اللہ تعالیٰ کی صفتِ مجیب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ میں
خطبہ جمعہ 18؍ اگست 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کروایا کہ{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ} (آل عمران:32) یعنی تو کہہ کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اس صورت میں وہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور بخش دے گا، تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔
جس ہستی کا، جس شخصیت کا اللہ تعالیٰ سے یہ تعلق ہو کہ اس کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے اور اس کے واسطے سے دعا مانگنے سے گناہ معاف ہو جائیں اس کا اپنا تعلق خداتعالیٰ سے کس قدر عظیم ہو گا اور اس کی عام باتوں کو بھی یقینا خداتعالیٰ دعا کے رنگ میں قبول کر لیتا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے اس اظہار کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ مَیں بشری تقاضے کے تحت ایک عام بات بھی کروں تو وہ دعا کا رنگ اختیار کر سکتی ہے اور کسی دوسرے کے لئے ابتلاء یا امتحان کا موجب بن سکتی ہے۔ اس لئے آپؐ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب سے یہ شرط رکھی ہے کہ اے میرے پروردگار میں بھی ایک عام آدمی اور عام انسانوں کی طرح غصے میں آ جاتا ہوں اور خوش بھی ہوتا ہوں جس طرح دوسرے لوگ خوش ہوتے ہیں پس اگر میں کسی انسان کے بارے میں بددعا کروں اور وہ درحقیقت اس کا اہل نہ ہو تو میری یہ دعا ہے کہ اے میرے اللہ ! میری یہ بددعا اس کی پاکیزگی اور قیامت کے دن درجات کی بلندی کا باعث بن جائے۔ پس یہ تھا آپؐ کو اپنے خدا پر اپنی دعاؤں کی قبولیت کے بارے میں یقین۔ اور یہ اس لئے تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ محبوب اپنے محبوب کی ذرا سی بات کو بھی ٹال دے۔ آپؐ کے اس مقام کا دشمن کو بھی یقین تھا، وہ چاہے آپ کے خدا کی طرف سے ہونے کے قائل تھے یا نہیں یا دعا کی قبولیت کے قائل اس طرح تھے جس طرح ایک مسلمان ہوتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اکثر لوگ متاثر ہونے کے باوجود اپنی اَناؤں کے جال میں پھنس کر اس کو کچھ اور نام دیتے ہیں، یہ نہیں کہتے کہ اللہ کے تعلق کی وجہ سے دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ تو بہرحال جیسا کہ میں نے کہا آپؐ کی بات کے پورے ہونے کے دشمن بھی قائل تھے، جبھی تو جنگ احد میں ایک کافر نے آپؐ کے نیزے سے لگے ہوئے ہلکے سے زخم پر بھی شور مچا دیا تھا کہ مر گیا، مرگیا۔ لوگوں نے کہا کہ اتنا ہلکا سا زخم ہے، اس سے تم کس طرح مر جاؤ گے؟اس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک دفعہ کہا تھا کہ تم میرے ہاتھ سے مرو گے تو آج اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر تھوک بھی دیتے تو خدا کی قسم میں مر جاتا۔ (السیرۃ النبویۃلابن ہشام غزوۃ احد شأن عاصم بن ثابت صفحہ 535,536ایڈیشن2001)
چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ وہ اس زخم سے ہی چند روز میں مر گیا۔ آپؐ نے یہ جو دعا مانگی تھی کہ میری بددعا کا اگر کوئی اہل نہ ہو تو اسے دعا میں بدل دینا لیکن یہ دشمن اسلام اس بات کا اہل تھا، اس لئے اپنے انجام کو پہنچا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ:۔
’’میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 119,118)
اس وقت میں اللہ تعالیٰ کے اس محبوب، پیارے اور عالی مرتبے کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مختلف مواقع پر آپؐ کی باتوں اور دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دے کر اپنا پیارا ہونے کا جو اللہ تعالیٰ نے اظہار فرمایا ہے، اس کا ذکر کروں گا۔ ظاہر ہے اس عظیم نبی کی زندگی کے ان قبولیت دعا کے واقعات کا احاطہ تو نہیں ہو سکتا، بیشمار واقعات ہیں۔ مختلف مواقع کی چند جھلکیاں پیش کی جا سکتی ہیں جو اس وقت میں پیش کروں گا۔
ایک روایت میں آتا ہے مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ جب قریش نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور نافرمانی کی تو آپ نے ان کے خلاف یہ دعا کی۔ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلَیْھِمْ بِسَبْعٍ کَسَبْعِ یُوْسُفَ۔ َ (بخاری کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الدخان باب ربنا اکشف عنا العذاب۔ ۔ ۔ حدیث نمبر4822)
اے اللہ ! میری مشرکین کے مقابلے پر اس طرح سات سالوں کے ذریعہ سے مدد فرما جس طرح تو نے یوسف کی سات سالوں کے ذریعہ سے مدد فرمائی تھی۔ مشرکین مکہ کو ایک شدید قحط نے آگھیرا یہاں تک کہ ہر چیز کو اس نے ملیامیٹ کر دیا، یہاں تک کہ انہوں نے ہڈیاں اور مردار کھایا اور زمین سے دھوئیں کی مانند چیز نکلنے لگی۔ ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قوم تو ہلاک ہو گئی ہے، اللہ سے دعا کریں وہ ان سے اس عذاب کو دور کر دے۔ آپؐ نے دعا کی اور فرمایا تم پھر اس کے بعد سرکشی کرنے لگ جاؤ گے۔ دعا تو میرے سے کروا رہے ہو لیکن دوبارہ وہی حرکتیں کرو گے۔ مسلمانوں کے ساتھ کفار نے جو ظلم کیا اس پر جب اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا عذاب قحط سالی کی صورت میں نازل ہوا تو پھر بنی نوع کی ہمدردی کی جو تڑپ آپؐ کے دل میں تھی اس کے تقاضا کے تحت دشمن کے حق میں دعا کی کہ عذاب دور ہو جائے۔ لیکن ساتھ یہ بھی فرما دیا، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مجھے علم ہے کہ تم بھی جس طرح پہلے کرتے رہے تھے یہ عذاب دور ہونے کے باوجود بعد میں وہی حرکتیں کرو گے، لیکن پھر بھی میں تمہاری تکلیف کی وجہ سے تمہارے لئے دعا کرتا ہوں۔ تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ دشمن کو بھی آپ کی دعاؤں پر یقین تھا لیکن اناؤں اور ضد کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب عذاب دور کر دیتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح نبیوں کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سخت قحط پڑ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک بدو کھڑا ہوا اور اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! مال مویشی خشک سالی سے ہلاک ہو گئے، پس اللہ سے ہمارے لئے دعا کریں۔ آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں آسمان پر ایک بھی بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آتا تھا، لیکن خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپؐ نے ابھی ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ بادل پہاڑوں کی مانند امڈ آئے، ابھی آپ منبر سے بھی نہیں اترے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک پر بارش کے قطرات دیکھے، پھر لگاتار اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی بدو کھڑا ہوا اور راوی کہتے ہیں کہ وہ بدو یا کوئی اور شخص، بہرحال جو بھی شخص کھڑا ہوا اس نے کہا اے اللہ کے رسول! اب تو مکانات گرنے لگے ہیں او رمال بہنا شروع ہو گیا ہے، پس آپؐ ہمارے لئے دعا کریں۔ آپؐ نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور دعا کی اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا اے اللہ ان بادلوں کو ہمارے ارد گر د لے جا اور ہم پر نہ برسا۔ آپؐ جس بادل کی ٹکڑی کی طرف بھی اشارہ کرتے تو وہ پھٹ جاتی اور اس بارش سے مدینہ ایک حوض کی مانند ہو گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ وادی کنات ایک مہینے تک بہتی رہی، جو شخص بھی کسی علاقے سے آتا تو اس بارش کا ذکر کرتا تھا۔ (بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستسقاء فی الخطبۃیوم الجمعۃ حدیث نمبر933)
دیکھیں اللہ تعالیٰ کا سلوک کہ بارش اس وقت تک ہوتی رہی جب تک دوبارہ دعا نہ کر دی کہ ارد گرد کے علاقوں میں تو ہو جائے لیکن یہاں سے ہٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو ایسے حالات ہی پیدا نہ کرتا جس سے اتنے قحط کی حالت پیدا ہو جاتی جس سے مسلمان بھی تنگ آئے ہوئے تھے اور پھر بارش اگر ہوتی تو اتنی ہوتی جتنی ضرورت تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی مومنوں کی جماعت کو آزمانے اور ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے اور نبی کے زیادہ سے زیادہ معجزات دکھانے کے لئے ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جو مومنوں کے لئے ایمان میں زیادتی کا باعث بنتے ہیں اور کافروں کے لئے بھی توجہ پیدا کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔ اسی طرح بڑے امتحانوں، ابتلاؤں میں بھی ہوتا ہے تاکہ مومنوں کے ایمان میں مضبوطی آئے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان امتحانوں سے گزرنا چاہئے، بہرحال مومنوں اور انبیاء کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آخری نتیجہ مومنوں کے حق میں ہی ظاہر فرماتا ہے۔ اس بات کا تو ضمناً ذکر آ گیا، بیان میں یہ کر رہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت دعا کے واقعات اور کس طرح وہ مجیب خدا آپؐ کی باتوں کو پورا فرماتا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اپنے خادم انس کے لئے دعا کریں۔ آپؐ نے دعا کی اے اللہ! اس کے اموال اور اس کی اولاد میں برکت ڈال دے اور جو کچھ تو اسے عطا کرے اس میں برکت ڈال۔ (بخاری کتاب الدعوات باب دعوۃ النبیﷺ لخادمہ بطول العمر و بکثرۃ المال حدیث نمبر6344)
چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس کا ایک باغ تھا، اس دعا کے بعد سال میں دو دفعہ پھل دیتا تھا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کے لئے کثرت مال اور اولاد کی جو دعا مانگی تھی اس کے نتیجہ میں حضرت انس کی زندگی میں 80کے قریب آپ کے بیٹے اور پوتے اور پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھیں اور آپ نے 103 یا بعض روایتوں میں آتا ہے کہ 110سال تک عمر پائی۔ (اسد الغابۃجلد اوّل زیر اسم انس بن مالک بن النضر صفحہ 178، مطبع دارالفکر بیروت 1993ء)
ایک اور روایت میں آپؐ کی دشمن کے لئے بددعا اور اس کی قبولیت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز ادا کر رہے تھے کہ ابو جہل اور قریش کے چند لوگوں نے مشورہ کیا۔ مکہ کے ایک کنارے پر اونٹ ذبح کئے گئے تھے، انہوں نے بھیجا اور وہ اونٹ کی اوجڑی اٹھا لائے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر لا کر رکھ دیا۔ حضرت فاطمہ آئیں اور اسے آپؐ کے اوپر سے اٹھایا۔ اس پر آپ نے فریاد کی اے اللہ! تو قریش کو خود سنبھال، اے اللہ! تو قریش کو خود سنبھال، اے اللہ! تو قریش کو خود سنبھال۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ بددعا ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابی بن خلف اور عقبہ بن ابو مُعیط وغیرہ کے متعلق تھی۔ عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سب کو بدر کے میدان میں مقتولین میں دیکھا۔ (بخاری کتاب الجہاد و السیر باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ والزلزلۃ حدیث نمبر 2934)
یہ تھا انجام ان سرداران قریش کا جنہوں نے مکہ میں آپ کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا اور جن کی وجہ سے آپؐ کو اس شہر سے ہجرت کرنی پڑی، جو آپؐ کا شہر تھا۔ اور ہجرت کے وقت آپ نے مکہ کی طرف دیکھ کر یہ فرمایا تھا کہ اے بستی ُ تو تو مجھے بہت پیاری ہے لیکن تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سرداران قریش کے لئے بددعا کی تو اس لئے نہیں کہ آپ کے دل کی سختی تھی۔ آپؐ کے دل کی نرمی کی تو کوئی انتہا نہیں تھی، تبھی تو طائف کے سفر پر لوگوں کے ظلم کے باوجود جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہاڑوں کا فرشتہ یہ پیغام لے کر آیا کہ اگر چاہیں تو دو پہاڑوں کو ملا دوں اور لوگوں کو بیچ میں پیس دوں۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں، انہیں میں سے اللہ کی عبادت کرنے والے پیدا ہوں گے۔ یہ تھا آپ کا بنی نوع سے ہمدردی کا معیار کہ باوجود اجازت کے بددعا نہیں کی لیکن قوم کے لیڈر چونکہ بددعا کے مستحق تھے، ان کے لئے کی۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ طفیل بن عمرو الدوسی اور ان کے ساتھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! دوس قبیلے نے اسلام کی دعوت کا انکار کر دیا ہے اس لئے آپ ان کے خلاف بددعا کریں۔ کسی نے کہا کہ اب تو دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دعا کی کہ اے اللہ تو دوس قبیلے کو ہدایت دے اور ان کو لے آ۔ (بخاری کتاب الجہاد و السیر باب الدعاء للمشرکین بالھدی لیتالفھم حدیث نمبر 2937)
اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے ملتی ہے کہ طفیل بن عمرو ایک معزز انسان اور عقلمند شاعر تھے۔ جب وہ مکہ آئے تو قریش کے بعض لوگوں نے ان سے کہا کہ اے طفیل! آپ ہمارے شہر میں آئے ہیں اور اس شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عجیب فتنہ برپا کر رکھا ہے، نعوذ باللہ۔ اس نے ہماری جماعت کو منتشر کر دیا ہے۔ وہ بڑا جادو بیان ہے۔ باپ بیٹے، بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان اس نے جدائی ڈال دی ہے۔ ہمارے ساتھ جو بیت رہی ہے وہی خطرہ ہمیں تمہاری قوم کے بارہ میں بھی ہے۔ پس ہمارا یہ مشورہ ہے کہ نہ تم اس شخص سے بات کرنا اور نہ اس کی کوئی بات سننا۔ طفیل کہتے ہیں کہ کفار مکہ نے اتنی تاکید کی کہ میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ میں اس شخص کی بات نہیں سنوں گا اور کوئی بات کروں گا بھی نہیں۔ لیکن مجھے پتہ تھا کہ بیت اللہ میں موجود ہیں تو وہاں جاتے ہوئے میں نے اپنے کانوں میں روئی ڈال لی تاکہ غیر ارادی طور پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کانوں میں نہ پہنچے۔ کہتے ہیں کہ جب میں بیت اللہ میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ مَیں بھی قریب جا کے کھڑا ہو گیا تو کہتے ہیں کہ آپ کی تلاوت کے چند الفاظ کے سوا مَیں کچھ نہ سن سکا۔ مگر جو سنا وہ مجھے اچھا کلام محسوس ہوا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، میرا برا ہومیں ایک عقلمند شاعر ہوں، برے بھلے کو خوب جانتا ہوں، آخر اس شخص کی بات سننے میں حرج کیا ہے۔ اگر تو اچھی بات ہوگی تو میں اسے قبول کر لوں گا اور بری ہو گی تو چھوڑ دوں گا۔ طفیل کہتے ہیں کہ کچھ دیر انتظار کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے تو میں آپ کے پیچھے ہو لیا، جب آپ گھر میں داخل ہونے لگے تو میں نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قوم نے آپ کے بارے میں یہ کہا ہے اور میں اللہ کی قسم دے کے کہتا ہوں کہ مجھے اتنا ڈرایا ہے کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ڈالی ہوئی تھی کہ آپ کی بات نہ سن سکوں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پھر بھی مجھے آپ کا کلام سنوا دیا اور جو میں نے سنا ہے وہ بہت عمدہ ہے۔ آپ خود مجھے اپنے دعوے کے بارے میں بتائیں۔ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کے بارے میں بتایا اور قرآن شریف بھی پڑھ کر سنایا۔ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں نے اس سے خوبصورت کلام اور اس سے زیادہ صاف اور سیدھی بات کوئی نہیں دیکھی۔ چنانچہ میں نے اسلام قبول کر لیا اور حق کی گواہی دی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! میں اپنی قوم کا سردار ہوں اور لوگ میری بات مانتے ہیں۔ میرا ارادہ واپس جا کر اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلانے کا ہے، آپ میرے لئے دعا کریں۔ کہتے ہیں اگلے دن جب میں اپنے قبیلے میں پہنچا تو میرے بوڑھے والد مجھے ملنے آئے تو میں نے انہیں کہا کہ آج سے میرا اور آپ کا تعلق ختم ہے۔ والد نے سبب پوچھا۔ میں نے کہا کہ میں نے تو اسلام قبول کرکے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی ہے۔ والد کہنے لگے کہ اچھا پھر میرا بھی وہی دین ہے جو تمہارا ہے۔ (ان کواپنے بیٹے کی نیکی اور لیاقت پر یقین تھا)۔ پھر میں نے انہیں کہا کہ غسل کرکے اور صاف کپڑے پہن کر آئیں میں آپ کو اسلام کی تعلیم کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر کہتے ہیں میں نے انہیں اسلام کی تعلیم سے آگاہ کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ میری بیوی میرے پاس آئی۔ میں نے اس سے کہا کہ تم مجھ سے جدا رہو، تم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس نے وجہ پوچھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں۔ چنانچہ اس نے بھی سنا اور اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قبیلے دوس کو اسلام کی طرف دعوت دی مگر انہوں نے میری دعوت پر توجہ نہ کی تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مکہ حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے نبی! دوس قبیلے کے لوگ اسلام قبول نہیں کرتے۔ آپ ان کے خلاف بددعا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی اے اللہ! دوس قبیلے کو ہدایت فرما، جیسا کہ پہلے روایت میں آیا ہے اور اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طفیل کو یہ توجہ بھی دلائی کہ آپ واپس جا کر نرمی اور محبت سے پیغام حق پہنچائیں۔ چنانچہ وہ گئے اور آرام سے تبلیغ شروع کر دی۔ لیکن آگے آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کس طرح قبول ہوئی، یہ قبیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے طفیل جنگ احزاب کے بعد اسلام لایا۔ اس کے بعد پھر طفیل بن عمرو مدینہ ہجرت کر آئے اور ان کے ساتھ 70خاندان اور بھی تھے۔ حضرت ابوہریرہ بھی اس قبیلے کے تھے جو ان 70خاندانوں کے ساتھ مدینہ میں ہجرت کرآئے تھے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام قصۃ اسلام طفیل بن عمرو الدوسی، صفحہ 278,277)
تو دعا کی قبولیت کا جب وقت آیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے دیکھیں کس طرح پورا فرمایا اور آہستہ کی تبلیغ سے ان کے دل نرم ہونے شروع ہوئے اور ایک وقت میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اور اس دعا کے طفیل ایسے ہدایت یافتہ ابوہریرہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے جو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات ہم تک پہنچا کر ہمارے لئے بھی ہدایت کا باعث بن رہے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے طفیل اپنی والدہ کے قبول اسلام کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی مشرک والدہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا تھا، ایک دن میں نے انہیں تبلیغ کی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ناپسندیدہ باتیں کہیں۔ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا تھا تو وہ انکار کرتی تھی، آج میں نے دعوت دی تو انہوں نے آپ کے متعلق نازیبا باتیں کیں جنہیں میں ناپسند کرتا ہوں۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری والدہ کو ہدایت دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کہ اے اللہ ابو ہریرہ کی والدہ کو ہدایت دے۔ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے خوش خوش واپس ہوا۔ جب میں گھر کے دروازے کے پاس آیا تو وہ بند تھا، میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سنی تو کہا اے ابوہریرہ ادھر ہی ٹھہر جاؤ۔ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی تو اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کی والدہ نے غسل کیا، کپڑے پہنے، دوپٹہ اوڑھا اور دروازہ کھول دیا۔ پھر انہوں نے کہاکہ اے ابوہریرہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور خوشی سے میں رو رہا تھا، میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! خوش ہو جائیں، خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دی۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثناء کی اور نیک کلمات ادا فرمائے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے کہایا رسول اللہ، یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے اور میری ماں کو اپنے مومن بندوں کا محبوب بنا دے اور ان کو ہمارا محبوب بنا دے۔ ابوہریرہ کہتے ہیں اس پر آپ نے دعا کی کہ اے اللہ اپنے اس بندے ابو ہریرہ اور اس کی والدہ کو اپنے مومن بندوں کا محبوب بنا دے اور مومنین کو ان کا محبوب بنا دے۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی ہریرۃ الدوسیؓ حدیث نمبر 6396)
دیکھیں ایک تو آپ کی والدہ کے قبول اسلام کی صورت میں فوری قبولیت دعا کا اثر اور دوسری دعا اس طرح قبول ہوئی، جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ بے شمار احادیث حضرت ابوہریرہ کی روایت کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں جن کی وجہ سے حضرت ابوہریرہؓ کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ آج تک ایک سچا مسلمان جب بھی کسی روایت کو سنتا ہے جو ابوہریرہ کی طرف سے آتی ہے یا کسی بھی حدیث کو(حضرت ابوہریرہ کی بات ہو رہی ہے اس لئے) جب کسی روایت کو سنتا ہے جو اس کی ہدایت کا باعث بنتی ہے تو حضرت ابوہریرہ ؓ کے لئے دعا بھی نکلتی ہے اور ان کے لئے محبت کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہونے چاہئیں۔ جنہوں نے آخری سالوں میں آنے کے باوجود بے شمار روایات ہم تک پہنچائیں اور اس نیک کام کرنے کے لئے کئی کئی دن فاقے برداشت کئے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے اس لئے نہیں اٹھتے تھے کہ کہیں کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے۔ پس یہی لوگ تھے جو اللہ اور رسول کی محبت کی وجہ سے مومنوں کے بھی محبوب بن گئے اور اب رہتی دنیا تک انشاء اللہ بنتے چلے جائیں گے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہر وقت موجود رہنے اور آپ کی بابرکت باتیں سننے اور انہیں یاد رکھنے کا اس قدر شوق تھا کہ جب آپ شروع میں آئے ہیں تو ذہن اتنا تیز نہیں تھا، تمام باتیں یاد نہیں رہتی تھیں تو بڑے فکر مند ہوتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک روز اپنی اس کمزوری کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت ابوہریرہ خود ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ سے جو باتیں سنتا ہوں بھول جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے چادر پھیلائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔ کہتے ہیں اس دعا کے بعد بہت ساری باتیں اور حدیثیں میں نے سنیں مگر میں ان میں سے ایک بھی بات نہیں بھولا۔ (ترمذی کتاب المناقب باب مناقب لابی ہریرۃحدیث نمبر3835)
اور آج دیکھیں جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ آپ کی روایات ہم تک پہنچیں اور آج سب سے زیادہ قابل اعتبار راویوں کی صف میں آپ صف اوّل میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے مال میں خیرو برکت کی دعا دی۔ کہتے ہیں اس کے بعد جس چیز کو ہاتھ لگاتے تھے اس میں خیرو برکت پیدا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ روایت میں اس طرح ذکر ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر وبرکت کی دعا دی۔ عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے نتیجے میں خدا کا اتنا فضل ہوا کہ اگر میں کسی پتھر کو بھی اٹھاتا تھا تو یہ امید ہوتی تھی کہ اس کے نیچے سونا ہو گا۔ اسی کشائش اور آسودگی کی حالت میں جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے ترکہ کے سونے کو کلہاڑوں سے توڑ کر تقسیم کیا گیا تھا۔ آپ کی چار بیویاں تھیں اور ہر بیوی کے حصے میں ایک ایک لاکھ دینار آئے۔ یہ بھی بیان کیا جاتاہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیماری کے دوران ایک بیوی کو طلاق دی تھی اور اس کو 80ہزار دیناردینے کا ارشاد فرمایا تھا۔ آپ کی وصیت کے مطابق جو صدقات اور وظائف وہ اپنی زندگی میں دیا کرتے تھے ان کے لئے 50ہزار درہم الگ مقرر کئے۔ (الشفاء لقاضی عیاض جلد اوّل باب الرابع فیما اظہرہ علی یدیہ من المعجزات صفحہ200ایڈیشن2002ء)
پھر جنگ احزاب کا واقعہ ہے۔ جنگ احزاب میں بڑے بڑے قبائل اکٹھے ہوکر مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور مسلمانوں کی اس وقت انتہائی خوف کی حالت تھی۔ اس وقت آپ نے مسلمانوں کو فتح اور کفار کی شکست کے لئے دعا کی۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کے خلاف یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَ زَلْزِلْھُمْ۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق و ھی الاحزاب حدیث نمبر4115)
اے اللہ جو کتاب کو اتارنے والا ہے اور حساب لینے میں بہت تیز ہے تو گروہوں کو شکست دے، اے اللہ انہیں پسپا کر اور ہلا کررکھ دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود بیرونی حملہ اور اندرونی منافقت کے اللہ تعالیٰ نے کس طرح مدد فرمائی۔ وہ لوگ جو مدینے کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے آئے تھے، کس طرح خائب و خاسر ہو کر واپس چلے گئے۔ منافق قبیلہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے نامراد اور برباد کر دیا۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ بنو نضیر کو ان کی غداری کی وجہ سے جب مدینہ سے جلا وطن کیا گیا تو انہوں نے اسلام کے خلاف سب طاقتوں کو جمع کرکے مدینہ پر حملے کاارادہ کیا اور تقریباًدس ہزار سے پندرہ ہزار فوج تیار کرکے مدینہ پر حملہ آور ہوئے اور اس زمانے میں یہ بہت بڑی فوج تھی۔ اس حملے کی خبر پا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا اور حضرت سلمان فارسی کے مشورے کے مطابق مدینہ میں رہ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہوا اور اس کے لئے حضرت سلمان فارسی کے مشورے کے مطابق ہی مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تاکہ کوئی دشمن اندر نہ آ سکے۔ اور غربت کا زمانہ تھا، خندق کھودنے کے بعد اندر تو محصور ہو گئے لیکن راشن کی کمی کی وجہ سے اور خوراک کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت بہت نازک تھی۔ تو اس عرصہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے کئی نشانات دکھائے اور کئی قبولیت دعا کے واقعات بھی ہوئے، یہ بتانے کے لئے کہ تمہاری دعا قبول ہوئی اور دشمن تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آئندہ بڑی بڑی بادشاہتوں کے زیر نگیں ہونے کی خوشخبریاں بھی آپؐ کو دیں۔ چنانچہ جب آپؐ بھوک سے نڈھال تھے، صحابہ کا بھی یہی حال تھا، آپؐ نے اور صحابہ نے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے۔ صحابہ خندق کھود رہے تھے کہ اس وقت راستہ میں ایک چٹان آ گئی جو ٹوٹ نہیں رہی تھی تو آپؐ نے کدال لے کر وہ چٹان توڑی اور اس توڑنے کے دوران جب آپ ؐ نے تین دفعہ کدال ماری تو وہ چٹان ٹوٹی۔ اور ہر دفعہ جب آپؐ کدال مارتے تھے تو ایک حکومت کے ملنے کا نظارہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو دکھاتا تھا۔ چنانچہ پہلی دفعہ جب آپؐ نے کدال ماری تو کدال مارنے پر آپؐ کو مملکت شام کی چابیاں دی گئیں اور سرخ محلات دکھائے گئے، دوسری دفعہ جب آپؐ نے کدال ماری تو اس پر فارس کی کنجیاں آپؐ کو دی گئیں اور مدائن کے سفید محلات آپ کو دکھائے گئے اور پھر جب تیسری دفعہ آپؐ نے چٹان پر ضرب لگائی تو یمن کی چابیاں آپؐ کو دی گئیں اور صنعا کے دروازے آپ کے لئے کھولے گئے۔ اس وقت آپ پر ہنسنے والے ہنستے ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہ صرف اس جنگ جیتنے کی دعا قبول ہوئی ہے بلکہ آئندہ کی حکومتیں ملنے کی بھی میں اطلاع دیتا ہوں۔ اس موقع پر آپ کی دعا سے خوراک میں برکت پڑنے کا بھی واقعہ ہوا۔ ایک صحابی جابر بن عبداللہؓ نے آپ کے چہرے پر نقاہت اور بھوک کے آثار دیکھ کر گھر جا کر اپنی بیوی سے پتہ کیا کہ کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں کچھ جو کا آٹا ہے اور ایک چھوٹی بکری ہے۔ انہوں نے بکری ذبح کی اور انہیں کہا کھانا پکاؤ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر اطلاع کرتا ہوں۔ تو بیوی نے کہا کہ زیادہ مہمان نہ آ جائیں، مجھے ذلیل نہ کروانا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دینا۔ تو جابر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کچھ کھانا ہے، آ جائیں، تناول فرمائیں۔ آپ نے پوچھا کتنا ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ ایک چھوٹی سی بکری ہے اور جو کی چند روٹیاں ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ بہت ہے۔ پھر آپ نے آواز دے کر کہا کہ انصاراور مہاجر سارے دعوت پر آ جاؤ۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ میرے ہاتھ پیر پھول گئے، بہت برا حال ہوا لیکن آپ نے کہا کہ جاؤ جب تک میں نہ آجاؤں سالن کی ہنڈیا چولہے پر رہنے دینا اور اس کو نہ اتارنا اور نہ روٹی پکانا شروع کرنا۔ پھر آپ نے خود آ کر اپنے سامنے روٹی پکوانی شروع کی اور ا پنے ہاتھ سے کھانا تقسیم کرنا شروع کیا۔ اور آپ کی دعا کی قبولیت کے معجزے سے سب نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق و ھی الاحزاب حدیث نمبر 4101)
پھر دیکھیں آپ کی دعا کی قبولیت کے باوجود بنو قریظہ کی منافقت اور دس سے پندرہ ہزار فوج کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس طرح فتح عطا فرمائی کہ دشمن کو اپنی پڑ گئی۔ اس کا مختصر قصہ یوں ہے کہ جب محاصرہ لمبا ہو گیا تو رات کے وقت اتنی سخت آندھی آئی کہ جس نے کفار کے بہت بڑے کیمپ میں جوکھلی جگہ پر تھا کھلبلی مچا دی۔ خیمے اکھڑ گئے، قناتوں کے پردے ٹوٹ کر اڑ گئے، ہنڈیاں جو چولہوں پر پڑی ہوئی تھیں الٹ گئیں اور ریت اور کنکر کی بارش نے لوگوں کے کان، ناک، آنکھ اور منہ ہر چیز بند کر دیا۔ وہ آ گیں جو عرب کے دستور کے مطابق قومی نشان کے طور پر جلائی جاتی تھیں، وہ بجھ گئیں۔ یہ دیکھ کرو ہم پرست کفار کے حوصلے بہت پست ہو گئے اور جو پہلے ہی ایک لمبے محاصرے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو رہے تھے، واضح طور پر کوئی چیز سامنے نہیں آ رہی تھی کیونکہ ایک تو لمبا محاصرہ پھر اتنی بڑی فوج، اس کے کھانے پینے اور انتظامات کا سامان توان کی بھی کافی بری حالت تھی۔ ان کو اس چیز سے بہت دھکہ لگا۔ چنانچہ ابو سفیان جو اس سارے لشکر کا سپہ سالار تھا، کئی قبیلوں نے مشترکہ طورپر اس کو اپنا سالار بنایا تھا، وہ اپنے لشکر کو لے کر واپس چلا گیا اور ان کے دیکھا دیکھی باقی بھی جانے شروع ہو گئے اور صبح تک یہ میدان بالکل صاف ہو گیا۔ جو مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے، خود ان کو اپنی پڑ گئی اور چلے گئے۔ چنانچہ جب یہ ہو گیا تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد یہ دعا کرتے تھے اور اس وقت کی کہ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ اَعَزَّ جُنْدَہٗ وَ نَصَرَ عَبْدَہٗ وَ غَلَبَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ فَـلَا شَیْئَ بَعْدَہٗ۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق و ھی الاحزاب حدیث نمبر4114)
کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو اکیلا ہے اس نے اپنے لشکر کو عزت دی اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے ہی احزاب کو مغلوب کیا، اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
دیکھیں ایک وقت تھا جب دشمن آپ کو مکہ میں آپ کو ختم کرنے کے درپے تھا۔ اس کے ظلم سے تنگ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی لیکن پھر مدینہ میں بھی دشمن حملہ آور ہوتے رہے۔ جنگ بدر ہوئی، احد ہوئی، احزاب ہوئی لیکن پھر مدینہ میں بھی جنگ بدر میں یہ لوگ جس طرح حملہ آور ہوئے اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن دعا کی کہ اگر آج مسلمان شکست کھا گئے تو کفار نے ان میں سے پھر کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا اور پھر اے خدا! تیرا نام لیوا دنیا میں کوئی نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے تسلی دی کہ فکر نہ کرو، فتح تمہاری ہے اور غلبہ اسلام کا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ دشمن نے عبرتناک شکست کھائی۔ پہلی روایت میں میں اوپر بیان کر آیا ہو کہ کس طرح بدر کی جنگ میں دشمن کے سردار واصل جہنم ہوئے۔
پھر اُحد کی جنگ ہوئی اور باوجود دشمن کے حق میں پانسہ پلٹنے کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت بڑے نقصان سے محفوظ رکھا۔ پھر جنگ احزاب کی تھوڑی سی تفصیل آپ نے سنی ہے اور قبولیت دعا کے نظارے بھی دیکھے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ تسلی دیتا ہے کہ جب ایک تھے تو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دشمن تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ اے میرے پیارے نبی میں تو تیری پہلے دن کی دعائیں سن چکا ہوں اور ان کو قبولیت کا درجہ دے چکا ہوں اور تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ دین اب قیامت تک ختم ہونے والا نہیں بلکہ تمام دینوں پر غالب آنا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے گزشتہ امتیں پیش کی گئیں، میں نے دیکھا کہ کسی نبی کے ساتھ ایک گروہ ہے اور کسی کے ساتھ چند افراد ہیں اور کسی نبی کے ساتھ دس افراد ہیں اور کسی نبی کے ساتھ پانچ افراد ہیں اور کوئی نبی اکیلا ہی ہے۔ اسی اثناء میں میں نے ایک بڑا گروہ دیکھا، میں نے پوچھا اے جبریل! کیا یہ میری امت ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ آپ افق کی طرف دیکھیں، جب میں نے نظراٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ مجھے کہا کہ دوسری طرف بھی افق پہ دیکھو، جب ادھر دیکھا تو وہاں بھی لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ تو جبریل نے مجھے بتایا کہ یہ آپ کی امت ہے اور ان میں 70ہزار لوگ ایسے ہیں جو بلا حساب اور بغیر سزا کے جنت میں داخل ہوں گے۔ میں نے پوچھا یہ کیوں ؟ تو جبریل نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دم درود نہیں کرتے اور نہ ہی بدفال لیتے ہیں بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ اس پرعکاشہ بن محصن کھڑے ہو گئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ایسے لوگوں میں شامل فرمائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ تو اسے ان لوگوں میں شامل کر دے۔ اس پر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ حضور نے فرمایا عکاشہ تم پر سبقت اور پہل حاصل کر چکا ہے۔ (بخاری کتاب الرقاق باب یدخل الجنۃ سبعون الفا بغیر حساب حدیث نمبر6541)
پس یہ جو روایت ہے، یہ پیشگوئی ہے، جس میں آپ کی دعاؤں کی تاقیامت قبولیت کا نظارہ دکھایا گیا ہے۔ آپ کو جنگ احزاب میں تو تین بڑی طاقتوں کی کنجیاں دی گئی تھیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ تمام دنیا کی اکثر آبادی آپ کی امت میں شامل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بتارہا ہے کہ آپ کے غلام صادق جس نے آخرین کو پہلوں سے ملانا ہے، کی جماعت نے، احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو تمام باطل دینوں پر غالب کرنا ہے۔ اس میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ آپ کی امت میں تاقیامت نیکیوں پر قائم رہنے والے اور صالح عمل کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود رہے گی اور آپ کو تسلی دلائی ہے کہ آپ کی دعاؤں کا اثر تاقیامت آپ کی سچی پیروی کرنے والوں کو پہنچتا رہے گا، آپ کی دعاؤں سے وہ حصہ لیتے رہیں گے۔ اور آپ نے یہ بھی نصیحت کر دی کہ صرف میری دعا سے ہی نہیں بلکہ نیک اعمال کرکے ان نیک لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جو بغیر حساب جائیں گے، تمہارے نیک عمل اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں اور وہ تمہاری غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے تمہیں جنت میں ڈال دے، کوشش کرو کہ اس کے فضلوں کو جذب کرو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں جتنی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو گی اتنی زیادہ اور اتنی جلدی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے حصہ لیتے چلے جائیں گے، ان برکات کے وارث بنتے چلے جائیں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی کرنے والوں کا حصہ ہیں، اتنی جلدی ہم دشمن اسلام اور دشمن احمدیت کو خائب و خاسر ہوتا دیکھ لیں گے، اتنی جلدی ہم فرعونوں اور ہامانوں کی تباہی کے نظارے دیکھ لیں گے۔ پس فانی فی اللہ کی دعاؤں سے فیض پانے کے لئے اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق کرتے ہوئے اس کے آگے جھکتے چلے جانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:۔
گزشتہ جمعہ میں نے امریکہ کے دورہ کے بارے میں کہا تھا کہ دعا کریں اور امریکہ کی جماعت کو بھی اس بارے میں کہا تھا۔ تو دنیا کی مختلف جگہوں سے، ملکوں سے احمدیوں کے خطوط، فیکسیں آئیں، جنہوں نے اپنی خوابیں لکھیں اور پریشانی کے اظہار کئے۔ اور ساروں کے یہی مشورے تھے کہ نہ جائیں اور پھر امریکہ والوں نے بھی بڑا سوچ کے یہ فیصلہ کیا، کچھ واضح طور پر تو نہیں کیا، لیکن دونوں طرف کی آپشن دے دی کہ آئیں بھی اور نہ بھی آئیں۔ بہرحال پھر مَیں نے یہی فیصلہ کیا کہ فی الحال نہ جایا جائے۔ وہاں سے بہت سارے لوگوں نے مجھے انفرادی طور پر بھی لکھا ہے۔ تو بہرحال پچھلے دو دنوں سے جو واقعات ہو رہے ہیں وہ بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ نہ جانے کا فیصلہ ٹھیک ہی ہوا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کسی اور موقع پر انشاء اللہ بہتر حالات فرمائے گا تو چلے جائیں گے۔
دوسرے میں ایک یہ بات کرنا چاہتا تھا کہ دنیا سے خاص طور پر پاکستان سے جلسے کے دنوں میں مبارکباد کے اور جلسے کی کامیابی کے بہت سارے خطوط آئے ہیں۔ ہماری ڈاک کی ٹیم کوشش تو یہ کر رہی ہے کہ ان کے جواب دئیے جائیں لیکن ان کی تعدادکوئی تقریباً 30,25 ہزار ہے اور جہاں تک میرا سوال ہے میں تو دستخط کر دیتا ہوں، تھکتا نہیں ہوں لیکن جواب لکھنے مشکل ہیں۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ سب کو جواب نہ پہنچیں۔ تو اس پیغام کے ذریعہ سے میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ہمیشہ احمدیت کی ترقی کے نظارے ہمیں دکھاتا رہے اور اپنی تائید و نصرت کے جلوے دکھائے اور اپنی حفاظت اور پناہ میں ہم سب کو رکھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق باللہ اور آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا دشمن کو بھی یقین تھا۔
فرمودہ مؤرخہ 18؍ اگست 2006ء (18؍ ظہور 1385ھش)مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔