دعا کی فلاسفی اور مختلف قرآنی دعاؤں کا تذکرہ
خطبہ جمعہ 22؍ ستمبر 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے جس کا اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ اس سے ہر ضرورت کے وقت مانگے اور اس کے لئے دعا کرے، حتی کہ جوتی کا تسمہ بھی مانگنا ہے تو خدا سے مانگے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین رہے، یہ احساس رہے کہ ہر بڑی سے بڑی چیز بھی اور ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اگر کوئی دینے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے فضل کے بغیر ہمیں کچھ نہیں مل سکتا۔ برائیوں سے بچنا ہے تو اس سے دعا مانگو کہ اے اللہ! مجھے برائیوں سے بچا۔ نیکیاں بجا لانی ہیں تو اس کے آگے جھکتے ہوئے، اس سے توفیق مانگتے ہوئے نیکیاں بجالانے کی توفیق حاصل کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ ہم نیکیاں بجا لا سکتے ہیں، نہ برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہ ہم جہنم کی آگ سے بچ سکتے ہیں، نہ اس کے فضل کے بغیر ہم دنیا و آخرت کی جنت کے نظارے دیکھ سکتے ہیں۔ پس جب سب کچھ اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ملنا ہے تو کس قدر ضروری ہے کہ ہم ہر معاملے میں خدا کو یاد رکھتے ہوئے اس سے مانگیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے{قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَآؤُکُمْ} (الفرقان :78) کہ توُکہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا ربّ تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ خد اکے قانون میں یہی انتظام مقرر ہے کہ رحمت خاصہ انہیں کے شامل حال ہوتی ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت انہیں کے شامل حال ہوتی ہے، انہیں کو ملتی ہے’’کہ جو رحمت کے طریق کو یعنی دعااور توحید کو اختیار کرتے ہیں۔ اس باعث سے جو لوگ اس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتا ر ہو جاتے ہیں ……خد اکو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں وہ تو بے نیاز مطلق ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ ہرچہار حصص۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ564-563 بقیہ حاشیہ نمبر11)
پھر اس بارے میں فرمایا کہ’’ان کو کہہ دے کہ اگر تم نیک چلن انسان نہ بن جاؤ۔ اور اس کی یاد میں مشغول نہ رہو تو میرا خدا تمہاری زندگی کی پرواہ کیا رکھتا ہے‘‘۔ (تفسیر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام جلد نمبر3صفحہ545)
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’ مومن شخص کا کام ہے کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد اصلی معلوم کرے اور پھر اس کے مطابق کام کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُکُمْ (الفرقان: 78) خداکو تمہاری پرواہ ہی کیا ہے اگر تم اس کی عبادت نہ کرو اور اس سے دعائیں نہ مانگو‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہ آیت بھی اصل میں پہلی آیت وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذَّاریات: 57) کی شرح ہے‘‘۔ (الحکم جلد 7 نمبر 14۔ 31؍مارچ 1903ء صفحہ6۔ ملفوظات جلد سوم صفحہ185جدید ایڈیشن)
یعنی{قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَآؤُکُمْ} کی جو آیت ہے اس میں اس کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ یعنی اس میں اس حکم کی مزید وضاحت آ گئی کہ انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت کرنا ہے۔
فرمایا ’’خدا تعالیٰ دین سے غافلوں کو ہلاکت میں ڈالنے سے پرواہ نہیں کرتا۔ پس ثابت ہوا کہ جو دین سے غافل نہ ہوں ان کی ہلاکت اور موت میں خداتعالیٰ جلدی نہیں کرتا‘‘۔ (الحکم جلد 9نمبر5مؤرخہ 10؍فروری 1905ء صفحہ5۔ ملفوظات جلد چہارم صفحہ 461جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
فرمایا’’ دعا میں لگے رہو … ایک انسان جو دعا نہیں کرتا اس میں اور چار پائے میں کچھ فرق نہیں ‘‘ اس میں اور جانور میں کچھ فرق نہیں۔ (الحکم جلد 11نمبر32 مؤرخہ 10؍ستمبر 1907ء صفحہ6۔ ملفوظات جلد پنجم صفحہ 272جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک انتہائی ضروری حکم ہے اور ہماری زندگیوں کے لئے انتہائی اہم امر ہے، ضروری ہے کہ ہماری توجہ ہمیشہ دعا کی طرف رہے اور پھر اس سے بڑی خوشی کی بات اور ہماری بچت کی ضمانت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ بھی فرما دیا کہ گو کہ تمہاری دنیا اور آخرت کے سنوارنے کے لئے دعا ضروری ہے۔ مجھے اس سے کوئی فائدہ نہیں لیکن مجھے تمہارے اس امر سے بہت خوشی پہنچتی ہے، جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ میرا ایک بندہ شیطان کے جال میں پھنسنے سے بچ رہا ہے۔ تو مَیں تمہاری ان دعاؤں کو جو خالص میری رضا حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہیں اور مجھ پر توکل کرتے ہوئے کی جاتی ہیں ضرور سنتا ہوں اور جو متکبر ہیں ان کا ٹھکانہ تو جہنم ہے۔
فرماتا ہے کہ وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْ نِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ (المومن :61) اور تمہارے رب نے کہا مجھے پکارو، مَیں تمہیں جواب دوں گا۔ یقینا وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے اپنے تئیں بالا سمجھتے ہیں ضرور جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’استجابت دعا کا مسئلہ درحقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے‘‘۔ ایک شاخ ہے۔ ’’اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ اور شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھوکے لگتے ہیں … اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے ربّ میں ایک تعلق جاذبہ ہے۔ یعنی پہلے خداتعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خداتعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے۔ سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہوکر خداتعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ تب اس کی روح اُس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب میں جو اُس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خداتعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تب اللہ جلّشانہٗ اس کام کے پوراکرنے کی طرف متوجہ ہو تا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پرڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے توبعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبیعہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اور ا گر قحط کے لئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بات اربابِ کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے‘‘۔ یعنی ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے جس سے کام مکمل ہو جائے۔ ’’ یعنی باذنہٖ تعالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور عُلوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اُس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے‘‘۔ (برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ10-9)
اس میں آپؑ نے دعا کی قبولیت کا فلسفہ بیان فرمایا ہے کہ اگر دعا کی حقیقت کا پتہ ہے تو قبولیت دعا کا بھی پتہ ہونا چاہئے کہ دعا کا فلسفہ کیا ہے، بندے اور خدا میں ایک دوسرے کو اپنے اندر جذب کرنے کی ایک قوت ہے اور یہ قوت کس طرح کام کرتی ہے؟ فرمایاکہ اس میں پہل اللہ تعالیٰ کرتا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا ہے۔ اگر غور کریں تو انسان کی پیدائش سے پہلے ہی یہ رحمانیت کے جلوے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر ہر قدم پر، ہر لمحے انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت کے جلوے دکھاتا چلا جاتا ہے۔ کس طرح بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے، یہ بھی رب العالمین کا بڑا وسیع مضمون ہے۔ بہرحال خلاصہ یہ کہ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور فضلوں اور رحمتوں کو یاد رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمائے ہیں اور ایک سعید اور نیک فطرت بندہ، ایک مومن بندہ ان چیزوں کو یاد بھی رکھتا ہے اور اس کا خداتعالیٰ سے سچا تعلق، ہر وقت اس کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے تیار رہنا، ہر وقت اس کے پیار کو سمیٹنے کے لئے اس کے حکموں پر نظر رکھنا، ہر وقت اس کی رضا کے حصول کی لگن دل میں رکھنا یہ ایک سچے مومن کی نشانی ہے تو خالصۃً للہ ہو کر اگر پوری سچائی کے ساتھ، صاف دل کے ساتھ ایک مومن اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے اور زیادہ نزدیک ہو جاتا ہے۔ اور جب خداتعالیٰ اپنے بندے کے اس قدر نزدیک ہو جائے کہ وہ اور بندہ ایک دوسرے میں جذب ہو جائیں۔ پھر جب بندہ دعا کرتا ہے تو ایسی حالت میں کی گئی دعا ایسے ایسے عجیب معجزے دکھاتی ہے جو ایک آدمی کے تصور میں بھی نہیں آ سکتے۔ پس یہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے۔ عام دنیا میں بھی مشاہدہ کرکے دیکھ لیں کہ جب تکلیف کے وقت خالص ہو کر کوئی اللہ تعالیٰ کے حضو ر جھکتا ہے تو اس وقت کیونکہ دنیا کی ہر چیز سے بے رغبتی ہوتی ہے، دنیا کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی، مشکل میں پھنسا ہوتا ہے، مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف ہی جھک رہا ہوتا ہے، صرف اور صرف اللہ کی ذات سامنے ہوتی ہے، تکلیفوں نے اس شخص کے اندر ایک کیفیت پیدا کی ہوتی ہے۔ اس لئے اکثر لوگ جو ایسی حالت میں دعائیں کر رہے ہوتے ہیں وہ قبولیت دعا کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ پس اگر انسان اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کو ہر وقت سامنے رکھتے ہوئے اس کے قریب تر ہونے کی کوشش کرتا رہے، ایک کام ہونے کے بعد، ایک تکلیف دور ہونے کے بعد اس کے قریب ہونے کی کوشش کو ترک نہ کر دے تو پھر مستقل اللہ تعالیٰ استجابت دعا کے نظارے دکھاتا ہے، قبولیت دعا کے نظارے دکھاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی عنایات کو ہر وقت اپنے اوپر برستا رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تر رہنے کی کوشش کی جائے۔ پھر ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ تمام تر دنیاوی اسباب کو اور دنیا کی جو بھی چیزیں ہیں ان کو اس بندے کی دعا مانگنے کی صورت میں اس کی ضروریات پوری کرنے کے کام میں لگا دیتا ہے۔ تمام زمینی اور آسمانی ذرائع اپنے بندے کی مدد کے لئے کھڑے کردیتا ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ بندے کی دعا قبول کرتے ہوئے بادلوں سے بارش برساتا ہے تو کبھی دشمن کے حق میں اپنے بندے کی بددعا سنتے ہوئے قحط اور آفات کے سامان پیدا کر دیتاہے۔ پس یہ حالت جو ایک مومن کے دل میں قبولیت دعا کے لئے پیدا ہونی چاہئے، یہی وہ حالت ہے جو ہر احمدی کو اپنے دل میں پیدا کرنی چاہئے۔ ایک خطبے میں مَیں نے بزرگوں کی قبولیت کے واقعات بیان کئے تھے۔ وہ لوگ اِس مقام پر پہنچے ہوئے تھے کہ جب ان کی ایسی حالت ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول کرتا تھا۔ اب بھی اللہ تعالیٰ جماعت کے لوگوں کی دعا قبول کرتا ہے، آج بھی وہی خدا ہے، اُس نے اپنے دروازے بند نہیں کر دئیے، صرف ایک سچی کشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کا یہ جلوہ بھی دیکھیں کہ وہ جو مادی ضرورتیں پوری کرتا ہے اس سے سب کافر و مومن فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک مومن کو وہ طریق بھی بتائے کہ تم کس طرح مختلف اوقات میں پکارو اور کس طرح تم میرے قریب آ ؤ اور مَیں مزید تمہارے قریب آؤں جہاں دونوں قریب ترین ہو جائیں۔ فرمایا:قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِادْعُواالرَّحْمٰنَ اَ یًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْا َسْمَآئُ الْحُسْنٰی (بنی اسرائیل:111) توُ کہہ دے کہ خواہ اللہ کو پکارو، خواہ رحمن کو جس نام سے بھی تم پکارو سب اچھے نام اسی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے مختلف نام ہیں، مختلف صفات ہیں۔ تم اپنی ضرورت کے مطابق میرے ناموں کا حوالہ دے کر میری صفات کا حوالہ دے کر مجھے پکارو تو مَیں اپنے ناموں کا اتنا پاس رکھنے والا ہوں کہ جب میرے بندے کی وہ حالت بن جاتی ہے جو مَیں پہلے بیان کر آیا ہوں کہ کیا حالت ہونی چاہئے؟ تو اگر میری رحمانیت کی ضرورت ہے تو اس صورت میں بندے کے لئے رحمانیت جوش میں آئے گی، اگر رحیمیت کی ضرورت ہے تو بندے کے لئے رحیمیت جوش میں آئے گی۔ اگر وہاب نام سے پکارو گے اور اس کی ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ کی عطا کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ غرض کہ اللہ کے جو بے شمار نام ہیں اور یہ تمام نام اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو سننے کے لئے ہی ہمیں سکھائے ہیں، یہ سب صفات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس لئے ظاہر فرمائیں کہ ان کا فہم و ادراک حاصل کرتے ہوئے، ان صفات کے حوالے سے اس کو پکارا جائے۔ پس مومن کو چاہئے کہ جب ہمارا خدا ہم پر اتنا مہربان ہے، ہمیں اس طرح راستے دکھاتا ہے کہ کسی طرح میرے بندے شیطان کے چنگل سے بچیں اور اس طرح آخرت کے عذاب سے بچ جائیں تو اس کے خالص عبد بنتے ہوئے اس کے حضور دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے۔
آج مَیں نے چند قرآنی دعائیں چنی ہیں۔ اب دیکھیں یہ بھی تو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے کہ ہمیں مختلف مواقع کی دعائیں سکھا دیں۔ پہلے انبیاء کی دعائیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہمیں سکھا دیں تاکہ ہم جہاں ان سے فیض اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں وہاں اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بھی بن جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ ہم پر احسان فرماتے ہوئے اپنے انعامات سے نوازتا ہے تو اس پر متکبر ہونے کی بجائے، فخر کرنے کی بجائے اللہ کے حضور جھکنا چاہئے۔ کسی کو کوئی اعلیٰ ملازمت مل جائے تو اس کا دماغ عرش پہ پہنچ جاتا ہے۔ کسی کو فائدہ مند کاروبار مل جائے تو اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے۔ کسی کو اچھے خاندان میں پیدا ہونے پر فخر کھائے جا رہا ہے۔ کسی کو اپنی دماغی صلاحیتوں پر بڑا فخر ہوتا ہے۔ پھر وہ نہ بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے اور نہ خداتعالیٰ کے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایک نیک بندے کی مثال دیتے ہوئے ایک دعا سکھاتا ہے کہ ان چیزوں پر فخر کرنے کی بجائے اللہ کے آگے جھکو گے تو اس کے فضلوں کے وارث بنو گے۔ یہ سورۃ یوسف کی آیت ہے۔ فرمایا رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْا َحَادِیْث فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْا َ رْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ (یوسف:102) اے میرے رب توُ نے مجھے امور سلطنت میں سے حصہ دیا اور باتوں کی اصلیت سمجھنے کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے، مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرے میں شمار کر۔
یعنی یہ جو سب نعمتیں مجھے عطا کی ہیں تیرے اس سلوک کی آئینہ دار ہیں کہ میرے تیری طرف صدق اور سچائی سے بڑھنے کو توُ نے قبول کیا اور مجھے یہ مقام عطا فرمایا اور مَیں امید کرتا ہوں کہ جس طرح دنیا میں یہ دوستی کے نظارے دکھائے آخرت میں بھی توُ میرا دوست ہو گا۔ اسلئے مَیں دعا کرتا ہوں کہ مجھے کامل فرمانبرداروں کی حالت میں وفات دینا تاکہ آخرت میں بھی میرا ان لوگوں کے ساتھ جوڑ ہو جو صالحین ہیں۔ تیرا قرب پانے والے ہیں۔ جنکے مقام ہر آن، ہر وقت، ہر لمحہ جنت میں بلند ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا صرف ہمیں ایک واقعہ کی صورت میں بیان نہیں فرمائی بلکہ اسلئے بیان کی ہے کہ اس پر عمل کرنے کیلئے مومن کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے تاکہ نیک اعمال کرکے وہ بھی صالحین کے گروہ میں شمار ہو سکے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں نے اپنی رحمانیت کے نظارے دکھاتے ہوئے تمہارے لئے یہ جو زمین و آسمان پیدا کیا ہے اس پہ غور کرو۔ ستارے ہیں، چاند ہے، سورج ہے، فضا میں مختلف قسم کی گیسز ہیں، مختلف قسم کی تہیں ہیں جو بعض اجرام فلکی کے نقصانات سے تمہیں محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ ہر ایک چیز اپنے اپنے بتائے ہوئے وقت، رفتار اور دائرے میں گردش کر رہی ہے۔ پھر رات اور دن، چاند اور سورج ہماری زمین کی پیدائش پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یعنی زمین میں جو چیزیں پید اہوتی ہیں، مختلف موسم ہیں، بارش ہے، سردی ہے، گرمی ہے اور اسکے حساب سے اللہ تعالیٰ نے مختلف فصلیں اور پھل، درخت اور پودے مہیا کئے ہوئے ہیں۔ باغ وغیرہ ہیں جن سے تم فائدہ اٹھاتے ہو۔ تو جو لوگ ان چیزوں پر غور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے ہیں، اس پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں وہ اس بات پر بھی قائم ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بارہ میں جو بتایا وہ اگر حق ہے تو آخرت بھی حق ہے۔ پس یہ سب دیکھ کر ایک مومن دعا کرتا ہے کہ ہماری غلطیوں کو، کوتاہیوں کو معاف فرما۔ انکی وجہ سے ہمیں کسی پکڑ میں نہ لے لینا اور ہمیں آخرت کے عذاب سے بچا۔ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں سکھائی ہے۔ فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قَُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْض رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران:192) وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں، کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی اور آسمان و زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور بے ساختہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ تو نے ہرگز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ پاک ہے توُ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ:’’یا الٰہی تو اس سے پاک ہے کہ کوئی تیرے وجود سے انکار کرکے نالائق صفتوں سے تجھے موصوف کرے‘‘۔ ایسی باتیں تیری طرف منسوب کرے جو مکمل اور کامل نہیں ہیں جو تیرے مقام سے بہت گری ہوئی چیزیں ہیں۔ جن میں کمزوریاں، خامیاں اور سقم ہیں۔ ’’ سو تو ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔ یعنی تجھ سے انکار کرنا عین دوزخ ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ120)
فرمایا ’’مومن وہ لوگ ہیں جو خدائے تعالیٰ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے یاد کرتے ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں عجائب صنعتیں موجود ہیں ان میں فکر اور غورکرتے رہتے ہیں اور جب لطائف صنعت الٰہی ان پر کھلتے ہیں ‘‘۔ یعنی اس کائنات کے جو باریک سے باریک راز ہیں وہ اُن پر کھلتے ہیں جب وہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء کے نظارے دیکھتے ہیں ’’ تو کہتے ہیں کہ خدایا توُنے ان صنعتوں کو بے کار پیدا نہیں کیا۔ یعنی وہ لوگ جو مومن خاص ہیں صنعت شناسی اور ہیئت دانی سے دنیا پرست لوگوں کی طرح صرف اتنی ہی غرض نہیں رکھتے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی پیداکردہ اشیاء ہیں ان کو دیکھ کر اور اللہ تعالیٰ نے جو مختلف چیزیں پیدا کی ہیں ان کی شکلیں دیکھ کر، آسمان اور زمین میں جو مختلف چیزیں چاند، سورج، ستارے ہیں، دنیا کی پیدائش ہے، اس کو دیکھ کر فرمایا کہ دنیا پرست لوگوں کی طرح صرف اتنی ہی غرض نہیں رکھتے ’’کہ مثلاً اسی پر کفایت کریں کہ زمین کی شکل یہ ہے اور اس کا قطر اس قدر ہے اور اس کی کشش کی کیفیت یہ ہے اور آفتاب اور ماہتاب اور ستاروں سے اس کو اس قسم کے تعلقات ہیں بلکہ وہ صنعت کی کمالیت شناخت کرنے کے بعد اور اس کے خواص کھلنے کے پیچھے صانع کی طرف رجوع کرجاتے ہیں ‘‘۔ جب ان چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں تو پھر وہ دیکھتے ہیں کہ اس کے پیچھے اس کو پیدا کرنے والا کون ہے۔ ’’ اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں ‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 2صفحہ144-143)
جب اس پیدا کرنے والے کا پتہ لگ جاتا ہے، خداتعالیٰ کی عظمت کا پتہ لگتا ہے، خداتعالیٰ کی قدرتوں کا پتہ لگتا ہے تو پھر ایمان میں اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے، جب یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ ان سب چیزوں کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے تو اس کی ہستی اور طاقتوں پر اور یقین بڑھتا ہے۔ پھر اس بات کا بھی یقین بڑھتا ہے کہ ان سب کو پیدا کرنے والا وہ زندہ خدا ہے جس نے اپنی عبادت کرنے کے لئے بھی کہا ہے، دعائیں مانگنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور عمل کے حساب سے اچھے اور بُرے اعمال سے بھی آگاہ کیا ہے۔ تو پھر وہ پکارتا ہے کہ اے اللہ! مجھے نیک عملوں کی بھی توفیق عطا فرما تاکہ مَیں آگ کے عذاب سے بچوں اور تیرے پیار کی نظر ہمیشہ مجھ پر پڑتی رہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ (الشّعراء:84) اے میرے ربّ مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شمار کر۔ پس یہ دعا بھی بڑی اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ فراست بھی دے، حکمت بھی دے، جو کام سپرد ہوں ان کو احسن رنگ میں انجام دینے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ جو جماعتی ذمہ داریاں سپرد ہوئی ہیں، جہاں فیصلے کرنے کی ضرورت ہے صحیح فیصلے کرنے کی توفیق دے اور ترقیات سے بھی نوازے۔ ایک بندہ جب یہ کہتا ہے کہ ترقیات سے بھی نواز تو اس لئے یہ ساری چیزیں مانگتا ہے تاکہ اے خدا مَیں تیری رضا کی خاطر کام کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاؤں۔ پھر یہ بھی دعا ہے کہ مجھے اپنے احکامات کا فہم و ادراک عطا فرما اور ان خصوصیات کے حاصل ہونے کی وجہ سے مَیں تیرے صالح بندوں میں شمار ہوں اور یہ نیکی کا معیار بھی بڑھتا چلا جائے۔
پھر فرمایا وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ (الشّعراء:85) اور میرے لئے آخرین میں سچ کہنے والی زبان مقدر کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ بھی اس بات کی گواہی دیں کہ مَیں نے ہمیشہ حق و صداقت کا ساتھ دیا ہے، حکمت اور عقل سے فیصلے کئے ہیں، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہمیشہ پیش نظر رہا ہے اور اے اللہ! مَیں پچھلوں میں بھی ان نیک کاموں سے یاد کیا جاؤں۔ پھر سب سے اہم یہ دعا سکھائی کہ وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْم ِ (الشّعراء:86) اور مجھے نعمتوں والی جنتوں کے وارثوں میں سے بنا۔ ایسی جنت کا وارث بنا جہاں مَیں تیری تمام نعمتوں کو حاصل کرتا چلا جاؤں، جنت میں میرے درجے بڑھتے چلے جائیں۔ یہ ذکر خیر اور لوگوں کی دعائیں اور اولاد کی نیکیاں اور دعائیں آخرت میں بھی ایک مرنے والے کے درجے بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔ پس اس جہان کی یہ نیکیاں اور حکمت کی باتیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک لوگوں میں شمار، جنت میں بہتر مقام دلوانے والا بن جاتا ہے۔ پس جب انسان کو جنت میں اعلیٰ درجوں کی دعا کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے تو لازماً یہاں بھی وہ عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
دنیا میں نیک نام اولاد کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا بھی سکھا دی کہ اس دنیا کو جنت بنانے کے لئے اور آخری جنت کے وارث بننے کے لئے اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرو اور ان کے لئے سب سے بڑی دعا ان کا تقویٰ پر قائم رہنا ہے۔ چنانچہ فرمایا وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَاقُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان آیت: 75) اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں (بیویوں )اور اپنی اولاد سے، آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر۔ اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ نکاح سے ایک اور غرض بھی ہے جس کی طرف قرآن کریم میں یعنی سورۃ الفرقان میں اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَاقُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا یعنی مومن وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا! ہمیں اپنی بیویوں کے بارے میں اور فرزندوں کے بارے میں دل کی ٹھنڈک عطا کر۔ اور ایسا کر کہ ہماری بیویاں اور ہمارے فرزند نیک بخت ہوں اور ہم ان کے پیش رو ہوں۔ ‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سورۃ الفرقان زیر آیت نمبر 75، آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10صفحہ23)
پھر فرمایا کہ’’ انسان کو سوچنا چاہئے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کر دینا چاہئے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے لیکن جب ایک خاص اندازہ سے گزر جاوے تو ضرو ر اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔ خداتعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا جیسا کہ فرمایا ہے مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّاریات: 57) اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشاء کو پورا نہیں کرتا ہے اور پورا حق عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتاہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کی اولاد کے لئے خواہش کیا نتیجہ رکھے گی؟ صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لئے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑ نا چاہتا ہے۔ خود کونسی کمی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے۔ پس جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خداتعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سیّئات رکھنا جائز ہو گا۔
لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مَیں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہو گا۔ جب تک کہ وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔ اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعویٰ میں کذّاب ہے‘‘۔ جھوٹا ہے۔ ’’ صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بناوے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہو گی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں۔ لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی ہی نامور اور مشہور ہو، اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ561-560جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا کہ’’ غرض مطلب یہ ہے کہ اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہئے۔ اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے‘‘۔
اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ خداتعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی۔ یہ سلطان احمد اور فضل احمد قریبًا اسی عمر میں پیدا ہوگئے تھے۔ اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیادار بنیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں ……‘‘۔
فرمایا:’’ پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خداتعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں۔ نہ کبھی اُن کے لئے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں۔ میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتداء میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں ……‘‘۔
فرمایا:’’ لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اسلئے کہ وہ خادم دین ہو۔ بلکہ اسلئے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو۔ اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا۔ نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتاہے۔ یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا‘‘۔ یعنی قریبی تعلقات اور رشتوں کو نہیں سمجھتا۔ ’’ جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَاقُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان آیت: 75) یعنی خداتعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرماوے اور یہ تب ہی میسر آ سکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عبادالرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں۔ اور آگے کھول کر کہہ دیا وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا اولاد اگر نیک اور متقی ہوتو ان کا امام ہی ہو گا۔ اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے‘‘۔ (الحکم جلد5نمبر35مورخہ24؍ ستمبر1901ء صفحہ12-10۔ ملفوظات جلد اول صفحہ563-562جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس یہ ہیں وہ معیار جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر احمدی میں اس کی اولاد کے بارے میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے آپؑ نے اس قرآنی حکم کے مطابق اولاد کو ڈھالنے کے لئے تربیت اور دعا پر بہت زور دیا تھا۔ اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے اس کے لئے ہر کوئی پہلے اپنی حالت بدلے ورنہ یہ دعا اپنے نفس کو دھوکہ ہے اور جھوٹ ہے۔ اپنے نفس کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ متقی اولاد کے لئے پہلے خود صالح اعمال بجا لانے ہوں گے۔ دعا کی قبولیت کے لئے اپنی وہ حالت بنانی ہو گی جس کا مَیں نے شروع میں ذکر کیا ہے۔ جب یہ حالت بن جائے گی تو پھر انشاء اللہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، دعائیں قبول ہوں گی۔ پس ہر احمدی بچہ عمومی طور پر جماعت کی امانت ہے اور ہر وہ احمدی جس نے اپنے بچے وقف نو میں دئیے ہوئے ہیں کہ وہ دین کے خادم بنیں، وہ اس گروہ میں شامل ہوں جو دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا گروہ ہے، وہ ایسے بچوں کے باپ ہیں جنہوں نے ایک عمر کو پہنچنے کے بعداسماعیل کی طرح اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا ہے۔ ایسی صورت میں اُن باپوں کو بھی تو وہ نمونہ دکھانا ہو گا جو حضرت ابراہیم ؑ کا نمونہ ہے۔
پس دعاؤں کی قبولیت کے جو لوازمات ہیں ان کو پورا کرنے والے بنیں گے تو انشاء اللہ، اللہ کے وعدے کے مطابق دعائیں بھی قبول ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو دعا کی قبولیت کے فلسفے کو سمجھتے ہوئے اپنی دعاؤں کے معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور بھی قرآنی دعائیں ہیں جو انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
آج بھی نماز جمعہ کے بعد چند افراد کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ ایک تو ہمارے سیرالیون کے رہنے والے سیرالیونی مبلغ سلسلہ ہارون جالو صاحب وفات پاگئے ہیں۔ جامعہ احمدیہ پاکستان سے پڑھے ہوئے تھے۔ یہ بیمار ہوئے تھے، شاید انکو کینسر ہوا تھا۔ ان کی عمر چھوٹی ہی تھی، میرا خیال ہے انکی عمر 51سال تھی۔ ان کے تین بچے اور بیوہ ہیں۔ سیرالیون میں ان کی تدفین ہوئی ہے۔ ان کا جنازہ غائب ہو گا۔
دوسرے قادیان کے عبدالسلام صاحب درویش ہیں۔ یہ بھی 18ستمبر کو وفات پا گئے۔ مینیجر پریس کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے اور بڑے دلیر، بہادر، محنتی اور وفا سے کام کرنے والے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ تین بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ پھر ہمارے سندھ کے رہنے والے چوہدری محمدعلی بھٹی صاحب ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنی زمینوں پر بھجوایا تھا، لمبی خدمت کی۔ اسی طرح انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی بھی لمبا عرصہ خدمت کی۔ اور ان کے ایک جوان لڑکے جامعہ کے طالب علم تھے، مبارک احمد بھٹی صاحب 1971ء کی جنگ میں شہید ہو گئے۔ آپ نے بڑے صبر سے صدمہ برداشت کیا۔ نیز ان کے ایک داماد گھانا میں ہمارے واقف زندگی ڈاکٹر ہیں۔ بڑے شریف اور مخلص انسان تھے۔ ناصرآباد، حیدر آباد سندھ میں ایک چھوٹی سی جگہ ہے۔ جب بھی وہاں آتے تھے، اکثر وہیں رہتے تھے، اس بڑی عمر میں بھی وہ مسجد کی رونق تھے۔
پھر ایک جنازہ داؤد زمان صاحب، ان کی اہلیہ اور بیٹی کا ہے۔ یہ کیلگری میں رہنے والے ہیں۔ اس فیملی کا بھی گزشتہ دنوں ایک ایکسیڈنٹ ہوا جس میں دونوں میاں بیوی اور چھوٹی سی گیارہ ماہ کی بیٹی سب ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے۔ داؤد زمان صاحب کے نانا نے بھی حضرت مصلح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور لڑکی کے دادا نے بھی حضرت مصلح موعود کے زمانے میں ہی بیعت کی تھی۔ مخالفت میں بڑے ثابت قدم رہے۔ شازیہ اسلم جو فوت ہوئی ہیں یہ اشرف ناصر صاحب مرحوم جو مربی سلسلہ تھے ان کی بھتیجی تھیں۔ ان سب کے جنازے ابھی نماز جمعہ کے بعدہوں گے۔
دعاؤں کی قبولیت کے جو لوازمات ہیں ان کو پورا کرنے والے بنیں گے تو انشاء اللہ، اللہ کے وعدے کے مطابق دعائیں قبول بھی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو دعا کی قبولیت کے فلسفہ کو سمجھتے ہوئے اپنی دعاؤں کے معیار کو بلند کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔
فرمودہ مؤرخہ 22؍ستمبر 2006ء (22؍تبوک 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔