رمضان کے مہینے کی اہمیت ۔ دعاؤں کی قبولیت
خطبہ جمعہ 29؍ ستمبر 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ ہفتہ سے رمضان شروع ہے۔ یہ مہینہ ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن اتارا اور فرمایا کہ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرۃ:186) رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس اس ہدایت سے تبھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اس کو پڑھ کر اس پر عمل بھی کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت سے احکامات اتارے جو ہمارے کرنے کے لئے ہیں۔ بہت سے احکامات ایسے اتارے جن میں بعض قسم کی باتوں سے روکا گیا ہے۔ پھر بہت سی دعائیں سکھائیں جو گزشتہ انبیاء کی دعائیں ہیں اور ایسی دعائیں بھی سکھائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی گئیں اور قرآن کریم میں ان دعاؤں کے بیان کرنے کا مقصداُمّت کو اس طرف توجہ دلانا تھا کہ مختلف قسم کے حالات پیدا ہوں تو اُن حالات کے پیش نظر قرآن کریم میں جومختلف قسم کی دعائیں ہیں وہ دعائیں کرو۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے یہ مختلف قسم کی دعائیں قرآن کریم میں اس لئے جمع کی ہیں تاکہ ایک مومن بندہ ان سے فائدہ اٹھائے۔ اور خالص ہو کر اس کی صفات کے حوالے سے، اس حوالے سے کہ اے خدا توُ نے خود یہ دعائیں ہمیں سکھائی ہیں، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے جب اس سے دعائیں مانگے تو خداتعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس کا مَیں نے گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے یہ ایسے احسانات ہیں جو بارش کی طرح برس رہے ہیں جو اُس کے حضور خالص ہو کر جھکنے والے کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔ آج بھی مَیں اسی مضمون کو جاری رکھوں گا جو قرآن کریم میں سکھائی گئی دعاؤں کا مضمون ہے۔ رمضان کے مہینے کی یہ بھی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس مہینے میں پہلے سے بڑھ کر اپنے بندے پر نظر رکھتا ہوں، اس کی دعائیں قبول کرتا ہوں۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
پس ہمیں اُن اعمال کی ضرورت ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے تاکہ ہماری یہ معمولی کوششیں اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوں۔ اللہ تعالیٰ اِن دنوں میں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پہلے سے بڑھ کر، عام حالات سے بڑھ کر اپنے بندے پر مہربان ہوتا ہے۔ معمولی نیکیاں بھی بہت بڑے اجر پا لیتی ہیں۔ بھول چوک اور غلطیوں سے اللہ تعالیٰ صرفِ نظر فرماتا ہے۔ پس ہر مومن کو ان دنوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا روزے اور عبادتوں کی وجہ سے شیطان جکڑا جاتا ہے۔ اس کے آگے روکیں کھڑی ہو جاتی ہیں، ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ شیطان کی کوئی پیش نہیں جاتی۔ پس اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے لئے بڑی بدقسمتی کی بات ہو گی کہ وہ رمضان پائے، وہ اپنی زندگی میں رمضان دیکھے اور پھر اپنے گناہ نہ بخشوائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بڑھانے کی طرف مزید کوشش نہ کرے۔
آج پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مہینے میں داخل فرمایا ہے۔ شیطان جکڑا ہوا ہے، نیکیوں کے کئی گنا بڑھ کر اجر مل رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور اٹھانے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی نیکیوں میں سے سب سے زیادہ اس کی عبادت، اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق نمازوں کے پڑھنے سے دلچسپی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس طرح نمازوں کی ادائیگی پسند ہے جس طرح اس نے بتایا ہوا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ اللہ تعالیٰ کا خوف د ل میں رکھتے ہوئے، اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اُن تمام شرائط پر عمل کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں نمازیں ادا کرتا ہے تو وہ ایسی نمازیں نہیں ہوتیں جو الٹا کر منہ پر ماری جانے والی نمازیں ہوں۔ اور یہی مقصد انسان کی پیدائش کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔
ہر نیکی کی طرح نمازیں پڑھنے کی یہ توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں ہمیں ایسی دعا سکھائی جو نہ صرف ہمارے لئے بلکہ ہماری نسلوں کے لئے بھی ہے۔ اور جب نسلاً بعد نسلٍ جب یہ دعا مانگی جاتی رہے گی تو اللہ تعالیٰ اپنی اس دعا کے طفیل جو اس نے ہمیں سکھائی ہے عبادت کرنے والے بھی پیدا فرماتا چلا جائے گا۔ فرماتا ہے کہ رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ (ابراھیم:41) اے میرے ربّ مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی۔ اے ہمارے ربّ اور میری دعا قبول کر۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے انبیاء کے ذریعہ سے دعائیں سکھائی ہیں۔ یہ دُعا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مانگی تھی کہ جس طرح مجھے نمازوں پر قائم کیا ہے اسی طرح میری نسلوں میں بھی قائم کرتا رہ۔ اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن کی نسل میں سے وہ نبی برپا ہونے والا تھا جو تمام نبیوں سے افضل تھا اور ہے، یہ دعا اُس نبی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی مانگی تھی تاکہ آپؐ کی اُمّت میں بھی نمازی پیدا ہوتے چلے جائیں۔ پس یہ دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ مقام کو بھی ظاہر کرنے والی ہے کہ آپؐ کے لئے اور آپؐ کی امت کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی دعائیں کر رہے ہیں۔ اور یہ دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لئے سکھائی ہے کہ جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت ابراہیم علیہ السلام تو نماز قائم کرنے والے تھے، آپؑ نے یہ دعا کی کہ مَیں بھی نمازیں قائم کرنے والوں کا امام ہوں اور ہمیشہ رہوں اور میری نسلیں بھی ہمیشہ نمازیں قائم کرنے والے بناتی چلی جائیں۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعا کا علم دے کر ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ آپؐ بھی اس مقام تک پہنچے ہوئے ہیں۔ جہاں آپ نماز قائم کرتے ہوئے اپنی امت کیلئے بھی نمازیں قائم کرنے والے پیدا ہونے کیلئے دعا کرتے ہیں۔ دوسرے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تواللہ تعالیٰ نے نبی پیدا فرمائے تھے اور گو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی لیکن آپؐ کی امت کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری اُمّت میں سے بھی میں ایسے نیک فطرت علماء پیدا کرتا رہوں گا جو بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ہیں اور اس زمانے میں یہ نیک فطرت علماء وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس زمانے کے مسیح و مہدی کو مان لیا۔ وہ علماء جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے والے اور عبادتیں کرنے والے پیدا ہوتے رہیں گے۔ وہ علماء نہیں جو آج کل سیاست میں گرفتار ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا کوئی معمولی اور عارضی دعا نہیں تھی بلکہ یہ دعا قیامت تک کے لئے تھی اور آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے علاوہ کوئی نہیں جو نماز کے قیام کی کوشش کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تو بہت سے نبی پیدا ہوئے لیکن صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر قائم رہنے والے ہی ہیں جو قیام نماز کی کوشش کرتے ہیں۔ آج تمام دنیا میں صرف نیک فطرت مسلمان ہیں جو نماز کے قیام کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی تمام دنیا میں قیام نمازکو رائج فرمانا تھا، کیونکہ آپؐ ہی وہ واحد نبی ہیں جو تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کو ابوالانبیاء بھی کہا جاتا ہے ان سے بھی یہ دعا کہلوائی جو پیشگوئی کا بھی رنگ رکھتی ہے۔ پس یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس دعا کا قرآن کریم میں ذکر کرکے اُمّت کی بھی ذمہ داری لگا دی کہ قیام نماز کے لئے کوششیں کرتے رہو۔ کیونکہ قیام نماز خدائے واحد کے آگے جھکنے اور وحدانیت کو قائم کرنے کی بھی ایک علامت ہے۔ پس آخری زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے جس موعود فرزنداور مسیح و مہدی نے آنا تھا اس نے یہ وحدانیت پیدا کرکے قیام نماز بھی کرنا تھا۔ پس آج جماعت احمدیہ کی یہ ذمہ واری لگائی گئی ہے جو مسیح محمدی کی جماعت ہے، جس کو آج دنیا کے کونے کونے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پھیلا دیا ہے، کہ دنیا کے ہر کونے میں جہاں بھی وقت کے لحاظ سے (مختلف اوقات ہوتے ہیں) نماز کا وقت آئے تو قیام نماز کی کوشش کرتے رہیں تاکہ اس وجہ سے جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت بھی اور ہر احمدی بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں۔ اکثر ہم میں سے نماز میں درود شریف کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے جو دعائیں پڑھتے ہیں ان میں یہ دعا بھی پڑھتے ہیں۔ تو اس پر غور کریں۔ ایک فکر کے ساتھ اس دعا کی قبولیت مانگنی چاہئے تاکہ نسلوں میں بھی اور جماعت کے ہر فرد میں بھی قیام نماز کی طرف توجہ رہے۔ یہ دعا تو خالص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کے لئے ہے۔ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول نہ کرے اور لوٹا دے۔
رمضان کے ان دنوں میں، جب تقریبًا ہر ایک کو نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہوتی ہے ایک فکر کے ساتھ، غور کرکے یہ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بعد میں بھی قیام نماز ہوتا رہے گا۔ اور یہ دُعا یقینا استجابت کا مقام حاصل کرے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ پس اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ہمیں بھی اس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جیسا کہ مَیں نے کہا آج کل اس کا بہترین موقع ہے۔ اور یہی چیز ہے جس سے وہ مقام حاصل ہو گا جس سے ایک بندہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن کر اس کے قریب ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس برکت کو حاصل کرنے کے لئے یہ موقع عطا فرمایا ہے۔ ایک دفعہ پھر ہمیں رمضان میں داخل فرمایا ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (البقرۃ: 186) سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے‘‘۔ یعنی نماز تزکیہ نفس کرتی ہے۔ اور فرمایا کہ’’ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جاوے‘‘۔ اس سے دوری پیدا ہو جائے۔ نیکیوں میں ترقی کرے ’’اور تجلی قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے‘‘۔ (بدر جلد1نمبر7مورخہ12؍ دسمبر1902ء صفحہ52۔ ملفوظات جلد دوم صفحہ562-561جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس برائیوں سے بچنے کے لئے اور نیکیوں میں ترقی کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اس مہینے میں خاص طور پر ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور یہ کوشش ہو کہ اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کرے اور سنوار کر ادا کرتے رہنے کے لئے دعا کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل ہمیشہ جاری رہے۔ اللہ تعالیٰ ہراحمدی کو اس دعا کا فہم و ادراک عطا فرماتے ہوئے اس دعا کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہنے کی توفیق دیتا چلاجائے تاکہ ہمیشہ جماعت کے لئے قیام نماز ایک طرّہ امتیاز رہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بھی بتائی کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّک اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرۃ:129) اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنا دے اور ہماری ذریت میں سے بھی ایک فرمانبردار امت پیدا کر دے اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ یقینا تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
تودیکھیں ہمیشہ قیام نماز کوجاری رکھنے اور قائم رکھنے کے لئے، عبادتوں کو زندہ رکھنے کے لئے یہ دعا سکھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے گروہ پیدا کرتا چلاجائے جو حقیقت میں عبادت اور قربانیوں کے مقصد اور فلسفے کو سمجھتے ہوئے عبادتیں کرنے والے اور قربانیاں کرنے والے ہوں۔ اور اے خدا! یہ سب تیرے خاص فضل اور رہنمائی سے ہو گا۔ اس لئے ہمیشہ ایسے لوگ او ر گروہ پیدا فرماتا رہ جن کو تیری براہ راست رہنمائی بھی حاصل ہوتی رہے، ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو رہنمائی کرنے والے ہوں۔ (ہر ایک کو تو علیحدہ علیحدہ نہیں الہام ہوتا۔) اور کبھی یہ نہ ہو کہ تیری رہنمائی سے یہ اُمّت محروم ہو جائے۔ یہاں اس دعا کی انتہا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہوتی ہے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ دعا کی اور دنیا نے دیکھا کہ عرب کے اُن وحشیوں میں کیا انقلاب آیا کہ وہ لوگ ایسے باخداانسان بنے جن کی راتیں عبادت کرتے ہوئے اور دن اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیاں کرتے ہوئے گزرتے تھے۔ اور آپ کی یہ دعا صرف آپ کے وقت تک محدود نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور تاقیامت قبولیت کا درجہ پا گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کی معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں حاصل ہوئی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اب آپ کی امت اس کے دائمی نظارے دیکھنے لگی، اس میں دائمی نظارے نظر آنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت کومکمل طور پر کبھی بگڑنے نہ دیا۔ ایک ہزار سال کا اندھیرا زمانہ آیا اس میں بھی اللہ تعالیٰ اولیاء امت اور مجدّدین کے ذریعہ سے عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھاتا چلا گیا۔ مجدّدین اور اولیاء کے ذریعہ ہمیشہ ایک گروہ ایسا رہا جو صحیح طور پر اس تعلیم پر عمل کرنے والا رہا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔ پھر مجدد آخر الزماں اور خاتم الخلفاء اور خاتم الاولیاء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبو ل فرماتے ہوئے مبعوث فرمایا جنہوں نے اسلام کی صحیح تعلیم اور عبادت کے صحیح طریقے ہمیں سکھائے۔ آپؐ نے ہمیں بتایا کہ موقع و محل کے حساب سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے بجا لانے والا ہر صحیح عمل ہی اصل میں صحیح طور پر قربانی اور عبادت کہلا سکتا ہے۔ پس جہاں حقوق اللہ کی بجا آوری اور عبادت کا صحیح طریق ضروری ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق حقوق العباد ادا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور یہی زندگی کا اصل مقصد ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی طرف ہی اُن کی دعا قبول کرتے ہوئے جھکتا اور رحم فرماتا ہے جو حقوق اللہ بھی ادا کرنے والے ہوں اور حقوق العبادبھی بجا لانے والے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیکی کے بارے میں مختلف سوال کرنے والوں کو جوآپ ؐ سے پوچھا کرتے تھے ان کے حالات کے مطابق مختلف قسم کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ مثلاً کسی کے سوال کرنے پرکہ بڑی نیکی کیا ہے؟ فرمایا جہاد کرنا ہے۔ کسی کو مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے فرمایا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی مالی قربانی ہے۔ کسی کو جو عبادتوں میں کمزور تھا فرمایا کہ تہجد کی ادائیگی سب سے بڑی نیکی ہے۔ کسی کو جو جہاد سے ڈرنے والے تھے فرمایا کہ جہاد کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ کسی کو رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ پس حالات کے مطابق عمل کرنا ہی اصل میں صحیح نیکی ہے اور یہ نیکیاں ہی پھر عبادت کا رنگ بھی رکھتی ہیں۔ پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود مسیح نے جن باتوں کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے وہ عبادتوں اور قربانیوں کے صحیح طریق ہیں۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے حملے کی وجہ سے ایک وقت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تلوار کے جہاد کوضروری قرار دیا تھا تو آج مناسک کا معیار، قربانی کا معیار قلم کا جہاد ہے، تبلیغ اسلام ہے، اسلام کا خوبصورت پیغام جو امن اور صلح کا پیغام ہے، اس کو دنیا میں پہنچانا ہے۔
پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن اور اسلام کی تعلیم کو سمجھ کرجو تعلیم ہمیں دی ہے اور جس طرف ہمیں بلایا ہے وہی اصل عبادت اور قربانی کا طریق ہے جسے ہر احمدی نے اپنانا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کوئی خلاف اسلام یا شریعت کے خلاف حکم نہیں دیا بلکہ جن معاملات کو، جن باتوں کو غلط سمجھ کر بعض علماء نے جن کو اتنا فہم و ادراک نہیں تھا پھیلاناچاہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے بارہ میں صحیح رہنمائی کی کہ حقیقت میں کیا چیز ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ اس دعا کے ساتھ، اس تعلیم کے ساتھ، اس صحیح اسلامی تعلیم کے ساتھ چمٹے رہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں پہنچائی، ہمیں سکھائی، تا اللہ تعالیٰ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرماتے ہوئے ہم پر رحم فرماتا رہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا ہی ثمرہ ہیں جنہوں نے اس زمانے میں صحیح رہنمائی کرنی تھی۔
پھراللہ تعالیٰ نے اپنی بخشش اور رحم طلب کرنے کیلئے بعض دعائیں سکھائی ہیں۔ بعض دعائیں مَیں مختصر اً بغیر کسی تفصیل کے پڑھتا ہوں۔ فرمایا وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْوَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْن (المؤمنون:119) تو کہہ اے میرے رب! بخش دے اور رحم کر اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
پھر ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی کہ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَاعَذَابَ النَّارِ (آل عمران:17) اے ہمارے رب یقینا ہم ایمان لے آئے پس ہمار ے گناہ بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
پھر انجام بخیر کی اور بخشش کی دعا سکھائی، ثابت قدم رہنے کی دعاسکھائی کہ رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰ مَنَّا۔ رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰ تِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ (آل عمران:194) کہ اے ہمارے رب! یقینا ہم نے ایک منادی کرنے والے کو سنا جو ایمان کی منادی کر رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ۔ پس ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے رب پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے۔
یہ دعا بھی جیسا کہ مَیں نے کہا ایمان میں مضبوطی حاصل کرنے کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے اور انجام بخیر کے لئے ہے۔ کہ اے اللہ! ہم نے اس زمانے کے امام کو مان کرجوروحانی ترقی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہیں ہمارے گناہوں کی زیادتی، ہماری کمزوریاں، ہماری کوتاہیاں اس میں روک نہ بن جائیں۔ اِس زمانے کے امام کو ماننے کے بعد، قبول کرنے کے بعد اپنی شامت اعمال کی وجہ سے ہم اس روشنی سے بے بہرہ نہ رہ جائیں جو اصل میں تیرے نور کی روشنی ہے اور جو اس آنے والے نے ہمیں دی ہے۔ پس ہمارے گناہ بخش اور آئندہ بھی ان گناہوں سے بچا اور اس دعویدار کے دعویٰ پر مکمل ایمان لانے والوں اور ان برکات سے حصہ پانے والوں میں ہمیں شامل کرتا رہ جو اس کے ساتھ مقدر ہیں۔ اور جب ہمارا آخری وقت آئے تو اس صورت میں جائیں کہ نیکوں میں ہمارا شمار ہو۔
پھر ایک دعا سکھائی کہ رَبَّنَااغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِِرِیْنَ (آل عمران:148) کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملے میں ہماری زیادتی بھی۔ اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطا کر۔
پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے جو یہ دعائیں ہمیں سکھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ گناہ نہ بخشنے والا ہوتا تو یہ دعا نہ سکھاتا۔ پس یہ ہے ہمارا خدا جو ہمیں یہ دعائیں سکھا رہا ہے کہ ہم نیکیوں پر قائم رہیں اور گزشتہ گناہوں کی معافی مانگیں۔ پھر یہ بھی ہو کہ ہم کہیں جان بوجھ کر ان برائیوں کو دُہرانے والے نہ ہوں، ان غلطیوں میں دوبارہ پڑ جانے والے نہ ہوں۔ آجکل پاکستان سمیت بعض ملکوں میں احمدیوں کے خلاف جو وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی شوشہ اٹھتا رہتا ہے، محاذ کھڑے ہوتے رہتے ہیں تو ہمیں اس دعا کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے تاکہ ثبات قدم بھی رہے ہم اپنے دین پر قائم بھی رہیں اور مخالفین کے خلاف اللہ تعالیٰ مدد بھی فرماتا رہے۔
پھر ایک دعا سکھائی کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف :24) کہ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحم کو سمیٹنے کے لئے یہ بہت اہم دعا ہے۔ بعض گناہ لا علمی میں ہو جاتے ہیں، احساس نہیں ہوتا اس لئے مستقلاً استغفار بہت ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بد اثرات سے محفوظ رکھے اور برائیاں کرنے سے بھی بچاتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے‘‘ جب کوئی سزا آتی ہے، کوئی پکڑ آتی ہے تو خدا پر شکوے شروع ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو دیکھیں کہ خود کتنی نیکیاں کرنے والے ہیں، کس حد تک اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں۔ فرمایا کہ’’ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کروایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہوخواہ باطن کا ہو، اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے‘‘۔ انسان کے جسم کا ہر عضو گناہ کرتا ہے۔ تو ہر ایک سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرمایا کہ’’ آجکل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْن (الاعراف :24)‘‘۔ ’’ یہ دعا اوّل ہی قبول ہو چکی ہے‘‘۔ (بدرجلد 1نمبر9 مورخہ26؍ دسمبر1902ء صفحہ66۔ ملفوظات جلد دوم صفحہ 577جدید ایڈیشنمطبوعہ ربوہ)
پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اس دعا کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے کیونکہ آج کل تو حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانے سے بھی زیادہ گناہ اور ظلمت پھیل چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے محفوظ رکھے اور اللہ کی رحمت ہمیشہ شامل حال رہے۔ آپؑ نے فرمایا تھا کہ آج کل حضرت آدمعلیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے تو اس طرف بہت توجہ دیں۔ پھر اسی دعا کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’ دعا ایسی شے ہے کہ جب آدم کا شیطان سے جنگ ہوا تو اس وقت سوائے دعا کے اور کوئی حربہ کام نہ آیا۔ آخر شیطان پر آدم ؑ نے فتح بذریعہ دعا پائی‘‘ اور وہ دعا یہی تھی کہ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔‘‘ (بدرجلد 2نمبر10 مورخہ27؍مارچ1903ء صفحہ77۔ ملفوظات جلد سوم صفحہ171جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا کہ’’ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتداء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا‘‘ یعنی آدم نے شیطان سے اپنے آپ کو بچایا تھا۔ ’’ اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا، نہ تلوارسے… آدم اول کو فتح دعا ہی سے ہوئی تھی…… اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہو گی‘‘۔ (الحکم جلد 7نمبر12مورخہ31؍مارچ 1903ء صفحہ8۔ ملفوظات جلد سوم صفحہ191-190 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس جہاں یہ دعا ذاتی طور پر مانگنی چاہئے وہاں جماعتی ترقی کے لئے بھی یہ دعا بہت ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو آدم کہا، اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو آدم کہا ہے۔
پھردنیا و آخرت کی حسنات کے لئے ایک دعا سکھائی کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ:202) کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی کثرت سے یہ دعا پڑھاکرتے تھے اور صحابہ کو بھی فرمایا کرتے تھے کہ صرف آخرت کی حسنات نہ مانگو بلکہ دنیا کی حسنات بھی مانگو۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عیادت فرمائی جوبیماری کے باعث کمزور ہوتے ہوئے بہت دبلا پتلا ہو گیا تھا، چوزے کی طرح ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کرکے فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے ہو اس نے جواب دیا ہاں ‘‘پھر اس نے بتایا کہ مَیں یہ دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا ہے وہ مجھے اس دنیا میں دے دے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! تم اس کی طاقت نہیں رکھتے کہ خدا کی سزا اس دنیا میں حاصل کرو۔ تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے کہ اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ اے اللہ تو ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب اس بیمار نے یہ دعا کی تو اللہ کے فضل سے شفایاب ہو گئے۔ ، صحت مند ہو گئے۔ (مسلم کتاب الذکر والدعاء۔ باب کراھۃ الدعاء بتعجیل العقوبۃ فی الدنیا)
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا اور دین دونوں سنور جاتے ہیں۔ اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان دونوں میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔
دیکھو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَا اٰ تِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار (البقرۃ:202) اے ہمارے ربّ ہمیں اس دنیا میں بھی آرام اور آسائش کے سامان عطا فرما اور آنے والے جہاں میں آرا م اور راحت عطافرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
دیکھو در اصل رَبَّنَاکے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے۔ کیونکہ رَبَّنَا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربّوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس ربّ کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا۔ ربّ کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو‘‘۔ یعنی وہ جو کسی چیز کی انتہا کو آہستہ آہستہ ایک پراسس (Process) میں سے گزار کر انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ ’’ اصل میں انسان نے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں ‘‘۔ بہت سے خدا بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ’’ اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے‘‘۔ ہوشیاریوں، چالاکیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ ’’تو وہی اس کے ربّ ہیں۔ اگر اسے اپنے علم کا یا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے ربّ ہیں۔ اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا ربّ ہے۔ غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک ان سب کو ترک کرکے ان سے بیزار ہو کر اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور رَبَّنَا کی پُر درد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانے پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا۔ پس جب ایسی دل سوزی اور جاں گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کرکے توبہ کرتا اور اسے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَا یعنی اصل اور حقیقی رب تو توُ ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے۔ اب مَیں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں، تیرے آستانہ پر آتا ہوں ‘‘۔ تو جب اس طرح دعا کریں گے، اللہ تعالیٰ پھر توجہ کرتا ہے۔
فرمایا ’’غر ض بجز اس کے خدا کو اپنا رب بنانا مشکل ہے۔ جب تک انسان کے دل سے دوسرے ربّ اور ان کی قدرومنزلت و عظمت و و قار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی ربّ اور اس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا۔
بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا ربّ بنایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بدوں گزار امشکل ہے‘‘۔ جھوٹ کے بغیر گزارا مشکل ہے۔ ’’بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہی کو اپنا ربّ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں۔ سو ان کے ارباب وہ چیزیں ہیں۔ دیکھو ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہیں اور رات کا موقعہ بھی اس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اس کا رزق آ سکتا ہے؟ وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے۔ غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے ان کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت ؟ دعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس دَر کے نہ ہو۔ اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ غرض رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً …الخ ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب ّجان چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سامنے اور سارے ارباب باطلہ ہیچ ہیں۔ آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتاہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں۔ تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے۔ طرح طرح کے عذاب، خوف، حزن، فقرو فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن‘‘۔ جوبے تحاشا دنیاوی مسائل ہیں۔ فرمایا’’ غرض یہ سب آگ ہیں۔ تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔ جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ‘‘۔ (الحکم جلد 7نمبر11مورخہ24؍ مارچ 1903 ء صفحہ10-9۔ ملفوظات جلد سوم صفحہ145-144جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو باتوں کی طرف خاص توجہ دلائی ہے۔ ایک تو یہ کہ خالص ہو کر یہ دعا کرنے والا جب دعا کرتا ہے تو شرک سے اپنے آپ کو پاک کرتا ہے۔ فرمایا رَبَّنَاکا لفظ یہ تقاضا کرتا ہے کہ باقی تمام جھوٹے خدا جو دل میں بنائے ہوئے ہیں ان سے نجات حاصل کرکے مَیں تیرے پاس آیا ہوں۔ دوسرے یہ کہ جب آخرت کی حسنات کے ساتھ دنیا کی حسنات مانگی ہیں تو اس دنیا میں بھی جو انسان کے ساتھ متفرق قسم کے مسائل لگے ہوئے ہیں بعض دفعہ وہ دل کو بے چین کر دیتے ہیں۔ جب انسان ان مسائل میں الجھا ہوتا ہے، بعض لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ اس آگ میں جل رہے ہیں۔ لوگ بڑے پریشانی کے خطوط بھی لکھتے ہیں۔ پس یہ دعا اگر صحیح معنوں میں کی جائے گی توشرک سے بچاتے ہوئے آخرت کے عذاب سے بھی بچا رہی ہو گی۔ کیونکہ جب دعا کرنے والا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک رہا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی دعا مانگتے ہوئے اس دنیا کی پریشانیوں کی آگ سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ پھر فضل فرماتا ہے۔ پس یہ بڑی جامع دعا ہے اور جس طرح پہلی دعا جو مَیں نے شروع میں پڑھی تھی۔ جس کے متعلق مَیں نے کہا تھا کہ درود شریف کے ساتھ عموماً وہی دعا لکھی ہوتی ہے۔ دعائیں اور بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ لیکن پہلی دعا کی طرح یہ دعا بھی نماز میں پڑھی جاتی ہے اور عام طورپر یہ دونوں دعائیں ہی جماعت کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں جو مَیں نے شروع میں اور آخر پر پڑھیں۔ اس لئے احمدی اس کو زیادہ پڑھتے ہیں۔ اس لئے ہر قسم کی آگ سے بچنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے عبادت بڑی ضروری ہے جس کی شکل اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلی دُعا میں قیام نماز بتائی۔
پس اس رمضان میں ان دُعاؤں کا صحیح فہم و ادراک حاصل کرتے ہوئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ قیام نماز کا عادی بن جائے اور پھر اس کو اپنی نسلوں میں بھی اور دوسروں میں بھی پھیلانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔
رمضان کے مہینے کی یہ بھی اہمیت ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر پہلے سے بڑھ کر نظر رکھتاہے اور اس کی دعاؤں کو قبول کرتاہے۔
اس رمضان میں ان دعاؤں کا صحیح ادراک حاصل کرتے ہوئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ قیام نماز کا عادی بن جائے اور پھر اس کو اپنی نسلوں میں بھی اور دوسروں میں بھی پھیلانے والا ہو۔
فرمودہ مؤرخہ 29؍ستمبر 2006ء (29؍تبوک 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔