شہداء کو یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی راہ میں بہایا ہوا یہ خون کبھی ضائع نہیں جاتا
خطبہ جمعہ یکم ستمبر 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی :
{کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ۔ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّھُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْا َنْھٰرُخٰلِدِیْنَ فِیْھَا۔ نِعْمَ اَجْرُالْعٰمِلِیْنَ} (ا لعنکبوت:59-58)
گزشتہ دنوں میں سلسلے کے چند بزرگوں کی وفاتیں ہوئی ہیں، یہ موت فوت کا عمل تو انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ جو اس دنیامیں آئے گا اس نے جانا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ} یعنی ہر چیزجو اس زمین پر ہے وہ فانی ہے اور آگے فرمایا کہ {وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ} (الرَّحمن:28) اور صرف تیرے ربّ کی ذات باقی رہنے والی ہے جو جلال اور اکرام والی ہے۔ پس دنیا میں جو آیا اس نے چلے جانا ہے، کسی نے پہلے، کسی نے بعد۔ کسی نے لمبی عمر پا کر، کسی نے جلدی۔ پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو {ذُوالْجَلَالِ وَالْاِ کْرَامِ} خدا سے چمٹے رہتے ہیں اور اس کی پناہ میں آ
جاتے ہیں۔ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پچھلوں کے لئے بھی یہ نمونہ چھوڑ کر جاتے ہیں کہ دنیا کی فانی چیزوں کے پیچھے نہ دوڑنا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ اگر یہ تمہیں مل گئی توتمہیں دونوں جہان کی نعمتیں مل گئیں۔ وہ اپنے عمل سے اپنے پیچھے رہنے والوں کو، اپنی نسلوں کو یہ سبق دے کر جاتے ہیں کہ ہم نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ اللہ تعالیٰ کے اُس انعام کے مصداق ٹھہریں جس نے فرمایا ہے کہ {مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ} (البقرۃ:113) یعنی جو بھی اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجرا س کے رب کے پاس ہے۔ پس ایسے لوگ جو اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیتے ہیں اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے حصہ لیتے ہیں اور آخرت میں بھی انشاء اللہ حصہ لیں گے۔ اور آخرت کا حصہ ظاہر ہے کہ مرنے کے بعد ملنا ہے۔ اس فانی دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد ملنا ہے۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ ہر جان کو موت آنی ہے اور موت آنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر تمہارا میری طرف لوٹنا ہے اور جب میری طرف لوٹو گے تو ہم اُنہیں جنہوں نے نیک عمل کئے ہوں گے ضرور بالضرور جنت میں ایسے بالا خانے دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ پس نیک عمل کرنے والوں کا یہ ایسا عمدہ اور اعلیٰ اجر ہے کہ اس کے برابر کوئی اور اجر ہو نہیں سکتا۔ پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے نیک اعمال کے ایسے اجر پائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اس کی جنتوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔ ہمارے جو بزرگ گزشتہ دنوں فوت ہوئے ہم امید رکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کے مستحق ہوئے ہوں، حقدار ٹھہرے ہوں۔ اُن لوگوں نے اپنی زندگیاں اس طرز پر ڈھالنے کی کوشش کی کہ نیک اعمال بجا لائیں۔ اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اور انسانیت کی خدمت میں گزاریں۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطرجو بھی چھوٹی سی کوشش انہوں نے کی اس کا کئی گنا بڑھ کر اجر عطا فرمائے۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے۔ وہاں بیٹھے ہوئے صحابہ نے ان کی تعریف کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہو گئی۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی برائی کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واجب ہو گئی۔ حضرت عمر ؓ نے جو پاس بیٹھے ہوئے تھے عرض کیا حضور! کیا واجب ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی کی اس کے لئے دوزخ واجب ہو گئی۔ تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو یعنی نیکی اور بدی میں تمیز کی تم لوگوں کو توفیق دی گئی ہے۔ (بخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس علی االمیت حدیث نمبر1367)
پس کسی بھی مرنے والے کے ماحول کے لوگ جب اس کی نیکیوں کی گواہی دے رہے ہوں تو یقینا یہ اس کے حق میں دعا ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بھی ایسے مرنے والوں کو اجر دیتا ہے۔ اللہ کرے کہ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو جنت کے بالاخانوں میں جگہ دے۔ یہ ایسے لوگ تھے جو آخرین میں شمار ہوئے۔ پھر حتی الوسع اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے خدمات دینیہ ادا کرنے کی توفیق پائی۔ ہزاروں لوگوں نے ان کے جنازوں میں شرکت کرنے کی توفیق پائی۔ جن سے بھی ان لوگوں کا واسطہ پڑا انہوں نے ان کے لئے تعریفی کلمات ہی کہے۔ میرے پاس مختلف لوگوں کے جن سے ان کا واسطہ تھا۔ تعزیتی خطوط آئے ہیں اور ہر ایک نے ان کی نیکیوں کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان بزرگوں کے درجات بلند کرتا چلا جائے۔ کیونکہ بعد میں بھی ان کے لئے دعائیں کرنی ضروری ہیں۔ خاص طور پر جو فوت ہونے والے ہیں، وفات یافتگان ہیں ان کی اولادوں کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کرتے رہو جو ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنیں گے۔ پھر فوت ہونے والوں نے جن لوگوں کے ساتھ نیکیاں کیں ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔ اب مَیں ان بزرگوں کا مختصراً ذکر خیر کروں گا۔ ان میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب مرحوم ہیں، مولانا جلال الدین صاحب قمر ہیں، صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ ہیں اور اسی طرح ایک شہید ماسٹر منور احمد صاحب جو گجرات میں گزشتہ دنوں اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے۔
حضرت مرزا عبدالحق صاحب وہ بزرگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تقریباً 106سال کی لمبی عمر عطا فرمائی۔ آپ کی پیدائش جنوری 1900ء کی تھی۔ آپ کے بھائی اور چچا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی لیکن آپ نے بیعت نہیں کی کیونکہ آپ چھوٹے ہی تھے۔ لیکن نیک فطرت تھے تحقیق کا مادہ چھوٹی عمر میں بھی تھا۔ جو متاثر کرنے والی بات تھی اس سے متاثر بھی ہوتے تھے۔ 1913ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (یہ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانے کی بات ہے) ایک دفعہ شملہ تشریف لے گئے تو حضرت مرزا صاحب بھی ان دنوں وہیں تھے۔ ان کی عمر اس وقت صرف14سال تھی لیکن دینی علم کے حصول اور تحقیق کا مادہ تھا۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی جب شملہ گئے، جیسا کہ مَیں نے کہا یہ خلافت اولیٰ کا زمانہ تھا۔ توحضرت مرزا صاحب کے ذہن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد کا کچھ اور ہی تصور تھا۔ لیکن جب خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد کی مجالس میں بیٹھے تو آپ کی نیکی اور علم کا آپ کی طبیعت پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ مجھے بھی ایک دفعہ انہوں نے یہ سارا قصہ سنایا تھا۔ بہرحال حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کی اور اس بیعت کے رشتے کو اس طرح نبھایا کہ کوشش کی کہ اپنا حلیہ بھی وہی رکھیں جو ظاہری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا تھا۔ چنانچہ مجھے ایک د فعہ انہوں نے خود بتایاکہ بیعت کے بعد پھر مَیں نے یہ کوشش کی کہ جو لباس حضرت خلیفۃ المسیح الثانی پہنتے ہیں اسی طرح کا لباس پہنوں۔ چنانچہ شلوار، قمیص اور کوٹ اور سر پر پگڑی ہاتھ میں سوٹی وغیرہ اس طرح رکھنی شروع کی۔ (جیسا کہ مَیں نے کہا) تا کہ میں اسی حالت میں رہوں، اس حالت میں بننے کی کوشش کروں اور وہ حالت اپنے اوپر طاری کروں کہ وہ ہر وقت یاد رہے جس کی میں نے بیعت کی ہے اور پھر جب یہ عادت پڑ گئی تو بہرحال اسی طرح ان کی زندگی ڈھل گئی۔ گو آپ خلافت ثانیہ میں جماعت میں شامل ہوئے تھے لیکن اس فکر اور کوشش میں کہ مَیں نے اب احمدیت کا صحیح نمونہ بننا ہے تقریباً صحابہ ؓ کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لیا تھا۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے پر لاء (Law) کا امتحان پاس کیا اور کچھ عرصہ بعد آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خدمت میں زندگی وقف کرنے کی درخواست پیش کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جواب دیا کہ آپ اپنی پریکٹس جاری رکھیں اور اپنے آپ کو زندگی وقف ہی سمجھیں۔ چنانچہ انہوں نے ساری ہی زندگی اس کا پاس کیا۔ گو آپ پہلے بھی علمی ذوق رکھنے والے تھے اور دینی علم کی طرف بڑی رغبت رکھتے تھے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے اس ارشاد کے بعد تو اور بھی زیادہ کوشش کی۔ ایک دفعہ انہوں نے بتایاکہ مَیں نے تو 9سال کی عمر میں (جبکہ بچہ تھا) دینی مسائل پر غور کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور ماشاء اللہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فوج میں داخل ہوئے تو آپ کے علم و عرفان کو چار چاند لگ گئے۔ چنانچہ آپ کے جلسہ سالانہ پر بڑے علمی خطابات ہوتے تھے۔ کئی کتابیں لکھی ہیں۔ بڑے علمی کام کئے ہیں۔ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے رہے، سرگودھا میں ان کے کئی شاگرد ہیں۔ مجھے الفضل سے پتہ لگا کہ جب صداقت حضرت مسیح موعود ؑ پر آپ کی کتاب شائع ہوئی تو ایک بزرگ نے مرزا صاحب کو لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتایا ہے کہ یہ کتاب مَیں نے اپنے حضور قبول کی، میرا خیال ہے کہ یہ کتاب بھی صداقتِ حضرت مسیح موعود پر اُن کی جلسہ سالانہ کی ہی تقریر تھی۔ بہرحال آپ کی شخصیت ایک گہرے علمی اور دینی ذوق رکھنے والی تھی۔ بغیر تیاری کے بھی کسی مضمون پر بولنا شروع کرتے تھے تو خوب حق ادا کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کو ایسے علمی او رروحانی افراد عطا فرماتا رہے جو ہمیشہ سلطان نصیر ثابت ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار خلفاء کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ آخر تک اللہ کے فضل سے ذہنی طور پر بالکل ایکٹو (Active)تھے۔ اور آپ نے ہمیشہ کامل اطاعت اور فرمانبرداری سے کام کیا۔ میرے ساتھ بھی آخری دم تک انہوں نے وفا اور اطاعت کا نمونہ دکھایا۔ اپنے خطوط میں ہمیشہ اس بات کا احساس کراتے تھے کہ انجام بخیر ہونے کے لئے دعا کریں۔ تقریباً ہر سال جلسے پر یہاں آیا کرتے تھے۔ گزشتہ سال بھی آئے تھے اور انتہائی محبت اور پیار اور خلوص کا اظہار فرماتے رہے۔ خلافت سے جو وفا اور خلوص کا تعلق تھا وہ تو تھا ہی لیکن اس ناطے کہ مرکزی عہدیدار خلیفہ وقت کے مقرر کردہ ہیں ان عہدیداروں کی بھی نہایت عزت اور احترام فرمایا کرتے تھے۔ مَیں جب ناظر اعلیٰ تھا، جب بھی کسی کام کے لئے ربوہ تشریف لایا کرتے تھے تو صحت کی پرواہ کئے بغیر اور باوجود کمزوری صحت کے اور میرے کہنے پر بھی کہ جہاں آپ ٹھہرے ہوئے ہیں وہیں رہا کریں مَیں ملنے کے لئے وہیں آ جاتا ہوں خود دفتر تشریف لایا کرتے تھے اور ایک عہدیدار کے لئے ان کی آنکھوں سے احترام چھلک رہا ہوتا تھا۔ یہ جو مَیں نے کہا ہے کہ ان کی جو کمزوری تھی اس کے باوجود بھی ان کی یہ بڑی خوبی تھی کہ آخری سالوں میں جو پچھلے چند سال گزرے ہیں، خلیفۂ وقت نے جن کمیٹیوں کا بھی ان کو ممبر بنایا تھا یا جو کمیٹیاں ان کے سپرد تھیں ان میں ہمیشہ خرابی صحت کے باوجود بھی شامل ہوا کرتے تھے۔ سرگودھا سے سفر کرکے آتے تھے اور آخر تک جیسا کہ مَیں نے کہا ماشاء اللہ دماغی طور پر بڑے ایکٹو (Active) رہے۔ بڑے صائب الرائے تھے لیکن دوسروں کی رائے بھی بڑے حوصلے سے سنتے تھے اور اس کی قدر کرتے تھے۔ 1988ء میں یہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مسائل اور خاص طور پر زمینداروں کے مسائل پر ایک کمیٹی بنائی تھی تو مجھے بھی اس کا ممبر بنایا تھا اور مرزا صاحب اس کے صدر تھے۔ جب بھی آپ میٹنگ پر تشریف لاتے تو ہر ایک کو موقع دیتے کہ اپنی رائے کا اظہار کرے اور پھر اس رائے کو وزن بھی دیتے تھے۔ بحث کرنے کا کھل کے موقع دیتے تھے۔
پھر جب ایک جھوٹے مقدمے میں جو میرے خلاف ہوا تھا کہ مَیں نے ربوہ کے بس اڈے پر ایک بورڈ پر لکھی ہوئی قرآنی آیت کو برش پھیرکر یا کوچی کرکے مٹایا ہے۔ اس میں جب مجھے ملوث کیا گیااور کافی دنوں کی بحث کے بعد جب آخر پہلے سے کئے ہوئے فیصلے کے مطابق عدالت نے مجھے مجرم بنا دیا تو اگلے دن جب ہم تھانہ ربوہ سے چنیوٹ جا رہے تھے تو مَیں نے دیکھا کہ ہماری گاڑی کے قریب سے حضرت مرزا صاحب کی گاڑی گزری ہے اور ان کے چہرے سے پریشانی ٹپک رہی تھی۔ خیر چنیوٹ عدالت کے صحن میں مرزا صاحب سے ملاقات ہو گئی، ہماری گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔ اس وقت بھی بیمار تھے، مَیں نے کہا آپ نے کیوں تکلیف کی۔ فرمانے لگے اس وقت مجھے اپنی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ بہرحال لمبا وقت بیٹھے رہے۔ گو بظاہر ہمیں تسلیاں بھی دیتے رہے اور ہم بھی ان کو کہتے رہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے لیکن ان کے چہرے پر اس وقت بڑی فکر مندی کے آثار تھے او ر مستقل وہاں بیٹھے ہوئے دعاؤں میں مصروف رہے، دعائیں اور باتیں ساتھ چلتی رہیں۔ غرض ان کی زندگی کے بیشمار واقعات ہیں۔ ان کو یہ بھی بہت بڑا اعزاز حاصل تھا کہ 1922ء سے، جب سے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ شوریٰ کا نظام جماعت میں قائم فرمایا آپ کو شوریٰ میں شمولیت کرنے کی توفیق ملی۔ آپ تقریباً 84سال تک جماعتی خدمات کی توفیق پاتے رہے اور خوب توفیق پائی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے۔
حضرت مرزا صاحب کی ایک اور بات بھی ان کے کسی عزیز نے لکھی کہ ہم ان سے ملنے کے لئے گئے۔ آپ بیمار تھے۔ بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ تو باہر لوگوں کا رش تھا۔ بستر پر لیٹے ہوئے ہی لوگ آ رہے تھے اور مل رہے تھے۔ یہ دوپہر سے پہلے یا بعد کا وقت تھا مَیں نے ان سے کہا کہ یہ تو ملاقات کا وقت نہیں ہے۔ لوگوں کو بھی کچھ خیال کرنا چاہئے کہ وقت پر آیا کریں اور آپ کو اس حالت یعنی بیماری میں آ کر نہ ملیں تو فرمانے لگے کہ امیر کے لئے کوئی وقت نہیں ہوتا۔ اگر امارت کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں پھر ہر وقت ہر ایک کا حق ہے کہ آئے اور اپنے مسائل بیان کرے۔ تو یہ دوسرے امراء کے لئے بھی بڑا سبق ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت میں آئندہ بھی ایسے علم و عرفان اور وفا سے بھرے ہوئے وجود پیدا فرماتا رہے۔ ان کی اولاد کو بھی توفیق دے کہ ہمیشہ احمدیت اور خلافت سے وفا کرنے والے رہیں۔ پھر گزشتہ دنوں ہونے والے فوت شد گان میں مولاناجلال الدین صاحب قمر ہیں۔ آپ بھی جماعت کے بڑے پرانے خادم اور فدائی بزر گ تھے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 83سال تھی۔ لمبا عرصہ فلسطین اور مشرقی افریقہ کے ملکوں میں تبلیغ کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ مختلف زبانوں کو جانتے تھے جو ایک مبلغ کا خاصہ ہونا چاہئے۔ عربی، فارسی انگریزی اور مشرقی افریقہ کی بعض مقامی زبانیں بھی جانتے تھے۔ جامعہ میں پڑھانے کی بھی ان کو توفیق ملی۔ بڑے سادہ مزاج تھے۔ مجھے امید ہے کہ ان کے شاگرد آج دنیا میں پھیلے ہوں گے۔ تقریباً گیارہ سال تک انہوں نے جامعہ میں بھی پڑھایا تو یہ شاگرد جنہوں نے مولانا صاحب سے پڑھا ان کا فرض ہے کہ اپنے استاد کے درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد نہیں تھی۔
پھر مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں، صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ کا جو میری خالہ بھی تھیں بلکہ ہم دونوں میاں بیوی کی خالہ تھیں۔ مجھے بچپن سے ہی ان سے تعلق تھا۔ ان کے گھر آناجانا تھا۔ بڑی غیر معمولی طبیعت کی مالک تھیں۔ بچپن میں مجھے یاد ہے کہ ایک دوسرے کے گھروں کے اندر ہی دروازے کھلتے تھے۔ تو اس وجہ سے کہ دروازہ بیچ میں ہی ہے، بے وقت ان کے گھر چلا جایا کرتا تھا۔ لیکن مجال ہے جو کسی وقت بھی کم از کم میرے سامنے یہ اظہار کیا ہو کہ کوئی بیزاری چہرے سے ٹپکتی ہو یا کسی قسم کا اظہار کیا ہو کہ بے وقت کیوں آتے ہو۔ ہمیشہ خالہ ہونے کا حق ادا کیا کہ جس وقت مرضی آؤ گھرپہ حق ہے۔ اور ہمیشہ اپنا گھر کھلا رکھا۔ اس طبیعت کی وجہ سے اور بے تکلفی کی وجہ سے بعض دفعہ باتوں باتوں میں ان کے ساتھ زیادتی بھی ہو جاتی تھی۔ یااحساس ہوتا تھا کہ زیادتی ہو گئی ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ برداشت کرجاتی تھیں۔ کبھی اس کا اظہار نہیں کیا۔ اس لحاظ سے بھی بڑی غیر معمولی طبیعت تھی۔ خلافت سے بے انتہا محبت کا تعلق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ خلافت کے بعد وہ احترام دیا جو خلافت کا حق ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جو دوسرے بڑے بہن بھائی ہیں انہوں نے ایک دفعہ باتوں میں ان سے پوچھا کہ پہلے تو نام لیتے تھے اب ادب اور احترام کے دائرے میں ان کو مخاطب کرنے یا ان سے بات کرنے کے لئے آپ کس طرح ان کو مخاطب کرتی ہیں۔ تو کہنے لگیں کہ اب وہ خلیفہ وقت ہیں۔ مَیں تو خلیفہ وقت ہی کہتی ہوں تاکہ خلافت کا احترام قائم رہے۔ اور ذاتی رشتوں پر خلافت کا رشتہ مقدم رہے۔ میرے بارے میں کسی نے پوچھا کہ اب کس طرح مخاطب کریں گی۔ تو فرمانے لگیں کہ میرے نزدیک خلافت کا رشتہ سب سے مقدم ہے۔ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتی تھی اسی طرح ان کو مخاطب کروں گی۔ خلافت کے بعد اپنی خالاؤں میں میری سب سے پہلی ملاقات شایدان سے ہوئی اور ان کی آنکھوں میں، الفاظ میں، بات چیت میں جو فوری غیر معمولی احترام مَیں نے دیکھا وہ حیران کن تھا۔ گو کہ میرے جو باقی بڑے رشتے تھے انہوں نے بھی اسی طرح اظہار کیا ہے، لیکن ان کو اور میری ایک اور بزرگ ہیں ان کومَیں نے فوری طور پر مل لیا تھا اور پہلا موقع تھا اس لئے فوری دل پر نقش ہو گیا۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ ان کا جائیداد اور زمینوں کا انتظام مشترکہ چلتا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنی زندگی میں وہ انتظام میرے سپرد کیا ہوا تھا۔ تو ان کی وفات کے بعد جب مَیں نے ان کے بچوں کو کہا کہ اپنے انتظامات سنبھال لو۔ تو ان کو بھی کہا کہ اس طرح علیحدہ کریں۔ احمد نگر کی زمینوں کا حساب اور انتظام تھا۔ پہلے تو زبانی بھی اظہار کرتی رہیں۔ پھر اب اس دفعہ مجھے لکھ کر اس پریشانی کا اظہار کیا کہ کہیں کسی ناراضگی کی وجہ سے تو مَیں یہ انتظام نہیں چھوڑ رہا۔ ان کو سمجھایا کہ جب میرا براہ راست انتظام نہیں اس لئے بہتر ہے کہ اپنا اپنا خود سنبھالیں تو کہنے لگیں کہ مَیں اسی لئے پریشان ہوں کیونکہ میرے سے یہ برداشت نہیں کہ کسی بھی حالت میں خلیفہ وقت کی ناراضگی کا باعث بنوں۔ یہ ان کی ذاتی چیز تھی، ذاتی معاملہ تھا لیکن اس میں بھی گوارا نہ کیا کہ خلیفہ وقت کی مرضی کے خلاف ذرا سا بھی کام ہو۔ غریبوں اور ضرورتمندوں کا بڑا خیال رکھنے والی، دعا اور صدقہ کرنے والی بزرگ تھیں۔ کوئی دعا کے لئے کہہ دیتا تو یاد رکھتی تھیں۔ ہمارے ایک مربی صاحب ہیں جن کا میدان عمل میں کہیں دورے پر جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہو گیا اور بہت بری طرح ایکسیڈنٹ ہوا، ٹانگیں کئی جگہ سے ٹوٹ گئیں، اب تک بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہیں، انہوں نے مجھے لکھا کہ مَیں نے ایکسیڈنٹ کے بعد ہسپتال سے ان کو دعا کے لئے فون کیا تو فرمانے لگیں کہ تمہارے لئے روزانہ نفل بھی پڑھ رہی ہوں اور صدقہ بھی نکالتی ہوں۔ تو جماعتی کارکنوں کے لئے بڑا درد رکھتی تھیں۔ خلافت سے محبت کے سلسلے میں ایک اور بات(بتا دوں )۔ اب جب اس دفعہ جلسہ پہ آئی ہوئی تھیں۔ بڑی کمزور تھیں اور ہلکا ہلکا بیماری کا اثر بھی چل رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ آپ اب گھر آرام سے رہیں، دوبارہ نہ آئیں آپ کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ کہنے لگیں کہ مَیں تو خلیفہ وقت سے ملنے کے لئے آتی ہوں۔ اور جب تک ہمت ہے آتی رہوں گی۔ خلافت سے انتہائی محبت تھی۔ اب جاتے ہوئے ان کو گیسٹ ہاؤس میں جب میں مل کرآیا ہوں کہ جا رہی ہیں تو اللہ حافظ۔ رات کو ملا ہوں اگلے دن صبح ان کی فلائیٹ تھی۔ تو جب ائیرپورٹ پر جانا تھا تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھے آکر بتایا کہ بی بی امتہ الباسط صاحبہ باہر کار میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ مَیں نے کہا مَیں تو کل مل آیا تھا۔ خیر باہرگئے تو ملاقات ہوئی۔ دعا کے لئے انہوں نے کہا، ان کو دعا کرکے رخصت کیا۔ اور اللہ کے فضل سے خیریت سے پاکستان پہنچ گئیں لیکن بہرحال اللہ کی تقدیر تھی چنددن کے بعد بیماری کا دوبارہ شدید حملہ ہوا۔ ہارٹ اٹیک ہوا اور وفات ہو گئی۔
ان کے گھر پلنے والے ایک لڑکے نے جو اب تو جوان بچوں کے باپ بھی ہیں۔ مجھے لکھا کہ یہاں جرمنی جب آتیں (وہ آجکل جرمنی میں ہیں)۔ تو ہمارے گھر ضرور آتیں، یہ لڑکا بھی سیالکوٹ کے کسی گاؤں سے آ یا۔ ان کے والد یا والدہ کوئی ان کو چھوڑ گیا تھا اور وہیں پلا بڑھا ہے۔ لکھا ہے کہ جب میرے پاس آتیں تو میرے بچوں کو کہتیں کہ مَیں تمہاری دادی ہوں اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس بچے کو اس کے ماں یا باپ اس وقت کسی گاؤں سے ان کے پاس چھوڑ گئے تھے۔ اور حضرت میرداؤد احمدصاحب اور بی بی امۃ الباسط صاحبہ نے اس لڑکے کو پالا تھا۔ پڑھایا لکھایا اور یہ ان کی ایک بڑی خوبی تھی جس سے ایک دفعہ تعلق قائم ہو جاتا تھا اس کو خوب نبھاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
ان کی سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ نصرت کے میاں غلام قادر شہید ہوئے تو اس کو بھی بڑا حوصلہ دیا اور خوب سنبھالا اور ہر طرح خیال رکھا۔ گو کہ عزیزہ کی اب دوسری شادی ہو چکی ہے لیکن اس کے بچوں کو اور اس کو خود بھی بعد میں سنبھالا دیتی رہیں۔ اور ماں کی دعائیں جو سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہیں، ان کی وہ دعائیں توانشاء اللہ تعالیٰ ان بچوں کے لئے کام آتی رہیں گی۔ عزیزہ نصرت اور اس کے بچوں کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عزیزم مرزا غلام قادر شہید کے بچوں کو بھی ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اُن کے والد اور نانی کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو ہمیشہ کی طرح خود ہی اپنے فضلوں سے پورا فرماتا رہے۔ اور ان بچوں کے دادا دادی کو بھی صحت دے اور ان کو شہید کے بچوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کے دوسرے بچوں کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ نیکیوں پر چلائے۔ خلافت سے پیار اور محبت اور اطاعت اور فرمانبرداری اور اخلاص ووفا کا تعلق ان کی خواہش سے بڑھ کر عطا فرمائے۔ اور اپنی بزرگ ماں کے لئے ان کو دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے۔
چوتھا ذکر ایک شہید کا ہے۔ ان کا نام ماسٹر منور احمد صاحب ہے۔ یہ گجرات کے رہنے والے تھے۔ جیسا کہ ظالموں کا ہمیشہ سے احمدیوں کے ساتھ یہ سلوک رہا۔ جب دل چاہے، جس احمدی کو مارنے کو دل چاہے مار دیتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ قانون بھی احمدی مقتول کا نام سن کر خاموش ہو جاتا ہے کہ مارنے والے نام نہاد مسلمان نے جنت کمائی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔ بہرحال 22؍ اگست کو صبح دو نامعلوم افراد ان کے دروازے پر آئے جو موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ جب منور صاحب نے دروازہ کھولا، باہر نکلے تو ان دونوں نے اندھا دھند فائرنگ کی اور ان کو پانچ گولیاں لگیں، فوری طور پر ان کو ہسپتال پہنچایا گیا۔ لیکن زخموں کی تاب نہ لا کر وہیں وفات پا گئے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بڑا بچہ گیارہ سال کا ہے، پھر 7سال کا پھر تین سال کا۔ اللہ خود ان بچوں کو سنبھالنے کے سامان پیدا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ جماعت کے بھی بڑے اچھے کارکن تھے۔ خدمات سرانجام د یتے تھے۔
دشمن سمجھتا ہے کہ آج احمدیوں کی ملک میں کوئی نہیں سنتا، قانون انکی حفاظت نہیں کرتا۔ اسلئے ان کو شہید کرکے انکے خیال میں قتل کرکے جتنا ثواب کمانا ہے کما لو۔ لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی راہ میں بہایا ہوا یہ خون تو کبھی ضائع نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس طرح جان قربان کرنے والوں کو زندہ کہا ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ کی خاطر مرتے ہیں وہ زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے اور انکے دشمنوں سے اللہ تعالیٰ خود ہی بدلہ بھی لے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ ملک میں رہنے والوں کی آنکھیں کھولے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھتے ہیں اور پھر بھی ان لوگوں کو عقل نہیں آتی۔ آج اگر ملک بچا ہوا ہے تو احمدیوں کی وجہ سے بچا ہوا ہے۔ اسلئے احمدی بڑے درد سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے ملک کو پاک کرے اور اس ملک کو بچا لے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا شہید کے بچوں کے لئے بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان پر اپنا فضل فرماتا رہے۔
وفات یافتگان کا ذکر ہوا ہے تو اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریق تھا۔ ان کے بارے میں آپؐ نے کیا نصیحت فرمائی کہ کس طرح دعا کی جائے۔ آپؐ کا اسوہ کیا تھا؟اس بارے میں چند احادیث بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ اس پر عمل کرکے ہم اپنے لئے بھی اور وفات یافتگان کے لئے بھی اللہ کا رحم اور مغفرت حاصل کرنے والے ہوں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سلمیٰ کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو ان کی وفات ہو چکی تھی اور ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور آنحضورؐ نے آتے ہی پہلے ان کو بند کیا۔ پھر حضرت ابو سلمیٰ کے اہل میں سے کسی نے نوحہ کی غرض سے بلند آواز نکالی، اونچی آواز میں ماتم کرنے کی کوشش کی تو نوحہ کی آواز سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے لوگوں کے لئے صرف خیر کی بات کرو۔ کیونکہ ملائکہ ہر وہ بات جو تم کرتے ہو اسے امانت رکھتے ہیں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔ اے اللہ! ابو سلمیٰ کی بخشش فرما اور ہدایت یافتہ لوگوں میں ان کے درجات بلند فرما اور اس کے پیچھے رہنے والوں میں اس کا اچھا جانشین بنا۔ اے رب العالمین! ہمیں بخش دے اور اس کی بھی بخشش فرما۔ اے اللہ! اس کی قبر کو کشادہ فرما۔ اور اس کے لئے اسے منور فرما۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب تغمیض المیت۔ حدیث نمبر 3118)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا اور اس میں یہ دعا کی۔ یہ جنازے کی دعا ہے نوجوانوں کو بھی یاد کرنی چاہئے کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا۔ وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا وَشَاھِدِنَاوَغَائِبِنَا۔ اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّافَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ۔ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ۔ اَللّٰھُمَّ لَاتَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ وَلَا تَفْتِنَّابَعْدَہٗ۔ اے ہمارے خدا! ہمارے زندوں کو، ہمارے وفات پانے والوں کو، ہمارے چھوٹوں کو، اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو اور ہم میں سے جو حاضر ہیں اور جو غائب ہیں سب کو بخش دے، اے ہمارے خدا جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ۔ اور جس کو تُو ہم میں سے وفات دے اُسے ایمان پرو فات دے۔ اے ہمارے خدا تو اس مرنے والے کے ثواب سے ہمیں محروم نہ کر اور اس کے بعد ہر قسم کے فتنہ سے ہمیں محفوظ رکھ۔ (ترمذی کتاب الجنائز باب ما یقول فی الصلوٰۃ علی المیت حدیث نمبر1024)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین کے بعد خود بھی استغفار کرتے تھے اور لوگوں سے بھی مخاطب ہو کر فرماتے تھے یہ حساب کا وقت ہے اپنے بھائی کے لئے ثابت قدمی کی دعا مانگو۔ اور مغفرت طلب کرو۔ (ابوداؤد کتاب الجنائز باب الاستغفار عند القبر للمیت حدیث نمبر3221)
طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ خدا جنت میں ایک بندے کا مرتبہ بلند فرماتاہے تو بندہ پوچھتا ہے اے پروردگار مجھے یہ مرتبہ کہاں سے ملا تو خدا فرماتا ہے کہ تیرے لڑکے کی وجہ سے کہ وہ تیرے لئے استغفار کرتا رہا ہے۔ پس اولاد کو اپنے مرنے والوں کے درجات کی بلندی کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی بے حساب جانے دے اور ہم پر بھی رحم اور فضل فرمائے۔
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر طیار کی وفات پر فرمایا۔ آلِ جعفر کے لئے کھانا تیار کرو۔ ان کو ایک ایسا امر درپیش ہو گیا ہے جو ان کو مصروف رکھے گا۔ (ابوداؤد کتاب الجنائز باب فی صنعۃ الطعام لاھل البیت۔ حدیث نمبر 3132)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے جب کارِ قضا کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے یعنی کوئی فوت ہو جائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیار کریں۔ فرمایا نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جاوے۔ (ملفو ظات جلد پنجم صفحہ 233جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ یہاں اس طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی۔ ہمسایوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جماعتی انتظام کے تحت لنگر میں جو کھانا پکتا ہے وہیں سے آ جائے۔ اگر تو ہمسائے نہ ہوں پھر تو جماعت کا فرض ہے کرتی ہے اور کرنا چاہئے۔ لیکن اگر ارد گرد احمدی ہمسائے رہتے ہوں تو ان کو اپنے فرض کو ادا کرنا چاہئے۔ اور اس طرف خاص توجہ دیں۔ اور دنیا میں ہر جگہ جماعت کواس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔
سوگ منانے کے ضمن میں حضرت زینب بنت ابی سلمیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، ان دنوں آپ کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے میری موجودگی میں زرد رنگ کی خوشبو منگوائی۔ پہلے اپنی لونڈی کو لگائی پھر اپنے ہاتھ اور اپنے رخساروں پر ملی اور ساتھ ہی فرمایا :خدا کی قسم !مجھے خوشبو لگانے کی کوئی خواہش نہیں۔ مگرمَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا اللہ تعالیٰ اور آخر ی دن پر ایمان لانے والی کسی بھی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی مرنے والے کا سوگ کرے۔ البتہ بیوی اپنے خاوند کے مرنے پر چار ماہ دس دن سوگ میں گزارتی ہے۔ (بخاری کتاب الجنائز باب احداد المرأۃ علیٰ غیر زوجھا حدیث نمبر1280، کتاب الطلاق باب تحد المتوفی عنھا زوجھا اربعۃ اشھر و عشرًا حدیث نمبر5334)
جنازے میں شامل ہونے کے بارے میں روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ ثواب کی نیت سے جاتا ہے اور اس کے دفن ہونے تک ساتھ رہتا ہے تو وہ دو قیراط اجر لے کر واپس لوٹتا ہے۔ اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر سمجھو اور جو شخص دفن ہونے سے پہلے واپس آجاتا ہے تو وہ صرف ایک قیراط کا ثواب پاتا ہے۔ (بخاری کتاب الایمان باب اتباع الجنائز من الایمان حدیث نمبر47)
اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ خاص طور پر ربوہ میں، مَیں نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ جس محلے میں کوئی احمدی وفات پا جاتا ہے تو اس محلے کے لوگوں کا فرض ہے کہ اس جنازے کے ساتھ جایا کریں لیکن باہر سے موصیان کے جنازے ربوہ میں آتے ہیں تو ان کے لئے وہاں جماعتی طور پر انتظام ہونا چاہئے۔
خدام الاحمدیہ کو بھی انتظام کرنا چاہئے کہ جنازے میں کافی لوگ شامل ہوا کریں۔ پھر فوت شدہ کی خوبیوں کا ذکر کرتے رہنے کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے وفات یافتگان کی خوبیاں بیان کیا کرو۔ اور ان کی کمزوریاں بیان کرنے سے احتراز کرو۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی النھی عن سب الموتی حدیث نمبر4900)
ابھی جمعہ کی نماز کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ مَیں ان سب کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔
دوسری بات جو مَیں کہنا چاہتا تھا وہ امریکہ کے جلسے سے متعلق ہے۔ امریکہ میں مَیں نے جانا تھا لیکن حالات کی وجہ سے پروگرام ملتوی کرنا پڑا تو میرا خیال تھا کہ آج اس حوالے سے کچھ کہوں گا کیونکہ آج ان کے جلسے کا پہلا دن ہے۔ لیکن پھر وفات یافتگان کے ذکر کی وجہ سے اس مضمون کو چھوڑنا پڑا۔ لیکن مختصر اً میں ان کو اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں دعاؤں پر بہت زور دیں۔ یہ جلسے جس مقصد کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں ورنہ ان جلسوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ آپ لوگوں نے یہ ذکر سنا کہ کس طرح ہمارے بزرگ اپنی زندگیاں بسر کرتے رہے۔ دعاؤں اور نیکیوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھالیں تاکہ دنیا کے ہر کونے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے فیض پانے والوں کا ایسا گروہ تیار ہو جائے جو توحید کو قائم رکھنے والا اور اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق قائم کرنے والا ہو۔ اور یہ کام اللہ کے فضل کو جذب کرنے سے ہی ہو گا۔ اور اللہ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے دعاؤں کی بہت ضرورت ہے، عبادات کی ضرورت ہے۔ پس ان تین دنوں میں امریکہ میں جلسہ ہو رہا ہے یا دنیا میں کہیں اور کسی جماعت میں اگر جلسے ہو رہے ہیں تواس سوچ کے ساتھ اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے۔
اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھ دیتا ہوں اس کو ہر وقت سامنے رکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اَور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔ وہ رحمت کو کھینچنے والی مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔ مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں۔ کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔ مبارک تم جبکہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینے میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے۔ اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کیلئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے۔ کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں، نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شوروغوغاسے الگ ہوجاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خداکے لئے ہار اختیار کرلو اور شکست کو قبو ل کرلو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہوجاتاہے جیساکہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتاہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی گویا کہ وہ کوئی اور خدا ہے حالانکہ کوئی اور خدا نہیں۔ مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتاہے جودوسروں کے لئے نہیں کرتا یہی وہ خوارق ہے۔
غرض دعا وہ اکسیرہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کردیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھودیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے‘‘۔ (لیکچرسیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ222 تا 224)
پس اس جلسے پر ان دنوں میں دعاؤں پر بہت زور دیں۔ نمازوں پر بہت زور دیں۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو مادی لحاظ سے اس وقت بہت زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں رہتے ہوئے ہر احمدی کو اپنے آپ کو اس کی گندگیوں سے محفوظ رکھنے کی اور دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی انتہائی ضرورت ہے اور یہی جلسے کا فیضان ہے، یہی جلسے کا فیض ہے کہ آپ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کر لیں۔ اگر خدا مل گیا تو ہم نے اپنے زندگی کے مقصد کو پالیا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
مکرم مرزا عبدالحق صاحب، مکرم مولانا جلال الدین صاحب قمر، مکرمہ صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ اور مکرم ماسٹر منور احمد صاحب شہید گجرات کا ذکر خیر اور ان کے لئے دعاؤں کی تحریک۔
فرمودہ مؤرخہ یکم؍ستمبر 2006ء (یکم؍تبوک 1385ہش) مسجد بیت الفتوح لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔