اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ناصرونصیرکاایمان افروزپرمعارف تذکرہ
خطبہ جمعہ 14؍ جولائی 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
گزشتہ دو خطبوں سے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا ذکر چل رہا ہے یہ تائید و نصرت اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی بھی کرتا ہے اور اُن کے بعداُن کی قائم کردہ جماعتوں سے بھی یہ سلوک کرتا ہے تاکہ ایسے تائیدی نشان دکھا کر مومنین کے ایمانوں کو مضبوط کرتا رہے۔ گزشتہ دو خطبوں میں مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق مرزا غلام احمد قادیانی مسیح الزمان اور مہدی دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آسمانی تائیدات اور دشمنان احمدیت کے آپؑ پر کئے گئے حملوں سے محفوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے غیر معمولی نشانات کے چند نمونے پیش کئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ مدد اور نصرت اپنے پیاروں کے لئے ان کے اس دنیا سے اپنے مالک حقیقی کے پا س چلے جانے سے ختم نہیں ہو جایا کرتی بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے ان کی جماعتوں سے بھی اللہ تعالیٰ یہ سلوک رکھتا ہے۔ بلکہ جہاں جماعت کے ساتھ بحیثیت جماعت اس نصرت کے نظارے نظر آتے ہیں وہاں انفرادی طور پر بھی اس تعلیم پر عمل کرنے والوں کے ساتھ اس قسم کے سلوک کے نمونے جاری رہتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کی جماعت کے ساتھ جماعتی طو رپر بھی اور انفرادی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے نشانات دکھائے جو افراد جماعت کے ازدیادایمان کا باعث بنے۔ جماعتی طور پر تو ہم دیکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد مخالفین کو یہ خیال ہو گیا کہ اب یہ جماعت گئی کہ گئی لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ:
’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے‘‘۔ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ305)
ہم نے دیکھا کہ یہ بات کس طرح سچ ثابت ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کی رِدا پہنا کر مخالفین کی خوشیوں کو پامال کردیا اور مومنین پھر ایک ہاتھ پر اکٹھے ہوگئے۔
پھر خلافت ثانیہ کے وقت میں ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی کس طرح مدد و نصرت فرمائی۔ اندرونی اور بیرونی مخالفین کی کوششوں اور خواہشوں کو پامال کرکے احمدیت کی کشتی کو اس بالکل نوجوان لیکن اولوالعزم پسرِ موعود کی قیادت میں آگے بڑھاتا چلا گیا اور جماعت کو ترقیات پر ترقیات دیتا چلا گیا۔ اور دنیا کے بہت سے ممالک میں اللہ تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت کی وجہ سے احمدیت کا جھنڈا خلافت ثانیہ میں لہرایا گیا۔
پھر خلافت ثالثہ میں انتہائی سخت دور آیا اور دشمن نے جماعت کو، افراد جماعت کو مایوس اور مفلوج کرنے کی کوشش کی اور اپنے زُعم میں جماعت کے ہاتھ کاٹ دئیے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت و فضل سے جماعت کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹنے دیا۔ یہ قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیابلکہ ایک دنیا نے دیکھا کہ مخالفین کے نہ صرف ہاتھ کٹے بلکہ گردنیں بھی اڑا دی گئیں اور یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہیں۔ پھر خلافت رابعہ کے دَور میں مخالفین نے خیال کیا کہ اب ہم نے ایسا داؤ استعمال کیا ہے یا مخالفین کے ایک سرغنے نے خیال کیا کہ اب مَیں نے ایسا داؤاستعمال کیا ہے کہ اب جماعت احمدیہ ہر طرف سے بندھ گئی ہے، اس کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے اور یہ اپنی موت آپ مر جائے گی۔ لیکن جیسا کہ بے شمار الہامات سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ مَیں تیری مدد کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس خلیفۂ راشد کی بھی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور دشمن اپنی تمام تر تدبیروں اور مکروں کے باوجود نظام خلافت کو مفلوج اور ختم کرنے میں ناکام و نامراد ہوا۔ بلکہ اپنے وعدے کے مطابق کہ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔ (تذکرہ صفحہ260ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ نے ایسے راستے کھلوائے اور اس طرح مدد فرمائی کہ دشمن بیچارہ دانت پیستا رہ گیا۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہے۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد مخالفین اس امید پر تھے کہ شاید اب یہ انتہا ہو چکی ہے اس لئے شاید اب جماعت کا زوال شروع ہو جائے لیکن بے وقوفوں کو یہ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے منصوبے کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس مسیح الزمان کو اپنی تائید و نصرت کے وعدوں کے ساتھ اس زمانے میں بھیجا ہے وہ نصرت نہ مخالفین کی خواہشوں سے ختم ہونی ہے، نہ ان کی کوششوں سے ختم ہونی ہے، انشاء اللہ۔ اور نہ کسی وقت یا کسی خاص فرد کے ساتھ یہ نصرت وابستہ ہے۔ یہ نصرت کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیاری جماعت سے وابستہ ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس میں روک نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے وعدے ہر قدم پر، ہر روز ہم دیکھتے ہیں۔ اس طرح جماعتی لحاظ سے اللہ تعالیٰ سارا سال اور ہر روز جو نصرت ہمیں دکھاتا ہے اس کا تذکرہ توانشاء اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ پر ہو گا۔ اس کی تفصیل تو اس وقت مَیں یہاں بیان نہیں کر رہا۔ اس وقت مَیں نے تمہیداً یہ بتایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مخالفوں کی خوشیوں کو پامال کرتا رہا۔
جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ انفرادی طور پر بھی اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی مدد کے نظارے دکھاتا ہے۔ جس کا اس نے ہم لوگوں سے وعدہ کیا ہوا ہے جو اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے ہیں۔ اور جن کو اپنے نمونے قائم کرنے کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور حکم دیا ہے کہ نمازوں کو قائم کرو، مالی قربانیوں میں آگے بڑھو اور اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اللہ اور رسول اور نظام خلافت کی مکمل اطاعت کرو۔ تو پھر دیکھو گے کہ تمہیں بھی اللہ تعالیٰ ہر قدم پر اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھائے گا۔ اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور پھر آپؐ کے خلفائے راشدین کے زمانے میں ہمیں تاریخ یہ نمونے دکھاتی ہے، بتاتی ہے۔ مسیح محمدی کے ماننے والوں میں بھی انتہائی کڑے وقتوں میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے نظارے ہم دیکھتے ہیں۔ اس وقت مَیں ایسے ہی بزرگوں کے چند واقعات پیش کرنے لگا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے مسیح و مہدی کے ماننے والوں اور میدان عمل میں کام کرنے والوں کی مختلف مواقع پر مدد فرماتا رہا ہے اور آج بھی فرما رہا ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یقینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خداتعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ان کو یہ نظارے دکھاتا ہے۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ ایک جگہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ موضع گڈھو جو ہمارے گاؤں سے تقریباً ڈیڑھ کوس کے فاصلے پر واقع ہے گیا۔ کیونکہ اس گاؤں کے اکثر لوگ ہمارے خاندان کے حلقہ ارادت میں داخل تھے۔ یعنی ان کے مرید تھے۔ اس لئے مَیں نے یہاں کے بعض آدمیوں کو احمدیت کی تبلیغ کی اور واپسی پر اس موضع کی ایک مسجد (اس گاؤں کی ایک مسجد) کے برآمدے میں اپنی ایک پنجابی نظم کے کچھ اشعار جو سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کی آمد سے متعلق تھے لکھ دئیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت گاؤں کے نمبردار چوہدری اللہ بخش تھے وہ کہیں مسجد کے غسلخانے میں طہارت کر رہا تھا۔ اس نے مجھے مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا اور راستہ میں وہاں کے امام مسجد مولوی کلیم اللہ نے بھی مجھے دیکھا۔ تو کہتے ہیں کہ یہ جب دونوں آپس میں ملے تو انہوں نے میرے جنون احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے مسجد کے برآمدے میں ان اشعار کو پڑھا۔ اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ اب ہماری مسجد اس مرزائی نے پلید کر دی ہے یہ تجویز کیا کہ سات مضبوط جوانوں کو میرے پیچھے دوڑایا جائے جو میری مشکیں باندھ کر، پکڑ کر ان کے پاس لے آئیں۔ کہتے ہیں پھر ان کا منصوبہ یہ تھا کہ میرے ہاتھوں ہی میرے لکھے ہوئے اشعار کو مٹوا کر مجھے قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سات جوانوں کو میرے پیچھے دوڑایا مگر اس زمانے میں مَیں بہت تیز چلنے والا تھا اس لئے مَیں ان جوانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے گاؤں آ گیا اور وہ خائب و خاسر ناکام لوٹ گئے۔ تو دوسرے دن اسی گاؤں کا ایک باشندہ جو والد صاحب کا مرید تھا اور ان لوگوں کے بد ارادوں سے واقف تھا صبح ہوتے ہی ان کی(یعنی ان کے والد صاحب کی) خدمت میں حاضر ہوا۔ اور سار اماجرا کہہ سنایا۔ کہتے ہیں والد صاحب نے یہ سننے کے بعد مجھ سے کہا کہ جب ان لوگوں کے تمہارے متعلق ایسے ارادے ہیں تو احتیاط کرنی چاہئے۔ کہتے ہیں کہ جب مَیں نے اپنے والد صاحب سے یہ سنا تو وضو کرکے نماز شروع کر دی اور اپنے مولیٰ کریم سے عرض کیا کہ یہ لوگ مجھے تیرے پیارے مسیح کی تبلیغ سے روک دیں گے؟ اور کیا مَیں اس تبلیغ کرنے سے محروم رہوں گا؟۔ یہ دعا مَیں بڑے اضطراب اور قلق سے مانگ رہا تھا کہ مجھے جائے نماز پر ہی غنودگی سی محسوس ہوئی اور مَیں سو گیا اور سونے کے ساتھ ہی میرا غریب نواز خدا مجھ سے ہمکلام ہوا اور نہایت رأفت اور رحمت سے فرمانے لگا وہ کون ہے جو تجھے تبلیغ سے روکنے والا ہے۔ اللہ بخش نمبردار کو مَیں آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈال دوں گا۔ تو کہتے ہیں صبح ہوتے ہی مَیں ناشتہ کرکے اس گاؤں میں پہنچا۔ (گڈھو نام تھا یا جو بھی) اور جاتے ہی اللہ بخش نمبردار کا پتہ پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ کیا بات ہے؟ مَیں نے کہا اس کے لئے ایک الٰہی پیغام لایا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ بخش آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈالا جائے گا اور کوئی نہیں جو اس خدائی تقدیر کو ٹال سکے۔ تو کہنے لگے کہ وہ تو موضع لالہ چک جو گجرات سے مشرق کی طرف کچھ فاصلے پرہے وہاں گیا ہوا ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے پھر کہا کہ تم لوگ گواہ رہنا کہ وہ آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈالا جائے گا۔ کوئی نہیں جو اس تقدیر کو ٹال سکے۔ یہ پیغام سنتے ہی کہتے ہیں کہ وہاں جو لوگ بیٹھے تھے ان پر سنّاٹا چھا گیا اور پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہی اللہ بخش بیمار ہوا، خونی اسہال ہوئے اور سینے میں درد وغیرہ ہوئی۔ وہاں لالہ چک میں بیمار ہو گیا اور چند دن میں یہ بیماری اتنی بڑھی کہ اس کے رشتہ دار اس کو گجرات ہسپتال لے کر گئے اور وہاں جا کے وہ ٹھیک گیارہویں دن اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا اور اپنے موضع گڈھو کا قبرستان بھی اسے نصیب نہ ہوا۔ (حیات قدسی۔ حصہ اول صفحہ24-23)
پھر ایک واقعہ حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر لکھتے ہیں کہ جولائی 1939ء کا واقعہ ہے کہ گھانا کی ڈگوبہ قوم کا نوجوان حج بیت اللہ اور دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد مکّہ مکرمہ سے واپس آ کر گھانا کے ایک گاؤں صراحہ نامی میں قیام پذیر ہو گیا اور غالباً اپنی اہمیت بڑھانے کے لئے اس نے ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ مَیں مکّہ سے آیا ہوں اور امام مہدی کا ظہور ابھی نہیں ہوا۔ احمدی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ان کا پراپیگنڈہ اتنا زور پکڑ گیا کہ اس علاقے کے ایک چیف رئیس محمدنامی جو تھے وہ کہتے ہیں میرے پاس سالٹ پانڈ آئے اور اس شخص کے زہریلے پراپیگنڈے کے بارے میں کہا کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنی چاہئے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ مَیں کچھ ضروری کاموں میں مصروف ہوں۔ میرے کسی شاگرد کو لے جائیں۔ لیکن جو وہاں کے چیف آئے تھے انہوں نے مولانا صاحب کو یہی زور دیا کہ آپ خود جائیں۔ کہتے ہیں چنانچہ مَیں خود اس گاؤں میں پہنچا۔ ارد گرد کی جماعتوں کے احباب بھی وہاں پہنچ گئے۔ مَیں نے اس مخالف نوجوان سے عربی میں گفتگو کرنی چاہی لیکن وہ آمادہ نہ ہوا اور لایعنی عذر کرنے لگا۔ اس پر گاؤں والوں نے خواہش ظاہر کی کہ مَیں علامات مہدی پر تقریر کروں۔ چنانچہ مَیں نے پونے دو گھنٹے اس موضوع پر تقریر کی جس کے بعد سامعین کو اعتراضات اور سوالات کی کھلی دعوت دی گئی۔ مگر کسی نے کوئی معقول سوال نہ کیا۔ کہتے ہیں اور یوں میں ایک رات گزار کر واپس آ گیا۔ لیکن کہتے ہیں کہ گھانا کا ملکی رواج یہ ہے کہ اگر کسی دو پارٹیوں میں مقابلہ ہو جائے تو جو پارٹی جیت جاتی ہے وہ فتح کے نشان کے طو رپر سفید لٹھے کی پٹیاں سروں اور ہاتھوں پر باندھ کر اور سفید جھنڈے ہاتھوں میں لے کر شہر میں جلوس نکالتے ہیں اور اپنی فتح کا اعلان کرتے ہیں۔ تو دوسری پارٹی نے باوجود اس کے کہ کوئی جواب نہیں دے سکے، یہ جلوس نکالا اور اعلان کیا کہ ہماری فتح ہو ئی ہے اور مہدی ابھی نہیں آیا کیونکہ زلزلہ نہیں آیا۔ مہدی ظاہر ہوتا تو زلزلہ ضرورآتا۔ (گھانا کے اس علاقے میں عموماً زلزے بہت کم آتے ہیں یاشاید آتے ہی نہ ہوں۔ مَیں نے اپنے آٹھ سالہ قیام میں نہیں دیکھا کہ کبھی زلزلہ آیا ہو)۔
بہرحال یہ لکھتے ہیں کہ جب مجھے ان کی اس حرکت کی اطلاع ملی تو مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک ہفتہ بڑے الحاح اور درد سے دعا کی کہ الٰہی ان مخالفوں کے مطالبہ کے مطابق اور صداقت مہدی علیہ السلام کے اظہار کے لئے زلزلے کا نشان دکھا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے نشانوں میں سے ایک زلزلے کا نشان بھی تو ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ اس دعا کا اتنا اثر تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اب اس ملک میں زلزلے کا نشان ضرور دکھائے گا اور مَیں نے اس علاقے میں تین مقامات پر جلسے کئے او ر ہر جگہ تمام واقعات بیان کرکے اعلان کر دیا کہ اب مہدی علیہ السلام کی صداقت کے اظہار کے لئے زلزلہ ضرور آئے گا اور اُن زلازل کا ذکر بھی کیا جو اس سلسلے میں پہلے آ چکے تھے۔ چنانچہ ابھی دو ہی مقام پر جلسہ ہوا تھا اور تیسرے مقام کی جگہ کا انتظام کیا جا رہا تھا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات کو عشاء کے وقت سارے گھانا میں شدید زلزلہ آیا۔ اور زلزلے سے دوسرے روز جب مَیں ہیڈ کوارٹر سالٹ پانڈ واپس جا رہا تھا تو جہاں سے مَیں گزرتا لوگ مجھے دیکھ کر تعجب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اس شخص نے کہا تھا زلزلہ ضرور آئے گا جو آ گیا ہے اور مشرکین اور عیسائی بھی اپنے دو تارے بجا بجا کر اعلان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا مہدی آ گیا ہے کیونکہ زلزلہ آ گیا ہے۔ تو کہتے ہیں پھر اس زلزلے کے بعد مَیں نے عربی اور انگریزی میں ٹریکٹ شائع کرکے امام مہدی کے آنے کی بشارتیں دیں اور اس وجہ سے پھر اس قریب کے علاقے میں ہی 180افراد نے بیعت کر لی۔ (روح پرور یادیں۔ مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب صفحہ79-77)
شیخ زین العابدین صاحبؓ اور حافظ حامد علی صاحبؓ اپنے مشرقی افریقہ کے سفر کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہماری تائید و نصرت فرمائی اس لئے کہ ان کو یہ یقین تھا کہ حضرت صاحب کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں۔ ان کا واقعہ یہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم جہاز پر روانہ ہوئے اور اس میں ایک ہزار افراد سفر کر رہے تھے۔ ابھی افریقہ پہنچنے میں چند روز باقی تھے کہ کپتان نے آدھی رات کو اعلان کر دیا کہ جہاز طوفان میں گھر گیا ہے اور خراب ہو گیا ہے اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ لوگ دعا کریں۔ شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ بھائی حامد علی صاحب ؓ نے مجھے جگایا۔ میں نے دریافت کیا کہ لوگ کیوں روتے ہیں۔ حافظ صاحب نے مجھ سے وعدہ لے کر کہ میں غم نہ کروں بات بتلائی اور کہا کہ دعا کرو۔ مَیں نے کہا کہ جہاز غرق نہیں ہو سکتا اس پر مسیح کے دو حواری بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مامور نے مجھے خوشخبری دی تھی (یہ حضرت مسیح موعودؑ کے وقت کی بات ہے) کہ تم دونوں بھائی افریقہ جاؤ وہاں سے صحیح سلامت اور فائدہ حاصل کرکے آؤ گے۔ تو بھائی حامد علی نے کہا کہ کیا پتہ حضور کے الفاظ کی تعبیرکچھ اور ہو۔ (الفاظ تعبیر طلب ہوں )۔ مَیں نے کہا ہرگز نہیں۔ میرا ایمان اور یقین ہے کہ مَیں نے جو حضور کے منہ سے سنا ہے وہی ہو گا چنانچہ اس وقت دعا میں شامل ہو گئے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد کپتان نے اعلان کیا کہ اب امن ہو گیا ہے اور جہاز خطرے سے باہر ہو چکا ہے۔ قریباً چوتھے روز ہم مشرقی افریقہ پہنچے اور جہاز آٹھ دن وہیں کھڑا رہا۔ پھر وہ زنجبار کو روانہ ہوا اور راستہ میں ایک دن کے بعد غرق ہو گیا۔ (ان کو چھوڑنے کے بعد)۔ کہتے ہیں میرے چچا شہاب الدین صاحب نے بٹالہ میں ایک اخبار میں یہ خبر پڑھی۔ سودا سلف سامان لینے گئے تھے۔ تو انہوں نے گھر آ کر بھائی فقیر علی کو بتایا۔ انہوں نے کہا گھر میں نہیں بتانا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں یہ خبر ضرور پہنچانی ہے۔ دونوں قادیان آئے اور حضرت صاحب سے مل کر رونے لگ پڑے۔ حضورؑ نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے یہ خبر بیان کی اور کہا کہ وہ دونوں غرق ہو گئے ہوں گے۔ فرمایا ہرگز نہیں۔ (دیکھیں آپؑ کو کتنا یقین تھا) وہ زندہ ہیں اور جاؤ اور جا کر دیکھو۔ تمہارے گھر میں جو ڈاک آئے گی اس میں ضرور تمہارے بھائیوں کا خط ہو گا اور میری طرف بھی خط آ رہا ہے۔ اگر مجھے پہلے خط پہنچا تو میں آپ کو پہنچا دوں گا اور اگر آپ کو پہلے مل گیا تو مجھے پہنچا دینا۔ (اصحاب احمدجلد 13صفحہ23.24)
مولانا صادق سماٹری صاحب بیان کرتے ہیں کہ 6مارچ 1942ء تک جاپان سارے انڈونیشیا پر مسلط ہو چکا تھا اور اپنی من مانی کارروائیاں کرنے لگا تھا۔ کسی کے متعلق کوئی شکایت پہنچے تو اس کی موت کا یہی بہانہ بن جاتی۔ کوئی تفتیش ہوتی نہ تحقیقات۔ فیصلہ سنا دیا جاتا۔ بلکہ عموماً اسے سنانا بھی ضروری نہ سمجھا جاتا۔ فوراً اسے نافذ ہی کر دیا جاتا۔ کہتے ہیں میرے متعلق بھی جاپانی حکومت نے قتل کا فیصلہ کیا۔ اطلاع دینے والے نے بتایا کہ میرے متعلق دو شکایات بھیجی ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ جماعت احمدیہ انگریزی حکومت کی مداح ہے۔ نمبر دو یہ کہ تمام علماء اسلام سماٹرا نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جاپان کی انگریزوں اور امریکہ سے یہ جنگ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مَیں نے ایسا فتویٰ دینے سے انکار کیا بلکہ اس کے خلاف ایک مضمون لکھا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ اس پر مَیں نے جماعت کوتلقین کی کہ نماز تہجد کی ادائیگی کا التزام کیا جائے اس میں باقاعدگی اختیار کی جائے اور دعا کی جائے اور اگر کسی کو کوئی خواب آئے یا کشف یا کوئی نظارہ نظر آئے تو مجھے بتایا جائے۔ کہتے ہیں اس تحریک کے بعد مَیں خود بھی ہر وقت دعا میں مشغول ہو گیا بلکہ ہمہ تن دعا بن گیا۔ اور ہر وقت اپنے حقیقی مولا پر نظر تھی۔ کہتے ہیں مجھے خوب یاد ہے کہ چوتھی رات تہجد کی نماز کے بعد فجر سے پہلے مَیں ذرا لیٹا تو ایک دیوار پر موٹے حروف میں لکھا ہوا دکھائی دیا کہ دانی ایل نبی کی کتاب کی پانچویں فصل پڑھو‘‘۔ اذان ہوئی نماز فجر کے لئے اٹھا دوستوں کو جو حاضر تھے اپنے خواب سے مطلع کیا۔ دانی ایل نبی کی کتاب کی پانچویں فصل دیکھی۔ اس میں کیا لکھا تھا؟ لکھا تھا کہ بخت نصر کے بعد اس کا بیٹا بِلْشَضَّر(Belshazzar) بادشاہ ہوا۔ یہ بت پرست بھی تھا اور ظالم بھی۔ اس نے ایک خواب دیکھا تھا (ایک لمبا خواب ہے) اس کی اس نے لوگوں کو اکٹھا کرکے تعبیر پوچھی لیکن ان سب نے کہا ہم کو اس کی تعبیر نہیں آتی۔ آخر دانی ایل بادشاہ کے حضور حاضر کیا گیا اور اس نے کہا اے بادشاہ! یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس میں لکھا یہ گیا ہے کہ (ان کی کچھ زبان ہے) جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے تیری مملکت کا حساب کیا اور اسے تمام کر ڈالا یعنی ختم کر دیا۔ اور پھر دوسرے لفظ کے یہ معنے ہیں کہ تو ترازو میں تولا گیا اور کم نکلا اور تیسرے لفظ کے یہ معنے ہیں کہ تیری سلطنت منقسم ہوئی اور مادیوں اور فارسیوں کو دی گئی۔ جس دن نبی د انی ایل نے یہ تعبیر بتائی اسی دن بِلْشَضَّر (Belshazzar) قتل ہوا اور دارا مادی نے 62برس کی عمر میں مملکت سنبھالی۔
تو انہوں نے یہ خواب دیکھی تھی کہ اس فصل کو پڑھو اور جب وہ پڑھی گئی تو یہ اس کا مضمون تھا۔ تو اس پہ وہ کہتے ہیں کہ اس سے بالوضاحت معلوم ہوتا ہے کہ جاپانی حکومت کا بھی وہی حشر ہو گا جو بِلْشَضَّر حکومت کا ہوا تھا۔ میرا یہ خواب اپریل 1945ء کے آخر یا مئی کے ابتداء کا ہے۔ اور اس وقت کئی ہندو سکھ دوستوں کو بھی یہ خواب سنا دیا گیا تھا۔ چنانچہ اسی سال 14 اگست کو ناگا ساکی اور ہیرو شیما پر ایٹم بم برسائے گئے اور جاپانی حکومت کا تختہ الٹ کر رکھ دیا گیا۔ انہی دنوں جاپانی حکومت کے کاغذات میں سے ایک خط نکلا جس میں 24-23 اگست 1945ء کی رات 65آدمیوں کے قتل کا فیصلہ درج تھا اور سرفہرست خاکسار کا نام تھا۔ یعنی مولانا صادق صاحب کا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ان کو محفوظ رکھا۔ کہتے ہیں کہ گویا اس فیصلے کے نافذ ہونے میں صرف دس دن باقی تھے کہ خدائے قادر و قیوم نے جو اپنے عاجز بے کس بندوں کی سنتا ہے جاپانی حکومت کو تباہ کر دیا اور قبل اس کے کہ وہ خدا کے اس عاجز بندے پر ہاتھ ڈالے اس کے ہاتھ بلکہ تمام قویٰ کو شل کرکے رکھ دیا۔ کہتے ہیں کہ خوب یاد رکھئے، جو کچھ ہوا وہ میری ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ جو کچھ ہوا مسیح الزمان، مہدی دوراں مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کے اظہار کے لئے بطور نشان آسمانی ظاہر ہوا کیونکہ اسی پیارے کی پیروی کی وجہ سے مجھے مجرم گردانا جا رہا تھا۔ (برہان ہدایت عبد الرحمان مبشر صاحب صفحہ 205 تا 208)
حضرت مولانا شیخ واحد صاحب لکھتے ہیں کہ 1968ء میں ہم نے فجی کے مشہور شہر’’با‘‘ میں احمدیہ مشن کی برانچ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ایک مناسب حال مکان بھی خرید لیا۔ تو اس شہرمیں ہماری شدید مخالفت شروع ہو گئی۔ مخالفین کوشش کرنے لگے کہ جیسے بھی ہو تبلیغ اسلام کا یہ مشن’ ’با‘‘شہر میں کامیاب نہ ہونے پائے اور ہمارے قدم وہاں نہ جمیں۔ اس وقت ہمارے مخالفین کا سرغنہ وہاں ایک صاحب اقتدارشخص ’’ابو بکر کو یا‘‘ نامی تھا۔ چنانچہ اس نے اور دیگر مخالفین نے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ احمدیوں کے’’با‘‘ مشن کی عمارت کو جلا دیں گے۔ تاہم کہتے ہیں کہ ہم سے جس قدر ممکن ہو سکا ہم نے حفاظتی انتظامات کئے۔ پولیس سٹیشن بھی ساتھ تھا ان کو بھی بتایا۔ پولیس نے کہا کہ ہم نگرانی رکھیں گے۔
پھر بھی ایک رات کسی طرح مخالفین کو مشن کو نقصان پہنچانے کا موقع مل گیا اور ان میں سے کسی نے ہمارے مشن ہاؤس کے ایک حصے میں تیل ڈال کر آگ لگا دی اور یہ یقین کرکے کہ اب آگ ہر طرف پھیل جائے گی کیونکہ لکڑی کا حصہ تھا لکڑی کو تو فوراً آگ لگ جاتی ہے اور ہمارے مشن ہاؤس کو خاک سیاہ کر دے گی آگ لگاتے ہی آگ لگانے والا وہاں سے چلا گیا، بھاگ گیا۔ لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ہمیں پتہ لگنے سے پہلے ہی وہ آگ بغیر کوئی نقصان پہنچائے خود ہی بجھ گئی یا بجھا دی گئی۔ بہرحال کہتے ہیں ہم سفر پر تھے اگلے دن جب ہم واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ عمارت کے اس طرف جہاں اکثر حصہ لکڑی کا تھا آگ لگائی گئی تھی جس سے چند لکڑی کے تختے جل گئے مگر وہ آگ بڑھنے سے قبل ہی بجھ گئی۔ چنانچہ اسی روز اس کی مرمت بھی کرا دی گئی۔ کہتے ہیں جہاں نقصان ہوا تھا اس کا جائزہ لے رہے تھے تو مبلغ انچارج مولانا نورالحق صاحب انور نے اس جلے ہوئے کمرے پر کھڑے ہو کر بڑے دکھ بھرے انداز میں آہ بھر کر کہا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی اشاعت کا یہ مرکز جلانے کی کوشش کی ہے خدا اس کے اپنے گھرکو آگ لگا کر راکھ کر دے۔ چنانچہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کے چند روز بعد اچانک’ ’با‘‘ میں ہمارے مخالفین کے سرغنہ ابوبکر کویا کے گھر کو آگ لگ گئی اور باوجودبجھانے کی ہر کوشش کے اس کا وہ رہائشی مکان سارے کا سارا جل کر راکھ ہو گیا۔ (روح پرور یادیں۔ از مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب صفحہ94,95)
پھر مولانا غلام حسین صاحب کے متعلق ہے، کہتے ہیں کہ جب انگریزواپس آنے لگے تو دونوں طرف سے گولہ باری ہو رہی تھی ایک گولے کے پھٹنے سے محلے میں جہاں وہ رہتے تھے آگ لگ گئی اور آگ نے بڑھتے بڑھتے ان کے گھر کی جگہ کے قریب آنا شروع کر دیا، بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی۔ احباب جماعت اس کو دیکھ کر بڑے پریشان ہو گئے۔ مولوی صاحب کے مکان کے پاس لکڑیاں جل رہی تھیں خیال تھا کہ سامان کا نکالنا بھی مشکل ہے۔ اُس وقت آدمیوں نے سامان نکالنا چاہا تو مولوی صاحب نے منع کر دیا اور کہا فکر نہ کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔ آگ انجمن احمدیہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمزور اور بے بس بندوں کی آواز کو سنا اور ان کی دعا کو قبول فرمایا اور مولوی صاحب کے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ آگ فوراً پلٹ گئی اور بیچ سے چند مکان چھوڑ کر آگے پیچھے گھروں کو جلا دیا لیکن اتنا حصہ محفوظ رہا۔ اور جو ساتھ کے مکان تھے وہ بھی محفوظ رہے۔ (الفضل6فروری46ء صفحہ4)
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چوہدری نتھے خان صاحب جو گاؤں مذکور غازی کوٹ کے رئیس اور مخلص احمدی تھے انہوں نے وہاں ایک تبلیغی جلسے کا انتظام کیا اور علاوہ مبلغین اور مقررین کے ارد گرد کے احمدی احباب کو بھی اس جلسے میں شمولیت کی دعوت دی۔ جلسہ دو دن کے لئے مقرر کیا گیا۔ جب غیر احمدیوں کو اس جلسے کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اپنے علماء کو جو فحش گوئی اور دشنام دہی میں خاص شہرت رکھتے تھے، گالیاں نکالنے میں بڑے مشہور تھے۔ (ان کے پاس گالیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ آج بھی یہی حال ہے۔ ) ان کو بھی دعوت دی اور ہماری جلسہ گاہ کے قریب ہی اپنا سائبان لگا کر اور سٹیج بنا کر حسب عادت سلسلہ حقہ اور اس کے پیشواؤں اور بزرگوں کے خلاف سبّ و شتم شروع کر دیا۔ گالیاں دینی اور فضول بکواس شروع کر دی۔ کہتے ہیں کہ ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک طرف سے سخت آندھی اٹھی اور اس طوفان باد نے انہیں کے جلسے کا رخ کیا اور ایسا اودھم مچایا کہ ان کا سائبان اڑ کر کہیں جا گرا، قناتیں کسی اور طرف جا پڑیں اور حاضرین جلسہ کے چہرے اور سرگرد سے اٹ گئے۔ یہاں تک کہ ان کی شکل دکھائی نہ دیتی تھی۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی لکھا ہے :
کبھی وہ ہو کے خاک دشمنوں کے سر پر پڑتی ہے
خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ106)
یہ حال ان کا ہو رہا تھا، یہاں تک کہ ان کی شکلیں بھی دکھائی نہ دیتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ بارہ بجے دوپہر تک جو غیر احمدیوں کا پروگرام تھا وہ سب آندھی اور طوفان باد کی نظر ہو گیا۔ اور ہمارا جلسہ بارہ بجے کے بعد شروع ہونا تھا۔ کہتے ہیں سب سے پہلے میری تقریر تھی آندھی کا سلسلہ ابھی تک چل رہا تھا کہ مجھے سٹیج پر بلایا گیا۔ مَیں نے سب حاضرین کی خدمت میں عرض کیا کہ سب احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے جلسے کو ہر طرح سے کامیاب کرے۔ چنانچہ مَیں نے سب حاضرین سمیت ہاتھ اٹھائے اور خداتعالیٰ کے حضور عرض کی اے مولیٰ کریم! تو نے خود قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مخلص و مومن اور فاسق و کافر برابر نہیں ہو سکتے اور تجھے معلوم ہو کہ غیراحمدیوں کے جلسے کی غرض تیرے پاک مسیح کی ہجو کرنا اور تکذیب کے سوا کچھ نہیں تھا اور ہماری غرض تیرے پاک مسیح کی تصدیق اور توثیق کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر دونوں مقاصد میں تیرے نزدیک کوئی فرق ہے تو اس آندھی کے ذریعے سے اس فرق کو ظاہر فرما اور اس آندھی کے مسلط کرنے والے ملائکہ کو حکم دے کہ اس کو تھام لیں تاکہ ہم جلسے کی کارروائی کو عمل میں لا کر اعلائے کلمۃ اللہ کر سکیں۔ مَیں ابھی دعا کر ہی رہا تھا اور سب احباب بھی میری معیت میں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے کہ یکدم آندھی رک گئی اور پھر ایسی رکی کہ پہلے ٹھنڈی ہوا چلنی شروع ہوئی اور پھر چند منٹ میں بالکل ختم ہو گئی۔ تو وہی ہوا کہ وہ دشمنوں کے سر پر پڑی اور ہمارا جلسہ جو شروع ہوا تو بند ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی نصرت کے یہ سب کرشمے اس کے پاک مسیح اور نائب الرسول اور اس کے عظیم الشان خلفاء کی خاطر اور ان کی برکت سے ظاہر ہوئے۔ الحمدللہ علی ذالک۔ (حیات قدسی حصہ سوم صفحہ27-26)
پھر مولانا غلام رسول صاحبؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت پر چار افراد ہندوستان کے دورے کے لئے گئے۔ کہتے ہیں ہم پہلے کلکتہ گئے پھر ٹاٹانگر جمشید پور گئے۔ اس میں مولوی محمد سلیم صاحب، مہاشہ محمد عمر صاحب اور گیانی عباداللہ صاحب شامل تھے۔ کہتے ہیں کیرنگ میں بڑی جماعت ہے جو مولوی عبدالرحیم صاحب پنجابی کے ذریعہ قائم ہوئی تھی، کیرنگ کے ارد گرد کے دیہات میں بھی ہم تبلیغ کرنے کی غرض سے جاتے رہے۔ ایک دفعہ ایک گاؤں کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں ایک سانپ عجیب نمونہ کا دیکھا۔ ہم بلندی کی طرف جا رہے تھے اور وہ بہت بڑاسانپ نشیب میں جا رہا تھا۔ اس کا نقشہ انہوں نے کھینچا ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے ان کو محفوظ رکھا۔ کہتے ہیں کہ کیرنگ سے ہم بھدرک پہنچے۔ یہ خان صاحب مولوی نور محمد کا آبائی وطن تھا۔ خان صاحب پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ بھدرک میں علاوہ دیگر شرفاء اور معززین کے ایک ہندو مہنت سے بھی ملاقات ہوئی جو وہاں کے رئیس تھے انہوں نے ہماری ضیافت کا انتظام بھی کیا اور اپنی وسیع سرائے میں ہمیں جلسہ کرنے اور لیکچر دینے کی اجازت دی۔ اس سرائے کے ایک حصے میں ہندوؤں کے بتخانوں کی یادگاریں اور بتوں کے مجسمے جا بجا نصب تھے۔ جب ہماری تقریر شروع ہوئی تو اوپر سے ابرسیاہ برسنا شرو ع ہو گیا یعنی بارش شروع ہو گئی۔ کالے بادل آگئے۔ تمام چٹائیاں اور فرش بارش سے بھیگنے لگے۔ اس وقت احمدیوں کے دلوں میں لیکچروں میں رکاوٹ کی وجہ سے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ کہتے ہیں میرے دل میں بھی سخت اضطراب پیدا ہوا۔ اور میرے قلب میں دعا کے لئے جوش بھر گیا۔ مَیں نے دعا کی کہ اے مولیٰ! ہم اس معبدا صنام میں یعنی بتوں کے اس گھر میں تیری توحید اور احمدیت کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں اور تیرے پاک خلیفہ حضرت مصلح موعود ؓ کے بھیجے ہوئے آئے ہیں۔ لیکن آسمانی نظام اور ابرو سحاب کے منتظم ملائکہ بارش برسا کر ہمارے اس مقصد میں روک بننے لگے ہیں۔ مَیں یہ دعا کر ہی رہا تھا کہ قطرات بارش جو ابھی گرنے شروع ہی ہوئے تھے یکدم بند ہو گئے اور جو لوگ بارش کے خیال سے جلسہ گاہ سے اٹھ کر جانے لگے تھے مَیں نے ان کو آواز دے کر روک لیا۔ کہا کہ اب بارش نہیں برسے گی اور اطمینان سے بیٹھ کر تقریریں سنو۔ اور تھوڑی دیر بعد کہتے ہیں مطلع بالکل صاف ہو گیا۔ (حیات قدسی حصہ سوم صفحہ25-24)
مولانا محمد صادق صاحب انڈونیشیا کا اپنا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ پاڈانگ شہرمیں چوہدری رحمت علی صاحب مرحوم ایک احمدی درزی مکرم محمد یوسف صاحب کی دکان پر بیٹھے تھے کہ ہالینڈ کے ایک عیسائی بشپ پادری اپنے ساتھیوں سمیت تبلیغ کرتے ہوئے وہاں آ نکلے اور مولانا صاحب سے ان کا اسلام اور عیسائیت پر تبادلہ خیالات شروع ہو گیا جسے سننے کے لئے لوگ بکثرت وہاں جمع ہو گئے۔ اسی اثناء میں موسلادھار بارش ہونے لگی۔ اس علا قہ میں جب بارش شروع ہوتو کئی کئی گھنٹے رہتی ہے۔ تو بحث کرنے کے بعد جب وہ پادری صاحب دلائل کا مقابلہ نہ کر سکے اور عاجز آ گئے تو اپنی شکست اور ناکامی پر پر دہ ڈالنے کے لئے حضرت مولانا صاحب کو انہوں نے کہا کہ اگر واقعی عیسائیت کے مقابلہ میں تمہارا مذہب اسلام سچا اور افضل ہے تو اس وقت ذرا اپنے اسلام کے خدا سے کہئے کہ وہ اپنی قدرت کا کرشمہ دکھائے اور اس موسلادھار بارش کو یکدم بند کر دے۔ چنانچہ اس کا یہ مطالبہ کرنا ہی تھا کہ مولانا صاحب نے بلا حیل و حجت اپنے زندہ خدا پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے بڑی پر اعتماد آواز میں بارش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اے بارش! تو اس وقت خدا کے حکم سے تھم جا اور اسلام کے زندہ اور سچے خدا کا ثبوت دے۔ کہتے ہیں کہ اسلام کے خدا پر قربان جائیے کہ اس کے بعد چند منٹ بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ بارش تھم گئی اور وہ پادری اور سب حاضرین اللہ کے عظیم نشان پر بڑے حیران رہ گئے، انگشت بدنداں رہ گئے۔ (روح پرور یادیں۔ از مولا محمد صدیق امرتسری صاحب صفحہ64-63)
مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری کہتے ہیں کہ ایک بار سیرالیو ن میں جب تھا تووہاں علماء نے چیفوں کو خوش کرنے کے لئے یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ سگریٹ، تمباکو، پائپ اور نسوار وغیرہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ روزہ رکھ کے یہ بے شک استعمال کر لو کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ چیزیں پیٹ میں نہیں جاتیں۔ تو جب ہم ان کو صحیح باتیں بتاتے تھے تو وہ بڑے ناراض ہوتے تھے اور چیف اس بات پر ہمارے تحفے بھی واپس کر دیتے تھے۔ تو اسی طرح کے ایک چیف نے ایک جگہ ان کو جہاں جماعت تھی وہاں گاؤں والے باجماعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ تو چیف نے ان کو کہا کہ تم نے ان لوگوں کو میری نافرمانی پہ اکسایا ہے اور خود بھی ہماری عائد کردہ پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہو۔ اس لئے تمہیں گاؤں میں نماز پڑھانے کی اجازت نہیں ہے۔ اور اگر تم نے گاؤں میں نماز پڑھائی تو مَیں تم سب کو یہاں سے نکال دوں گا۔ اور پھر اس نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ ہندوستانی ہمارے گاؤں میں ہلاکت اور تباہی چاہتا ہے تم لوگ گاؤں میں انہیں باجماعت نماز نہ پڑھنے دو۔ ایسا نہ ہو کہ ہم پر عذاب آ جائے ہمارے علماء کے نزدیک یہ بات گاؤں پر آسمانی وبا اور عذاب کا موجب بن سکتی ہے۔ تو خیر وہ کہتے ہیں کہ بات سن کے بڑا فکر مند تھا کہ رمضان بھی شروع ہونے والا ہے اور باجماعت نمازیں بھی لوگوں نے پڑھنی ہیں وہ کہاں پڑھیں گے تو اسی فکر میں وہ کہتے ہیں کہ مَیں ایک معلم کو لے کر باہر چلا گیا اور دعا کی کہ الٰہی تو ہی ہمارا چارہ ساز اور حاجت روا ہے کسی تدبیر سے ہم اس مصیبت کو دور نہیں کر سکے۔ ہم تو بے شک نالائق اور گناہ گار ہیں، کمزور ہیں مگر تیرا اسلام، تیرا قرآن، تیرا رسول، تیرا مہدی اور مسیح سچے ہیں۔ توُسچے وعدوں والا ہے۔ تیری یہ جماعت سچی ہے۔ توُ اپنے حقیر بندوں کی معجزانہ طور پر مدد فرما کہ یہ اس وقت بے یارومددگار ہیں اور ان کے ہموطنوں نے ہی ان کا جینا محض سچائی قبول کرنے کی وجہ سے مشکل کر رکھا ہے۔ پھر کہتے ہیں مَیں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی آڑے وقت کی دعا کے الفاظ بڑی رقت سے دوہرائے۔ کہتے ہیں تھوڑی دیر بعد دعاکے دوران ہی بارش شروع ہو گئی۔ اس سے انہوں نے یہ شگون لیا اور یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا قبول کر لی ہے۔ تو کہتے ہیں اپنے گاؤں میں واپس آئے۔ پھر چیف سے کہا۔ چیف نہ مانا۔ ابھی ہم اس پریشانی میں وہاں بیٹھے ہی تھے کہ بڑے چیف کاآدمی وہاں اپنے یونیفارم میں آیا اور اس نے اس چیف کو ایک خط دیا کہ چیف کا یہ حکم ہے کہ کیونکہ سیرالیون میں مذہبی آزادی ہے اس لئے کسی فرقے کو بھی کسی طرح بھی عبادت کرنے سے نہیں روکنا۔ توفوراً وہاں جماعت کے جو لوگ تھے ان کے لئے نشان ظاہر ہوا اور سب سجدہ شکر بجا لانے لگے۔ (روح پرور یادیں از مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری صفحہ331-329)
ایک دن حاجی غلام احمدصاحب ساکن بنگہ کو ایک غیر احمدی شخص جھجو خان نے کہا کہ اگر آج بارش ہو جائے تو مَیں احمدی ہو جاؤں گا۔ شدت کی گرمی پڑ رہی تھی حاجی صاحب نے احمدی احباب کی محبت میں نہایت سوز و گداز سے دعا کی ابھی تھوڑی دیرہی گزری تھی کہ بادل آسمان پر چھا گئے اور زور کی بارش برسنے لگی۔ جھجو خان صاحب اپنی بات کے پکے تھے۔ انہوں نے فوراً احمدیت قبول کر لی۔ (اصحاب احمد جلددہم صفحہ106)
مولانا نذیر احمد صاحب مبشر لکھتے ہیں کہ 1940ء میں مَیں گھانا میں تھا۔ اس وقت گولڈ کوسٹ کہلاتا تھا، کہ ایک ر ات مَیں نے خواب دیکھا کہ میرے چیمبر پاٹ میں ایک سیاہ سانپ داخل ہوا ہے جس کا منہ پاٹ کے اندر کی طرف ہے اور دم پاٹ کے کنارے پر ہے۔ مجھے اس وقت بیدار ہوتے ہی یہ تفہیم ہوئی کہ دشمن میرے درپئے آزار ہے۔ چنانچہ اسی روز فجر کی نماز کے بعد جب میں مبلغین کلاس کے طلباء کو قرآن کریم با ترجمہ پڑھا رہا تھا مَیں نے طلباء کو بتایا کہ گزشتہ شب مَیں نے ایسا خواب دیکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دشمن مجھ کو یا جماعت کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ابھی گفتگو مَیں نے ختم نہیں کی تھی، کہ ان طلباء میں سے ایک طالب علم نے مجھے مخاطب کرکے کہا مولوی صاحب آپ کا خواب پورا ہو گیا۔ وہ دیکھیں ہمارے مشن ہاؤس کے گرد دو درجن پولیس کے آدمی گھیرا ڈالے کھڑے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں مَیں وہاں گیا تو پولیس والے کھڑے تھے۔ ایک سادہ لباس والا میری طرف آیا اس کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے۔ مولوی صاحب کہتے ہیں مَیں نے اس کو ہنس کے کہا میرے خلاف کوئی وارنٹ گرفتاری لائے ہو؟ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ہاں یہ آپ کی تلاشی کے وارنٹ ہیں۔ پھر سپاہی بھی آ گئے۔ اس وارنٹ میں لکھا ہے کہ آپ کے پاس ٹرانسمیٹر ہے جس کے ذریعے آپ جرمنی کو خبریں پہنچا رہے ہیں اور آپ کے پاس اسلحہ بھی ہے کہتے ہیں مَیں نے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا کہ بے شک میری اور مشن ہاؤس کی تلاشی لے لو اور جہاں اسلحہ اور ٹرانسمیٹر رکھا ہوا ہے اپنے قبضہ میں لے لو۔ چنانچہ انہوں نے تلاشی لینی شروع کی۔ انہیں نظرکیا آنا تھا۔ بہرحال ناکام ہوئے۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے فنانشل سیکرٹری کے دفترکی بھی تلاشی لینی ہے مگر وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ پھر انہوں نے سکول کے ہوسٹل کی تلاشی لینی چاہی تو مَیں نے انہیں کہا کہ وارنٹ تو صرف میرے گھر کے ہیں لیکن بہرحال تم لوگ تلاشی لے لو تاکہ تمہاری تسلی ہو جائے۔ جب ساری تلاشی لی اور ناکامی ہوئی اور ان کو کچھ نہیں ملاتو شرمندہ ہو کر چلے گئے۔ اللہ میاں کا فوری انتقام اس طرح ظاہر ہوا۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے فارغ ہونے پرپولیس کو رپورٹ ملی کہ قریب ہی ایک گاؤں میں شراب کشید کی جارہی ہے۔ (پولیس کو موقع ملتا ہے نا کہ جہاں جائیں وہاں کچھ نہ کچھ آمدنی ہو جائے۔ ان ملکوں میں پولیس اتنی صاف تو ہوتی نہیں )۔ تو وہ وہاں پہنچ گئے۔ وہاں جا کے مجرم کو پکڑ لیا اور انسپکٹر نے ابھی بوتل اپنے ہاتھ میں پکڑی ہی تھی کہ ان مجرموں میں سے کسی نے شراب کی بوتل ان کے ہاتھ میں توڑ دی جس سے اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ پھر راستے میں اس کارکا جس پر وہ آ رہا تھا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور اس کی گاڑی ایک گہرے کھڈ میں جا گری۔ اس کی بیوی نے بھی اس سے کہا کہ تم نے جو احمدیوں کے امیر مولوی مبشر کے ساتھ سلوک کیا ہے اس کی وجہ سے یہ سب تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔ ان سے معافی مانگو۔ کہتے ہیں کہ دراصل یہ شرارت ایک متعصب اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر کی تھی جو کیتھولک تھا۔ چنانچہ یہ تلاشی وغیرہ کا سلسلہ ختم ہوا تو مَیں نے چیف کمشنر کے پاس پہنچ کر شکایت کی کہ آپ کی پولیس نے اس طرح ہمارے خالص مذہبی اور تبلیغی مشن سے زیادتی کی ہے۔ اس پر اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کس پر شک ہے۔ مَیں نے کہا میرا خیال ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر سالٹ پانڈ نے سب کچھ کروایا ہے۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد اس کی تبدیلی کرکے اس کو ڈپٹی کمشنر بنا دیا گیا۔ کہتے ہیں اس پر مَیں نے تہجد میں دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میرے مولیٰ! وہ شخص جس نے تیرے دین کی توہین کی یا کرائی اسے یہ ترقی کیسی ملی۔ یعنی اسے تو عبرتناک سزا ملنی چاہئے تھی۔ کہتے ہیں میری دعا کے چند دن بعد اس متعصب دشمن اسلام پر وہاں کے ایک بخار بلیک واٹر فیور(Black Water Fever) یعنی کالے خونی بخارکا حملہ ہوا اور اس سے فوت ہو گیا۔ (روح پرور یادیں از مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری صفحہ82تا80)
اب دیکھیں جانوروں کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کس طرح ڈالتاہے۔ ہمارا ایک وفدڈیرہ غازیخان میں کسی جگہ گیا اور ان دنوں وہاں گرمی بڑی تھی۔ ٹانگے پر جا رہے تھے۔ توگھوڑا گرمی سے تھک کر گر گیا۔ بڑی کوشش کی انہوں نے کہ اُسے اٹھائیں لیکن گھوڑانہیں اٹھا۔ ملک مولا بخش صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے گھوڑا نہیں اٹھتا توپیدل روانہ ہوگئے۔ اگلے گاؤں جاناتھا۔ باقی لوگ ٹانگے کے پاس کھڑے رہے۔ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ دور سے ایک شخص سفید گھوڑے پر سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا آرہاہے۔ انہوں نے خیال کیا کہ یہ شخص اگر واقف ہو اور گھوڑا تانگے کو لگ سکے تو ہم اسے جوت لیں گے اور اس کا سوار تانگے پر سوا ر ہوجائے گا۔ لیکن جب سوار نے مقامی دوستوں کو سلام نہ کیا تویہ سمجھے کہ یہ کوئی اجنبی شخص ہے۔ سوار اسی طرح گھوڑا سرپٹ دوڑائے چلا جارہاتھا۔ جب وہ گھوڑا ملک صاحب کے پاس پہنچاتو خود بخود رک گیااور وہ سوار اترا اور اس نے ملک صاحب سے کہا کہ آپ اس گھوڑے پر بیٹھ جائیں۔ یہ شخص کوئی قادر بخش تھا اور آپ کا واقف تھا۔ ملک صاحب نے عذر کیا کہ آپ چلیں مَیں پیدل آجاتاہوں۔ لیکن اس نے کہا۔ کوئی بات نہ کریں۔ اس پر بیٹھ جائیں۔ یہ ایک عجیب واقعہ ہے۔ چنانچہ دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ چند سال سے مَیں روزانہ اس گھوڑی پر بستی رنداں سے (ڈیرہ غازیخان میں ایک گاؤں ہے) اپنے حلقہ میں جاتاہوں۔ اور کبھی اس نے کان تک نہیں ہلایااور میرے اشارے پر چلتی ہے مگر آج نہ معلوم کیاہوا کہ جب گاؤں سے مَیں نکلا ہوں تو یہ واپس مُڑ گئی اور بھاگنا شروع کر دیا۔ اور مَیں نے بہت کوشش کی ہے روکنے کی لیکن نہیں رُکی۔ یہ دیکھئے اس کو روکنے کے لئے باگیں کھینچتے کھینچتے میرے ہاتھ بھی سرخ ہو گئے ہیں۔ لیکن آپ کے پاس پہنچ کر خود بخود ٹھہر گئی ہے۔ آپ اس پر سوار ہوجائیں۔ چنانچہ اس گھوڑی نے ملک صاحب کو بڑے آرام سے اگلے گاؤں کوٹ چٹھہ پہنچا دیا جہاں جاناتھا۔ توکہتے ہیں کہ عین وقت پر غیب سے نصرت الٰہی کے پہنچنے کی وجہ سے ملک صاحب یہ سمجھتے تھے کہ وفد چونکہ حضرت مسیح موعودکے سلسلہ کا ایک کام کرنے کو گیاتھا اور ملک صاحب پیدل چلنے کے عادی نہ تھے بالخصوص موسم گرما میں، اس لئے خداتعالیٰ نے غیب سے یہ انتظام وسہولت پہنچا دی۔ گھوڑے کے دل میں ڈال دیا کہ تم وہیں جا کر رکو۔ (اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ154)
حضرت مسیح موعود دعا کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ:
’’اے میرے خدا! مجھے اکیلا مت چھوڑ جیسا کہ اب مَیں اکیلا ہوں اور تجھ سے بہتر کون وارث ہے۔ یعنی اگرچہ مَیں اس وقت اولاد بھی رکھتاہوں اور والد بھی اور بھائی بھی‘‘ بہت دنوں کی بات ہے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں۔ ’’لیکن روحانی طورپر ابھی مَیں اکیلا ہی ہوں۔ اور تجھ سے ایسے لوگ چاہتاہوں جو روحانی طورپر میرے وارث ہوں۔ ‘‘ فرماتے ہیں ’’یہ دعا اس آئندہ امر کے لئے پیشگوئی تھی کہ خداتعالیٰ روحانی تعلق والوں کی ایک جماعت میرے ساتھ کردے گا جو میرے ہاتھ پرتوبہ کریں گے‘‘۔ فرماتے ہیں ’’میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پراپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزارہا لوگوں میں بعد بیعت مَیں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے۔ ہرگز ایسا صاف نہیں ہوسکتا۔ اور مَیں حلفاً کہہ سکتاہوں کہ میرے ہزارہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد اُن میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے‘‘۔
… فرمایا ’’غرض خدا کی شہادت سے ثابت ہے کہ پہلے مَیں اکیلا تھا اور میرے ساتھ کوئی جماعت نہ تھی۔ اور اب کوئی مخالف اس بات کو چھپا نہیں سکتاکہ اب ہزارہا لوگ میرے ساتھ ہیں۔ پس خدا کی پیشگوئیاں اس قسم کی ہوتی ہیں جن کے ساتھ نصرت اور تائید الٰہی ہوتی ہے‘‘۔ (حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 249)
ایسے لوگ جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کے لئے نیکیوں پر قائم ہو اور اللہ اور رسول کے دامن کو پکڑ لو۔ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی جماعت میں سے ہی ایسے لوگ دکھاتاہے (جیسا کہ آپ ؑ نے فرمایا ہے) جن کی قبولیت ِدعا اور اللہ تعالیٰ کے اُن کی مدد اور نصرت کے نمونے ہم نے دیکھے۔ بعض واقعات مَیں نے بیان کئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اللہ کے حضور دعا کی تھی اور جس کا ذکر جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے اقتباس میں کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہمیشہ اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ایسے لوگ پیدا کرتا رہے جن کی زندگیوں میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے نظر آتے رہیں۔ اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے اخلاص و وفا میں بڑھتے ہوئے ہمیشہ خلافت احمدیہ کے استحکام اور مضبوطی کے لئے بھی کوشش کرتے رہیں۔ اس کے مددگار اور معاون بنتے رہیں۔ آمین
اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ناصرونصیر کا ایمان افروز پر معارف تذکرہ
فرمودہ مورخہ 14؍ جولائی 2006ء (14؍وفا 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔