اللہ تعالیٰ کی صفتِ مجیب حضرت مسیح موعود ؑ کی قبولیت دعاکی روشنی میں
خطبہ جمعہ 25؍ اگست 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
جیسا کہ گزشتہ سے پہلے خطبہ میں میں نے کہا تھا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے مسیح ومہدی کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جو اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ہیں اور جس نے آج اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں ہمیں دعائیں کرنے کے طریقے اور سلیقے سکھائے۔ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نشانات دکھا کر اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین کامل اور ایمان کامل پیدا فرمایا، آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج دے کر فرمایا کہ تم لوگ جو اٹھتے بیٹھتے مجھے گالیاں دیتے ہو اور کافر و دجال کہتے ہو (نعوذ باللہ) میرے سے مقابلہ کرو اور اس کے لئے آپ نے اور باتوں کے علاوہ قبولیت دعا کا چیلنج بھی دیا لیکن کسی کو مقابلے پرآنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر طلوع ہوتا ہے وہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصے سے مخالفین کی انتہائی کوششوں بلکہ بعض حکومتوں کی کوششوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو ترقی کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں ہی ہیں جو آج تک قبولیت کا شرف پا رہی ہیں اور ان کے پیچھے یقینا وہ دعائیں بھی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مسیح و مہدی کے لئے کی ہیں۔ آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبولیت دعا کے چند واقعات پیش کروں گا جن سے اللہ تعالیٰ کا آپ سے جو سلوک ہے کہ کس طرح آپ نے مختلف مواقع پر اپنے ماننے والوں کی تکلیفوں کے لئے دعائیں کیں۔ آپ ان کے ایمان میں اضافے کے لئے دعا ئیں کرتے تھے یا جماعت کی ترقی کے لئے آپ دعائیں کرتے تھے یا علمی معجزات دکھانے کے لئے دعائیں کرتے تھے تو جن کے سامنے یہ دعائیں کی گئیں، اللہ تعالیٰ ان ایمان لانے والوں کوان دعاؤں کی قبولیت کے نشان دکھا کر ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بناتا ہے، بلکہ آج تک یہ واقعات پڑھ کر اور جن خاندانوں کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ان کی نسلوں میں روایتاً چلتے رہنے سے ان سب کے ایمان میں اضافے کا باعث بناتا چلا جا رہا ہے۔ آپ کے قبولیت دعا کے نشانات تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ چند ایک کا میں ذکر کروں گا۔
پہلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنی باریکی سے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرتے تھے اور کسی بشری تقاضے کے تحت غیرارادی طور پر کہیں جو کوئی کمی رہ جاتی تھی تو احساس ہوتے ہی فوراً مداوا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کو پورا کرنے کے لئے دعا بھی کرتے تھے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام باہر شہر سے واپس آئے تو مکان میں جب داخل ہو رہے تھے تو کسی سوالی نے (سائل نے) دور سے سوال کیا۔ اس وقت بہت سارے لوگ وہاں تھے۔ ان ملنے والوں کی آوازوں میں اس سوالی کی آواز دب گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اندر چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد جب لوگوں کی آوازوں سے دور ہو جانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کانوں میں اس سائل کی دکھ بھری آواز گونجی تو آپ نے باہر آ کر پوچھا کہ ایک سائل نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو اس وقت یہاں سے چلا گیا ہے۔ اس کے بعد آپ اندرون خانہ تشریف لے گئے مگر دل بے چین تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازے پر اسی سائل کی (سوالی کی) پھر آواز آئی اور آپ لپک کر باہرآئے اور اس کے ہاتھ میں کچھ رقم رکھ دی اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بے چین تھی اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ خدا اسے واپس لائے۔ (سیرت طیبہ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 73,72)
اب بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے۔ سائل آیا، سوال کیا لیکن لوگوں کے رش کی وجہ سے آپ صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے۔ لیکن جب احساس ہوا کہ یہ تو ایک سائل تھا، فوراً طبیعت بے چین ہو گئی، باہر آ کر آپ دریافت فرماتے ہیں۔ اور اس کے چلے جانے پر یہ نہیں کہا کہ چلا گیا تو کوئی بات نہیں بلکہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! تو اسے واپس بھیج دے تاکہ میں اس کی ضرورت پوری کر سکوں اور پھر اللہ تعالیٰ بھی اس بے چین دل کی دعا فوراً قبول فرما لیتا ہے۔
مسیح موعود ؑ کے ہاتھوں جہاں دنیا نے روحانی بیماریوں سے دنیا نے نجات حاصل کرنی تھی اور کی۔ جو چور اور ڈاکو تھے وہ بھی مسیح موعود ؑ کے ہاتھوں ولی بنے، وہاں اس مسیح موعود ؑ کی دعاؤں سے جسمانی بیماروں نے بھی شفا پائی جس کے بے شمار واقعات ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ہی فرماتے ہیں کہ کابل سے آئی ہوئی ایک غریب مہاجر احمدی عورت تھی جس نے غیر معمولی حالات میں حضرت مسیح موعودؑ کے دم عیسوی سے شفا پائی۔ ان کا نام امۃ اللہ بی بی تھا۔ خوست کی رہنے والی تھیں جو کابل میں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ شروع شروع میں اپنے والد اور چچا سید صاحب نور اور سید احمدنور کے ساتھ قادیان آئیں تو اس وقت ان کی عمر بہت چھوٹی تھی اور ان کے والدین اور چچا چچی حضرت سید عبداللطیف شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد قادیان چلے آئے تھے۔ امۃ اللہ صاحبہ کہتی ہیں کہ بچپن میں ان کو آشوب چشم کی سخت بیماری تھی اور آنکھوں کی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ انتہائی درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے وہ آنکھ کھولنے کی طاقت نہیں رکھتی تھیں۔ ان کے والدین نے بہت علاج کروایا مگر کوئی فرق نہیں پڑا اور تکلیف بڑھتی گئی۔ ایک دن جب ان کی والدہ پکڑ کر ان کی آنکھوں میں دوائی ڈالنے لگیں تو وہ یہ کہتے ہوئے بھاگ گئیں کہ میں تو حضرت صاحب سے دم کراؤں گی۔ چنانچہ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں گرتی پڑتی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر پہنچ گئی اور حضور کے سامنے جا کے روتے ہوئے عرض کی کہ میری آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اور درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے میں بہت بے چین رہتی ہوں اور اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتی، آپ میری آنکھوں پر دم کر دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا تو میری آنکھیں واقعی خطرناک طور پر ابلی ہوئی تھیں اور میں درد سے بے چین ہو کر کراہ رہی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی انگلی پر اپنا تھوڑا سالعاب دہن لگایا اور ایک لمحے کے لئے رک کر (جس میں شاید دعا فرمائی ہو) بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ اپنی انگلی میری آنکھوں پر آہستہ سے پھیری اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا بچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف پھر کبھی نہیں ہو گی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد آج تک جبکہ میں 70سال کی بوڑھی ہو چکی ہوں کبھی ایک دفعہ بھی میری آنکھیں دکھنے نہیں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دم کی برکت سے میں اس تکلیف سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئی ہوں۔ کہتی ہیں جس وقت دم کیا تھا اس وقت میری عمر صرف دس سال تھی اور آج ساٹھ سال ہو گئے ہیں اور آنکھوں میں کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔ (سیرت طیبہ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 284,283)
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے بچپن کے ایک واقعہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت میر صاحب ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے اور حالت بہت تشویشناک ہو گئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے متعلق دعا کی تو عین دعا کرتے ہوئے خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِیْمٍ یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم و کریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتا ہے۔ چنانچہ اس کے جلد بعد حضرت میرصاحب توقع کے خلاف بالکل صحت یاب ہو گئے اور خدا نے اپنے مسیح کے دم سے انہیں شفا عطا فرمائی۔ (سیرت طیبہ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 287,286)
پھر حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ جن کے حوالوں کا ذکر آ رہا ہے، ان کو بھی بچپن میں آنکھوں کی تکلیف تھی۔ جب ہر قسم کے علاج ناکام ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کے لئے دعا کی اور دعا نے پھر شفا کا معجزہ دکھایا۔ ا س بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود فرماتے ہیں کہ:-
’’ایک دفعہ بشیر احمد میرا لڑکا آنکھوں کی بیماری سے بیمار ہو گیا اور مدت تک علاج ہوتا رہا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ تب اسکی اضطراری حالت دیکھ کر میں نے جناب الٰہی میں دعا کی تو یہ الہام ہوا بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْر یعنی میرے لڑکے بشیر نے آنکھیں کھول دیں۔ تب اسی دن اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اسکی آنکھیں اچھی ہو گئیں۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 89بقیہ حاشیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حقیقۃ الوحی میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔
’’سردار نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبدالرحیم خاں ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا تھا اور کوئی صورت جانبری کی دکھائی نہیں دیتی تھی، گویا مردہ کے حکم میں تھا۔ اس وقت میں نے اس کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے۔ تب میں نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ یا الٰہی! میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں خداتعالیٰ نے فرمایا مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّابِاِذْنِہٖ یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کے کسی کی شفاعت کر سکے۔ تب میں خاموش ہو گیا۔ بعد اس کے بغیر توقف کے یہ الہام ہوا اِنَّکَ اَنْتَ الْمَجَازیعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی۔ تب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی تو خداتعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیا تھا کہ مدت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن پر آیا اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 230,229)
انہوں نے بعد میں لمبی عمر پائی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’5؍ اگست 1906ء کو ایک دفعہ نصف حصہ اسفل بدن کامیرا بے حس ہو گیا اور ایک قدم چلنے کی طاقت نہ رہی۔ ‘‘ یعنی جونچلا دھڑ تھا وہ بے حس ہو گیا اور ٹانگیں بالکل سہار نہیں سکتی تھیں اور فرماتے ہیں کہ’’اور چونکہ میں نے یونانی طبابت کی کتابیں سبقاً سبقاً پڑھی تھیں اس لئے مجھے خیال گزرا کہ یہ فالج کی علامات ہیں۔ ساتھ ہی سخت درد تھی۔ دل میں گھبراہٹ تھی کہ کروٹ بدلنا مشکل تھا۔ رات کو جب میں بہت تکلیف میں تھاتو مجھے شماتت اعداء کا خیال آیا مگر محض دین کے لئے نہ کسی اور امر کے لئے۔ تب میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ موت تو ایک امر ضروری ہے مگر تو جانتا ہے کہ ایسی موت اور بے وقت موت میں شماتت ِاعداء ہے۔ تب مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْزِی الْمُؤْمِنِیْن یعنی خدا ہر چیز پر قادر ہے اور خدا مومنوں کو رسوا نہیں کیا کرتا۔ پس اسی خدائے کریم کی مجھے قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو اس وقت بھی دیکھ رہا ہے کہ میں اس پر افتراء کرتا ہوں یا سچ بولتا ہوں کہ اس الہام کے ساتھ ہی شاید آدھ گھنٹہ تک مجھے نیند آ گئی اور پھر جب یکدفعہ آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ مرض کا نام و نشان نہیں رہا۔ تمام لوگ سوئے ہوئے تھے اور میں اٹھا اور امتحان کے لئے چلنا شروع کیا تو ثابت ہوا کہ میں بالکل تندرست ہوں۔ تب مجھے اپنے قادر خدا کی قدرت عظیم کو دیکھ کر رونا آیا کہ کیسا قادر ہمارا خدا ہے اور ہم کیسے خوش نصیب ہیں کہ اس کی کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور اس کے رسول کی پیروی کی۔ اور کیا بد نصیب وہ لوگ ہیں جو اس ذوالعجائب خد اپر ایمان نہیں لائے۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 246,245)
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ طاعون بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تائیدی نشانوں میں سے ایک نشان کے طور پر بھیجا تھا، جس سے ہندوستان میں لاکھوں آدمی موت کا لقمہ بنے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپکو بتایا تھا کہ آپکے ماننے والے اور گھر میں رہنے والے اس بیماری سے محفوظ رہیں گے۔ یہ بہت بڑا نشان تھا لیکن انہیں دنوں میں حضرت صاحبزادہ مرز اشریف احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تیسرے صاحبزادے تھے، وہ تیز بخار کی وجہ سے بہت شدید بیمار ہو گئے، جس پر حضرت اقدس کو بڑی فکر ہوئی۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود فرماتے ہیں کہ:-
’’طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑکا بالکل بے ہوش ہو گیا اور بے ہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ اگرچہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا ان دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خداتعالیٰ کی اُس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اس نے فرمایا ہے اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِیعنی میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا۔ اس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ قریباً رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہو گئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اَور ہی بلا ہے۔ تب میں کیا بیان کروں کہ میرے دل کی کیا حالت تھی کہ خدا نخواستہ اگر لڑکا فوت ہو گیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کیلئے بہت کچھ سامان ہاتھ آ جائے گا۔ اسی حالت میں میں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور معاً کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسر آ گئی جو استجابت دعا کیلئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی میں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے۔ تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور میں چار رکعت پوری کر چکا تھا۔ فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام و نشان نہیں اور ہذیان اور بیتابی اور بیہوشی بالکل دور ہو چکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی۔ مجھے اس خدا کی قدرت کے نظارہ نے الٰہی طاقتوں اور دعا قبول ہونے پر ایک تازہ ایمان بخشا۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 88,87حاشیہ)
طاعون کے نشان کے طور پر ملک میں پھیلنے اور اس بیماری کے آپ کی دعا سے پھیلنے کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ:-
’’اکہترواں نشان جو کتاب سرّالخلافہ کے صفحہ 62پر میں نے لکھا ہے یہ ہے کہ مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے میں نے دعا کی تھی یعنی ایسے مخالف جن کی قسمت میں ہدایت نہیں۔ سوا س دعا سے کئی سال بعد اس ملک میں طاعون کا غلبہ ہوا اور بعض سخت مخالف اس دنیا سے گزر گئے … اور اس کے بعد یہ الہام ہوا۔ اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویراں کر دی۔‘‘ یعنی تو نے کئی دشمنوں کے گھروں کو ویران کر دیا۔ ’’اور یہ الحکم اور البدر میں شائع کیا گیا اور پھر مذکورہ بالا دعائیں جودشمنوں کی سخت ایذا ء کے بعد کی گئیں جناب الٰہی میں قبول ہو کر پیشگوئیوں کے مطابق طاعون کاعذاب ان پرآگ کی طرح برسا اور کئی ہزار دشمن جو میری تکذیب کرتا اور بدی سے نام لیتا تھا ہلاک ہو گیا۔ لیکن اس جگہ ہم نمونہ کے طور پر چند سخت مخالفوں کا ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے مولوی ر سل بابا باشندۂ امرتسر ذکر کے لائق ہے جس نے میرے ردّ میں کتاب لکھی اور بہت سخت زبانی دکھائی اور چند روزہ زندگی سے پیار کرکے جھوٹ بولا۔ آخر خد اکے وعدہ کے موافق طاعون سے ہلاک ہوا۔ پھر بعد اس کے ایک شخص محمد بخش نام جو ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ تھا عداوت اور ایذا پر کمر بستہ ہوا اور وہ بھی طاعون سے ہلاک ہوا۔ پھر بعد اس کے ایک شخص چراغ دین نام ساکن جموں اٹھا جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا تھا جس نے میرا نام دجال رکھا تھا اور کہتا تھا کہ حضرت نے مجھے خواب میں عصا دیا ہے تا میں عیسیٰ کے عصا سے اس دجال کو ہلاک کروں سو وہ بھی میری اس پیشگوئی کے مطابق جو خاص اس کے حق میں رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں اس کی زندگی میں ہی شائع کی گئی تھی 4؍اپریل1906ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا۔ کہاں گیا عیسیٰ کا عصا جس کے ساتھ مجھے قتل کرتا تھا؟ اور کہاں گیا اس کا الہام کہ اِنِّیْ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْن؟ افسوس اکثر لوگ قبل تزکیہ نفس کے حدیث النفس کو ہی الہام قرار دیتے ہیں اس لئے آخر کار ذلت اور رسوائی سے ان کی موت ہوتی ہے اور ان کے سوا اَور بھی کئی لوگ ہیں جو ایذا اور اہانت میں حد سے بڑھ گئے تھے اور خداتعالیٰ کے قہر سے نہیں ڈرتے تھے اور دن رات ہنسی اور ٹھٹھا اور گالیاں دینا ان کا کام تھا آخر کار طاعون کا شکار ہو گئے جیسا کہ منشی محبوب عالم صاحب احمدی لاہور سے لکھتے ہیں کہ ایک میرا چچا تھا جس کا نام نور احمد تھا وہ موضع بھڑی چٹھہ تحصیل حافظ آباد کا باشندہ تھا اس نے ایک دن مجھے کہا کہ مرزا صاحب اپنی مسیحیت کے دعوے پر کیوں کوئی نشان نہیں دکھلاتے۔ میں نے کہا کہ ان کے نشانوں میں سے ایک نشان طاعون ہے جو پیشگوئی کے بعد آئی جو دنیا کو کھاتی جاتی ہے۔ تو اس بات پر وہ بول اٹھا کہ طاعون ہمیں نہیں چھوئے گی بلکہ یہ طاعون مرزا صاحب کو ہی ہلاک کرنے کے لئے آئی ہے اور اس کا اثر ہم پر ہرگز نہیں ہو گا مرزاصاحب پر ہی ہو گا اسی قدر گفتگو پر بات ختم ہو گئی۔ جب میں لاہور پہنچا تو ایک ہفتہ کے بعد مجھے خبر ملی کہ چچا نور احمد طاعون سے مر گئے اور اس گاؤں کے بہت سے لوگ اس گفتگو کے گواہ ہیں اور یہ ایسا واقعہ ہے کہ چھپ نہیں سکتا۔‘‘
پھر فرماتے ہیں کہ:-
’’میاں معراج دین صاحب لاہور سے لکھتے ہیں کہ مولوی زین العابدین جو مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کردہ تھا اور مولوی غلام رسول قلعہ والے کے رشتہ داروں میں سے تھا اور دینی تعلیم سے فارغ التحصیل تھا اور انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک مقرب مدرس تھا۔ اس نے حضور کے صدق کے بارہ میں مولوی محمدعلی سیالکوٹی سے کشمیری بازار میں ایک دکان پر کھڑے ہو کر مباہلہ کیا۔ پھر تھوڑے دنوں کے بعد بمرض طاعون مر گیا اور نہ صرف وہ بلکہ اس کی بیوی بھی طاعون سے مر گئی اور اس کا داماد بھی جو محکمہ اکاؤنٹنٹ جنرل میں ملازم تھا طاعون سے مر گیا۔ اسی طرح اس کے گھر کے سترہ آدمی مباہلہ کے بعد طاعون سے ہلاک ہو گئے۔‘‘
فرماتے ہیں کہ: ’’یہ عجیب بات ہے، کیا کوئی اس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب، مفتری اور دجال تو میں ٹھہرا مگر مباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں۔ کیا نعوذ باللہ خدا سے بھی کوئی غلط فہمی ہو جاتی ہے؟ ایسے نیک لوگوں پر کیوں یہ قہر الٰہی نازل ہے جو موت بھی ہوتی ہے اور پھر ذلت اور رسوائی بھی۔ اور میاں معراج دین لکھتے ہیں کہ ایسا ہی کریم بخش نام لاہو رمیں ایک ٹھیکہ دار تھا وہ سخت بے ادبی اور گستاخی حضور کے حق میں کرتا تھا اور اکثر کرتا ہی رہتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ اس کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔ آخر جوانی کی عمر میں ہی شکار ِموت ہوا۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 235تا 238)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبولیت دعا پر اس قدر یقین تھا کہ اگر آپ بعض دفعہ خطوں میں صرف اتنا ہی کہہ کر بھیج دیتے تھے کہ ہم نے دعا کی تو اس سے ان کے دل یقین سے پُر ہو جاتے تھے کہ دعا یقینا ہمارے حق میں قبول ہو گی۔
اس طرح کے ایک وا قعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت میاں بشیر احمدصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ بیان کیامجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے نے کہ میرا دادا جسے لوگ عام طور پر خلیفہ کہتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت مخالف تھا اور آپ کے حق میں بہت بدزبانی کیا کرتا تھا اور والد صاحب کو بہت تنگ کیا کرتا تھا۔ والد صاحب نے اس سے تنگ آکر حضرت مسیح موعود کو دعا کے لئے خط لکھا۔ حضرت مسیح موعود کا جواب گیا کہ ہم نے دعا کی ہے۔ والد صاحب نے یہ خط تمام محلے والوں کو دکھادیا اور کہا کہ حضرت صاحب نے دعا کی ہے اب دیکھ لینا خلیفہ گالیاں نہیں دے گا۔ دوسرے تیسرے دن جمعہ تھا ہمارا دادا حسب دستور غیر احمدیوں کے ساتھ جمعہ پڑھنے گیا مگر وہاں سے واپس آ کر غیر معمولی طور پر حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے متعلق خاموش رہا۔ حالانکہ اس کی عادت تھی کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر گھر آنے کے بعد خصوصاً بہت گالیاں دیا کرتا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ آج مرزا صاحب کے متعلق خاموش کیوں ہو؟ اس نے کہا کسی کے متعلق بدزبانی کرنے سے کیا حاصل ہے۔ اور مولوی نے بھی آج جمعہ میں وعظ کیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جگہ کیسا ہی برا ہو ہمیں بدزبانی نہیں کرنی چاہئے۔ لوگوں نے کہا اچھا یہ بات ہے ؟ہمیشہ تو تم گالیاں دیتے تھے اور آج تمہارا یہ خیال ہو گیا ہے۔ بلکہ اصل میں بات یہ ہے کہ بابو (کہتے ہیں کہ میرے والد کو لوگ بابو کہا کرتے تھے) کل ہی ایک خط دکھارہا تھا کہ قادیان سے آیا ہے اور کہتا تھا کہ اب خلیفہ گالی نہیں دے گا (یعنی یہ آدمی جو گالیاں دیا کرتا تھا)۔ مولوی رحیم بخش صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد باوجود کئی دفعہ مخالفوں کے بھڑکانے کے میرے دادا نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق بدزبانی نہیں کی اور کبھی میرے والد صاحب کو احمدیت کی وجہ سے تنگ نہیں کیا۔ (سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ 51روایت نمبر 78)
آپ کی دعا سے بارش کے دو واقعات کا بھی میں ذکر کر دیتا ہوں۔ شیخ محمد حسین صاحب پنشنر جج اسلامیہ پارک لاہور لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ حضور لاہور میں میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر فروکش تھے، جنوری کا مہینہ تھا، سن یاد نہیں۔ رات دس بجے کے قریب کا وقت تھا۔ اس سال بارش نہیں ہوئی تھی۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا حضور دعا کریں بارش ہو کیونکہ بارش کے نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ حضور نے نہ دعا کی نہ کوئی جواب دیا اور باتیں ہوتی رہیں۔ پھر اس نے یا کسی اور نے بارش کے لئے دعا کو کہا مگر پھر بھی حضور نے کوئی توجہ نہ کی۔ کچھ دیر بعد پھر تیسری دفعہ کسی نے دعا کے لئے کہا۔ اس پر حضور نے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی۔ اس وقت چاند کی چاندنی تھی اور آسمان بالکل صاف تھا مگر حضور کے ہاتھ اٹھتے ہی ایک چھوٹی سی بدلی نمودار ہوئی اور بارش کی بوندیں پڑنی شروع ہو گئیں۔ اور ادھر حضور نے دعا ختم کی ادھر بارش تھم گئی۔ صرف چند منٹ ہی بارش ہوئی اور آسمان صاف ہو گیا۔ (تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 290)
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کا بھی ایک واقعہ ہے جس میں قبولیت دعا بھی ہے اور یہ بھی کہ دعا کس حد تک کروانی چاہئے۔ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ لکھتے ہیں کہ میں اور منشی اروڑا صاحبؓ اکٹھے قادیان میں آئے ہوئے تھے اور سخت گرمی کا موسم تھا اور چند دن سے بارش رکی ہوئی تھی۔ جب ہم قادیان سے واپس روانہ ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں سلام کے لئے حاضرہوئے تو منشی اروڑا صاحب مرحوم نے حضرت صاحب سے عرض کیا، حضرت گرمی بڑی سخت ہے۔ دعا کریں کہ ایسی بارش ہو کہ بس اوپر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی۔ حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’اچھا اوپر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی ہو‘‘۔ مگر ساتھ ہی میں نے (منشی ظفر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے) ہنس کر عرض کیا کہ حضرت یہ دعا انہیں کے لئے کریں، میرے لئے نہ کریں۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پھر مسکرا دئیے اور ہمیں دعا کرکے رخصت کیا۔ منشی صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت مطلع بالکل صاف تھا اور آسمان پر بادل کا نام و نشان تک نہ تھا۔ مگر ابھی ہم بٹالہ کے راستہ میں یکّہ پر بیٹھ کر تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ سامنے سے ایک بادل اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چھا گیا اور پھر اس زور کی بارش ہوئی کہ راستہ کے کناروں پر مٹی اٹھانے کی وجہ سے جو خندقیں یا نالیاں سی بن گئی تھیں وہ پانی سے لبالب بھر گئیں۔ اس کے بعد ہمارا یکّہ جو ایک طرف کی خندق کے پاس سے چل رہا تھا یک لخت الٹا اور اتفاق ایسا ہوا کہ منشی اروڑا صاحب خندق کی طرف کو گرے اور میں اونچے راستہ کی طرف گرا جس کی وجہ سے منشی صاحب کے اوپر اور نیچے سب پانی پانی ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ میں بچ رہا۔ کیونکہ خدا کے فضل سے چوٹ کسی کو بھی نہیں آئی تھی اس لئے میں نے منشی اروڑا صاحب کو اوپر اٹھاتے ہوئے ہنس کر کہا۔ لو اوپر اور نیچے پانی کی اور دعائیں کرا لو۔ اور پھر حضرت صاحب کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ہم آگے روانہ ہو گئے۔ (اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 97,96)
لگتا ہے کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بہت محتاط بھی تھے، دعاؤں پر یقین تو یقینادونوں کو ہی ہو گا۔ لیکن ان کو پتہ تھا کہ اگر فوری پوری ہو گئی تو راستہ کا سفر ہے، کوئی واقعہ پیش ہی نہ آجائے۔
اپنی ایک دعا کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’اس جگہ ایک تازہ قبولیت دعا کا نمونہ جو پہلے اس سے کسی کتاب میں نہیں لکھا گیا ناظرین کے فائدہ کے لئے لکھتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مع اپنے بھائیوں کے سخت مشکلات میں پھنس گئے تھے۔ منجملہ ان کے یہ کہ وہ ولی عہد کے ماتحت رعایا کی طرح قراردیئے گئے تھے اور انہوں نے بہت کچھ کوشش کی مگر ناکام رہے اور صرف آخری کوشش یہ باقی رہی تھی کہ وہ نواب گورنر جنرل بہادر بالقابہ سے اپنی داد رسی چاہیں اور اس میں بھی کچھ امید نہ تھی کیونکہ ان کے برخلاف قطعی طور پر حکام ماتحت نے فیصلہ کر دیا تھا۔ ‘‘
وہ بھی نواب خاندان کے تھے لیکن نوابی کیونکہ دوسروں کومل گئی تھی اس لئے ان کو بالکل ہی رعایا بنا دیا گیا تھا اور انہیں حقوق نہیں دئیے گئے تھے۔ بہرحال جب یہ مقدمہ پیش ہوا تو جہاں پر فیصلہ ہونا تھا انہوں نے، سب افسران نے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ یہ ان کے حق میں نہیں ہو سکتا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:-
’’اس طوفان غم و ہم ّمیں جیسا کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے انہوں نے صرف مجھ سے دعاکی ہی درخواست نہ کی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر خداتعالیٰ ان پر رحم کرے اور اس عذاب سے نجات دے تو وہ تین ہزار نقد روپیہ بعد کامیابی کے بلاتوقف لنگر خانہ کی مدد کے لئے ادا کریں گے۔ چنانچہ بہت سی دعاؤں کے بعد مجھے یہ الہام ہوا کہ اے سیف اپنا رخ اس طرف پھیر لے۔ تب میں نے نواب محمدعلی خاں صاحب کو اس وحی الٰہی سے اطلاع دی۔ بعد اس کے خداتعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور صاحب بہادر وائسرائے کی عدالت سے ان کے مطلب اور مقصود اور مراد کے موافق حکم نافذ ہو گیا۔ تب انہوں نے بلاتوقف تین ہزار روپیہ کے نوٹ جو نذر مقرر ہوچکی تھی مجھے دیدیئے اور یہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا۔ ‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 339,338)
آپ کی قبولیت دعا پر غیروں کو بھی یقین تھا۔ چنانچہ ایک ہندو کے آپ کو دعا کے لئے عرض کرنے کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:۔
’’شرمپت کا ایک بھائی بشمبرداس نام ایک فوجداری مقدمہ میں شاید ڈیڑھ سال کے لئے قید ہو گیا تھا تب شرمپت نے اپنی اضطراب کی حالت میں مجھ سے دعا کی درخواست کی۔ چنانچہ میں نے اس کی نسبت دعا کی تو میں نے بعد اس کے خواب میں دیکھا کہ میں اس دفتر میں گیاہوں جس جگہ قیدیوں کے ناموں کے رجسٹر تھے اور ان رجسٹروں میں ہر ایک قیدی کی میعادِ قید لکھی تھی۔ تب میں نے وہ رجسٹر کھولا جس میں بشمبرداس کی قید کی نسبت لکھا تھا کہ اتنی قید ہے اور میں نے اپنے ہاتھ سے اس کی نصف قید کاٹ دی اور جب اس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل کیا گیا تو مجھے دکھلایا گیا کہ انجام مقدمہ کا یہ ہوگا کہ مثل مقدمہ ضلع میں واپس آئے گی اور نصف قید بشمبرداس کی تخفیف کی جائے گی مگر بری نہیں ہو گا۔ اور میں نے وہ تمام حالات اس کے بھائی لالہ شرمپت کو قبل از ظہور انجام مقدمہ بتلا دئیے تھے اور انجام کار ایسا ہی ہوا جو میں نے کہا تھا۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 232)
یعنی اس کی آدھی سزا معاف ہو گئی، پوری سزا تو معاف نہیں ہوئی لیکن آدھی سزا معاف ہو گئی اسی خواب کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1880ء سے 1884ء تک براہین احمدیہ کی چار جلدیں تصنیف فرمائیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عیسائیت کا عروج تھا اور ہر طرف اسلام پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے تھے، خود مسلمان اسلام کے بارے میں مشکوک ہو کر اسلام چھوڑ رہے تھے۔ اس وقت کوئی بھی اسلام کو بچانے کے لئے کھڑا نہیں ہوا۔ آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے ثابت فرمایا کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری نبی ہیں اور آپ نے چیلنج کیا کہ جو دلائل میں نے اس کتاب کی چار جلدوں میں دئیے ہیں ان کے تیسرے چوتھے یاپانچویں حصے کے برابر بھی اگر کوئی دلیل پیش کر دے تو دس ہزار روپے کا انعام دوں گا۔ لیکن کوئی مقابل پر نہیں آیا اور مسلمان علماء بشمول مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعدمیں بہت سخت مخالف ہو گئے تھے اور جو اہل حدیث کے بڑے لیڈ رتھے انہوں نے بھی اس کتاب کی خوب تعریف کی۔ بہرحال اس کتاب نے دشمنوں کے منہ بند کر دئیے اور عیسائیت کے حملوں کے سامنے بند باندھ دیا بلکہ صرف بند نہیں باندھ دیا ان کو مقابلے کے میدان سے ہی دوڑا دیا اور آج تک وہ دوڑے ہوئے ہیں۔ لیکن جب آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف فرمائی تو اس کی اشاعت کے لئے اس وقت آپ کے مالی حالات ایسے نہیں تھے، وسعت نہیں تھی، بڑے تنگ حالات تھے۔ اس بات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بڑے پریشان تھے کہ اس کی اشاعت کس طرح ہو گی، کس طرح اسلام کے دفاع کے لئے اپنی اس تصنیف کو دنیا کے سامنے پیش کروں گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور اس پریشانی کو دور فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کتاب کی اشاعت کو بھی ایک نشان قرار دیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:۔
’’جب میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف ہے تو مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ اس کی چھپوائی کے لئے کچھ روپیہ نہ تھا اور میں ایک گمنام آدمی تھا۔ مجھے کسی سے تعارف نہ تھا۔ تب میں نے خداتعالیٰ کی جناب میں دعا کی تو یہ الہام ہوا ھُزِّ اِلَیْکَ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسَاقِطْ عَلَیْکَ رُطَبًاجَنِیًّا…(ترجمہ) کھجور کے تنہ کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجوریں گریں گی۔ چنانچہ میں نے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے سب سے اوّل خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کی طرف خط لکھا۔ پس خدا نے جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا ان کو میری طرف مائل کر دیا اور انہوں نے بلاتوقف اڑھائی سو روپیہ بھیج دیا اور پھر دوسری دفعہ اڑھائی سو روپیہ دیا۔ ‘‘
اس زمانے میں روپے کی بڑی قیمت تھی تو اس سے کافی کام ہوا ہو گا۔ فرماتے ہیں کہ:۔
’’پھر دوسری دفعہ اڑھائی سو روپیہ دیا اور چند اور آدمیوں نے روپیہ کی مدد کی اور اس طرح پر وہ کتاب باوجود نومیدی کے چھپ گئی اور وہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ یہ واقعات ایسے ہیں کہ صرف ایک دو آدمی ان کے گواہ نہیں بلکہ ایک جماعت کثیر گواہ ہے جس میں ہندو بھی ہیں۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 350)
اس کتاب کے ضمن میں بتا دوں کہ گو بہت سے لوگوں نے آپ کی اعانت کی، مدد فرمائی۔ لیکن بعض علماء نے انگریزی گورنمنٹ کے ڈر سے لینے سے انکار کر دیا۔ اس واقعہ کی تفصیل حیات طیبہ میں شیخ عبدالقادر صاحب نے لکھی ہے کہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے پہلے آپ کو لکھا کہ ٹھیک ہے مجھے جلدیں بھیج دیں، پھر انکار کیا۔ نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم اہل حدیث کے ایک مشہور عالم تھے اور والیۂ بھوپال نواب شاہجہان بیگم سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ شادی کر لینے کی وجہ سے شاید ان کی شہرت میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا۔ آپ نے دینی کتابوں کی اشاعت کے لئے بھی خاص جدوجہد کی تھی۔ اس لئے حضرت اقدس نے نواب صدیق حسن خان صاحب کو ایک درددل رکھنے والا مسلمان سمجھ کر براہین احمدیہ کی اشاعت میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی تحریک پر تو انہوں نے 15، 20 جلدیں خریدنے پر آمادگی کا اظہار کیا مگر پھر دوبارہ یاددہانی پر گورنمنٹ انگریزی کے خوف کا بہانہ بنا کر صاف انکارکر دیا اور براہین احمدیہ کا پیکٹ جو انہیں پہنچ چکا تھا اسے چاک کرکے، پھاڑ کر واپس بھیج دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک مرید حافظ احمد علی صاحب کا بیان ہے کہ جب کتاب واپس آئی تو اس وقت حضرت اقدس اپنے مکان میں ٹہل رہے تھے، کتاب کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ پھٹی ہوئی ہے اور نہایت بری طرح اس کو خراب کیا گیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ متغیر ہوا اور غصے سے سرخ ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ عمر بھر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسے غصے کی حالت میں نہیں دیکھا۔ آپ کے چہرے کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ میں غیر معمولی ناراضگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے، آپ بدستور ادھر ادھر ٹہلتے رہے اور خاموش تھے کہ یکایک آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے۔ اچھا تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کر لو، نیز یہ دعا کی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے۔ اس کے بعد جب براہین احمدیہ کا چوتھا حصہ حضور نے تحریر فرمایا تو اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نواب صاحب کے اس خلاف اخلاق فعل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:۔
’’ہم بھی نواب صاحب کو امید گاہ نہیں بناتے بلکہ امید گاہ خدا وندکریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے)۔ ‘‘ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 320)
حضرت اقدس کی اس تحریر کے کچھ مہینوں بعد اس گورنمنٹ انگریزی نے جس کی خوشنودی کی خاطر نواب صاحب نے براہین احمدیہ کے خریدنے سے انکار کیا تھا، آپ پر ایک سیاسی مقدمہ بنا دیا اور نوابی کا خطاب بھی نواب صدیق حسن خان سے واپس لے لیا جس کی وجہ سے نواب صاحب کو بے انتہا پریشان ہونا پڑا۔ ان مسائل سے نکلنے کے لئے انہوں نے بہت کوشش کی، بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ اس کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:۔
’’نواب صاحب صدیق حسن خان پر جو یہ ابتلا پیش آیا وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے۔ انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کرکے واپس بھیج دیا تھا۔ میں نے دعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے سوایسا ہی ظہور میں آیا۔ ‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ470حاشیہ)
نواب صاحب کو جب اپنے قصور کا احساس ہوا(کچھ عرصے کے بعد ان کو احساس ہو گیا تھا کہ میرے سے غلطی ہو گئی ہے) پھر انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑے انکسار کے ساتھ بذریعہ خط دعا کی درخواست کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :۔
’’تب میں نے اس کو قابل رحم سمجھ کر اس کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی ……… آخر کچھ مدت کے بعد ان کی نسبت گورنمنٹ کا حکم آ گیا کہ صدیق حسن خان کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے۔ ‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ470)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کی قبولیت کے ایک علمی معجزے کے بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے لکھا ہے کہ اپنے ابتدائی ایام تصانیف میں (جب شروع میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کتابیں لکھ رہے تھے) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کوئی کتاب عربی زبان میں نہیں لکھی تھی بلکہ تمام تصانیف اردو میں یا نظم کا حصہ فارسی میں لکھا۔ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کیا کہ حضور کچھ عربی میں بھی لکھیں۔ تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑی سادگی اور بے تکلفی سے فرمایا کہ میں عربی نہیں جانتا۔ مولوی عبدالکریم صاحب بے تکلف آدمی تھے، انہوں نے عرض کیا کہ میں کب کہتا ہوں کہ حضور عربی جانتے ہیں، میری غرض تو یہ ہے کہ کوہِ طُور پر جائیے اور وہاں سے کچھ لائیے۔ فرمایا ہاں دعا کروں گا۔ (ان کا مطلب یہ تھا کہ دعا کریں، اللہ میاں سے مانگیں ) اس کے بعد آپ تشریف لے گئے اور جب دوبارہ باہر تشریف لائے تو ہنستے ہوئے فرمایا کہ مولوی صاحب میں نے دعا کرکے عربی لکھنی شروع کی تو یہ بہت ہی آسان معلوم ہوئی۔ چنانچہ پہلے میں نے نظم ہی لکھی اور کوئی سو شعر عربی میں لکھ کر لے آیا ہوں، آپ سنئے۔ یہ عربی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی تصنیف تھی اور کتاب آئینہ کمالات اسلام میں درج ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے کئی کتابیں عربی میں تصنیف کیں اور زمانے بھر کے علماء کو چیلنج کیا کہ کوئی آپ کے مقابلے میں ایسی فصیح و بلیغ، معنی و معارف اور حقائق سے پُر عبارت عربی زبان میں لکھ کر دکھائے مگر کسی کو طاقت نہیں ہوئی کہ اس مقابلے کے لئے کھڑا ہوتا۔ لکھتے ہیں کہ الغرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام کاروبار کا انحصار دعاؤں پر تھا۔ آپ کی زندگی کے اوقات کا اکثر حصہ دعاؤں میں گزرتا تھا۔ ہر کام سے قبل آپ دعائیں کیا کرتے تھے اور اپنے دوستوں کو بھی دعاؤں کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔ دعا کو آپ ایک عظیم الشان نعمت یقین کرتے تھے کسی اور ذریعے کو آپ ایسا عظیم التاثیر نہیں بتلاتے تھے جیسا کہ دعا ہے اور دعا کو اسباب طبعیہ میں سے ایک سبب بتلاتے تھے۔ (سیرت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ527,526)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :۔
’’یاد رہے کہ خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لئے دعا کا قبول ہونا بھی ایک بڑا نشان ہوتا ہے بلکہ استجابت دعا کی مانند اور کوئی بھی نشان نہیں۔ کیونکہ استجابت دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بندہ کو جناب الٰہی میں قدر اور عزت ہے۔ اگرچہ دعا کا قبول ہو جانا ہر جگہ لازمی امر نہیں۔ کبھی کبھی خدائے عزّو جل اپنی مرضی بھی اختیار کرتا ہے۔ لیکن اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ مقبولین ِحضرت ِعزّت کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے کثرت سے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کوئی استجابت دعا کے مرتبہ میں ان کامقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ہزار ہا میری دعائیں قبول ہوئی ہیں۔ اگرمیں سب کو لکھوں تو ایک بڑی کتاب ہو جائے۔ ‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 334)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :-
’’دعا اور استجابت میں ایک رشتہ ہے کہ ابتداء سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا برابر چلا آتا ہے۔ جب خد اتعالیٰ کا ارادہ کسی بات کے کرنے کیلئے توجہ فرماتا ہے تو سنت اللہ یہ ہے کہ اس کا کوئی مخلص بندہ اضطرار اور کرب اور قلق کے ساتھ دعا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنی تمام ہمت اور تمام توجہ اس امرکے ہو جانے کے لئے مصروف کرتا ہے۔ تب اُس مرد فانی کی دعائیں فیوض الٰہی کو آسمان سے کھینچتی ہیں اور خداتعالیٰ ایسے نئے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن سے کام بن جائے… یہی دعا ہے جس سے خدا پہچانا جاتا ہے اور اس ذوالجلال کی ہستی کا پتہ لگتا ہے جو ہزاروں پردوں میں مخفی ہے۔ دعا کرنے والوں کیلئے آسمان زمین سے نزدیک آ جاتا ہے اور دعا قبول ہو کر مشکل کشائی کے لئے نئے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں اور ان کا علم پیش از وقت دیا جاتا ہے اور کم سے کم یہ کہ میخ آہنی کی طرح قبولیت دعا کا یقین غیب سے دل میں بیٹھ جاتا ہے‘‘۔ جس طرح کہ کیل گڑ جاتی ہے اس طرح لگتا ہے کہ دل میں کوئی چیز کھب گئی ہے۔ کیونکہ دعا قبول ہو گئی ہے، دل یہ گواہی دیتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ: ’’سچ یہی ہے کہ اگر یہ دعا نہ ہوتی تو کوئی انسان خدا شناسی کے بارے میں حق الیقین تک نہ پہنچ سکتا۔ دعا سے الہام ملتا ہے۔ دعا سے ہم خداتعالیٰ کے ساتھ کلام کرتے ہیں۔ جب انسان اخلاص اور توحید اور محبت اور صدق اور صفا کے قدم سے دعا کرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے تب وہ زندہ خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے جو لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ دعا کی ضرورت نہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنے دنیوی مطالب کو پاویں بلکہ کوئی انسان بغیر ان قدرتی نشانوں کے ظاہر ہونے کے جو دعا کے بعد ظاہر ہوتے ہیں اس سچے ذوالجلال خدا کو پا ہی نہیں سکتا جس سے بہت سے دل دُور پڑے ہوئے ہیں۔ نادان خیال کرتا ہے کہ دعا ایک لغو اور بیہودہ امر ہے مگر اسے معلوم نہیں کہ صرف ایک دعا ہی ہے جس سے خداوند ذوالجلال ڈھونڈنے والوں پر تجلی کرتا اور اَنَاا لقادر کا الہام انکے دلوں پر ڈالتا ہے۔ ہر ایک یقین کا بھوکا اور پیاسا یاد رکھے کہ اس زندگی میں روحانی روشنی کے طالب کے لئے صرف دعا ہی ایک ذریعہ ہے جو خداتعالیٰ کی ہستی پر یقین بخشتا اور تمام شکوک و شبہات دور کر دیتا ہے کیونکہ جو مقاصد بغیر دعا کے کسی کو حاصل ہوں وہ نہیں جانتا کہ کیونکر اور کہا ں سے اس کو حاصل ہوئے۔ ‘‘ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 240,239)
اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں پر مزید یقین عطا فرمائے اور اپنے فضل سے اس کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے تاکہ خداتعالیٰ پر ایمان اور یقین اور اس کے قادر و توانا ہونے کا فہم و ادراک ہمیں اس کے قریب تر کرتا چلا جائے اور ہم اس کے مقربوں میں شمار ہونے لگ جائیں۔
گزشتہ سو سال سے زائد عرصے سے مخالفین کی انتہائی کوششوں بلکہ بعض حکومتوں کی کوششوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ترقی۔ ۔ ۔ ۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں ہی ہیں جو آج تک قبولیت کا شرف پا رہی ہیں اور ان کے پیچھے یقینا وہ دعائیں بھی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مسیح و مہدی کے لئے کی ہیں۔
فرمودہ مؤرخہ 25؍ اگست 2006ء (25؍ ظہور 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن۔ برطانیہ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔