یہ مہینہ خاص بخشش اور قبولیت دعا کا مہینہ ہے
خطبہ جمعہ 6؍ اکتوبر 2006ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورۃ البقرہ :187)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ دعا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے۔ مگر یہ یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خداتعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہہ کر آستانہ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لئے قوی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ حالت میسر آ جاوے تو یقینا سمجھو کہ باب اجابت اس کے لئے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کے لئے عطا ہوتی ہے۔ یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 203جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس دعا کا طریق یہ ہے کہ اپنے پر ایسی حالت طاری کی جائے کہ یہ احساس ہو کہ اب مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور اسی طرح پہنچ گیا ہوں کہ جس طرح قبولیت دعا یقینی ہے۔ پہلے مَیں کئی بزرگوں کے واقعات سنا چکاہوں کہ فلاں کے لئے دعا کی یا فلاں وقت دعا کی تو ایسی حالت طاری ہو گئی کہ یقین ہو گیا کہ اب میری دعا قبول ہو گئی۔
رمضان کے اس مہینے میں جب عبادت کی طرف ایک خاص رجحان ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کی طرف خاص طور پر متوجہ ہوتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ روزے دار کی جزا مَیں خود ہو جاتا ہوں۔ وہ لوگ جو خالص ہو کر اللہ کی خاطر یہ عبادت بجا لا رہے ہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اتنی جزا دیتا ہے کہ جو شمار میں نہیں آ سکتی۔ ان کے یہ روزے دنیا کودکھانے کے لئے نہیں رکھے جا رہے ہوتے بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطررکھے جاتے ہیں۔ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کے دکھاوے کی خاطر نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں اسی طرح روزے بھی رکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ جو خالصتاً اللہ کی خاطر روزے رکھ رہے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بہت نوازتا ہے بلکہ فرمایا کہ ان کی جزا مَیں خود ہو جاتا ہوں۔ تو یقینا ان حالات میں کی گئی جو عبادتیں ہیں اور جو دعائیں ہیں وہ مقبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں روزوں کی فرضیت اور اس سے متعلقہ مسائل کا ذکر فرمایا ہے تو ساتھ ہی یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا ہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورۃ البقرہ :187)
یعنی اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو جواب دے کہ مَیں ان کے پاس ہی ہوں۔ جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو مَیں اس کی دعا قبول کرتاہوں۔ سو چاہئے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکموں کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں۔ پس ہر مسلمان کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا ہے لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا دعائیں قبول کروانے کی بعض شرائط ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا ہو اور اس کی مکمل پابندی کرنے والا ہو، اللہ کا خوف ہو۔ پھر جب ایک مومن اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر اس طرح گرتا ہے، یہ حالت اپنے پر طاری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کو جواب دیتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزوں کے حکم کے ساتھ اس آیت کو بھی رکھا ہے، تو ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ مہینہ میری خاص بخشش اور قبولیت دعا کا مہینہ ہے اس لئے اس میں خالص ہوتے ہوئے، اس مہینے کی قدر کو پہچانتے ہوئے میری طرف آؤ تاکہ مَیں پہلے سے بڑھ کر تمہاری دعاؤں کو قبول کروں۔ پس ان دنوں میں ہر احمدی کو خاص طور پر دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجے کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ بے چینی ہو رہی ہوتی ہے۔ جب انتہائی درجے کا اضطرار پیدا ہو جاتا ہے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان پیدا ہو جاتے ہیں۔ پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں۔ پس یہ کیفیت ہے۔ جب ہم اپنے اندر ایسی کیفیت پیدا کرلیں تو ہم میں سے ہر ایک خداتعالیٰ کے وعدے کے مطابق قبولیت دعا کے نظارے دیکھے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس رمضان میں اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اللہ کے آگے جھکنے اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج پھر مَیں چند قرآنی دعائیں آپ کے سامنے پیش کروں گا جو اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہوں پر، مختلف مواقع پر قرآن کریم میں ہمیں بتائی ہیں۔ ایک دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی وہ اپنے اور پہلوں کے لئے حصول مغفرت اور دلوں میں سے کینوں کو دور کرنے کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نیک بندوں کا ذکرکرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اس طرح دعا کرتے ہیں۔ کہ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَاتَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (الحشر:11) اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے ہیں اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے کوئی کینہ نہ رہنے دے۔ اے ہمارے رب یقینا تو بہت شفیق اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اس میں جہاں اپنے لئے بخشش کی دعا سکھائی گئی ہے کہ تم اپنے لئے دعا مانگو وہاں ان لوگوں کے لئے بھی جو پہلے ایمان لانے والے ہیں، پہلے گزر چکے ہیں بخشش کی دعا مانگنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دین کے بارے میں کسی قسم کا استحقاق نہیں ہوتا۔ جو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق جوڑے گا، جو تقویٰ پر قدم مارنے والا ہو گا، جو بے نفس ہو کر جماعت کی خدمت کرنے والا ہو گا اور پھر جن پر اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرمائے گا ان کو خدمت دین کی زیادہ توفیق ملتی ہے۔ وہ آگے آنے والوں میں بھی ہوتے ہیں، ان کو دیکھ کر دوسروں میں حسد اور کینے کے جذبات پیدا نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ایسے لوگوں پر رشک آنا چاہئے۔ ان جیسا بننے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اپنی حالتوں کو بھی بدلنا چاہئے اور اپنے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں جیسا بنا جو اللہ کا قرب پانے والے ہیں، یا تقویٰ پر چلنے والے ہیں، جو بے نفس ہو کرجماعتی خدمات کرنے والے ہیں، جو تیرے ایسے بندے ہیں جو خالصتاً تیری رضا پر چلنے والے ہیں، جن پر تیرے فضلوں کی بارش برستی نظر آ رہی ہے۔ جب اس طرح دعا مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحم بھی اس وقت جوش میں آئیں گے اور پھر قبولیت دعا کے نظارے بھی دیکھیں گے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں۔ کیونکہ جب پاک ہو کر سب کے لئے بخشش کی دعا کر رہے ہوں گے، سب کینے اور بغض اور رنجشیں دلوں سے نکل رہی ہوں گی، جب دلوں کے کینے ختم ہو رہے ہوں گے اور ایک پاک اور محبت کرنے والا معاشرہ جنم لے گا، جہاں ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارے کی فضا نظر آ رہی ہو گی توپھر یہ دعائیں کرنے والے اللہ تعالیٰ کی بخشش کو مزید حاصل کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے۔ پس یہ انتہائی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رؤوف اور رحیم کو جذب کرنے کے لئے اپنے ساتھ اپنے بھائیوں کے لئے بھی دعا کی جائے اور دلوں کو کینوں سے پاک کیا جائے۔ اگر ہمارے دوسرے مسلمان بھائی یہ دعاسمجھ کر کریں تو جہاں اپنی بخشش کے سامان کر رہے ہوں گے وہاں احمدیوں کے لئے ان کے دلوں میں جو کینہ اور بغض بھرا ہوا ہے وہ بھی دور ہو گا۔ ان کو بھی اللہ تعالیٰ زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ پس ہمارے مخالفین کو بھی جو بلاوجہ ادھر ادھر سے باتیں سن کر مخالفت میں آگے بڑھے ہوئے ہیں چاہیے کہ صرف دیکھا دیکھی مخالفت نہ کریں بلکہ غور کریں، سوچیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی دعائیں سکھائی ہیں قرآن کریم سارے پڑھتے ہیں اس پر غور کریں۔ وہ لوگ بھی اس رمضان سے فائدہ اٹھائیں اور امت کی حالت پر غور کریں کہ امت کی یہ حالت کیوں ہو رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوماننے والوں کو آپؐ نے اپنے ایمان کو مکمل کرنے کی خبر دی تھی۔ اس پر غور کرتے ہوئے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانیں اور جو لوگ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہلے مان کر ایمان میں سبقت لے جا چکے ہیں، ان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے ان جیسا بننے کی کوشش کریں۔ اللہ کرے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی یہ فہم اور ادراک حاصل ہو جائے۔
بہرحال احمدیوں کو چاہئے کہ اپنے نمونے قائم کریں اور اس قرآنی تعلیم پر عمل کریں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لئے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو۔ اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو‘‘۔
فرمایا ’’ میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اوّل خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیر وں کے لئے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہ ؓ میں پید اہوئی تھی۔ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ (آل عمران:104) یاد رکھو تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسندکرے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔ اس کا انجام اچھا نہیں۔ مَیں ایک کتاب بنانے والا ہوں ‘‘۔ آگے ذکر کیا ہے کہ اس میں نام چھاپوں گا۔
فرمایا کہ ’’چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازیگر نے دس گز کی چھلانگ ماری ہے۔ دوسرا اس میں بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح پھر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی۔ وہ ضرور ہو گی۔ تم کیوں صبر نہیں کرتے۔ جیسے طبّی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے مرض دفع نہیں ہوتا۔ میرے وجود سے انشاء اللہ تعالیٰ ایک صالح جماعت پید اہو گی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے۔ بخل ہے، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں … جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے۔ جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں، جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔ مَیں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے۔ اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اس کو سر سبز نہیں کر سکتا۔ بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے، پس ڈرو۔ میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 336جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر مخالفین کے شر سے بچنے کے لئے اور مغفرت کے لئے اور قوم کے سیدھے راستے پر چلنے کے لئے بھی ایک دعا ہے۔ فرمایا : رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَارَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الممتحنۃ:6-5)۔ اے ہمارے رب تجھ پر ہی ہم تو کل کرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہم جھکتے ہیں اور تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ اے ہمارے رب ہمیں ان لوگوں کے لئے ابتلاء نہ بنا جنہوں نے کفر کیا اور اے ہمارے رب ہمیں بخش دے۔ یقینا تو کامل غلبے والا اور صاحب حکمت ہے۔
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَافِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا فرما کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اے اللہ تیری باتوں اور حکموں پر عمل نہ کرکے ہم کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جس سے احمدیت اور اسلام کمزور ہو اور اس وجہ سے مخالفین اور کفار کو موقع ملے کہ وہ اسلام پر حملہ کریں۔ دیکھیں آج کل یہی ہو رہا ہے، جس کو موقع ملتا ہے اسلام پر حملہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ پس اس دُعا کی فی زمانہ بہت ضرورت ہے اور جہاں اپنے لئے دعا کریں وہاں ان دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں جو کفار کو، غیر مسلموں کو یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ اسلام پر حملے کریں۔ مسلمانوں کو نعرے لگانے اور توڑ پھوڑ کی حد تک تو فکر ہے، ذرا سی کوئی بات ہو جائے تو توڑ پھوڑ شروع ہوجاتی ہے، نعرے شروع ہو جاتے ہیں، جلوس نکل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں۔ یہ کرنے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ مقصد پورا ہو گیا۔ اسی وجہ سے اور ان کے انہی عملوں کی وجہ سے پھر مخالفوں کو مختلف طریقوں سے اسلام پر حملے کرنے کا مزید موقع ملتا ہے اور جو جری اللہ ان حملوں سے اسلام کو بچا رہا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا یہ مسلمان اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور اللہ اور رسولؐ کا حکم نہ مان کر کافروں کے لئے اسلام کے خلاف فتنے کے سامان پیدا کر رہے ہیں اور نتیجۃً پھر اللہ تعالیٰ کی بخشش سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ پس یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ جو غالب اور حکمت والا ہے ہمیں اور تمام امت کو اپنی اس صفت سے متصف کرتے ہوئے حکمت عطا فرما تاکہ ایسی باتوں سے باز رہیں جو اسلام کو نقصان پہنچانے والی ہیں اور ہم جلد تیرے دین کے غلبے کے دن ہم جلد دیکھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا غیر ضروری سوالات سے بچنے کے لئے سکھائی ہے۔ وہ دعا یہ ہے کہ رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَاِلَّاتَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ (ھود:48) کہ اے میرے ربّ یقینا مَیں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے وہ بات پوچھوں کہ جس کے مخفی رکھنے کی وجہ کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ اور اگر توُ نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو مَیں ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔
یہ دعا سکھا کر اس امر سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پُر حکمت کاموں کے بارے میں کوئی شکوہ نہ کیا جائے۔ مثلاً دعا ہے۔ ایک آدمی دعا کرتا ہے تو اس کے بارے میں بھی شکوے ہو جاتے ہیں کہ مَیں نے تو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق دعا کی تھی پھر بھی اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول نہیں کی۔ اللہ سے شکوے ہوتے ہیں کہ اے اللہ کیوں میری دعا قبول نہیں کی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر غور کر رہے ہیں تو یہ بات سامنے رہے گی کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اس کو تمام آئندہ آنے والی باتوں کا بھی علم ہے۔ اس کو یہ بھی علم ہے کہ ہر ایک کے دل میں کیا ہے۔ اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ کیا چیز میرے بندے کے لئے ضروری اور فائدہ مند ہے اور کیا نقصان دہ ہے۔ اس لئے کسی قسم کے شکوے کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ وہ اپنے بندے کی بعض باتوں کو اس لئے رد ّکرتا ہے کہ وہ انہیں اس کے لئے بہتر نہیں سمجھتا۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بعض وعدے بھی کرتا ہے، ان کو بعض باتیں سمجھادیتا ہے لیکن اجتہادی غلطی کی وجہ سے بندہ سمجھ نہیں سکتا۔ کیونکہ الفاظ واضح نہیں ہوتے اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے اور اس کی تاویل یا تشریح کچھ اور ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ دعا حضرت نوح ؑ کی ہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے میں غلطی کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا لیکن جب حضرت نوح ؑ نے بیٹے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ اے اللہ میاں !میرا بیٹا تومیرے اہل میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں مجھے سب پتہ ہے کہ کون اہل میں ہے اور کون نہیں اور اس کی تعریف کیا ہے۔ کیونکہ اس کے دل میں نہ موجودہ حالت میں ایمان ہے اور نہ اس کی آئندہ ایمانی حالت ہونی ہے اس لئے وہ تیرے اہل میں شمار نہیں ہو سکتا اس لئے یہ دعا نہ مانگ۔ پس یہ جواب سن کے حضرت نوح ؑ نے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے اس کی بخشش اور اس کا رحم مانگا۔ تو یہ واقعہ اور دعا سکھا کر ہمیں بھی توجہ دلائی ہے کہ تمہارے ساتھ زندگی میں ایسے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ پس کبھی شکوہ نہ کرنا۔ جس طرح میرے اس نیک بندے نے فوراً اللہ کے پیغام کو سمجھتے ہوئے استغفار کی، اگر کبھی کسی قسم کا امتحان یا ابتلاء آئے تو شکوے کی بجائے استغفار کرو، اس کا رحم مانگو۔ تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل کرو، صدقہ دو اور دعا کرو اور پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑو اور پھر یہ دعا بھی ساتھ کرتے رہو کہ اے اللہ مَیں تیرے سامنے فضول سوال کرنے کی بجائے ہمیشہ تیری رضا پر راضی رہنے والا بنوں۔ کیونکہ یہ حالت اللہ کے فضل سے ملتی ہے اس لئے فضول سوالوں سے بچنے کی بڑی ضرور ی دعا ہے تا کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کی نظر اپنے بندے پر پڑتی رہے اور بندہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔ ورنہ یہ شکوے اللہ تعالیٰ سے دور لے جانے والے ہوتے ہیں اور آخر کار بندے کو نقصان پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ کا تو کچھ نہیں جاتا۔ اس لئے ایسی حالت میں خاص طور پر جب انتہائی مایوسی اور صدمے کی حالت ہو اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ جھکنا چاہئے تاکہ ہر قسم کے شرک سے، انتشار ذہن سے بندہ محفوظ رہے۔
پھر روحانی ترقی اور مغفرت الٰہی حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَآاَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَاوَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (التحریم:9) اے ہمارے رب ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے یقینا ہر چیز پر جسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
اس دعا سے پہلے ان لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے جن لوگوں کے حق میں یہ دعا قبول ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خالص توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں۔ فرمایا یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍِ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْا َ نْھَارُ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ(التحریم:9) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی طرف خالص توجہ کرتے ہوئے جھکو۔ بعید نہیں کہ تمہارا رب تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر ے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ جس دن اللہ نبی کو اور اُن کو رسوا نہیں کرے گا جو اس کے ساتھ ایمان لائے۔ ان کا نور ان کے آگے بھی تیزی سے چلے گا اور ان کے دائیں بھی۔
پھر آگے وہ وہی کہیں گے جو دعا مَیں نے پڑھی ہے۔ تو اپنی برائیوں کے دور کرنے کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اور برائیوں کو دور کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہو اور دعا بھی ہو رہی ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے خالص توبہ کرنے والوں کی دعا کو بھی سنتا ہے اور ان کی برائیاں دور کرتے ہوئے جیسا کہ اس نے فرمایا انہیں جنتوں میں داخل کرتا ہے اور انہیں ایسا نور دیتاہے جو ان کے دائیں بھی چلتا ہے اور ان کے آگے بھی چلتا ہے۔ پس خوش قسمت ہوں گے ہم اگر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے فائدہ اٹھائیں۔ خوش قسمتی سے ہمیں رمضان میں سے گزرنے کا موقع مل رہا ہے اس رمضان کے مہینے میں روزوں سے گزرنے کا موقع مل رہا ہے، جب مغفرت کے دروازے مکمل طور پر کھول دئیے جاتے ہیں، بخشش کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ خالص ہو کر اللہ تعا لیٰ کے حضور جھکیں اور اپنی برائیوں پر نظر کرتے ہوئے انہیں چھوڑنے کی کوشش کریں۔ سچی توبہ کریں کہ آئندہ بھی ان برائیوں میں نہیں پڑیں گے۔ اگر ہر ایک اپنا جائزہ لے تو خود ہی ہر ایک کے سامنے آجا ئے گا کہ کون کون کن کن برائیوں میں مبتلا ہے اور کون کون سی برائیاں چھوڑی ہیں اور چھوڑنی ہیں تو پھریقینا اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جنت کے نظارے دیکھیں گے۔ سچی تو بہ کے بعد پھر قدم پہلے سے آگے بڑھیں گے۔ مزید نیکیوں کی توفیق ملے گی اور یہی نیکیاں اگلے جہان میں بھی کام آنے والی ہیں اور وہاں بھی درجے بڑھتے چلے جائیں گے۔
جنت میں استغفار کی جو دعا ہے اس کا کیا مطلب ہے یا کیا حکمت ہے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ بہشتی لوگ بھی استغفار کیا کریں گے۔ ان کا استغفار گناہوں کے لئے نہیں ہو سکتا کیونکہ بہشت میں کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ وہ اپنی دنیاوی زندگی کے گناہوں کے لئے استغفار کیا کریں گے کیونکہ ہمیں اس سے پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ بہشت میں داخل ہونے سے پہلے ان کے گناہ معاف کئے جائیں گے۔ آیت اس طرح ہے عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍِ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْا َ نْھَارُ پس ان کا استغفار گزشتہ گناہوں کے لئے نہیں۔ خود اس آیت میں ہمیں پتہ ملتا ہے، اس لئے جو نور اہل جنت کو ملے گا وہ ان کو اس نور کے مقابل میں ناقص نظر آئے گا جو ابھی ان کو نہیں ملا۔ اس نقص کو محسوس کرکے وہ خدا سے دعا کریں گے کہ ہمارا نور پورا کر اور ہماری اس ناقص حالت کو ڈھانپ دے مگر وہ کبھی نور سے سیر نہیں ہوں گے کیونکہ خدا کے نور کی کوئی حد نہیں۔ اس لئے وہ ہمیشہ اور زیادہ نو ر مانگتے رہیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ استغفار روحانی ترقی کے لئے ایک دعا ہے۔ چونکہ روحانی ترقی کی کوئی حد نہیں اس لئے انبیاء علہیم السلام ہمیشہ دعا میں لگے رہتے ہیں اور ہمیشہ زیادہ نور مانگتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی اپنی روحانی ترقی پر سیر نہیں ہوتے اس لئے ہمیشہ دعا میں لگے رہتے ہیں کہ خدا ان کی ناقص حالت کو ڈھانپے اور پورا روشنی کا پیمانہ دے۔ اسی وجہ سے خدا ئے تعالیٰ اپنے نبی کو فرماتا ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا یعنی ہمیشہ علم کے لئے دعا کرتا رہ کیونکہ جیسا خدا بے حد ہے ایسا ہی اس کا علم بھی بے حد ہے۔ القصہ جنت کا استغفار صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ استغفار اور گناہ لازم ملزوم نہیں ہیں اور یہ کہ ہمارا استغفار اس لئے بھی ہو سکتا ہے کہ خدا ہماری کمزوریوں کو ڈھانپے اور روحانی ترقی کے لئے طاقت دے۔ عیسائی بڑے ظالم ٹھہریں گے اگر وہ اب بھی اصرار کریں گے کہ استغفار ہمیشہ گزشتہ گناہوں کی معافی کے لئے ایک دعاہوتی ہے۔ ‘‘ (ریویو آف ریلیجنز جلد 2صفحہ244-243، تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد نمبر 8صفحہ174تا175تفسیر سورۃ تحریم)
پھر سورۃ بقرہ کی آخری آیت ہے جس میں ہمیں مختلف دعائیں سکھائی گئی ہیں کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَاتَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَۃَ لَنَابِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰـنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْن (البقرۃ:287) کہ اے ہمارے رب ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔ اور اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ان کے گناہوں کے نتیجہ میں توُ نے ڈالا ہے۔ اور اے ہمارے رب ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر۔ توُ ہی ہمارا والی ہے، پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔
یعنی جیسا کہ ترجمے سے سب واضح ہو گیا کہ اے اللہ جو کام توُ نے ہمیں کرنے کے لئے دئیے ہیں اگر ہم وہ کرنے بھول جائیں یا پوری طرح نہ کر سکیں تو ہماری کمزوری سمجھ کر معاف کر دینا اور اس بات پر ہمیں نہ پکڑنا۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے اس بھولنے سے ہماری ترقی رک جائے او ر ترقی میں کمی آ جائے یا ہمارے میں سے چند لوگوں کی بھول چوک سے ہماری ترقی رک جائے یا کمی آ جائے۔ یہ دعا واقفین زندگی کو، عہدیداران کو جو جماعتی خدمات کر رہے ہوتے ہیں خاص طور پر کرنی چاہئے۔ پھر یہ ہے کہ اَوْ اَخْطَاْنَا کہ یا اللہ ایسا بھی نہ ہو کہ ہماری کوئی خطا جو ہمارے کسی کام کے غلط طریق پر کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے اس کے بداثرات ظاہر ہوں۔ توُ ہمیشہ ہمیں ہماری خطاؤں کے بداثرات سے محفوظ رکھنا اور ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔
پھر اگلی دعا ہے کہ رَبَّنَا وَلَاتَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا یعنی اے اللہ ہمیں اُن اعمال سے محفوظ رکھ جو گناہ کی طرف لے جانے والے اعمال ہیں اور گناہ ہیں۔ اور اسی طرح ہم کسی ایسے عہد کے نیچے بھی نہ آئیں جس کو توڑنے کی وجہ سے ہماری پکڑ ہو۔ بلکہ ہمیشہ ہمیں ان باتوں سے بچائے رکھ اور ہماری کسی غلطی کی وجہ سے، ہماری کسی بدعہدی کی وجہ سے، کسی چھوٹی سی بھول چوک کی وجہ سے ہم سزا نہ پائیں، ہمیشہ تیری مغفرت کا سلوک دیکھنے والے ہوں۔ ایک سچے احمدی کے لئے تو ایک چھوٹی سی سزا بھی روحانی لحاظ سے بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ ہر احمدی کا جماعت سے، خلافت سے ایک روحانی تعلق ہے، اس لئے کسی وجہ سے ذرا سی بھی سزادی جائے تو بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ مثلاً مَیں نے دیکھا ہے کہ صرف یہی پابندی لگا دی جائے کہ تمہاری فلاں غلطی کی وجہ سے تمہیں اجازت نہیں کہ خلیفہ وقت کو خط لکھو تو اس پر بھی لوگ بڑے بے چین ہو جاتے ہیں۔ ایک سچا احمدی جو ہے اس کی بے چینی سے عجیب کیفیت ہو رہی ہوتی ہے کہ مجھ پر یہ پابندی لگ گئی اور میں عجیب روحانی اذیت میں مبتلا ہوں۔ تو ہمیشہ ہر قسم کی غلطیوں سے اور پھر ان کے بدنتائج سے بچنے کے لئے دعا مانگنی چاہئے۔ پھر یہ بھی کہ ہماری طاقت سے بڑھ کر کسی قسم کی دنیوی تکلیف بھی نہ پہنچے، نہ روحانی نہ دنیوی۔ اور ہماری غلطیوں اور بھول چوک سے درگزر کرتے ہوئے اے اللہ ہمیشہ ہم سے عفو کا سلوک رکھنا اور ہمیں ہمارے غلط کاموں کی وجہ سے پکڑنے کی بجائے اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے اور آئندہ بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ یہی سلوک رکھ اور ہمیں ہماری ایسی غلطیوں سے بچائے رکھ اور رحم کرتے ہوئے ہم پر نظر کر اور اپنے وعدوں کے مطابق ہمیں اُن ترقیات سے نواز تا ر ہ جو جماعت کے لئے مقدرہیں۔ توُ ہمارا مولا ہے۔ آخر کو ہم تیری جماعت کہلانے والے ہیں، ہم ہر ایک کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ہی وہ واحد جماعت ہیں جو خداتعالیٰ کی جماعت ہے۔ جس نے خداتعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان لاتے ہوئے اور آپ کی بات پر عمل کرتے ہوئے اس زمانے کے مسیح اور مہدی کو مانا ہے۔ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تیرے مسیح موعود کی طرف منسوب ہونے والے ہیں۔ پس ہم پر نظر کرم کر اور اپنے وعدوں کے مطابق ہمیں ترقیات سے نوازتا رہ۔ عفو اور بخشش اور رحمت کا سلوک ہم سے کر۔ ہماری جماعتی کمزوریاں بھی دور فرما اور ہماری انفرادی کمزوریاں بھی دور کرتے ہوئے ہمیں مخالفین اور کافر قوم پر فتح عطا فرما اور ہماری غلطیوں کی وجہ سے یہ ترقیات رک نہ جائیں۔ اور پھر نتیجۃً ہم تیری پکڑ میں آئیں بلکہ اپنے دین کی ترقی کے نظارے ہمیں دکھا۔ اللہ تعالیٰ ہماری یہ دعا اور باقی دعائیں بھی قبول کرے اور ہم اس رمضان میں اپنی دعاؤں کی قبولیت دیکھتے ہوئے اس دور میں داخل ہوں جو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے حق میں ایک غیر معمولی انقلاب کا دور ہو۔ پس دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں میں لگ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
دعا زبانی بک بک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خداتعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے یہ مہینہ خاص بخشش اور قبولیت دعا کا مہینہ ہے
ان دنوں میں خاص طورپر ہر احمدی کو دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔
خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍اکتوبر2006ء (6؍ اخاء1385 ھش) بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔