صحابہؓ کی قبولیتِ دعاکے نہایت ایمان افروز واقعات کا روح پرور بیان

خطبہ جمعہ 8؍ ستمبر 2006ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے عرب کے رہنے والے مشرکین کی ایسی کایا پلٹی کہ انہیں ایک خدا کی عبادت کرنے والا اور ہمہ وقت اس کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر کرنے والا بنا دیا۔ ان لوگوں نے اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں اپنی راتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے گزارنا شروع کر دیا۔ اُن لوگوں نے جہاں اپنے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان دیکھے۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خود اپنی قبولیت کے نشانات بھی دیکھے۔ اور یہی قبولیت کے نشانات اور اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان تھا جس نے ان کو مزید توکل کرنے والا اور دعاؤں پر یقین کرنے والا بنا دیا اور پھر وہ اُس مقام تک پہنچ گئے جہاں وہ ہر روز اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے دیکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے اُنہیں خداتعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک عطا کیا۔ ان کی عبادتوں نے اللہ تعالیٰ کو ان سے راضی کیا۔ اور وہ اپنے پیارے خدا سے اس طرح راضی ہوئے کہ دنیا کی ہر لالچ کو انہوں نے ٹھوکروں سے اڑا دیا۔ اور وہ لوگ بعد میں آنے والوں کے لئے ہدایت کا باعث بنے۔ اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے یہ سندحاصل کی جس کا ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔

حضرت عمر ؓ بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مَیں نے اپنے صحابہ کے اختلاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی کہ اے محمد! تیرے صحابہ کا میرے نزدیک ایسا مرتبہ ہے جیسے آسمان میں ستارے ہیں۔ بعض بعض سے روشن تر ہیں لیکن نور ہر ایک میں موجود ہے۔ پس جس نے تیرے کسی صحابی کی پیروی کی میرے نزدیک وہ ہدایت یافتہ ہو گا۔ حضرت عمرؓ بن خطاب نے یہ بھی کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی بھی تم اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ (مشکوٰۃ کتاب المناقب الصحابۃ الفصل الثالث صفحہ 554)

پس ان روشن ستاروں نے دنیا کو ہدایت دی۔ ایک دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچایا، ایک دنیا کو اپنے پیداکرنے والے خدا کے قریب کیا، عرب سے باہر کی دنیا میں یہ صحابہ گئے اور اللہ تعالیٰ پر توکل، ایمان اور دعاؤں سے لوگوں نے اُن کے ہاتھوں سے دنیا میں معجزے عمل میں آتے دیکھے۔ پھر جب بڑی بڑی طاقتوں نے جو ہدایت کی اِن قندیلوں کو بجھانا چاہتی تھیں، جو انہیں ختم کرنے کے درپے تھیں اُن سے ٹکر لی تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے اور اپنی دعاؤں کی قبولیت دیکھتے ہوئے انہوں نے ان طاقتوں سے مقابلہ کیا تو میدان پر میدان مارتے چلے گئے۔ اس کی ایک دو مثالیں یہاں پیش کرتا ہوں۔ تاریخ میں یہ ذکر ملتا ہے کہ ایران کے خلاف جب جنگ ہوئی تو سب لوگ تُستَرکے مقام پر جمع ہوئے۔ اور اہل فارس کے سپہ سالا ر ہرمزان اور ان کی ایرانی افواج اور پہاڑوں پر رہنے والے اور اہواز کے لشکر خندقوں میں بیٹھے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو ان کی امداد کے لئے بھیجا اور اہل بصرہ پر حاکم بنا دیا۔ اور باقی تمام علاقہ پر ابوسبرہؓ کو مقرر کیا۔ مسلمانوں نے کئی مہینے تک ان کا محاصرہ کئے رکھا، اکثر کو تہ تیغ کیا۔ اس محاصرے میں حضرت براء بن مالکؓ جو حضرت انس بن مالکؓ کے بھائی تھے شہید ہو گئے۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے سو مرتبہ مبارزت کی تھی اور آخری بار شہید ہو گئے تھے۔ آپ ہی کی طرح مجزأۃ بن ثور اور کعب بن سُور اور اہل کوفہ اور اہل بصرہ میں سے متعدد لوگ شہید ہوئے تھے۔ جنگ تُستر کے دوران مشرکین نے ان پر اَسّی (80) بار حملہ کیا اور کبھی یہ غالب آتے اور کبھی وہ۔ بہت شدید جنگ ہوتی رہی۔ جب آخری حملہ میں شدید جنگ ہو رہی تھی تو مسلمانوں نے حضرت براء ؓ کی خدمت میں عرض کی کہ اے براء بن مالک اپنے ربّ کو قسم دیں کہ وہ ان کو ہماری خاطر شکست دے دے۔ آپؓ نے دعا کی اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ لَنَا وَاسْتَشْہِدْنِیْ کہ اے اللہ ان کو ہماری خاطر شکست دے اور مجھے شہادت عطا فرما۔ (اپنی شہادت کی بھی ساتھ دعا کی) آپؓ مستجاب الدعوات تھے۔ ان کی دعائیں بڑی قبول ہوتی تھیں۔ اس دعا کے بعد مسلمانوں نے دشمنوں کو شکست دی اور ان کو ان کی خندقوں میں داخل ہونے پر مجبور کر دیا۔ اور پھر حملہ کرکے ان کے شہر میں داخل ہو گئے اور شہر کا احاطہ کر لیا۔ (التاریخ الکامل لابن اثیر جلد 2صفحہ368حالات سنہ ثمان عشرۃ دارالکتاب العربی بیروت 1997ء)

ایک دوسری روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں آتا ہے، 18ہجری کا واقعہ ہے۔ نہاوند میں حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص مسلمانوں کے کمانڈر تھے۔ جراح بن سنان الاسدی نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں ان کے خلاف شکایات بھیجیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں محمد بن مَسلمہ کی ڈیوٹی تھی کہ جو شخص کسی کی شکایت کرتا آپ اس کی تحقیق کیا کرتے تھے۔ وہ سعد کو ساتھ لے کر اہلِ کوفہ میں گھومے پھرے اور ان سے ان کے بارے میں پوچھتے تھے۔ جس کسی دوست کو بھی انہوں نے پوچھا سب نے اس کی تعریف کی سوائے ان لوگوں کے جوالجراح الاسدی کی طرف مائل ہو چکے تھے وہ خاموش رہے وہ کچھ نہ بولتے تھے اور نہ ہی وہ انہیں کوئی الزام دیتے تھے۔ (یہ جو طریقہ ہے یہ بھی سچ بولنے کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں غلط کام کی تائید کی جا رہی ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ) یہاں تک کہ محمد بن مَسلمہ، بنی عبس میں پہنچے اور ان سے پوچھا۔ اسامہ بن قتادہ نے کہا: اللہ گواہ ہے وہ نہ توبرابر تقسیم کرتا ہے اور نہ ہی فیصلہ میں عدل کرتا ہے اور نہ ہی جنگ میں لڑنے جاتا ہے۔ اس پر سعد نے کہا: اے اللہ! اگر اس نے دکھاوے، جھوٹ اور سنی سنائی بات کی ہے تو اس کی نظر اندھی کر دے اور اس کے اہل و عیال کو بڑھا دے، اسے فتنوں میں ڈال۔ پس وہ اندھا ہو گیا۔ اسکی دس بیٹیاں تھیں۔ پھر حضرت سعدؓ نے ان فتنہ پردازوں کے خلاف دعا کی۔ اے اللہ! اگر یہ لوگ شرارت، فخر کے اظہار اور دکھاوے کے لئے نکلے ہیں تو ان پر جنگ مسلط کر۔ (اس دعا کا یہ اثر ہوا کہ) انہوں نے جنگ کی اور الجراح حضرت حسن بن علیؓ کے حملے کے وقت تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوا، قبیصہ پتھروں سے کچلا گیا اور اَرْبَدْ تہ تیغ ہوا۔ (التاریخ الکامل لابن اثیر جلد 2 صفحہ391-390 حالات سنۃ ثمان عشرۃ دارالکتاب العربی بیروت 1997ء)

تو ان صحابہ کی دعاؤں کا یہ اثر ہوتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی خوشخبری دی تھی کہ صرف یہی لوگ نہیں جن پر میرے پیار کی نظر ہے جو تیرے ارد گرد روشن ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں اور دنیا کی ہدایت کا موجب بن رہے ہیں۔ جن کی دعاؤں کو مَیں تیری وجہ سے قبولیت کا درجہ دیتا ہوں اور دوں گا۔ تیرا چلایا ہوا یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ بلکہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مَیں تجھے خوشخبری دیتا ہوں۔ کہ{وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ} (الجمعۃ:4) کہ تیری اِتباع میں ایک شخص آخرین میں بھی مبعوث ہو گا، جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ لیکن وہ مبعوث ہو کر تیری پیروی کی وجہ سے ان میں بھی ایک روحانی انقلاب پیدا کر دے گا۔ وہ بھی قبولیت دعا کے خارق عادت نشانات دکھائے گا اور اس کے ماننے والے بھی دعا کی قبولیت کے خارق عادت نشانات دکھائیں گے۔

آج ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی جماعت میں ایسے بہت سے لوگ دیکھتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کے نشانات دکھا کر دوسروں کے لئے اتمام حجت یا ہدایت یا ایمان میں زیادتی کا باعث بنایا۔ ایسی چند مثالیں میں پیش کرتا ہوں۔ پہلی مثال مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کی ہے۔ کہتے ہیں، موضع دُھدرہ میں جو ہمارے گاؤں سے جانب جنوب ایک کوس کے فاصلہ پر واقع ہے، جب میں تبلیغ کے لئے جاتا تو وہاں کا مُلّاں محمد عالم لوگوں کو میری باتوں کے سننے سے روکتا اور اس فتویٰ کفر کی جو مجھ پر لگایا گیا تھا جا بجا تشہیر کرتا۔ آخر اس نے موضع مذکور کے ایک مضبوط نوجوان جیون خاں نامی کو جس کا گھرانہ جتھے کے لحاظ سے بھی گاؤں کے تمام زمینداروں پر غالب تھا میرے خلاف ایسا بھڑکایا کہ وہ میرے قتل کے درپے ہو گیا اور مجھے پیغام بھجوایا کہ اگر تم اپنی زندگی چاہتے ہو تو ہمارے گاؤں کا رخ نہ کرنا ورنہ پچھتانا پڑے گا۔ مَیں نے جب یہ پیغام سنا تو دعا کے لئے نمازمیں کھڑا ہو گیا اور خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا کی۔ تب اللہ تعالیٰ نے جیون خاں اور مُلّاں محمد عالم کے متعلق مجھے الہاماً بتایا کہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۔ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ۔ اس القائے ربانی کے بعد مجھے دوسرے دن ہی اطلاع ملی کہ جیون خاں شدید قولنج میں مبتلا ہو گیا ہے اور مُلّاں محمد عالم ایک بداخلاقی کی بنا پر مسجد کی امامت سے الگ کر دیا گیا ہے۔ پھر قولنج کے دورے کی وجہ سے جیون خاں کی حالت یہاں تک پہنچی کہ چند دنوں کے اندر وہ قوی ہیکل جوان مشت استخوان ہو کر رہ گیا۔ (ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا)۔ اور اس کے گھر والے جب ہر طرح کی چارہ جوئی کرکے اس کی زندگی سے مایوس ہو گئے تو اس نے کہا کہ میرے اندر یہ وہی کلہاڑیاں اور چھڑیاں چل رہی ہیں جن کے متعلق مَیں نے میاں غلام رسول راجیکی والوں کو پیغام دیا تھا۔ اگر تم میری زندگی چاہتے ہو تو خدا کے لئے اسے راضی کرو۔ اور میرا گناہ معاف کراؤ ورنہ میرے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ (بہرحال کہتے ہیں ) ان کے رشتہ دار میرے پاس آئے۔ اور مُلّاں نے ان کو کافی روکا تھا کہ نہ جاؤ۔ گاؤں کے نمبردار کو ساتھ لے کر آئے۔ اس نے(مولوی صاحب کے متعلق) جواب دیا کہ میاں صاحب اگرچہ ہماری برادری کے آدمی ہیں مگر ان کے گھرانے کی بزرگی کی وجہ سے آج تک ہمارا کوئی فرد اُن کی چار پائی پر بیٹھنے کی جرأت نہیں کرتا۔ مَیں تو ڈرتا ہوں کہیں اس قسم کی باتوں میں کوئی بے ادبی نہ ہو جائے۔ (بہرحال) آخر کار وہ ہمارے نمبردار کو لے کر مولوی صاحب کے والد صاحب کے پاس گئے۔ (اور کہتے ہیں کہ) میرے چچا میاں علم دین صاحب اور حافظ نظام دین صاحب کے ہمراہ میرے پاس آئے اور سروں سے سب رشتہ داروں نے پگڑیاں اتار کر میرے پاؤں پر رکھ دیں اور چیخیں مار مار کر رونے لگے کہ اب یہ پگڑیاں آپ ہمارے سر پر رکھیں گے تو ہم جائیں گے ورنہ یہ آپ کے قدموں پردھری ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر میرے والد اور چچا نے سفارش کی کہ ان کو معاف کر دو۔ آخر مَیں مان کر اپنے بزرگوں کی معیت میں ان کے ساتھ دُھدرہ پہنچا۔ جیون خاں نے جب مجھے آتا ہوا دیکھاتو میری توبہ، میری توبہ کہتے ہوئے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔ اور اتنا رویا اور چلاّیا کہ اس کی گریہ و زاری سے اس کے تمام گھر والوں نے بھی رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ اس وقت عجیب بات یہ ہوئی کہ جیون خاں جس کو علاقے کے طبیب لا علاج سمجھ کر چھوڑ گئے تھے، ہمارے پہنچتے ہی افاقہ محسوس کرنے لگا اور جب تک ہم وہاں بیٹھے رہے وہ آرام سے پڑا رہا۔ مگر جب ہم گاؤں کی طرف واپس جانے لگے تو پھر اس کے درد میں وہی اضافہ ہو گیا۔ اس کے رشتہ داروں نے پھر مجھے بلایا۔ اور کہا کہ آپ یہیں رہیں اور جب تک جیون خاں پوری طرح ٹھیک نہ ہو جائے آپ ہمارے گھر ہی تشریف رکھیں اور اپنے گاؤں نہ جائیں۔ (حضرت مولوی صاحب کہتے ہیں کہ) ادھر محمد عالم اور اس کے ہم نواؤں نے جب میری دوبارہ آمد کی خبر سنی تو جا بجا اس بات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ وہ مریض جسے علاقے کے اچھے اچھے طبیب لاعلاج بتا چکے ہیں، اب لب گور پڑا ہوا ہے، یہ مرزائی اسے کیا صحت بخشے گا۔ یہ باتیں جب میرے کانوں میں پہنچیں تو مَیں نے جوش غیرت کے ساتھ خدا کے حضور جیون خاں کی صحت کے لئے نہایت الحاح اور توجہ کے ساتھ دعا شروع کر دی۔ چنانچہ ابھی ہفتہ عشرہ بھی نہ گزرا تھا کہ جیون خاں کو خدا نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اعجازی برکتوں کی وجہ سے دوبارہ زندگی عطا فرما دی اور وہ بالکل صحت یاب ہو گیا۔ اس کرشمہ قدرت کا ظاہر ہوناتھا کہ اس گاؤں کے علاوہ گردو نواح کے لوگ حیرت زدہ ہو گئے اور جا بجا اس کا چرچا کرنے لگے کہ آخر مرزا صاحب کوئی بہت بڑی ہستی ہیں جن کے مریدوں کی دعا میں اتنا اثر پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے جلالی اور قہری ہاتھ نے مُلّاں محمد عالم کو پکڑا اور اس کی روسیاہی اور رسوائی کے بعد اسے ایسے بھیانک مرض میں مبتلا کیا کہ اس کے جسم کا آدھا طولانی حصہ بالکل سیاہ ہو گیا اور اسی مرض میں اس جہان سے کوچ کر گیا۔ (حیات قدسی حصہ اول صفحہ26تا 28)

پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ موضع جاموں بولا جو ہمارے گاؤں سے جانب شمال دو کوس کے فاصلہ پر واقع ہے وہاں کے اکثر زمیندار ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے۔ جب انہوں نے جیون خاں ساکن دُھدرہ کی بیماری اور معجزانہ صحت یابی کا حال سنا تو ان میں سے خان محمد زمیندار میرے والد صاحب کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی جان محمد عرصہ سے تپ دق کے عارضہ میں مبتلا ہے۔ آپ ازراہ نوازش میاں غلام رسول صاحب کو فرمائیں کہ وہ کسی وقت ہمارے گھر ٹھہریں اور جان محمد کے لئے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی صحت عطا فرما دے۔ چنانچہ ان کی درخواست پر والد صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا۔ مَیں وہاں چلا گیا وضو کرکے نماز میں اس کے بھائی کیلئے دعا شروع کر دی۔ سلام پھیرتے ہی مَیں نے اس سے دریافت کیا کہ اب جان محمد کی حالت کیسی ہے۔ گھر والوں نے جواب دیا کہ بخار بالکل اتر گیا ہے اور کچھ بھوک کی حالت بھی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد چند ہی دنوں کے اندر اس کے کمزور ناتواں جسم میں طاقت آ گئی اور چلنے پھرنے لگ گیا۔

آپ فرماتے ہیں کہ اس نشان کو دیکھ کر اگرچہ ان لوگوں کے اندر احمدیت کے متعلق کچھ حسن ظنی پیدا ہوئی مگر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حلقہ بیعت میں کوئی شخص نہ آیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ اس مریض کو جو صحت دی گئی ہے وہ ان لوگوں پر اتمام حجت کی غرض سے ہے اور اگر انہوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا تو یہ مریض اسی شعبان کے مہینے کی اٹھائیسویں تاریخ کی درمیانی شب قبر میں ڈالا جائے گا۔ چنانچہ مَیں نے بیدار ہوتے ہی قلم اور دوات منگوائی اور یہ الہام الٰہی کاغذ پر لکھا اور اسی گاؤں کے بعض غیر احمدیوں کو دے دیا اور تلقین کی کہ اس پیشگوئی کو تعیین موت کے عرصے سے پہلے ظاہر نہ کریں۔ اس کے بعد مَیں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں قادیان چلا آیا اور یہیں رمضان مبارک کا مہینہ گزارا۔ خداتعالیٰ کی حکمت کہ جب جان محمد بظاہر صحت یاب ہو گیا اور جابجا اس معجزہ کا چرچا ہونے لگا تو اس مرض نے دوبارہ حملہ کیا اور وہ ٹھیک شعبان کی انیسویں رات(میرا خیال ہے یہ شایدغلطی ہے۔ اٹھائیس یا انیسویں جو بھی رات تھی۔ یا وہاں غلط ہے یا یہاں غلط ہے) اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اور اس کے مرنے کے بعد جب ان غیر احمدیوں نے میری تحریر لوگوں کے سامنے رکھی تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ مگر افسوس ہے کہ پھر بھی ان لوگوں نے احمدیت کو قبول نہ کیا۔ (حیات قدسی حصہ اول صفحہ28تا 30)

نشان دیکھتے ہیں پھر بھی اثر نہیں ہوتا۔

حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحبؓ جو سکھ خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور پھرحق کی تلاش کرتے ہوئے احمدی ہو گئے۔ احمدی ہونے کے بعد ان کو تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا۔ گو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے لیکن سردار عبدالرحمن صاحب کو تبلیغ کی طرف غیر معمولی توجہ تھی۔ اس کی ایک وجہ تھی۔ اس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ آپ کی بقیہ عمر کی مدت کتنی رہ گئی ہے۔ جب یہ مدت پوری ہونے کے قریب آئی تو ماسٹر صاحب نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی، بڑے روئے، گڑ گڑائے کہ یا الٰہی ابھی تو میرے بچوں کی تعلیم و تربیت مکمل نہیں ہوئی۔ بہت سی ذمہ داریاں میرے سر پر ہیں، میرے سپرد ہیں، میر ی عمر میں اضافہ فرمایا جائے۔ کہتے ہیں کہ ابھی دو منٹ ہی دعا میں گزرے ہوں گے کہ آپ کو الہام ہوا۔ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْا َرْضِ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی عمرمیں اضافہ کر دیا کرتا ہے جو لوگوں کے لئے نافع وجود بن جائیں۔ اس پر آپ نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کو تبلیغ احمدیت بہت پسند ہے اس لئے آپ نے تبلیغی اشتہارات شائع کئے اور روزانہ تبلیغ کرنے لگے اور پہلی بار جو مدت بتائی گئی تھی اس سے کئی سال زیادہ گزر گئے۔ (اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ131جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا یہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس پر ہر احمدی کوبھی توجہ کرنی چاہئے۔

اپنی قبولیت دعا کے ضمن میں وہ ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ 1908ء میں جب میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھا تو میرے ساتھ ہندو، مسلمان اور چار پانچ عیسائی بھی تھے۔ ایس پی کلاس میں ٹریننگ حاصل کرتے تھے۔ ان میں ایک پٹھان لڑکا یوسف جمال الدین اور ایک مشن سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا، پھر عیسائی ہو گیا تھا۔ تو ان عیسائیوں نے مجھے عصرانہ پر بلایا (چائے کی دعوت پر بلایا) اور کہا کہ آپ نے اچھا کیا کہ سکھوں کا مذہب ترک کرکے اسلام اختیار کیا۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھائیں اور عیسائی بن جائیں۔ ٹرینڈ ہو کر مسلمان آپ کو کیا تنخواہ دیں گے۔ ہم تو یہاں سے فارغ ہوتے ہی تین تین سو (روپے) پر متعین ہو جائیں گے۔ مسلمانوں سے آپ کو چالیس پچاس روپے ملیں گے، زیادہ سے زیادہ سور وپیہ مل جائے گا۔ تو مَیں نے انہیں کہا کہ مَیں زندہ خدا کا شائق ہوں۔ اگر تم زندہ خدا سے میرا تعلق جوڑ دو تو میں عیسائی ہو جاتا ہوں۔ یوسف جمال الدین نے پوچھا زندہ خدا سے کیا مراد ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا انجیل میں لکھا ہے کہ ’’دروازہ کھٹکھٹاؤ تو کھولا جائے گا‘‘ ’’ڈھونڈو تو خدا کو پاؤ گے‘‘۔ اور قرآن کریم میں بھی لکھا ہے کہ بحالت اضطرار دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے۔ اگر یہ نعمت عیسائیت میں دکھا دو تو مَیں عیسائی ہو جاؤں گا۔ تو کہنے لگے کہ ویدوں میں اور انجیل میں اور قرآن کے بعد وحی الہام کا سلسلہ تو بند ہو گیا ہے، اب الہام نہیں ہو سکتا۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سنتا اور دیکھتا تو ہے لیکن بولتا نہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا کہ جو ذات سنتی اور دیکھتی ہے وہ بول بھی سکتی ہے۔ مَیں نے کہا ابھی مجھے اس مجلس میں الہام ہو گیا ہے۔ (وہاں بیٹھے بیٹھے ہی ماسٹر عبدالرحمن صاحب کو الہام ہو گیاکہ ’’پہلے سوال بتا دیا جائے گا‘‘۔ تو طلباء نے کہا کہ ہم نے تو نہیں سنا۔ اس پر یہ کہتے ہیں کہ مَیں نے انہیں کہا کہ تمہارا خون خراب ہو گیا ہے۔ اسے قادیان سے درست کر الو تو تم کو بھی الہام کی آواز سنائی دے گی۔ کہتے ہیں کہ دوسرے تیسرے دن میں لیٹا تھا۔ تکیہ پر سر رکھتے ہی کشفی حالت طاری ہو گئی اور مجھے ریاضی کا(حساب کا) پرچہ سامنے دکھایا گیا۔ لیکن کہتے ہیں مجھے پہلا سوال ہی یا درہا۔ امتحانوں میں وہ سوا ل جو مَیں نے لڑکوں کو بتا دیا تھا وہ آگیا۔ یہ دیکھ کر باقی جہاں حیرت میں ڈوب گئے، ایک شخص عبدالحمیدجو ایم اے تھے اور کسی جگہ کے ہیڈ ماسٹر۔ ٹریننگ کے لئے آئے ہوئے تھے، اور دہریہ تھے، اُن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ یہ بات سن کے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل ہو گئے۔ کسی نے کہا یہ اتفاق ہوا ہے۔ آخر بحث چلتی رہی۔ پھر سب نے کہا کوئی اور امر غیب دکھاؤ۔ اس پر مَیں نے کہا اچھا میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ قادر ہے کوئی اور غیب دکھا دے۔ کہتے ہیں کہ انہیں دنوں میں مجھے الہام ہوا ’’بچہ ہے بچہ ہے، بچی نہیں ہے‘‘۔ یہ کہتے ہیں کہ ان دنوں میرے گھر میں ولادت ہونے والی تھی تو ان لڑکوں نے جو عیسائی ہندو وغیرہ دوسرے غیر احمدی تھے انہوں نے صوفی غلام محمد صاحب کے ذریعہ جو وہاں پڑھتے تھے، ان کی بیوی سے قادیان سے میرے گھر کے حالات پتہ کروائے تو پتہ چلا کہ میرے گھر میں ولادت ہونے والی ہے۔ چنانچہ دو تین ماہ بعد ان کی بیوی کا خط آیا کہ سردار عبدالرحمن صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے ان سب کی دعوت کی اور انہیں کہا کہ اگر تم گرجے یا مندر یا ٹھا کر دوارے میں جا کر پوجا پاٹ کرتے رہو اور وہاں سے کوئی جواب نہ آئے تو سمجھو کہ خدا کی عبادت نہیں کر رہے بلکہ مصنوعی خدا کی خود ساختہ تصویر ہے جس کی عبادت کرتے ہو۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے انہیں کہا کہ اب میری قبولیت دعا کی وجہ سے جو مَیں نے پیشگوئیاں کی تھیں ان کی تحریری شہادت دے دو۔ یوسف خاں اور پیٹر جی ایک عیسائی تھے وہ بہانے بناتے رہے۔ تو اس پر مَیں نے ان کو کہا کہ اگر گواہی لکھ دو تو پاس ہو جاؤ گے ورنہ فیل ہو جاؤ گے۔ چنانچہ نتیجہ نکلا تو سارے لڑکے پاس تھے اور وہ دونوں فیل تھے۔ (اصحاب احمد جلد7صفحہ73تا75جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

حضرت ماسٹر عبدالرحمن ؓ صاحب کی قبولیت دعا کے بارے میں مولوی عبدالرحیم صاحب عارف مبلغ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہماری جماعت میں ماسٹر صاحب پڑھا رہے تھے تو ایک خط آنے پر بڑے فکر مند ہو گئے اور ٹہلنے لگے۔ پھر ایک کھڑکی کی طرف منہ کرکے دعا کرنے لگے۔ تو میرے دریافت کرنے پر فرمایا کہ پھر بتاؤں گا۔ ایک مشکل میں پڑ گیا ہوں تم بھی دعا کرو۔ چنانچہ چند گھنٹے کے بعد آپ نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا۔ ڈاکیا ایک منی آرڈر لایا ہوا تھا۔ فرمایا کہ عزیز بشیر احمد کا مونگ رسول سے خط آیا ہے (سردار بشیر احمدان کے بیٹے تھے جو مونگ میں پڑھتے تھے) کہ آپ نے خرچ نہیں بھیجا مجھے تکلیف ہے۔ اور ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے کہیں سے روپیہ کی امید نہیں تھی۔ مَیں نے دعا کی تھی کہ اے اللہ تو رازق ہے بچہ پردیس میں ہے۔ میرے پاس رقم نہیں، تیرے پاس بے انتہا خزانے ہیں توُ کوئی سامان کر دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ سامان کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد ان کے پیسوں کا انتظام ہو گیا۔ (اصحاب احمد۔ جلد 7صفحہ75جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

قبولیت دعا کے ضمن میں حضرت مولا نا شیر علی ؓ صاحب کی دعا سے امتحان میں کامیابی کا بھی ایک عجیب ذکر ملتا ہے۔ حافظ عبدالرحمن صاحب بٹالوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولو ی شیر علی ؓ صاحب کا معمول تھا کہ یونیورسٹی کے امتحانات جب شروع ہوتے تو حضرت مولوی صاحب بلاناغہ روزانہ تشریف لاتے اور لڑکوں کی معیت میں نہایت الحاح سے دعافرماتے۔ پھر تمام لڑکے ہال میں داخل ہو جاتے۔ ایک د فعہ مولوی صاحب دعا کرکے آ رہے تھے کہ ہائی سکول کی بورڈنگ کے قریب ملے۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور میری بچی نے ایف اے میں فلاسفی کا امتحان دینا ہے اس کے لئے دعا کریں۔ تو شفقت کا پیکر بغیر کوئی جواب دئیے میرے ساتھ ہو لیا اور دوبارہ ہائی سکول کے برآمدے میں پہنچ کر میری بچی کے لئے لمبی دعا کروائی۔ اور آپ پرخاص رقّت کی کیفیت تھی دعا کے بعد فرمایا آپ کی بچی کامیاب ہو گئی ہے۔ چنانچہ وہ فلاسفی میں ضلع گورداسپور بھر میں فرسٹ آئی۔ (سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ صفحہ234)

یہ عجیب واقعہ ہے جو عبدالمجید صاحب سیال بی اے ایل ایل بی بیان کرتے ہیں کہ 1943ء کا ذکر ہے کہ مجھے میٹرک کے امتحان میں شریک ہونا تھا لیکن پانچ چھ ماہ کا طویل عرصہ بے مصرف گزر جانے کے باعث میری ہمت جواب دے رہی تھی۔ مَیں عجیب قسم کی ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا۔ ان دنوں میری رہائش بیت الظفر (کوٹھی چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب) میں تھی اور حضرت مولوی صاحب گیسٹ ہاؤس میں ترجمۃ القرآن کا کام کرتے تھے (مولوی صاحب نے قرآن مجید کاانگریزی میں ترجمہ کیا ہے)۔ حضرت مولوی صاحب کے ساتھ قرابت مہربانی اور تَلَطُّف کے تعلقِ خاص کی وجہ سے ان کو میرے حالات کا خوب علم تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ میں میٹرک کے امتحان میں ضرور شریک ہوں۔ چنانچہ آپ کے ہمت دلانے پر مَیں نے لیٹ فیس کے ساتھ داخلہ بھیج دیا۔ آپ نے مجھے تاکید فرمائی کہ جب پہلا پرچہ ہو جائے تو مجھے بتانا کہ کیسا ہوا ہے۔ مَیں انشاء اللہ دعا کروں گا تم بغیر کسی فکر کے دل جمعی کے ساتھ امتحان دیتے جاؤ۔ جب مَیں انگلش کا پرچہ دے کر آیا۔ تو نہایت مایوسی کے لہجے میں حضرت مولوی صاحب سے ذکر کیا کہ صرف دو چار نمبر کا پرچہ کر سکا ہوں۔ آپ اس وقت اپنے گھر کے چبوترے پرتشریف فرما تھے۔ میری کارگزاری سن کر مسکرائے اور فرمایا مَیں نے تمہارے لئے خاص دعا کی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مجید کو کہو کہ پرچوں پر رول نمبرتو لکھ آئے باقی ذمہ داری ہم لے لیں گے۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ جب تک نتیجہ نہ نکلے اس بات کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ میرے تمام پرچے نہایت خراب ہوئے تھے جن میں سے کسی ایک میں بھی کامیابی کی امید نہ تھی۔ لیکن میری حیرانی کی حد نہ رہی جب میٹرک کا نتیجہ نکلا تو مَیں 444نمبر لے کر سیکنڈ ڈویژن میں کامیاب ہو گیا۔ (سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ صفحہ254-253)

حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ ہی فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو مجھ پر ابتداء میں حسن ظن تھا۔ بلکہ قبولیت دعا کے واقعات دیکھ کر ان کی اہلیہ صاحبہ جو شیعہ مذہب رکھتی تھیں ان کو بھی حسن ظن ہو گیا تھا اور اکثر دعا کے لئے کہتی تھیں۔ ایک دفعہ ان کا چھوٹا لڑکا بشیر حسین بعمر چھ سات سال سخت بیمار ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی توجہ سے اس کا علاج کرتے تھے اور دوسرے ماہر طبیبوں سے بھی اس کے علاج کا مشورہ کرتے تھے۔ لیکن بچے کی بیماری دن بدن بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک دن اس کی حالت اس قدر نازک ہو گئی کہ ڈاکٹر صاحب اس کی صحت سے بالکل مایوس ہو گئے۔ اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کا وقت نزع آ چکا ہے گورکنوں کو قبر کھودنے کے لئے کہنے کے واسطے اور دوسرے انتظامات کے لئے باہر چلے گئے۔ اس نازک حالت میں ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے بڑے عجز و انکسار سے اور چشم اشکبار سے (روتے ہوئے) مجھے بچہ کے لئے دعا کے واسطے کہا۔ مَیں ان کے الحاح اور عاجزی سے بہت متاثر ہوا۔ اور مَیں نے یہ پوچھا کہ رونے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض رشتہ دار عورتیں اندر بشیر کی مایوس کن حالت کے پیش نظر اظہار غم و الم کر رہی ہیں۔ مَیں نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ سب بشیر کی چارپائی کے پاس سے دوسرے کمرے میں چلی جائیں اور بجائے رونے کے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا میں لگ جائیں اور بشیر حسین کی چارپائی کے پاس جائے نماز بچھا دی جائے تا مَیں دعا میں اور نماز میں مشغول ہو جاؤں تو بشیر حسین کی والدہ نے اس کی تعمیل کی۔ کہتے ہیں کہ مجھے اس وقت سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا بیان فرمودہ قبولیت دعا کا گریاد آ گیا اور کمرے سے باہر نکل کر کیلیانوالی سڑک کے کنارے جا کھڑا ہوا۔ اور ضعیف اور بوڑھی غریب عورت کو جو وہاں سے گزر رہی تھی آواز دے کر بلایا۔ اس کی جھولی میں روپیہ ڈالتے ہوئے اسے صدقہ کو قبول کرنے اور مریض کے لئے جن کے واسطے صدقہ دیا تھا دعا کرنے کے لئے درخواست کی۔ اس کے بعد مَیں فوراً مریض کے کمرے میں واپس آ کرنماز و دعا میں مشغول ہو گیا۔ اور سورہ فاتحہ کے لفظ لفظ کو خداتعالیٰ کی خاص توفیق سے حصولِ شفا کے لئے رِقّت اور تضرع سے پڑھا۔ اس وقت میری آنکھیں اَشکبار اور دل رقت اور جوش سے بھرا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ ہی مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمانہ کا جلوہ ضرور دکھائے گا۔ کہتے ہیں کہ پہلی رکعت میں مَیں نے سورہ یٰسین پڑھی اور رکوع و سجود میں بھی دعا کرتا رہا۔ جب میں ابھی سجدے میں ہی تھا کہ بشیر حسین چار پائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میرے شاہ جی کہاں ہیں ؟۔ میری ماں کہاں ہے؟مَیں نے اس کی آواز سے سمجھ لیا کہ دعا کا تیر نشانے پر لگ چکا ہے۔ اور باقی نماز اختصار سے پڑھ کر سلام پھیرا۔ مَیں نے بشیر حسین سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ اس نے کہا مَیں نے پانی پینا ہے۔ اتنے میں بشیر کی والدہ آئیں اور مجھے باہر سے ہی کہنے لگیں کہ مولوی صاحب آپ کس سے باتیں کر رہے تھے۔ مَیں نے کہا کہ اندر آئیں۔ اور جب وہ پرد ہ کرکے کمرے میں آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ عزیز بشیر چارپائی پر بیٹھا ہے۔ اور پانی مانگ رہا ہے۔ تب انہوں نے اللہ کا بہت شکر کیا اور بچے کو پانی پلایا۔ (حیات قدسی جلد پنجم صفحہ32-31)

حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کے بارے میں بابا اِندر صاحب جو ان کے ملازم تھے وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ شاہ صاحب گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے دائیں کلائی ٹوٹ جانے کی وجہ سے بیمار تھے۔ کورٹ سے بار بار سمن آتے تھے۔ (کسی گواہی کے لئے آتے ہوں گے) ڈپٹی کیشوداس کی عدالت میں مقدمہ تھا شہادت کے لئے حاضر ہونا تھا۔ تو مجسٹریٹ نے یہ سمجھ کر کہ آپ عمداً حاضری سے گریز کر رہے ہیں۔ سول سرجن سیالکوٹ کی معرفت حاضری کا حکم نامہ بھجوایا اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ سول سرجن کے تاکیدی حکم پر آپ کو مجبوراً حاضر ہونا پڑا۔ عدالت سے باہر مجسٹریٹ پا س سے گزرا۔ (آپ کھڑے تھے وہ قریب سے گزرا) اس کی ہیئت سے غصہ ظاہر ہوتا تھا (اس کی حالت سے غصہ ظاہر ہو رہا تھا) آپ نے مجھے کہا کہ ڈپٹی صاحب خفا معلوم ہوتے ہیں۔ خوف ہے کہ مجھ پر ناپسندیدہ جرح کرکے میری خفّت نہ کریں (یعنی وہ بلاوجہ مجھے طنزیہ فقروں سے شرمندہ کرنے کی کوشش نہ کرے)۔ اس لئے وضو کے لئے پانی لاؤ تا کہ عدالت کی طرف سے آواز پڑنے سے پہلے مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر لوں۔ چنانچہ آپ نے نہایت خشوع و خضوع سے نفل ادا کئے۔ آپ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو مجسٹریٹ نے اپنا سر پکڑ لیا اور ریڈر کو کہا میرے سرمیں شدید درد شروع ہو گیا ہے۔ مَیں پچھلے کمرے میں آرام کرتا ہوں تم ڈاکٹر صاحب کی شہادت قلمبند کر لو۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر ریڈر دستخط کرانے گیا تو مجسٹریٹ نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے خرچے کا کاغذ بھی تیا ر کر لو اور کمرہ عدالت میں آکر دونوں پر دستخط کر دئیے۔ اور خرچہ دلا کر جانے کی اجازت دے دی۔ باہر آ کر ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا :اِندر! دیکھا اسلام کا خدا، اس کی نصرت اور معجزات کیا عجیب شان رکھتے ہیں۔ (تابعین احمد جلد سوم بار سوم صفحہ16-15)

ڈاکٹر صاحبؓ کے بارے میں ہی ایک اور روایت ہے۔ یہ انہی بابا اِندر کی ہے کہ آپ اکثر دعا کرتے کہ میرا بیٹا ڈاکٹر حبیب اللہ شاہ انڈین میڈیکل سروس میں آ جائے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ایسی ترقی کے لئے ولایت میں تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ ہمارا خدا ہر چیزپر قادر ہے۔ سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے جنگ عظیم دوئم میں خدمات سرانجام دینے کی درخواست دے دی اور ان کو ملازمت میں لے لیا گیا۔ جب آپ والد صاحب کی ملاقات کے لئے آئے۔ تو پوچھنے پر بتایا کہ کندھوں پر کراؤن، آئی ایم ایس ہو جانے کی وجہ سے ہیں۔ تو آپ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ دیکھو! میرے بیٹے کو میرے خدا نے آئی ایم ایس کر دیا اور میری دعا قبول کر لی۔ (تابعین احمد جلد سوم بار سوم صفحہ16)

ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ دوا کے ساتھ دعا بھی کرتے ہیں۔ حکیم محمد امین صاحب نے لکھا ہے کہ ایک احمدی لڑکی کی تدفین کے موقع پر ایک غیر احمدی معمر دوست ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کو بہت دعائیں دینے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ آس پاس کی احمدی جماعتوں کے قیام میں ڈاکٹر صاحب کی کوششوں کا اہم حصہ ہے۔ آپ بہت بزرگ اور تہجد گزار تھے۔ ہر جمعہ کے روز آپ ایک قربانی کرکے تقسیم کرتے تھے۔ مریض دُور دُور سے علاج کے لئے آتے تھے کیونکہ مشہور تھا کہ آپ دوا کے ساتھ جو دعا کرتے ہیں اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے۔ (تابعین احمد جلد سوم بار سوم صفحہ15)

آج بھی یہی نمونہ ہمارے احمدی ڈاکٹر دکھاتے ہیں اور دکھانا بھی چاہئے کیونکہ شافی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لئے اس شافی خدا سے ہمیشہ چمٹے رہنا چاہئے۔

حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :فیضان ایزدی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام کی بیعت راشدہ کے طفیل اور تبلیغ احمدیت کی برکت سے میرے اندر ایک ایسی روحانی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ بعض اوقات جو کلمہ بھی مَیں منہ سے نکالتا تھا اور مریضوں اور حاجتمندوں کے لئے دعا کرتا تھا مولا کریم اسی وقت میرے معروضات کو شرف قبولیت بخش کر لوگوں کی مشکل کشائی فرما دیتا تھا۔ چنانچہ ایک موقع پر جب مَیں موضع سعداللہ پور گیا۔ تو مَیں نے چوہدری اللہ داد صاحب کو، جو چوہدری عبداللہ خاں صاحب نمبردار کے برادر زادہ تھے اور ابھی احمدیت سے مشرف نہ ہوئے تھے، مسجد کی دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ بے طرح دمہ کے شدید دورہ میں مبتلا تھے اور سخت تکلیف کی وجہ سے نڈھال ہو رہے تھے۔ مَیں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے 25سال سے پرانا دمہ ہے جس کی وجہ سے زندگی دُوبھر ہو گئی ہے۔ مَیں نے علاج معالجہ کی نسبت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دُور دُور کے قابل طبیبوں اور ڈاکٹروں سے علاج کروا چکا ہوں مگر انہوں نے اس بیماری کو موروثی اور مزمن ہونے کی وجہ سے لاعلاج قرار دے دیا ہے۔ اسی لئے اب میں اس کے علاج سے مایوس ہو چکاہوں۔ مَیں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی بیماری کو لِکُلِّ دَآئٍ دَوَائٌ کے فرمان سے لاعلاج قرار نہیں دیا۔ آپ اسے لاعلاج سمجھ کر مایوس کیوں ہوتے ہیں ؟۔ کہنے لگے اب مایوسی کے سوا اور کیا چارہ ہے۔ مَیں نے کہا ہمارا خدا تو {فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد} ہے اس نے فرمایا ہے کہ{لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ۔ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّاالْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ} یعنی یاس اور کفر تو اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن ایمان اور یاس اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ اس لئے آپ ناامید نہ ہوں اور ابھی پیالے میں تھوڑا سا پانی منگوائیں۔ مَیں آپ کو دم کر دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسی وقت پانی منگوایا اور مَیں نے اللہ تعالیٰ کی صفت شافی سے استفادہ کرتے ہوئے اتنی توجہ سے اس پانی پر دم کیا کہ مجھے خداتعالیٰ کی اس صفت کے فیوض سورج کی کرنوں کی طرح اس پانی میں برستے ہوئے نظر آئے۔ اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ پانی افضال ایزدی اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی برکت سے مجسم شفا بن چکا ہے۔ چنانچہ جب مَیں نے یہ پانی چوہدری اللہ داد صاحب کو پلایا تو آن کی آن میں دمہ کادورہ رُک گیا۔ اور پھر اس کے بعدکبھی انہیں یہ عارضہ نہیں ہوا۔ حالانکہ اس واقعہ کے بعد چوہدری صاحب قریباً 16-15سال تک زندہ رہے۔ اور اس قسم کے نشانات سے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو احمدیت بھی نصیب فرمائی اور آپ خدا کے فضل سے مخلص اور احمدی مبلغ بن گئے۔ (حیات قدسی حصہ اول صفحہ49تا 51)

مولوی عبدالقادر صاحب، مولوی محب الرحمن صاحب کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آخری عمر میں آپ بہت بیمار ہوئے۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ پھیپھڑے بالکل گل چکے ہیں۔ چند یوم کے مہمان ہیں۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا۔ ایک دن خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا ہے۔ اس نے آپ کا سینہ چاک کیا۔ پھیپھڑ ے نکال کر دکھائے جو بالکل گل سڑ چکے تھے۔ پھر ان کو پھینک دیا اور ان کی بجائے صحیح و سالم پھیپھڑے رکھ دئیے۔ اس رؤیا کے بعد آپ تندرست ہو گئے۔ اور کئی سال عمر پائی۔ اور طبعی موت سے وفات پائی۔ (تاریخ احمدیت لاہور۔ صفحہ158)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا واقعہ ہے کہ 1909ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ قادیان میں لگاتار آٹھ روز بارش ہوتی رہی۔ جس سے قادیان کے بہت سے مکانات گر گئے۔ حضرت نواب محمدعلی خان صاحب مرحوم نے یہاں سے باہر ایک نئی کوٹھی تعمیر کی تھی وہ بھی گر گئی۔ آٹھویں یا نویں دن حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ مَیں دعا کرتا ہوں آپ سب لوگ آمین کہیں۔ دعا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں نے آج وہ دعا کی ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی۔ یہ دعا بارش کے بند ہونے کی تھی۔ دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہور ہی تھی۔ اور اس کے بعد بار ش بند ہو گئی اور عصر کی نمازکے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ (اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ 71طبع اول1960ء مطبوعہ ربوہ)

ان بزرگوں کی قبولیت دعا کے بے شمار واقعات ہیں اور یہ سلسلہ آج تک اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا ہوا ہے۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں، ہمارے مبلغین بھی میدان عمل میں دیکھتے ہیں اور دوسرے خدام سلسلہ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے یہ سلوک روا رکھا ہوا ہے کہ ان کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ احمدیوں کو قبولیت دعا کے نشانات دکھاتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ بھی چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ایسے لوگ عطا فرماتا رہا ہے اور فرما رہا ہے جو ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا باعث بنتے رہے ہیں اور بن رہے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک نظارہ جماعت کے ایسے برگزیدہ لوگوں کے بارے میں دکھایا تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے دیکھا کہ رات کے وقت میں ایک جگہ بیٹھا ہوں (رات کا وقت ہے میں ایک جگہ بیٹھا ہوں ) اور ایک اور شخص میرے پاس ہے۔ تب مَیں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا بہت سارے ستارے آسمان پر ایک جگہ جمع ہیں۔ تب مَیں نے ان ستاروں کو دیکھ کر اور انہی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ ’’آسمانی بادشاہت‘‘ پھر معلوم ہوا کہ کوئی شخص دروازے پر ہے اور کھٹکھٹاتا ہے۔ جب مَیں نے کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک سودائی ہے جس کا نام میراں بخش ہے۔ اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اندر آ گیا۔ اس کے ساتھ بھی ایک شخص ہے مگر اس نے مصافحہ نہیں کیا اور نہ وہ اندر آیا۔ اس کی تعبیر مَیں نے یہ کی کہ آسمانی باشاہت سے مراد سلسلے کے برگزیدہ لوگ ہیں۔ جن کو خدا زمین پر پھیلا وے گا۔ اور اس دیوانے سے مراد کوئی متکبر مغرور متمول یا تعصب کی وجہ سے کوئی دیوانہ ہے خدا اس کو توفیق بیعت دے گا۔ اور پھر الہام ہوا لَا تَخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا گویا میں کسی دوسرے کو تسلّی دیتا ہوں کہ تو مت ڈر بے شک خدا ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ (بدر جلد 2نمبر45مورخہ8؍نومبر 1906ء صفحہ3۔ الحکم جلد 10نمبر38مورخہ 10؍ نومبر 1906ء صفحہ1)

پس آج روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہر احمدی کو دعاؤں کے ذریعہ سے، اپنی عبادتوں کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑ کر ان برگزیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جو روشن ستاروں کی طرح آسمان پر چمک رہے ہیں۔ جنہوں نے پہلوں سے مل کر دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بننا ہے اور آسمانی بادشاہت کو پھر سے دنیا میں قائم کرنا ہے۔ ہر دل کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکانے کی کوشش کرنی ہے۔ ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’پیر بنو۔ پیر پرست نہ بنو‘‘ اور ’’ولی بنو۔ ولی پرست نہ بنو۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خاتم الاولیاء اور خاتم الخلفاء کی پیروی کرتے ہوئے اپنی عبادتوں کو سنوارتے ہوئے، قبولیت دعا کے نظارے دیکھتے چلے جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے۔ کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقعہ بہرحال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں خاص تاثیر ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ182جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر آپؑ فرماتے ہیں :ساری عقدہ کشائیاں دعا کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں بھی اگر کسی کی خیر خواہی ہے تو کیاہے۔ صرف ایک دعا کا آلہ ہی ہے جو خدا نے ہمیں دیا ہے۔ کیا دوست کے لئے اور کیا دشمن کے لئے۔ ہم سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے بس میں ایک ذرہ بھر بھی نہیں ہے مگر جو خدا ہمیں اپنے فضل سے عطا کر دے۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ132جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری مدد فرماتا رہے اور ہم ان نصیحتوں پر عمل کرنے والے ہوں۔ ایک بات مَیں کہنی چاہتا ہوں۔ گزشتہ جمعہ میں نے دعا کی غرض سے بزرگوں کا ذکر کیا تھا۔ جومَیں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ضروری ہے۔ صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ کے ذکر میں مَیں نے ان کی دوسری باتیں بتائی تھیں لیکن کسی جماعتی خدمت یا علمی خدمت کا ذکر نہیں کیا تھا۔ لجنہ کا کام تو خیر آپ کرتی رہی ہیں اور بڑا لمبا عرصہ کیا ہے۔ لیکن جو سب سے زیادہ اہم کام ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خاوند حضرت میر داؤد احمد صاحب کے ساتھ مل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں سے مختلف عنوانات کے تحت حوالے نکالے اور انہیں یکجا کیا ہے جو کہ ’’مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے‘‘ چھپی ہوئی کتاب ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا۔ اور ان دنوں میں مَیں خود بھی ان کو دیکھتا رہا ہوں۔ مَیں نے نوٹ میں رکھا بھی تھالیکن کسی وجہ سے رہ گیا۔ بہرحال مَیں جب بھی ان کے گھر جاتا تھا دونوں میاں بیوی بیٹھے ہوئے حوالوں کو دیکھ رہے ہوتے تھے یا پروف ریڈنگ کررہے ہوتے تھے او ربڑا لمبا عرصہ انہوں نے یہ کام کیا ہے۔ گھنٹوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب یہ ایسا کام ہے جس سے کافی حد تک کسی بھی موضوع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فوری حوالہ بھی مل جاتا ہے۔ اور جہاں یہ چیز ہوتی ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کی طرف بھی توجہ ہو جاتی ہے۔ میر داؤد احمد صاحب نے جو پیش لفظ لکھا ہے اس میں صاحبزادی امتہ الباسط بیگم صاحبہ کے بارے میں یہ ذکر بھی کیا ہے کہ ’’میرا دل اپنی رفیقۂ حیات کے لئے ممنونیت کے جذبات سے لبریز ہے جنہوں نے اقتباسات کی تلاش، نقل، تصحیح اور پھرکاپی پڑھنے میں مسلسل بڑے حوصلے اور محنت سے میرا ہاتھ بٹایا۔ ‘‘ (حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی تحریروں کی رو سے، جلد اول، پیش لفظ، نظارت اشاعت ربوہ)

تو اللہ تعالیٰ ان دونوں پر اپنے پیار کی نظر رکھے۔ انہوں نے یہ بہت اہم کام کیا ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی فرمایا تھا کہ اس کا ترجمہ کریں جو کہ پھر انہوں نے Essence of Islamکے نام سے انگریزی میں کیا۔ دو جلدیں ان کی زندگی میں شائع ہو گئیں اور دو بعد میں چھپی ہیں اور مزید ابھی چھپنی ہیں کیونکہ ابھی بھی جو حوالے ان دونوں میاں بیوی نے اکٹھے کئے تھے انگریزی ٹرانسلیشن میں تمام عناوین کو ابھی تک Cover نہیں کیا جاسکا۔ چار جلدوں کے باوجود یہ بہت بڑا کام تھا کیونکہ اس سے لوگوں کو شوق پیدا ہو رہا ہے۔ یہاں ایک انگریز احمدی خاتون نے مجھے کہا کہ براہین احمدیہ کا ترجمہ کب ہو رہا ہے۔ کیونکہ مَیں نے کچھ حوالے اس کے پڑھے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ اب پوری کتاب پڑھی جائے۔ تو یہ جو حوالوں کے ترجمے ہیں یہ لوگوں میں اصل کتابوں کے پڑھنے کا بھی شوق پیدا کرتے ہیں۔ تو مَیں نے سوچا کہ اس لحاظ سے بھی ان کا کام بیان کر دوں تاکہ لوگ ان کو اس لحاظ سے بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 8؍ ستمبر 2006ء شہ سرخیاں

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور صحابہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی قبولیت ِدعاکے نہایت ایمان افروز واقعات کا روح پرور بیان۔

    آج روئے زمین پرپھیلے ہوئے ہراحمدی کودعاؤں کے ذریعہ سے، اپنی عبادتوں کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑ کر ان برگزیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے، جو روشن ستاروں کی طرح آسمان پر چمک رہے ہیں۔

    فرمودہ مؤرخہ 08؍ستمبر 2006ء (08؍تبوک 1385ہجری شمسی)مسجد بیت الفتوح، لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور