اسی طرح انجام کار وہ میری نسبت حکام کو بصیرت اور بینائی عطا کرے گا اور وہ اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔ یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب‘‘۔
’’اور الہامات جو اس خواب کے مؤید ہیں یہ ہیں : اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ۔ اَنْتَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۔ وَاَنْتَ مَعِیَ یَااِبْرَاھِیْمُ۔ یَأْتِیْکَ نُصْرَتِیْ اِنِّیْ اَنَا الرَّحْمٰنُ۔ یَااَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ۔ غِیْضَ الْمَآئُ وَقُضِیَ الْا َمْرُ۔ سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ۔ وَاَمْتَازُوْا الْیَوْمُ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ۔ اِنَّا تَجَالَدْنَا فَانْقَطَعَ الْعَدُوُّوَاَسْبَابُہٗ۔ وَیْلٌ لَّھُمْ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ۔ یَعَضُّ الْظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ وَیُوْثَقُ۔ وَ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْا َبْرَارِ۔ وَاِنَّہٗ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْر۔ شَاھَتِ الْوُجُوْہُ۔ اِنَّہٗ مِنْ اٰیَۃِ اللّٰہِ وَاِنَّہٗ فَتْحٌ عَظِیْمٌ۔ اَنْتَ اِسْمِیَ الْا َعْلٰی وَاَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ مَحْبُوْبِیْنُ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
یعنی خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے اور توُ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ اور توُ میرے ساتھ ہے اے ابراہیم۔ میری مدد تجھے پہنچے گی۔ مَیں رحمن ہوں۔ اے زمین! اپنے پانی کو یعنی خلاف واقعہ اور فتنہ انگیز شکایتوں کو جو زمین پر پھیلائی گئی ہیں نگل جا۔ پانی خشک ہو گیا اور بات کا فیصلہ ہوا۔ تجھے سلامتی ہے یہ رب رحیم نے فرمایا۔ اور اے ظالمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔ ہم نے دشمن کو مغلوب کیا اور اس کے تمام اسباب کاٹ دئیے۔ ان پر واویلا ہے کیسے افتراء کرتے ہیں۔ ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا۔ اور خدا نیکوں کے ساتھ ہو گا۔ وہ ان کی مدد پر قادر ہے۔ منہ بگڑیں گے۔ خدا کا یہ نشان ہے اور یہ فتح عظیم ہے۔ تو میرا وہ اسم ہے جو سب سے بڑا ہے۔ اور توُ محبوبین کے مقام پر ہے میں نے تجھے اپنے لئے چنا۔ کہہ مَیں مامور ہوں اور تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں ‘‘۔ (حقیقت المہدی۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ446-443) (مسجد میں الارم بجنے پر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ یہ کیا ہے، بتایا گیا کہ فائر کا الارم ہے فرمایا فائر کہاں ہو گی؟۔ یہ الارم کسی وجہ سے بجا ہے دیکھیں چیک کروائیں۔ الارم صرف بند نہ کر دیں بلکہ سارے پھر کے چیک بھی کر لیں )
اس دن حضرت اقدس ؑ اپنے احباب کے ساتھ کثیر تعداد میں گورداسپور میں فیصلہ سننے کے لئے تشریف لے گئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بھی خوش تھے کہ آج ہمارا حریف عدالت کے کٹہرے میں مجرم قرار پائے گا۔ اور انہیں فتح عظیم حاصل ہو گی۔ مگر جیسا کہ آپؑ کو قبل از وقت بتایا گیا تھا اب وہ پتھر دل حاکم آپؑ کی دعاکی برکت سے ایک منصف اور عادل کی شکل میں بدل چکا تھا۔ چنانچہ اس نے حضرت اقدس کی شائستہ اور متین تحریرات کے مقابل پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ابو الحسن تبتی کے دشنام آلود اشتہارات دیکھے اور وہ ہکاّ بکاّرہ گیا۔ اور اس نے پولیس کا بڑی محنت سے بنایا ہوا مقدمہ خارج کر دیا۔ اور مسٹر جیم ڈوئی نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ گندے الفاظ جو محمد حسین اور اس کے دوستوں نے آپ کی نسبت شائع کئے آپ کو حق تھا کہ عدالت کے ذریعہ سے اپنا انصاف چاہتے اور چارہ جوئی کراتے۔ اور وہ حق اب تک قائم ہے۔ مسٹر ڈوئی، عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر محمد حسین بٹالوی کو فہمائش کر رہے تھے کہ آئندہ وہ تکفیر اور بدزبانی سے باز رہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’منجملہ خداتعالیٰ کے نشانوں کے ایک یہ نشان ہے کہ وہ مقدمہ جو منشی محمد بخش ڈپٹی انسپکٹربٹالہ کی رپورٹ کی بنا پر دائر ہو کر عدالت مسٹر ڈوئی صاحب مجسٹریٹ ضلع گورداسپورہ میرے پر چلایا گیا تھا جو فروری 1899ء کو اس طرح پر فیصلہ ہوا کہ اُس الزام سے مجھے بری کر دیا گیا۔ اس مقدمہ کے انجام سے خداتعالیٰ نے پیش از وقت مجھے بذریعہ الہام خبر دے دی کہ وہ مجھے آخر کار دشمنوں کے بد ارادے سے سلامت اور محفوظ رکھے گا۔ اور مخالفوں کی کوششیں ضائع جائیں گی۔ سو ایسا ہی وقوع میں آیا۔ جن لوگوں کو اس مقدمہ کی خبر تھی ان پر پوشیدہ نہیں کہ مخالفوں نے میرے پر الزام قائم کرنے کے لئے کچھ کم کوشش نہیں کی تھی بلکہ مخالف گروہ نے ناخنوں تک زور لگایا تھا‘‘۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ309)
پھر تیسرا مقدمہ کرم دین جہلمی صاحب کے ساتھ تھا۔ اس کا بھی ایک لمبا اور تکلیف دہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جولائی 1902ء میں اپنی ایک تصنیف نزول المسیح لکھ رہے تھے۔ اس دوران مولوی کرم دین ساکن بھیں نے حضرت مسیح موعود اور حضرت حکیم فضل دین صاحب کے نام خطوط لکھے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی کتاب سیف چشتیائی، دراصل مولوی محمد حسین فیضی کا علمی سرقہ ہے۔ مولوی کرم دین صاحب نے اس امر کے ثبوت میں حضرت مسیح موعود ؑ کو کارڈ بھی ارسال کیا جو پیر صاحب موصوف نے ان کے نام گولڑہ میں بھیجا تھا۔ اور جس میں پیر صاحب موصوف نے محمد حسن صاحب فیضی کے نوٹوں کا اپنی کتاب میں درج کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کتاب نزول المسیح لکھ رہے تھے۔ حضور علیہ السلام کو یہ خط پہنچے جو حضور نے اپنی کتاب میں درج کر دئیے۔ اسی طرح ایڈیٹر اخبار الحکم نے اس بنا پر 17ستمبر کو ایک مضمون شائع کیا جس میں ان خطوط کی نقول درج کر دیں۔ جب یہ خط شائع ہو گئے تو مولوی کرم دین صاحب مُکر گئے کہ مَیں نے تو یہ نہیں لکھا اور یہ سب خطوط جعلی ہیں۔ نیز لکھا کہ مرزا صاحب کی نعوذ باللہ اہلیت کی آزمائش کے لئے مَیں نے اسے دھوکہ دیا ہے۔ اور خلاف واقعہ خطوط لکھے اور لکھوائے اور ایک بچے کے ہاتھ سے نوٹ لکھوا کر محمد حسین فیضی کے نوٹ ظاہر کئے۔ اور آگے کہا کہ مرزا صاحب کا تمام کاروبار معاذ اللہ مکر و فریب ہے اور آپؑ اپنے دعویٰ میں کذّاب اور مفتری ہیں۔ تو یہ ساری باتیں تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باوجوداس حق کے جو ان کو تھا کہ ازالہ حیثیت عرفی کے لئے عدالت سے رجوع کر سکتے تھے، آپ نے نہ کیا کہ مولوی کرم دین صاحب خود ہی اس کی تردید کر دیں گے۔ لیکن تین مہینے گزر جانے کے باوجود جب مولوی صاحب نے تردید نہ کی تو اس پر حکیم فضل دین صاحب نے جومینیجر ضیاء الاسلام پریس قادیان تھے اور مولوی کرم دین صاحب نے ان کے نام پہلے خطوط لکھے تھے، اس کے علاوہ اور بھی کچھ لوگ تھے، انہوں نے مولوی کرم دین پر استغاثہ دائر کر دیا۔ اور اس دوران میں جب عدالت کی کارروائی ہو رہی تھی مولوی کرم دین صاحب نے زیر طبع کتاب نزول المسیح کے اور اق پیش کئے اور مستغیث (جس نے استغاثہ کیا تھا) حکیم فضل دین صاحب سے تصدیق کرانا چاہی۔ حکیم فضل دین صاحب نے اس بات پر مولوی کرم دین پہ ایک اور استغاثہ کر دیاکہ کیونکہ مَیں پریس کا مینیجر ہوں اور یہ کتاب ابھی چھپی نہیں، اس لئے میری ملکیت تھی اس نے یہ کاغذات بھی چوری کئے ہیں۔ اور اسی طرح شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کے خلاف بھی مولوی صاحب نے زہر اگلا تھا اس لئے شیخ صاحب نے بھی مولوی کرم دین کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ کردیا تو اس طرح کئی استغاثے اکٹھے ہو گئے۔
ان استغاثوں کے جواب میں مولوی کرم دین صاحب نے اسسٹنٹ کمشنر جہلم کے پاس عدالت میں ایک مقدمہ کر دیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام، عبداللہ صاحب کشمیری اور شیخ یعقوب علی صاحب تراب کے نام ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر کر دیا کہ میرے بہنوئی مولوی محمدحسن فیضی کی سخت توہین کی گئی ہے۔ اس مقدمہ پر حضور علیہ السلام اور دوسرے رفقاء کے نام وارنٹ جاری ہو گئے اور عدالت میں پیشی کی تاریخ پڑ گئی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر مقدمہ دائر ہونے کی خبر پر مخالف اخبارات نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ چنانچہ لاہور کے اخبار پنجاب سماچار نے لکھا کہ مرزا قادیانی صاحب پر نالش ہے۔ اس کا طرز تحریر بھی جہاں تک پڑھا ہے ملک کے لئے کسی طرح مفید نہیں بلکہ بہت دلوں کو دکھانے والا ہے۔ اگر عدالت نالش کو سچا سمجھے تو مناسب ہے کہ سزا عبرت انگیز دیوے تاکہ ملک ایسے شخصوں سے جس قدر پاک رہے ملک اور گورنمنٹ کے لئے مفید ہے۔ (تاریخ احمدیت جلد2صفحہ260تا263جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
تو یہ تو تھا دشمنوں کا حال۔ پھر اس نے ازالہ حیثیت عرفی کا جو استغاثہ کیا تھا یہ مقدمہ مواھب الرحمن کے صفحہ 129کے الفاظ کی بنا پر تھا جس میں ان کے لئے کذّاب، لعین اور بہتان عظیم کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے عدالت میں بیان دیا کہ 7جنوری 1903ء کو مرزا غلام احمد قادیانی نے مواہب الرحمن جو اس کی اپنی تصنیف ہے اور جو ضیاء الاسلام پریس میں چھپی تھی اس کے صفحہ نمبر129پر ہتک آمیز الفاظ میری بابت درج کئے۔ اس عبارت میں جو کذّاب، مہین کا لفظ لکھا گیا ہے وہ قرآن شریف میں ایک خاص کافر ولید بن مغیرہ کی نسبت لکھا گیا ہے۔ اور اس لفظ کے کہنے سے مجھ کو گویا اس کافر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اب اس کو ذہن میں رکھیں تو آگے فیصلے میں پتہ لگے گا کہ عدالت نے کیا کہا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تک جب یہ خبر پہنچی تو آپؑ نے فرمایا۔ اب یہ ان لوگوں کی طرف سے ابتداء ہے۔ کیا معلوم خداتعالیٰ ان کے مقابلے میں کیا کیا تدابیر اختیار کرے گا۔ یہ استغاثہ ہم پر نہیں، اللہ تعالیٰ پر ہی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ مقدمہ کرکے تھکانا چاہتے ہیں۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا زور آور حملوں سے سچائی ظاہر کر دے گا۔ اس وقت یہ پورا زور لگائیں تاکہ قتل کے مقدمے کی حسرتیں نہ رہ جائیں کہ کیوں چھوٹ گیا۔ یہ لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے جو خدا کی طرف سے پیش کرتا ہوں مگر وہ دیکھ لیں گے کہ اِکْرَاماً عَجِیْبًا کیسا ہوا۔ مقدمہ ابھی ابتدائی حالت میں ہی تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے انجام کے بارے میں بھی بتا دیا۔ چنانچہ 28جنوری 1903ء کو الہام ہوا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ عِبَادِہٖ یُوَاسِیْکَ یعنی خدا اپنے بندوں کے ساتھ ہے وہ تیری غم خواری کرے گا۔ پھر 29جنوری کو الہام ہوا سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَجِیْبًا یعنی شاندار رنگ میں تیری عزت قائم کی جائے گی۔ 17فروری 1903ء کو الہام ہوا یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَفَتْحُ الْحُنَیْن روز دو شنبہ اور حُنین والی فتح۔ اس کے چھ ماہ بعد 18؍اگست 1903ء کو الہام ہوا۔ سَاُکْرِمُکَ بَعْدَ تَوْھِیْنِکَ یعنی تیری اہانت کے بعد تجھے عزت عطا کی جائے گی۔ پھر 28جون کو ایک الہام ہوا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ۔ فِیْہِ آیٰتٌ لِلسَّائِلِیْنَ۔ کہ ان دونوں فریقوں میں سے خدا اس فریق کے ساتھ ہو گا اَور اس کو فتح اور نصرت نصیب کرے گا جو پرہیز گار ہے اور خدا سے ڈر کر بندوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اور بنی نوع کا وہ سچا خیر خواہ ہے۔ سو انجام کار ان کے حق میں فیصلہ ہو گا۔ تب وہ لوگ جو پوچھا کرتے ہیں کہ ان دونوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے ان کے لئے یہ ایک نشان بلکہ کئی ایک نشان ظاہر ہوں گے۔ (تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ278,279جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں سفر کی مزید تفصیل بیان فرماتے ہیں : ’’جب مَیں 1904ء میں کرم دین کے فوجداری مقدمہ کی وجہ سے جہلم میں جا رہا تھا۔ تو راہ میں مجھے الہام ہوا اُرِیْکَ بَرَکَاتٍ مِنْ کُلِّ طَرْفٍ یعنی ہر ایک پہلو سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا۔ اور یہ الہام اسی وقت تمام جماعت کو سنا دیا گیا بلکہ اخبار الحکم میں درج کرکے شائع کیا گیا۔ اور یہ پیشگوئی اس طرح پرپوری ہوئی کہ جب مَیں جہلم کے قریب پہنچا تو تخمیناً دس ہزار سے زیادہ آدمی ہو گا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے۔ اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے اور پھر ضلع کی کچہری کے ارد گرد اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑ گئے۔ گیارہ سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دو سو عورت بیعت کرکے اس سلسلے میں داخل ہوئی اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پر تھا خارج کیا گیا۔ اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دئیے اور تحفے پیش کئے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ:’’اور اس طرح ہم ہر ایک طرف سے برکتوں سے مالا مال ہو کر قادیان میں واپس آئے اور خدا تعالیٰ نے نہایت صفائی سے وہ پیشگوئی پوری کی‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ264-263)
پھر فرماتے ہیں کہ :’’کرم دین جہلمی کے اس مقدمہ فوجداری کی نسبت پیشگوئی ہے جو اس نے جہلم میں مجھ پر دائر کیا تھا۔ جس پیشگوئی کے یہ الفاظ خداتعالیٰ کی طرف سے تھے رَبِّ کُلُّ شَیْ ءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اور دوسرے الہامات بھی تھے جن میں بریت کا وعدہ تھا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے اس مقدمہ سے مجھ کو بری کر دیا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ224)
تو جہلم کے مقدمے کے بعد بلکہ اس کی کڑی ہے گورادسپور میں کرم دین صاحب نے ایک مقدمہ کیا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ: ’’کرم دین نام ایک مولوی نے فوجداری مقدمہ گورداسپورمیں میرے نام دائر کیا اور میر ے مخالف مولویوں نے اس کی تائید میں آتما رام اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں جا کر گواہیاں دیں اور ناخنوں تک زور لگایا اور ان کو بڑی امید ہوئی کہ اب کی دفعہ ضرور کامیاب ہوں گے اور ان کو جھوٹی خوشی پہنچانے کے لئے ایسا اتفاق ہوا کہ آتما رام نے اس مقدمہ میں اپنی نافہمی کی وجہ سے پوری غور نہ کی اور مجھ کو سزائے قید دینے کے لئے مستعد ہو گیا۔ اُس وقت خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ آتما رام کو اس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کرے گا۔ چنانچہ یہ کشف مَیں نے اپنی جماعت کو سنا دیا اور پھر ایسا ہوا کہ قریباً بیس پچیس (25-20) دن کے عرصہ میں دو بیٹے اس کے مر گئے۔ اور آخر یہ اتفاق ہوا کہ آتما رام سزائے قید تو مجھ کو نہ دے سکا۔ اگرچہ فیصلہ لکھنے میں اس نے قید کرنے کی بنیاد بھی باندھی مگر اخیر پر خدا نے اس کو اس حرکت سے روک دیا لیکن تاہم اس نے سات سو روپیہ جرمانہ کیا‘‘۔ اس کی الگ تفصیل ہے کہ عدالت میں کس طرح جرمانہ ہوا۔ بہرحال فرماتے ہیں کہ’’پھر ڈویژنل جج کی عدالت سے عزت کے ساتھ مَیں بری کیا گیا اور کرم دین پر سزا قائم رہی اور میرا جرمانہ واپس ہوا۔ مگر آتما رام کے دو بیٹے واپس نہ آئے۔
پس جس خوشی کے حاصل ہونے کی کرم دین کے مقدمہ میں ہمارے مخالف مولویوں کو تمنا تھی وہ پوری نہ ہو سکی اور خداتعالیٰ کی اس پیشگوئی کے مطابق جو میری کتاب مواہب الرحمن میں پہلے سے چھپ کر شائع ہو چکی تھی مَیں بری کیا گیا۔ اور میرا جرمانہ واپس کیا گیا اور حاکم مجوز کو منسوخی حکم کے ساتھ یہ تنبیہ ہوئی کہ یہ حکم اس نے بے جا دیا۔‘‘ یعنی آتما رام کو تنبیہ بھی ہوئی۔ ’’مگر کرم دین کو جیسا کہ مواہب الرحمن میں شائع کر چکا تھا سزا مل گئی اور عدالت کی رائے سے اُس کے کذّاب ہونے پر مہر لگ گئی‘‘۔ جو کہتا تھا مجھے کذّاب کہا ہے۔ ’’اور ہمارے تمام مخالف مولوی اپنے مقاصد میں نامراد رہے۔ افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نامرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ درپردہ ایک ہاتھ ہے جو ان کے ہر ایک حملہ سے اس کو بچاتا ہے۔ اگر بدقسمتی نہ ہوتی تو ان کے لئے یہ ایک معجزہ تھا کہ ان کے ہر ایک حملہ کے وقت خدا نے مجھ کو ان کے شر سے بچایا۔ اور نہ صرف بچایا بلکہ پہلے اس سے خبر بھی دے دی کہ وہ بچائے گا۔ اور ہر ایک مرتبہ اور ہر ایک مقدمہ میں خداتعالیٰ مجھے خبر دیتا رہا کہ میں تجھے بچاؤں گا۔ چنانچہ وہ اپنے وعدہ کے موافق مجھے محفوظ رکھتا رہا۔ یہ ہیں خدا کے اقتداری نشان کہ ایک طرف تمام دنیا ہمارے ہلاک کرنے کے لئے جمع ہے او ر ایک طرف وہ قادر خدا ہے کہ ان کے ہر ایک حملہ سے مجھے بچاتا ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ125-124)
پھر پانچواں واقعہ جو آپؑ نے بتایا وہ لیکھرا م کا واقعہ ہے۔ اس کے متعلق پیشگوئی تھی اس کے مطابق وہ کیفر کردار تک پہنچا۔ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی انتہا کی ہوئی تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ کی پکڑ نے، اپنے پیارے نبی کی غیرت نے اس کو پکڑا اور اس کی تمام تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتائی کہ مَیں اس کو پکڑوں گا او رکس طرح اس کا انجام ہو گا۔ آپ نے اس بارے میں پیشگوئی فرمائی اور باوجود تمام تر حفاظتی تدابیر کے کوئی اس کو بچا نہ سکا۔ یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے۔ بہرحال اس کے قتل کے بعد اس پیشگوئی کی بنا پر جو حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کے انجام کی کی تھی حکومت کے کارندوں نے بھی کوششیں کیں اور لوگوں نے بڑا شور مچایا اور آپ پر الزام لگایا گیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آپ کی ہر لحاظ سے یہاں بھی بریت فرمائی۔ آپ کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی لیکن پولیس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اور اس قتل کے بعد تو آریوں کے جذبات بڑے سخت مشتعل ہو گئے تھے۔ ہرطرف آگ لگ گئی تھی۔ پولیس بڑی کوشش کر رہی تھی کہ مجرم کو پکڑے۔ اس شخص کا جس نے قتل کیا تھا حلیہ بھی اشتہار میں دیا گیا لیکن ایک آدمی جو اس حلیہ کا پکڑ اگیا تو لیکھرام کی بیوی نے کہا :نہیں، یہ وہ نہیں۔ یہ کوئی کشمیری تھا۔ ایک احمدی کو بھی پکڑا گیا۔ بعد میں وہ بھی رہا کر دئیے گئے۔ پکڑ دھکڑ کے علاوہ تلاشیاں بھی ہوئیں۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر کی بھی تلاشی ہوئی جیسا کہ مَیں نے کہا۔ جب پولیس نے تلاشی لینی تھی تو افسروں کے آنے سے چند منٹ پیشتر آپ سراج منیر کی ایک کاپی پڑھ رہے تھے۔ جس میں یہ مضمون تھا کہ لیکھرام کے قتل سے آپ پر ویسا ہی ابتلا آیا جیسے مسیح علیہ السلام کے دشمنوں نے خود بھی ایذا رسانی کی کوششیں کی تھیں اور گورنمنٹ کے ذریعہ سے بھی تکلیف دی تھی۔ مگر میرے معاملے میں تو اب تک صرف ایک پہلوہے۔ کیا اچھا ہوتاکہ گورنمنٹ کی دست اندازی کا پہلو بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور اور انسپکٹر میاں محمد بخش (جس نے پہلے بھی کئی کوششیں کی تھیں) اور کچھ ہیڈ کانسٹیبلز اور پولیس کی بھاری نفری نے آکر حضرت مسیح موعود ؑ کے گھر کو گھیر لیا۔ اس سے پہلے حضرت میرناصر نواب صاحب نے پولیس کے آنے کی خبر کہیں سے سن لی تھی۔ وہ سخت گھبرائے ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں جا کر بڑی پریشانی کے عالم میں عرض کی کہ پولیس گرفتاری کے لئے آرہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسکرائے اور فرمایا میر صاحب! دنیا دار لوگ خوشیوں میں سونے چاندی کے کنگن پہنا کرتے ہیں، ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے۔ پھر ذرا تامّل کے بعد فرمایا’’مگرایسا نہ ہو گا کیونکہ خداتعالیٰ کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں (اپنے طریقے ہیں اللہ تعالیٰ کی گورنمنٹ کے۔ ) اس وقت حضرت پیر منظور محمد صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بتایا کہ حضرت اقدس پر پولیس کی اطلاع کا ہلکا سا بھی اثر نہیں تھا۔ اور بدستور اپنی کاپی پڑھتے جا رہے تھے۔ لیکن جب پولیس نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے کام بند کر دیا اور فوراً جا کر دروازہ کھول دیا۔ پھر وہ جو سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے۔ انہوں نے ٹوپی اتار کر کہا کہ مجھے حکم آ گیا ہے کہ مَیں قتل کے مقدمے میں آپ کے گھر کی تلاشی لوں۔ تلاشی کا نام سن کر آپ کو اس قدر خوشی ہوئی جتنی اس ملزم کو ہو سکتی ہے جسے کہا جائے کہ تیرے گھر کی تلاشی نہیں ہو گی۔ چنانچہ حضو ر نے فرمایا کہ آپ اطمینان سے تلاشی لیں۔ اور مَیں مدد دینے میں آپ کے ساتھ ہوں۔ اس کے بعد آپ اسے دوسرے افسروں سمیت مکان میں لے گئے۔ اور پہلے مردانہ اور پھر زنانہ مکان میں تمام بستے(بیگ) وغیرہ ان کو دکھائے۔ تو ایک بیگ جب کھولا تو اس میں وہ کاغذات برآمد ہوئے جو پنڈت لیکھرام نے نشان نمائی کے لئے اپنے قلم سے حضور کے نام لکھے تھے۔ بہرحال بڑی دیر تک تلاشی جاری رہی۔ بعض تالے پرانے تھے، چابیاں گم گئی تھیں تو ٹرنک توڑ کربھی تلاشی لی گئی لیکن ان کو کچھ نہیں ملا اور تلاشی کے دوران آپ کے چہرہ مبارک پر کسی قسم کی فکر و تشویش نہیں تھی۔ قعطاً کوئی آثار ہی نہیں تھے۔ بلکہ آپ بڑے مطمئن اور خوش تھے۔ حضور کے گھر کی تلاشی کے بعد جو مہمان خانہ تھا، آگے پریس تھا، حضرت خلیفہ اول کا گھر تھا اس کی بھی تلاشی لی گئی۔ الماریاں وغیرہ دیکھی گئیں یہاں تک کہ پتھر کی سل جو گندم پیسنے کے لئے تھی وہ بھی کھول کھال کے دیکھی گئی۔ تو بہرحال حضرت اماں جان اس تلاشی کا نقشہ یوں بیان کرتی ہیں کہ میں بیٹھی ہوئی تھی تو حضرت مرزا بشیر احمدصاحب نے نیچے کی طرف اشارہ کرکے کہا (چھوٹے سے بچے تھے) پنجابی بولا کرتے تھے کہ’’اماں او پائی‘‘ یعنی سپاہی کو پائی کہہ رہے تھے۔ بہرحال ڈیوڑھی میں سے جب جھانک کے دیکھا تو سپاہی کھڑے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ اتنی دیر میں مسجد کا دروازہ کھٹکا اور پتہ لگا کہ سپاہی آئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہا ٹھہرو مَیں آتا ہوں۔ پھر آپ نے بڑے اطمینان سے جواپنا بیگ تھا وہ بند کیا اور مسجدکی طرف گئے وہاں مسجد میں جو انگریز کپتان تھا اس کے ساتھ دوسرے پولیس کے آدمی بھی تھے۔ تو انہوں نے کہا گھر کی تلاشی لینے آئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ساری تلاشی دلوائی۔ اور حضرت اماں جان کہتی ہیں کہ اس تلاشی کے دوران میں ایک خط نکلا جس میں لیکھرام کے قتل پر کسی احمدی نے حضرت مسیح موعود ؑ کو مبارکباد لکھی تھی۔ دشمنوں نے جھٹ کپتان صاحب کے سامنے وہ خط رکھ دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس ایک خط کو کیا دیکھتے ہو اس طرح کے تو بہت سارے خط میرے پاس مبارکبادوں کے آئے ہیں۔ اور لا کے ایک بڑا سا تھیلا سامنے رکھ دیا کہ یہ ہیں جو مبارکباد کے خط آئے ہوئے ہیں۔ تو بہرحال کپتان صاحب نے کہا۔ نہیں نہیں ہم کچھ نہیں دیکھتے۔ پھر نیچے کمرے میں، بیسمنٹ میں جانے لگے، اس کا دروازہ چھوٹا تھا۔ اماں جان کہتی ہیں وہاں بچارے کپتان صاحب کا سر ٹکرا گیا اور بڑی سخت چوٹ لگی اور بیٹھ گئے تو آخر پر تلاشی لینے والوں کا ظاہراً یہ انجام ہوا۔ بہرحال ان کو کچھ نہیں ملا اور ناکام و نامراد واپس چلے گئے‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد1صفحہ599تا601جدیدایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جیسا کہ پہلے مَیں نے بتایا تھا کہ لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میرے گھر کی تلاشی لی گئی۔ اور دشمنوں نے ناخنوں تک زور لگا دیا تا مَیں قاتل قرار دیا جاؤں۔ مگر وہ تمام مقدمات میں نامراد رہے۔ تو ہمیشہ کی طرح اس مقدمہ میں بھی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا باقی مقدموں میں بھی دشمن ہمیشہ ناکام و نامراد ہی رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس شیرپر کبھی کوئی ہاتھ نہ ڈال سکا۔ اس طرح اور سینکڑوں نشانات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید و نصرت میں دکھائے جو یقینا ہمارے ایمان میں تازگی اور ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اور ہر آن اپنے ایمان میں بڑھاتا چلا جائے۔ اور احمدیت پر، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر ہمارا یقین بڑھتا چلا جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف مختلف فوجداری مقدمات میں مخالفین کی ناکامی و نامرادی اور آپ ؑ کی باعزت بریّت اور دشمنوں کی ذلّت۔
فرمودہ مورخہ 07؍جولائی 2006ء (07؍وفا 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔